عثمان
محفلین
یعنی آپ اپنی مادری زبان پر دسترس نہیں حاصل کر سکے۔ اور بقول آپ کے یہ کام کوئی بھی نہیں کر سکا۔مشکل ہے
یہ کام کوئی نہیں کرسکا۔
تو پھر ایک غیر ملکی زبان سیکھنے کی توقعات کیسے ؟
یعنی آپ اپنی مادری زبان پر دسترس نہیں حاصل کر سکے۔ اور بقول آپ کے یہ کام کوئی بھی نہیں کر سکا۔مشکل ہے
یہ کام کوئی نہیں کرسکا۔
عربی ضروری ہے کہ ہر مسلمان بچہ مرد عورت قران پڑھتا ہے روزانہ۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے لیے بھی عربی ضروری ہے۔ آذان بھی عربی میں ہے اور نکاح بھی ۔ تمام مسنون دعائیں بھی عربی میں ہیں اور تمام کے تمام نماز جنازہ بھی عربی ہی میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اتنے اہم کاموں کے عربی کا استعمال ہوتا ہے مگر پاکستان میں یہ عربی صرف پڑھنے کے حد تک ہے ۔ جہالت کہ انتہا یہ ہے کہ بہت کم پڑھ کر سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری طرف ہماری پیاری زبان میں بہت سے الفاظ عربی ہی سے اخذ کیے گیے ہیں۔ اور بہت سی دوسری اہم کتب کا ترجمہ اگرچہ عربی سے اردو میں ہوچکا ہے مگر گہرائی کے لیے عربی سمجھنا لازمی ہے۔ کوئی بھی سمجھدار قوم ہوتی تو عربی لازمی بلکہ قومی زبان قرار پاچکی ہوتی مگر یہاں یہ حال ہے کہ عربی کو سوتیلی اولاد سے بھی بدتر سمجھا جارہا ہے۔
ادھر عربی میں وہ تمام صلاحیتں موجود ہیں جو اس کا کامیاب کرتی ہیں۔ یہ بہت سے ممالک میں پہلے ہی سرکاری زبان ہے۔ اور تمام اصلاحات اسانی سے انگریزی سے عربی میں منتقل کی جاچکی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عربی کو پاکستان میں لازمی اور دوسری قومی زبان کا درجہ دیا جاوے اور اہستہ اہستہ رائج کیا جائے تاکہ ایک شاندار ماضی اور روشن مستقبل سے رابطہ قائم ہو۔
اٹھانوے فیصد پاکستان کی آبادی مسلمان ہی ہے۔جو مسلمان نہیں ہیں اُن کے لئے تو بوجھ ہی ہے۔
اگر آپ عربی کو قومی زبان بنانے کی فرمائش نہیں کرتے تو یہ دھاگہ سنجیدہ نوعیت کا اچھا موضوع ہوتا۔
زبانوں کا الگ الگ ہونا اللہ کی طرف سے ہے اور اس میں کوئی بُری بات نہیں ہے تاہم ایک عام انسان کے لئے دو یا دو سے زائد زبانیں سیکھ لینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ سو جہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے وہاں توجہ دیں اور خوامخواہ ایک اچھی چیز کے مخالفین میں اضافہ نہ کریں۔
اٹھانے فیصد پاکستان کی آبادی مسلمان ہی ہے۔
کیا آپ کا اشارہ باقی دو فیصد افراد کی طرف ہے ؟
جماعت ششم سے ہشتم تک جب ہمارے سکول میں عربی لازمی تھی تو ایک ہم جماعت عیسائی لڑکا تھا۔ لازمی مضمون کے طور پر عربی اس نے بھی پڑھی۔ معلوم نہیں کہ اس نے اسے بوجھ تصور کیا یا نہیں۔
انگریزوں نے اردو کی ترویج کیسے کی؟اردو ایک ایسی زبان تھی جس کی ترویج انگریزوں نے اس لیے کی کہ مسلمانوں کو عربی و فارسی سے دور کیا جائے۔
مدرسے میں داخلہ لینے پر اب بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ نا کوئی مالی مسئلہ اور نا مدرسوں اور انفراسٹرکچر کی کمی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد مدرسوں میں داخلہ لے کر عربی سیکھنے کا فریضہ پورا نہیں کر رہی ؟سب کچھ ممکن ہے ۔ جب مردہ عبرانی زبان کو اپنا لیا گیا اور وہ زندہ ہوگئی تو عربی تو پہلے ہی موجود ہے۔ عربی کے استاد موجود ہیں۔ ایک انفراسٹرکچر پرپہلے ہی موجود ہے مدرسوں کی صورت میں۔ ان مدرسوں کو استعمال کرتے ہوئے عربی ہر پاکستانی کو سکھائی جائے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب عربی کو ممتاز درجہ دیا جائے اور پہلے قومی زبان قرار دے کر 50 سال کے اندر اس کو اپنا لیا جائے
میرا خیال ہے کہ پہلے ایک ملگ گیر مہم چلے تاکہ عربی اپنانے کے لے راہ عامہ ہموار ہو۔ عربی سیکھنے میں لوگوں کو کیا اعتراض ہوگا؟
یہ اپنی اصل سے کیا مراد ہے؟ اسکی وضاحت کریں۔متفق
اردو ہی رابطے کہ زبان ہے مگر یہ زبان ہمیں اپنی اصل سے دور بھی لے جاتی ہے ۔یعنی اردو اپنانے سے ہم عربی سے دور ہوتے ہیں
عبرانی کو از سر نو زندہ کرنا صیہونی یہودیوں کی قومی مجبوری تھی کہ اسکے بغیر انگنت قومیتوں سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو ایک اسرائیلی دھارے میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ اس مثال کو الباکستانی ایجنڈے کی تقویت کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ نیز مدرسوں میں جو عربی سکھائی جاتی ہے وہ اکیڈیمیک کوالٹی کی نہیں ہوتیسب کچھ ممکن ہے ۔ جب مردہ عبرانی زبان کو اپنا لیا گیا اور وہ زندہ ہوگئی تو عربی تو پہلے ہی موجود ہے۔ عربی کے استاد موجود ہیں۔ ایک انفراسٹرکچر پرپہلے ہی موجود ہے مدرسوں کی صورت میں۔ ان مدرسوں کو استعمال کرتے ہوئے عربی ہر پاکستانی کو سکھائی جائے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب عربی کو ممتاز درجہ دیا جائے اور پہلے قومی زبان قرار دے کر 50 سال کے اندر اس کو اپنا لیا جائے
ایسے لوگوں کی تعداد تو بہت کم ہوگی۔لوگوں کو تو اردو میں بھی زیادہ اسلامی باتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ عربی کیوں کر سیکھنے لگے بھلا۔
لوگوں کو تو اردو میں بھی زیادہ اسلامی باتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ عربی کیوں کر سیکھنے لگے بھلا۔
اسرائیل میں عبرانی یہود مذہب کی وجہ سے نہیں اپنائی گئی بلکہ یہودیوں کی آبائی زبان ہونے کی سے دوبارہ زندہ کی گئی۔ اگر عربی پاکستان کی آبائی زبان ہوتی تو اسکو ضرور سپورٹ کرتا۔ لیکن یہ بھی اغیار کی زبان ہی ہے۔دیکھیں اردو پچھلے 70 سال سے اپنائی نہیں جاسکی۔ کہ قومیتوں کو ان سے کوئی لگاو نہیں تھا۔ اس کے مقابل عربی کسی مقامی زبان کے مقابل نہیں۔ بلکہ یہ مذہبی زبان ہے لہذا ہر قومیت پاکستان میں یہ سیکھے گی۔ مگر ذہن سازی ضروری ہے
انگریزوں نے اردو کی ترویج کیسے کی؟
مدرسے میں داخلہ لینے پر اب بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ نا کوئی مالی مسئلہ اور نا مدرسوں اور انفراسٹرکچر کی کمی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد مدرسوں میں داخلہ لے کر عربی سیکھنے کا فریضہ پورا نہیں کر رہی ؟
اسرائیل میں عبرانی یہود مذہب کی وجہ سے نہیں اپنائی گئی بلکہ یہودیوں کی آبائی زبان ہونے کی سے دوبارہ زندہ کی گئی۔ اگر عربی پاکستان کی آبائی زبان ہوتی تو اسکو ضرور سپورٹ کرتا۔ لیکن یہ بھی اغیار کی زبان ہی ہے۔
کیونکہ ہم عرب نہیں ہے ہندوستانی یا پاکستانی ہیںعربی ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے اغیار کی کسیے ہوئی؟
دیکھیں اردو پچھلے 70 سال سے اپنائی نہیں جاسکی۔ کہ قومیتوں کو ان سے کوئی لگاو نہیں تھا۔ اس کے مقابل عربی کسی مقامی زبان کے مقابل نہیں۔ بلکہ یہ مذہبی زبان ہے لہذا ہر قومیت پاکستان میں یہ سیکھے گی۔ مگر ذہن سازی ضروری ہے
متفقمحنت کرنی ہے تو کسی ایسی چیز پر کریں کہ جو زیادہ منطقی ہو۔
انگریزی ہی صحیح طرح اپنا لیتے تو زیادہ ترقی کرتےایک قوم کر ترقی کرنے لیے کچھ اقدام لازما اٹھانے پڑتے ہیں۔ ورنہ یہی حال رہے گا جیسے 70 سال سے ہورہا ہے