اسکین دستیاب عثمان بطور

سید عاطف علی

لائبریرین
----------
صفحہ 121
----------
کسی اور شہر کا رخ کرتیں۔ اس قسم کے کاروان اور سے لدے ، روسی سرحد کی جانب تار باغتائی یا خلدزا کو جاتے دکھائی دیتے تارباغتائی کو چغوچک اور خلدزا کو ایلی بھی کہتے ہیں۔ بعض دفعہ مویشیوں کے گلے اور بھیڑوں کے بڑے ریوڑ بھی سست رفتاری سے اسی سمت جاتے نظر آتے کیونکہ جب دویت میں اشتراکیت کی تحریک نے زور پکڑا تو قازقوں کے ساتھ ان ک تمام جانور بھی وہاں سے نکل گئے۔ حکومت اب مشرقی ترکستان سے بڑی تعداد میں جانور خرید رہی تھی تاکہ وہ اس بغاوت کو فرو کر سکے جسے سویت حکومت نے ہوا دی تھی۔

اسمٰعیل حجی کے گھر میں تینوں سردار" سرخ ڈاڑھی والوں" کے مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے تھے، یہ سرخ ڈاڑھی والے ان چینی فوجوں کے بچے کھچے سپاہی تھے جنہیں جاپانیوں نے منچوریا سے نکال دیا تھا۔ یہ لوگ حال ہی میں مشرقی ترکستان میں ، سویت علاقے میں سے الطائی، خلدزا اور تارباغتائی ہوتے ہوئے در آئے تھے۔ علی بیگ اور حمزہ کو اب یقین آگیا ہے کہ سرخ ڈاڑھی ووالے کو خاص طور پر سویت حکام نے تربیت دے کر مشرقی ترکستان میں بھیجا تھا کیونکہ ان میں سے بعض پہاڑی لڑائیوں میں قازقوں سے بخوبی لڑ سکتے تھے اور بعض پروپیگنڈا کرنے میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ مگر واقعہ یہ تھا کہ جتنا پروپیگنڈے کا اثر ہوتا تھا اس سب پر ان سرخ ڈاڑھی والوں کے مظالم پانی پھیر دیتے تھے۔

ان سے قازقوں کی ٹکر فوراً ہی ہو گئی کیونکہ مشرقی ترکستان میں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
----------
صفحہ 122
----------
یہی لوگ لوگ ایسے تھے کہ کہ وار کا جواب وار سے دیتے تھے اور ایسے ہتھیار بھی رکھتے تھے جن سے وار کر سکیں۔ رفتہ رفتہ قازقوں کو اس کا احساس ہوا کہ سرخ ڈاڑھی والے اشتراکیوں کے ایجنٹ ہیںان سے قازقوں کو ایک تو اس وجہ سے نفرت ہونے لگی کہ یہ سویت کے کارکن تھے، دوسرے ان کے بے رحمانہ سلوک کی وجہ سے یونس حجی ان قازقوں میں سے ایک تھاجنہوں نے ان سی سیاسی اہمیت کو تاڑ لیا تھا مگر کئی سال تک انہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ سویت حکومت کے بھیجے ہوئے ہیں، وہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ لال ڈاڑھی والے چینی اشتراکیوں کے آوردے ہیں جن کی نمائندگی شنگ کرتا ہے۔ اتنے یہ حقیقت حال سے آگاہ ہوں، مشرقی ترکستان میں اشتراکیت اپنے پنجے جما چکی تھی۔

-------------------------
 

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -231


نواں باب


جنگِ پسپائی


حمزہ نے قائنیش سے ٹھیک ہی کہا تھا کہ خوب پیٹ بھر کر لڑنے کا موقع جلدی آنے والا ہے۔ ارمچی میں روسیوں نے اپنا جماؤ ابھی پورا سا بھی نہیں کیا تھا کہ چینی اشتراکیوں نے صوبے کے دوسرے حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ان حصوں کے علاوہ جن پر سویت یا منگولی قبضہ کر چکے تھے ان کے جوڑ توڑ چونکہ کامیاب ہو چکے تھے اس لیے قازقوں کی آبادیوں کے سوا باقی صوبہ بھی بغیر کسی لڑائی کے ان کے قبضہ میں آ گیا

جہاں جہاں لڑائی کی ضرورت پیش آئی یہ بات جلدی واضح ہو گئی کہ لال داڑھی والوں کی طرح ہشت راہ لشکر بھی پہاڑوں میں ناکام ہو رہا تھا۔ لہذا ہوائی اڈے پر اشتراکیوں کی آمد کی طرح اشتراکیوں کو ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ کارروائی کرنی پڑی، وہ اس طرح کہ ہشت راہ لشکر نے فصیل دار شہروں پر تاخت کی اور روسیوں نے خلدزا کے قازقوں سے جو فوجیں مرتب کی تھیں، انہوں نے کھلی بستیوں اور پہاڑی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -232


آبادیوں پر حملے کرنے شروع کئے۔ علی بیگ اور حمزہ کو معلوم نہیں تھا کہ تاؤ کی مصالحتی فوجوں کے ذمے کیا کام ڈالا گیا تھا اور ڈالا بھی گیا تھا یا نہیں۔ لیکن اغلب قیاس یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کو سکھا پڑھا کر لشکر میں شامل کر لیا گیا تھا اور ان میں جو لوگ مشتبہ نظر آئے انہیں ختم کر دیا گیا تھا۔

جو عینی شاہد اس وقت ارمچی میں موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ شہر بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہو گئے۔ صرف قازقوں ہی نے جم کر مقابلہ کیا۔ روسیوں کی مرتب کی ہوئی قازق فوجوں ہی سے آزاد قازقوں کو دبانے کا کام لیا جا رہا تھا۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہشت راہ لشکر اشتراکی تعلیمات کو عام کرنے میں مصروف تھا۔ اس سے قازقوں کی جنگی قابلیت کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ چینیوں کو اس کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا کہ پہاڑی لڑائیوں میں وہ چھلاوہ بنے ہوئے قازقوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اپنے وطن کی پہاڑی لڑائیوں میں بوکو بطور، یونس حجی، عثمان بطور چینی باقاعدہ فوجوں پر ہمیشہ فتحیاب ہوتے رہے تھے۔ صرف کھلے میدان میں نکل آنے پر یا مجبوراً نکال لائے جانے پر ہی قازقوں کو شکست ہوتی تھی۔

اشتراکی اسے گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ انہیں کسی محاذ پر پسپائی ہو۔ اس سے ان کے سیاسی اقتدار کو ناقابل تلافی نقصال پہنچنے کا اندیشہ رہتا تھا۔ یہ بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا کہ آزاد قازقوں کو فی الحال ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ اسے ضروری سمجھتے تھے کہ جلد از جلد قازقوں سے الجھ کر ان کا قصہ پاک کر دیں اور اس اثنا میں ہشت راہ لشکر اپنی سیاسی جد و جہد جاری رکھے۔ لہذا روسیوں نے آزاد قازقوں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام میں ان قازق فوجوں کو جھونک دیا جنہیں علی ہن طور کی مدد سے انہوں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -233


بھرتی کیا تھا۔ اور جب علی ہن طور سے وہ کام لے چکے تو روسیوں نے اسے ہٹا کر خود ان فوجیوں کو اپنے اختیار میں لے لیا تھا۔ ان فوجوں کے قازق کچھ تو سویت قازقستان سے آئے تھے اور باقی سنکیانگ کے خلدزا اور تارباغتائی صوبوں سے۔ ان فوجوں میں دس پندرہ ہزار اعلیٰ تربیت یافتہ عمدہ ہتھیار بند قازق تھے ۔ جو پہاڑی لڑائیوں میں مشاق تھے اور جدید اسلحہِ جنگ سے لیس۔ ان کے پاس بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک اور پہاڑی توپیں تھیں اور روسی ہوائی جہازوں کی خاصی تعداد بھی ان کی مدد کو موجود تھی۔

کیو کلوک کے قریب علی بیگ کی فوجوں پر ابتدائی حملے اکتوبر 1949ء کے آغاز میں شروع ہوئے۔ ارمچی میں ناگہانی انقلاب کے کوئی ایک مہینے بعد یہ سلسلے وار حملے چنیدہ فوجی دستے اس لیے کر رہے تھے کہ آزاد قازق کسی طرح پہاڑوں میں سے نکل کر کھلے علاقے میں آ جائیں۔ یہ لڑائیاں ستر دن تک مسلسل چلتی رہیں۔ حملے اور جوابی حملے بعجلت ہوتے رہے اور دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ آزاد قازقوں کو نہ تو اس کی توقع تھی اور نہ وہ اس صورتِ حال کے لیے کوئی تیاری ہی کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان کا سامانِ جنگ بہت کم رہ گیا۔ دشمن کی رسد پر حسب دستور چھاپے مار کر وہ کچھ اسلحہ لوت لاتے۔ ان چھاپوں میں وہ اکثر کامیاب ہوتے لیکن یہ کام اب اتنا آسان نہیں رہا تھا جتنا کہ شنگ کے زمانہ میں تھا۔

اس قسم کے چھاپوں کے علاوہ تمام لڑائیاں پہاڑوں ہی میں ہو رہی تھیں۔ یہاں بھی چھاپہ ماری ہی ہو رہی تھی لیکن دونوں جانب سے آپنے سامنے کی لڑائی سے بچنے کی کوشش کی جاتی تھی اور دونوں اس کوشش میں لگے رہتے کہ پہاڑوں پر ہم زیادہ اونچائی پر زیادہ تیزی سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -234


چڑھ جائیں تاکہ اوپر سے دشمن پر گولیاں برسا سکیں یا اگر گولیاں ختم ہو جائیں تو بڑے بڑے پتھر حریف پر لڑھکانے لگیں۔ لہذا دن پہ دن یہی ہوتا رہا کہ جانبین کے ہانپتے ہوئے گروہ دیوانہ وار پہاڑی بلندیوں کی جانب بھاگتے کہ موقع کی جگہ پہلے ان کے ہاتھ آ جائے یا پہاڑی کی چوٹی پر پہلے پہنچنے کے لیے گھوم کر دوسری طرف سے جلدی چڑھنا شروع کرتے تاکہ حریف کو علم نہ ہونے پائے اور یہ قلہِ کوہ پر اس سے پہلے جا پہنچیں۔

بعض دفعہ کوہ پیمائی کی یہ ہنرمندیاں بیکار ثابت ہوتیں اور دونوں حریم ایک گولی بھی چلائے بغیر نیچے اتر آتے۔ تئین شان کی زبردست چوٹیاں ان کے پیچھے کھڑی آسمان سے باتیں کرتی رہتیں۔ بعض دفعہ آزاد قازق اتنے اونچے چڑھ جاتے کہ سویت ہوائی جہاز جو انہیں نیچے وادیوں میں تلاش کرنے کی غرض سے اڑتے۔ آتے تو قازق اوپر سے ان پر گولیاں چلاتے۔ ایک دن ایسی شبھ گھڑی آئی کہ انہوں نے رائفل کی گولیاں چلا کر دو ہوائی جہاز مار گرائے۔ انہیں جو جہاز نظر آتے ان میں سے بیشتر دیکھ بھال کرنے والے جہاز ہوتے اور کچھ دنوں بعد آزاد قازق انہیں حقارت سے دیکھنے لگے اور جیسا کہ دشمن کی توپوں کے بارے میں کبھی ایک کماندار نے کہا تھا قازق بھی کہنے لگے تھے کہ ان سے گھوڑے اور دوسرے جانور ڈرائے جاتے ہیں۔

دونوں طرف سے چالیں تو ایک ہی طرح کی چلی جاتی تھیں لیکن ان کی لشکر کشی کا مقتضا مختلف تھا۔ اشتراکی چاہتے تھے کہ آزاد قازقوں کو پہاڑوں میں سے نکال باہر کریں اور قازق ان میں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر علی بیگ کا حکم یہ تھا کہ گولی اس طرح چلاؤ کہ دشمن ہلاک ہو جائے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -235


دشمن سوار ہو تو اس کا خیال رکھو کہ سوار مارا جائے گھوڑا نہیں۔ ہم چلتے پھرتے رہتے ہیں قیدیوں کا وبال ہم کہاں کہاں لیے پھریں گے لیکن دشمن کے ہتھیار، اس کا ساز و سامان اور اس کا گھوڑا یہ سب چیزیں کام کی ہیں، کیونکہ ہمارے پاس انہی تین چیزوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔

اس کے برعکس اشتراکی ہلاک کرنے کے لیے گولی نہیں چلاتے تھے کیونکہ انہیں قیدیوں کی ضرورت تھی۔ خصوصیت کے ساتھ وہ آزاد قازقوں کے سرداروں کو گرفتار کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بے سرداروں کے لوگ بے چرواہے بھیڑوں کی طرح ہوں گے ۔ پھر یا تو انہیں اطاعت قبول کرنا پڑے گی یا پھر اپنے پرانے مسکنوں کو لوٹ جائیں گے اور پہلے کی طرح زندگی بسر کرنے لگیں گے۔ اور یہ بھول جائیں گے کہ کبھی ان میں کوئی تبدیلی آئی بھی تھی یا نہیں۔ اس کے علاوہ اشتراکیوں کے لیے زندہ سردار کو قید میں رکھنا اس سے زیادہ مفید تھا کہ اسے میدانِ جنگ میں ہلاک کر دیا جائے۔ اس کی انہیں امید ہمیشہ رہتی تھی، اگرچہ اس سے انہیں حاصل وصول کبھی نہیں ہوا کہ گرفتار کیے ہوئے سردار کو بہلا پھسلا کر ، ترغیب دے کر یا جبر کر کے اشتراکیوں میں شامل کیا جا سکے گا۔ اگر وہ رضامند نہ بھی ہو تب بھی اس کی طرف سے بیانات دیے جاتے تھے کہ اس نے اشتراکیت کو قبول کر لیا ہے اور اس کی جانب سے اس کے ساتھیوں اور دوستوں کو مشورہ دیا جا سکتا تھا کہ وہ بھی اشتراکی بن جائیں۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ قیدی چاہے مرد ہو یا عورت، نہ صرف امکانی اطلاعات کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ یرغمال بھی کہ اس کے دباؤ میں اس کے رشتہ داروں کو اطاعت کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جب اشتراکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -236


کسی کو قیدی بناتے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ۔ کھانے کو اچھا دیتے اور رہنے کو اچھی جگہ دیتے۔ قیدی کی افادیت جیسے جیسے کم ہوتی جاتی اس کے آرام میں کمی آتی جاتی اگر قیدی عورت ہو یا مرد، رضامند نہ ہوتا تو ایسے سیاسی مخالفین سے جس قسم کا مقررہ سلوک کیا جاتا وہی اشتراکی اس کے ساتھ کرتے اور آخر میں جب اشتراکی اس نتیجے پر پہنچتے کہ سیاسی لحاظ سے قیدی ان کے لیے بے کار ہے تو فیصلہ کرتے کہ اسے قتل کر دیا جائے یا اسے قید بامشقت دی جائے اور نرمی اور بھلائی کے وہ تمام وعدے جو اس سے اس عرصے میں کیے جاتے سب فراموش کر دیے جاتے۔

قید ہو جانا یقیناً جنگ کے خطرات میں سے ایک خطرہ ہے اور قازق بھی اسے خطرہ ہی سمجھتے تھے لیکن انہیں یرغمال بنانے کی اشتراکی پالیسی اور قیدیوں کو یرغمال بطور استعمال کرنے پر قازق چراغ پا ہو گئے، بے شمار بار آزاد قازقوں کو تحریری پیغامات پہنچے یا انہوں نے دور سے آتی ہوئی آوازوں کو کہتے سنا کہ فلاں شخص کے بال بچے اشتراکیوں کے قبضے میں ہیں اور اگر اس شخص نے اپنے آپ کو ان کے حوالہ وقتِ مقررہ پر نہیں کیا تو پہلے اس کی بیوی کو قتل کر دیا جائے گا پھر ایک ایک ہفتہ کے وقفہ سے اس کے بچوں کو یکے بعد دیگرے قتل کر دیا جائے گا۔ لہذا (آواز یا تحریری پیغام بتاتا "اگر وہ شخص ان کی جان بچانا چاہتا ہے اور اپنے پیاروں کو موت سے بچانا چاہتا ہے تو اسے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔")

جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو ابتدا میں یہ دھمکی کچھ کارگر ثابت ہوئی لیکن کچھ ہی عرصے میں آزاد قازقوں کو معلوم ہو گیا کہ اپنے عزیزوں کو بچانے کے لیے جو شخص اپنے آپ کو اشتراکیوں کے حوالے کر دیتا ہے اس کے ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -237


شروع میں تو جنگی قیدیوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے لیکن جب اشتراکی اس سے اپنی مرضی کے مطابق معلومات حاصل کر لیتے یا کر چکتے تو اسے بھی مار ڈالتے اور اس کے عزیزوں کو بھی۔ اس انکشاف کے بعد قازقوں نے کسی کو امان نہیں دی اور "ہلاک کرنے کے لیے گولی چلاؤ" کا حکم ایک بھیانک حقیقت بن گیا۔ اس کے بعد کسی قازق نے از خود اپنے آپ کو اشتراکیوں کے حوالے نہیں کیا۔

اس پر بھی اشتراکیوں نے یرغمال بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور لڑائی شروع ہونے کے تھوڑے دنوں بعد ہی قازقوں کو معلوم ہو گیا کہ ان کے دشمن ان کے لڑنے والے آدمیوں پر حملے نہیں کر رہے بلکہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ انہیں ان کے بیوی بچوں اور ان کے ریوڑوں سے کسی طرح الگ کر دیں اگر اشتراکی اس چال میں کامیاب ہو جاتے تو لڑنے والے آدمیوں کو تو نظر انداز کر دیتے اور ان کے بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ انہیں بطور یرغمال اپنے ساتھ پکڑ لے جاتے اور ان لڑنے والوں کے ریوڑ (جو ان کی خوراک کے کام بھی آتے تھے) ہانک کر لے جاتے ۔ اس کی وجہ سے لڑائی کی صورت بدلنے لگی۔ اب بجائے اس کے کہ دو جنگجو گروہ آپس میں گتھ جاتے یا ایک دوسرے پر زیادہ بلندی سے حملہ کرتے۔ سویت ہوائی جہاز ان خانہ بدوشوں کے پڑاؤ تلاش کر لیتے اور آزاد قازقوں کو ان کے مسکنوں سے بھگا دیتے۔ اس فوجی چال میں اشتراکیوں کو پوری کامیابی نہیں ہوئی مگر قازق صرف بچاؤ کی لڑائی لڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو بچانے کے لیے وہ اپنی جگہ پر جمے رہتے ورنہ شنگ کے زمانے میں وہ دشمن کو اپنے پیچھے لگا لاتے اور پھر اسے گھیر کر اس کا صفایا کر دیتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -238


اشتراکیوں کی زمینی فوجیں اب قازقوں کو ہوائی جہازوں کی آنکھوں سے دیکھ لیتی تھیں اور ان کی پرانی چالوں میں نہیں آتی تھیں لیکن قازق عورتیں بھی گولیاں چلانی جانتی تھیں اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں بھی۔ اس لیے یہ اپنا بچاؤ خود کر لیتے تھے۔

نئی وضع کی لڑائی کا ایک بزدلانہ رخ یہ تھا کہ تمام پانی کے سرمایوں میں اشتراکی زہر ڈال دیتے تھے۔ اس مہم کے شروع کرتے ہی یا شاید اس کی تکمیل سے پہلے ہی اشتراکیوں نےتمام جانے پہچانے کنوؤں، چشموں اور تالابوں کی ایک فہرست بنائی اور پھر ایک ایک کر کے سب پر پہرے بٹھا دیے۔ جب اس کام کے لیے ان کے پاس آدمی نہیں رہے تو انہوں نے پانی میں زہر ڈالنا شروع کر دیا تاکہ خانہ بدوشوں اور ان کے جانوروں کو پانی نہ ملے۔

قازقوں کے نزدیک پانی میں زہر ڈالنا خدا کا بھی گناہ ہے اور انسان اور جانور کا بھی۔ قازق جب کنویں پر سیر ہو کر پانی پی لیتا ہے تو ایک ڈول پانی کھینچ کر اور رکھ دیتا ہے تاکہ جو بھی اس کے بعد کنوئیں پر آئے ، چاہے دشمن ہو یا دوست اس کے کام یہ پانی آ جائے۔ وہ پانی کو عطیہِ خداوندی سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ جو شخص کسی پیاسے کو خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو، پیاس بجھانے سے باز رکھتا ہے وہ خدا کو ناراض کرتا ہے۔ اشتراکیوں نے پانی میں زہر ڈال کر دوست دشمن، انسان حیوان سب کو پانی سے محروم کر دیا۔ ان کی اس بے رحمی پر آزاد قازقوں میں آنے والے آفات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بڑھا دی۔ اب انہیں اس میں بالکل شبہ نہیں رہا تھا کہ دشمن ذریات شیطان میں سے ہے اور اہلِ ایمان کے آگے شیطان زیادہ عرصے تک ٹھہر نہیں سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -239


سخت لڑائیوں کو جھیلنے اور پہاڑوں سے اچھی طرح واقف ہونے کی وجہ سے علی بیگ کی فوجیں کیو کلوک کے قرب و جوار میں ڈھائی مہینے تک خاصی بڑی جھڑپوں کے باوجود بڑی تباہ کار لڑائی سے بچتی رہیں لیکن اب دسمبر 1949ء آ پہنچا تھا اور دشمن سے بھی زیادہ شدید موسم سرما آ پہنچا تھا۔ اس نے قازقوں کو سطح مرتفع سے نکال باہر کیا۔ جس پر گہری برف پڑی چکی تھی۔ نچلے ڈھلانوں پر قازق غیر محفوظ تھے ان کے خلاف بکتر بند گاڑیاں استعمال کی جا سکتی تھیں۔ اور اشتراکیوں نے کل آبی ذرائع یا تو روک رکھے تھے یا ان میں زہر ڈال دیا تھا۔ اپنے جانوروں کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے قازق اب مجبور تھے کہ ان آبی مقامات پر حملہ کریں جن پر پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے چند پر قبضہ کرنے میں قازق کامیاب ہو گئے۔ لیکن ان معرکوں میں ان کا اتنا سامان حرب ختم ہو گیا اور اتنے آدمی مارے گئے کہ وہ اس نقصان کو گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ دراصل اب وہ وقت آ پہنچا تھا کہ قازق یا تو شکست قبول کر لیں یا تئین شان کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔

شکست قبول کرنے کا خیال انہیں کبھی آیا ہی نہیں تھا لیکن انہوں نے دوسری صورت پر سنجیدگی سے غور کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انہوں نے اس پر غور کیا کہ اس پر عمل کب کیا جائے کیونکہ آپ کو یاد ہو گا کہ جب کارا شہر کے وانگ کو وہ اپنا حلیف بنانے پر گفت و شنید کر رہے تھے تو انہوں نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ اگر انہیں یہاں سے جانا پڑا تو کہاں جائیں گے۔ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ حسب قرارداد وانگ کو ان کے ساتھ اشتراکیوں سے لڑنے میں شریک ہو جانا چاہیے تھا لیکن کارا شہر پر اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -240


وقت ہشت راہ لشکر پنجے جمائے بیٹھا تھا اور وانگ اپنا وعدہ پورا کرنے سے قاصر تھا۔

اس لیے بادل نخواستہ جانبِ جنوب غزکل جانے کی تیاریاں شروع کیں، وہ نہ تو مناس جا سکتے تھے اور نہ اپنے دل پسند مقام قزل ازدن، کیونکہ برف نے راستہ بند کر رکھا تھا اور اگر وہاں جانا بھی چاہتے تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جس راہ سے وہ غزکل جانا چاہتے تھے وہ کارا شہر اور طرفان کی درمیانی شاہراہ پر سے ہو کر جاتی تھی اور یہ دونوں بستیاں اس وقت ہشت راہ لشکر کے قبضے میں تھیں۔

آخر میں یہ ہوا کہ قازق چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئے اور جس راستے سے ان کے سرداروں نے مناسب سمجھا اپنا سفر شروع کر دیا ۔ اس میں یہ مصلحت تھی کہ مختصر ہونے کی وجہ سے ان پر کسی کی نظر نہیں پڑے گی اور یہ ٹولیاں بے روک ٹوک نکل جائیں گی۔ یہ بتانا کہ ان میں سے کتنی ٹولیاں کامیاب ہوئیں اور کتنی ناکام رہیں محض قیاس پر مبنی ہو گا۔ بس صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں بعض ٹولیاں بالکل صحیح سلامت منزل مقصود پر پہنچ گئیں۔ بعض بالکل ہی نہیں نکل سکیں۔ بعض نے بہت نقصانات اٹھے لیکن ہمت کر کے پہنچ ہی گئے۔

علی بیگ کے ساتھ کوئی چار سو آدمی تھے۔ اتنی بڑی تعداد چونکہ کسی جانی پہچانی راہ سے نظروں پر چڑھے بغیر نہیں گزر سکتی تھی اس لیے بوکو بطور کی پیروی کرتے ہوئے علی بیگ نے کوہ تشنہ کے بھیانک راستے پر سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان پہاڑوں میں اوسطاً سالانہ بارش صرف 12 انچ ہوتی ہے اور انسانوں اور حیوانوں کے لیے نہ تو کھانا ہوتا ہے اور نہ پانی۔ اطلاع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -241


یہ تھی کہ کوہ تشنہ تک راستہ صاف ہے اور کوہ تشنہ کی راہ کی ناکہ بندی دشمن نے نہیں کر رکھی تھی۔ غالباً اشتراکیوں نے اسے ایک مسلمہ حقیقت سمجھ لیا تھا کہ جو کوئی اس راہ کو عبور کرنے کی کوشش کرے گا وہ زندہ نہیں نکل سکے گا۔ لیکن علی بیگ یہ جانتا تھا کہ اشتراکی خاص طور پر اس کی تاک میں لگے ہوئے تھے۔ اس لیے اسے یقین تھا کہ سب سے خطرناک دکھائے دینے والا راستہ ہی اس کے لیے سب سے محفوظ راستہ ہو سکتا ہے ۔ باقی اور بھی اپنے مرضی سے اس کے ساتھ ہو لیے۔

انہوں نے 21 دسمبر 1949ء کو اپنا سفر شروع کیا۔ اللہ کا بڑا کرم تھا کہ جاڑے کا زمانہ تھا اور سورج اپنی پوری قوت سے نہیں چمک رہا تھا۔ لیکن جنوب مشرق کی طرف جیسے جیسے وہ بڑھتے گئے دن بہ دن مردوں ، عورتوں اور بالخصوص بچوں کی پیاس بڑھتی گئی اور جانور بھی پیاس سے بے تاب ہوتے گئے کیونکہ چھ دن سے انہیں پانی نہیں ملا تھا اور ان کے پیروں کے نیچے نمک ہی نمک بچھا ہوا تھا۔ نمک نے گھوڑوں کے سموں کو گلا دیا اور ان کے نعل نکل گئے اور اونٹوں کے پاؤں اس بری طرح زخمی ہو گئے کہ ان میں سے خون ٹپکنے لگا۔ قازقوں نے گھوڑے کی کھال کی گدیاں بنا کر ان کے پیروں پر سی دیں، نمک کی چمک اور سرد نمکین ہوا سے مردوں اور عورتوں کو آشوب چشم ہو گیا۔ بچوں کی آنکھیں سرخ ہو کر سوج گئیں۔ اور جانوروں کی آنکھیں بھی دکھنے آ گئیں۔ انہوں نے منہ پر کپڑے لپیٹ رکھے تھے لیکن پھر بھی ہونٹ پھٹ گئے اور خون دینے لگے۔ اور پھر چاروں طرف کہر سی کہر پھیل گئی اور انہیں راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو گیا۔ مرنے والوں میں علی بیگ کا سب سے بڑا بھائی عطّل بیگ مّلا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کیسے بچھڑ گیا۔ انہوں نے اسے بہت تلاش کیا اور اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔

قازق اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا ذکر کبھی تفصیل سے نہیں کرتے۔ اس لیے جو کھیکھڑ انہوں نے اس موقع پر اتھائی اس کا ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے انگریزی میں لکھا ہوا قائنیش کا ایک خط ہے۔ ہم نے اس سے کوہِ تشنہ کے سفر کی پوری تفصیلات لکھنے کی فرمائش کی تھی، جواب میں وہ لکھتا ہے:

"اس سفر میں ہمیں سب سے زیادہ تکلیف بے آبی سے پہنچی۔ ہم نے پانی کے بدلے مردوں اور عورتوں کا پیشاب استعمال کیا۔ جانوروں کا خون پیا۔ بے آبی کے باعث ہمارے جانور بہت مرے صرف اونٹ اسے جھیل گئے۔ "

اتنا لکھ کر اس نے موضوع بدل دیا۔

کوہِ تشنہ کو عبور کر لینے کے بعد یہ قافلہ کچھ عرصے بعد نیگ پان یعنی خالی شہر پہنچا۔ یہاں انہوں نے کچھ دم لیا۔ اس شہر کو 1736ء میں چینی شہنشاہ چی این لنگ نے بطور فوجی ناکہ آباد کیا تھا۔ اس کے بسانے کے کچھ ہی عرصے بعد سنکیانگ کا نیا صوبہ چینی حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن علی بیگ یہاں پہنچا تو وہ مدت سے ویران پڑا تھا۔ شاید سو سال سے لیکن اس کے مٹی کے گھر ویسی ہی اچھی حالت میں تھے جیسے دو سو سال پہلے بننے کے وقت تھے۔ نیگ پان کے قریب ایک دریا بہتا ہے، اس کی وجہ سے یہ اجاڑ جگہ ان تھکے ماندے لوگوں کے لیے بڑے آرام کی جگہ بن گئی تھی، جو لڑ بھڑ کر اور کوہِ تشنہ کی صعوبتیں جھیل کر یہاں پہنچے تھے۔ اور چونکہ یہ شہر آباد شہروں سے میلوں دور ہے اس لیے کسی اچانک حملے کا بھی اندیشہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -243


نہیں تھا۔

علی بیگ اور اس کے ساتھی نیگ پان میں اپنی تھکن اتار رہے تھے اور آگے سفر کرنے کے لیے قوت مہیا کر رہے تھے کہ پہرہ داروں نے آ کر اطلاع دی کہ ایک قازق بنام امین طہٰ مّلا آیا ہے اور علی بیگ سے تنہائی میں گفتگو کرنی چاہتا ہے۔ امین طہٰ مّلا علی بیگ سے بڑی گرمجوشی سے ملا۔ اور جب چائے اور نمکین نان کی تواضع سے فارغ ہو لیا تو اس نے تفصیل سے بتایا کہ اشتراکیوں نے اسے بھیجا ہے، اس پیشکش کے ساتھ کہ اگر علی بیگ ان سے آ ملے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا اور اسے کوئی معزز عہدہ دیا جائے گا۔

اور آخر میں امین طہٰ مّلا نے کہا۔ "اور یقیناً یہ پیش کش ایسی نہیں ہے کہ اسے رد کر دیا جائے۔ کیا موت سے زندگی بہتر نہیں؟"

ہم نہیں جانتے کہ علی بیگ کو وہ جواب یاد تھا یا نہیں جو قائن سری نے ڈیڑھ سو سال پہلے روسیوں کے اس قاصد کو دیا تھا جو اطاعت قبول کر لینے کا پیغام لے کر اس کے پاس آیا تھا۔ "برے مقصد کے لیے جو شخص جال لگاتا ہے وہ اپنی مردانگی کو جال میں چھوڑ جاتا ہے۔" لیکن علی بیگ نے امین طہٰ مّلا کو اس قسم کی کوئی تہدید نہیں کی ، بلکہ شنگ کے زمانے میں اشتراکیوں نے قازقوں پر جو مظالم کیے تھے، ایک ایک کر کے اسے یاد دلائے۔ اشتراکی آقاؤں یعنی روسیوں نے علی ہن طور کے ساتھ جو فریب کیا، ارمچی میں ہشت راہ لشکر کے ہراول نے پہنچ کر بے گناہ لوگوں پر جو ظلم توڑے، ان کے جنگ کرنے کے نفرت انگیز ڈھنگ اور کنوؤں میں زہر ڈال کر خدا اور انسان اور جانوروں کے ساتھ بدی کرنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -244


آخر علی بیگ نے کہا۔

"اگر کوئی کافر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی قسم کھائے تو کیا اس پر اعتبار کر لیا جائے۔ جب تک میں موجود ہوں اور میرا خدا موجود ہے، ذاتی اعزاز کے لیے قاتلوں اور ڈاکوؤں کے ہاتھ اپنی روح ہر گز نہیں بیچوں گا۔ تم واپس جا کر ان سے اپنی جان بچانے کے لیے جو چاہو کہو۔ ہم اگرچہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، خانہ بدوش ہیں، اپنے گھروں سے نکال دیے گئے ہیں اور ان بے آب و گیاہ پہاڑوں میں کسی نہ کسی طرح اپنی جانیں بچا لائے ہیں، لیکن جب تک میری جان میں جان ہے ، میں شکست ہر گز قبول نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں ان کے آگے کوئی سر جھکائے گا۔"

امین طہٰ مّلا بیٹھا آہستہ آہستہ اپنا سر ہلاتا رہا۔ منہ سے کچھ نہ بولا اور جب خاصی دیر تک خاموشی رہی تو علی بیگ نے کہا:

"اگر تم قبول کرو تو آج کی رات ہمارے ہاں مہمان رہو اور کل یہاں سے ہنسی خوشی رخصت ہونا۔"

امین طہٰ بولا:

"عزت اور آزادی خدا کی رحمت سے حاصل ہوتی ہے۔ جہاں بھی تم کل جاؤ گے میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ میں ان اشتراکیوں کی طرف ہو کر کس لیے خدا سے لڑوں۔ اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ میرے ناکام واپس جانے پر وہ مجھے قتل ہی کر ڈالیں۔"

اسی رات کو ایک گوئندے نے خبر دی کہ اشتراکیوں کا ایک دستہ علی بیگ کے قافلے کی راہ روکنے کے لیے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ اگلے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -245


دن علی الصباح علی بیگ اور اس کے ساتھی اور امین طہٰ مّلا دوبارہ جنوب کی جانب روانہ ہو گئے۔ حالانکہ انسان اور باقی ماندہ حیوان بہت ہی تھکے ہوئے تھے۔ جانوروں کو یہاں پانی تو مل گیا تھا لیکن چارہ یہاں بھی نہیں ملا تھا اس لیے وہ اس قدر بے دم ہو گئے تھے کہ ان میں باربرداری کی سکت نہیں رہی تھی۔ ذرا بھی کسی جانور پر زیادہ بوجھ رکھ دیا جاتا تو وہ گر پڑتا۔ سب سے بری حالت گھوڑوں کی تھی جنہوں نے مجبوراً نمک زدہ پتے کھا لیے تھے۔ ان کی زبانیں سوج کر کالی پڑ گئیں اور بہت سے مر گئے باقی گھوڑوں کو اس طرح بچا لیا گیا کہ ان کی زبانوں میں سوئیاں چبھوئی گئیں۔ اس عمل سے کالا کالا خون نکل جاتا اور دم توڑتا گھوڑا فوراً ہی سانوٹا ہو جاتا اور بوجھ لاد کر چلنے کے قابل ہو جاتا لیکن سوار کا بوجھ وہ اب بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ لہذا سوار کو گھوڑے کے ساتھ ساتھ خود بوجھ اٹھا کر گھسٹنا پڑتا۔ عورتیں بچوں کو بھی گود پیٹھ پر لیتیں اور سامان بھی اٹھاتیں۔ تاکہ جو کچھ اثاثہ باقی رہ گیا تھا وہ یہاں ضائع نہ ہونے پائے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کہر اب بھی چھائی ہوئی تھی۔ اور راستہ سوجھتا نہ تھا۔ علی بیگ کا قافلہ اسی طرح بھٹکتا چلا جا رہا تھا، آخر مجبور ہو کر انہیں دریائے طارم کو عبور کرنا پڑا تاکہ سیدھے راستے پر پھر پڑ جائیں۔

جب علی بیگ اس پر سے گزرا تو دریا پر برف کی تہ جمی ہوئی تھی لیکن یہ تہ موٹی نہیں تھی اور قافلہ دریا کی دو نہروں کے درمیان ایک جزیرے پر پہنچا تو انہیں معلوم ہوا کہ جزیرے اور کنارے کے درمیان خاسا لمبا فاصلہ سطح آب کا تھا ۔ جزیرے پر کوئی درخت نہیں تھا صرف لمبی لمبی گھاس تھی۔

علی بیگ نے اپنے ساتھیوں سے گھاس کے گٹھے جمع کرنے کو کہا تاکہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -246


اسے بت کر اور باندھ کر ایک مضبوط رسا تیار کریں۔ گھاس کو زمین پر پھیلا کر بت لینے کے بعد اسے باندھنے کا کام نہایت احتیاط سے کرنے کا تھا کیونکہ اسی رسے کو پکڑ کر سب کو اس پار پہنچنا تھا۔ اگر رسا کمزور رہا اور بیچ میں وزن نہ سہار سکا تو عبور کرنے والوں کے ڈوب جانے کا اندیشہ تھا۔

رسا بڑی تیزی سے لمبا ہوتا گیا اور اتنا لمبا تیار ہو گیا کہ کنارے تک پہنچ جائے۔

رسا بٹنے والوں سے علی بیگ نے پوچھا۔ "کیا خیال ہے تمہارا رسا اس پار پہنچ جائے گا؟"

انہوں نے کہا۔ "رسا تو ادھر پہنچ جائے گا مگر وہ تیراک کہاں ہے جو اس کے ایک سرے کو وہاں تک پہنچا دے؟ فاصلہ اگرچہ زیادہ نہیں ہے لیکن پانی بالکل یخ ہے۔"

ان میں سے ایک نے جواب دیا۔ "ہو سکتا ہے کہ کنارے تک پہنچنے سے پہلے زمین پر پاؤں ٹک جائیں۔ پھر تیرنا نہیں پڑے گا۔ چل کر ادھر پہنچ جائے گا۔"

علی بیگ نے کہا۔ "یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے لیکن لمبے اور مضبوط رسے کا مہیا کرنا ہمارے ذمے تھا۔ یہ مشکل ہم آسان کر چکے ہیں اب فوراً ایک تیراک تلاش کرو جو دن کی روشنی ہی میں اس مہم کو سر کر لے۔"

کنارے پر جہاں پانی اتھلا ہو گیا تھا نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی بھاری پتھر تھا جس سے تیراک رسے کا سرا باندھ دیتا۔ اس لیے جب وہ کنارے پر پہنچ گیا تو اس نے اپنے جسم سے رسے کو خوب لپیٹ لیا اور رسے کو کھینچ کر اور پیچھے کو جھٹک کر تان دیا تاکہ دوسرا آدمی رسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -247


کو پکڑ کر پانی میں ڈوبتا ابھرتا چلا آئے۔ اب دونوں سرے دو دو قوی آدمیوں نے پکڑ رکھے تھے اور علی بیگ نے اندازہ کر لیا کہ باقی لوگ اسی کے سہارے دوسری طرف پہنچ سکتے ہیں۔ چاہے کسی کو تیرنا آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ ایک ایک کر کے کل مرد عورتوں اور ذرا بڑے بچوں نے اپنے اپنے کپڑے اتار ڈالے اور ان کے پلندے اپنی کمر سے باندھ لیے پھر تنے ہوئے رسے کے سہارے پانی میں اترنے شروع ہو گئے۔ لیکن کھنچے رہنے پر بھی پانی کے بیچ میں رسا جھول کر پانی میں ڈوب رہا تھا۔ جب عبور کرنے والے یہاں پہنچتے تو جن کے سینوں سے بچے اور کمر سے پلندے بندھے تھے، خاصی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے۔ انہیں اپنا سر اور بچوں کو پانی سے پانی سے اونچا رکھنا پڑتا تھا تاکہ سانس لے سکیں۔ تاہم آہستہ آہستہ ہانپتے کانپتے اللہ کی مہربانی سے سب کے سب بخیریت پار اتر گئے۔

اس کے بعد جانوروں کو پار کرانے کی مہم تھی تھی۔ کوہ تشنہ میں بہت کچھ ضائع ہو جانے پر بھی بھیڑوں، بکریوں، اونٹوں، مویشیوں اور گھوڑوں کی خاصی تعداد باقی تھی۔ اب علی بیگ ہی کی زبانی اس کہانی کا بقیہ حصہ سنیے۔

"ہم نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جس کا گھوڑا بہت جاندار تھا۔ اپنے کپڑے اتار کر وہ اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو گیا اور اپنے پیچھے ایک اور گھوڑا لے کر پانی میں اتر گیا۔ دوسرے جانوروں نے کوتل گھوڑے کو بغیر کسی سوار کے پانی میں جاتے دیکھا تو بے ہنکارے آپ ہی آپ اس کے پیچھے ہو لیے۔ جب یہ جانور پانی میں پہنچ گئے تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ تیر بھی سکیں گے یا نہیں۔ لیکن یہ سب خوب تیرے اور اس عبوری میں ایک جانور بھی ضائع نہیں ہوا۔ اور جو سامان ان جانوروں پر لدا ہوا تھا وہ بھی پورا صحیح سلامت آ گیا۔ جن جانوروں پر بوجھ کچھ زیادہ تھا ان پر ہم نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -248


بھیڑوں کے مثانوں کے پھکنے بنا کر باندھ دیے تھے تاکہ یہ انہیں پانی میں ابھارے رہیں۔"

یوں علی بیگ کی وہ بڑی سی دیگ بھی پار ہو گئی جو کئی من کی تھی اور بعد میں علی بیگ اور ان کے خاندان کے کام آتی رہی۔

علی بیگ کا کہنا ہے کہ اس نے طارم کو جہاں سے عبور کیا وہ مقام لاوانگ سے دور نہیں تھا، جو تکلا مکان کے اور بہت سے ویران شہروں کی طرح ویران پڑا ہے۔ لاوانگ خالی شہر ینگ پان کے ویرانے کی طرح نہیں ہے جہاں کوہ تشنہ سے نکل آنے کے بعد علی بیگ کا قافلہ اترا تھا۔ لاوانگ میں ڈہی ہوئی دیواروں اور حسرت ناک مٹی کے ڈھیروں کے سوا اسے اور کچھ نہیں دکھائی دیا۔ لیکن پرانے درختوں کے موٹے موٹے تنے آسمان کی طرف اپنی ننگی ڈالیاں اٹھائے کھڑے تھے۔ اس سے یہ سن کر تعجب ہوا کہ لاوانگ کبھی اس وجہ سے خالی کرنا پڑا تھا کہ ایک دفع طارم میں اس زور کی طغیانی آئی کہ یہ شہر اس میں ڈوب گیا۔ اس کے بعد دریا نے اپنا راستہ بدل دیا اور شہر بے آب ہو گیا۔ تکلا مکان میں جتنے بھی ویران شہر اب تک دریافت ہوئے ہیں سب کے سب بے آبی کی وجہ سے ویران ہوئے۔

اپنے دوران سفر میں ایک دفعہ وہ لوپ بستی کے نزدیک سے گزرے۔ یہ وہی بستی تھی جس کے نام پر جھیل لوپ نور رکھا گیا اور جس کے بارے میں سالہا سال پہلے سیون ہیڈن نے کہا ہے کہ یہ "گشتی" جھیل ہے کیونکہ چند صدیوں بعد اس جھیل کا مقام بدل جاتا ہے ۔ طارم کا پانی اس میں آتا ہے اور طارم اپنی پرانی راہگزر سے اکتا جاتا ہے تو اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -249


جھیل کو اپنی تہ کی ریت سے بھر دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق زمین کاٹ کر ایک اور نئی جھیل بنا لیتا ہے۔ لہذا پرانی راہگزر کے کنارے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں اور جو کھیتی باڑی ہوتی ہے وہ سب بے آبی کی وجہ سے فنا ہو جاتی ہے۔ قازق لوپ کی بستی سے جلدی سے کاواکاٹ کر آگے نکل گئے۔ کیونکہ پیش بینوں نے آ کر خبر دی تھی اشتراکی اس پر قابض ہو چکے ہیں۔ جھیل سے بچنا بھی ضروری تھا کہ اس کا پانی اتنا کھاری تھا کہ پیا نہیں جا سکتا تھا اور اس کے کنارے اس قدر دلدلی ہیں کہ انسان یا حیوان ادھر چلا جائے تو آدھا اس میں دھنس جائے اور کسی اور ہی کے کھینچے سے اس میں سے باہر نکل سکتا ہے۔

لوپ سے آگے بڑھنے کے بعد زمین رفتہ رفتہ اونچی ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ الطائی پہاڑوں کے قریب پہنچ گئے۔ یہ پاڑ تبت کے کیون لون پہاڑوں کا شمالی بازو ہیں لیکن انہوں نے خوشی خوشی ان پہاڑوں پر چڑھنا شروع کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ صحرائے تکلا مکان کا سفر ختم پر آ رہا ہے اور ہم حسین تجی کے گھر جلدی ہی پہنچنے والے ہیں۔ حسین تجی اپنے ریوڑوں کو غزکل کے قریب چرایا کرتا تھا۔ وہی جھیل جو لمبی سیدھی اور تنگ ہے اور سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلندی پر ہے۔

حسین تجی نے ان کا نہایت پرتپاک خیر مقدم کیا اور قازقوں کے دستور کے مطابق زبان ہی سے نہیں دل سے بھی کہا کہ میں تمہارا میزبان ہوں اور تم سب میرے مہمان ہو۔ اس لیے میری کل ملکیت ، میرے اونٹ، مویشی، گھوڑے اور بھیڑیں سب تمہارے لیے حاضر ہیں ، جس طرح چاہو اپنی ضروریات پوری کرو۔ کیونکہ قازقوں میں یہ رواج ہے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -250


اگر کوئی غریب ہو تو وہ اپنا خیمہ کسی رئیس کے خیمے کے قریب لگا لے اور دولتمند شخص مثال کے طور پر چالیس بھیڑیں اس کے حوالے کر دے گا۔ اور سال کے ختم ہونے پر جب ان چالیس کے ہاں بچے ہو چکیں گے تو غریب آدمی اپنے محسن کو اسی بھیڑیں لوٹا دے گا اور جو باقی رہ جائیں گی انہیں اپنے پاس رکھ لے گا۔ علی بیگ اپنے اونٹوں پر دیگ بھی لاد کر لایا تھا اور اپنا روپیہ پیسہ بھی۔ اس لیے حسین تجی اور اس کے دوست سلطان شریف سے اس نے بھیڑیں خرید لیں۔ اسی طرح حمزہ، قائنیش اور امین طہٰ مّلا نے دام دے کر جانور خرید لیے۔ لیکن جن کے پاس نقدی نہیں تھی انہیں بغیر کچھ لیے جانور دے دیے گئے۔ جاڑا ختم پر تھا اور موسم بہار شروع ہونے والا تھا اور یہ سہانا موسم اپنے ساتھ جانوروں کے بچوں کا اعجاز بھی لا رہا تھا۔ دو مہینے یا شاید تین مہینے میں کیوکلوک کی لڑائی سے جو لوگ کوڑی کوڑی کو محتاج آئے تھے ان کے پاس اب اپنے جانور ہو گئے تھے اور حسین تجی بھی پہلے سے کچھ کم امیر نہیں رہا تھا۔ لیکن اگر یہ لوگ نہ آ جاتے تو شاید وہ زیادہ امیر ہوتا لیکن مرضی مولیٰ کی تو یوں ہی تھی!

لیکن جب بہار کے دن قریب آنے لگے تو علی بیگ اور دوسرے نووارد کچھ بے چین ہونے لگے۔ انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ عرصہِ دراز تک ایک امن کی دنیا میں رہتے رہتے اور قازقوں کے طرز زندگی کے خلاف اشتراکیوں کے تظلم سے ناواقفیت کی بنا پر حسین تجی ان خطرات کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے تھا جو انہیں گھیرے ہوئے تھے۔ ان کے اندیشوں کی تصدیق اس وقت ہوئی جب تنگ ہوانگ سے واپس آنے پر حسین تجی کے دو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -251


آدمیوں نے وہاں کی روئیداد سنائی۔ تنگ ہوا میں منڈی تھی اور اسی شہر کے قریب ہزار بدھوں کے مشہور بت گلتی ہوئی سیدھی چٹان کے غاروں میں آہستہ آہستہ برباد ہو رہے تھے۔ ان دونوں آدمیوں نے بتایا کہ اشتراکی تنگ ہوانگ میں ابھی ابھی آئے تھے اور جب انہیں معلوم ہوا کہ غزکل کے دو قازق شہر میں آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے ہمیں بلا بھیجا اور بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی حکومت سے قازقوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں کھلانے پلانے کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے خیموں میں واپس بھیج دیا۔ اور ہمیں ایک دعوت نامہ دے کر کہا کہ یہ اپنے سردار کو دے دینا اور ان سے کہنا کہ اپنے نمائندے بھیجیں، جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی اچھا ۔ تاکہ کنسو کے دارالحکومت لان چاؤ میں "عوامی نمائندوں" کے اجتماع میں شریک ہوں۔ اس اجتماع میں شمال مغربی چین کے سب حصوں سے نمائندے آ رہے ہیں۔ دونوں آدمیوں نے کہا اشتراکیوں نے ہم سے کہا ہے کہ تنگ ہوانگ میں تمام قازق بالکل محفوظ رہیں گے بشرطیکہ وہ امتیازی نشان لگائے رہیں ۔ یہ کہہ کر انہوں نے وہ امتیازی نشان دکھائے جو اشتراکیوں نے ان کو دیے تھے اور اسن کے دوستوں کے لیے بھی دیے تھے۔

علی بیگ نے ان امتیازی نشانوں کو دیکھا ان پر اشتراکی لیڈر ماوزی تنگ کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ فوراً حسین تجی کے پاس گیا اور اسے آگاہ کیا کہ امتیازی نشانوں میں کوئی فریب ہے اگر عوامی نماندوں کے اجتماع میں کوئی لانچاؤ گیا تو وہ کبھی واپس نہ آئے گا۔ یا اگر واپس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -252


آئے گا تو اپنے ساتھ اشتراکی فوجیں بھی لائے گا جو قازقوں کے کل جانور ضبط کر کے لے جائیں گی۔ اس نے حسین تجی کو ان تین ہزار نمائندوں کی کیفیت سنائی جنہیں شنک کے زمانے میں ارمچی بلایا گیا تھا اور پھر انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے اپنے آدمیوں کو چٹھیاں لکھو کہ اپنے کل ہتھیار حکومت کے حوالے کر دیں اور جب ہتھیار نہیں آئے تو نمائندوں سے اٹھارہ لیڈروں کو جن میں یونس حجی بھی تھا گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں انہیں قتل کر دیا گیا۔

حسین تجی کو دس سال سے سیاسیات کی کوئی خبر نہیں تھی۔ علی بیگ کی باتیں سن کر اسے پوری طرح یقین نہیں آیا لیکن اس پر ضامند ہو گیا کہ اپنے بڑے بوڑھوں کو جمع کر کے ان امور پر سوچ بچار کرے۔ ان میں سے بعض بزرگوں نے حسین تجی کی طرفداری کی اور بعض نے علی بیگ کی اور آخر میں یہ فیصلہ کای گیا کہ معلومات حاصل کرنے کے لیے چالیس گھڑ سواروں کو تنگ ہوانگ بھیجا جائے اور واپس آ کر وہ مفصل روداد پیش کریں۔

ان چالیس سواروں کے روانہ ہونے کےبعد علی بیگ نے حمزہ اور قائنیش سے کہا کہ غزکل اور تنگ ہوانگ کے درمیانی پہاڑی راستوں پر خفیہ پہرے بٹھا دیں اور بے اجازت کسی کو دروں میں سے آنے جانے نہ دیں۔ چند روز بعد ایک قاصد چوکیوں پر پہنچا اور بولا میں تنگ ہوانگ سے آیا ہوں۔ چالیس سرداروں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں حسین تجی سے کہہ دوں ۔ اس کے آدمیوں کا خیر مقدم اچھا کیا گیا ہے اور اشتراکویں کے سردار نے یہ کہہ کر ان کی تعریف کی ہے کہ قازقوں نے اب انقلاب کو کچھ کچھ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد قاصد نے کہا۔ "ان چالیس کو لاریاں دی گئی ہیں تاکہ انہیں اور دوسرے نمائندوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -253


کو عوامی نمائندوں کے اجتماع میں شریک ہونے کے لیے لانچاؤ لے جائیں۔ فاصلہ چونکہ کوئی پانچ سو میل کا ہے اس لیے اتنا لمبا سفر گھوڑوں پر سوار ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ میں غزکل کے آس پاس کے قازقوں کو آگاہ کر د دوں کہ تنگ ہوانگ میں کسی کو اس وقت تک داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ماوزی تنگ کی تصویر والا نشان اس کے نہ لگا ہوا ہو۔ اور ہتھیار لے کر کوئی اس وقت تک داخل نہیں ہو سکے گا جب تک اس کے پاس اشتراکی کماندار کا اجازت نامہ خاص نہ ہو۔ جو شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی۔ آخر میں اس نے یہ بھی کہا کہ جب میں غزکل کی طرف آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ تنگ ہوانگ کے قریب جو درے ہیں ان پر اشتراکی فوجوں کی نگرانی ہے۔"

جب قاصد کہہ چکا تو حمزہ نے قائنیش سے کہا۔ "تو پہلے وہ ہمارے ہتھیار ہم سے لے لیں گے اور بعد میں ہمیں اپنا غلام بنا لیں گے یا قتل کر ڈالیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے شنگ نے میرے بھائی کو قتل کرتے وقت کیا۔ اس وقت کے بعد سے چاہے کوئی ہو جب تک وہ اپنا مقصد نہ بتائے گا کسی کو گزرنےنہ دیا جائے۔"

قائنیش نے قاصد کی طرف اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر کہا۔ "اور اسے جانے دیا جائےیا روک لیا جائے۔"

حمزہ نے کہا۔ "اسے جانے دو کیونکہ اس نے سچ بولا ہے۔ اگرچہ سمجھا کچھ بھی نہیں۔ اور اس میں اشتراکیوں کا سا چھل فریب بھی نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ جب حسین تجی یہ سنے کہ ہتھیار لے کر کوئی نہیں جا سکے گا تو سمجھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -254


جائے کہ کیا چال چلی جا رہی ہے۔"

اس کے بعدجس قاصد نے داخلہ کی کوشش کی وہ چالیس سواروں کے سردار کے پاس سے نہیں آیا تھا۔ اور نہ اس کے بعد آنے والا قاصد اس سے کوئی پیغام لایا تھا۔ حالانکہ دونوں کہتے یہی تھے کہ ہم اس کے بھیجے ہوئے ہیں۔ حمزہ اور قائنیش نے جب ان سے پے در پے سوال کیے اور وہ جواب نہ دے سکے یا ادھر ادھر کی ہانکنے لگے تو یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ وہ اس دشمن کے پٹھو ہیں جس سے حمزہ اور قائنیش برسرِ پیکار تھے لیکن حسین تجی کو ابھی ان سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ دونوں قاصدوں نے یہی کہا کہ ہمیں چالیس سواروں نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ غزکل کے قازق ہتھیار ڈال دیں۔ کیونکہ سارے چین میں اب امن ہو چکا ہے۔ پہلے قاصد نے ہتھیاروں کے بارے میں جو کہا تھا اس سے حمزہ اور قائنیش کو یقین ہو گیا کہ یہ دونوں آدمی جھوٹے ہیں لہذا ان دونوں کو جاسوس قرار دے کر گلی سے اڑا دیا گیا۔

جب دن گزرتے چلے گئے اور ان چالیس کی کوئی خیر خبر نہیں ملی تو حسین تجی کے قازقوں میں پریشانی پھیلی۔ ان لاپتہ آدمیوں کے بیوی بچوں اور اقربا نے حسین تجی کے خیمے کے باہر شور مچانا شروع کیا کہ تنگ ہوانگ جاسوس بھیجے جائیں تاکہ ان چالیس کا خفیہ طور پر پتہ لگائیں۔ حسین تجی کو اس کا علم نہیں تھا کہ پہاڑی راستوں کی ناکہ بندی اشتراکیوں نے کر رکھی ہے اس نے علی بیگ سے مشورہ کیا۔ یہ طے ہوا کہ نہایت احتیاط سے دو آدمی چن کر آس پاس کے علاقے اور تنگ ہوانگ کا جائزہ لینے بھیجے جائیں اور ان دو قازق جاسوسوں کو خودکار ہتھیاروں سے لیس کیا گیا اور ان کے ماوزی تنگ کے تصویری نشان لگا دیے گئے تاکہ اشتراکی جاسوس ان پر شبہ نہ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -255


ان کے روانہ ہونے سے پہلے علی بیگ نے بری احتیاط سے انہیں ہدایات دیں کہ وہ کس طرح پہاڑوں میں اشتراکیوں کی ناکہ بندی سے بچ نکلیں۔ ادھر حمزہ اور قائنیش کو بھی ہدایت کی کہ انہیں بے روک ٹوک جانے دیا جائے۔

اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہ دونوں ٹھیک اس وقت تنگ ہوانگ میں داخل ہوئے جب یہ چالیس آدمی لاریوں میں بھر کر شہر کے دروازوں سے باہر لے جائے جا رہے تھے۔ ان کے ہتھیار ان سے لے لیے گئے تھے اور اگرچہ وہ طوق و زنجیر میں اسیر نہیں تھے پھر بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ یہ لوگ اپنے مقتل کی جانب جا رہے ہیں۔ لاریاں ابھی روانہ نہیں ہوئی تھیں اور یہ دونوں جاسوس ان کے قریب جا پہنچے اور قازق زبان میں انہیں آوازیں دینے لگے۔ انہیں معلوم تھا کہ مسلح محافظ چینی ہیں اس لیے ان کی زبان نہیں سمجھ سکیں گے۔ چالیس آدمیوں کے سردار نے انہیں جواب دیا:

"انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ غزکل قاصد بھیجیں جو ہمارے بھائیوں اور حسین تجی سے جا کر کہیں کہ وہ اپنے ہتھیار حوالہ کر دیں اور تنگ ہوانگ آ کر نئی ریاست کی اطاعت کا حلف اٹھائیں۔ اور جب ہم نے اس سے انکار کر دیا تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ قاصد ہماری طرف سے بھیجے جائیں گے اور اگر وہ ہتھیار حوالے کرنے کی رضامندی لے کر نہ لوٹے تو ہمیں قتل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ ہم نے قسم کھائی تھی ہتھیار حوالے کر دیے جائیں گے۔ لیکن ہم نے تو ایک لفظ کی بھی قسم نہیں کھائی تھی۔ البتہ اشتراکیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ قاصدوں کو یہی کہنے کی تاکید کی گئی تھی۔"

دونوں آدمیوں نے ان سے پوچھا۔ "کیا تمہاری جان بچانے کے لیے ہم کچھ کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس خود کار ہتھیار ہیں حالانکہ تنگ ہوانگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -256


کی فصیل کے اندر ان کا چلانا حماقت ہے۔"

چالیس آدمیوں کے سردار نے کہا۔ "نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ہمیں اس جرم کے لیے مار ڈالیں جس کا الزام ہم پر لگایا گیا ہے۔ جرم تو انہوں نے خود کیا ہے ہم نے نہیں کیا۔ ہمارا قتل ہونا نہ ہونا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ بہتر ہو گا کہ تم ہمارے ساتھ مارے نہ جاؤ بلکہ جا کر ہماری بیویوں اور ساتھیوں کو بتاؤ کہ یہاں ہو کیا رہا ہے۔"

جب لاریاں روانہ ہوئیں تو ان دونوں نے کہا۔ "بسلامت روی و باز آئی۔ رہے ہم تو جو کچھ تم نے کہا ہے ہم وہی کریں گے۔"

ان چالیس آدمیوں کا کیا حشر ہوا آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ ان میں سے ایک بھی غزکل واپس نہیں آیا۔ اور نہ ہی ان کی کوئی خبر ہی آئی۔ اس لیے امکان اسی کا ہے کہ اشتراکیوں نے انہیں قتل کرنے کی دھمکی پوری کر دکھائی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں قیدیوں کے اس گروہ کے ساتھ کام کرنے کی سزا دی گئی ہو جو سڑکیں اور پل اور کارخانے بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ اشتراکیوں کا مقصود و معیار ترقی یہی چیزیں ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو قازق زندگی کے دلدادہ ہوں یہ سزا موت سے بدتر ہے۔

غزکل واپس پہنچنے میں ان دونوں آدمیوں نے کسی قسم کی تاخیر نہیں کی۔ جب انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا اور جو کچھ چالیس آدمیوں کے سردار نے کہا تھا بتایا تو لاپتہ آدمیوں کی بیویوں نے اپنے ناخنوں سے اپنے منہ نوچ ڈالے اور خون سے بہتے چہرے لیے حسین تجی کے ڈیرے پر جا پہنچیں اور انتقام کے لیے چیخنے لگیں۔ ان کے ہمدردوں نے انہیں دلاسہ دینے کی کوشش کی اور بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا بجھایا۔ اس دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -257


کے بعد سے حسین تجی کے آدمی بھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہے اور وہ اس کے لیے آمادہ ہو گئے کہ جس طرح دوسرے قازق الطائی تئین شان کیوکلوک اور کیو چنگ میں لڑے تھے، انہیں بھی اسی طرح لڑنا ہو گا۔ لہذا گشتی دستے اور پہاڑوں کی چوکیاں بڑھا دی گئیں اور کچھ دنوں بعد اشتراکی گشتی دستوں سے کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن ابھی کوئی خطرناک صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی۔

15 مارچ 1950ء کو ایک غیر متوقع شخص غزکل کے علاقے میں آیا۔ یہ ڈگلس میکیرنن تھا۔ امریکی نائب قونصل، جو ارمچی سے ٹھیک اس دن پراسرار طور پر غائب ہو گیا تھا جس دن ہشت راہ لشکر کا ہراول اس میں داخل ہوا۔ یعنی 11 ستمبر 1949ء کو ارمچی غزکل سے گھوڑے یا تیز رفتار اونٹ پر چودہ دن کے فاصلہ پر ہے۔ ان ہی پر میکیرنن اب سفر کر رہا تھا ۔ لیکن وہ ساڑھے پانچ مہینے سے سفر کر رہا تھا۔ اس نے یہ درمیانی ساڑھے پانچ مہینے کہاں اور کیسے گزارے۔ یہ علی بیگ کو معلوم نہیں۔ یا شاید اسے معلوم ہو لیکن اس ن ے ہم سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ اس کا یہ اصول ہے کہ دوسروں کے معاملات کا وہ تذکرہ نہیں کرتا۔ ایک امریکی جس کا نام فرینک بسّاک تھا۔ میکیرنن کے ساتھ تھا۔ اس نے "لائف" میں اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ انہوں نے جاڑا ایک پڑاؤ میں گزارا تھا۔ لیکن اس نے تفصیلات بیان نہیں کی تھیں۔

میکیرنن علی بیگ کو جانتا تھا اس نے کہا مجھے اپنے سامان کے لیے کچھ جانور خریدنے ہیں۔ اس نے رہنماؤں کے لیے بھی کہا جو اسے تبت کی سرحدوں تک پہنچا دیں۔ یہ سرحد کوئی دو سو میل جنوم تھی۔ شاہین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -258


کی پرواز کے لحاظ سے۔ لیکن الطائن پہاڑوں کے راستے سے اس سے کہیں زیادہ دور تھی۔ علی بیگ نے جانور اور رہنما دونوں مہیا کر دینے کا وعدہ کر لیا۔ اور اس کے بعد اس نے میکیرنن کو کیوکلوک کے اطراف کی لڑائیوں اور کوہِ تشنہ میں اپنے سفر کے حالات سنائے۔ اس نے قازقوں کے مستقبل پر بھی گفتگو کی اس نے غالباً امریکیوں سے یہ بھی دریافت کیا کہ ہمالیہ کے اس پار سے کچھ مدد پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس نے باور کرایا کہ قازق اس لڑائی میں اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔

رخصت ہونے سے پہلے میکیرنن نے پانچ ڈالر کا ایک نوٹ پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے اور دونوں پر اپنے اپنے انگوٹھوں کا نشان لگا کر ایک ٹکڑا اس نے علی بیگ کو دے دیا اور ایک اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں امریکی اپنے ساتھ تازہ دم پندرہ اونٹ، ایک گھوڑا، اور قازقوں کے مہیا کیے ہوئے دو رہنما لے کر روانہ ہو گئے۔ رہنما ایک ہفتے بعد واپس آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکیوں کے ساتھ تین دن تک چلتے رہے اور چار دن ہمارے واپس آنے میں لگے کیونکہ واپسی میں ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی۔ ہم تبت کی سرحد آنے سے پہلے ہی واپس چل پڑے کیونکہ میکیرنن نے ہم سے کہا کہ اب ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔

اگر ان کا بیان صحیھ ہے تو میکیرنن کا یہ فیصلہ کہ وہ سرحد آنے سے پہلے لوٹ جائیں ایک تباہ کار واقعہ تھا۔ علی بیگ نے ان دونوں رہنماؤں کو حکم دیا تھا کہ امریکنوں کو تبت میں اس راستے سے لے جائیں جس پر تبت کے سرحدی محافظ نہیں تھے۔ جس راستے وے امریکی گئے اس پر تبتی محافظین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -259


متعین تھے۔ بہت دنوں بعد علی بیگ کو معلوم ہوا کہ انہوں نے میکیرنن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ دلائے لامہ کے کوئی ایسے احکام انہیں نہیں پہنچے تھے کہ اسے آنے دیا جائے۔ فرینگ بسّاک کو انہوں نے نہیں مارا۔

میں نے علی بیگ سے پوچھا کیا خیال ہے تمہارا؟ میکیرنن کی موت اتفاقی تھی یا اشتراکی سازشوں کا نتیجہ کہ سرحدی ناکے پر احکام نہیں پہنچے حالانکہ لاسہ کے سرکاری بیان کے مطابق جتنے بھی قرب و جوار کے ناکے تھے سب پر احکام پہنچ چکے تھے، مگر اسی ناکے پر نہیں پہنچے جہاں میکیرنن مارا گیا۔ علی بیگ تو اسی وقت بہت متعجب ہوا تھا جب قازق رہنما اپنا کام پورا کیے بغیر واپس آ گئے تھے۔ کیونکہ اس کے اور میکیرنن کے درمیان یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ رہنما امریکیوں کو سرحد پار کرائیں گے۔ اس لیے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میکیرنن اور بسّاک کے ساتھیوں میں کہیں اشتراکی تو شامل نہیں تھے جنہوں نے کوئی چال چل کر رہنماؤں کو پہلے ہی چلتا کرا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود تبت میں اشتراکی پٹھو موجود تھے۔ لیکن اس وقت تک پورے تبت پر اشتراکیوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن اشتراکی پٹھوؤں کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ ایک سرحد پر دلاے لامہ کا وہ حکم نامہ نہ پہنچنے دیں جس میں میکیرنن کو تبت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اگر میکیرنن کے بارے میں چوکی پر کسی قسم کے احکام نہیں پہنچے تھے تو دو امریکنوں میں سے صرف ایک کے گولی ماری گئی۔ دونوں کو ہلاک کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کی توضیح صرف یہ ہو سکتی ہے کہ سرحدی چوکی کو بساک کے آنے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اسے حکم مل چکا تھا میکیرنن کو ہلاک کر دیا جائے کیونکہ اسے سنکیانگ کے معاملات کا ضرورت سے زیادہ علم تھا اور وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -260


خوب جانتا تھا کہ اس صوبے پر اشتراکیوں نے کس طرح قبضہ کیا ہے۔

رخصت ہونے سے پہلےمیکیرنن نے علی بیگ سے اپنے پانچ ڈالر کے نوٹ کو حفاظت سے رکھنے کو کہا تھا اور تاکید کی تھی کہ یہ آدھا نوٹ دلی میں مقیم ایک امریکی افسر کو دکھائے، علی بیگ نے مو مدد میکیرنن کی کی تھی اس کا مناسب معاوضہ دلی کا ایک امریکی افسر پیش کر دے گا۔ لیکن جب علی بیگ نے سنا کہ میکیرنن مارا گیا تو اسے آدھا نوٹ پیش کرنے کی خواہش نہیں رہی اور اس نے میکیرنن کی یادگار بطور اسے اپنے پاس رہنے دیا۔ یہ آدھا نوٹ اس کے پاس اب بھی ہے، حالانکہ اس کے پاس اپنی پہلے کی چیزوں میں سے اب صرف ایک رسمی لباس رہ گیا ہے۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ علی بیگ کو یہ آدھا نوٹ دلی میں پیش کرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپریل 1950ء میں علی بیگ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر بیرونی مدد نہ پہنچی تو قازقوں کو وسطی ایشیا سے لڑتے بھڑتے باہر نکل جانا تھا۔

اب ہمیں بارکل واپس چلنا چاہیے ۔ یہ وہی مقام ہے جہاں مئی 1949ء میں کارا شہر جانے سے تاؤ کی مصالحتی فوجوں نے عثمان بطور کو روکا تھا تو وہ یہاں سے چلا آیا تھا۔ کیوکلوک کی لڑائی کو ختم کرنے تک اشتراکیوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور فوج روانہ کر دی کہ جا کر عثمان بطور کے پڑاؤ کا محاصرہ کر لے۔ اسی پڑاؤ میں یول بارز ترکی تھا جس کے ساتھ ترکی اور چینی تھے اور جانم خان بھی تھا جس کے ساتھ اس کے قازق اور سفید روسی تھے۔ اشتراکیوں نے کرایہ کے قازقوں سے قازق زبان میں آزاد قازقوں سے کہلوایا کہ ہتھیار ڈال دیں۔ انہوں نے نام لے لے کر ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -261


ایک آدمی سے اپیل کی۔ جس طرح اساطیر الاولین میں رب شکیہ نے گھرے ہوئے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں ایک اور سرزمین لے جاؤں گا جو تمہاری ہی سرزمین کی طرح ہے۔ غلے اور شراب کی سرزمین، روٹی اور تاکستانوں کی سرزمین، زیتون کے تیل اور شہد کی سرزمین، تاکہ تم زندہ رہو اور مرنے نہ پاؤ۔ اسی طرح اشتراکیوں نے عثمان بطور ، یول بارز اور جانم خان کے ساتھیوں سے وعدہ کیا کہ مارکسی معاشی منصوبے کے تحت ان کے لیے مادی مفادات مہیا کیے جائیں گے اور انہیں وعدوں کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اشتراکیوں کی پیش کش کو قبول نہ کیا گیا تو کس کس اذیت کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں اور ان کے متعلقین کو ہلاک کیا جائے گا۔

عثمان بطور اور اس کے آدمی اشتراکیوں کے فوجی اور نفسیاتی حملوں کا نو مہینے تک مقابلہ کرتے رہے اور دن بہ دن دبتے دبتے ایک ذرا سی جگہ میں گھر کر رہ گئے۔ لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ہشت راہ لشکر نے مقامی حاشیہ برداروں کی مدد سے یول بارز پر حملہ کیا۔ وہ بارکل کے جنوب مغرب میں پہاڑی درے ناشی تو کو روکے ہوئے تھا۔ یہ درہ ان دو راستوں کو ملاتا ہے جو شمالی سڑک اور جنوبی سڑک کہلاتے ہیں اور یہ سڑکیں مشرقی ترکستان کو چین سے ملاتی ہیں اور صحرائے گوبی میں گزرنے سے پہلے حامی میں مل جاتی ہیں۔ حملہ آوروں کے پاس مشینی دستے تھے اس لیے انہوں نے ذرا سی دیر میں یول بارز کو وہاں سے اکھاڑ دیا۔ لیکن جب یہاں سے ہٹ کر یول بارز بارکل کے میدان میں عثمان بطور سے جا ملا تو ان دونوں نے مل کر اشتراکیوں کو تین مرتبہ پسپا کیا اور ان کے بہت سے آدمی مار ڈالے۔ اس ہزیمت پر اشتراکیوں نے تھکے ہوئے ہشت راہ لشکر کو وہاں سے ہٹا لیا اور روسیوں کی سرکردگی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -262


قازقوں کا لشکر آگے بڑھا دیا۔ اور ان کی مدد روسی ہوائی جہازوں سے کی۔ روسی جہاز رانوں نے جتنے بھی قازقوں کے پڑاؤ انہیں نظر آئے سب پر بمباری کی۔

اس کے بعد اشتراکیوں نے بارکل کے علاقے سے نکاسی کے تمام راستے بند کر دیے اور مسلح محافظوں کے ساتھ "وضاحتی دستے" ان تمام قازق پڑاوؤں تک بھیجے جن تک پہنچنے میں عثمان بطور کے جنگجو حائل نہیں تھے۔ وضاحتی دستوں نے تمام بستیوں کے بے ضرر بسنے والوں کو مع ان کے بال بچوں اور جانوروں کے کیوچنگ کے اجتماعی کیمپوں میں پہنچا دیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو ہر پڑاؤ نے وضاحتی دستوں کی مخالفت کی۔ جس نے بھی مخالفت کی اس کا صفایا کر دیا گیا۔ اور دشمنوں پر اس فتح کو اشتراکی اخباروں میں محب وطن فوجوں کی شاندار کامیابی کا نام دے کر خوب اچھالا گیا۔

اس قسم کی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد اشتراکیوں نے عثمان بطور کے لڑنے والے دستوں کو ختم کرنے کے ارادے سے بارکل کے میدان پر ایک زبردست حملہ کیا۔ اس میں انہیں پھر ناکامی ہوئی اور انہوں نے سویت حکومت سے تربیت یافتہ روسی فوجیں اور ٹینک اور بھاری توپیں منگائیں۔ اس پر بھی آزاد قازق دو مہینے تک جمے رہے۔ آخر میں ان میں سے بعض قازق صحرائے گوبی میں نکل گئے اور نہ معلوم ان کا کیا حشر ہوا۔ لیکن باقی ماندہ قازق عثمان بطور کے ساتھ لگے رہے۔ عثمان بطور نے حیرت ناک طور پر اشتراکی گھیرے کو توڑ لیا اور اپنے آدمیوں جانم خان اور یول بارز کے آدمیوں، ان کے بال بچوں اور خیموں اور ان کے ریوڑوں اور گلوں کو اپنے ساتھ لے کے پہلے پہاڑوں کو عبور کیا پھر پانچ سو میل کا کھلا علاقہ طے کیا اور کئی ایسے فصیل دار شہروں کے قریب سے گزرا جن میں اشتراکی فوجی دستے مقیم تھے۔ ان سب کو پار کر کے وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -263


خان امبل کے پہاڑوں میں پہنچ گیا۔ یہاں وہ ستمبر 1950ء کے اوائل میں پہنچ گئے تھے۔ ترکی میں جو قازق موجود تھے ان میں سے اس حیرت ناک فوجی مہم میں کوئی شریک نہیں تھا۔ اس لیے ایشیا کے اس حصے کے متعلق معلومات حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ عثمان بطور اپنے سارے ساتھیوں کو نکال لے گیا۔

خان امبل کے پہاڑوں میں ان کے پہنچ جانے سے کچھ ہی پہلے، غزکل کے علاقے میں اشتراکی زیادہ سرگرمی دکھانے لگے اور کوہ صادم میں ایک بڑی خطرناک لڑائی ہوئی جس میں جانبین کے بہت آدمی مارے گئے۔ علی بیگ کا بھائی زین الحمید بھی اسی میں کام آیا لیکن اشتراکیوں کا نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ انہوں نے پانچ مہینے تک کوئی دوسرا حملہ نہیں کیا۔

جب یول بارز غزکل پہنچا تو اس نے کہا۔ "میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب ہمیں ترکستان چھوڑ کر چانگ کائی شیک سے جا ملنا چاہیے۔ جو فارموسا جا پہنچا ہے۔ اس صورت میں کہ پورے چین کے خاص علاقے اشتراکیوں کے قبضے میں جا چکے ہیں ہمارا شمال مغربی چین میں رہنا حماقت ہے۔ خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے کہ غزکل میں قازق لڑنے والوں کی مجموعی تعداد چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ "علی بیگ اس کی رائے سے اتفاق کرنا چاہتا تھا لیکن عثمان بطور اور قازقوں کی اکثریت مشرقی ترکستان ہی میں ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتی تھی کیونکہ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ شمال مغربی چین کے دوسرے آباد حصوں سے اب ہم اتنی دور نکل آئے ہیں کہ اشتراکی اب ہم سے نہیں الجھیں گے۔

علی بیگ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ یول بارز چلے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -264


جانے پر تلا ہوا تھا۔ وہ چونکہ ستر برس کا بڈھا تھا اس لیے اس کے چلے جانے سے کوئی خاص کمی نہیں واقع ہوتی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یول بارز کے چینی ساتھی قازق طرزِ جنگ سے ناواقف ہیں اس لیے اگر وہ بھی اس کے ساتھ چلے جائیں گے تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہو گا۔ سعالی نے بھی جس کے زیادہ آدمی سفید روسی تھے۔ یول بارز کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ مالدار قازق تاجر عادل، عبدالکریم مورخ اور امین طہٰ ملّا جو علی بیگ کو اطاعت قبول کرنے کے لیے مشورہ دینے گیا تھا اور پھر علی بیگ کے کہنےسننے سے خود بھی باغی ہو گیا تھا، ان سب نے بھی چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ ان تینوں کے ساتھ ان کے بال بچے ہی تھے۔ لڑنے والے آدمی نہیں تھے۔

عثمان بطور کی بارکل سے واپسی پر جب سب لوگ رخصت ہوئے تو علی بیگ نے انہیں خدا حافظ کہا اور جنرل اسمیو چیانگ کائی شیک کو یول بارز کے ہاتھ چٹھیاں بھیجٰں اور جنرل آئزن ہاور کو بھی ، جن میں اس نے لکھا۔ "اگر ہمیں کوئی مدد نہیں پہنچے گی تو ہم ایک سال تک اور یہیں اپنا بچاؤ کرتے رہیں گاپھر بھی اگر مدد نہ ملی تو ہم لڑ کر یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ بنا لیں گے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ ۔صفحہ ۔98

چوتھا باب

علی بیگ اور حمزہ کی ابتدائی زندگی*


الطائی پہاڑوں میں عثمان کی جائے پیدائش سے کوئی ڈھائی سو میل کے فاصلےپر ایک شہر مناس ہے جہاں مقامی قازی خانہ بدوش اور ترکی اور دوسرے کسان خرید و فروخت کے لیے جایا کرتے ہیں۔
خانہ جنگی کی زد میں آنے سے پہلے اس کی آبادی چالیس ہزارتھی۔ سویت سرحد جو آگے جاکر ٹھیک اس کے عقب میں ترشول کی شکل اختیارکرلیتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ سڑک
چلتی ہے ،اس پرصوبےکا صدرمقام ارمچی ہے،اس سے پچاس میل سے اس میں مغرب کی جانب مناس ہے۔
مناس اس صوبے نا صدر مقام بھی ہے جو اسی کے نام پر صوبہ
مناس کہلا تا ہے اس میں سے ہو کر ایک دریا بہتا ہے جو تیئں شان کےعظیم سلسلہٓ کوہ سے نکلتا ہے۔ اس سلسلہ کوہ کے شمال میں شہر مناس واقع ہے ۔ یہ دریا کی مناس کہلاتا ہے، پہاڑوں کی چٹائی کریں سے دریا تیزی سے اچھلتا کودتااور سیکڑوں برف کے تودوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*ریختہ صفحہ ۔99*
۹۸

تقویت حل کرنا،مناس کے شہر سے صرت چند میل کے فاصلے پر رونما ہوتا ہے اورپھیل کر ایک چوڑی گزر گاہ بنالیتا ہے۔ اس پر ایک لکڑی کا پل ہے جس کے کم از کم نو در ہیں پہاڑوں میں اس دریا کی گزرگاہ صرف چند میل کی ہے ۔لیکن وہ اتنے ہی فاصلے میں دس ہزار فٹ نیچے اترتاہے۔ کیونکہ مناس شہر سطح سمندر سے صرت تین ہزار فٹ اونچاہےاور سات سو فٹ اُرمچی سے نیچا . اُرمچی سے سمندری سے تین ہزار فٹ اُونچا۔
ان دونوں مقاموں کے پیچھے تئیں شان یاکوه ملکوتی کی سر بفلک چوٹیاں اور اچھوتی برف کی دندانے دار ماہی پشت دیواریں ہیں جو اُرمچی کے جنوب میں بوغد دالہ یا کوہِ رب تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں۔
دریائے مناس اگر چہ اتنا بڑا دریا ہے لیکن وہ سمندر تک نہیں اور دلدلوں اور دور دور تک پھیلیے ہوئے سرکنڈوں میں جذب ہو جاتا ہے ۔ یہ سرکنڈے بیس بیس فٹ اونچے ہوتے ہیں اور ان میں جنگلی جانور رہتے ہیں، اگر کوئی شخص ان سرکنڈوں میں پہنچ جائے تواسے چوکنا رہنا پڑتاہےکہ کہیں کوئی جنگلی سوُر اُس پر نہ جھپٹ پڑے،یا بد قسمتی سے کسی ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں کوئی شیرنی اپنےبچوں کے لیے بیٹھی ہو ۔لیکن اس نقصان کی تلافی یوں ہو جاتی ہے کہ یہ
سرکنڈے ان لوگوں کو پناہ بھی دیتے ہیں جو قانون کی گرفت سے بچےرہنا چاہتے ہوں اگر کوئی مفرور دستہ اِن میں چھپ رہے تو پلٹ کردشمن پر چھاپہ بھی مار سکتا ہے۔پچاس سال سے وقتناً فوقتناً ایسا ہوتا چلا آرہا ہے۔
لیکن فی الحال دریائے مناس کے نچلے حصے سے کوئی واسطہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

* ریختہ صفحہ-100*

ہے بلکہ اس کے ایک امدادی دریا سے واسطہ ہے، جو قزل زون کہلاتا ہے ۔ یہ دریا پہاڑ کے برف پوش سینے سے نکلنے والے کوئی بارہ چودہ چشموں کے ملنے سے بنتا ہے ۔ ان میں سے ہر چشمہ بیس سے تیس فٹ تک چوڑا ہے مگرچار فٹ سے گہرا کوئی نہیں ہے۔ قزل ازون کے منبعے دوتین بڑی چوٹیوں کے عظیم توده ہائے برف ہیں جو پہلو بہ پہلو بیس ہزار فٹ کی بلندی پر سے شمالی میدان کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔اسی میدان میں مناس ان سے سولہ ہزارفٹ نیچےہے، اگرچہ ہم ان سے مناس کا فاصلہ صرت پچاس میل ہی ہے۔
قزل ازون میں پانی چونکہ برف کے تودوں میں سے آتا ہے اس لیے عمومانہائت صاف و شفاف ہوتا ہے لیکن بارشوں کے بعداس کے امدادی چشمے عجب اشارتی طور پر سرخ ہو جاتے ہیں،یہ سرخی کسی پہاڑی کی معدن ہے۔ اور اسی رنگ کی وجہ سے یہ دریا قزل ازون با دریائے سرُخ کہلاتا ہے۔
دریائےسرخ کی وادی میں اونچی اور میٹھی گھاس کثرت سے پیدا ہوتی ہے ، چینیوں کی تاخت سے پہلے قازق خانہ بدوش اپنے ریوڑوں کو میں یہیں چرایا کرتے تھے ،گرمیوں میں اس وادی کے اوپری حصےمیں چلے جاتے اور جاڑوں میں منچلے حصے میں میں چلے جائے ،اور سردیوں میں نچلے حصّے میں اتر آتے بالکل اسی طرح جیسے انطالی کے باشندے کیا کرتے اور یہاں در یائے سرُخ کے کنارے ۱۹۰۸ء میں علی بیگ اور ۱۹۲۲ء میں حمزه پیدا ہوئے۔یہ دونوں سردار تھے۔جو قازق خودمختاری کے بعدکی جہد وجہد میں عثمان بطور کے پہلو بہ پہلو لڑتے رہے۔



+
 

محمد عمر

لائبریرین
105

ہو، ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے آپ کو "سرخ" ظاہر نہیں کیا۔ ؁۱۹۳۲ء میں "بڑا گھوڑا" ماارمچی کے دروازوں سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ کیونکہ مقتول گورنر یانگ کے جانشین جنرل چن شوجن نے چینی حکومت کو بغیر بتائے ہوئے سوویت حکومت سے ایک معاہدہ کیا کہ صوبائی حکومت کے ہر شعبے میں "مشیروں" کو متعین کرنے کے عوض اور روسیوں کو تجارت کرنے کی خصوصی آسانیاں دینے کے بدلے میں سے جنگی ہتھیار مل جائیں اس طرح وہ بہت سے سفید روسی فوجی جو جنرل چن کی طرف سے بڑے گھوڑے "ما" سے لڑ رہے تھے دراصل سرخ روس کے مسلح کئے ہوئے تھے اس کے کچھ ہی عرصے بعد ان پر سرخ روسیوں کا پورا قبضہ بھی ہو گیا۔

لیکن اس زمانے میں سویت حکومت بڑے گھوڑے ما کو بھی اسلحہ دے رہی تھی اور اس کوشش میں مصروف تھی کہ قازقوں، ترکوں، منگولوں اور دوسری ترکستانی قوموں کے قومی شعور کو ابھار کر سیاسی اور جنگی ہتھیار بطور چینیوں کے خلاف بروے کار لا سکے، بالکل اسی طرح جیسے زاری روس بوکو بطور کو ہتھیار دیتا تھا۔ اشتراکی روس اب یونس حجی اور عثمان کو اسلحہ دے رہا تھا۔

جنرل چن کے ساتھ جو خفیہ معاہدہ کیا گیا تھا اس سے سویت حکومت کو متوقع فوائد حاصل نہیں ہو سکے کیونکہ ۱۲ اپریل ؁۱۹۳۳ء کو اس کا زوال ہو گیا۔ اگلے سال ماسکو نے بڑے گھوڑے ما کی حوصلہ افزائی کی کہ ارمچی کا دوبارہ محاصرہ کر کے اس پر نئے چینی صوبیدار شنگ شی ستائی نے اپنے پیش رو کا تتبع کرتے ہوئے اپنی حکومت سے نہیں ماسکو سے امداد کی درخواست کی۔ سوویت حکومت نے اس دفعہ اور بھی مُنہ پھیلایا اور ایک ایسے

106

معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کی رو سے چینی صوبہ سنکیانگ کی سویت نو آبادی بن کر رہ گیا۔ اسی کے ساتھ شنگ نے اعلان کیا کہ مقامی قوموں کی کل شکایات کا تدارک کیا جائے گا۔

یعنی قازقوں کو جلد محسوس ہو گیا کہ ان کی شکایتیں بجائے گھٹنے کے اور برح رہی ہیں۔ تیرہ ہزار چینی "رضا كار" منچوریا کے پناہ گزین جو جاپانیوں سے بچ کر سائبیریا میں نکل گئے تھے اب سویت چینی سرحد کو عبور کر کے الطائی اور دوسرے ان شمالی صوبوں میں در آئے جہاں بیشتر قازق آباد تھے اور صوبیدار شنگ کا واسطہ دے کر انہیں "ہموار" کرنے لگے۔ ان کے اس طرز عمل پر قازقوں نے شنگ کو قصوروار ٹھہرایا حالانکہ روسیوں نے انہیں تربیت دی تھی اور انہیں ہتھیار بند کیا تھا۔ ادھر صوبے کے بیرونی علاقوں میں یہ ہوں رہا تھا ادھر خود صوبائی حکومت پوری طرح روسی قبضے میں آتی جا رہی تھی ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ قازق جو دنیا کی سب سے زیادہ انفرادی قوم ہیں، یکایک اس اشتراکیت سے دو چار ہو گئے جے صوبیدار کے اشتراکی مشیروں نے ان پر ٹھونس دیا تھا۔ یہ صوبیدار اپنے آپ کو نمائندہ ظاہر کرتا تھا. چینی کومنٹنگ کا جو اشتراکیت کے خلاف ہیں۔ اس قلب ماہیت سے اگر قازق بھنچکے ہو کر رہ گئے ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ ان کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

دراصل قازق کئی سال میں جا کے اس حقیقت کو سمجھے کہ خود قازقوں ہی کی مثل کے مطابق روسی "دو مونہوں" سے بول رہے تھے اور ہر مُنہ الگ زبان بول رہا تھا۔ ایک مُنہ "ارمچی" کے مشیروں کی زبان سے چینی صوبیدار شنگ کا نام لے کر بول رہا تھا اور رفیہ رفتہ صوبے کے

107

نظم و نسق کو اشتراکیت میں تبدیل کر رہا تھا۔ دوسرا منہ خفیہ طور پر صوبائی حامیوں کے خلاف مقامی قوموں کے کانوں میں تاجروں اور روسی ایجنٹوں کے ذریعے بغاوت پھونک رہا تھا اور نفرت انگیز چینیوں کو نکال باہر کرنے میں اس کی امداد کے وعدے کر رہا تھا۔

عثمان، یونس حجی اور دوسرے قازق رہنما لڑنے والے لوگ تھے، سیاستداں نہیں تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان پر یہ حقیقت کھل گئی کہ انہیں فریب دیا جا رہا ہے اور سویت حکومت انہیں صرف مہروں کی طرح استعمال کر رہی ہے تا کہ ایسی بد نظمی پھیل جائے کہ روسی مشرقی ترکستان اور اس کی دولت پر نظم و قانون کا نام لے کر قبضہ کر لیں۔ یا یوں سمجھئے کہ مقامی قوموں کے لیے سویت کی دوستی کا دکھاوا ایک زبردست فریب تھا جس کی آڑ میں وہ اشتراکیت پھیلا رہا تھا۔

یونس حجی اور کمسن حمزہ بڑے گھوڑے کی ماکی طرف سے لیکن اپنے طوری پر ؁۱۹۳۲ء سے ؁۱۹۳۴ءدو سال تک لڑتے رہے۔ اس دوران میں یونس کو یاد آیا کہ بوکو بطور کے چھاپے مار دست بدست لڑائی میں باقاعدہ افواج کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے اس لیے اس نے چینی انداز پر اپنے ساتھیوں کو تربیت دینی شروع کی۔ ہماری رائے یہ ہے کہ جنرل ما کی باقاعدہ فوجیوں کو کسی شہر کا محاصرہ کرتے دیکھ کر یونس کو خیال آیا کہ اپنی فوجوں کی اسی قسم کی تربیت دے لہٰذا انہیں باقاعدگی سے لڑنا سکھایا تا کہ روس کے تربیت یافتہ اور صوبیدار شنگ کے رضا کاروں سے اچھی طرح نمٹ سکیں۔ لیکن آزاد قازق اس قسم کی لڑائی لڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے حالانکہ بعد میں سویت سرحد کے قریب سنکیانگ کے صوبے

۱۰۸

خالد اسے جو قازق روسیوں نے بھرتی کیے وہ اس طریق جنگ کو اچھی طرح سیکھ گئے۔ آگے مناسب موقع پر ہمیں معلوم ہو گا کہ سویت حکومت نے اپنے غلام بنائے ہوئے قازقوں کو کس طرح تربیت دی کہ قانوناً جو علاقہ چینیوں کا تھا اس کی زمین پر آزاد قازقوں سے لڑیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس سے بہت کچھ واضح ہو جائے گا کہ ایشیا میں اشتراکیت کو کیسے فروغ دیا گیا۔

؁۱۹۳۴ءکے اختتام پر صوبہ دار شنگ کے تحت جو صوبائی چینی حکومت تھی اس نے جنرل ما کی باغی فوجوں کی کمر توڑ دی تھی۔ ان "ہتھیاروں" ، "رضاکاروں" اور "مشوروں" کی مہربانی سے جو برادرانہ طور پر شنگ کو سویت حکومت نے پیش کیے تھے۔ خود جنرل ما نے باوجود اپنی شکست فاش کے سویت ترکستان میں پناہ لی۔ اس کے بعد اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ ترکی میں جو قازق مہاجر ہیں ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وہ روسی لشکر میں ایک افسر بن گیا۔ لکین یہ امر مشتبہ ہے گو نا ممکن نہیں۔

جب بغاوت فرو ہوئی تو یونس حجی اور حمزہ جو اب بارہ سال کا تھا دریائے سُرخ پر واپس آ گئے اور حمزہ خیمے کے مکتب میں پھر جانے لگا۔ اور بھی بہت سے دل برداشتہ قازق لوٹ آئے مگر ان میں سے دو نے کچھ دنوں بعد سوچا کہ ان کے پرانے گھر خاصے بے آرام ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ ؁۱۹۳۶ء میں انہوں نے اپنے خیمے اکھاڑے اور جیسا کہ بوکو بطور پہلے کر چکا تھا، اپنے گلّے اور ریوڑ لے کر اپنے مسکنوں سے نکل کھڑے ہوئے اور مشرقی تئین شان پہاڑوں میں بارکل کے میدانوں اور بلند علاقوں میں چراگاہیں تلاش کرنے نکل گئے تا کہ وہاں آرام سے رہ سکیں۔

۱۰۹

ان کے نام ہیں حسین تجّی اور سلطان شریف اور ہم ان سے ترکی میں پہلے مل چکے ہیں۔ مگر جب سے وطن سے نکلے تو انہیں اور ان کے بیشتر ساتھیوں کو جن کی تعداد شاید پندرہ ہزار تھی، اس کا بھی خیال نہیں تھا وہ سنکیانگ کی سرحد یا تبّت سے آگے جا سکیں گے۔

حسین تجّی اور سلطان شریف جنوب کی طرف چلتے رہے اور شہر حامی سے آگے نکل گئے جو کیومل بھی کہلاتا ہے اور چین کی طرف سے گوبی کے صحرائے عظیم کو عبور کرنے کے بعد پہلا شہر یہی آتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے نکلا مکان کا وسیع صحرا طے کیا جس میں صرف ریت ہی ریت نہیں ہے اور اگرچہ آج کل اس کا بڑا حصّہ بنجر ہے تاہم کہیں کہیں اس میں جو اُجڑی ہوئی آبادیوں کے نشان ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی یہ صورت ہمیشہ سے نہیں تھی، بوکو بطور کی طرح بالآخر یہ بھی بُرے شگون والی جھیل غزکل پر پہنچ گئے جو ڈول کی طرح لمبی اور سیدھی ہے۔ انہیں یہاں اچھی چراگاہ مل گئی لیکن اتنی اچھی نہیں جتنی باریکل کی تھی۔ یہ چراگاہ جھیل کے چاروں طرف دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا کچھ حصّہ تیمور لک صوبے میں تھا جو جھیل کے شمال اور مغرب میں ہے اور کچھ حصّہ خان امبل کے پہاڑوں میں جو مشرق کی طرف چنگھائی صوبے میں ہے۔ اس کے علاوہ انہیں معلوم ہوا کہ تجارتی شہر تنگ ہوانگ جہاں بدھ کے ہزاروں بتوں کے مشہور غار ہیں اور چین کے بہت سے حصوں سے جاتری جہاں جوق در جوق جاتے ہیں، صوبہ کنسو کی سرحد کے اس پار قریب ہی واقع ہے۔

قازق چونکہ خانہ بدوش تھے اس لیے جب کبھی چینی حکام ٹیکس

110

وغیرہ وصول کرنے میں زیادہ تشدد کرتے تو سنکیانگ، کنسو اور چنگھائی ان تین علاقوں میں سے کسی ایک کو اپنی رہائش کے لیے انتخاب کر لیتے۔ قازق اپنے خیمے اور جانور لے کر کسی ایک صوبے میں چلے جاتے اور وہاں کے افسر انہیں درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے پڑا رہنے دیتے۔ حسین تجّی اور سلطان شریف کو جب بارکل مین لڑائی لڑنی پڑی اور جب انہیں تکلا مکان کو عبور کرنا پڑا تو ان کے جانوروں کا بہت نقصان ہوا لیکن تھوڑے ہی عرصے میں ان کے پاس اونٹ، بھیڑیں اور گھوڑے اتنے ہو گئے کہ وہ بارکل سے بھی زیادہ دولتمند ہو گئے۔ بدھ کے ہزاروں بتوں کے غاروں والا شہر تنگ ہوانگ اگرچہ پہاڑوں کی دوسری طرف ستّر میل کے فاصلے پھر بھی قازقوں کے لیے ضروریات کی خرید و فروخت کے لیے بہت اچھی منڈی تھی کیونکہ یہاں جاتری بہت آتے تھے حالانکہ قریب سے قریب شاہراہ سے بھی یہ چہر ستّر میل دور تھا۔

ان پندرہ ہزار قازقوں میں سے جو حسین تجّی اور سلطان شریف کے ساتھ بارکل سے آئے تھے کوئی پانچ ہزار، کچھ عرصے بعد چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر ہندوستان جانے کے ارادے سے دورانہ ہونے لگے۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں کتنے پہنچے اور کس راستے سے گئے، ہو سکتا ہے کہ وہ تبّت اور نیپال سے لاسا اور کھٹمنڈو ہو کر گئے ہوں یا غالباً ختن یا رقند اور کاشغر اور قراقرم پہاڑوں کو عبور کر کے گئے ہوں۔ جو غزکل میں رہ گئے تھے ان میں سے بعض گھبرا کر اپنے وطن واپس چلے گئے۔ کچھ ایسے تھے جو دوستوں سے ملنے وطن آتے جاتے رہے اور ان کے دوست ان سے ملنے کے لیے یہاں آتے جاتے ر ہے۔ اس طرح بہت قريبی تو نہیں لیکن

111

غزکل کے قازقوں اور دور شمال میں الطائی پہاڑوں اور تئین شان میں بسنے والے قازقوں میں تعلق قائم رہا۔ بھاٹ کارا ملّا ان قازقوں میں سے ایک تھا جو غزکل گئے اور ہندوستان تک ہو آئے مگر اس نے ہم سے کہا کہ ہندوستان اسے پسند نہیں آیا کیونکہ وہ مرطوب بھی تھا اور گرم بھی، اسی وجہ سے اس کے بہت سے بہادر ساتھی ملیریا، ٹائیفائڈ اور ہیضہ سے مر گئے۔ لہٰذا وہ مشرقی پاکستان واپس آ گیا اور ؁۱۹۵۰ء تک وہیں رہا۔ اس کے بعد واقعات کچھ ایسے رونما ہوئے کہ اس سے مجبور ہو کر انتخاب کرنا پڑا کہ واپس ہندوستان جائے یا اشتراکیت کو قبول کرے۔ فیصلہ کرنے میں اسے دیر نہیں لگی۔ حسین تجّی اور سلطان شریف نے بغیر یہ جانے ہوئے کہ دشمن دراصل اشتراکیت ہے ؁۱۹۳۰ء ہی میں فیصلہ کر لیا تھا پھر کارا ملّا کی طرح ان کے سامنے بھی یہی دو راہیں کھلی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اشتراکیت ان کے طرزِ زندگی کو کس طرح متاثر کرے گی، ویسے ہی انہوں نے بھی کارا ملّا کی طرح فیصلہ کر لیا۔

لیکن قدیم راہ ریشمیں تکلا مكان ،غرکل، تیمولک، خان امبل پہاڑوں اور تنگ ہوانگ پر تیرہ سال اور گزر جاتے ہیں تب قازقوں کی کہانی میں ان کی اہمیت کا وقت آتا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو ان کا حصّہ اس میں فیصلہ کن ہوتا ہے۔ لیکن اب ہم ؁۱۹۳۴ء میں واپس چلتے ہیں اور غزکل سے سات سو میل دور چل کر تیز دماغ حمزہ کو دیکھتے ہیں۔ وہ اب بارہ سال کا ہے اور اپنے کھائی یونس حجّی سے استدعا کر رہا ہے کہ ان کے پڑاؤ کے خیمے کی مسجد میں جو ملّا نے مکتب کھول رکھا ہے، اس سے نکال کر اسے کسی اور بہتر مکتب میں بھیج دیا جائے۔ آخر

112

میں یونس حجّی اس کی بات مان لیتا ہے اور حمزہ کو مناس بھیچ دیتا ہے جہاں قازق استاد عبداللطیف نے دریائے مناس کے کنارے اپنا ایک خیمہ لگا رکھا ہے اور شاگردوں کو "بنام خدا" درس دیتا ہے جیسا کہ قازق مکتب کے بچوں کے گیت میں اس کا مذکور ہے۔ حمزہ سچا مسلمان ہے لیکن تاریخ جغرافیہ حساب اور علم تعلیم میں صرف مذہبی نقطۂ نظر سے درک حاصل کرنا نہیں چاہتا بلکہ وسیع تر نقطۂ نظر سے بصیرت حاصل کرنی چاہتا ہے لہٰذا وہ اب کے مناس کے ایسے مکتب میں داخل ہوتا ہے جس کا معلم عبدالعزيز قازق نہیں ہے بلکہ ترک ہے۔

عبدالعزیز کی قومیت ہی اس بات کی علامت تھی کہ دو مونہی اشتراکی حکمتِ عملی منصوبے کے مطابق ٹھیک نہیں چل رہی۔ مقامی قوموں کو چینیوں کے خلاف اُبھارنے کی حد تک ان کی پالیسی پوری طرح کامیاب تھی لیکن انہیں ایک دوسرے کے خلاف بھی ابھار رہی تھی۔ انہیں یہ محسوس کرا رہی تھی کہ مشرقی ترکستان کے تمام غیر چینی بسنے والے جو پوری آبادی کے ۹۵ فیصدی تھے اگر آزادی حاصل کر پاتے ہیں تو انہیں متحد ہو جانا چاہیے۔ جب سویت کے خفیہ ایجنٹوں نے مقامی قوموں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے قومی شعور کو بڑھائیں تو ان کا مقصد ہرگز نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے مختلف قومی گروہوں میں اور ان تمام گروہوں اور چینیوں میں نا اتفاقی پھيلانی شروع کر دی۔ ماسکو جانتا تھا کہ ترکوں، قازقوں، منگولیوں، ازبکوں اور دوسروں میں اتحاد باہمی جس قدر بڑھے گا چینی حکومت سے چھٹکارا پا جانے کے بعد انہیں نگل جانا اسی قدر دشوار ہو جائے گا۔

عبدالعزیز اپنے شاگردوں کو نہ صرف مذہبی تعلیم دیتا بلکہ مذہب کے

113

علاوہ دوسری ہدایات بھی دیتا۔ صوبیدار شنگ نے سویت حکومت سے ؁۱۹۳۴ء میں جو معاہدہ کیا تھا اس کی رو سے اسکولوں کو اجازت نہیں تھی کہ آئندہ انگریزی کی تعلیم بدستور دیتے رہیں۔ اس کے علاوہ پورے صوبے میں مقامی زبان میں نئی کتابیں پڑھائی جانے لگیں۔ اس معاہدے کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا لیکں تمام کتابیں سویت حکومت کے مجوزہ نصاب میں داخل ہو گئی تھیں یعنی اس سے مطلب یہ ہوا کہ سویت حکومت نے سنکیانگ کے معاہدے پر دستخط ہونے سے بہت پہلے ہی سویت حكومت نے سنکیانگ کے چینی صوبے کو اشتراکی بنانے کی تدبیریں کر لی تھیں۔

نئی کتابیں بڑی احتیاط سے مرتب کی گئی تھیں تا کہ قازقی، ترکی اور منگولی معلمین اور والدین کو اس کا شبہ بھی نہ ہونے پائے کہ اشتراکیت اس ذریعے سے ان قوموں میں داخل کی جا رہی ہے۔ کتابیں مرتب کرنے والوں نے جا بجا سودی نظام کی خوبیوں اور نظام سرمایہ داری کی برائیوں کا موازنہ کیا تھا اور مشرقی ترکستان والوں کو باور کرایا تھا کہ آج کل نیم سرمایہ دارانہ نظام کے شکار ہو۔

مثال کے طور پر بارہ سال کی عمر والے حمزہ اور اس کے ہم سبقوں کو جہاز ٹیٹانِک کے ڈوبنے کا قصّہ کچھ اس طرح سنایا تھا۔

"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بہت بڑا جہاز تھا، دنیا میں اس سے بڑا جہاز اور کوئی نہیں بنا، اس کے مالک چند انگریز سرمایہ دار تھے انہوں نے اس جہاز میں ایک بینڈ رکھا تھا تا کہ مسافر خوب ہنسی خوشی سفر کریں۔ سارے مسافر جب عیش و عشرت میں پڑ گئے تو جہاز کے ملازم بھی

114

اپنے فرائض کی طرف سے بے پروا ہو گئے اور تساہل کرنے لگے، اپنے اپنے فرض سے وہ غافل ہو گئے اور خود بھی مزے اُڑانے لگے۔

پھر اچانک یہ ہوا کہ ایک دن آدھی رات کے بعد یہ بڑا جہاز ایک برف کے پہاڑ سے ٹکرا گیا۔ بینڈ نے جلدی سے ناچ کی والہانہ دھنیں بجانہ موقوف کر دیں اور اس کے بعد مذہبی دھنیں بجانی شروع کیں لیکن خدا سے اب رجوع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا چند منٹ میں جہاز ڈوب کر سمندر کی تہہ میں بیٹھ گیا صرف چند دولتمند سرمایہ داروں نے روپیہ دے کر کشتیوں میں جگہ حاصل کر لی اور ڈوبنے سے بچ گئے۔ باقی سارے مسافر اور جہاز کے ملازم غرق ہو گئے۔

ان کا حسرت ناک انجام دیکھ کی ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور سرمایہ داری کو ہمیں ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر جہاز کا کوئی سویت کپتان ہوتا اور جہاز کے ملازم سویت ہوتے تو ان غلطیوں کا ارتکاب کبھی نہ کرتے جن کے باعث ٹیٹانِک غرق ہوا اور اتنی ساری قیمتی جانیں اس کے ساتھ تلف ہوئیں۔"

اس قسم کی ہدایتی کہانیوں میں ملا کر صحیح سائنسی تعلیم دی جاتی تھی۔ چنانچہ حمزہ نے عبدالعزیز کی سویت کتب نصاب میں پہلی دفعہ پڑھا کہ دنیا گول ہے اسے یقین نہیں آیا اور وہ جو ملّا اسے مذہبی تعلیم دیا کرتا تھا اس سے دریافت کرنے جا پہنچا۔ ملّا نے اسے نہایت وثوق سے تاکید کی کہ ایسے
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 221
ایسے شخص کے ساتھ قدیم آداد و رسوم کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری تھا۔ اس لیے اس کے پاس جانے سے پہلے علی بیگ نے تیس قازق سرداروں کی ایک حُر الطائی طلب کی۔ یہ سردار علی بیگ کی ذاتی رہنمائی کو تسلیم کر چکے تھے۔ انہوں نے پہلے بنیادی سوال پر بحث مباحثہ کیا، اگر ہم اشتراکیت سے لڑیں تو ہمارے لیے جیت جانے کا کیا کوئی موقع ہے۔ سب کی رائے یہ ہوئی کہ جیتنے کا موقع ضرور ہے۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر ہم ہار گئے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کے بارے میں عموماً رائے یہ تھی کہ اس صورت میں قازق قبیلوں کو اپنے ریوڑ اور گلے تکلا مکان صحرا میں سے گذار کر غزکل کی طرف لے جانے چاہییں جہاں بوکو بطور نے اپنی آخری لڑائی لڑی تھی۔ اور جہاں 1936ء؁ میں حسین نجی اور سلطان شریف نے پناہ لی تھی۔ اور اس وت سے اب تک محفوظ و مامون رہے تھے۔ جنگی کونسل نے محسوس کیا کہ یہ دور دراز مقام اشتراکیوں کے لیے اس قدر فاصلے پر ہے کہ وہ ان کے لیے اپنے آپ کو زحمت نہیں دین گے۔ اور بعد میں جب جبر و تشدد ختم ہو جائے گا جیسا کہ ہر جبر و تشدد ختم ہی ہو جایا کرتا ہے تو ہم اپنے اپنے گھروں کو یہاں سے سدھار جائیں گے۔ ایسی صورتیں کئی بار ان کے آبا و اجداد کے زمانے میں پیش آ چکی تھیں لیکن اب کی بار یہ صورت اب تک پیش نہیں آئی تھی۔

یہ عام فیصلے کرنے کے بعد کونسل نے دانگ کا اتحاد حاصل کرنے کے فوری سوال پر توجہ دی۔ یہ خدمت علی بیگ کے سپرد کی گئی اور تفصیلی ہدایات آداب و رسوم اور عملی موضوعات مرتب کی گئیں۔ علی بیگ کو اپنے ساتھ دو نہایت عمدہ گھوڑے چھانٹ کر لے جانے اور دانگ کو پیش کرنے تھے۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 222
اگر ان کے بدلے دانگ نے دو اتنے ہی اچھے گھوڑے علی بیگ کو نہیں دیے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ مرحلہ ختم ہو گیا۔ لیکن اگر ابتدائی باتیں بخیر و خوبی ختم ہو گئیں تو اگلا قدم قسموں اور حلف کے تبادلے کا ہونا چاہیے۔ اس صورت میں وانگ کو اس طرح قسم کھانی پڑے گی کہ اس کا منہ رائفل کی نال پر ہو۔ ایک کارتوس اس کے سر۔ اگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو علی بیگ کو کوئی معقول عذر کر کے گھر واپس آ جانا چاہیے اور قازق سرداروں کے جو جنگی منصوبے ہیں ان کا کوئی تذکرہ وہ اس سے نہ کرے۔ اس موضوع پر جنگی کونسل نے تفصیل سے بحث کی۔ بعض کا خیال تھا کہ وانگ کو کسی صورت میں یہ نہیں بتانا چاہیے کہ قازق میدان جنگ میں اپنے کتنے آدمی لا سکیں گے اور انہیں اشتراکیوں کے خلاف کس طرح استعمال کریں گے۔ یہ بڑی احمقانہ بات ہو گی۔ اوروں کا کہنا یہ تھا کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ دانگ تمہیں یہ بتائے کہ وہ کتنی فوجیں دے سکتا ہے اور وہ کس حد تک ہتھیار بند ہیں تو ہمیں بھی اسے اسی قسم کی معلومات مہیا کرنی چاہیے لہٰذا علی بیگ کو اس کا اختیار دے دیا گیا کہ سب کچھ دانگ کو بتا دے۔

دانگ نے علی بیگ کا خیر مقدم گرم جوشی سے کیا اور تحفوں اور قسموں کا تبادلہ دونوں کے حسب مرضی ہو گیا۔ دانگ نے اسے بتایا کہ وہ کتنے آدمی دے سکتا ہے۔ اور علی بیگ نے اس سے کہا کہ جب ان کی ضرورت ہو گی تو اطلاع دی جائے گی۔ اس وقت تک دانگ کو اور کچھ نہیں کرنا تھا۔

جب اس کا وقت آیا تو اس وقت بھی دانگ نے کچھ نہیں کیا لیکن دھوکا یا فریب نہیں کیا بلکہ واقعات ہی کچھ اس قدر تیزی سے بدلتے جا رہے تھے۔

دانگ سے یہ ملاقات 8 جولائی 1949ء؁ کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد بظاہر


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 223
کچھ سکون رہا۔ مگر اشتراکی صوبے کو اپنے قبضے میں لینے کے منصوبے بناتے رہے۔ 5 اگست کو ہال پیکسٹن سے ایک اور ملاقات ہونے والی تھی جس میں کل قازق سردار تحریک مقاومتِ متحدہ کی ترقی کی کیفیت اس سے بیان کرنے والے تھے۔ لیکن وقت کے وقت عثمان بطو نے کہلا بھیجا میں شریک نہیں ہو سکوں گا۔ اس لیے یہ ملاقات ملتوی کر دی گئی۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد مسٹر پیکسٹن اُرمچی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے، جاتے ہوئے وہ اپنے اختیارات اپنے نائب قونصل ڈگلس میکیرنن کو سونپ گئے تھے۔

علی بیگ کو اس کی اصل وجہ معلوم نہ ہو سکی کہ عثمان بطور اس ملاقات میں شریک کیوں نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ اس ملاقات میں کوئی ایسا شخص بھی شریک ہو رہا ہو جس پر عثمان بطور کو اعتماد نہ ہو لیکن اغلب یہ ہے کہ وہ نگرانی کی چوکیوں اور گشتی دستوں کے اس جال سے نہیں نکل سکتا تھا، جو تاؤ کی چینی فوجوں نے پھیلا رکھا تھا۔ مصالحتی دستے جسے چاہتے روک دیتے اور صرف ساتھ زندگی بسر کرنے والوں کو گزر جانے دیتے۔ ان دوستوں نے علی بیگ کے اس قاصد کو گرفتار کر لیا تھا جسے کارا شہر کے منصوبوں سے آگاہ کرنے کے لیے عثمان بطور کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس بدبخت نے اذیتیں پانے پر راز کی کتنی باتیں بتا دیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اشتراکیوں نے بڑی کامیاب جاسوس لگا رکھے تھے اور انہیں قازقوں کے ارادوں اور نقل و حرکت کی ساری خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔

جب اگست 1949ء؁ بالآخر ختم ہونے لگا تو چینی قوموں کا اقتدار اُرمچی سے اُٹھ جانے کی صرف تاریخ کا تعین باقی رہ گیا۔ صوبائی صدر برہان شہیدی اور دوسرے خفیہ اشتراکیوں نے اپنے نقلی چہرے اُتار ڈالے

عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 224
تھے اور کھلم کھلا ہشت راہ لشکر کی آمد کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اشتراکیوں کے مخالف جو بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے تھے جو باقی رہ گئے تھے وہ پر تول رہے تھے، جنہوں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا وہ صبح ڈرتے ڈرتے اٹھتے کہ دیکھیے آج کا دن کیا دکھاتا ہے۔ بہت سی دکانیں بند ہو گئی تھیں۔ بہت سے مکان خالی پڑے تھے۔ اگر گھر والوں کو راہ فرار معلوم ہوتی تو اس سے بھی زیادہ مکان خالی نظر آتے۔

قازق وزیروں میں سے جانم خان اور اس کے بیٹے دلیل نے بارکل میں عثمان بطور سے جا ملنا طے کیا لیکن اپنے دوستوں تک کو اپنے ارادے کی ہوا نہیں دی۔ کسی نہ کسی طرح وہ چند مسلح آدمیوں کے ساتھ حفاظت سے بارکل پہنچ گئے۔ عثمان بطور کو ایک اور حلیف بارز مل گیا تھا۔ یہ وہ قوی ترک تھا جس نے اپنے گرد استراکیوں کے مخالفین کا ایک ملا جلا گروہ جمع کر لیا تھا۔ ان میں چند اسی کی طرح کے ترک تھے۔ لیکن زیادہ تر وہ چینی فوجی تھے جنہوں نے اشتراکیت کو قبول نہ کرتے ہوئے تاؤ کی مصالحتی فوجوں سے کنارہ کر لیا تھا۔ یول بارز خود ستر سال کا تھا لیکن اس کی عمر نہ نہ تو اس کا حوصلہ کم کیا تھا اور نہ ارادوں کو متزلزل کیا تھا۔

جانم خان کے سوا بہت سے قازق سرداروں نے ارمچی ہی میں رہ جانا پسند کیا۔ اس خیال سے کہ وہ تئین شان پہاڑوں سے کچھ زیادہ دور نہیں تھی اور اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے پر وہ ان پہاڑوں میں پناہ لی سکتے تھے۔

ستمبر کے دن آہستہ آہستہ گزرتے گئے اور شہر میں کھنچاؤ بڑھتا گیا۔ہشت راہ لشکر کے آنے میں دیر کیوں ہو رہی تھی؟ جب وہ آ جائے گا تو کیا وہ بھی شنگ اور اس کے لال ڈاڑھی والوں کی طرح ظلم و ستم کرتے گا۔ کیا یہ لشکر اپنے ساتھ


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 225
شنگ کے روسی تربیت یافتہ اور روسیوں کے اشاروں پر چلنے والی خفیہ پولیس اور گمنام درخواستوں کے لیے سفید بکس بھی لائے گا۔ شنگ جس ذاتی کاروبار اور ذاتی ملکیت کو ضبط نہیں کر سکا تھا، اس کا اب کیا ہو گا۔ ان افراد کا انجام کیا ہو گا۔ جنہوں نے ذاتی طور پر سیاسیات میں کبھی حصہ نہیں لیا اور ان کا جنہوں نے حصہ لیا۔ کیا نئے آقا دوبارہ عوامی کاموں کے لیے جبریہ مزدوری اسی طرح کرائیں گے جیسے شنگ نے اپنے زمانے میں کرائی تھی اور اس کے خلاف بہت غم و غصہ پھیلا تھا۔

دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اشتراکیوں کے واقعی برسراقتدار آ جانے سے بہت عرصہ پہلے ہی انہیں درو رکھنے کے لیے ارمچی کے باشندوں کی تمام امیدیں مٹ چکی تھیں۔ باہر پہاڑوں میں جو قازق تھے صرف انہی میں مقابلہ کرنے کا حوصلہ اب باقی رہ گیا تھا۔ اور بہت سے قازق کچھ ایسی حرکتیں کرنے کی سوچ رہے تھے کہ روسی ان سے تنگ آ کر مصالحت کی کچھ شرائط طے کر لیں اور غیر مشروط اطاعت قبول کرنے پر مصر نہ ہوں۔

اشتراکیوں نے جو پہلی چال چلی اس کا کسی کو سان گمان بھی نہیں تھا۔ سارے شہر میں اعلانات چسپاں کرا دیے گئے کہ اگلے دن ہر باشندہ شاہراہ پر جا کر روسی ہوائی اڈے پر جانے والے ہشت راہ لشکر کو خوش آمدید کہے۔ جو شخص بھی صبح دس بجے کے بعد گلیوں یا گھر میں بغیر پولیس کے خاص اجازت نامے کے پایا جائے گا، اسے بغیر کسی مقدمے کے فوراً گولی مار دی جائے گی۔

اس وقت اُرمچی میں تین ہوائی اڈے تھے جو چینی، امریکی اور روسی کہلاتے تھے۔ روسی ہوائی اڈہ شمال مغرب مین تھا۔ شہر کے دروازوں سے کوئی چھ میل دُور اس دارالحکومت کی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی، جنہیں اپنی


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 226
جان کی خطرہ تھا۔ وہ سب جا چکے تھے۔ پھر بھی ایک لاکھ تیس ہزار باقی رہ گئے تھے۔ لٰہذا صبح سویرے ہی سے ہوائی اڈے کی سڑک پر لوگ انبوہ در انبوہ چلے جا رہے تھے، بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں بہت سوں کی گودوں میں بچے تھے۔ تندرست اور بیمار، غریب اور امیر، ستمبر کا آغاز تھا اور جب سورج چڑھا تو ساری فضا خاک سے اٹ گئی اور سانس گھنٹے لگا۔ گرمی ناقابل برداشت ہو گئی، ہوا بالکل بند تھی اور ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں کے گھسیٹتے ہوئے قدموں سے جو خاک اڑ رہی تھی، فضا میں بادلوں کی طرح چھا رہی تھی اور کپڑوں پر برس رہی تھی۔ آزادی دلانے والوں کا استقبال کرنے جو لوگ جا رہے تھے ان کے حلق اور پھیپھڑوںمیں یہ خاک گھسی جا رہی تھی۔

یہ انبوہِ کثیر سارے دن ہوائی اڈے پر انتظار کرتا رہا۔ لیکن ہشت راہ لشکر نہیں آیا۔ آخر میں لوگوں کو گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی گئی اور جب وہ تھکے ہارے اور بھوکے پیاسے واپس پہنچے تو تازہ اعلانات نے انہیں خبردار کیا کہ اگلے دن پھر ہوائی اڈے جائیں، دوسرے دن بھی سب گھسٹتے ہوئے گئے اور لشکر نہیں آیا، لیکن تیسرے دن ہشت راہ لشکر یا اس کا پیش دستہ سچ مچ آ گیا۔ کوئی دو سو روسی ڈکوتا ہوائی جہاز جنہیں روسی جہاز راں چلا رہے تھے۔ فوجیوں کو بھر بھر کے لاتے اور اڈے پر اُتارتے رہے۔ کوئی چار پانچ ہزار چینی اشتراکی فوجی اور ان کے روسی اسلحہ اسی طرح اُتارے گئے۔ یہ جہاز آتے جاتے اور اپنا بوجھ اتارتے جاتے اور جمع شدہ انبوہ اطاعت شعاری سے آزادی دلانے والوں کے لیے نعرے لگاتا۔ نعرے لگوانے والے سرکاری آدمیوں کے آواز اٹھانے پر مجمع کے دل نہیں صرف آوازیں ساتھ دیتی رہیں، وہ اور


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 227
کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے ورنہ ان کے گولی مار دی جاتی۔ ان کی تصویریں بار بار اُتاری جا رہی تھیں تاکہ اگر کسی کا مُنہ بند ہو یا چہرہ افسردہ ہو یا ہاتھ میں جھنڈیاں نہ ہوں تو اس کا پتہ چل جائے۔ شہر اور ہوائی اڈے کے درمیان انسانی سمندر تین دن تک اترتا چڑھتا رہا۔ اگر کسی کے دل میں مخالفانہ مظاہرہ کرنے کی تجویز بھی تھی تو سیل کر رہ گئی۔

جو اشتراکی ارمچی میں پہلے سے موجود تھے، وہ اس تین دن کی لازمی جاترا میں بیکار نہیں رہے۔ پارٹی کے معتمد ممبروں اور پولیس نے سارے شہر کو ایک ایک گھر کر کے بدخواہوں اور مخالفانہ دستاویزوں اور قیمتی چیزوں کے لیے بھی چھان مارا۔ اس طرح جو معلومات اور رقمیں حاصل ہوئیں، ان سے چین کی اشتراکی پارٹی نے صوبے میں مصالحت کا اگلا قدم اٹھایا۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کتنے بدنصیب ہوائی اڈے نہ جانے کی پاداش میں یا گھروں سے مجرم قرار دینے والا سامان برآمد ہو جانے کی وجہ سے گولیوں کا نشانہ بنے یا سنگینوں پر چڑھے۔

قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کسی نے بھی اس کاروائی کا سارا نظام کیا تھا، وہ قازق اور منگول تاریخ کا عالم تھا، کیونکہ مفتوحہ شہر کے تمام باشندوں کو باہر نکل کر اپنے فاتحوں کا خیر مقدم کرنے پر مجبور کرنے کا دستور چنگیز خاں کا بنایا ہوا تھا۔ ایڈورڈ سویم نے جو چنگیز خاں کا ہمعصر تھا اس میں ترمیم کی کہ کیلے کے شہریوں کو حکم دیا کہ گلوں میں طوق و زنجیر ڈال کر رحم کی التجا کرنے شہر سے باہر آئیں، لیکن اشتراکیوں نے ارمچی کے بسنے والوں سے اپنی اطاعت گذاری کا تین دفعہ مظاہرہ کرا کے چنگیز خاں کو بھی مات کر دیا۔

ہشت راہ لشکر کی آمد کی خبر آس پاس کی آبادیوں میں فوراً پھیل گئی


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 228
چند گھنٹوں ہی میں یہ خبر علی بیگ نے کیوکلوک کے قریب کیومش میں سُن لی۔ اس نے حمزہ اور اشتراکیوں کے مخالف پرچے "ریویو" کے تقسیم کرنے والوں کو پچاس گھوڑوں کے ساتھ ایک طے شدہ مقام اتصال پر بھیج دیا۔ یہاں سے انہیں اُرمچی میں بعض قازق سرداروں کو قاصدوں کے ذریعے یہ اطلاو بھجوانی تھی کہ یہاں ان کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے پانچ سردار ہمارے قصے میں اہم حصہ لیتے ہیں : سعالی اور جانم خان، یہ دونوں صوبائی حکومت کے رُکن تھے اور ان سے ہم پہلے مل چکے ہیں۔ ایک دولتمند تاجر عادل اور عبد الکریم مورخ، پانچویں کا نام خدادان ہے۔ یہ ایک بوڑھے بااثر قازق سردار کی بیوی تھی۔ اس سردار کو سب خدادان کا شوہر کہا کرتے تھے کیونکہ قبیلہ پر حکم بیوی ہی کا چلتا تھا اور سردار کے انتقال کے بعد اس کی گدی بیوی ہی نے سنبھال لی تھی۔ سب ملا کر کوئی پندرہ سردار تھے جن کے پاس حمزہ اور قائینش نے قاصد روانہ کیے۔ ان سب کو اپنے ساتھ، اپنے بال بچے، مسلح ملازم، ہتھیار بند ساتھ اور اپنی قیمتی چیزیں بھی لانی تھیں۔ بشرطیکہ اشتراکیوں کی تیز نگاہوں سے انہیں اب تک بچائے رہے ہوں۔

یہ جائےاتصال پیائی یانگ کئومیں تھی۔ پہاڑوں میں یہ ایک دلکشا مقام تھا۔ حمزہ نہیں جانتا تھا کہ تاؤ کی مصالحتی فوج یا خود دہشت راہ لشکر نے اس کی موجودگی کا پتہ چلا لیا تھا یا نہیں۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اطلاع پا کر وہ ناکہ بندی نہ کر دیں۔ اس لیے اس نے اس چھوٹی سی بستی کے باہر محافظ متعین کر دیئے تاکہ تمام راستوں کی نگرانی کرتے رہیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ آنے والوں کے انتظار میں بیٹھ گیا۔

جن مہاجرین کو دعوت دی گئی تھی وہ اپنے اپنے گھر بار لے کر آنے


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 229
لگے۔ یہاں تک کہ جانم خان اور خدادان کے سوا سب آ گئے۔ سعالی اپنے ساتھ بہت سے سفید روسیوں کو لے آیا۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ اگر روسیوں کے ہاتھ میں پڑ گئے تو جان سلامت نہیں رہ سکتی۔

کئی گھنٹے بعد خبر آئی کہ جانم خان اور اس کا بیٹا دلیل چند ساتھیوں کے ہمراہ خفیہ طور پر عثمان بطور کے پاس بارکل چلے گئے اور کسی کو اپنی روانگی کی اطلاع نہیں دی، اس قاصد کے بعد ہی دوسرا قاصد یہ خبر لایا کہ خدادان نے اُرمچی ہی میں ٹھہرے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حمزہ نے کہا، "مجھے یہی توقع تھی۔ کیا ہم پہلے سے نہیں جانتے تھے کہ کوئی ہمارے بھید اشتراکیوں کو دے رہا ہے۔ اب بات صاف ہو گئی کہ باغی کون ہے۔"

قائینش نے فلسفیانہ انداز میں کہا، "شاید مٹاپے کی وجہ سے وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتی۔ ہاں اپنے شوہر کے سر پر ہر وقت سوار رہتی ہے۔"

حمزہ بولا، "وہ اتنا بڈھا ہے کہ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ خیر ان باتوں میں ہم اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ دشمن کے ہم پر آن پڑنے سے پہلے ہمیں یہاں سے چل دینا چاہیے۔"

قائنیش نے کہا، "ہم پچاس ہیں، ہزار پر بھاری پڑیں گے۔"

حمزہ نے جواب دیا، "یہ سچ ہے۔ لیکن ہم لڑنے نہیں آئے۔ پیٹ بھر کے لڑنے کا وقت بھی آ رہا ہے۔"

قائنیش نے کہا، "سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔"

یہاں سے سب گھوڑوں پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔

راستے میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی۔ اسب سب خیریت سے


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 230
کیومش پہنچ گئے۔ چند روز بعد علی بیگ کو اطلاع ملی کہ خداوان واقعی اشتراکیوں سے جا ملی ہے۔ نہ صرف اپنے شوہر کو ساتھ لے گئی ہے بلکہ اس پورے قبیلے کو بھی دشمنوں میں لے گئی جس کے سربراہ دونوں میاں بیوی تھے۔یہ ایک کاری ضرب تھی جس سے علی بیگ اور عثمان بطور کے لڑنے والے آدمیوں میں خاصی کمی ہو گئی۔ صرف یہی عورت ایک نمایاں قازق سربراہ تھی جو بغیر لڑے جھگڑے خوشی سے اشتراکیوں کی طرف دار ہو گئی۔ شاید قائینش نے جو فقرہ اس کے بارے میں ازراہ تمسخر کہا تھا سچ ہی تھا، قازق مہاجروں کا بیان ہے کہ وہ عورت کیا تھی، پہاڑ تھی اور شاید وہ سمجھتی ہو گی کہ لڑائیوں کی باگ ڈور اس کے بس کی نہیں ہے۔ اس کے آ ملنے سے اشتراکیوں کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ اب تک زندہ ہے اور 1953ء؁ تک یہی اطلاع تھی کہ وہ اپنے قبیلے کی سربراہ ہے۔

ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ ترکی میں جو قازق مہاجر تھے اس پر اعتراض کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔

ان میں سے ایک نے اس کی توضیح یوں کی کہ "جو کچھ مرد کرتا ہے وہی عورت بھی کرتی ہے۔ ہر شخص کا معاملہ اپنے اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر ہم اس کی جگہ ہوتے تو شاید ہم بھی وہی کرتے جو اس نے کیا۔ لیکن اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی اس کی بُرائی کو جانچے گا۔"

لیکن اگر قازق کہیں اشتراکیوں کو شکست دے دیتے اور خدادان ان کے ہاتھ میں آ جاتی تو اُسے مار ڈالتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 286
بھیانک اور عظیم کنلُون پہاڑوں کی طرف روزنہ ہو گئے۔ ان پہاڑوں سے یہ لوگ واقف نہیں تھے۔ صرف اتنا جانتے تھے کہ ان کی دوسرے طرف تبت کی اجنبی سرزمین ہے جس پر گزر کر انہیں ہندوستان پہنچنا تھا۔ ہر گروہ نے اپنا راستہ خود انتخاب کیا اور ہر ایک کو نئے نئے واقعات پیش آئے۔ ان کی طرح جو چودہ مہینے پلے کیوکلوک سے روانہ ہو کر اشتراکی چوکیوں سے بچ نکلے تھے۔ بعض تبت میں خوش نصیب رہے کہ اس میں سے گزرنے میں انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا اور تبت کے رہنے والوں اور تبت کے پہاڑوں سے انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ کچھ ایسے تھے جن کے مرد، عورتیں اور بچے آدھے مر گئے اور ان کے جانور آدھے ضائع ہو گئے۔ سب کو اپنا وطن چھوڑنے سے نفرت تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دوبارہ یہاں واپس آنا نصیب نہیں ہو گا لیکن واپس جانے کا خیال کسی کو خواب میں بھی نہیں آیا۔

علی بیگ کے ذاتی گروہ میں اب کے دو سو چونتیس افراد تھے۔ انہیں میں حمزہ اور قائینش مع اپنی بیوی بچوں کے تھے۔ علی بیگ کی تین بیویاں چھ بچے اور صرف ایک بھائی جو بچ رہا تھا ساتھ تھا۔ باقیوں میں کوئی ایک سو چالیس مرد تھے اور باقی عورتیں اور بچے۔ ان کے ساتھ کئی ہزار بھیڑیں، کئی سو مویشی اور گھوڑے اور کوئی ساٹھ اونٹ تھے۔ جن میں سے ایک پر۔۔۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، علی بیگ کی زبردست دیگ لدی ہوئی تھی۔

یہ قافلہ رول کی شکل کی جھیل سے فروری کے پہلے ہفتے کے آخر میں روانہ ہوا۔ غزکل کی لڑائی ختم ہونے کے چوتھے دن ہی، اور اس سڑک پر چل پڑا جو علی بیگ نے ڈگلس میکیرنن کے لیے تجویز کی تھی۔ ان کا پہلا مقابلہ اشتراکی فوجوں سے روانہ ہونے کے دوسرے دن ہوا اور آخری مقابلہ


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 287
اس وقت ہوا جب کشمیر کی سرحد پر وہ داخلے کی اجازت آ جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہندوستان کی سرحد پر وہ 8 اگست 1951ء؁ کو پہنچے۔ جھیل غزکل سے روانہ ہونے کے ساڑھے چھ مہینے بعد۔ اس عرصے میں انہوں نے بامِ دنیا کے نہایت بنجر اور غیر متواضع علاقے میں سفر کیا۔ راستے میں انہیں کئی لڑائیاں لڑنی پریں اور کتنی ہی چھوٹی بڑی جھڑپیں بھی ہوئیں اور تقریباً اس سارے عرصے میں انہیں قدرتی رکاوٹوں سے اتنی شدید کش مکش کرنی پڑی کہ شاید ہمالیہ کی چوٹیوں ایورسٹ اور کنچن چنگا کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں ہی کو کرنی پڑی ہو گی۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 288
گیارہواں باب

بامِ دُنیا پر

جو لوگ ان سے واقف نہیں تھے۔ وہ غزکل سے قازقوں کو نکلتے دیکھ کر سمجھتے کہ حملہ آور انہیں بڑی آسانی سے ہلاک کر ڈالیں گے۔ ہزاروں بھیڑیں جن میں کئی کے ہاں بچے ہونے والے تھے، بے قاعدگی سے راستہ کے دونوں طرف برف میں کہیں کہیں جھانکتی ہوئی زرد گھاس پر مُنہ مارتی چلی جا رہی تھیں۔ بھیڑوں ہی میں بیل اور گائیں گھریلو سامان سے لدی پھندی بکھری ہوئی تھیں۔ بچے دینے والی گھوڑیوں پر بوجھ لدا ہوا نہیں تھا اور وہ خراماں خراماں چلی جا رہی تھیں۔ بعض گھوڑیوں کے پیچھے ان کے بچے لگے ہوئے تھے۔ گھوڑے بھی بہت سارے تھے اور اپنی گھوڑیوں اور بچوں کی طرف رشک سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے علاوہ دو کوہان والے بالوں دار اونٹ تھے۔ جن کے بال جاڑے کی وجہ سے بڑھے ہوئے تھے۔ ایک کی نکیل دوسرے کی دُم سے بندھی ہوئی تھی۔ یوں سب ایک قطار میں چل رہے تھے۔ ان پر سامانِ جنگ لدا ہوا تھا۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 289
فالتو ہتھیار، نمدے دار خیموں کے حصے، لکڑی کے چوکھٹوں پر احتیاط سے لپٹے ہوئے، لکڑی کے بڑے بڑے صندوق جن پر پیتیلی چادریں چڑھی ہوئی تھیں، ان میں لباس تھے۔ ضروری کاغذات تھے اور شاید کچھ کتابیں بھی تھیں۔ خصوصاً قرآن شریف اور ایک اونٹ تھا جو سب سے اونچا اور طاقتور تھا، یہ اپنی پیٹھ پر صرف علی بیگ کی زبردست دیگ اٹھائے بڑی فخر سے چل رہا تھا۔

ان جانوروں کی نگرانی گھوڑوں پر سوار مرد، عورتیں اور بچے کر رہے تھے۔ کم سنوں کو چھوڑ کر باقی سب کے ہاتھوں میں ہتھ گولے، رائفلیں، مشین گنیں یا خود کار ہتھیار تھے۔ دس برس کی عمر سے جو بھی اوپر تھا، مرد ہو یا عورت، ہرا یک ان میں سے ہر ہتھیار کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ اس پھیلے ہوئے بے ترتیب قافلے کے آگے اور پیچھے اور پہلوؤں میں گھڑ سوار مردوں کا ایک حجاب سا بنا ہوا تھا۔ جانور آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور یہ نگراں ان سے کچھ فاصلے پر زمین کی ناہمواری اور برف کی گہرائی کے لحاظ سے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔

تارکین وطن کے اس قافلے کے لیے علی بیت نے ایسا راستہ انتخاب کیا تھا جو آباد شاہروں اور بستیوں سے دُور ہے تاکہ اس قافلے کی اشتراکیوں سے اچانک مڈبھیڑ نہ ہونے پائے۔ اس قافلے کا رُخ جنوب کی طرف تھا۔ انہیں الطائین پہاڑوں میں سے گزر کر تبت کی شمالی سرحد پر کنلُون پہاڑوں میں جانا تھا۔ علی بیگ جانتا تھا کہ ان پہاڑوں کے پیچھے تبت کی عظیم سطح مرتفع ہے جو سطح سمندر سے بارہ پندرہ ہزار فٹ اونچی ہے۔ لیکن غزکل سے نکلنے کے بعد وہ ایسے علاقہ میں آ گیا تھا جس کا نہ تو کبھی


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 290
کوئی نقشہ بنا اور نہ کبھی کسی نے اس علاقے میں سفر کیا تھا۔ علی بیگ کا بیان ہے کہ ہم سے پہلے اس علاقے کو کسی نے طے نہیں کیا۔ اس کا ہمیں یقین ہے۔

یہ بات جلدی ہی کُھل گئی کہ غزکل کی لڑائی کے بعد جب اشتراکی واپس چلے گئے تو انہوں نے دیکھ بھال کرنے والے گشتی دستے متعین کر دیے تاکہ قازقوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ سفر کے شروع ہی میں علی بیگ کا قافلہ ایک ایسے ہی دستے کے پھندے میں پھنسنے سے بال بال بچ گیا۔ خوش قسمتی سے علی بیگ نے اپنی دور بین سے سامنے کی پہاڑیوں کا جائزہ لیا۔ اس وقت ان کے راستے کے دونوں طرف چٹانیں تھیں جہاں آگے جا کر یہ گھاٹی تنگ ہوتی تھی وہاں علی بیگ کو شبہ ہوا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ اس نے پتہ لگانے کے لیے چند آدمیوں کو آگے بھیجا۔ جب وہ آگے بڑھ کر ان چٹانوں پر چڑھے تو اچانک کوئی بیس اشتراکیوں کے ایک دستے کے سر پر پہنچ گئے۔ یہ انہیں دیکھتے ہی اپنے گھوڑوں کی طرف بھاگے اور دونوں طرف سے گولیوں کے چلنے کے بعد اوپر وادی کی طرف فرار ہو گئے۔ علی بیگ نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ اور کچھ دیر بعد وہ بھی رک گئے، تاکہ قازقوں پر نگرانی جاری رکھیں۔

لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ راستہ چھوڑ کر ایک پہلو کی وادی میں مڑ گئے اور علی بیگ کو ان کے پیچھے اپنے آدمی بھیجنے پڑے۔ اس اندیشے سے کہ کہیں قافلے کے ادھر سے گزرنے پر وہ پہلو سے حملہ نہ کر دیں۔ لیکن اشتراکیوں نے اس وقت تک حملہ نہیں کیا جب تک کہ پورا قافلہ گزر نہ گیا۔ اس کے بعد وہ پہلو کی وادی سے نکل "حد ادب" رکھتے ہوئے تعاقب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ101
علی بیگ کا ابتدائی حصۂ عمر نسبتاً پُرامن گزرا۔ اس کا باپ رحیم بیگ ایک سرخیل تھا جس کا کام چینیوں سے لڑنا نہیں بلکہ ان سے گفت و شنید کرنا تھا، بلکہ ان کے مطالباتِ زر میں کمی کرانے کے لیے رشوت دینا بھی تھا۔ اس نے اپنے بیٹوں کو قازقوں کے روایتی طرز زندگی کے مطابق پروان چڑھایا۔ لٰہذا علی بیگ جب دس سال کا ہوا تو خیمے کے مکتب میں ملا سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوا۔ اس سے پہلے ہی اسے اپنے باپ کی بھیڑیں چرانے کی خدمت سونپ دی گئی تھی اور سترہ سال کی عمر تک وہ اس خدمت کو انجام دیتا رہا۔

حمزہ کی پرورش بالکل مختلف طریقے پر ہوئی۔ جب وہ سات سال کا ہو تو اس کے باپ کا انتقال ہو گیا اور اس کی دیکھ بھال اس کے ایک بڑئ بھائی یونی حجی کے سپرد ہوئی جو بوکو بطور کے ماتحت یک ہزاری سردار تھا اور اسی نسبت سے وہ الطائی کے عثمان سے قریبی وابستگی رکھتا تھا۔

یونس حجی بوکو بطور کے ساتھ تبت نہیں گیا، شاید اس وجہ سے کہ اس میں چھاپہ ماری کا جذبہ زیادہ شدت سے کارفرما تھا۔ اسے خون میں سنسنیاں دوڑانے والے کارنامے اس سے زیادہ پسند تھے کہ صحراؤں اور پہاڑوں کو عبور کر کے اس جنتِ ارضی میں پہنچ کر دائمی امن کی فضا میں اپنے مویشی چرانے لگے جس کا سکون خطرے میں پڑ چکا تھا۔ چنانچہ حمزہ کی زندگی کے ابتدائی سال بلکہ تیس سال تقریباً مسلسل محاربوں میں گزرے تھے۔ وہ اس سال مکتب میں داخل ہوا تھا جس سال اس کے باپ کا انتقال ہوا، مگر اُسے تین سال بعد ہی مکتب چھوڑ دینا پڑا۔ کیونکہ


صفحہ102
1932ء؁ میں جب وہ دس سال کا تھا تو بڑا بھائی مقامی مسلمانوں کے ان گروہوں میں شریک ہو گیا، جو صوبے کی چینی حکومت سے برسر پیکار تھے۔ خانہ بدوش قازق جب چھاپہ ماری کی لڑائی لڑتے تو اس میں نہ صرف مرد شریک ہوتے بلکہ عورتیں اور بچے بھی۔ اپنے گھروں کا سامان اور ریوڑ اور گلے بھی ان مقاموں کے قریب لے جاتے جہاں انہیں جدال و قتال کے لیے جانا پڑتا۔

لہٰذا دو سال تک یعنی دس سال کی عمر سے بارہ سال کی عمر تک، حمزہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا اور بعض اوقات اپنے بھائی کی طرح کیسی کی چھینی ہوئی بندوق یا طپنچہ یا تلوار ہی لے کر لڑائی میں شریک ہو جاتا۔ دوسرا اتنا ہی اہم کام وہ یہ بھی سیکھ گیا کہ بڑی بڑی نمدے کے خیمے اونٹوں اور مویشیوں پر کس طرح پندرہ منٹ کے اندر اتارے اور تہہ کر کے لادے جا سکتے ہیں تاکہ وہ دشمن کے ہاتھ نہ پڑ سکیں۔ جب وہ سوتا تو اپنی بندوق، گولی بارود اور تلوار اور ان کے ساتھ اپنے گھوڑے کی لگام اور زین بھی اتنے قریب رکھ کر سوتا کہ فوراً ہی ان تک رسائی ہو جائے۔ یہ بات بھی اس نے سیکھ لی تھی۔

کم سنی کے باوجود چھاپہ ماری میں حمزہ کتنا مشہور ہو گیا تھا۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکت اہے کہ اس کا نام اشعر پڑ گیا تھا یعنی اتنی ہوشیاری سے بچ جانے والا جیسے کہ مکھی بچ جایا کرتی ہے۔

ہمیں حمزہ نے اس کی کہانی سنائی، جیسی کچھ بھی اسے یاد تھی کہ اس موقع پر اس کے بھائی نے کیوں حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ سنکیانگ کے چینی صوبہ دار یانگ تسنگ ہے ہن کو جس سے بوکو بطور لڑتا اور


صفحہ103
ناکام ہوتا رہا، 1928ء؁ میں چینی دشمنوں ہی نے مار ڈالا تھا۔

قازق او کو ایک جانور سمجھتے تھے لیکن ایک انصاف پسند جانور، یا اگر ایسا نہیں تو کم از کم ایسا جانور جس کے ساتھ احترامی سلوک کیا جائے۔ لیکن جو حکومت اس کے مرنے کے بعد قائم ہوئی، اس نے قازقوں اور دوسرے مقامی مسلمانوں کو دبانا شروع کر دیا۔ ان مسلمانوں میں ترک تھے اور تن گن بھی جو ترک نہیں تھے، چینی تھے۔ سنکیانگ کی سرحد پر چین کے شمال مغربی صوبوں میں بھی بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں ایکن تنگن جنرل ماؤچنگ ین نے 1929ء؁ میں اتنی کامیابی کے ساتھ علم بغاوت بلند کیا کہ ایک دفعہ تو اس نے آزاد جمہوریۂ مشرقی ترکستان کے قیام کا اعلان بھی کر دیا اور بڑی طاقتوں سے کہا کہ اس جمہوریہ کو تسلیم کریں۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کی فوجیں ارمچی کے دروازوں پر پہنچ گئی تھیں مگر اُسے فتح نہ کر سکیں۔

یونس حجی اس لڑائک کے میدان میں اتنے قریب تھا کہ جنگ کی دھمک دریائے سرخ کے کنارے اس کے موٹے نمدے کے خیمے میں بھی محسوس ہو رہی تھی۔ جنرل ماتنگن تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چینی بھی تھا اور مسلمان بھی۔ یونس حجی کا نظریہ قازق نقطۂ نظر سے یہ تھا کہ چینی مسلمان بہرحال عام چینیوں سے بہتر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا، اپنے خاندان والوں اور حمزہ کو لیا، اور اپنے ریوڑ لے کر جنگ آزادی میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اور جنرل ماچنگ ین کے تحت نہیں، بلکہ اس کے پہلو بہ پہلو لڑائی میں شامل ہو گیا۔

"ما" کے معنی ہیں گھوڑا اور یہ نام عموماً چینی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔


صفحہ104
ہماری کہانی میں "ما" نام کے اور جنرلوں کا بھی ذکر آئے گا۔ یہ جو جنرل ما تھا اسے لوگ "بڑے گھوڑے" کے نام سے بھی جانتے تھے اور اس کے کارنامے اتنے اہمہیں کہ چین کے اس حصے کے گرد جو صحراؤں اور پہاڑوں کی بندشیں ہیں، انہیں پھلانگ کر ان کی شہرت بیرونی دنیا میں پہنچ گئی۔ لیکن ان میں بہت سے باتیں ایسی بھی ہیں جو ہماری اس کتاب کے دائرے سے خارج ہیں۔ ہم نے صرف ان واقعات کو لیا ہے جو قازقوں کی جنگ آزادی پر اثر انداز ہوئے۔

جب حجی یونس نے 1932ء؁ میں حملہ آوروں میں شمولیت کی، تو اس نے الطائی کے عثمان کو بھی شرکت کی دعوت بھیجی۔ عثمان اس وقت 33 سال کا تھا، یونس حجی سے چند سال چھوٹا، لیک وہ علاقۂ جنگ سے اتنی دور تھا کہ دھماکوں کی آوازیں اس تک نہیں پہنچتی تھیں، اس لیے اس کی روح پیکار بیدار نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا اس نے تھنڈے دل سے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس نظر سے یونس حجی جنرل ما کو دیکھتا تھا، بالکل اس کی مخالف نظر سے عثمان نے اسے دیکھا۔ عثمان کے نزدیک سب سے بڑی قابل غور بات یہ تھی کہ جنرل ما اگرچہ مسلمان ہے لیکن چینی تو پھر بھی ہے۔ اس نوبت پر عثمان قازقی جنگِ آزادی میں چینیوں کی سرداری کا تو ذکر ہی کیا، ان کی مدد تک قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بلکہ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ بھی پوری مدد اس نے چینیوں سے قبول نہیں کی۔ ایک لحاظ سے یونس حجی نے بھی چینیوں کی مدد منظور نہیں کی اور نہ کبھی اس معاملہ کو اہمیت دی کہ "بڑا گھوڑا" ما کیا کر رہا ہے۔ یونس حجی اپنی لڑائی


صفحہ105
خود ہی لڑتا رہا۔

یہ بغاوت خاص طور سے اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ یہ پہلی بغاوت تھی جس میں سویت حکومت کا ہاتھ واضح نظر آتا ہے، یوں اس سے پہلے بھی چینی علاقوں میں روسی درپردہ شورشیں برپا کرا چکے تھے۔ اس باب میں سرخ ماسکو نے سفید سینٹ پیٹرز برگ ہی کی حکمت عملی ورثے میں پائی تھیا ور اسی پر آئندہ تعمیر بھی ہوتی رہی۔ جب زار کی حکومت ختم ہوئی تو سرخوں سے بچنے کے لیے کتنے ہی سفید روسی فرار ہو کر سنکیانگ کے چینی علاقے میں پناہ گزیں ہو گئے۔ اب وہ اس عذاب میں مبتلا ہو گئے کہ ان کے ایک طرف تو اپنے وطن روس کی محبت تھی اور دوسری طرف اشتراکیت سے نفرت، کونکہ ماسکو کی پالیسی ان دونوں کا عجیب و غریب آمیزہ تھی۔ لہٰذہ سفید روسیوں کی موجودگی سے کبھی تو سویت حکومت کو اپنے منصوبوں کی تکمیل میں مدد ملتی کبھی اس علاقے پر قابو رکھنے میں ان کی طرف سے مزاحمت ہوتی، اس حقیقت کا اظہار یہاں یوں کرنا پڑا کہ اس سے اس پس منظر کے بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے جس پر قازق کہانی عملاً پیش کی گئی تھی۔ 1934ء؁ کے آتے آتے، یعنی قازق جنگ آزادی میں حجی یونس کے میدانِ جنگ میں آنے کے دو سال کے اندر ہی اندر اُرمچی میں سویت قونصل جنرل ایپری سوف صوبے بھر میں سب سے زبردست حاکم بن چکا تھا۔ وہ شخص جس نے خفیہ پولیس منظم کی، اور روسی جس کے ذریعے ملک میں دہشت پھیلا رہے تھے وہ ایک روسی تھا جس کا نام پوگودن تھا۔ انہی دو آدمیوں کے زیر اثر اشتراکی اداروں کا وہ جال سارے ملک میں پھیلا، جو روسی مشیروں کے تحت تھا۔ جن میں سے بعض سفیدوں کے روپ میں چینی سرحد پر آئےا ور ایسے "ماہر" بن کر جنہیں ماسکو نے عاریتاً دیا
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 321
اور لڑائیوں میں قافلے کے آدمی اتنے نہیں مارے گئے جتنے کہ اس بیماری سے مرے۔ علی بیگ کے پانچ بچے توُتک اس سے مرے لیکن اس کی تینوں بیویاں اور اس کا بڑا لڑکا حسن بچ گیا۔

جولائی کے اواخر میں قازق بالآخر نیچے اُترنے شروع ہوئے اور اگست کے شروع میں کچھ علامتیں ایسی انہیں دکھائی دینے لگیں جن سے انہیں معلوم ہونے لگا کہ کوئی آباد علاقہ قریب آ رہا ہے۔ یہاں کے نچلے ڈھلان اب بے شجر نہیں رہے تھے بلکہ ان پر درخت اور سبزہ تھا۔ جسے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو امنڈ ائے لیکن اسی کے ساتھ انہیں محنت بھی کرنی پڑی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے بھوک کے مارے ہوئے جانوروں کو زیادہ کھا جانے دیا تو وہ مر جائیں گے۔

چلتے چلتے وہ ایک سڑک پر آئے جو شمال سے جنوب کے بدلے مشرق سے مغرب کو جاتی تھی۔ اور علی بیگ نے فوراً طے کر لیا کہ اسی پر چل پڑیں۔ 18 اگست 1951ء؁ - غزکل چھوڑنے کے ایک سو ترانوے دن کے بعد – یہ قافلہ کشمیر کی سرحد کے قریب ایک مقام ردوخ پر پہنچا جو کشمیر کے دارالحکومت سری نگر اور لاسہ کی درمیانی سڑک پر ہے۔

جب قازق سرحد پر پہنچے تو علی بیگ خوش خوش آگے بڑھا تاکہ ہندوستانی سرحد کے محافظوں کو بتائے کہ قافلہ کن لوگوں کا ہے اور کشمیر میں انہیں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ افسر انچارج نے کہا، "مجھے اپنے کاغذات پہلے دکھاؤ۔"


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 322
علی بیگ نے ایک ترجمان کے ذریعہ کہا، "مگر ہمارے پاس کاغذات نہیں ہیں۔ ہم قازق ہیں، سیاسی مہاجر جو اشتراکیوں سے بہت لڑائیاں لڑ کر سنکیانگ سے بچ کر نکل آئے ہیں۔"

ہندوستانی افسر پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

اس نے پھر کہا، "مگر بغیر کاغذات دکھائے تمہارا ہندوستان میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ تم جو اپنے آپ کو بتا رہے ہووہی ہو۔ مجھے کیا معلوم تم کون ہو؟"

علی بیگ نے کہا، "لیکن اشتراکی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں پکڑ کر مار ڈالیں؟"

ہندوستانی افسر نے مختصر جواب دیا، "مجھے اشتراکیوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وہ ابھی تک اس ملک کے کسی حصے میں نہیں آئے۔" اس کے سامنے چیتھڑے لگے، بے حال، ہتھیار بند لوگوں کا ایک دستہ کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ یہ لوگ تبتی تو ہیں نہیں اور یقیناً چینی بھی نہیں ہیں۔ رووخ کا راستہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے سنکیانگ سے آنے والے لوگ عموماً ہندوستان میں داخل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ تبتیوں نے اسے آگاہ کر رکھا تھا کہ لٹیروں کا ایک گروہ شمال کی طرف سے تبت میں داخل ہو چکا ہے جس نے بہت سے دیہاتوں کو لوٹ لیا۔ دیہات والوں کو مار ڈالا اور ان کی عورتوں اور قیمتی سامان کو اٹھا لے گیا۔ اور اب مغرب کی طرف مُڑ کر کشمیر کی طرف آ رہا ہے۔ ہندوستانی افسر کو یقین ہو گیا کہ علی بیگ کا گروہ ہی وہ لٹیروں کا گروہ ہے۔

"تم لٹیرے ہو۔ سیاسی مہاجر نہیں ہو۔ وہیں جاؤ جہاں سے تم آئے


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 323
ہو۔ تم ہندوسان میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اور میں اس کی اجازت نہیں دوں گا کہ تم سرحد کے قریب پڑے رہو۔"

علی بیگ نے کہا، "ہم لٹیرے نہیں ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ ہم سیاسی مہاجر ہیں۔ ہمیں یہاں پہنچنے کے لیے تبت میں سے گزرنے کے لیے لڑنا پڑا۔ اسے تبتیوں نے لوٹ مار سمجھ لیا ہو گا۔ حالانکہ جب انہوں نے ہماری مدد کرنے سے اور ہمیں گزرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا تو ہمارے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ ان سے لڑکر راستہ لیں۔"

لیکن اب بھی ہندوستانی افسر نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آخر میں ہار کر علی بیگ وہاں سے یہ کہہ کر واپس ہوا کہ :

"اگر اب ہم مرے تو ہمارا خون تمہاری گردن پر ہو گا۔"


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 324
بارھواں باب

مامن

قازقوں کو کشمیر میں داخل ہونے سے جب روک دیا گیا تو اس کی تلخی اور بھی زیادہ محسوس ہوئی کہ سرے سے اس کا کوئی اندیشہ ہی نہیں تھا۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ بات تو ہونی شدنی تھی کیونکہ تبتیوں نے پہلے ہی ہندوستانی افسر کو بھڑکا دیا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ قازقوں نے سنکیانگ سے نکلنے اور تبت میں داخل ہونے کی طرح یہاں بھی زبردستی اپنا راستہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے بس یہی کیا کہ سرحد سے ایک میل دور ہٹ گئے۔ مگر اس طرح کہ سرحد انہیں دکھائی دیتی رہے۔ جو خیمے بچ رہے تھے انہیں لگا کر وہ انتظار کرنے اور سستانے لگے، اگلے چند ہفتوں میں ٹزکل کے چند اور قازقوں کے گروہ آ پہنچے اور کشمیر میں داخل ہونے کی انہوں نے بھی درخواست کی۔ مگر انہیں بھی ناکامی ہوئی۔ ہندوستانی افسر نے سب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے وطن لوٹ جائیں، لیکن اس مشورے پر کسی نے عمل نہیں کیا۔

کچھ دنوں بعد اشتراکی بھی آ پہنچے۔ انہوں نے اپنی فوجیں سب کی


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 325
نظروں سے دور رکھیں اور سیاسی قاصد ہندوستانیوں کے پاس بھیجے اور "مفاہمتی ٹکڑیاں" جن میں سنکیانگ کے باشندے شامل تھے، قازقوں کے پاس بھیجیں کہ لگے بندھے وعدے کر کے قازقوں کو وطن واپس چلنے پر آمادہ کریں۔ بعض قازق جو بارکل میں عثمان بطور کے ساتھ تھے۔ مصالحتی ٹکڑیوں سے پہلے مل چکے تھے اور ان کے متعلق سب کچھ جانتے تھے۔ اتنا کہ ان کی کسی بات پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ دوسرے مہاجر بھی بہت کچھ جانتے تھے، لہٰذا وہ مفاہمت کرنے والوں کی باتیں سنتے رہے اور انہیں بالکل پریشان نہیں کیا۔ مگر جب وہ روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ کوئکی نہیں گیا۔


اس کے بعد ایک بے چین خاموشی کا زمانہ گزرا اور اسی میں نو 9 سال کا ننھا عبد المطلب اچانک پڑاؤ میں آتا دکھائی دیا۔ پانچ مہینے سے وہ سفر کر رہا تھا بالکل اکیلا۔ کیونکہ علی بیگ کے قافلے سے وہ الگ ہو گیا تھا۔ اس کا گھوڑا ابھی زندہ تھا اور ایک بھیڑ بھی، لیکن ان میں سے کسی میں بھی اتنی زندگی نہیں تھی جتنی کہ ان کے مالک میں تھی۔ وہ اپنے بل بوتے پر پہاڑوں اور وادیوں، چشموں اور چٹانوں اور برف اور یخ میں سے ہو کر آیا تھا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس نے کوئی چھ سو میل کا سفر طے کیا تھا۔ بیشتر سفر ایسے علاقے میں سے کیا تھا جو سطح سمندر سے بارہ یا چودہ ہزار فٹ اور بعض جگہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ اور بھی کئی یتیم لڑکیاں اور لڑکے پیچھے رہ جاتے، کیونکہ ہر شخص تھکا ہوا تھا اور اسے خود اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی خبرگیری کرنی دوبھر ہو رہی تھی۔ عموماً یہ ہوتا کہ یہ پیچھے رہ جانے والے رات کو قافلے کے پڑاؤ میں آ ملتے یا
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 291
کرتے رہے۔

قازق اپنے بوجھ سے لدے ہوئے جانوروں کو ہنکا کر آگے بڑھتے رہے اور کئی گھنٹے اشتراکیوں کا دستہ ان کے پیچھے منڈلاتا رہا۔ علی بیگ حمزہ اور قائینش اب اس دستے کی موجودگی سے ہراساں نہیں تھے۔ اور اپنے سرداروں کی طرح قافلے کے دوسرے لوگ بھی ان کے پیچھا کرنے سے خائف نہیں ہو رہے تھے۔ زمین اب پھر بہت شکستہ آ گئی تھی اور جب قافلہ ایک تنگ وادی میں داخل ہوا تو اسے سمٹنا پڑا۔

علی بیگ نے کہا "اچھا مقا ہے یہ۔"

حمزہ نے تائید کی "ہاں اچھا ہے بلکہ بہت خوب ہے کیونکہ اس سفر میں یہ پہلا اچھا مقام آیا ہے۔ اگر انہیں شبہ ہو گیا اور انہوں نے تاڑ لیا تو مفت میں ہمیں مصیبت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا اور ہمیں ان سے نمٹنے کا اس سے بہتر موقع اور نہیں ملے گا۔"

علی بیگ اور قائینش نے ایک رائے ہو کر اس موقع پر چھاپہ مارنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد کے اچھے موقع کو بھی چھوڑ دیا لیکن تیسرے موقع پر علی بیگ نے حمزہ سے کہا،

"کتنے آدمیوں کی ضرورت ہے؟"

حمزہ نے کہا، "پانچ یا کچھ زیادہ۔ لیکن بہتر ہو گا کہ راستے کے دونوں طرف پہاڑیوں پر پانچ آدمی اور بٹھا دیئے جائیں۔ شاید کوئی اور راستہ بھی ہو جو ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اگر چھاپے کے شبہے میں اشتراکی اس طرف چلے گئے تو ان پر ایک اور چھاپہ پڑ جائے گا اور انہیں زندہ واپس جانا نصیب نہیں ہو گا۔"


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 292
علی بیگ نے کہا "اچھی ترکیب سوچی تم نے۔"

حمزہ نے خود پندرہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور باقی قافلہ خوش خوش آگے بڑھتا رہا کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ اتنے میں کسی نے گانا شروع کر دیا اور شکاری گیت کی لمبی تان وادی کی ننگی چٹانوں سے ٹکرا کر گونجتی چلی گئی۔

جب چھاپہ کی وادی سے کوئی آدھ گھنٹہ بعد رائفل چلنے کی آواز آئی تو گانا ایک دم سے بند ہو گیا۔ کوئی تین منٹ تک یا اس سے بھی کم دھماکے سنائی دیئے۔

قائنیش نے کہا، "اتنی کم گولیاں چلیں، یا تو چال ناکام رہی یا اس میں سارے ہی پھنس کر مر گئے۔"

پورا قافلہ اب رک گیا تھا اور گانا بھی بند ہو گیا تھا، حالاں کہ اس کا حکم کسی نے نہیں دیا تھا اور کوئی ایک منٹ بعد حمزہ اپنے پانچ آدمیوں میں سے تین کے ساتھ سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔

جب حمزہ نے گھوڑے کی لگام کھینچی تو قائنیش نے پوچھا "شکار کیسا رہا؟"

حمزہ نے ہنس کر کہا، وہ گھوڑوں پر سوار اس صورت سے آگے آئے کہ دو آگے تھے دو پیچھے اور انہوں نے نہ دائیں کو دیکھا اور نہ بائیں کو۔ ہم نے اگلے دو سواروں کو چلنے دیا اور ان کے بعد سولہ سواروں کے دستے کو بھی، اور منتظر رہے کہ پچھلے دو سوار بھی دام میں آ جائیں۔ مگر اگلے دونوں سوار ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چکے تھے اور دستہ بھی ہمارے سامنے سے گزر چکا تھا مگر پچھلے دو سوار اتنی دُور


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 293
رہ گئے تھے کہ تمام چڑیوں کے پھنس جانے سے پہلے ہی مجھے مجبوراً گولی چلانی پڑ گئی۔ دو سو قدم تک تو ہمارا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔ ان میں سےتین جو اکٹھے جا رہے تھے، پہلے ہی ہلے میں ڈھیر ہو گئے۔ باقی تیرہ گھوڑوں پر سے کود کر راستے کے برابر کی چٹانوں میں پناہ لینے کے لیے بھاگے مگر وہاں پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں تھی، اس لیے ان کا بھی خاتمہ جلدی ہو گیا۔ پیچھے جو دو سوار رہ گئے تھے انہوں نے گولیوں کی آواز سنتے ہی اپنے گھوڑے پھیرے اور بچ نکلے۔

علی بیگ نے پوچھا، "اور وہ جو دو آگے تھے؟"

حمزہ نے کہا "ہاں ان کا کچھ پتہ نہیں چلا وہ کہاں گئے۔ تم نے بھی انہیں دیکھا؟"

قائنیش بولا، "وہ ادھر آئے ہی نہیں۔ اس لیے گولیوں کی آواز سُن کر وہ کسی اور راستے سے کترا کر نکل گئے۔ خیر وہ کسی طرف بھی گئے ہوں، تھوڑی دیر میں وہ بھی سنگوا لیے جائیں گے۔ ہمارے ہر پہلو پر پانچ پانچ اچھے آدمی چھوٹے ہوئے ہیں۔"

علی بیگ نے حمزہ سے کہا "دو آدمی تمہارے بھی کم ہیں۔ وہ خیریت سے تو ہیں ناں؟"

حمزہ نے بتایا، "سولہ گھوڑے اور سولہ رائفلیں ہاتھ آئی ہیں۔ انہیں لانے کے لیے میں اپنے آدمیوں پر زیادہ بار نہیں ڈال سکتا کہ مبادا ان دو خطائیوں سے راستے میں سامنا ہو جائے۔"

علی بیگ نے قائنیش سے کہا، "چھ آدمی لے جاؤ اور مال غنیمت لے آؤ۔ سپاہیوں کے ساز و سامان کے علاوہ اگر ان کی وردیاں ٹھیک


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 294
ہوں تو انہیں بھی لے آنا۔ انہیں اٹھانے کے لیے ہمارے پاس خالی جانور موجود ہیں۔ پھر کیا خبر کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو اور اس کے ختم ہونے سے پہلے ہمیں کس کس چیز کی ضرورت پیش آئے۔"

قائنیش گھوڑے پر سوار ہوا اور چلتے وقت ہنس کر کہتا گیا "لڑے تو حمزہ اور مال غنیمت میں لاؤں۔ اگلی باری میری ہو گی۔"

تھوڑی دیر کے بعد کچھ اور گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی اور اسے کے بعد دونوں طرف پہاڑیوں پر بیٹھنے کے لیے جو دو دستے بھیجے گئے تھے سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے آ گئے۔ ان میں سے ایک کے پاس چھینے ہوئے دو گھوڑے اور دو رائفلیں بھی تھیں۔

حمزہ سے علی بیگ نے کہا، "بیس میں سے اٹھارہ شکار، اچھا رہا۔" لیکن اگر بیس پورے ہی ہوتے تو شکار ہزار گنا اچھا رہتا کیونکہ وہ دو 2جو بھاگ گئے جا کر بتا دیں گے کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں، کاش پانچ کے بدلے میں نے دس آدمی تمہارے ساتھ کیے ہوتے تو ان دونوں کا بھی پیچھا کیا جا سکتا۔"

حمزہ نے کہا، "اللہ کی مرضی۔ وہی جانتا ہے کہ ہم انہیں جا لیتے یا نہیں، مگر دس آدمی اور دس گھوڑے پانچ آدمیوں اور پانچ گھوڑوں سے پہلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ممکن تھا کہ دس کے ساتھ ہم دیکھ لیے جاتے اور ہمارے دشمن چھاپے سے بچ جاتے اور لڑائی بھی ہوتی جس میں ہمارے بھی کچھ آدمی مارے جاتے۔ پھر رات بھی قریب ہےئ۔ وہ دونوں جلد از جلد کل شام سے پہلے اپنے آدمیوں میں واپس نہیں پہنچ سکیں گے یا شاید پرسوں پہنچیں، اس حساب سے ہمارے پاس تین دن ہیں یا چار پانچ، اس سے پہلے وہ


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 295
لوٹ کر ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ سوائے اللہ کے اور کون جانتا ہے کہ ان تین ہی دن میں کیا ہونے والا ہے۔"

علی بیگ نے اس کی بات مانتے ہوئے کہا، "حق تو یہی ہے۔ الحمد للہ۔ ہم آج کی رات محفوظ ہیں اور کل کی رات بھی بشرطیکہ آگے اور اشتراکی دستے نہ ہوں لیکن اس کا امکان نہیں ہے۔"

مگر ہوا یہ کہ دیکھ بھال کرنے والے ہوائی جہاز نے انہیں اگلے دن شہ پہر کو دیکھ لیا۔ اس لیے ان دو آدمیوں کا بچ نکلنا کوئی ایسا اہم معاملہ نہیں رہا۔ ہوائی جہاز نے غوطہ مارا اور ان پر مشین گن سے گولیاں چلائیں لیکن جگہ چونکہ کھلی ہوئی تھی، قازق ایک دم پھیل گئے اور گولیاں کسی جانور تک کے نہیں لگیں۔ ہاں ان سے چند جانور بدک ضرور گئے۔ قازقوں نے جواب میں گولیاں چلائیں اور بعض نے کہا ہم نے جہاز میں گولی پیوست کر دی۔ لیکن اگر ایسا ہوا بھی تب بھی ان کی گولیاں کارگر نہیں ثابت ہوئی، کیونکہ ہوائی جہاز غرا کر سیدھا اوپر اٹھتا چلا گیا۔ علی بیگ اور حمزہ نے یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ جس سمت میں انہیں جانا تھا وہ ان کے قافلے کے پیچھے تھی۔ اس سے ظاہر ہو رہا تھا ثابت نہیں ہو رہا تھا کہ ان کے آگے یا ان کے پہلوؤں پر تبت میں اشتراکی چوکیاں نہیں تھیں، لیکن اس پر بھی انہوں نے بڑی احتیاط برتی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ لاسلکی سے ان کے قافلے کے مقام کی اطلاع دی جا سکتی تھی اور خبر پا کر انہیں روکنے کے لیے گشتی دستے آ سکتے تھے۔

اگلے دس دن میں علی بیگ کے قافلے پر اوسطاً ہر دو دن میں ایک حملہ ہوتا رہا۔ یہ حملے زمینی ہوتے تھے۔ صرف ایک ہوائی ہوا تھا۔ قازق کہتے
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 351
جب ہمارے قازق زبان بولنے والے دوست نے دس دن کے قیام کے بعد سلیحلی سے رخصت ہونا چاہا تو علی بیگ نے اپنی ایک بیوی سے کہا :

"جاؤ۔ تم رخصتی دعوت کی تیاری کرو۔" اور باقی دونوں بیویوں سے کہا، "تم رخصتی نظم لکھو۔ اس نے نظم کی فرمائش کی تھی، اسے نظم ملنی چاہیے۔"

لہٰذا خدیجہ اور مولیا نظم لکھنے چلی گئیں اور کوئی دو گھنٹے میں انہوں نے اپنی نظم مکمل کر لی۔ حسب دستور اس میں ناقال فہم اشارے اور حوالے زیادہ ہیں اور طویل بھی بہت ہے۔ سب ملا کر کوئی تیرہ بند ہیں اور ان میں قازق تاریخ کے حوالوں کی بھرمار ہے۔ لیکن ہم نے اس کی صدا بندی کر لی ہے اور ذیل میں اس کا مفہوم درج کرتے ہیں۔

"تمہارا آزاد ملک تادیر زندہ رہے اور تمہاری قوت پایندہ رہے، مسٹر چرچل،

ہمیں اشتراکیت کی لعنت سے چھٹکارا دلاؤ۔
ہماری مدد کرنے کا فیصلہ ابھی کرو۔
اے شانۂ زریں کے سورما!
اے انگلستان، تیرا نام عظیم ہے اور تیری عظمت عظیم تر۔
تیری قوت کی تاریخ ہزار سال سے زیادہ ہے۔
ہمارے سینوں میں امید موجزن ہے کہ ہمارا ملک آزاد کرایا جائے گا۔
اے شانۂ زریں کے سورما!"


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 352
قازقوں کا کہنا ہے کہ "شانۂ زریں کے سورما" کا عہدہ چنگیز خان اعظم نے قائم کیا تھا اور عجب اتفاق ہے کہ بالکل اسی زمانہ میں ایڈورڈ سویم نے 1348ء؁ میں "ساق بندِ زریں کے سورما" کا عہدہ برطانیہ میں قائم کیا تھا ۔ مدت ہوئی کہ قازقوں کا یہ عہدہ ختم ہو چکا۔ اب تو محض اعلٰی ترین اعزاز کے طور پر اسے برتا جاتا ہے۔

ایسی نظم اور ایسے لوگ آزاد دنیا کو للکارتے ہیں اور غیرت دلاتے ہیں۔ جو کچھ قازقوں پر بیت چکی ہے، اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا وطن دوبارہ آزاد ہو کر رہے گا۔ وہ ایسے ایشیائی لوگ ہیں جن کے سر چینی اور اشتراکی نظام کی قوت اور کمزور ی ہے۔ یہ لوگ خوب واقف ہیں وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اشتراکیت نے اپنے پنچے کس طرح گڑوئے ہیں اور ان پنجوں کو کیسے ڈھیلا کیا جا سکتا ہے۔ قازقوں کے کارنامے اس امر کی صریح شہادت ہیں کہ ایشیا کا دل جس میں اشتراکیت قوت کا مرکز ہے ایسے مردوں اور عورتوں سے بھرا پڑا ہے جو ہر اس چیز سے نفرت کرتے ہیں جس کی نمایندگی اشتراکیت کرتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 346
زبان لاطینی حروف میں لکھی جاتی ہے اور قازقوں کو عربی رسم الخط کی عادت ہے۔ بالآخر 1954ء؁ میں انہیں مختلف نو آبادیوں میں پہنچا دیا گیا، جہاں ترکی حکومت نے انہیں رہنے کے لیے مفت گھر دیئے۔ زمینیں مفت دیں، جن پر ہل چلائے جا چکے تھے اور بیج ڈالا جا چکا تھا۔ ان کے ٹیکس بھی اس شرط پر معاف کر دیے کہ وہ دس سال یہاں رہیں اور کھیتی باڑی کریں۔

ان قازقوں نے جو دیویلی بھیجے گئے، جو شہر کائی سری کے قریب ہے، اس پیش کش کو قبول کر لیا۔ ان میں حسین تجی، کارا ملا بھاٹ، کم عمر عبد الستار بھی شامل ہیں، جنہیں ہم جانتے ہیں۔ وہ قازق جو علی بیگ اور حمزہ کے ساتھ سلیحلی میں آباد ہوئے، انہوں نے حکومت سے اجازت چاہی کہ کاشت کاری کا کام کرنے کے بجائے انہیں زمین کھودنے کے مزدوروں میں شامل کر لیا جائے تاکہ اپنی مزدوری میں سے جو کچھ پس انداز کر سکیں اس سے بھیڑیں اور مویشی خرید لیں۔ ترکی حکومت نے دانشمندی سے ان کی تجویز کو منظور کر لیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ جانوروں کی پرورش کرنے میں قازقوں کی قوم دنیا بھر کی قوموں سے سبقت لے گئی ہے۔ سلیحلی کے قریب ایک نئے پن بجلی کے منصوبے کے سلسلے میں ایک بند بنایا جانے والا ہے۔ اس کا کم اپریل 1955ء؁ میں شروع ہونے والا تھا۔ اس کے بنانے کے لیے بہت سے مزدوروں کی ضرورت ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم سے کم اگلے پانچ سال تک سلیحلی کے قازق اچھی مزدوریاں کما سکیں گے۔ پھر وہ اس لائق ہو جائیں گے کہ دوبارہ گلہ بانی کر سکیں۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 347
نومبر 1954ء؁ میں جب ہم قازقوں کے ترکی میں پہنچنے کے تین مہینے کے بعد ان کے پاس گئے تو انہوں نے اس قلیل عرصے ہی میں چند بھیڑیں خرید لی تھیں، حالانکہ بے روزگاروں کو ترکی حکومت جو گذارہ دیتی ہے وہ ہمارے سکے کے مطابق بارہ آنے یومیہ ہوتا ہے۔ ہم نے ان سے یہ دریافت نہیں کیا کہ یہ بھیڑیں اُن کے پاس کیسے آئیں، کیونکہ قازق اسے پسند نہیں کرتے کہ ان کے معاملات کی پرچول کی جائے۔ مگر ان کی مہماں نوازی کی یہ کیفیت ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنے مہمان کی خاطر تواضع کے لیے وہ اپنے ریوڑ کی آخری بھیڑ بھی بہ خوشی ذبح کر دیتے ہیں۔ ہمارے دوست جو ہمارے ساتھ ترکی گئے تھے اور جو قازق زبان خوب بولتے ہیں، سلیحلی میں دس دن علی بیگ کے ہاں مہمان رہے۔ جب انہوں نے اس مہماں نوازی کا بدلہ کچھ غذائی تحفوں سے کرنا چاہا تو علی بیگ بہت ناراض ہوا۔

چونکہ مہماں نوازی کے قوانین توڑنے نہیں چاہییں اس لیے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے پاس بھڑیں کہاں سے آئیں۔ غالباً کسی مہربان اور دانشمند سلیحلی کے ترک باشندے نے مناس کے اسمٰعیل حجی کی طرح اس بات کو جان لیا کہ قازق ہماری بھڑوں کو ہم سے بھی اچھی طرح رکھ سکیں گے اور چند بھڑیں یہ سمجھ کر ان کے حوالہ کر دیں کہ اس میں دونوں کا بھلا ہو گا۔ نومبر 1954ء؁ کے آخر میں کوئی سو بھیڑیں اور دو چار مینڈھے ان کے پاس تھے۔ اس کے بعد بچوں کا ایک جھول نکل بھی آیا ہو گا اور ان کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہو گی۔ ریوڑ کی رکھوالی ایک قازق چرواہا اور اس کے بیوی بچے کرتے ہیں۔ اس چرواہے کا انتخاب سب مل کر


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 348
ایک خاص اجتماع میں کرتے ہیں۔ بھیڑیں ایک سال کے لیے اس کے حوالے کر دی جاتی ہیں، جس کے اختتام پر گنتی کی جاتی ہے اور اُسے دُگنی بھیڑیں لوٹانی پڑتی ہیں۔ جتنی زیادہ ہوں وہ چرواہے کی اور جتنا اون اور پنیر اس عرصے میں تیار ہو وہ بھی اسی کا ہوتا ہے۔ کئی بھیڑوں کے دو دو اور تین تین بچے ہوتے ہیں۔ اس حساب سے ستمبر 1955ء؁ میں گویا ایک سال بعد چرواہے کے پاس کم سے کم اپنی پچاس بھیڑیں ہونی چاہییں۔ اس کے بعد خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ سلیحلی کے قازقوں کے پاس کتنی بھیڑیں ہو جائیں گی۔

علی بیگ اور حمزہ جیسے لوگوں کا مسئلہ جو صوبۂ سنکیانگ میں افسرانہ حیثیت رکھتے تھے، چرواہوں اور زمین کھودنے والوں کے مقابلے میں بہت دشوار ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اسے کیسے حل کر سکیں گے۔ اور یہ آپ جانتے ہی ہیں کہ نجی معاملات کی پرچول کرنا قازقوں کو ناپسند ہے۔ تاہم اس کا ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ ضرور کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کو بھی حل کر لیں گے۔ اس عرصے میں علی بیگ نے جس کے پاس پانچ بچے تبت کے سفر میں کُہر کی بیماری سے مر گئے تھے، چالیس اور یتیم بچوں کو اپنا متبنٰی بنا لیا ہے کیونکہ ان بچوں کے والدین کا ذمہ دار اس ترک وطن کے سیلاب میں علی بیگ ہی تھا۔ ان بچوں میں سے بعض اب اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو سکتے ہیں، لیکن علی بیگ اپنی نظر میں اور خدا کی نظر میں بھی خود کو ان سب چالیس یتیم بچوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ حالانکہ ترکی قانون اس معاملے میں بالکل خاموش ہے۔ اگر کسی کو بھوکا رہنا پڑے تو سب سے پہلے علی بیگ خود بھوکا رہے گا۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 349
اس کے بعد اس کے بچے اور سب سے آخر میں یتیم بچے اور ان میں سے بھی اگر ممکن ہو تو نہیں۔

لیکن ہمارا خیال ہے – علی بیگ، اس کے بال بچے اور متبنٰی بچے، ان میں سے کوئی بھی سچ مچ بھوکا نہ رہے گا۔ لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ انہیں کچھ عرصے کے لیے روکھی سوکھی ہی پر گزارہ کرنا ہو گا۔ اس خود عائدکردہ فرض سے علی بیگ کیسے عہدہ برآ ہو گا، ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔

لیکن علی بیگ، حمزہ اور تمام قازق مہاجروں کا کچھ فرض یقیناً آزاد دنیا پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی سے آزاد دنیا نہ صرف انصاف کرے گی بلکہ ایک خدمت بھی انجام دے گی۔ ایک مثالی زندگی کے لیے قازقوں نے آنسو، پسینہ اور خون بہا کر ایک بہت بڑی جنگ لڑی ہے اور سہ سختیاں جھیلی ہیں جو دوسری عالمگیر جنگ میں بھی ہمیں پیش نہیں آئیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اشتراکیت کی قوت اور کمزوری کو براعظم ایشیا کے وسیع و بے قرار قلب میں دیکھا ہے۔ جہاں اشتراکی نوآبادیات کے بھیدوں کو آزاد تصورات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی جاتی۔

قازقوں کی اپنی ایک ثقافت ہے جس کی بنیاد مادی دولت پر نہیں ہے، اگرچہ قازق اکثر دولت مند ہوتے ہیں۔ ان کی طرز زندگی نے انہیں معمول سے زیادہ قوت برداشت اور ہمت دی ہے۔ آزاد دنیا سے انہیں بہت محبت ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہیں اور آزاد دنیا کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔ حالانکہ آزاد دینا قازقوں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی۔

1943ء؁ اور 1948ء؁ کے درمیانی عرصے کے سوا، قازق بلکہ


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 350
سارے مشرقی ترکستان والے، 1930ء؁ کے بعد سے تقریباً کٹے رہے۔ اس کے کچھ جغرافیائی اسبابا ہیں جن کا ذکر ان صفحات میں کیا گیا ہے۔ لیک صوبہ دار شنگ کے زمانے سے پہلے جب اسکولوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی، قازقوں کو برطانیہ عظمیٰ اور امریکہ سے ایک ایسی وابستگی ہو گئی تھی جس میں اعتقاد بھی شامل تھا۔

ہمارے پیش نظر اس وقت ایک خط ہے جسے علی بیگ کے بیٹے حسن نے اپنے باپ کی طرف سےلکھا ہے، کیونکہ وہ خود انگریزی سے ناواقف ہے، اس میں جس ضرب المثل کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ اس زمانے کی ہے جب سویت مداخلت نے ان کی زندگی کو درہم برہم نہیں کیا تھا۔ پچاس سال پہلے خود برطانیہ کے لوگ بھی اسے تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔

خط میں لکھا ہے :

"ہمارے ترکستان میں ایک مثل مشہور ہے کہ سورج برطانیہ سے طلوع ہوتا ہے اور برطانیہ ہی میں غروب ہوتا ہے۔ ہماری قوم جانتی ہے کہ برطانیہ ایک طاقتور ملک ہے۔ ثقافتی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے۔ ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ ہمارے مصائب برطانیہ کے لوگوں کو بتا دیں۔"

ایک خانہ بدوش سے ایسے خط کے لکھنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن علی بیگ نے حسن سے یہی لکھوایا ہے۔ اور ہاں اس کے سمجھنے میں غلطی نہ ہونے پائے، علی بیگ نے خیرات نہیں مانگی ہے، بلکہ صرف ہمدردی اور معاملات کو سمجھنے کی درخواست کی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 326
دو دو تین تین دن کے بعد قافلے کو پکڑ لیتے۔ کچھ البتہ لاپتہ ہو جاتے۔ عبد المطلب اپنی مرضی سے اکیلا سفر کرتا آیا تھا۔ بچوں کے ایسے نمایاں کارناموں سے قازق واقف ہی ہوتے ہیں مگر عبد المطلب کا زندہ سلامت آ جانا اُن کے نزدیک بھی ایک معجزہ تھا۔

جب عبد المطلب پیچھے رہ گیا تو اس کے گلے میں فوجیوں کا ایک کرمچ کا تھیلا پڑا تھا جس میں روٹی اور خشک غلہ بھرا تھا۔ اس کی کمر میں ایک چُھری بھی پیٹی میں لگی ہوئی تھی۔ جب اسے خشک گھاس یا پتے یا گلی ہوئی لکڑی کہیں مل جاتی تو وہ چُھری اور چقماق سے آگ جھاڑ لیتا۔ علی بیگ کے قفلے کے پیچھے پیچھے وہ اپنے چھوٹے سے گلے کو لیے چلتا رہتا۔ اس کے لیے یہ ایک بچوں کا کھیل تھا جس میں اسے مزہ آتا۔ اُسے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا قافلہ اکثر دکھائی دیتا رہتا۔ لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے، قافلہ اس کی نظروں سے اوجھل رہنے لگا۔ اور جب قافلہ اُسے بالکل ہی دکھائی نہ دیتا تو علامتوں سے وہ راستہ معلوم کر لیتا۔ سخت زمین اور پتھروں پر جانوروں کے کھروں کے نشان اسے دکھائی دے جاتے یا پھر بھیڑ بکریوں کی مینگنیاں نظر آ جاتیں، جنہیں قافلے والے جلانے کے کام میں نہیں لاتے تھے۔ وہ ان علامتوں کو بچپن سے جانتا تھا اور ان کے معنی بھی خوب سمجھتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے اسی عمر کے بچے آزاد دنیا میں باپ کو کار چلاتے دیکھ کر ہی کار چلانا خود بخود سیکھ جاتے ہیں۔

اس کی خوش نصیبی سے جس قافلے کے پیچھے وہ چل رہا تھا اس کے بعض جانور اس قدر تھک گئے تھے کہ چلنے سے معذور ہو گئے تھے۔ اور


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 327
بلندی کی لطیف ہوا نے ان کے مرے ہوئے جانوروں کو سڑنے نہیں دیا تھا۔ اور نہ مردو خور جانوروں اور پرندوں نے انہیں کھایا ہی تھا۔ چنانچہ وہ اپنے کرمچ کے تھیلے میں ان کا گوشت بھرتا چلتا اور اپنی چُھری سے گوشت کاٹ کاٹ کر اپنے جانوروں کو کھلاتا رہتا۔ کبھی کبھی وہ آگ جلا کر گوشت کو سینک لیتا لیکن اس کے جانوروں کو اور خود اسے کچا گوشت ہی کھانا پڑتا۔ رات کو عموماً وہ دو چٹانوں کے بیچ میں کوئی دراڑ تلاش کر لیتا اور اس میں دبک کر آرام سے سو رہتا۔ کونکہ وہ جانتا تھا کہ کوئی درندہ اس کے قریب نہیں پہنچ سکے گا۔ حالانکہ ایک دفعہ کوئی اس کی ایک بھیڑ رات کو اٹھا بھی لے گیا۔ اس کا لبادہ بھیڑ کی پوستین کا تھا۔ سردی کو وہ ویسے ہی عادی تھا۔ اس لیے یہاں بھی اُسے سردی کم ہی لگتی تھی۔ جب برفیلی کہر چھا جاتی تب بھی وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا۔ کیونکہ رات کو نکلنے والے شکاری جانور بھی اس کہر میں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا وہ سوتا اور جاگ کر کھاتا اور پھر سو رہتا۔ لیکن جب زبردست ہوا کُہر کو اڑا لے جاتی اور مینگنیوں کو بھی تو پھر راستہ تلاش کرنے میں اس مشکل پیش آتی۔ اس کےلیے بدترین وقت وہ تھا جب ایک اور راستے نے شمالاً جنوباً اس کے راستےکو کاٹا کیونکہ اُسے معلوم نہیں تھا کہ کب اس کا اور تبتیوں کا سامنا ہو جائے گا۔ مگر ڈرا وہ اب بھی نہیں بلکہ زیادہ ہوشیار ہو گیا۔

عبد المطلب کا آ جانا ایک اعجاز تھا۔ اس سے قازقوں کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ انہوں نے آپس میں کہنا شروع کیا کہ اللہ کی مرضی یہ نہیں ہو سکتی کہ اسے اتنی دور صحیح سلامت پہنچا دینے


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 328
کے بعد عین منزل کے سامنے ہم سب کو مر جانے دے۔

لیکن عبد المطلب بھی مرتے مرتے بچا اور اس کے ساتھ دوسرے قازق بھی۔ ایک رات اشتراکی فوجوں نے اچانک قازقوں پر اسی طرح حملہ کر دیا جیسے غزکل میں کیا تھا، لیکن ان سب قازقوں کا دستور تھا کہ سوتے بھی تو اپنی رائفل اور کارتوسوں کی پیٹی اپنی دسترس میں رکھ کر سوتے اور اندھیرے میں بھی اسے اسی طرح تلاش کر لیتے جیسے روشنی میں۔ جلدی سے اپنے کپڑے اور ہتھیار اٹھا کر وہ اپنے خیموں اور خوابگاہوں میں سے نکل کر بھاگے اور پہاروں میں جا کر دن نکلنے تک چھپے رہے۔ اس موقع پر عورتیں اور بچے پڑاؤ ہی یں رہے اور یہ پہلا اتفاق تھا کہ اشتراکیوں نے انہیں چھوڑ کر مردوں کا پیچھا کیا۔ مگر جب دن نکل آیا تو قازق پہاڑوں میں اونچے چڑھ چکے تھے اور انہوں نے وہاں سے فوراً جوابی حملہ کیا۔ حملہ آور پسپا ہوئے، بہت سے مارے گئے اور ان کے ہتھیار قازقوں کے ہاتھ آئے۔ ان میں دو ہتھ گولے بھی تھے۔

اشتراکیوں کے حملے اور قازقوں کے جوابی حملے سے ہندوستانی بہت متاثر ہوئے اور جب ایک بار قازق قاصدوں نے سرحد پر جا کر انہیں بتایا کہ اگر انہیں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تو ان کا کیا حشر ہو گا، تو افسر انچارج نے ان کی درخواست پر اس شرط کے ساتھ غور کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ پہلے اپنے ہتھیار سب ان کے حوالے کر دیں تاکہ ان کے پُرامن اردوں کی تصدیق ہو جائے۔ قاصدوں نے اس شرط کو بخوشی منظور کر لیا۔ اور ہتھیار حوالے کرنے کے لیے ایک وقت کا تعین کر لیا گیا۔ جب وقت مقررہ آیا تو قازق سرحد پر حاضر ہو گئے۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 329
جہاں ہندوستانیوں نے ان سے ہتھیار رکھوا لیے۔ ان میں وہ دونوں ہتھ گولے بھی تھے جو لڑائی میں قازقوں کے ہاتھ آئے تھے۔ لیکن ہندوستانیوں نے کہا، ہم ابھی تمہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ دلی سے ابھی تک اس کی اجازت نہیں آئی ہے۔ لیکن انہوں نے وعدہ کیا کہ اجازت ضرور دی جائے گی۔

اس نئی تاخیر سے نہایت مایوس ہو کر قازق بے ہتھیاروں کے اپنے پڑاؤ کی طرف جانے لگے تو انہوں نے دیکھا کہ ہندوستانی انہیں اشارے سے بلا رہے ہیں۔

جب وہ ہندوستانی افسر کے پاس پہنچے تو وہ بولا، "جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، جب تک میرے پاس اجازت نہ آ جائے، میں تمہیں اپنے علاقے میں داخل نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم اپنے علاقے کے باہر بھی تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ تم اپنا بچاؤ آپ کرو۔ تم اپنے ہتھیار واپس لے جاؤ۔ شاید تمہیں آج ہی ان کی ضرورت پڑ جائے۔"

نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آگاہی عمدہ پیش بینی کا نتیجہ تھی یا نہایت باخبر رہنے کی لیکن یہ واقعہ ہے کہ چند گھنٹے بعد ہی اشتراکیوں نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ ہندوستانی سرحد کے سامنے یہ پوری لڑائی لڑی گئی۔ اس کا آغاز یوں ہوا کہ اشتراکیوں نے گیارہ قازقوں کو گرفتار کیا اور فوراً ان کے سر اُڑا دیے۔ لیکن آخر میں قازقوں نے اپنے دشمنوں کو مار بھگایا۔ اب کے بھی وہ حسب دستور اوپر چڑھ گئے اور بلندی پر سے بے خوف و خطر ہو کر ان پر گولیاں چلاتے رہے اور مقتولین کا بھی پورا بدلہ لے لیا۔ لیکن


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 330
ان گیارہ مقتولین میں محمد تُروی کاری ایک فرشتہ صفت ملا بھی تھا۔ قرآن مجید کا بہت عمدہ حافظ۔ اس کی نیک نفسی اور قابلیت کا شہرہ دور دور پھیلا ہوا تھا۔ اس کے مارے جانے کا قازقوں کو بہت رنج ہوا۔

یہ لڑائی آخری تھی۔ سرحد کے ہندوستانی کماندار کو اب یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی کہ اگر انہیں کشمیر میں داخل ہونے سے مزید روکا گیا تو ان کا کیا انجام ہو گا۔ گیارہ بندھے ہوئے قیدیوں کے سر اس کی آنکھوں کے سامنے اُڑا ئے گئے تھے۔ بلکہ قازقوں کا کہنا ہے کہ اس بھیانک منظر کو ہندوستانیوں نے فلما بھی لیا تھا تاکہ وہ اوروں کو بتا سکیں کہ اشتراکیوں نے کیا کاروائی کی تھی۔ لہٰذا سرحد ان کےلیے کھول دی گئی اور وہ قازق جو مناس، کیوکلوک، کیوچنک، بارکل، غزکل اور تبت کے پُر صعوبت سفر کی لڑائیوں سے بچ رہے تھے اب محفوظ و مامون ہو گئے تھے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جو ان و حفاظت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ لڑائیوں میں، کال سے، اور خانہ بدوشی کے باعث اشتراکیوں کے ہاتھوں کتنے قازق مارے گئے۔ شنگ کے زمانے سے ماوزی تنگ کی عملداری تک، اٹھارہ سال کے عرصے میں کچھ نہیں تو ایک لاکھ قازق ضرور مارے گئے۔

جب بچے کچھے قازق 10 اکتوبر 1951ء؁ کو اجازت حاصل کر کے کشمیر میں داخل ہوئے تو انہیں اپنے باقی ماندہ ریوڑ، گلے اور ذاتی چیزیں اپنے ساتھ لے جانے کی بھی اجازت مل گئی۔ لیکن انہیں اپنے ہتھیار اور کل سامان جنگ سرحد پر رکھ دینا پڑا۔ اس میں علی بیگک ی دور بین، قطب نما اور نقشہ تو گیا ہی، اس کی وہ تلوار بھی گئی جس کے بارے میں اس کے
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 326


دو دو تین تین دن کے بعد قافلے کو پکڑ لیتے۔ کچھ البتہ لا پتہ ہوجاتے۔ عبد المطلب اپنی مرضی سے اکیلا سفرکرتا آیا تھا۔ بچوں کے ایسے نمایاں کارناموں سے قازق واقف ہی ہوتے ہیں مگر عبدالله کا زنده سلامت آ جانا ان کے نزدیک بھی ایک معجزہ تھا۔
جب عبد المطلب پیچھے رہ گیا تو اس کے گلے میں فوجیوں کا ایک کرمچ کا تھیلا پڑا تھا جس میں روٹی اورخشک غلّہ بھرا تھا۔ اس کی کمرمیں ایک چھری بھی پیٹی میں لگی ہوئی تھی۔ جب اسے خشک گھاس یا پتے یا گلی ہوئی لکڑی کہیں مل جاتی تو وہ چھُری اور چقماق سے آگ جھاڑ لیتا۔ علی بیگ کے قافلے کے پیچھے پیچھے وہ اپنے چھوٹے سے گلّے کو لیے چلتا رہتا۔ اس کے لیے یہ ایک بچوں کا کھیل تھا جس میں اسے مزہ آتا ۔ اُسے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا قا فلہ اکثر دکھائی دیتا رہتا لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے، قافلہ اس کی نظروں سے اوجھل رہنے لگا۔ اور جب قافلہ اسے بالکل ہی دکھائی نہ دیتا توعلامتوں سے وہ راستہ معلوم کرلیتا۔ سخت زمین اور پتھروں پر جانوروں کے کھروں کے نشان اسے دکھائی دے جاتے یا پھربھیڑ بکریوں کی مینگنیاں نظر آجاتیں، جنہیں قافلے والے جلانے کے کام میں نہیں لائے تھے۔ وہ ان علامتوں کو بچین سے جانتا تھا اور ان کے معنی بھی خوب سمجھتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے اسی عمر کے بچے آزاد دنیا میں باپ کو کار چلاتے دیکھ کر ہی کار چلانا خودبخود سیکھ جاتے ہیں۔
اس کی خوش نصیبی سے جس قافلے کے پیچھے وہ چل رہا تھا اس کے بعض جانور اس قدر تھک گئے تھے کہ چلنے سے معذور ہو گئے تھے اور
 

محمد عمر

لائبریرین
۲۷۱

اور بچوں نے بغیر کسی کے کہے جلدی جلدی خیمے اُتارنے شروع کر دیے یا جانوروں کی طرف دوڑے۔ اور خیموں کے معاملے کو واپسی پر چھوڑا کہ کبھی گھر واپس آئے تو دیکھا جائے گا۔

اشتراکیوں نے بالکل بے خبری میں حملہ کر دیا تھا پھر بھی ہر قازق پڑاؤ چل رہا تھا، دس ہی منٹ میں کسی کے ساتھ خیمے تھے۔ کسی کے ساتھ نہیں تھے۔ اور برف کے باوجود سب قریب کے پہاڑوں کی جانب چلے جا رہے تھے۔ ہر پڑاؤ کے گرد لڑنے والے آدمیوں کا پردہ سا پھیلا ہوا تھا۔ دشمن کے گھُڑ سواروں اور شتر سواروں پر وہ گولیاں چٹخا رہے تھے، اپنے ڈرتے ہوے ریوڑوں اور گلوں کو سمیٹنے اور اکٹھے کرتے جا رہے تھے اور دشمن کی بکتر گاڑیوں سے اسے دور ہنکا لے جا رہے تھے۔ اتفاق سے سارے قازق سردار ایک ہی جگہ جمع تھے۔ اگر وہ اپنے اپنے آدمیوں میں ہوتے تو یہ حملہ یقیناً ناکام ہو جاتا۔ اشتراکی حملہ آوروں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ترکی میں جو مہاجر تھے ان کے قول کے مطابق پیدل، گھڑ سوار، شتر سوار اور بکتر بند گاڑیاں، سب ملا کر کوئی تین ہزار آدمی تھے، لیکن حملہ آوروں کا سب سے خطرناک جزو بکتر بند گاڑیاں صرف کھلے علاقے میں کار آمد ثابت ہو سکتی تھیں۔ اور حملہ شروع ہونے کے گھنٹہ بھر کے اندر ہی بیشتر قازق پہاڑوں میں جا پہنچے تھے۔

جب دستور اشتراکیوں نے قازق گھُڑ سواروں سے بھڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سرداروں، ان کے گھر والوں اور ان کے جانوروں میں تفرقہ ڈالنا چاہا۔ گھر والوں کو گرفتار کرنے میں وہ قطعاً ناکام رہے اور جانوروں میں سے بھی آدھے ان کی دستبرد سے بچا لیے گئے لیکن

۲۷۲

سرداروں کو بھانسنے میں وہ بہت کامیاب رہے۔

عثمان کی سترہ سال کی بیٹی آزآپے اپنے باپ کے ساتھ سوار ہو کر حُرالطائی میں شریک ہوئی تھی۔ حالانکہ اس کا بیٹا شیر درمان میلوں دور خان امبل کے پہاڑوں میں اپنے پڑاؤ میں رہ گیا تھا۔ حملے کی منادی سنتے ہی باپ اور بیٹی گھوڑوں پر سوار ہو کر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ بیٹی دو قدم آگے تھی جب وہ ایک تنگ رہگزر میں سے جا رہے تھے تو عثمان بطور نے دیکھا کہ بہت سے اشتراکی اپنی کمین گاہ سے نکل آئے اور انہوں نے لڑکی کو گھوڑے پر سے کھینچ لیا۔ تعداد میں اشتراکی دو سو سے کم نہ ہوں گے لیکن جب عثمان بطور نے ان پر تاخت کی تو وہ سب کے سب پلٹ کر بھاگے۔ عثمان بطور اکیلا تھا اور مشین گن سے گولیاں برسا رہا تھا۔ اس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ان میں سے کتنے مار گرائے مگر جو زندہ بچے وہ بھاگ نکلے۔ جب وہ اپنی بیٹی کے پاس پہنچا تو وہ زخمی نہیں تھی لیکن اس کا گھوڑا مر چکا تھا۔ وہ اُچھل کر باپ کے پیچھے بیٹھ گئی اور دونوں پلٹ کر پھر سر پٹ روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ جھیل پر پہنچ گئے اور عثمان نے اس کی منجمد سطح پر سے اپنا گھوڑا گزارا۔ لیکن برف ناہمواری تھی۔ اور اس کا گھوڑا رپٹ کر گر گیا۔ سوار گر پڑے اور گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

عثمان بطور کے پاس اپنی مشین گن تھی اور اس کی بیٹی کے پاس ایک خود کار طمنچہ تھا۔ انہوں نے گھوڑے کے گولی مار دی اور اس کی لاش کی اوٹ لے کر کئی گھنٹے تک دشمن کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ مگر کوئی مدد اس عرصے میں

۲۷۳

نہیں پہنچی۔ کیونکہ ان کے دوستوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں ہیں؟ اشتراکی قریب آتے گئے اور ان کا گھیرا چھوٹا ہوتا گیا۔ انہوں نے گولیاں نہیں چلائیں کیونکہ انہیں احکام تھے کہ عثمان کو زندہ گرفتار کیا جائے۔

بالآخر وہ اتنے قریب آ گئے کہ چاروں طرف سے دوڑ کر عثمان پر جا پڑیں۔ انہوں نے اتلاوف جان کی پروا نہیں کی۔ قازق مہاجر کہتے ہیں کہ اس کوشش میں دو سو سے کم نہیں مارے گئے۔ جب اشتراکی چاروں طرف سے جھپٹ پڑے تو عثمان اور آز آپے نے بچی ہوئی گولیاں بھی چلا دیں۔ اس کے بعد اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے سوا اور کوئی بھی چارہ کار نہیں تھا۔

اشتراکیوں نے عثمان کی مشکیں کس دیں اور کوئی من بھر کا ایک پتھّر ان میں لٹکا دیا۔ پھر انہوں نے اسے ایک گھوڑے پر چڑھا دیا اس کے دونوں پاوں رسّی سے کس کر باندھ دیے اور اس ہئیت سے اسے تنگ ہوانگ لے گئے جو یہاں سے پچاس میل دور تھا۔ یہاں کئی دن اور کئی رات اسے اذیتیں دیں اور کبھی کبھی اسے گھوڑے پر چڑھا کر اس طرح بازارون میں گھمایا کہ اس آگے ایک اعلان ہوتا اور ایک اعلان پیچھے ہوتا جس پر لکھا ہوتا تھا۔ "یہ ڈینگ مارتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا مگر آزاد نہیں کرا سکا۔" لیکن انہوں نے اس کے منہ پر ڈھاٹا نہیں باندھا تھا۔ اس لیے عثمان چیخ چیخ کر تماشائیوں سے کہتا جاتا۔ "میں مر جاؤں کا مگر جب تک دنیا قائم ہے میرے آدمی لڑتے رہیں گے۔"

آخر میں اسے ارمچی لے جایا گیا جہاں کچھ دنوں میں اشتراکیوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسے مجمع عام میں قتل کرنے کا ایک منصوبہ بنایا۔ تا کہ خوف سے

۲۸۴

لوگوں کی ہمتیں پست ہو جائیں۔ پہلے انہوں نے اس کا منہ کالا کیا اور ایک لاری میں اُسے کھڑا کر کے بڑے بازاروں میں گھمایا۔ اس کے گلے میں ایک اعلان لٹکایا جس پر پہلے اعلان کو بدل کر یوں لکھا "یہ کہتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا لیکن یہ خود انگریزوں اور امریکیوں کے ہاتھوں میں بِک گیا۔" اس کے بعد وہ اسے شوئ موکوؤ لے گئے۔ اس نام کے معنی ہیں "پن چکیوں کی وادی۔" ہر طبقہ کئ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے نمائندے یہاں بھیجیں تا کہ وہ اسے قتل ہوتا دیکھیں۔ ان میں بچے تھے جو ہر اسکول سے آئے تھے۔ لوگ تھے ہر طبقے اور پیشے کے۔

شوئی موکوو میں گرم پانی کے چشمے ہیں۔ اور تہ در تہ پہاڑوں کی تنگ وادیوں میں دلدلیں ہیں۔ یہ پہاڑیاں ان بڑے سر بفلک پہاڑوں کے بچے ہیں جو ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ان چشموں کے متعلو مشہور ہے کہ ان میں بیماریاں دُور کرنے کے خواص ہیں۔ ان سے بعض پر غسل خانے بنائے گئے ہیں۔ کچھ چشموں پر مقامی بسنے والوں نے دھوبی گھاٹ بنا رکھے ہیں اور بعض سے پن چکیاں چلا کر بستی والوں کے لیے آٹا پیسا جاتا ہے۔ قرب و جوار میں کچھ لوہے اور کوئلے کی کانیں بھی ہیں۔ ؁۱۹۵۹ء کے ناگہانی انقلاب کے بعد سویت حکومت نے یہاں تین بڑی بھٹیاں بنائی ہیں، نہ جانے اپنے استعمال کے لیے یا چینیوں کے استعمال کے لیے۔ ارمچی کا سلاح خانہ بھی شوئی موکوو میں ہی ہے جس کے چاروں طرف بارکیں، کیمپ اور پریڈ کت میدان ہیں۔

عثمان بطور اور اس کی بیٹی کو یکم فروری ؁۱۹۵۱ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اور اگست تک عثمان کو قتل نہیں کیا تھا۔ اشتراکی اخباروں نے قتل گاہ کا

۲۷۵

منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ارمچی کے لوگ خود بخود جوق در جوق چلے آ رہے تھے تا کہ اس غدار کا انجام دیکھیں جس نے انہیں سرمایہ داروں کے باتھ بیچ ڈالنا چاہا تھا۔ ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ لوگوں کو وہاں اس لیے جانا پڑا کہ سواےت اس کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے یقین ہے کہ اشتراکیوں نے اُسے تماشا یوں بنایا کہ انہیں بغاوت ہو جانے اندیشہ تھا، وہ عوام کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ دیکھو ہماری مخالفت کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہٰذامقتل نہ صرف زبردستی کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا بلکہ بازار بھی زبردستی کے تماشائیوں سے پٹے پڑے تھے اور اس بھیڑ کے بھڑکّے میں عوامسی پولیس کے خفیہ گُرگے بھی کثرت سے گھلے ملے ہوئے تھے۔ چشم دید گواہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ وہاں موجود تھے وہ بہت خوفزدہ تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ اشتراکیوں سے سب متنفّر تھے اور ان کی یہ بے رحمی دیکھ کر ان کے دل بھ آئے تھے لیکن وہ اس خوف سے رو نہیں سکتے تھے کہ کہیں عوامی پولیس انہیں گرفتار نہ کر لے۔

عثمان کا مُنہ کالا کیا گیا تھا۔ اور اس کے گلے میں حقارت آمیز اعلان پڑا تھا۔ جب وہ اپنے مقتل کے قریب پہننے لگا تو ایک کارخانے کے سامنے سے گزرا جس میں سیاسی قیدی عورتیں فرجیوں کے لیے وردیاں بنا رہی تھیں، ان میں اس کی بیٹی آز آپے بھی تھی۔

غزکل پر اچانک حملہ کر کے اشتراکیوں نے قازق سرداروں میں سے صرف عثمان بطور ہی کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک اور سردار تھا جانم خان، جو سنکیانگ کا سابق وزیر مالیات تھا۔ اس کا تفصیل معلوم نہیں ہو سکی کہ وہ اشتراکیوں کے چنگل میں کیسے بھنس گیا لیکن اسے

۲۷۶

بھی ایک وقت تک اذیتیں دے کر اس کے سرکاری تفتیش کرنے والوں نے اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہی۔ اور اپنے دستور کے مطابق انہوں نے جانم خان کو بہت رضامند کرنے کی کوشش کی کہ اپنے بال بچوں اور متعلقین سے اپیل کرے کہ وہ اپنے آک کو حاکموں کے حوالے کر دیں تا کہ سب کی جانیں بچ جائیں مگر وہ نہ مانا اور اگر وہ ایسا کر بھی گزرتا تب بھی اس کے آدمیوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ ہر قازق بلکہ صوبے کا ہر باشندہ جانتا تھا کہ اگر کسی قیدی کے گھر والے اپنے آپ کو حوالے بھی کر دیتے ہیں تو قیدی کے انجام میں کوئی فرق نہیں آتا۔

عثمان بطور کے قتل کے عینی گواہ کا بیان ہے کہ جب جانم خان کو مقتل میں لایا گیا تو اس نے اپنے آپ کو بڑی شان سے سنبھالے رکھا۔ عثمان کو کوئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو جانم خان کو ارمچی میں ذاتی طور پر بہت لوگ جانتے تھے کیونکہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر یہیں مامور تھا۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے اس کے دوستوں نے کوئی مظاہرہ نہیں کیا نہ شہر میں نہ مقتل میں، لیکن جب رات ہوئی اور دن کی کہر پہاڑوں کے پہلوؤں پر سے سرک گئی تو دیکھا گیا کہ انہوں نے صدر مقام کے اوپر کی پہاڑیوں کے جنگلوں میں آگ لگا دی ہے اور سارے آسمان پر کئی دن تک دھوئیں کے غٹ کے غٹ مردے کی کالی چادر کی طرح پھیلے رہے یہاں تک کہ آگ خود ہی جل بجھی یا بارش سے بجھ گئی۔ مگر نہایت قیمتی تعمیری لکڑی کے ہزاروں ایکڑ اس آگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اشتراکیوں کو صدر مقام کے قرب و جوار میں قازقوں کی بغاوت کا اس قدر خوف تھا کہ کئی ہفتے بعد تک سڑکوں پر حفاظتی دستے گشت کرتے رہے۔

غزکل میں جب یہ مہلک لڑائی ہوئی تو جانم خان کا بیٹا دلیل خاں اور

۲۷۷

عثمان بطور کا بیٹا شیر درماں دونوں بچ نکلے اور ان دونوں کے باپ گرفتار ہو گئے۔ دلیل خان نے تبّت پار کرنے کی خطرناک مہم سر کی، یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کس راستے سے وہ خیریت سے ہندوستان پہنچ گیا۔ یقین ہے کہ وہ اب بھی وہیں ہو گا۔ اس کے برعکس زیر درماں مشرقی ترکستان ہی میں رہا۔ وہ ابھی تک وہیں ہے۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ باپ کے مرنے کے جو عرصۂ دراز اس نے لڑائی جاری رکھی۔

اس کا ثبوت خود اشتراکیوں ہی سے ملتا ہے۔ اگست ؁۱۹۵۳ء میں غزکل کی تباہی کے اٹھارہ مہینے بعد کشمیر میں بعض قازق مہاجر سری نگر کے ترکستانی ہوٹل میں ایک نشریہ سن رہے تھے، اُرمچی کے ایک اشتراکی معلّن نے ایک خبر سنائی جسے سن کر یہ آزاد قازق اچھل پڑے۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ شیر درمان اور اس کے چھوٹے بھائیوں نے اشتراکیوں کی طرف سے صلح کی فیاضانہ پیشکش کو قبول کر لیا ہے۔ سنکیانگ میں اب امن و امان ہے۔

اس خبر کے سننے تک کشمیر میں عثمان بطور کے دوستوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ شیر درمان جیتا ہے یا مر گیا ہے۔ اس اعلان کو سن کر ان میں بجلی سی دوڑ گئی۔

ان سننے والوں میں سے ایک عمر رسیدہ شخص نے کہا "واللہ اگر شیر درمان اب تک جیتا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ اس نے اپنے باپ کے قاتلوں کے آگےسر نہیں جھکایا۔ معلّن نے جھوٹا اعلان کیا ہے۔ اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ شیر درمان زندہ ہے اور اشتراکی اسے دبا نہیں سکے کیونکہ یہ لڑکا اپنے باپ کا خلف الصدق ہے۔ اس کے علاوہ ہم اشتراکیوں کی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس کی اطاعت قبول کر لینے کی خبر اس لیے نشر کی ہے کہ جو لوگ ناواقف ہیں وہ اسے سن کر پست حوصلہ ہو جائیں۔ ضرور اس نے بہت

۲۷۸

سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اشتراکیوں کو ڈر ہے کہ کہیں وہ اس سے بڑی کامیاباں حاصل نہ کرے جبھی تو انہوں نے ایسی خبر نشر کی ہے۔"

اس پر ایک نوجوان بولا۔ "اگر شیر درمان اب بھی لڑے جا رہا ہے تو ہمیں واپس چل کر اس نے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہونا چاہیے۔"

بزرگوں نے اس تجویز کی تائید میں سر ہلائے۔

ان میں سے ایک نے کہا "شاباش! مگر یہ بات تم نے جوش میں کہی ہے۔ بھلا تم وہاں جا کیسے سکتے ہو؟ ہندوستانیوں نے ہم سے ہمارے ہتھیار لے لیے اور تبّت کے لوگوں کو آزاد قازقوں سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اور ان کے ملک میں اشتراکی فوجوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مزید برآں جس راہ سے ہم آئے ہیں اگر اس کے علاوہ کسی اور راہ سے واپس جانے کا ارادہ کریں تو جو سرحدیں پاکستان، افغانستان اور نیپال کے روبرو ہیں سب کی نگران اشتراکی سپاہی کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم تارکینِ وطن واپس جا کر کوئی نیا فتنہ فساد برپا کر دیں اور ہندوستان بھی اشتراکیوں کے ساتھ اپنی سرحدوں کا پہرہ دے رہے ہیں تا کہ اشتراکی ان پر یہ اتہام نہ لگانے پائیں کہ تم نے قازقوں کو اشارہ دے کر یہ فساد کھڑا کرا دیا۔"

جوشیلے نوجوان نے کہا "جس راستے سے ہم آئے تھے اس پر بہت کم بستیاں ہیں۔ ہم تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن طاقت میں زیادہ ہیں۔ ہم دشمنوں سے بھی بھگت لیں گے اور توتُک اس گہری کُہر اور پہاڑوں اور نئی اور پرانی برف سے بھی نمٹ لیں گے۔"

بزرگوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ "اس کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے کیونکہ اگر دس نے ہمّت کی بھی تو مشکل سے ایک وہاں زندہ

۲۷۹

پہنچ سکے گا۔ دیکھو نا ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں۔ ہندوستانیوں نے ہم سے ہتھیار رکھوا لیے کیونکہ ہم ان کے ملک میں سیاسی مہاجرین کی حیثیت سے داخل ہوئے ہیں۔ لیکن ایک نہ ایک دن انتقام لینے کا وقت بھی آئے گا اور اس کے لیے ہم کمر بستہ رہیں گے۔"

سنکیانگ کی سرحدیں بلکہ سارے چین کی بالکل بند کر دی گئی ہیں، صرف قازق تارکین وطن کے لیے بلکہ آزاد دنیا کے غیر جانبدار ناظروں کے لیے بھی۔ اس لیے یقین کے ساتھ یہ جاننا ناممکن ہے کہ مہاجروں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے صحیح ہے یا غلط۔ یا یہ کہ چینی اشتراکیوں نے اس دور دراز علاقے کے بسنے والوں کو مطیع کرنے کی دشواری کے پیش نظر واقعی سنکیانگ کو خود مختاری دے دی۔ اگست ؁۱۹۵۵ء میں شائع ہونے والے ایک سرکاری اعلان میں اشتراکیوں نے اسی کا ادّعا کیا ہے۔ یہ اعلان شیر درمان کے صلح کی پیش کش کو قبول کرنے کے اعلان کے پورے دو سال بعد کیا گیا۔ اس کے بعد کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ "خود مختار يوئی‎غر جمہوریت سنکیانگ" کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ اس کے ساتھ مختلف گروہوں کو جن میں قازق بھی شامل ہیں اپنی مقامی حکومت بنانے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ یوئی‎غر دوسرا نام ہے ترکی کا۔ اگر ہم اس اعلان پر اس کی ظاہری حیثیت سے غور کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ مقامی قوموں کو پیکنگ اور ماسکو سے آزاد ہو کر اپنے امور کا انتظام خود کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ لیکں اگر واقعی ایسا ہوا تو ان کا پہلا کام اشتراکیت کو ختم کرنا ہوتا۔ لہٰذا "خود مختاری" کے معنی یقیناً یہ ہوئے کہ جو احکام دئیے جائیں ان کی تعمیل کی جائے۔

۲۸۰

بہرحال کچھ بھی ہو اگست ؁۱۹۵۳ء کے ریڈیو اعلان سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ یکم فروری ؁۱۹۵۱ء کے اچانک حملے کے بعد خان امبل کے پہاڑوں میں شیر درمان کو اشتراکی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ شیر درمان کے ساتھ اتنی قوت تھی کہ اٹھارہ مہینے تک وہ اشتراکیوں کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا۔ اور یہ کانٹا اتنا بڑا تھا کہ انہیں مصالحت کی پیش کش کرنی پڑی۔ حالانکہ انہیں لڑنے والوں، ہتھیاروں اور اسلحۂ جنگ کے لحاظ سے آزاد قازقوں پر بے انتحا فوقیت حاصل تھی۔ صرف اسی ایک واقعے سے قازقوں کے ہتھاری کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر ہتھیار، ہر گولی جو شیر درماں اور اس کے ساتھی استعمال کرتے تھے یا تو خانہ ساز ہوتی، یا مردہ دشمنوں یا لوٹے ہوئے رسدی قافلوں سے یہ اسلحہ فراہم کیے جاتے ۔ ہوائی جہاز یہ دیکھنے کے لیے برابر پرواز کرتے رہتے کہ وہاں وہ کہاں چھپا ہوا ہے، اسے نہ صرف لڑنے والے آدمیوں کو یکجا رکھنا پڑتا بلکہ ریوڑوں اور گلوں، خیموں اور آدمیوں اور ان کے خاندانوں کو سمیٹے رہنا پڑتا۔ کیونکہ انہیں سے اسے مدد اور ہر قسم کا آرام ملتا تھا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں رہ سکتا تھا۔ اچانک حملے سے محفوظ رہنے کے لیے اسے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا اور دشمن کے پٹھوؤں سے بھی۔ بہتر زمانہ آنے پر قازق بھاٹ شیر درمان کی رزمیہ کہانی ضرور لکھیں گے۔ جیسے ترکی میں دیویلی کے قریب وسطی اناطولیہ کے میدان میں آ بسنے والے کارا ملّا نے عثمان بطور کی رزمیہ داستان لکھی ہے۔

نہیں کہا جا سکتا کہ قازق نقطۂ نظر سے عثمان بطور کی رزمیہ کوئی عظیم نظم ہے یا نہیں۔ کارا ملّا کے بعض ساتھیوں کا بیان ہے کہ اس میں

۲۸۱

غلط بیانیاں بھی ہیں، لیکن اس سے قازقوں کے اس طرز فکر کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے جس نے ایسے شدید خطرات میں ان کی ہمت کو پست نہیں ہوئے دیا۔ ایک لحاظ سے یہ نظم عثمان بطور کی لوح مزار کی عبارت ہے۔ شاید وقت آنے پر شیر درمان کا کتبہ لکھا جائے جس کے پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس نے بوکو بطور کی پیشین گوئی کو کس طرح پورا کیا اور اپنے باپ کی توقعات کو بھی۔ حالانکہ قازقوں کے دشمن تکلا مکان کی ریت کے زرّوں سے بھی زیادہ تھے، اس پر بھی اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے پیارے وطن سے نکال باہر کیا اور ان صحراؤں میں انہیں واپس دھکیل دیا جن میں سے نکل کر وہ وطن عریز کو چرانے آ گئے تھے۔

غزکل کی لڑائی جس کا آگاز آزاد قازق کماندارِ اعلیٰ اور اس کے ایک معاون کی گرفتاری سے ہوا۔ تین دن اور تین رات تک مسلسل جاری رہی اور اس کا انجام اس پر ہوا کہ اشتراکی پیچھے ہٹ گئے۔ باقی ماندہ سردار خصوصاً علی بیگ اور اس کے دو مدد گار حمزہ اور قائنیش ادھر اُدھر گھوڑے دوڑاتے پھر رہے تھے تا کہ قازق سوار یکجا ہو کر حملے کریں، ایک مقام اتصال مقرر کریں کہ پہاڑوں میں کہیں سر جوڑ کر بیٹھیں، جن پر تاخت زیادہ ہو رہی تھی انہیں مدد پہنچائیں۔ اشتراکیوں کے سست رفتار شتر سواروں پر موقع دیکھ کر ٹوٹ پڑیں، اپنے خیمے اُتاریں۔ بکھرے ہوئے ریوڑوں کو سمیٹیں اور چھاپے مارنے کی تجویزیں بنائیں۔

علی بیگ کی بیوی مولیا نے خود اپنی ہمّت سے ایک چھاپہ مارا جس وقت اشتراکیوں کا حملہ شروع ہوا تو اس کے پڑاؤ کی عورتوں اور بچوں کو اتنا وقت نہیں ملا کہ اپنے خیمے اُتار لیتے۔ بس اتنا موقع ملا کہ

۲۸۲

پہلے اپنے بچوں کی طرف لپکیں اور پھر اپنے گھوڑوں کی طرف، جب اوروں کی طرح مولیا بھی روانہ ہونے لگی تو کسی کا ایک کم عمر ہچّہ اسے دکھائی دیا جو گھبراہٹ میں چھوٹ گیا تھا۔ اپنی زین پر سے جھک کر اس نے ایک ہاتھ سے بچّے کو اٹھا لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ چل پڑی۔ اشتراکی گھڑ سوار ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ کچھ اللہ کی مہربانی ہی تھی کہ اس کے گولی نہیں لگی ورنہ بعد میں اس نے دیکھا کہ اس کے کپڑوں میں گولیوں کے کئی سوراخ تھے۔

دراصل پہاڑوں کی جانب عورتوں کا یوں سرپٹ روانہ ہو جانا کوئی گھبراہٹ کی دوڑ نہیں تھی بلکہ ایک ایسی پسپائی تھی جو بخوبی تکمیل کو پہنچی۔ حالانکہ پہلے سے اس کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔ چکّر کاٹ کر یہ عورتیں اس راستے پر جا نکلیں جہاں پہاڑوں میں ان کے بیشتر جانور چر رہے تھے۔ جب تک تعاقب کرنے والے وہاں پہنچیں مولیا اور ایک چرانے والے لڑکے نے یہ طے کر لیا کہ چپکے سے اپنے پڑاؤ پر پینچ کر کچھ اپنا سامان نکال لائیں۔ جب وہ خیمے پر پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ دشمن نے ابھی اسے لوٹا نہیں ہے۔ انہیں یہاں دو مشین گنیں اور کچھ کارتوس مل گئے۔ لہٰذا اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ خیمے ہی میں رہیں اور جب دشمن ادھر آئے تو اس کا قرض مع سود چکا دیا جائے۔ دشمن نے پہلے تو تعاقب کیا اور جب ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تو وہ لوٹ مار کے خیال سے پڑاؤ پر واپس آیا۔ موليا اور چرواہے نے دشمنوں کو خیمے کے قریب آ جانے دیا۔ اور جب وہ بالکل پاس آ گیا تو انہوں نے دونوں مشین گئیں چلا دیں۔ دشمن گھبرا کر چھپنے کے لیے بھاگے، اتنے میں اس کے بہت سے آدمی ہلاک ہو چکے تھے۔ اشتراکیوں نے ان

۲۸۳

دونوں مشین گنیں چلانے والوں پر اندازے سے گولیاں پانچ گھنٹے تک چلائیں اور جب علی بیگ اور اس کے آدمی پڑاؤ پر واپس آئے تو وہاں سے دشمن کھسک گئے۔ مولیا کے ہمّت کر لینے سے ان کا سارا مال و اسباب بچ گیا جس میں علی بیگ کی مشہور دیگ تھی۔

اطمینان ہونے پر جب قازقوں نے حالات کا جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ قازق زیادہ نہیں مارے گئے تھے۔ انفرادی کوششوں اور مولیا جیسے حوصلے کے کارناموں کی بدولت انہوں نے اپنے بیشتر خیمے بھی بچا لیے اور گھر کا سامان بھی اور کم از کم پندرہ ہزار جانور بھی بچ گئے۔ اونٹ، مویشی، بھیڑیں اور گھوڑے۔ ان کا اتنا کر لینا کوئی بہت عجیب بات نہیں تھی۔ کیونکہ یہ ہم جانتے ہی ہیں کہ قازقوں کی ہر عورت اور بچّہ خوب لڑنا جانتا ہے۔ حالات کچھ ہی کیوں نہ ہوں یہ لوگ بد حواس نہیں ہوتے۔ مزاج کے لحاظ سے دیہاتی نہیں ہوتے حالانکہ نسلی اعتبار سے چرواہے ہوتے ہیں لیکن تیز دماغ ہوتے ہیں اور مشکل سے رام ہونے والے۔

بے شک یہ ممکن ہے کہ اشتراکیوں کا یوں چھوڑ کر چلا جانا اس خیال سے ہو کہ ہم نے ان کے دو سب سے بڑے سرداروں کو گرفتار کر ہی لیا ہے، اب یہ لوگ آپ ہی منتشر ہو جائیں گے۔ پہلے ہی ہلّے میں انہوں نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی تھی اس سے زیادہ، انہیں اور کیا چاہیے تھا۔

جب باقی ماندہ قازق سرداروں کو مل کر بیٹھنے کا موقع ملا تو جائزہ لینے پر انہوں نے اس وقت سمجھ لیا کہ اب ان کے لیے ایک ہی راہِ عمل کھلی ہوئی تھی وہ یہ کہ تبّت میں پہنچ جائیں اور اگر وہ گزرنے نہ دیں تو ان سے لڑ کر ہندوستان پہنچا جائے۔ اس پر وہ سب متفق الرائے ہوئے کہ سب کا

۲۸۴

ایک ساتھ سفر کرنا ناممکن ہو گا۔ اب بھی تین ہزار مرد، عورتیں اور بچے تھے۔ جانور اور خیمے الگ رہے کیونکہ انہیں چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ تنگ وادیوں اور پہاڑیوں کی گھاٹیوں میں سے انہیں گزرنا تھا اور اتنے زیادہ آدمیوں کے اکھٹے جانے میں قطار کئی میل بنتی۔ اگر اشتراکیوں کے ہوائی جہاز اس پر حملہ کر دیں یا گھاٹی کی چٹانوں پر سے دشمن گولیاں چلاتا ہے تو یہ لمبی قطار منتشر نہیں ہو سکتی تھی۔ کسی درّے میں سے گزرتے وقت اس قطار کے ایک سرے کا تعلق دوسرے سرے سے بالکل نہ رہتا۔ یا پھر سب کو بہت آہستہ چلنا پڑتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ابھی فروری کا مہینہ تھا اور تبّت کا بد ترین جاڑا ابھی آنا باقی تھا۔ اگر قافلہ اس سے چھوٹا ہوتا تب بھی کھانے اور چائے کا مسئلہ کسی وقت بھی اندیشہ ناک ہو سکتا تھا اور اتنے بڑے قافلے کے لیے ان مشکلات کا کوئی حل ہی نہیں تھا۔

لہٰذا آزاد قازق جو بچ رہے تھے انہوں نے اپنے اپنے سردار چنے اور چھوٹے چھوٹے گروہ بنائے اور اشتراکیوں کی اطاعت قبول کرنے کے بجائے ایک بالکل انجانے مستقبل کی جانب روانہ ہو گئے۔ حسین تجی کا قول ایک مرتبہ پہلے نقل کیا جا چکا ہے یہاں پھر دہرایا جاتا ہے۔ جانور کی طرح زندہ رہنے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔ جانور انسان کی طرف اس طرح دیکھتا ہے جیسے خدا کی طرف دیکھ رہا ہو۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کی طرف اس طرح دیکھے۔

چنانچہ علی بیگ، دلیل خاں، سلطان شریف اور خود حسین تجی نے یکے بعد دیگرے پڑاؤ کو چھوڑا اور اپنے اپنے گردہ اور گلوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جنوب کی جانب الطائن پہاڑوں کے جانے پہچانے راستوں پر
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۔270

درپیش تھے،حالانه یونانیوں کی تعداد قازقوں سے تقریبا
تین گنی تھی ۔لڑکر نکلنے کی صورت میں انھیں ایشیا کی دو سب سے بری طاقتوں کی مشترکہ افواج سے نبرد آزما ہونا تھا۔ اور دنیا کی سب سے بڑی قدرتی رکاوٹوں
کو عبور کرنا تھا۔
لہذا اس پر متعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عثمان بطور جونم خان اوربہت سے دوسرے لیڈر اس مہم کو سر کرنے سے کیوں باز رہے ۔ دونوں خرابیوں میں سے کم خرابی مزاحمت تھی م۔خصوصاً عثمان بطورکے لیے اس یقین سے متاثر تھا کہ بولو بطورو کی پیشین
گوئی پوری کرنے کے کے لئیےقسمت نے مجھے آلہ کار بنایا ہے ۔ “ایک نہ ایک دن ہم ان کافروں کو انہی صحراؤں میں دھکیل دیں گے.جہاں سے وہ آئے ہیں اور وہاں ہم انہیں برباد کر دیں گے چاہے ان کی تعداد تکلامکان کے ذروں جتنی ہی کیوں نہ ہو”
۱۹۵۰ء کے آخری تین مہینوں اور۱۹۵۱ء کی جنوری میں مسلسل انہی باتوں پر بحث و مباحثے ہوتے رہے کہ کیا کرنا چاہیے اورکس طرح کرناچاہیے۔ راویتاًمشرقی پاکستان میں جاڑے کا پہلا دن ۱۱نومبر تو پڑتا ہے،
ہے لیکن بعض دفعہ برفباری اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے اوربرف پڑجانے کے بعد لڑائی کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ گھوڑوں کی ازسر نونعل بندی کرنی ہوتی ہے اور خاردار نعل باندھے جاتے ہیں۔
جیسے کوچنگ کے قریب چھاپہ پڑنے پر عثمان بطور نے اپنے گھوڑےکے باندھے تھے اور دشمنوں کے نرغے سے بچ نکلا تھا۔ اگرایسے نعل نہ ہوں تو گھوڑے برف پر قدم نہیں رکھ سکتے،ریوڑوں اور گلوں کو چرنے کے لیے چراگا میں نہیں ملتیں تو انہیں خشک گھاس کھلائی جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ-صفحہ۔271

ہے جسے گرمیوں
میں جاڑوں کے پڑاؤمیں رکھ دیا جاتاہے۔
لہذا دیکھ بھال کے لیے یا چھاپہ مارنے کے لیے جو دستے جاتے وہ رسداپنے ساتھ لےجاتے اور جاڑوں میں قازق اپنے خیموں میں عموماً بیکار رہتے-چینی بھی
اس موسم میں لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے کیونکہ برف کی وجہ سے ان کی رسد بروقت نہیں بن سکتی تھی اور اکثر ان کے فوجیوں کے
پاس جاڑوں کی وردیاں بھی نہیں ہوتی تھیں یہی کیفیت اشتراکی ہشت راہ لشکر
۱۹۵۰-۵۱ءمیں تھی۔اور۱۹۳۳ءاور۱۹۴۳ کے درمیان شنگ
کی فوجوں اور کومینٹنگ فوجوں کا یہی حال تھا۔ اس کے باوجود حمزہ کےآدمی پہاڑی راستوں کی نگرانی کرتے رہے۔ حالانکہ گرمیوں میں مسلسل مقامی حملوں نے انھیں زبردستی پیچھے ہٹادیا تھا۔ستمبر ۱۹۵۰ءمیں عثمان بطورکے آجانے پر یہ حملے رفتہ رفتہ ختم ہوگئے اور پورےنومبر دسمبر اور جنوری میں محاذ پر سناٹا رہا۔
ایک حرُ الطائی کا بھی آغاز ہوا ہی تھا کہ یکم فردری ۱۹۵۱ء کی ایک صبح کو یکایک اشتراکیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیاکونسل کے خیمے میں سرداروں نے دور را تقلیں چلنے کی آواز سنیں اور اسکے بعد شیر کے غرانےکی طرح مشین گنوں کی آوازیں انھیں سنائی دیں اور
خیمےکے با ہرشور مچنےلگا ۔ اشتراکی آگئے ۔ اشتراکی آگئے۔اور انھوں نے قریب رکھے ہوئے ہتھیار اٹھائے اور خیمے سے نکل کر لپکے ۔ لوگ بھی اپنے اپنےگھوڑوں کی طرف بھاگے اور چندلمحوں میں سردار اور اُنکے توں ہی میں سردار اور ان کے آدمی یا تو لڑائی میں شریک ہونے کی غرض سے اُڑےجارہے تھے یا ان خیموں کی جانب ۔یہ خیمے کے قریب بھی تھے اور پندرہ بیس میل کے فاصلے پر بھی عورتوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد عمر

لائبریرین
۳۳۰

خاندان میں روایتی چلی آتی تھی کہ یہ تلوار خود چنگیز خان کی عطا کردہ ہے۔

قازقوں کو سب ملا کر سرحد کے تبّتی رخ پر باون دن انتظار میں پڑا رہنا پڑا۔ اس کے بعد انہیں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت ملی، حالانکہ محمد امین بغرا جو ترکی لیڈر تھا اور سری نگر میں رہتا تھا اطلاع پاتے ہی دلّی روانہ ہو گیا تا کہ ذاتی طور پر قازقوں کی طرف سے مسٹر نہرو سے اپیل کرے۔ غزکل اور ہندوستانی سرحد کے درمیان انہوں نے اشتراکیوں سے چھ لڑائیاں لڑیں اور جب اجازت آنے کے انتظار میں سرحد پر پڑے رہے تو دو اور لڑائیاں ہوئیں۔ تبّتیوں سے بھی ان کی تین جھڑپیں ہوئیں۔ غزکل سے علی بیگ کے ساتھ جو دو سو چونتیس افراد روانہ ہوئے تھے، صرف ایک سو پچھتر زندہ سلامت رہے۔ گیارہ ہزار بھیڑیں، ساٹھ گھوڑے، سینتیس گائیں اور پینتالیس اونٹ لڑائیوں میں، کم خوراکی سے اور بیماریوں میں ضائع ہوئے۔ وہ جانور لنگ رہے جنہیں انہوں نے اپنے کھانے کے لیے حلال کیا۔ دوسرے گروہوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکی لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ غزکل سے کوئی دو ہزار آٹھ سو قازق روانہ ہوئے تھے اور پندرہ سو اور اٹھارہ سو کے درمیان ان میں سے کشمیر پہنچے۔ ان میں سے بعض اب بھی ہندوستان میں ہیں۔ اس کے برعکس بعض وہ قازق جو سالہا سال سے ہندوستان اور پاکستان میں رہ رہے تھے، ان مہاجروں کے ساتھ ترکی چلے گئے جو غزکل سے آئے تھے۔ ترکی میں مشرقی ترکستان سے بعض قازق بیس سال پہلے چلے گئے تھے اور اب خاصے مالدار ہو گئے ہیں۔ بھیڑوں کی بدولت نہیں تجارت کی بدولت۔

۳۳۱

سرحد عبور کرنے کے بعد قازق سٹرک کے ذریعے لیہہ گئے جہاں موہادی سین، ہندوستانی جرنیل بنفِ نفیس ان سے ملے اور انہیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر پہنچانے کی پیشکش کی۔ شاید انہوں نے سمجھا ہو گا کہ قازق اس پیشکش کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہوائی جہازوں سے ڈرتے تھے اور انہیں تباہ کاری کے آلات شمار کرتے تھے لیکن سب نے اسے منظور کر لیا، سوائے بیس آدمیوں کے جنہوں نے جانوروں اور زخمیوں کو سڑک کے ذریعے سے جانے کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ پیش کیا۔ جب قازق کشمیر کے صدر مقام میں پہنچے تو جن کے پاس خیمے نہیں تھے انہیں عارضی طور پر صفا کدل سرائے میں ٹھیرایا گیا لیکن انہیں معلوم ہوا کہ اس کے سارے کمروں میں ترکی اترے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی مالدار مہاجر تھے جو اپنی دولت لے کر موقع سے فرار ہو گئے تھے اور بغیر لڑے جھگڑے امن کی حامی جگہ پہنچ گئے تھے۔ لہٰذا چند قازقوں کو کچھ عرصے کے لیے سرائے کے کھلے صحن میں قیام کرنا پڑا۔ اکتوبر کا مہینہ تھا اور سردی خوب بڑھ چکی تھی اور ان کے پاس آگ جلانے کو ایندھن نہیں تھا اور ابھی تبّت کے سفر کے مصاب کے اثرات بھی پوری طرح زائل نہیں ہوتے تھے۔

لیکن یہ سارے معاملات آخیر میں ٹھیک ہو گئے۔ اس پر بھی قازقوں نے محسوس کیا کہ وہ کشمیر میں آباد ہو کر خوش نہیں رہ سکتے حالانکہ یہاں کے لوگ انہی کی طرح مسلمان تھے۔ کشمیر کا ہر شخص بے اطمینان تھا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان میں اس پر تنازعہ تھا کہ کشمیر کس ملک میں شامل ہو۔ یہ سوال ایسا تھا جسے کشمیری کو خود حل کرنے کا حق حاصل

۳۳۲

ہونا چاہیے تھا لیکن اس وقت کوئی اور ملک بھی ایسا نہیں تھا جہاں قازق چلے جاتے۔ قازقوں کے سردار علی بیگ، دلیل خان، حسین تجی اور دوسرے جو ہمارے قصّے میں نہیں آتے، اس معاملے پر اکثر غور کرتے اور ہمیشہ اس نتیجہ پر پہنچتے کہ انہیں صبر سے کام لینا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ علی بیگ نے کشمیر پہنچنے کے بعد ہی صدر ٹرومین اور مسٹر چرچل میں کو خطوط بھی لکھے اور انہیں قازقوں کی زود حالت کی طرف توجہ دلائی تھی۔

ادھر قازق منتظر تھے اور سوچ رہے تھے کہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ علی بیگ کے پاس کلکتہ سے اطلاع پہنچی کہ سعالی کا بارہ سال کا لڑکا عبد الستار ستمبر ؁۱۹۵۱ء میں کلکتہ پہنچ گیا تھا، لیکن ماں باپ کے بغیر کیونکہ وہ دونوں مر چکے تھے۔ چٹھی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دولت مند تاجر عبدالغانم کا بھی بارہ سال کا لڑکا عادل عبد الستار کے ساتھ ہے اور توکتوگن مورخ عبد الكریم نو سال کا لڑکا بھی، جسے لانے کے لیے ارمچی می اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے کے بعد حمزہ اور عادل کو بھیجا گیا تھا، لیکن وہ سعالی اور ترکی سردار یول بارز اور امین طہٰ ملّا کے ساتھ ستمبر ؁۱۹۵۰ء میں غزکل سے نکل کر لاسہ روانہ ہو گیا تھا۔

علی بیگ نے عبدالستار کو فوراً خط بھیجا کہ تم دونوں لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر کشمیر چلے آؤ۔ انہوں نے خوشی خوشی اس دعوت کو منظور کر لیا۔ یہاں پہنچ کر عبد الستار نے سارے واقعات سُنائے کہ ان تینوں کے والدین کیسے مارے گئے اور یہ لڑکے کس طرح بچ بچا کر کلکتہ پہنچے۔

۳۳۳

یہ کہانی بجائے خود ایک رزمیہ داستان ہے اور کشمیر میں جو قازق بھاٹ تھے انہوں نے اسے دلیری کے کارناموں کی ایک نظم بنا دیا۔ یہ نظم قازقوں کے دستور کے مطابق اپلوں اور لکڑیوں کی آگ کی مدھم روشنی میں کسی رات کو خیمے میں گائی جانی چاہیئے اور اس طرح پشت در پشت گائی جاتی رہے گی۔ یہ نظم تاریخی اشاروں سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی اس لیے ہم نے وہ سیدھی سادی کہانی لے لی جو علی بیگ اور عبدالستار نے خود سنائی تھی۔ اس پر منظوم داستانِ شجاعت مرتب کی گئی تھی۔ ہم یہاں ایک بار پھر یہ جتانا چاہتے ہیں کہ جب یہ واقعات پیش آئے تو عبدالستار اور عبدالغانم دونوں بارہ بارہ سال کے تھے اور توکتوگن نو سال کا۔

عبدالستار نے کہا "غزکل سے نکلنے کے بعد ہم ایک مہینے تک سفر کرتے رہے لیکن ہمیں کوئی اشتراکی دکھائی نہیں دیا۔ پھر سردی بہت بڑھ گئی اور برف بہت پڑ گئی اور ہم آگے نہ بڑھ سکے۔

"جو ٹولی یول بارز کے ساتھ سفر کر رہی تھی اس میں سب نہیں تو بیشتر چینی تھے اور میرے باپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان میں چند سفید روسی بھی شامل تھے۔ اور کچھ اپنے آدمی تھے جو قازق تھے۔ ہمارے ساتھ کچھ جانور بھی تھے جنہیں میرا باپ اور یول بارز ساتھ لیتا آیا تھا۔ اور جب ہمیں کھانے کے لیے ان میں سے کسی کو حلال کرنے کی ضرورت ہوتی تو جھگڑا ہونے لگتا۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک دن یول بارز کا ایک آدمی میرے خیمے میں گھس آیا۔ میرا باپ آگ پر جھُکا ہوا تھا۔ اس شخص نے طمنچے سے میرے باپ کی پیٹھ میں گولی مار دی، زخم کاری لگا،

۳۳۴

باپ نے چیخ ماری اور عبدالکریم اور عادل جو قریب کے خیموں میں تھے، دوڑے ہوئے آئے کہ دیکھیں کیا ہوا۔ اس شخص نے ان دونوں کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس پر امین طہٰ ملّا ایک جرمن طمنچہ ہاتھ میں لیے غصّہ میں بھرا یول بارز کے پاس پہنچا اور اسے فاشسٹ ہونے کا طعنہ دیا۔ کیونکہ اس نے اس قسم کے ظلم کو روا رکھا تھا۔ یول بارز کے ساتھیوں نے امین طہٰ ملّا کو پیچھے سے آ کر پکڑ لیا اور اسے رسیوں میں جکڑ کر تلوار سے مار ڈالا۔ اس کے بعد ان چاروں مرنے والوں کی بیویوں نے واویلا مچایا اور اپنے منہ ناخنوں سے نوچ ڈالے اور ان کے منہ لہو لہان ہو گئے۔ پھر انہوں نے چھریاں سنبھالیں تا کہ یول بارز کو مار ڈالیں کیونکہ اس نے ان کے شوہروں کو قتل کرنے سے اپنے آدمیوں کو روکا نہیں تھا۔ لیکن یول بارز کے نوکروں نے ان سب عورتوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا اور عادل کے دو بیٹوں کو مار ڈالا۔ ان میں سے ایک چودہ برس کا اور دوسرا پندرہ برس کا تھا۔

"میرے باپ کے زخم کاری لگا تھا مگر وہ ابھی جی رہا تھا۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلا کر کہا یہ طمنچہ لو اور بھاگ کر پہاڑ میں چھپ جاؤ۔ لیکن دن کو بھاگنے سے میں ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے دیکھ لیں اور پکڑ کر ان کی طرح مجھے بھی مار ڈالیں، لہٰذا میں عبدالکریم کے خیمے میں گیا۔ وہاں مجھے توکتوگن اور عبدالغانم ملے اور جب رات کا اندھیرا پھیل گیا تو ہم تینوں پڑاؤ میں سے چھپتے چھپاتے نکلے اور ہم نے اپنے اپنے باپ کے طمنچے ساتھ لے لیے تھے۔ برف خاصی گہری پڑی ہوئی تھی اور ہم پیدل
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 296

ہیں کہ ہم نے ہوا ئی جہاز گرا لیا تھا اس کے بدلے ہمارے چند جانور مارے گئے۔ آدمی کوئی نہیں مارا گیا زمینی دستے جو حملے کرتے تھے ان میں بیسں سے تیس آدمی ہوتے اور سوائے ایک کے یہ حملہ آور لاریوں یا بکتر بند گاڑیوں میں نہیں بلکہ گھوڑوں پر سوار ہوتے تھے۔ یہ بھی کہ یہ لوگ خطائی ہوتے تھے خلدزا کے بھرتی کیے ہوئے غلام قازق نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے ان سے نمٹنا آزاد قازقوں کے لیے آسان ہوتا تھا۔
ایک دفعہ جو حملہ ہوا تھا اس میں قافلے کے حفاظتی دستوں نے دیکھا کہ فوجیوں سے بھری ہوئی دو لاریاں چنگھاڑتی چلی آرہی ہیں راستہ بہت ناہموار تھا اس لیے ڈرائیور مجبور تھے کہ راستے بھر آگے نظر جمائے رہیں اورادھر ادھر نہ دیکھیں اور گھنٹوں ان میں ہچکولے کھاتے رہنے کی وجہ سے لاریوں میں فوجی تھک کر چورا ہو رہے تھے لہذا جب قاذقوں کے پچھلے حفاظتی دستے نے جس میں اتفاق سے اس وقت صرف دو ہی آدمی تھے ڈرائیوروں کو تین چار ہی گز کے فاصلے سے گولیاں چلا کرمار ڈالا تو لاریاں بے قابو ہو کر الٹ گئیں اور ان میں آگ لگ گئی جو فوجی ان میں سوار تھے ان پر دو چار ہی گولیاں چلانی پڑیں باقی سب دب کر یا جل کر مر گئے ان کے تقرییاً سارے ہتھیار بھی ضائع ہو گئے۔ لیکن دونوں قازقوں نے چند خود کار آلات اور کچھ کارتوس پھر بھی حاصل کرہی لیے اورجب انھیں لے کر روانہ ہوئے تو ایک نے ہنس کر دوسرے سے کہا:
” اچھا ہوا کہ صرف دولاریاں تھیں ایک تمہارے لیے اور ایک میرے لیئے“
دوسرے نے جواب دیا:
” میری خودکار رائفل میں چھ گولیاں چلتی ہیں اور تمہاری رائفل میں


ص 297

بھی۔ لہذا اگر باره لاریاں بھی ہوتیں تو کیا تھا دو گولیاں اگر خطا بھی ہوجاتیں تو دس لاریاں پھر بھی ہمارے قبضے میں ہوتیں۔ اگر اتفاق سے بعض لاریاں بہت دور پیچھے ہوتیں جو ہماری مار سے باہر ہو تیں تو ہم پہلے اگلی لاریوں کو تباہ کرتے پھرلپک کر اپنے گھوڑوں پرسوارہو کر پچھلی لاریوں پر پہنچ جاتے۔ انھیں خبر بھی نہ ہوتی کہ آگے کیا گزر چکی ہے کہ اتنے میں ہم ان کا بھی خاتمہ کر دیتے۔ “
اشتراکی سوار فوجوں سے لڑائیوں میں قازقوں کے بہت سے آدمی مارے گئے۔ مرنے والے سب مرد ہی نہیں تھے کیونکہ عورتیں اور لڑکیاں بھی اب لڑ رہی تھیں۔ جیسے غزکل میں مردوں کے شانہ بشانہ مولیا لڑی تھی۔ جانوروں کی حفاظت بچوں پر چھوڑ دی جاتی کہ جیسی بھی کر سکیں کریں ۔ یہ چھوٹے بچے بھی وقت پڑنے پر بڑی ہمت دکھاتے تھے۔ جیسا کہ آگے چل کر مناسب مقام پر بیان کیا جائے گا۔
جب قازق الطائن پہاڑوں سے نکل کر کنلن پہاڑوں کے جنوب مشرقی بازو پرچڑھ گئے تو لڑائی بند ہوگئی۔ اشتراکیوں نے یہاں ان کا پیچھا نہیں کیا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ قازق اس پہاڑ میں سے زندہ نہیں گزر سکیں گے لیکن وہ اسے زندہ پار کر گئے اور ان کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا حالانکہ تبتّی جاڑے کا بد ترین مہینہ فروری تھا۔
جب برف بہت خراب ہوتی اور ڈر ہوتا کہ ان پر جانور پھسل پھسل کر اپنی ٹانگیں توڑ لیں گے تو قازق ان کے چلنے کے لیے برف پر نمدے اورقالین بچھا دیتے۔ یوں سب نہیں تو بیشتر صحیح سلامت نکل گئے لیکن اس طرح سفر سست اور سخت ہو گیا۔ آدمیوں کے لیے


ص 298

بھی اور جانوروں کے لیے بھی۔ خصوصاً بچوں کے لیے لیکن لوٹ کر جانے کا خیال کسی کے دل میں نہیں آیا۔
علی بیگ اور اس کے بیٹے حسن نے ان مقاموں کے نام لکھے ہیں جن سے غزکل چھوڑنے کے بعد وہ گزرے مثلاً اوشاکتی۔
اوزن کل جو غالباً کسی جھیل کا نام ہے۔ محمود کلغان۔ جنیش خشوف، سرجون تبّت ایشی۔ سنکیر۔ ہم نے کسی نقشے میں یہ نام نہیں دیکھے۔ صرف اس بھدے نقشے میں یہ نام درج ہیں جو علی بیگ ہمارے لیے خود بنایا ۔ اورغالباً ان میں بیشتر نام خود قازقوں ہی کے رکھے ہوئے ہیں۔
جب قازق اس سطح مرتفع پر پہنچے جوکنکلن پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں کے حاشیے پر ہے تو انھوں نے دیکھا کہ تبت والے انھیں بلندی سے دیکھ رہے ہیں علی بیگ نے ایک دستے کے ساتھ حمزہ کو فوراً روانہ کیا کہ ان سے جا کر ملے اور ان سے دوستی قائم کرنے کی کوشش کرے لیکن حمزہ کے پہنچنے سے پہلے تبّتی پہره دار بھاگ گئے۔ حمزہ نے دور فاصلے پر ایک دیہات دیکھ لیا۔ اور اس شام علی بیگ نے کچھ آدمیوں کو اس میں بھیجا کہ دیہات میں بسنے والوں کو رضامند کرکے راستہ بتانے والے لائیں وہ جا کر دو آدمی لے آئے جوعلی بیگ اور اس کے قافلے کو ایک بڑے دیہات میں لے گئے لیکن اس دیہات کے لوگ بدمزاج تھے اور انھوں نے کھانا اور چاره بھی قازقوں کے ہاتھ بیچنے سے انکار کردیا ۔ حالانکہ ان کے پاس دونوں چیزیں افراط کے ساتھ موجود تھیں ان کی زندگی بقول علی بیگ کے ایسی تھی جیسے سنگی زمانے کے آدمیوں کی۔ ادھرتووہ جھک جھک کررہے تھے ِادھر قازق

ص299

نگرانوں نے دیکھا کہ دیہات کے اطراف میں لوگ ہاتھوں میں ہتھیار لیے جمع ہوتے جارہے ہیں اور ان کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ قازق تعداد میں بہت کم تھے اور جگہ بھی بالکل کھلی ہوئی تھی۔ اس لیے تبّت والوں کے حملے کرنے سے پہلے خود قازقوں نے فورا حملہ کردیا اور ذرا سی دیر میں انھیں بھگا کر جوکچھ کھانا دانہ درکار تھا لے کرخالی گاؤں میں آگ لگا دی۔ پھر ان دونوں تبتیوں کو ساتھ لے کر جو انھیں اس گاؤں میں لائے تھے وہ انہی کی رہنمائی میں وہاں سے آگے چل پڑے۔
رہنماوں نے انھیں اس سڑک تک پہنچا نے کا ذمہ لیا تھا جو لاسہ کو جاتی تھی۔ ستمبر ۱۹۵۰ میں جب غزکل چھوڑا توسعالی اور بول بارز نے لاسا جانے ہی کا منصونہ بنایا تھا۔ اس زمانے میں اشتراکیوں نے تبت پرقبضہ نہیں کیا تھا۔ البتہ چند اشتراکی اسی وقت تبت پہنچے تھے۔ جس وقت سعالی اور بول بارز پہنچے تھے۔ لیکن جب ۱۹۵۱ کی فروری کے آخر میں علی بیگ وہاں پہنچا تواسے علم نہیں تھا کہ اشتراکی اس ملک میں موجود ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی اندیشے کے وہ تبتی رہنماؤں کے ساتھ چلتا رہا اس امید پر کہ یہ راستہ اسے اور اس کے قافلے کو پہلے لاسہ لے جائے گا اور پھر تبت کے عین بیچ میں سے ہو کر نیپال اور اس کے بعد ہندوستان پہنچا دے گا۔
رہنما انہیں کُھلے علاقے میں لے گئے جہاں ہوا نے برف کو اڑا کر رکھ دیا تھا اس لیے فروری کے اواخر ہی میں جانوروں کے چرنے کیلئے وہاں کچھ چارہ موجود تھا اور راستہ بھی زیادہ چڑھائی کا یا دشوار گزار نہیں تھا۔ سردی بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ حالانکہ یہ مقام سمندر سے کم از کم بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ایسے مقام پر آگئے جہان اونچے اونچے نرسل تھے۔

ص 300

علی بیگ مناس کا رہنے والا تھا جہاں اسی قسم کے نرسل تھے ان نرسلوں کے اندر کیا ہوسکتا تھا؟ اس تصور سے علی بیگ پریشان ہونے لگا۔ اور جب اس نے دیکھا کہ کچھ اونٹ غیرمنجمد دلدل میں دھنسنے لگے تو وہ کھٹک گیا وہ گھوڑا دوڑا کریہ دیکھنے آگے بڑھا کہ قافلے کو آگے جانا چاہیے یا لوٹ جانا چاہیے اس کے آگے بڑھتے ہی نرسلوں میں سے گولیاں چلنے لگیں پھر اس نے دیکھا تبتی رہنما دونوں کے دونوں بجائے پلٹ کربھاگنے کے گھوڑے دبائے اسی جانب چلے جارہے ہیں جدھر سے گولیاں چلی تھیں لہذا علی بیگ نے ان کے بچ نکلنے سے پہلے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
لیکن وہ اپنا داؤ کر چکے تھے ۔ علی بیگ کا سوتیلا بھائی زین الحمید اس وقت نرسلوں کے قریب تھا جب گولیاں چلنی شروع ہوئیں وہ ان بیسں اونٹوں کی قطار کی نگرانی کررہا تھا جن پر ان کا اپنا سامان لدا ہوا تھا۔ پہلی باڑ چلنے پرآگے کا اونٹ مارا گیا۔ اس کی دم سے پچھلے اونٹ کی جونکیل بندھی ہوئی تھی ٹوٹی لہذا دوسرا اونٹ ٹھہر گیا کہ اگلا اونٹ آگے بڑھے تو یہ بھی چلے مگر اگلا اونٹ مرچکا تھا۔ زین الحمید جب اس کی نکیل کاٹنے کے لیئے بڑھا تو اس کی ٹانگ میں گولی لگی اور وه بھی گرپڑا۔
جب علی بیگ اس کی مدد کو لپکا تو گولیاں سنسناتی ہوئی اس کے قریب سے گزریں اور کچھ گولیاں اس کے لباس کو داغتی ہوئی نکل گئیں لیکن وہ اپنے بھائی کے پاس زخمی ہوئے بغیر ہوئے بغیر پہنچ گیا اور اسے کسی نہ کسی طرح کھینچ کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا وه اونٹوں کو وہیں چھوڑ کر علی بیگ کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیا اوردونوں وہاں سے بچ کر محفوظ مقام آ گئے۔
 
آخری تدوین:

فہیم

لائبریرین
ریختہ 211 تا 214

اس کی وجوہ حسب موقع پیش کی جائیں گی۔

۱۹۴۸ میں جنرل تاؤ اور برہان شہیدی کے برسر اقتدار آجانے سے جو کچھ آئندہ ہونے والا تھا اس کی پرچھائیں مستقبل پر صاف دکھائی دینے لگیں۔ ۱۹۴۸ کا سال دوسرے ملکوں کے لیے جو مشرق ترکستان سے بہت دور رتھے نہایت ہنگامہ خیز تھا۔ کیونکہ ۱۹۴۸ ہی تھا جس میں سویت حکمران نے پراہا میں اشتراکی ٹولیوں کو شہ دی کہ غیر اشتراکی ٹولیوں کے کا کابوس سے نجات پائیں جس سے جرمنوں کے اخراج کے بعد سے وہ اتحاد کیے ہوئے تھیں۔ مختصر یہ کہ جب یورپ میں اشتراکی ساتھ رہنے کے زمانے کو اس طرح ختم کررہے تھے کہ یاتو اپنے ہم آشیاں کو نگل لیتے یا انہیں آشیاں سے باہر دھکیل دیتے۔ تو چین کے اشتراکی بھی انہی کی پیروی کی تیاریاں کر رہے تھے۔

مارچ ۱۹۴۹ تک قازقوں اور ترکوں کی آزادی کے لیے اشتراکی خطرہ کوئی سایہ نہیں رہا تھا بلکہ ایک تیزی سے قریب آتی ہوئی حقیقت بن گیا تھا۔ لہٰذا علی بیگ نے ایک بار پھر کوشش کی ترکستانی مسلمانوں سے جن میں تن گن دستے بھی شامل تھے جو اب تک چینی باقاعدہ فوج میں شامل تھےاشتراکیوں کے خلاف ایک محاذ قائم کرے ان کے کمانڈر جنرل ماچنگ ہسیانگ نے اس تجویز کو پسند کیا لیکن یہ کہا کہ چونکہ جنرل پائی ٹانکنگ میں اپنا اثر کھو چکا ہے اس لیے ایسے اقدام میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اس نے قازقوں کے اس شبہ کی تصدیق کی کہ چینی مصالحتی ناظم اعلٰی جنرل چانگ جس کا صدر دفتر لانچاؤ میں تھا غیر مصالحتی افسروں کو لانچاؤ سے آنے جانے نہیں دیتا تاکہ نانکنگ جاکر جنرل چیانگ کائی شک سے حقیقت حال نہ کہہ دیں یا ارمچی میں جنرل تاؤ کے اقتدار کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس طرح اُرمچی کا زمینی اور ہوائی تعلیق چین سے بالکل منقطع ہوگیا تھا۔ جنرل تانگ یا جنرل تاؤ کے ساتھ مل کر رہنے کے نظریے سے جس کسی کو بھی اختلاف ہوتا وہ ارمچی میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔

جنرل تاؤ کے جاسوسوں نے قازقوں اور تن گنوں کی گفتگوں کا پتہ چلا لیا اور جنرل ما کے پاس فوراً حکام آگئے کہ ان قازق لٹیروں سے تعلقات منقطع کرلیے جائیں جنھیں ریاست نے دشمن قرار دے دیا تھا۔

جنرل ما جنرل تاؤ کے ماتحت تھا۔ اس لیے احکام ماننے پر مجبور تھا لیکن جب رات آئی تو بہت سے تن گنوں کی رائفلیں اور مشین گنیں اور گولیا اور ہتھ گولے بھی کسی نہ کسی طرح گیہوں کی بوریوں میں پہنچ گئے اور یہ بوریاں اونٹوں پر لدی ہوئی شہر کے دروازوں پر تاؤ کے پہرہ داروں کی نظروں کے سامنے دن دیہاڑے گزرتی چلی گئیں۔ ساربانوں نے مناس کا راستہ لیا لیکن شہر پہنچنے سے پہلے، جس پر تاؤ کی فوجیں قابض تھیں، سب سے آگے اونٹ چونکہ خانہ بدوشوں کے دستور کے مطابق اگلے اونٹ سے رسی بندھے ہئوے تھے اس لیے جدھر اگلا اونٹ چلا یہ بھی چلے گئے دوسرا قافلہ بھی پہلے قافلے کے پیچھے ہولیا اور ان کے ساربانوں نے انہیں چلنے دیا۔ کیونکہ ساربان سارے مسلمان تھے۔ اگرچہ سب قازق نہیں تھے، وہ اشتراکیوں سے نفرت کرتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر سیدھے سادے آدمی تھے اور جو بھی ان پر جوا رکھنا چاہتا اس کے آگے اپنا سرجھکا دیتے۔ جب علی بیگ کے آدمیوں نے اس خفیہ سامان کو نکال لیا تو گیہوں پھر بوریوں میں بھر دیا اور قافلے کو لوٹا کر پھر شاہراہ پر ڈال دیا۔

اس عرصے میں جنرل ما کے قاصد سفر کرکے خیفہ طور پر پہاڑوں میں علی بیگ کے صدر مقال پہنچے یہ طے کرنے کے لیے کہ اشتراکی جب پیش قدمی کریں، تو انہیں کیسے روکا جائے۔ ترکی نمائندے بھی وہاں موجود تھے اور مذاکرات گھنٹوں ہوتے رہے۔ زمین پر ابھی برف پڑی ہوئی تھی کیونکہ مارچ ہی کا مہینہ تھا۔ لیکن نمدیدار خیموں کے اندر خوشگوار گرمی تھی اور کھانے کے لیے سال بھر کے برے بھی موجود تھے لیکن ماحول کچھ کشیدگی کا تھا۔ جتنے بھی وہاں موجود تھے ان میں سے ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ میں اپنے ساتھی پر بھروسا کرسکتا ہوں یا نہیں؟کہیں وہ اشتراکی تو نہیں ہے اور اس سے بدتر یہ کہ کہیں ارمچی جاکر بھانڈا تو نہیں پھوڑ دے گا کہ جنگی کونسل نے یہ یہ فیصلے کیے ہیں محض اس امید پر کہ اگر اشتراکی جیت جائیں تو اس صلے میں اس کی جان بچ جائے ۔

بہت سوچ بچار اور گفت و شنید کے بعد قازق ترکی تُن گن کی مشترکہ جنگی کونسل نے فیصلہ کیا کہ ہماری فوجوں کا اجتماع کارا شہر اور توکسن کے درمیان کیا جائے۔ یہ دونوں شہر تئین شان پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں پرہیں۔ لانچاؤ کے روبرو، اور اشتراکیوں کی پیش قدمی ادھر ہی سے ہوسکتی تھی۔ تن گنوں کےلیے یہ کام بہت سہل تھا۔کیونکہ ان کے بیشتر مسلح آدمی ارمچی میں تھے۔ اور ایک سڑک بھی موجود تھی۔ ترکیوں کے لیے بھی اس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ کیونکہ ان کے لیے لڑنے والے آدمی ہی کم تھے۔ لیکن علی بیگ اور اس کے قازقوں کے لیے اس کا یہ مطلب تھا کہ تئین شان کے شمالی رخ پر ان کے جو روایتی مسکن تھے انہیں چھوڑا جائے، یہ صحیح ہے کہ علی بیگ اور حمزہ کی ۱۹۴۴ء کی بغاوت میں قازقوں اور چینیوں کی جو لڑائی مناس میں ہوئی تھی اس کے بعد قزل ازون کی وادی چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ لیکن وہ پہاڑوں کے شمال ڈھلانوں پر رہتے رہے اور جب چاہتے واپس بھی چلے جاتے۔اب انہیں سلسلہ کوہ عبور کرکے دوسری طرف جانا اور اپنے لیے مسکن تلاش کرنا تھا۔ اور اپنے ریوڑوں اور گلوں کے لیے ایسے علاقے میں چراگائیں ڈھونڈنی تھیں جہاں بارش نسبتاً کم ہوتی تھی۔ اور سوائے خدا کے کسی کو علم نہیں تھا کہ آئندہ پھر واپس آنا کب نصیب ہوگا۔

علی بیگ نے ایک سرسری سا نقشہ اس راستے کا بنایا۔ جس پر تارکین وطن کو اپنا طول سفر کرنا تھا۔ انہیں اس کے متعلق کچھ نہیں معلوم تھا کہ کب یہ سفر شروع کرنا پڑ جائے گا۔ اس کا بیٹا حسن انگریزی بولتا اور لکھتا ہے۔ کشمیر میں اس ن ےانگریزی سیکھی تھی۔ اس نے اپنے باپ کی ہدایتوں کے مطابق مقاموں کے نام لاطینی حروف میں لکھے۔ یہ سفر اپریل کے وسط میں شروع ہوا جب برف اتنی پگھل گئی کہ قازق اپنے لدے ہوئے جانوروں کو اس عظیم سرمایہ آب پر سے گزار لے جائیں جو پندرہ ہزار فٹ اونچی دیوار کی طرح ڈیڑھ سو میل تک چلا جاتا ہے اور اس میں کہیں اتنا شگاف نہیں ہے کہ کوئی اس میں سے گزر جائے۔ دورانِ سفر میں ان کے مشرق کو وہ تین دیو آسا برف پوش چوٹیاں تھیں جو سطح سمندر سے اکیس ہزار فٹ اونچی تھیں اور قازقوں اور ان کے ریوڑوں اور ان کے شاہین سے شکار کھیلنے والے گروہوں کو سدا سے دیکھتی چلی آئیں تھیں۔

بیشتر راہ انہیں بغیر کسی سڑک کے طے کرنی پڑی اور جانوروں کے لیے چلنا بڑا مشکل ہورہا تھا کیونکہ ان پر خیمے اور گھریلو سامان لدا ہوا تھا۔ اسی میں علی بیگ کی وہ بڑی سی آہنی دیگ بھی تھی۔ جسے اونٹ کی پیٹھ پر رکھنے کے لیے چھ قوی آدمیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اپنے سفر میں کارا تاؤ۔۔ کالے پہاڑوں۔۔ میں سے گزرے، یہ پہاڑ تئین شان سلسلہ کوہ کا ایک حصہ ہیں۔ پھر زورمتی، اُسی، اُش، تاثیر کائی اور کیو کلرک سے گزرے۔ ان میں سے جہاں تک ہمیں علم
 
Top