عربی شاعری مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
یا من بسط الارض و اجری الافلاک
ادراک کماله کمال الادراک
فی الارض و فی السماء لا رب سواک
ما نعبد یا واحد، الا ایاک

(محمد فضولی بغدادی)
ترجمہ: اے وہ کہ جس نے زمین بچھائی ہے اور جو افلاک کو حرکت میں لایا ہے؛ اے وہ کہ جس کے کمال کو درک کرنا ادراک کی تکمیل ہے؛ زمین و آسمان پر تیرے سوا کوئی خدا نہیں ہے،؛ تیرے سوا، اے ذاتِ یگانہ، ہم کسی کی عبادت نہیں کرتے۔

ویسے تو محمد فضولی کا عربی دیوان بھی موجود ہے، لیکن یہ حمدیہ رباعی اُن کے ترکی دیوان کا حصہ ہے، اور ترکی زبان کے توسط ہی سے اس رباعی کا ترجمہ کیا گیا ہے۔

لاطینی (آذربائجانی) رسم الخط میں مطبوعہ دیوان میں یہ رباعی یوں دی گئی ہے:​
Ya mən bəsət əl-ərzə və əcr əl-əflak
Idraku kəmalihi kəmalül-idrak
Fil-ərzi və fis-səmai la rəbbə sivak
Ma nə’büdü ya vahidü, illa iyyak
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بلغ العلیٰ بکماله
کشف الدجیٰ بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلّوا علیه وآله

(سعدی شیرازی)

حضرت محمد (ص) اپنے کمال کی وجہ سے بلندیوں پر پہنچے اور اُنہوں نے اپنے جمال سے (کفر و ضلالت) کی تاریکیوں کو دور کیا۔ اُن کی تمام خصلتیں خوب ہیں۔ اُن پر اور اُن کی آل پر درود بھیجو۔
 
آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلّوا علیہ و آلہ
(شیخ سعدی شیرازی)
حضرت محمد (ص) اپنے کمال کی وجہ سے بلندیوں پر پہنچے اور اُنہوں نے اپنے جمال سے (کفر و ضلالت) کی تاریکیوں کو دور کیا۔ اُن کی تمام خصلتیں اچھی ہیں۔ اُن پر اور اُن کے خاندان پر درود بھیجو۔
سبحان اللہ ۔۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
 

حسان خان

لائبریرین
وَلَمْ أَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ عَيْباً
کَنَقْصِ القادِرِيْنَ عَلی التّمامِ
(المُتَنَبّی)

در میان عیب‌های مردم چیزی را بدتر ندیدم مانند ناقص ماندن کسانی که می‌توانند کامل شوند و به کمال رسند.

جو افراد کامل ہو سکتے اور کمال تک پہنچ سکتے ہوں، اُن کے ناقص رہنے سے بدتر میں نے لوگوں کے عیبوں میں سے کوئی عیب نہیں دیکھا۔

ماخذ:
کتاب: امثال و حِکَم
نویسندہ: محمد بن ابی‌بکر عبدالقادر رازی
فارسی مترجم: فیروز حریرچی
صفحه ۲۱۶، ۲۳۵
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس دھاگے پر تو آج نظر پڑی ۔ ۔۔ایک شعر ۔ واہ حسان خان

احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحاً
۔
میں نیکو کار وں سے محبت رکھتا ہوں اگرچہ ان میں سے نہیں ہوں۔
شاید اسی طرح مجھے نیکو کاری حاصل ہا جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فَلَولَا رَجَاءُ الوَصلِ مَا عِشتُ سَاعةً
وَلَولَا خَيَالُ الطَّيفِ لَم أتَهَجَّع
(عطاء بن يعقوب)

اگر امیدِ وصالِ تو نبود، لحظه‌ای نمی‌زیستم؛ واگر خیالِ رؤیای تو نبود، هرگز نمی‌خوابیدم.

(ماخذ: ابیاتِ عربیِ کلیله و دِمنه، دکتر محمد حسن تقیه، صفحه ۱۳۵)

اگر [تمہارے] وصل کی امید نہ ہوتی، میں ایک لمحہ بھی نہیں جیتا؛ اور اگر [تمہاری] رُویا کا خیال نہ ہوتا، میں ہرگز نہیں سوتا۔
× رُویا = خواب
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
رُوحي لَكَ يا زائرُ في اللّيْلِ فِدَا
يا مُؤْنِسَ وَحْشَتِي إذا اللّيْلُ هَدى
إنْ كانَ فِرَاقُنا مع الصُبْحِ بَدَا
لا أسفَرَ بَعْدَ ذَاكَ صُبْحٌ أبَدا

(ابن الفارض)
میری جان تم پر فدا ہو، اے شب میں زیارت کرنے والے! اور اے شب کے استقرار کے وقت میری وحشت کے مونس! اگر ہمارا فراق صبح [کی آمد] کے ساتھ شروع ہوتا ہو تو [خدا کرے کہ] پھر اُس کے بعد کبھی بھی کوئی صبح ظاہر نہ ہو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مجھے فلسطینی/عراقی قومی ترانے 'موطني' کا یہ بند بہت خوب لگتا ہے:

مَوطِنِي مَوطِنِي
الشبابُ لنْ يَكِلَّ هَمُّهُ أنْ تَستَقِلَّ
أو يَبيدْ أو يَبيدْ
نَستَقِي مِنَ الرَّدَى ولنْ نكونَ لِلعِدَى
كالعَبيدْ كالعَبيدْ
لا نُريدْ لا نُريدْ
ذُلَّنَا المُؤَبَّدا وعَيشَنَا المُنَكَّدا
ذُلَّنَا المُؤَبَّدا وعَيشَنَا المُنَكَّدا
لا نُريدْ بلْ نُعيدْ
مَجدَنا التّليدْ مَجدَنا التّليدْ
مَوطِنِي مَوطِنِي

(إبراهيم طوقان)
از فلسطین
سالِ وفات: ۱۹۴۱ء


ترجمہ:
میرے وطن، میرے وطن!
تا وقتیکہ تم آزاد نہیں ہو جاتے، جوانان نہیں تھکیں گے
یا پھر وہ جان دے دیں گے، یا پھر وہ جان دے دیں گے
ہم ہلاکت کا جام پی لیں گے، لیکن ہم دشمنوں کے لیے نہیں ہوں گے
غلاموں کی مانند، غلاموں کی مانند
ہم نہیں چاہتے، ہم نہیں چاہتے
ابدی ذلت اور مُکَدَّر زندگی
ابدی ذلت اور مُکَدَّر زندگی
ہم نہیں چاہتے۔۔۔ بلکہ ہم واپس لے آئیں گے
اپنی قدیم عظمت، اپنی قدیم عظمت
میرے وطن، میرے وطن!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شیخ الرئیس ابوعلی ابنِ سینا بخارائی (وفات: ۴۲۷ھ) عربی زبان کے شاعر بھی تھے۔ اُن کے معروف 'قصیدۂ عینیہ' کے ابتدائی دو اشعار:

هَبَطَتْ إِلَيْكَ مِنَ المَحَلِّ الأَرْفَعِ

وَرْقَاءُ ذَاتُ تَعَزُّزٍ وَتَمَنُّعِ

مَحْجُوبَةٌ عَنْ مُقْلَةِ كُلِّ عَارِفٍ
وَهِيَ الَّتِي سَفَرَتْ وَلَمْ تَتَبَرْقَعِ

ایک گرانمایہ و ارجمند و استوار مادہ کبوتر اپنے بسیار بلند و رفیع مقام سے تمہاری جانب فُرو آئی۔ (یعنی تمہاری روح، کہ عالَمِ طبعیت میں نہ تھی، عالمِ مُجرَّد یا غیرمادّی عالَم سے تمہاری جانب آ گئی۔)
اگرچہ اُس کے چہرے پر برقع نہ تھا اور اُس نے بے پردہ چہرہ دکھایا تھا، لیکن ہر اہلِ نظر و عرفان کی نگاہ سے وہ پنہاں رہی اور صاحبانِ بینش کی چشمیں اُس کی دید سے محروم رہیں۔

× فُرُو = نیچے


ابنِ سینا نے اگرچہ فارسی میں بھی چند کتابیں لکھی تھیں، لیکن اُن کی بیشتر تألیفات عربی میں ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
يُدهِشُني
بأنَّ کُلَّ وَردَةٍ في وطني
تَلبَسُ في زِفافِها
ملابِسَ الحِداد..
(نِزار قبّانی)
از شام

در حیرتم که در سرزمینِ منِ
هر گلی، در جشنِ عروسی‌اش
رَختِ عزا به تن دارد.
(فارسی ترجمہ: مهدی سرحدی)

مجھے حیرت ہوتی ہے
کہ میرے وطن میں ہر گُل
اپنی عُروسی کے جشن میں
ماتمی لباس پہنتا ہے۔

× 'يُدهِشُني' کا لفظی ترجمہ '(یہ چیز) مجھے حیران کرتی ہے' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تونسی شاعر أبو القاسم الشابي (سالِ وفات: ۱۹۳۴ء) کے مشہور قصیدے 'إرادة الحياة' کے ابتدائی دو اشعار:

إذا الشَّعْبُ يَوْماً أرَادَ الْحَيَاةَ

فَلا بُدَّ أنْ يَسْتَجِيبَ القَدَرْ
وَلا بُدَّ لِلَّيْلِ أنْ يَنْجَلِي
وَلا بُدَّ لِلقَيْدِ أَنْ يَنْكَسِرْ

جب قوم کسی روز زندگی کا ارادہ کر لے تو تقدیر کے پاس قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا؛ شب کے پاس زائل ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا؛ اور زنجیروں کے پاس بجز شکستہ ہو جانے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔


یہ دو ابیات تونسی قومی ترانے میں بھی شامل ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ما زِلْتُ أُؤمِنُ
أنَّ الإنْسانَ لا يَمُوتُ دُفْعَةً واحِدَةً
وَإنَّما يَمُوتُ بِطَريقَةِ الأجْزاء
كُلَّما رَحَلَ صَدِيقٌ ماتَ جُزْءٌ
وكُلَّما غادَرَنا حبيبٌ ماتَ جُزْءٌ
وكُلَّما قُتِلَ حُلْمٌ مِنْ أحْلامِنا ماتَ جُزْءٌ
فَيَأتِي المَوْتُ الأکْبَرُ لِيَجِدَ کُلَّ الأجْزاءِ مَيِّتَةً
فَيَحْمِلُهَا وَيَرْحَلُ
(جُبران خلیل جُبران)

از لُبنان


میرا ہنوز ایمان ہے
کہ انسان ایک ہی بار دفعتاً نہیں مرتا
بلکہ وہ جزء جزء ہو کر مرتا ہے
جب بھی کوئی دوست رخصت ہوتا ہے، ایک جزء مر جاتا ہے
اور جب بھی کوئی محبوب ہم سے جدا ہوتا ہے، ایک جزء مر جاتا ہے
اور جب بھی ہمارے خوابوں میں سے کوئی خواب قتل ہوتا ہے، ایک جزء مر جاتا ہے
پس، بالآخر، سب سے بڑی موت آتی ہے، جسے کُل اجزاء مُردہ ملتے ہیں
پس وہ اُنہیں اُٹھاتی ہے اور چلی جاتی ہے
 

حسان خان

لائبریرین
وَجُرْحُ السَّيْفِ تَدْمُلُهُ فَيَبْرَا
وَیَبْقَی الدَّهْرَ، مَا جَرَحَ اللِّسَانُ
تلوار کا زخم مندمل ہو کر ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن زبان کا لگایا ہوا زخم ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
(مترجم: مولانا محمد رفیق چودھری)

× یہ شعر احتمالاً 'ابن الأعرابي' کا ہے۔
× 'وَیَبْقَی الدَّهْرَ' کی بجائے 'وَجُرْحُ الدَّهْرِ' بھی ملتا ہے جس صورت میں مصرعِ ثانی کا یہ مفہوم ہوگا: زبان کا لگایا ہوا زخم ابدی زخم ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
أَلَمْ تَرَ لِلٌبُنْيَانِ تََبْلٰى بُيُوتُهُ
وَتَبْقٰى مِنَ الشِّعْرِ البُيُوتُ الصَّوَارِمُ
(عمير بن شُيَيْم بن عمرو القطامي التغلبي)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہر عمارت کچھ عرصہ بعد بوسیدہ ہو کر برباد ہو جاتی ہے، لیکن تلواروں جیسی کاٹ رکھنے والے اشعار ہمیشہ باقی اور زندہ رہتے ہیں!!
(مترجم: مولانا محمد رفیق چودھری)
 

ضیاءالقمر

محفلین
كُلِّ صُبحٍ وَكُلِّ إِشراق أَبكي عَلَيكُم بِدَمع مُشتاقِ
قَد لَسَعت حيّة الهَوى كَبدي فَلا طَبيب لَها وَلا راقي
إِلّا الحَبيب الَّذي شغفت بِهِ فَإِنَّهُ رقيَتي وَترياقي

ہر صبح اور سورج چڑھے میری آنکھ اشتیاق کے جوش میں آنسو بہاتی ہے۔
میرے جگر کو محبت کے سانپ نے ڈسا ہے۔اس کا نہ کوئی معالج ہے نہ دم کرنے والا۔
میں جس دوست کے مکھڑے پر فدا ہوں اُسی کے پاس میرا منتر ہے اور اُسی کے پاس تریاق۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
لَيْسَ مَنْ ماتَ فاسْتَرَاحَ بِمَيتٍ
إنَّمَا المَيْتُ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ

جو مر کر آرام فرما ہوگیا وہ تومرا ہی نہیں
مرا تو در حقیقت وہ ہے جو جیتے جی مرگیا
 

حسان خان

لائبریرین
ابن الفارض کے مشہور 'قصيدة التائية الكبرىٰ' سے ایک شعر:

وَلَوْ أنَّ ما بِي بِالجِبالِ وَکانَ طُو

رُ سِینا بِها قَبْلَ التَّجَلّي لَدُكَّتِ

محبت کی راہ میں جو بلا و مشقت میری جانب آئی ہے، اگر وہ کوہوں پر نزول کرتی تو یقیناً اُن کوہوں کے ہمراہ طورِ سینا تجلی سے قبل ہی پارہ پارہ ہو کر زمین سے یکساں ہو جاتا۔


مترجم: رُسوخ‌الدین‌ اسماعیل‌ بن‌ احمد اَنقَرَوی
کتاب: مقاصدِ علیّه فی شرحِ التائیّه: ابن الفارض‌ین قصیدهٔ تائیّه‌سی و شرحی
(ترکی سے ترجمہ)
 
آخری تدوین:
Top