كانْ يا مكانْ , في أحدِ الإسطبلاتِ, معشرٌ منَ الحَميرِ.
وذاتَ يومٍ أضربَ حِمارٌ عنِ الطَّعام مدَّةً منَ الزَّمَنِ,
فَضَعُفَ جَسَدُهُ وَتَهَدَّلَتْ أذُناهُ, وَكادَ جَسَدُهُ يقعُ على الأرض من شدَّةِ الوَهَنِ,
فأدرَكَ الحمارُ الأبُ أنَّ وَضْعَ ابْنِِهِ يَتدَهْوَرُ كلَّ يوم,
وأرادَ أنْ يفهَمَ منهُ سببَ ذلك,
فأتاهُ على انْفرادٍ يستطلِعُ حالتَهُ النفسيَّةَ والصِّحِّيَّةَ التي تزدادُ تدهورًا.
قالَ لَهُ : ما بك يا بُنيَّ ؟
لقد أحْضَرْتُ لك أفضلَ أنواعِ الشَّعير.. وأنتَ لا تزالُ رافضًا أنْ تأكلَ...
أخْبِرْنِي ما بكَ؟ ولماذا تفعل ذلك بنفسِكَ؟ هل أزْعجَكَ أحدٌ؟
رَفَعَ الحمارُ الإبنُ رأسَهُ وخاطبَ والدَهُ قائلا :
نعم يا أبي .. إنَّهم البَشَرُ .
دُهِشَ الأبُ الحمارُ وقالَ لابنِهِ الصَّغير : وما بهم البشر يا بنيَّ؟
فقال له: إنَّهم يسخرون منّا نحن معشَرَ الحَميرِ...
فقال الأب وكيف ذلك؟
قال الأبن: ألم ترهم كلَّما قام أحدُهم بفعلٍ مُشينٍ يقولون له: يا حمار..أنحنُ حقا كذلك؟
وكلَّما قام أحدُ أبنائهم بِرَذيلةٍ يقولون له: يا حمار ويصفون أغبياءَهُم بالحميرِ.. ونحن لسنا كذلك يا أبي...
إنَّنا نعمل دون كللٍ أو مللٍ..
ونفهمُ وندرِكُ..
ولنا مشاعر نبيلة...
عندها ارتبكَ الحمارُ الأبُ ولم يعرفْ كيف يردُّ على تساؤلاتِ صغيرِهِ وهو في هذه الحالَة السَّيِّئةِ.
ولكن سُرعانَ ما حرّكَ أذنيهِ يُمنةً ويٍُسرَةً,
ثم بدأ يحاوِرُ ابنَهُ محاولا اقناعه حسب منطق الحمير...
أنظرْ يا بنيَّ. إنَّ البَشَرَ معشرٌ خلقهم الله وفضّلَهُم على سائر المخلوقات. لكنّهم أساؤوا لأنفسِهم كثيرًا قبل أن يتوجَّهوا لنا نحن معشرالحمير بالإساءة...
فانظر مثلا...
هل رأيتَ حمارا في عمرِك يسرقُ مالَ أخيه؟
أو يقتُلَ قريبَهُ؟
هل سمعت بذلك؟
هل رأيت حمارًا ينهبُ طعامَ أخيهِ الحمار؟
هل رأيت حمارًا يشتكي على أحدٍ من أبناء جنسِهِ؟
هل رأيت حمارًا يشتُمُ أخاهُ الحمار أو أحَدَ أبنائه؟
هل رأيتَ حمارًا يضربُ زوجتَهُ وأولادَهُ؟
هل رأيتَ الحميرَ وزوجاتِهم وبناتِهم
يتسكَّعونَ في الشَّوارع والمقاهي وهم سكارى؟
هل سمعتَ يومًا أنَّ الحميرَ في أمريكا يخطِّطون لقتلِ الحميرِ في موسكو!! من أجلِ الحصولِ على الشَّعيرِ؟
طبعا لم تسمعْ بهذِهِ الجرائم الإنسانيَّة.
إذنْ, أطلبُ منكَ أن تحَكِّمَ عقلَكَ الحميري,
وأطلبُ منك أن ترفَعَ رأسي عاليًا.
وتبقى كعهدي بك حماراً ابنَ حمارٍ.
واتْركهم يقولونَ ما يشاؤونَ..
فيكفينا فخرا أنَّنا حمير لا نقتلُ ولا نسرقُ
ولا نزوّر ولا نقعُ في الفسادِ ولا نعتدي على أحدٍ....
أعْجَبَتْ هذِهِ الكلماتُ الحمارَ الأبنَ فقامَ وراحَ يلتهمُ الشَّعير وهو يقول:
نعم سأبقى كما عَهِدْتَني يا أبي...
سأبقى حمارًا ابنَ حمارٍ.
اردو ترجمہ
ايک دفع كا ذكر ہے كہ عربوں كے ايک اصطبل ميں بہت سے گدھے رہتے تھے ، اچانک كيا ہوا كہ ايک نوجوان گدھے نے كھانا پينا چھوڑ ديا، بھوک اور فاقوں سے اسكا جسم لاغر و كمزور ہوتا گيا، كمزوری سے تو بيچارے كے كان بھی لٹک كر رہ گئے۔ گدھے كا باپ اپنے گدھے بيٹے كی روز بروز گرتی ہوئی صحت كو ديكھ رہا تھا۔
ايک دن اس سے رہا نہ گيا اس نے اپنے گدھے بيٹے سے اسكی گرتی صحت اور ذہنی و نفسياتی پريشانيوں كا سبب جاننے كيلئے تنہائی ميں بلا كر پوچھا، بيٹے كيا بات ہے، ہمارے اصطبل ميں تو اعلٰی قسم كی جو كھانے كيلئے دستياب ہيں، مگر تم ہو كہ فاقوں پر ہی آمادہ ہو، تمہيں ايسا كونسا روگ لگ گيا ہے، آخر مجھے بھی تو كچھ تو بتاؤ، کسی نے تيرا دل دكھایا ہے يا كوئی تكليف پونہچائی ہے؟
گدھے بيٹے نے اپنا سر اُٹھایا اور ڈبڈباتی آنكھوں سے اپنے گدھے باپ كو ديكھتے ہوئے كہا ، ہاں اے والدِ محترم، ان انسانوں نے تو ميرا دل ہی توڑ كر ركھ ديا ہے۔
كيوں! ايسا كيا كيا ہے ان انسانوں نے تيرے ساتھ؟
“يہ انسان ہم گدھوں كا تمسخر اڑاتے ہيں”.
“وہ كيسے؟” باپ نے حيرت سے پوچھا۔
بيٹے نے جواب ديا: كيا آپ نہيں ديكھتے كسطرح بلا سبب ہم پر ڈنڈے برساتے ہيں، اور جب خود انہی ميں سے كوئی شرمناک حركت كرے تو اسے گدھا كہہ كر مخاطب كرتے ہيں. كيا ہم ايسے ہيں؟
اور جب ان انسانوں كی اولاد ميں سے كوئی گٹھيا حركت كرے تو اسے گدھے سے تشبيہ ديتے ہيں۔
اپنے انسانوں ميں سے جاہل ترين لوگوں كو گدھا شمار كرتے ہيں، اے والد محترم كيا ہم ايسے ہيں؟
ہم ہيں كہ بغير سستی اور كاہلی كے ان كيلئے كام كرتے ہيں، ہم ان سب باتوں كو خوب سمجھتے اور جانتے ہيں، ہمارے بھی كچھ احساسات ہيں آخر!
گدھا باپ خاموشی سے اپنے گدھے بيٹے كی ان جذباتی اور حقائق پر مبنی باتوں كو سنتا رہا، اس سے كوئی جواب نہيں بن پا رہا تھا، وہ جانتا تھا كہ اسكا بيٹا اس كم عمری ميں كيسی اذيت ناک سوچوں سے گزر رہا ہے، اسے يہ بھی علم تھا كہ صرف كھڑے كھڑے كانوں كو دائيں بائيں ہلاتے رہنے سے بات نہيں بنے گی، بيٹے كو اس ذہنی دباؤ اور پريشانی سے نكالنے كيلئے كچھ نہ كچھ جواب تو دينا ہی پڑے گا.
لمبی سی ايک سانس چھوڑتے ہوئے اس نے كہنا شروع كيا كہ اے ميرے بيٹے سن: يہ وہ انسان ہيں جنكو اللہ تعالٰی نے پيدا فرما كر ساری مخلوقات پر فوقيت دیدى، ليكن انہوں نے ناشكری كی، انہوں نے اپنے بنی نوع انسانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے ہيں وہ ہم گدھوں پر ڈھائے جانے والےظلم و ستم سے ہزار ہا گنا زياده ہيں. مثال كے طور پر يہ ديكھو:
كبھی تو نے ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے گدھے بھائی كا مال و متاب چُراتا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كسی گدھے نے اپنے ہمسائے گدھے پر شبخون مارا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے ہم جنس گدھے كی پيٹھ پيچھے غيبت يا برائياں كرتا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے گدھے بھائی يا اُسكے كسی بچے سے گالم گلوچ كر رہا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنی بيوی اور بچوں كی مار كٹائی كرتا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ گدھوں كی بيوياں يا بيٹے اور بيٹياں سڑكوں پر يا كيفے وغيره پر فضول وقت گزاری كرتے ہوں؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھی يا گدھا كسی اجنبی گدھے كو دھوکہ دينے يا لوٹنے كی كوشش كر رہے ہوں؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ امريكی گدھے عرب گدھوں كو قتل كرنے كی منصوبہ بندی كر رہے ہوں اور وہ بھی صرف اسلئے كہ ان كے جو حاصل كر سكيں؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ گدھوں كا كوئی گروہ آپس ميں محض جو كے چند دانوں كيلئے باہم دست و گريبان ہو جس طرح يہ انسان آٹا اور چينی كی لائنوں ميں باہم دست و گريبان نظر آتے ہيں۔
يقيناً تو نے يہ انسانی جرائم ہم گدھوں ميں كبھی نہ ديكھے اور نہ سنے ہونگے، جبكہ انسانی جرائم كی فہرست تو اتنی طويل ہے كہ بتاتے ہوئے بھی كليجہ منہ كو آتا ہے۔
يقين كرو يہ انسان جو كچھ مار پيٹ اور پر تشدد برتاؤ ہمارے ساتھ روا ركھتے ہيں وہ محض ہمارے ساتھ حسد اور جلن كی وجہ سے ہے كيونكہ يہ جانتے ہيں كہ ہم گدھے ان سے كہيں بہتر ہيں، اور اسی لئے تو يہ ايک دوسرے كو ہمارا نام پكار كر گالياں ديتے ہيں. جبكہ حقيقت يہ ہے كہ ہم ميں سے كمترين گدھا بھی ايسے كسی فعل ميں ملوث نہيں پايا گيا جس ميں يہ حضرت انسان مبتلا ہيں.
بيٹے يہ ميرى ی تجھ سے التجا ہے كہ اپنے دل و دماغ كو قابو ميں ركھ، اپنے سر كو فخر سے اُٹھا كر چل، اس عہد كے ساتھ كہ تو ايک گدھا اور ابن گدھا ہے اور ہميشہ گدھا ہی رہے گا۔
ان انسانوں كی كسی بات پر دھیان نہ دے، يہ جو كہتے ہيں كہا كريں، ہمارے لئے تو اتنا فخر ہی كافی ہے كہ ہم گدھے ہو كر بھی نہ كبھی قتل و غارت كرتے ہيں اور نہ ہی كوئی چورى چكاری، غيبت، گالم گلوچ، خيانت، دھشت گردى يا آبروريزی۔
گدھے بيٹے كو يہ باتيں اثر كر گئيں، اس نے اُٹھ كر جو كے برتن ميں منہ مارتے ہوئے كہا كہ اے والد، ميں تيرے ساتھ اِس بات كا عہد كرتا ہوں كہ ميں ہميشہ گدھا اِبنِ گدھا رہنے ميں ہی فخر اور اپنی عزت جانوں گا۔