محمداحمد
لائبریرین
اس ناہنجار کو بھی چھٹی ساتویں آٹھویں میں عربی پڑھنے کا موقع ملا تھا ۔ لیکن ہمارے اسکول میں بھی کم وبیش اسی طرح کا معاملہ تھا جیسا احمد بھائی نے لکھا ۔ ہمارے عربی کے ٹیچر ریڈیو پاکستان پر ڈرامے وغیرہ لکھتے تھے ۔ اور بعد میں ٹی وی پر ڈراموں میں اداکاری بھی کرنے لگے تھے ۔ وہ عربی پڑھاتے کم تھے اور اپنے داستانیں زیادہ سناتے تھے۔جس سال میں نے میٹرک کیا اس کے فوراً بعد چھٹی ساتویں آٹھویں میں سندھی بھی لازمی کردی گئی تھی ۔ میرے چھوٹے بھائی نے سندھی "پڑھی" ۔ سندھی کے پیپر میں اردو کو نسخ کے انداز میں لکھ کر ہر لفظ کے اوپر اور نیچے دو تین اضافی نقطے لگا کر آتا تھا اور پاس ہوجاتا تھا ۔ ۔ کہتا تھا کہ سبھی بچے ایسا کرتے ہیں اور پاس ہوجاتے ہیں ۔
یعنی سب کے ساتھ ہی تقریباً ایک جیسا معاملہ رہا ہے۔
ویسے تعلیم اوردیگر زبانوں کو بچوں کے لئے غیر دلچسپ بنا دینا اور پڑھنے پڑھانے کی سرگرمیوں کو امتحان پاس کرنے تک محدود کر دینا، کافی بھیانک جرم ہے ۔ جسے ہمارے ہاں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
کچھ اسی قسم کی حرکت میں اور ہمارے ہم جماعت عربی کے پیپر میں کیا کرتے تھے ۔ اچھی طرح یاد ہے کہ آٹھویں کے پیپر میں ایک سوال تھا کہ اردو جملے کاعربی ترجمہ کیجئے: گھوڑا گھاس کھاتا ہے ۔ ایک دوست کو صرف یہ معلوم تھا کہ عربی میں گھوڑے کو حصانٌ کہتے ہیں سو وہ صاحب اس کا ترجمہ کچھ یوں لکھ کے آئے تھے: الحصانٌ کھائے تو گراسٌ