باباجی
محفلین
عجیب کرب میں گذری گذری، جہاں جہاں گذری
اگرچہ چاہنے والوں کے درمیاں گذری
تمام عمر چراغِ امید جلاتے رہے
تمام عمر امیدوں کے درمیاں گذری
گذر گئی جو تیرے ساتھ وہ یادگار رہی
بناء تیرے جو گذری، وبالِ جاں گذری
مجھے سکوں میّسر نہیں تو کیا غم ہے
گُلوں کی عمر تو کانٹوں کے درمیاں گذری
عجیب چیز ہے یہ گردشِ حالات "محسن"
کبھی زمِیں تو کبھی مثلِ آسماں گذری