عراقی صحافیوں و بچوں کیخلاف امریکی دہشت گردی!

arifkarim

معطل
wikileaks باقی مین اسٹریم ویب سائٹس کے بر عکس ایک منفرد سائٹ ہے۔ جو دنیا بھر سے خفیہ دستاویزات کو عام کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ اب تک ۱،۲ ملین اعلیٰ نوعیت کی دستاویزات ریلیز کر چکی ہے۔ جسکی وجہ سے مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیز سی آئی اے، موساد وغیرہ اسکے بانیوں اور سرورز کیخلاف سازشیں کرتی رہتی ہیں۔
آج جو ویڈیو ریلیز کی گئی ، اسمیں بے قصور عراقی صحافیوں کے کندھوں پر لٹکے کیمروں کو کلاشنکوفیں سمجھ کر انپر اندھا دھند فائرنگ کے مناظر کو عکس بند کیا گیا ہے:
اسمیں سب سے زیادہ غور طلب چیز ،گولی برساتے فوجیوں کے وہ جملے ہیں جو وہ فائرنگ کے دوران استعمال کرتے ہیں، اور بالکل ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کسی ویڈیو گیم میں سبقت لیجانے کیلئے لڑ رہے ہوں۔:)
امید ہے اس ویڈیو کی ریلیز کے بعد امریکی جمہوریت کی دوا کا اثر پیشر ممالک سے اٹھ جائے گا!
وسلام
 

arifkarim

معطل
شکریہ۔ یہی ویڈیو میں اوپر پوسٹ کر چکا ہوں۔ جلد ہی وکی لیکس کی طرف سے مزید کا انتظار ہے۔
 

ابن عادل

محفلین
ایسے نا جانے کتنے جرم ہیں جو منظرعام پر اآچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کون ہے جو عقل کے ناخن لے ۔۔ مسلمان ان کا دشمن ہے اور دشمن سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ماتم اپنوں کا ہے جو اب تک انہی کا کھاتے اور گاتے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ وہ دشمن ہے جو کام نکل جانے کے بعد اپنے غلاموں سے بھی یہی حشر کرتا ہے ۔ تمام امریکہ نواز حکمرانوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے ۔
ہم دعاگو ہیں کہ اللہ عراقیوں کو اپنی جدوجہد میں کامیاب کرے ۔اٰمین
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ سياسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے بے گناہ افراد کی ہلاکت سے امريکہ کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ عالمی افواج ايسے تمام اقدامات اور ضروری تدابير اختيار کرتی ہيں جن سے بے گناہ افراد کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے۔ اس کے برعکس دہشت گرد دانستہ عام شہريوں کو نشانہ بناتے ہيں اور اپنے اقدامات سے براہراست ان کی زندگيوں کو خطرے ميں ڈالتے ہيں۔ امريکی حکومت اور فوج ميدان جنگ اور حساس علاقوں ميں عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم معاملے سميت تمام چيلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ۔ جب آپ امريکی اور نيٹو افواج کی فوجی کاروائ کے نتيجے ميں نادانستہ طور پر ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کے حوالے سے بحث کرتے ہیں تو اس ضمن ميں آپ کو يہ حقيقت تسليم کرنا پڑے گی کہ کسی بھی فوجی تنازعے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ ان فوجی کاروائيوں کے دوران خود امريکی اور نيٹو کے کئ فوجی "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے نتيجے ميں بھی ہلاک ہو چکے ہيں۔ کسی بھی واقعے کے ميرٹ اور اس کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ان واقعات اور حالات کا غير جانب دارانہ تجزيہ کرنا چاہيے جو بالاخر ايک فوجی کاروائ کی صورت اختيار کر جاتا ہے۔ اس ويڈيو میں جس فوجی حملے کی تفصيل موجود ہے وہ بغير منصوبہ بندی کے کيا جانا والا کوئ بلااشتعال حملہ نہيں تھا۔ اسی علاقے کے نزديک اس واقعے سے کچھ دير قبل امريکی فوجيوں پر حملہ کيا جا چکا تھا۔

امريکی فوج نے اس واقعے کے بعد مکمل تفتيش کی تھی اور تحقيق سے يہ بات ثابت ہوئ تھی کہ امريکی فوجيوں کی جانب سے دانستہ مجرمانہ کاروائ نہيں کی گئ تھی۔ يہ بات بہت اہم ہے کہ يہ فوجی کاروائ اسی علاقے ميں امريکی اور عراقی حکومتوں کی فورسز اور مزاحمت کاروں کے مابين پہلے سے جاری جنگ کا حصہ تھی۔ جيسا کہ اس ويڈيو ميں واضح ہے کہ بہت سے افراد ہتھيار اٹھائے ہوئے تھے جن ميں اے – کے 47 اور آر – پی – جی بھی شامل تھيں۔ يہ حقیقت بھی ويڈيو سے عياں ہے کہ فوجيوں کو متعدد بار اس بات کی تاکيد کی گئ تھی کہ وہ حملے سے قبل اس بات کا يقين کر ليں کہ ہتھيار واضح طور پر ديکھے جا سکتے ہيں کہ نہيں۔

امريکی فوجی اس بات سے بھی آگاہ نہيں تھے کہ اس حملے کے موقع پر صحافی يا بچے بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ صحافی نہ ہی اپنی پريس کی جيکٹ پہنے ہوئے تھے اور نہ ہی کوئ ايسا نشان موجود تھا جس سے يہ واضح ہوتا کہ ان کا تعلق صحافت سے ہے۔ اسی طرح کم سن بچے وين کے اندر امريکی فوجيوں کی نظر سے اوجھل تھے۔

جب امريکی فوجی حملے کے بعد اس جگہ پر پہنچے تو ان کم سن بچوں کو فوری طوری پر اس علاقے سے نکال کر امريکی فوجی ہسپتال ميں منتقل کر ديا گيا۔
ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ عراق ميں جنگ کے آغاز سے اب تک 139 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں زيادہ تر کی اموات دہشت گردوں کی کاروائيوں اور اور ان کے طے شدہ حملوں کے نتيجے ميں ہوئ ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

ابن عادل

محفلین
محترم فواد صاحب
ابھی تو ابوغریب جیل کے قیدیوں کی صداوں کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ یہ معاملہ سامنے آگیا ۔ اور افسوس اس پر ہے کہ آپ ہر معاملے پر دفاع کے لیے تیار بیٹھے ہیں اگر چہ یہ آپ کی ڈیوٹی کا تقاضا ہے لیکن اس ہٹ کر ایک انسان دوستی کی نظر سے دیکھیں ( مسلمان دوستی کی نہیں ) تو کیا آپ کا دل یہ نہیں پکارتا کہ واقعی یہ گھناونے جرائم ہیں ۔ عراق پر صرف شبہ بنا پر کیے جانے والے قبضے کو دیکھیں اور اس اتنے بڑے جرم کو دیکھیں بخدا یہ کام کوئی اور کرتا کیا آپ کے خیال میں امریکہ اس وضاحت سے مطمئن ہوجاتا جو اب اس نے اپنے حق میں کی ہے ۔
خیر میرا مقصود صرف یہ ہے کہ آپ کے علم میں لاوں کہ بی بی سی کے مبصر کا اس بارے میں کیا خیال ہے ۔ حیرت ہے وہ ویڈیو کو دیکھ کر اس سے کیا نتائج اخذ کررہا ہے اور آپ اسی کے بارے میں کس طرح دفاعی پوزیسن اخیار کیے ہوئے ہیں ۔ مجال ہے جو کسی امریکی نمائندے نے اس واقعے پر شرمندگی کا اظہار کیا ہو ۔
تبصرہ
خفیہ سرکاری اور غیر سرکاری معلومات کو منظر عام پر لانے والی ایک امریکی ویب سائیٹ، وکی لیکس نے امریکی فوجیوں کی جانب سے دوہزار سات میں بغداد میں عام لوگوں پر اپاچی ہیلی کاپٹر کے ذریعے حملے کی ایک وڈیو رکارڈنگ پچھلے دنوں جاری کی۔

وکی لیکس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں خبررساں ادارے رائیٹر کے دو صحافیوں سمیت درجن بھر افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ زخمیوں میں دو بچے بھی شامل تھے۔
اپاچی ہیلی کاپٹر کے گن کیمرا سے بنائی گئی اس وڈیو کو دیکھنے اور اس دوران فوجیوں اور ان کے بیس کمانڈروں کے درمیان گفتگو سے امریکی فوج کاگھناؤنا پہلو سامنے آتا ہے۔ سب سے زیادہ غیر انسانی رویہ کا مظاہرہ فوجیوں نے اس وقت کیا جب چن چن کہ عراقی شہریوں کو ہلاک کرنے کے بعد، فوجی کہتا ہے کہ 'حرامی مردہ پڑے ہیں'۔
ایک اور مرحلے پر جب فوجیوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ مرے ہوئے یا زخمی افراد کو اٹھانے کے لیے جو وین آئی تھی اور جس کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، اس میں دو بچے بھی تھے، تو فوجی کہتا ہے کہ 'یہ تو ان کا قصور ہے کہ وہ بچوں کو بھی میدان جنگ میں لے آتے ہیں۔'
وڈیو دیکھنے سے یہ نہیں لگتا کہ زمین پر موجود عراقیوں کے پاس اسلح تھا یا یہ کہ وہ ہیلی کاپٹر پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ لیکن امریکی فوجیوں نے اپنے بیس کمانڈر کو وائرلیس پر اطلاع دی کہ کچھ لوگوں کے پاس اسلح ہے اور وہ حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، اس لیے انہیں اجازت دی جائے کہ وہ ان کو نشانہ بنائیں۔ اس کے بعد انہیں کمانڈر نے اجازت دی اور پھر۔۔۔
زمین پر قہرام مچ گیا۔ لوگ جان بچانے کے لیے گرتے پڑتے، حواسباختہ ہر سمت میں دوڑنے لگے۔ وڈیو دیکھ کر ایک لمحے کو احساس ہوتا ہے کہ آپ ایک حقیقی واقعہ نہیں دیکھ رہے بلکہ کوئی وڈیو گیم کھیل رہا ہے اور لوگوں کو مارنے کے پوائنٹس ملنے پر تالیاں بجا بجا کر خوش ہورہا ہے۔۔۔ ویل ڈن،گیم اوور۔
اس واقعہ پر امریکی محکمہ دفاع نے کہا کہ اس کی تفتیش کی گئی تھی جس سے یہ سامنے آیا کہ فائرنگ کرنے والے فوجیوں نے تمام فوجی طریقہ کار یا 'رولز آف انگیجمنٹ' پر عملدرآمد کیا تھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ عراق اور افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کے غیر انسانی رویے کی تفصیلات سامنے آئی ہوں۔ اس سے قبل بھی کئی فوجی معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کو بلا اشتعال قتل کرنے اور جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایجنٹوں کی جانب سے القائدہ کے مبینہ اراکین پر ظالمانہ تفتیشی طریقوں کی خبریں بھی ڈھکی چھپی نہیں۔
امریکی افواج اور ایجنٹوں نے سرد جنگ کے دوران لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں جو مظالم ڈھائے ان پر تفصیلی دستاویزات اور کتابیں موجود ہیں۔
صدر براک اوبامہ کہتے ہیں کہ وہ ماضی کے طریقوں کو بدل رہے ہیں اور بلا شبہ انہوں نے اس سمت میں بعض اقدامات بھی کئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کی عدلیہ، انسانی حقوق کے ادارے اور عوام کی ایک بڑی اکثریت ان مظالم کے خلاف ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک سلطنت کی سمت کو فقط ایک شخص بدل سکتا ہے؟

گو دنیا کے کئی ملک کی افواج انسانی حقوق کے چیتھڑے اڑاتی ہیں، لیکن بلند اخلاقی اقدار کے دعویدار سپرپاور کی جانب سے اس نوعیت کے غیرانسانی رویے سے باقی دنیا اور شدت پسندگروپوں کو شہ ملتی ہے اور نتیجہ صرف بے قصور انسانوں کے بے جا خون کا ہی نکلتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ سياسی، سفارتی اور فوجی لحاظ سے بے گناہ افراد کی ہلاکت سے امريکہ کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ عالمی افواج ايسے تمام اقدامات اور ضروری تدابير اختيار کرتی ہيں جن سے بے گناہ افراد کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے۔ اس کے برعکس دہشت گرد دانستہ عام شہريوں کو نشانہ بناتے ہيں اور اپنے اقدامات سے براہراست ان کی زندگيوں کو خطرے ميں ڈالتے ہيں۔ امريکی حکومت اور فوج ميدان جنگ اور حساس علاقوں ميں عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم معاملے سميت تمام چيلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ۔ جب آپ امريکی اور نيٹو افواج کی فوجی کاروائ کے نتيجے ميں نادانستہ طور پر ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کے حوالے سے بحث کرتے ہیں تو اس ضمن ميں آپ کو يہ حقيقت تسليم کرنا پڑے گی کہ کسی بھی فوجی تنازعے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ ان فوجی کاروائيوں کے دوران خود امريکی اور نيٹو کے کئ فوجی "فرينڈلی فائر" کے واقعات کے نتيجے ميں بھی ہلاک ہو چکے ہيں۔ کسی بھی واقعے کے ميرٹ اور اس کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ان واقعات اور حالات کا غير جانب دارانہ تجزيہ کرنا چاہيے جو بالاخر ايک فوجی کاروائ کی صورت اختيار کر جاتا ہے۔ اس ويڈيو میں جس فوجی حملے کی تفصيل موجود ہے وہ بغير منصوبہ بندی کے کيا جانا والا کوئ بلااشتعال حملہ نہيں تھا۔ اسی علاقے کے نزديک اس واقعے سے کچھ دير قبل امريکی فوجيوں پر حملہ کيا جا چکا تھا۔

امريکی فوج نے اس واقعے کے بعد مکمل تفتيش کی تھی اور تحقيق سے يہ بات ثابت ہوئ تھی کہ امريکی فوجيوں کی جانب سے دانستہ مجرمانہ کاروائ نہيں کی گئ تھی۔ يہ بات بہت اہم ہے کہ يہ فوجی کاروائ اسی علاقے ميں امريکی اور عراقی حکومتوں کی فورسز اور مزاحمت کاروں کے مابين پہلے سے جاری جنگ کا حصہ تھی۔ جيسا کہ اس ويڈيو ميں واضح ہے کہ بہت سے افراد ہتھيار اٹھائے ہوئے تھے جن ميں اے – کے 47 اور آر – پی – جی بھی شامل تھيں۔ يہ حقیقت بھی ويڈيو سے عياں ہے کہ فوجيوں کو متعدد بار اس بات کی تاکيد کی گئ تھی کہ وہ حملے سے قبل اس بات کا يقين کر ليں کہ ہتھيار واضح طور پر ديکھے جا سکتے ہيں کہ نہيں۔

امريکی فوجی اس بات سے بھی آگاہ نہيں تھے کہ اس حملے کے موقع پر صحافی يا بچے بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ صحافی نہ ہی اپنی پريس کی جيکٹ پہنے ہوئے تھے اور نہ ہی کوئ ايسا نشان موجود تھا جس سے يہ واضح ہوتا کہ ان کا تعلق صحافت سے ہے۔ اسی طرح کم سن بچے وين کے اندر امريکی فوجيوں کی نظر سے اوجھل تھے۔

جب امريکی فوجی حملے کے بعد اس جگہ پر پہنچے تو ان کم سن بچوں کو فوری طوری پر اس علاقے سے نکال کر امريکی فوجی ہسپتال ميں منتقل کر ديا گيا۔
ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ عراق ميں جنگ کے آغاز سے اب تک 139 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں زيادہ تر کی اموات دہشت گردوں کی کاروائيوں اور اور ان کے طے شدہ حملوں کے نتيجے ميں ہوئ ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

شکریہ۔ یعنی ہر حال میں امریکہ ہی صحیح راہ پر ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

شکریہ۔ یعنی ہر حال میں امریکہ ہی صحیح راہ پر ہے۔

ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی حکومت اور انتظاميہ کے اراکين عقل کل ہيں يا ہميشہ درست فيصلے کرتے ہيں۔ ميں نے اکثر اپنی پوسٹ ميں يہ بات کہی ہے کہ يقينی طور پر غلطياں سرزد ہوئ ہيں اور ايسے فيصلے بھی کيے گئے ہيں جو وقت گزرنے کے ساتھ غلط ثابت ہوئے ہيں۔

ميں صرف اس پس منظر، تاريخی حقائق اور تناظر کی وضاحت کرتا ہوں جن کی بنياد پر فيصلے کيے گئے تھے اور پاليسياں مرتب کی گئيں۔ يہ نامکن ہے کہ غلطيوں سے پاک ايسی پاليسياں تشکيل دی جائيں جس سے دنيا کے سارے مسائل حل کيے جا سکيں۔ ايسا کرنا امريکہ سميت دنيا کی کسی بھی حکومت کے ليے ممکن نہيں ہے۔

ليکن ميں اس بنيادی سوچ اور نقظہ نظر سے اختلاف رکھتا ہوں جس کے تحت ہر واقعہ، بيان اور پاليسی کو سازش کی عينک سے ديکھا جاتا ہے۔ يہ سوچ فہم اور منطق کے منافی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہر واقعے اور خبر کے دو رخ ہوتے ہيں اور حقائق کو سمجھنے کے لیے يہ ضروری ہوتا ہے کہ واقعات کے تسلسل کی جانب درانہ اور يکطرفہ رپورٹنگ اور تشريح سے ہٹ کر دونوں نقطہ نظر کو يکساں پرکھا جائے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی يہ واضح کيا تھا کہ اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں ہے کہ جس ترمیم شدہ ويڈيو کی دانستہ ايک مخصوص انداز ميں تشہير کی جا رہی ہے اس ميں يقينی طور پر دو صحافيوں کی موت ہوئ ہے۔ ليکن ايک عمومی تاثر کے برعکس امريکی افواج کی جانب سے ايک وار زون سے متعلق عسکری قواعد اور پروٹوکولز کی کوئ خلاف ورزی نہيں کی گئ تھی۔

ميں يہاں پر اسی ويڈيو کا وہ حصہ پيش کر رہا ہوں جسے "وکی ليک ويڈيو" ميں سے دانستہ حذف کر ديا گيا تھا۔ اس حذف شدہ حصے میں واقعے سے متعلق اہم معلومات اور تفصيل موجود ہے۔

اس ويڈيو میں آپ واضح طور پر ديکھ سکتے ہیں کہ ايک وار زون میں موجود افراد کے ہاتھوں ميں اسلحہ واضح طور پر ديکھا جا سکتا ہے۔ حملے سے پہلے بليک وين کی موجودگی بھی ويڈيو ميں واضح ہے اور اسی وين ميں وہ افراد سفر کر رہے تھے جو اس حملے کا ہدف تھے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top