عربی ضروری ہے

ما انت
انا من کراتشی
اتنی عربی تو سکھائی گئی تھی گورنمنٹ اسکول میں۔۔
ہوسکتا ہے کہ بعد میں عربی کی کتاب کورس سے حذف کردی گئی ہو۔
 

ربیع م

محفلین
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دو ہی زبانیں سیکھنے کے قابل ہیں: ایک عربی جو کہ دین کی زبان ہے اور ایک انگلش جو دنیا کی زبان ہے یہ اردو بیچاری درمیان میں ایسے ہی آ گئی!
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دو ہی زبانیں سیکھنے کے قابل ہیں: ایک عربی جو کہ دین کی زبان ہے اور ایک انگلش جو دنیا کی زبان ہے یہ اردو بیچاری درمیان میں ایسے ہی آ گئی!

سچ کہا!

اردو واقعی بے چاری ہے۔ :)
 
عربی سیکھنا ضروری ہے مگر کس درجے تک؟
عربی مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اس لئے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام مسلمان شہریوں کے لئے بندوبست کرے کہ وہ ناظرہ عربی پڑھ سکیں نماز وغیرہ عبادات باآسانی کر سکیں۔ سب مسلمانوں کے لئے عربی کے معنی جاننے کی مذہب نے بھی پابندی نہیں لگائی ۔
البتہ کچھ لوگ معاشرے میں ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو عربی زبان اور دینی علوم پر مکمل عبور رکھتے ہوں تاکہ قوم کی دینی معاملات میں درست رہنمائی کر سکیں۔
پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں تقریبا سارے شہری قومی زبان (اردو) بول ، سمجھ اور لکھ سکتے ہیں۔ ایسی ایک قومی زبان کے ہوتے ہوئے خوامخوہ کوئی دوسری زبان مسلط کرنے کی کوشش کر کے طے شدہ معاملات کو متنازع بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ :)
نوٹ: بہت سے ممالک مشترکہ قومی زبان کی نعمت سے محروم ہیں۔ اس کی قدر کیجئے :)

اگر کچھ لوگ ہوں جو عربی جانتے ہیں جیسا کہ ابھی ہے تو مذہب پر ان کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے یا لوگ پیروں فقیروں کے چکر میں بے وقوف بنتے رہتے ہیں۔
 
اگر کچھ لوگ ہوں جو عربی جانتے ہیں جیسا کہ ابھی ہے تو مذہب پر ان کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے یا لوگ پیروں فقیروں کے چکر میں بے وقوف بنتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے جعلی پیروں کو عربی کیا دینی علوم کی ا،ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔
ساری قوم ہی عالم دین بن جائے ایسا عملا ممکن نہیں :)
 

ربیع م

محفلین
پاکستان کے جعلی پیروں کو عربی کیا دینی علوم کی ا،ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔
ساری قوم ہی عالم دین بن جائے ایسا عملا ممکن نہیں :)
پاکستان کے جعلی پیروں کو عربی کیا دینی علوم کی ا،ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔
ساری قوم ہی عالم دین بن جائے ایسا عملا ممکن نہیں :)
جہالت بھی صرف عربی جان لینے سے دور نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو عرب معاشروں میں جاہل نہ ہوتے!
 

آصف اثر

معطل
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دو ہی زبانیں سیکھنے کے قابل ہیں: ایک عربی جو کہ دین کی زبان ہے اور ایک انگلش جو دنیا کی زبان ہے
استاد کا احترام اپنی جگہ مسلّم ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ استاد کی ہر بات حرف آخر ہو۔ جہاں تک عربی اور انگریزی کا تعلق ہے تو عربی کو دین کی زبان کہہ دینا کافی نہیں۔ بلکہ عربی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس لیے چُنا کہ یہ دنیا کی واحد زبان ہے جو حفظ اور روانی کے لحاظ سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس کے منظم قواعدِ انشاء ہوں، اس کی جامعیت و وسعت ہو یا فصاحت وبلاغت ہو ہر لحاظ سے یہ ایک مکمل اور زندہ زبان ہے۔
زبان سیکھنے کے لیے صرف دو چیزیں ضروری ہے، ماحول یا گرامر پر عبور۔ ان میں بھی کسی ایک کو چُن کر بعد میں مزید نکھار کے لیے دوسرا اختیار کیا جاتاہے۔ لہذا کسی بھی ایسی زبان جس کا گرامر موجود ہو اس کو سیکھنا قطعاً مشکل نہیں۔ یہ تدریس کا اُسلوب ہے جو کسی شے یا علم کو مشکل یا آسان بناتی ہے۔ یہاں سندھی کے متعلق بچوں کو یہ کہہ کر خوف زدہ کیا جاتاہے کہ اس کے 52 حروف تہجی ہے لہذا اس کو سیکھنا کاردارد ہے۔ حالاں کہ انہیں صرف 5 منٹ میں سمجھایا جاسکتاہے۔
دوسری غلط فہمی انگریزی کو عالمی زبان کہنا ہے۔ انگریزی عالمی زبان صرف پاکستان میں ہے (اپنی نااہلی، احساسِ کمتری اور ذہنی غلامی کے سبب)۔ عالمی زبان سے مراد اگر اقوامِ متحدہ کے 6 زبانوں میں اندراج ہے تو عربی بھی اس میں شامل ہے۔ اگر ذکر مواد کا ہو تو سائنس اور کاروباری لحاظ سے تو یہ پہلے درجہ پر آتی ہے لیکن بول چال کے لحاظ سے چینی اور ہسپانوی زبان کے بعد اس کا تیسرا نمبر بنتاہے۔
انگریزی زبان میں مواد کی زیادتی میں اہم کردار انٹرنیٹ نے ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے لیے شروع شروع میں مواقع بے انتہا کم تھے۔ (اردو اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے) جب کہ انٹرنیٹ تک لوگوں کی رسائی بھی دیگر زبانوں کی ترقی میں بہت بڑی رکاؤٹ ثابت ہوئی۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ڈیجیٹل دور کی آمد سے پہلے انگریزی صرف اپنے چند ممالک تک محدود تھی۔ اس کے علاوہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمنیوں کی شکست نے جرمنی زبان کو بھی لے ڈوبا اور سائنسی میدان میں انگریزی کی اجاری داری قائم ہوئی۔ وگرنہ جرمنی اس میدان میں اس کے شانہ بشانہ تھی۔ ایک دوتین سو سالہ پرانی زبان کو عالمی زبان کہہ کر لوگوں پر اس کا بھوت سوار کرنا غلط ہے۔ انگریزی کو فی الحال سائنس کی زبان (مواد کے لحاظ سے) اور کاروباری زبان (عالمی معاشی دوڑ کے تناظر میں) کہنا چاہیے۔
آج پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو اپنا مافی الضمیر انگریزی میں بیان کرسکتے ہیں؟ عرب میں، فارس میں، چین، جاپان، یورپ کے غیر انگریز ممالک ہو یا روس اور جنوبی امریکہ ہو ہر جگہ اپنی قومی اور مادری زبانیں چل رہی ہے۔ صرف ”مائی نیم از فلاں اور دِس اِز این ایپل“ کسی زبان کو عالمی نہیں بناتی۔ جب کہ عن قریب مشینی ترجمہ کاری کے ذریعے اس کی کاروباری بول چال کی اہمیت بھی بہت کم ہوجائے گی۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
جہالت بھی صرف عربی جان لینے سے دور نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو عرب معاشروں میں جاہل نہ ہوتے!
یہاں مراد محض عربی زبان کا اکتساب نہیں بلکہ بامقصد اکتساب ہے یعنی دین کا فہم اور دیگر ضروریات کے لیے اس کا استعمال۔ آپ کا جملہ مادری یا قومی زبان یا ماحول کی وجہ سے سیکھی جانی والی زبان کے لحاظ سے درست ہوسکتاہے۔ جو شخص شریعتِ الٰہی کے فہم کے لیے اسے سیکھے اس سے جہالت کی توقع کیوں کر رکھی جاسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ شریعت کے حدود کی خلاف ورزی کرے۔
 
جہالت بھی صرف عربی جان لینے سے دور نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو عرب معاشروں میں جاہل نہ ہوتے!
اسی لئے میں نے عرض کیا تھا
کچھ لوگ معاشرے میں ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو عربی زبان اور دینی علوم پر مکمل عبور رکھتے ہوں
 
Top