عربی کا پہلا سبق

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
رَبِیّ زِدْنِیْ عِلْمًا​
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِفَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ
(ہم نے اِس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے،پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا)​
عَرَبِی قَوَاعِدْ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ
اَلدَّرْسُ الْاَوَّلُ
عَرَبِی قَوَاعِدْ
کلمہ اور اُس کی قسمیں:ہر زبان الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔الفاظ بے معنیٰ (مہمل) بھی ہوتے ہیں اور با معنیٰ بھی ہوتے ہیں۔با معنیٰ لفظ کو قواعد میں کلمہ کہتے ہیں۔عربی قواعد میں کلمہ کی تین قسمیں ہیں:​
۱۔اسم ۲۔فعل۳۔ حرف
۱۔اِسم وہ کلمہ ہےجو بذاتِ خود کسی دوسرے کلمے کی مدد کے بغیراپنے معنیٰ ظاہر کرےاور اُس کے معنوں میں کوئی زمانہ نہ پایا جائے۔جیسے: کِتَابٌ، زَیْدٌ،مَدِیْنَۃٌ اُردو میں اِسم کی ظاہری بناوٹ مستقل ہوتی ہے۔ کوئی اِسم جملے میں خواہ کسی بھی جگہ، اور کسی بھی حالت میں ہو اُس کی صورت عام طور پر نہیں بدلتی۔اِس کے علاوہ اُردو اسماء کےآخری حرف پر کوئی حرکت (زیر، زبر یا پیش)نہیں ہوتی۔ اس کے بر عکس عربی میں عام طور پر اس کے آخری حرف پر حرکت ہوتی ہے۔ اِس حرکت کو اِعراب کہتے ہیں۔جیسے اُردو اَسماء ، عربی میں اِن اسماء کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں:​
۱۔ کتاب :کِتَابٌ،کِتَاباً، کِتَابٍ،اَلْکِتَابُ، اَلْکِتَابَ، اَلْکِتَابِ
۲۔قلیل: قَلِیْلٌ، قَلِیْلاً،قَلِیْلٍ،اَلْقلیلُ،اَلقلیلَ،اَلْقلیلِ
عربی میں نہ صرف یہ کہ اسم کے آخری حرف پر کوئی حرکت (اِعراب) ہوتا ہے۔بلکہ اعراب بدلتا بھی رہتا ہے۔اعراب اور صورت کی تبدیلی سے معنیٰ بھی بدل جاتے ہیں۔ذیل کے فقروں میں تبدیلی پر غور کریں۔​
۱۔ قَالَ اللہُ اللہ نے فرمایا (اللہ فاعل ہے)​
۲۔ اَقْرِضُواللہَ اللہ کو قرض دو (اللہ مفعول ہے)​
۳۔ اَعُوْذُبِا اللہِ میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں (اللہ مجرور ہے)​
نوٹ: تینوں صورتوں میں موقع کی وجہ سے اَللہ کا اعراب مختلف ہے۔​
۲۔ فعل: عربی قواعد کی روٗ سے فعل وہ کلمہ ہے جو بذاتِ خود کسی دوسرے کلمے کے بغیر اپنے معنیٰ ظاہر کرے اور اُس کے معنوں میں تینوں زمانوں(ماضی، حال یا مستقبل) میں سے کوئی ایک زمانہ پایا جائے۔​
جیسے: قَتَلَ (اُس نے قتل کیا،فعلِ ماضی)​
یَقْتُلُ (وہ قتل کرتا ہے یا وہ قتل کرے گا، فعلِ مضارِع)​
۳۔حرف: وہ کلمہ ہے جواپنے معنیٰ ظاہر کرنے کے لیے دوسرے کلموں کا محتاج ہو۔یعنی جب تک اُس کے ساتھ دوسرا کلمہ نہ ملایا جائے اُس کے پورے معنی سمجھ میں نہ آئیں۔​
جیسے: مِنْ (سے)، اِلیٰ(تک)، فِیْ(میں)حروف اَسماء اور اَفعال میں ربط پیدا کر کے مرکبات بنانے کے لیے اِستعمال ہوتا ہے۔​
جیسے: مِنَ الْمَسْجِدِ (مسجدسے)، اِلَی الْبَیْتِ( گھرکی طرف)​
اَسماء اور اَفعال کے برخلاف عربی زبان کے حروف کی آخری حرکت(اِعراب) ہمیشہ یکساں رہتے ہیں۔​
اِسم کی قسمیں: عربی قواعد کے لحاظ سے اِسم کی دو بڑی قسمیں ہیں:۱۔اِسمِ معرفہ۲۔ اِسمِ نکِرہ
۱۔اِسمِ معرفہ: اِسمِ معرفہ خاص چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے۔اس کی مندرجۂ ذیل قسمیں ہیں۔​
۱۔اِسمِ خاص: کسی شخص،جگہ یا چیز کا خاص نام جیسے: اِبْرَاہِیْمَ،کُوْفَۃٌ
۲۔ اسمِ ضمیر: وہ اِسم جو کسی دوسرے اِسم کی جگہ استعمال کیا جائے۔جیسے: ھُوَ(وہ مرد)ھِیَ(وہ عورت)​
اَنتَ(تو مرد)اَنْتِ(تو عورت)اَنَا(میں)​
۳۔ اسمِ اِشارہ: وہ اِسم جس سے کسی شخص یا چیز کی طرف اِشارہ کیا جائے۔​
جیسے: مذکر کے لیے ھٰذَا(یہ)، ذَالِکَ(وہ)​
مؤنث کے لیے ھٰذَہٖ(یہ)، تِلْکَ(وہ)​
۴۔اِسمِ اِستفہام : وہ اِسم جو سوال پوچھنے کے لیے اِستعمال کیا جائے۔​
جیسے: مَنْ (کون)، مَا (کیا)،کَیْفَ( کیسا) اور کَمْ ( کتنا)​
۵۔ اِسمِ موصول:وہ اِسم جو جملے کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے ملائے۔​
جیسے: مذکر کے لیے اَلَّذِیْ(جس نے یا جو)​
مؤنث کے لیے اَلَّتِیْ(جس نے یا جو)​
۲۔اِسمِ نکِرہ: اِسمِ نکرہ عام چیزوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے۔اِس کی قسمیں مندرجہ ذیل ہیں۔​
ا۔اِسمِ ذات: ایک قسم کی بہت سی چیزوں کا مشترک نام​
رَجُلٌ (مرد)، کِتَابٌ (کتاب )،مَدِیْنَۃٌ(شہر)​
۲۔اِسمِ صفت: وہ اِسم جو کسی دوسرے اِسم کی اچھائی، بُرائی یا اُس کی حالت بیان کرے ۔جیسے:​
قُرآنٌ مَّجِیْدٌ(بزرگی والاقرآن)، کِتَابٌ مُّبِیْنٌ (روشن کتاب ، واضح کتاب)،عَذَابٌ اَلِیْمٌ(دردناک عذاب)​
۳۔اِسمِ مصدر: وہ اِسم جو کسی کام کا نام ہو۔جیسے:​
قَتْلٌ (مار ڈالنا)،فَتْحٌ (کھولنا)،اِخرَْاجٌ(نکالنا)​
۴۔اِسمِ مُشتق : وہ اِسم جو کسی مصدر سے بنایا گیا ہو۔جیسے:​
قَاتِل ٌ (قتل کرنے والا)،مَقْتُوْلٌ (قتل ہونے والا)،مَقْتَلٌ(قتل ہونے کی جگہ)​
یہ اِسم قَتْلٌ سے بنائے گئے ہیں۔​
اِسمِ معرفہ اور اِسمِ نکرہ کی خصوصیت:اِسمِ نکرہ کی نشانی تنوین ہوتی ہے۔یعنی دوپیش( ٌ ) دو زبر( ً ) یا دو زیر ( ٍ )کوئی اِسمِ نکرہ اپنی اصلی حالت میں تنوین کے بغیر نہیں ہوتا۔​
اَلْ تعریف یا لَامِتعریف:اگر کسی اِسمِ نکرہ کے شروع میں اَلْ لگا دِیا جائے تو وہ اِسم معرفہ بن جاتا ہے۔اور اُس سے کوئی خاص شخص یا کوئی خاص چیز یا خاص جگہ ہی سمجھی جاتی ہے۔اِس صورت میں تنوین گر جاتی ہے اور اِسم کا اعراب صرف ایک پیش ( ُ )،ایک زبر( َ) یا ایک زیر( ِ ) رہ جاتا ہے۔جیسے:​
کِتَابٌ ۔۔۔(کوئی کتاب)۔۔۔اَلْکِتَابُ (خاص کتاب، مثلاً :قرآن مجید)​
مَدِیْنَۃٌ ۔۔۔(کوئی شہر)۔۔۔اَلْمَدِیْنَۃُ (خاص شہر، مثلاً :مدینہ منورہ)​
اَرْضٌ ۔۔۔(زمین کا حصہ)۔۔۔ اَلْاَرْضُ (کرّۂ زمین، یا زمین کا کوئی خاص علاقہ )​
ایسے اَلْ سے چونکہ اسمِ نکرہ میں معرفہ کے معنیٰ پیدا ہوتے ہیں اِس لیےاِسے قواعد میں اَلْ تعریف یا لَامِتعریف (معرفہ بنانے والا) کہتے ہیں۔جسے اَلْ لگا کر معرفہ بنایا گیا ہو ایسے اِسمِ معرفہ پر تنوین نہیں آتی۔البتہ بعض الفاظ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں۔جیسے اَلرُّوْمُ، اَلشَّامُ،مُحَمَّدٌ، زَیْدٌ وغیرہ۔ یہ اہلِ زبان کے اِستعمال پر موقوف ہے۔اِس کے لیے کوئی ضابطہ نہیں ہے۔​
 

مہ جبین

محفلین
سبحان اللہ فارقلیط رحمانی بھیا آپ نے بہت مفید علمی سلسلہ شروع کیا ہے
اللہ کرے کہ ہم سب اس سلسلے سے عربی پر عبور حاصل کرسکیں آمین

اَرْضٌ ۔۔۔ (زمین کا حصہ)۔۔۔ اَلْکِتَابُ (کرّۂ زمین، یا زمین کا کوئی خاص علاقہ )
رحمانی بھیا اس لائن میں ٹائپو ہوگیا ہے نا؟ سرخ رنگ سے جہاں اَلْکِتَابُ لکھا ہے اسکی جگہ شاید " اَلاَرضُ " ہوگا ؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
سبحان اللہ فارقلیط رحمانی بھیا آپ نے بہت مفید علمی سلسلہ شروع کیا ہے
اللہ کرے کہ ہم سب اس سلسلے سے عربی پر عبور حاصل کرسکیں آمین

اَرْضٌ ۔۔۔ (زمین کا حصہ)۔۔۔ اَلْکِتَابُ (کرّۂ زمین، یا زمین کا کوئی خاص علاقہ )
رحمانی بھیا اس لائن میں ٹائپو ہوگیا ہے نا؟ سرخ رنگ سے جہاں اَلْکِتَابُ لکھا ہے اسکی جگہ شاید " اَلاَرضُ " ہوگا ؟
جی آپا! غلطی کی نشان دہی کے لیے بے حد ممنون ہوں۔
اَرْضٌ ۔۔۔ (زمین کا حصہ)۔۔۔ اَلْاَرْضُ (کرّۂ زمین، یا زمین کا کوئی خاص علاقہ )یہی صحیح ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عربی زبان کا علم قرآن کو سمجھنے کی حد تک…
عربی زبان کو قرآن کو سمجھنے کی حد تک سیکھنے کے لئے بہتر ہے کہ کتابوں کے اسباق اور موضوعات پڑھنے اور سمجھنے سے پہلے بنیادی اصطلاحات اور الفاظ کے معنی یاد کر لئے جائیں یا یاد کروا دیے جائیں… اور قرآنی ذخیرہ الفاظ کو بھی یاد کر لیں معنی کے ساتھ… کیونکہ اسباق کے ساتھ ساتھ پڑھنا، سمجھنا اور یاد کرنا مشکل ہوتا ہے…
.
اگر عربی زبان کے قواعد کو ایک منظم طریقے پر ترتیب دے لیا جائے یا انکی اصطلاحات کا ایک چارٹ بنا لیا جائے اور اس کی بنیاد پر عربی زبان کو سیکھنے کی کوشش کی جائے توزیادہ مشکل پیش نہ آئے… پھر چاہے کتاب کوئی بھی ہو… ابھی تک تو یہ ہو رہا ہے کہ عربی زبان سکھانے کے لئے بہت سی کتابیں چھاپی گئیں ہیں… کسی میں ایک اصطلاح اور اسکے قواعد اور کسی میں دو تین ساتھ ملا کر پیش کر دی گئیں ہیں…
.
عربی زبان سیکھنے کے طریقے عربیوں اور عجمیوں کے لئے مختلف ہوسکتے ہیں… عربی اہل زبان ہونے کی وجہ سے الفاظ، جملوں، محاوروں اورضرب الامثال کا استعمال جانتے ہیں… اور انہیں اپنے مطلب اور مقصد کے حساب سے استعمال کرتے ہیں… جبکہ عجمیوں کو الفاظ، جملوں کی بناوٹ ، اصطلاحات، سب کچھ سیکھنا ہوتا ہے… پاکستانیوں کے لئے عربی زبان کو سیکھنا کوئی خاص مشکل نہیں کیونکہ اردو میں پچھتر فیصد الفاظ عربی زبان کے ہی ہیں اور تقریبا انہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں… عربی حروف تہجی تمام کے تمام اردو حروف تہجی کا حصّہ ہیں اور انکے مخارج بھی ایک جیسے ہیں…
.
عربی زبان میں حرکات، اعراب اور حروف علت کی بہت اہمیت ہوتی ہے
کیونکہ انکی تبدیلی، اضافے یا کمی کی وجہ سے اسماء اور افعال کے جنس، عدد، حالت، زمانے اور جملوں کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں… اس لئے انکا صحیح استعمال ضروری ہے… خاص طور پر قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے…
.
ایک اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ قرآن کے متن میں الفاظ پر حرکات کا استعمال کیا گیا ہے… اور اسکی وجہ یہی ہے کہ عجمی یعنی غیر عربیوں کے لئے قرآن پڑھتے وقت غلطی کی گنجائش نہ ہو… جبکہ عربی زبان میں باقی تحریروں میں حرکت نہیں لگی ہوتیں… یہ اہل زبان کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا لکھا ہے… بالکل ایسے ہی جیسے کہ اردو کی تحریروں میں بھی حرکات کا استعمال نہیں ہوتا…
.
قرآن کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں- قرآن میں تقریبا سات ہزار آٹھ سو الفاظ استعمال ہوئے ہیں- ان میں سے کئی الفاظ اور کچھ جملے متعدد مرتبہ آیات میں آئے ہیں- تقریبا تمام الفاظ اور جملے مقررہ قواعد کے تحت ہی بنے ہوئے ہیں… اس لئے قرآنی الفاظ کے ظاہری مطلب کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی…
.
عربی زبان میں قواعد کی اصطلاحات انگریزی اور اردو کی ہی طرح ہیں… انگریزی میں بات یا تقریر کو آٹھہ حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی اسم noun، فعل verb، صفت adjective، فعل متعلق adverb، ضمیر pronoun، عطف conjunction، جر preposition اور تعجب interjection ….. اردو اور عربی میں بھی یہی اصطلاحات موجود ہیں… لیکن اردو میں انکی کوئی ترتیب نہیں ہے… ایسا لگتا ہے جیسے کہ انگریزی قواعد کے طریقے پر الفاظ کو تقسیم کر کے قواعد بنا دی گئی ہے…
.
عربی قواعد انگریزی اور اردو کے مقابلے پر بہت منظّم ہے… جس کی وجہ سے عربی کا سیکھنا اور سمجھنا کافی آسان ہے… عربی کے اس نظم و ضبط کی وجہ سے اکثر لوگ اسے سیکھنا نہایت مشکل سمجھتے ہیں… حالانکہ عربی کو اس وجہ سے ہی سیکھنا آسان ہوا ہے…
اسے انگلش کی طرح سیکھیں تو یہ پریشانی کا باعث بنتی ہے… پاکستان میں عربی پر لاتعداد مختلف غیر منظّم کتابوں کے چھپنے کی وجہ یہی ہے کہ انھیں انگش قواعد کی طرز پر سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے… جس کے جیسے سمجھ آئی اس نے ویسے ہی کتاب چھاپ دی… جس کی وجہ سے وقت کا زیاں بھی ہوتا ہے اور طلبہ کے لئے ذہنی مشکلات بھی…
.
عربی زبان اور باقی زبانوں میں فرق
عربی زبان اور باقی دونوں زبانوں میں پہلا فرق یہ کہ عربی میں تمام با معنی الفاظ یعنی کلمات کو تین بنیادی حصّوں میں تقسیم کردیا گیا ہے یعنی اسم، فعل اور حرف… بولے جانے والے الفاظ کا تعلق ان تین میں سے کسی ایک سے ضرور ہوگا… باقی تمام اصطلاحات ان تین کے تابع ہونگی اور اسکی وجہ بھی موجود ہوگی…
.
دوسرا فرق یہ ہے کہ عربی میں حروف علّت کا کام آواز کے اتار چڑھاؤ کے لئے بنائی گئی تین صوتی حرکات، زبر، زیر اور پیش سے بھی لیا جاتا ہے… یہ حرکات الفاظ کی جنس، عدد، حالت اور زمانے کا تعین بھی کرتے ہیں… اسی لئے قرآن پڑھنے سے پہلے حرکات اور حروف علّت سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ قرآنی الفاظ کے معنی بدل جانے کا خدشہ ہوتا ہے…
.
تیسرا فرق یہ ہے کہ عربی میں گردان یعنی اسم اور فعل کی بناوٹ میں تبدیلی کے لئے ایک چارٹ ترتیب دیا گیا ہے… یہ گردانیں جنس gender اور عدد number کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہیں… انہیں یاد کرنا ایک ٹیکنیک ہی نہیں بلکہ ایک دلچسپ لسانی مشغلہ بھی ہے…
.
چوتھا فرق یہ ہے کہ قرآنی آیات کو بغیر ترجمے کے سمجھنے کے لئے عربی کا ماہر ہونا ضروری نہیں… یہ عمل آہستہ آہستہ خود ہی مکمّل ہو جاتا ہے اگر بنیادی قواعد پر صحیح توجہ دی گئی ہو…
.
عربی زبان کو سیکھنے کے لئے عربی کو دو قسم کے علوم میں تقسیم کیا گیا ہے…
١)عِلْمُ النَّحْو اور ٢) عِلْمُ الصَّرْف یا عِلْمُ التَّصْرِيف
.
١) علم النحو کلمات یعنی اسم، فعل اور حرف کو جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب کو کہتے ہیں… اس طرح کہ ہر کلمہ کے آخری حرف کی حرکت معلوم ہو…
مثال کے طور پر، اِلَى، ذَهَبَ, المَدرَسَةِ، خَالِدٌ, چار کلمے ہیں… اب انکو جوڑ کر جملہ بنانا اور اسے صحیح طرح ادا کرنا علم النحو ہے… “ذَهَبَ خَالِدٌ اِلَى المَدرَسَةِ” یعنی خالد اسکول گیا…
.
٢) علم الصرف، عربی کلمات کو زمانے اور حالتوں کی وجہ سے جملوں میں استعمال کرنے کے لئے مختلف شکلوں یا صیغوں میں تبدیل کرنا پڑتا ہے… اس تبدیلی یا تغیرات کے قواعد کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں…
علم النحو + علم الصرف = اللغة العربية
.
پچاس فیصد عربی…
عربی زبان میں مہارت حاصل کے بغیر پچاس فیصد عربی سیکھی جاسکتی ہے… کیسے؟
آپ نے ایک حدیث تو سنی ہوگی کہ “سوره الاخلاص ایک تہائی قرآن ہے”… اور اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ قرآن کا پیغام تین بنیادی حصّوں پر مشتمل ہے یعنی ایمان باالله، ایمان بالرسالہ ، ایمان باالآخرہ… اور سوره الاخلاص میں چونکہ الله کی توحید کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اس لئے یہ قرآن کا ایک تہائی پیغام کا برابر ہے… عام لوگوں میں یہ سمجھا گیا کہ تین مرتبہ سوره الاخلاص پڑھنے سے پورے قرآن پڑھنے کا ثواب مل جاتا ہے…
.
قرآن کی طرح عربی زبان بھی ایک معجزاتی زبان ہے….
عموما ہرزبان میں تین چار سو سالوں میں کافی تبدیلیاں آ جاتی ہیں… جیسے اردومیں آ رہی ہے… پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلوں کی طرح فخریہ طور پر اردو بگاڑ کربولنے لگے ہیں اور اس پر شرمندہ بھی نہیں… مثلا خیال کو کھیال، غور کو گور، غصّہ کو گصّہ، خود کو کھد، خوش کو کھش، خوشی کو کھشی، خارش کو کھارش، قدر کو کدر وغیرہ… اردو کے معاملے میں بڑے بڑے پڑھے لکھے، لوگوں کے چہیتے، ماں باپ بھی غفلت اور جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اس لئے اردو زبان بدل رہی ہے بلکہ کہنا چاہیے بگڑ رہی ہے اور اس بگاڑ کے مجرم پڑھے لکھے لوگ ہیں… شکر ہے میری امی نے ان معاملات میں ہماری بہت اچھی تربیت کی، ہم سے زیادہ اعلی قدروں کا خیال رکھا… اور جس کو ارود کی فکر ہے اسے چاہیے کہ پاکستانی چینلز دیکھنا چھوڑدے تاکہ اپنی قومی زبان جو کہ ہماری شناخت ہے، کی حفاظت کرسکے…
.
عربی زبان کا معجزہ یہ ہے کہ چودہ سو سال بعد بھی عام لوگوں میں اس کے الفاظ اور محاوروں کا استعمال صدیوں پہلے جیسا ہی ہے… اور اسکے بولنے والے اس سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسے اپنی اولاد سے… عربی زبان عربیوں کا فخر ہے… جبکہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کے لئے اردو ایک کنیز کہ جیسے چاہو سلوک کرو لیکن اس سے تعلق شرمندگی کا باعث ہوتی ہے…
عربیوں نے اپنی زبان کو دنیا میں عام کرنے کے لئے بہت محنت کی ہے… امت مسلمہ کے ابتدائی دورکی کامیابیوں کا تعلق تو تھا ہی عربیوں کی علمی کاوشوں سے… انکی مشہور شخصیات نے کسی نہ کسی طور عربی زبان کو رائج کرنے میں اپنا اپنا حصّہ ڈالا… افریقہ کے بہت سے ممالک تو اہل زبان ہی کی طرح عربی بولتے ہیں…
.
عربی قواعد شاید دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے منظّم اور جامع ہیں… الفاظ کا تعلق ایکدوسرے سے سمندر اور دریا جیسا ہے کہ اسی میں سے نکلے اور اسی میں جا گرے… عربی زبان کے اس نظم و ضبط کے بنیادی اصول سمجھ آجائیں تو سمجھ لیں آدھی عربی زبان سمجھ آگئی… اس میں دوسری زبانوں کی طرح ہزاروں چیزیں الگ الگ سمجھنے اور یاد کرنے کی ضرورت نہیں…
.
١) عربی زبان میں حروف تہجی ٢٩ ہیں اور ان سے یا تو مہمل (بے معنی) الفاظ بنتے ہیں یا موضوع (با معنی)…
.
٢) مہمل الفاظ کی کوئی قسم نہیں… لہٰذا بحث ہی فضول ہے…
.
٣) موضوع الفاظ کو کلمات کہتے ہیں، جسکا مطلب ہے ایسا لفظ جسکے کوئی معنی ہوں اور وہ گفتگو میں استعمال ہوتا ہے…
.
٤) موضوع الفاظ یا تو واحد (ایک لفظ) ہونگے یا مرکب (دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ)…
.
٥) تمام کے تمام کلمات یا تو اسم ہوتے ہیں یا حرف… اور تقسیم انکی خصوصیات کی وجہ سے ہے… اس لئے تمام الفاظ جو بھی ہیں لازما ان دو میں سے ایک کے اندر آئیں گے… لہذا ذہن بنا لیں کہ جو بات بھی میں کر رہی ہوں یا کر رہا ہوں یا تو اسم ہے یا پھر حرف…
.
٦) حرفمیں تمام جر preposition، عطف conjunction، تعجب interjection، استفہامیہ interrogative، شکیہ doubtful، تاکید must/must not, حروف کے علاوہ بھی اور حروف شامل ہوتے ہیں… حروف کا کوئی مادّہ یا وزن نہیں ہوتا، ان کی کوئی علامات نہیں ہوتیں اور یہ ہمیشہ جیسے ہیں ویسے ہی رہتے ہیں…
.
٧)اسممیں تمام انسانوں، اشیا، جانوروں، جگہوں کے نام شامل ہیں جنھیں اسم جامد یا اسم ذات کہتے ہیں کیونکہ یہ مادّے یا ایک خاص جسم کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اور ان سے کسی کام کے معنی نہیں نکلتے… گھر، پھول، زمین، آسمان، درخت، عورت، مرد، بچے، پانی، ہوا، کپڑا، کتب، قلم، کرسی…
کچھ اسم معنی بھی ہوتے ہیں یعنی وہ جسم کی صورت میں موجود نہیں ہوتے… جیسے جہاں، عقل، وسوسہ، خیالات، بات، کامیابی، ناکامی، عدل، ظلم، محنت، محبت، نیکی…
.
اس کے ساتھہ ساتھ ضمیر، اشارے، آوازیں، عادات، صفت، وقت، زمانہ رنگ اور اعداد بھی شامل ہیں کیونکہ انکا تعلق اسم سے ہی ہوتا ہے…
اسم اشارہ – یہ، وہ
اسم صوت – اف ، کائیں کائیں، آں چھو
اسم الصفہ – خوبصورت، اونچا، خشک، نیلا، سرخ، چار، گیارہ، بھوکا، خوش مزاج
.
حتی کہ کاموں کے نام بھی تمام کے تمام اسم ہی کہلاتے ہیں اور انھیں اسم مصدر کہتے ہیں… مصدر کے معنی ہیں پانی کا چشمہ… جیسے پانی چاہے نمکین ہو یا میٹھا، اسکے تمام قطروں کا مادّہ آکسیجن اور ہا ئیڈ روجن ہی ہوتے ہیں اور انکا وزن بھی ایک ہی جیسا ہوتا ہے یعنی دو ایٹم ہا ئیڈ روجن کے اور ایک آکسیجن کا…
.
اسی طرح اسم مصدر سے تمام افعال اوران سے مزید اسماء مصدر ہی مادّے اور خاص اوزان پر پھوٹتے ہیں… کیونکہ کہ ان ناموں سے کام کی نوعیت، حالت اور کام کرنے والے کی حالت کا پتہ چلتا ہے… اورفلسفہ یہ ہے کہ اسم ہوگا تو کام بھی ہوگا یعنی کام کا تصوراسم کے وجود سے ہے… یعنی زمین ہے تو گھوم رہی ہے نا تو گھومنا اسم ہوگیا، سورج ہے تو چمکتا ہے تو چمکنا اسم ہو گیا، درخت ہیں تو اگتے ہیں تو اگنا اسم ہو گیا، پھول ہیں توکھلتے ہیں توکھلنا اسم ہو گیا…. اسی طرح رونا، سونا، جاگنا، سوچنا، دیکھنا، بڑھنا، کھانا، پینا، سوچنا، بہنا، قتل کرنا، پونچھنا، جھاڑنا، بھاگنا، ملنا، بولنا، وغیرہ…
.
ان تمام اسماء کے وجود کے لئے کوئی عملی وجہ ہونا ضروری ہے… مثال کے طور پر آسانی پیدا کرو، لڑکے کی پیدائش ہوئی، وہ قتل ہو گیا، اس کو کھانسی ہو رہی ہے، اسکی موت واقع ہو گئی، اس نے گھومنا بند کردیا، تجسس نہ کرو…
اگر کسی بچے کو کہیں کہ طوطا پنجرے میں بند کردو… اور بھاگنا بند کردو… تو بچے کو پتہ ہوگا کہ بھاگنا اس کا عمل ہے جسے روکنا ہے…
.
٨) فعل اسم مصدر کے مادّے سے بنتا ہے لیکن اسے اسم کے تحت رکھنے کے بجائے ایک الگ کلمہ بنایا گیا ہے کیونکہ اس کی علامات اسم سے مختلف ہیں… فعل کام کو کہتے ہیں… کام یا تو ماضی میں ہو چکا ہوتا ہے، یا حال میں ہو رہا ہوتا ہے یا مستقبل میں ہونے والا ہوتا ہے…
تمام افعال مثبت یا منفی ہوتے ہیں یعنی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا پتا دیتا ہیں…
تمام افعال معروف یا مجہول ہوتے ہیں یعنی فاعل کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا مفعول کی طرف…
.
عربی میں فعل ماضی ہوتا ہے یا پھر مضارع… مضارع میں حال اور مستقبل دونوں ہوتے ہیں…
.
٩) کلمات میں اسم اور فعل معرب بھی ہو سکتے ہیں اور مبنی بھی…
معرب
اسم میں وہ اسماء جن کے آخری حروف پر تینوں حرکات اور تنوین آتی ہو… اور اسی وجہ سے ایسے اسماء کو منصرف کہتے ہیں…
اسم میں کچھ اسماء ایسے بھی ہیں جن پر کسرہ (زیر) یا تنوین نہیں آتی… یعنی صرف فتحہ (زبر) یا (پیش) آتا ہے… انہیں غیر منصرف کہتے ہیں…
عُثْمَانُ عُثْمَانَ - عِمْرَانُ عِمْرَانَ – طَلْحَةُ طَلْحَةَ – زَیْنَبُ زَیْنَبَ - اِبْرَاہِیمُ اِبْرَاہِیمَ – اَحْمَدُ اَحْمَدَ - عُمَرُعُمَرَ
سَکْرَانُ سَکْرَانَ – ثُلَاثُ ثُلَاثَ تین تین - بَعَلَّبَکَ بَعَلَّبَکَ -
.
مبنی
کلمہ میں وہ کلمات جن کے آخری حرف کی حرکت کبھی تبدیل نہیں ہوتی انھیں مبنی کہتے ہیں…
.
حرف تمام کے تمام مبنی ہوتے ہیں سوائے اسمائے ظروف (ظرف زمان اور ظرف مکان) اور اسم کنایہ کے…
.
فعل میں فعل ماضی، فعل امر حاضر معروف، فعل مضارع میں نون جمع موَنث اور نون تاکید مبنی ہوتے ہیں…
.
اسم میں اسم غیر متمکن مبنی ہوتے ہیں… اسم غیر متمکن میں اسم ضمیر، اسم موصول، اسم اشارہ اور اسم صوت مبنی ہوتے ہیں… اسمائے افعال بھی مبنی ہوتے ہیں…مرکب میں مرکب بنائی مبنی ہوتے ہیں…
.
<><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><>
.
بنیادی اصطلاحات اور الفاظ
.
حرکت
.
حرکت – movement – جمع ہے حرکات… عربی میں آواز کی تین بنیادی حرکتیں ہیں جنھیں زیر (كَسْرَة) ، فَتْحَة (زبر)، ضمَّة (پیش) کہتے ہیں… فتحہ کی آواز اوپر کی طرف، کسرہ کی آواز نیچے کی طرف اور ضمہ کی آواز گول ہوتی ہے…مثلا اَمِنَ عَالِمُ مَلِكُ
.
مضموم – کوئی حرف جس پر پیش لگی ہو…
مکسور- کوئی حرف جس پرزیرلگی ہو…
.
ضمَّة (پیش) اسم کے آخری حرف پر ہو تو اس کے حالت رفع میں ہونے کی علامت بھی ہے اور ایسا اسم مرفوع کہلاتا ہے…
فَتْحَة (زبر) اسم کے آخری حرف پر ہو تو اس کے حالت نصب میں ہونے کی علامت بھی ہے اور ایسا اسم منصوب کہلاتا ہے… اسم کے منصوب ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ورنہ وہ مرفوع ہوگا…
زیر (كَسْرَة) اسم کے آخری حرف پر ہو تو اس کے حالت جر میں ہونے کی علامت بھی ہے اور ایسا اسم مجرور کہلاتا ہے… اسم کے مجرور ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ورنہ وہ مرفوع ہوگا…
.
متحرکہ – کوئی حرف جس پر تینوں حرکات، زبر، زیر، پیش میں سے کوئی علامت لگی ہو… جیسے
التّاءُ المُتَحَرِّكَةُ – ایسی (ت) جس پر زبر، زیر اور پیش میں سے کوئی حرکت لگی ہو جیسے تَ تِ تُ …
.
مسکون یا ساکن – without movement – وہ حرف جس پر سکون یا جزم لگا ہو… مسکون یا ساکن کلمہ پر کوئی حرکت نہیں ہوتی بلکہ آواز رک جاتی ہے… ساکن حرف اکثر اپنے سے پہلے لفظ کی حرکت سے ملایا بھی جاتا ہے… نْ نون ساکن یا مسکون کہلاتا ہے… یہی معاملہ باقی حروف کے ساتھہ بھی ہے…
.
مشدّد – وہ حرف جس پر شدّه یا تشدید لگی ہو… مشدّد حرف اصل میں دو مکرر حروف ہوتے ہیں، پہلا مسکون اور دوسرا متحرک…
جیسے رَ بْ + بَ = ربَّ ……. نّ نون مشدّد کہلاتے ہے اور باقی حروف کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے…
.
اعراب – کسی کلمہ یا لفظ کے آخری حرکت کی تبدیلی کو اعراب کہتے ہیں… رَبَّ رَبِّ رَبُّ
معرب – وہ کلمہ یا لفظ ہے جس کے آخری حرف کی حرکت بدلتی رہتی ہے… جیسے كَبِيرٌ كَبِيرً كَبِيرٍ… مَالِكٌ مَالِكً مَالِكٍ…
مبنی – وہ کلمہ ہے جس کے آخری حرف کی حرکت نہیں بدلتی، ہر حالت میں ایک جیسا رہتا ہے… مثلا هَذَا هَذِهِ نَحْنُ أَنَا ذَلِكَ اَلَّذِى
.
متمکن – جگہ دینا، اعراب میں تبدیلی کی خاصیت ہونا… وہ لفظ جس کی آخری حرکت میں تبدیلی کی گنجائش ہو…
.
.
حرف
.
حرف – letter – جمع ہے حروف … انسان کے منہ سے نکلنے والی مختلف آوازوں کو مختلف علامتوں سے ظاہر کیا اور لکھا جاتا ہے… ہر آواز کی علامت الگ ہوتی ہے جسے حرف کہتے ہے… کسی زبان میں استعمال ہونے والی تمام علامتیں ملک کر حروف تہجی بنتی ہیں… یعنی کہ وہ حروف جنھیں ہجے کر کے، جوڑ کے الفاظ بنائے جائیں… عربی زبان میں ٢٩ حروف تہجی ہیں… ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ ء ی …
.
حروف علت – vowel – الف ( ا) ، واؤ ( و) اور یا ( ى )، حروف علت کہلاتے ہیں… الف فتحہ کے ساتھ مل کر، واؤ پیش کے ساتھ ملکر اور یا کسرہ کے ساتھ ملکر حرکات کو لمبا کرتے ہیں…
.
حروف صحیحہ – consonants – حروف علت کے علاوہ باقی حروف تہجی، حروف صحیحہ کہلاتے ہیں…
.
مُكَرَّرْ - twice – کسی لفظ میں کوئی حرف دو بار استعمال ہونا مکرر کہلاتا ہے…
.
اَلِفُ الِاثْنَيْن – تثنیہ کا الف کہلاتا ہے اور ماضی میں دو مذکریا موَنث غائب کو ظاہر کرنے کے لئے فعل کے آخر میں لگایا جاتا ہے…
.
نُونُ النِّسوَةِ – یہ (ن) فعل ماضی کے آخر میں جمع موَنث غائب کے لئے لگایا جاتا ہے…
.
وَاؤُالجَمَاعَةِ – یہ واؤ فعل ماضی کے آخر میں جمع مذکر غائب کے لئے لگایا جاتا ہے…
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
.
الفاظ
.
لغةlanguage لغت عربی میں زبان کو کہتے ہیں… وہ نہیں جو منہ میں ہوتی ہے، اسے لِسَانٌ tongue کہتے ہیں… لغت مطلب کہ بولی جانے والی زبان…
.
لفظ – word – جمع ہے الفاظ … مختلف حروف جوڑنے سے مختلف الفاظ بنتے ہیں…
لفظ نام name بھی ہو سکتے ہیں… محمد، ابراہیم، کعبہ، ارض، کتاب، قلم، قاضی، عراق، فلسطین، نمل، نحل، رمان…
لفظ کام action/work بھی ہو سکتے ہیں… پڑھنا، لکھنا، دیکھنا، بتانا، بھاگنا، جاگنا، لینا، دینا
لفظ حرف particle بھی ہو سکتے ہیں… میں، پر، تب، جب، شاید، نہیں، بلکہ، لیکن، اور، یا، تو
.
مہمل – meaningless – کسی بھی بے معنی لفظ کو مہمل کہتے ہیں… جیسے اردو میں سودا سلف، سچ مچ، ٹھیک ٹھاک، جھوٹ موٹ، کوڑا کرکٹ وغیرہ… ان میں خط کشیدہ الفاظ مہمل ہیں…
.
موضوع – meaningful – کوئی بھی با معنی لفظ موضوع کہلاتا ہے… سودا، سچ، جھوٹ، کوڑا، گھر، چلو، کہاں
.
کلمہ – meaningful word – جمع ہے کلمات … کسی بھی با معنی لفظ کو کلمہ کہتے ہیں… کلمہ کو انکی علامات اور معنی کی وجہ سے تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے… یعنی اسم، فعل، حرف…
.
مفرد – single – ایک اکیلا لفظ جو کہ با معنی بھی ہو مفرد یا کلمہ کہلاتا ہے… جیسے اسم، فعل اور حرف…
.
مرکب – compound – دو یا دو سے زیادہ با معنی الفاظ کو جوڑیں تو مرکب بنتا ہے… ذہین بچہ، بارہ بجے، محرم کے ساتھ، با پردہ خاتون، وہ آیا، میں نے آم کھایا …
.
ناقص – incomplete – الفاظ کا وہ مرکب جو مکمل خبر یا خیال نہ دے وہ ناقص کہلاتا ہے… ذہین بچہ، بارہ بجے، محرم کے ساتھ، با پردہ خاتون…
.
جملہ – sentence – دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا ایسا مجموعہ جس سے کوئی با معنی خبر ملے یا طلب معلوم ہو یا مثبت یا منفی اظہار خیال ہو… اسے مرکب مفید یا جملہ کہتے ہیں… جیسے کہ ذَهَبَ اَحمَداِلَى المَسْجِدِ، احمد مسجد گیا… هَل تُقِيمُ الصِّلَوَاتِ؟، کیا تم پابندی سے نمازیں پڑھتے ہو؟…
.
قواعد
.
اسم – noun – جمع ہے اسماء … اسم وہ کلمہ ہے جو کسی انسان، جانور یا شئی کا نام ہو… مثلا رَجُلٌ آدمی – عَلَمٌ جھنڈا – بَيْتٌ گھر - دُبٌّ بھالو – فِلِسْطِينُ – مَجِيدٌ بزرگی والا
.
واحد – singular – عربی میں واحد کا مطلب ہے ایک اسم…
.
تثنیہ – two – عربی میں تثنیہ کا مطلب ہے دو اسم …
.
جمع – plural – عربی میں جمع کا مطلب ہے دو سے زیادہ اسم…
.
اسم فاعل – subject – فاعل کسی کام کے کرنے والے کو کہتے ہیں… فاعل ہمیشہ مرفوع ہوتا ہے اور اسکی علامت یہ ہے کہ اس کی آخری حرکت پر پیش ہوتی ہے..
.
اسم المفعول – object – مفعول اس اسم کوکتے ہیں جس پر کوئی کام کیا گیا ہو… مفعول ہمیشہ منصوب ہوتا ہے اور اسکی علامت یہ ہے کہ اس کی آخری حرکت پر زبر ہوتا ہے…
.
اسم الصفہ – adjective – وہ اسم جو کسی اسم ذات یا اسم معنی کی صفت یا خصوصیت بیان کرے…
.
اسم ضمیر – pronoun – جمع ہے ضمائر – وہ کلمہ جو اسم کی جگہ استعمال کیا جائے جیسے کہ هُوَ(وہ مذکر) هِىَ(وہ موَنث) أنَا(میں) نَحْنُ(ہم) اَنْتَ(تم مذکر) اَنْتِ(تم موَنث) اَنْتُمْ(تم مذکر) وغیرہ… امام ضمائر مبنی ہوتے ہیں…
.
مستترضمائر – وہ ضمیریں جنکا لفظ موجود نہ ہو اور انھیں حرکت سے پہچانا جائے…
.
بارز ضمائر – وہ ضمیریں جنکا کوئی واضح حرف موجود ہو… جیسے فعل ماضی میں اَلِفُ الِاثْنَيْن،وَاؤُالجَمَاعَةِ، نُونُ النِّسْوَةِ ِ، التَّاءُ المُتَحَرِّكَةْ، نَا…
.
متصل ضمیر – وہ ضمیریں جو فاعل کے ساتھ ملی ہوئی ہوں اور الگ استعمال نہیں ہوتیں… فعل ماضی میں مستر اور بارز، دونوں متصل ضمیریں ہیں…
.
فعل – verb – جمع ہے افعال … فعل وہ کلمہ ہے جس سے کوئی کام اور اس کا زمانہ ظاہر ہو… مثلا نَصَرَ اس (مذکر) نے مدد کی , يَضْرِبُ وہ مارتا ہے, يَسْجُدُونَ وہ سب (مذکر) سجدہ کرتے ہیں، قَالُوْا ان سب (مذکر) نے کہا…
.
اشتقاق – derivation – عربی میں ایک کلمہ سے دوسرا کلمہ بنانے کو اشتقاق کہتے ہیں… یہ اشتقاق مادے کے حروف کو قائم رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے… یہ اسم میں بھی ہوتا ہے اور فعل میں بھی… اسم میں نَصَرَ نَاصِرٌ مَنْصُورٌ … فعل میں نَصَرَ سے يَنْصُرُ اور اُنْصُرْ…
.
حرف – particle – وہ کلمہ ہے جس کے معنی اسم یا فعل کو ساتھ ملائے بغیر معلوم نہ ہوں… وَ اور… بِ ساتھ… لَ ضرور… لِ لئے… كَ جیسا… فِي میں… اِنَّ بے شک… عَنْ بارے میں… مَا کیا؟… هَلْ کیا؟… مِنْ سے… اِلَى کی طرف… عَلَى پر… حَتَّى یہاں تک…
.
صیغہ – صیغہ اسم یا فعل کے مادّے پر بننے والی شکل کو کہتے ہیں جو کہ اسم یا فعل کے جنس، عدد اور ظاہر، مخاطب یا متکلّم ہونا ظاہر کرے…
.
مرفوع – کوئی حرف یا کلمہ جس کے آخری حرف پر پیش لگا ہو… جملے میں مبتداء اور اسم الفاعل کے معنی دیتا ہے… عموما تمام حروف اور فعل مرفوع ہوتے ہیں…
منصوب – کوئی حرف یا کلمہ جس کے آخری حرف پر زبر آئے… کسی بھی کلمے کے منسوب ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے…
مجرور - وہ کلمہ جس سے پہلے حرف جر آئے……
.
متصل – joined – ملی ہوئی یا ملا ہوا-
منفصل – separate – الگ، فاصلے سے-
مثبت – affirmative – کام کا ہونا-
منفی – negative – کام کا نہ ہونا-
امر – do – کام کرنے کا حکم دینا-
نہی – don’t – کام نہ کرنے کا حکم دینا-.
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
:AOA: قبلہ خلیل صاحب! محض ریٹنگ کام نہیں چلے گا۔
آپ کی رائے اور مشورے بھی ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔
محفلین بھی فیضیاب ہوں گے۔
 
بھائی جان بہت اچھا سلسلہ ہے اور بھی محفلین کو بلائیے ،مشق اور تمرین بھی ہونی چاہئے ۔
مجھے بھی اعادہ کرنا ہے میں بھی جلد ہی درس میں شامل ہونگا ۔ابھی تو اگزام ہے اس لئے چھٹی دے دیجے اگزام ختم ہوتے ہی جوائن کر لونگا عربک کلاس۔:-P
آپ کا شکریہ تو میں نے ادا کیا ہی نہیں ۔چلئے اب شکریہ اور مبارکباد دونوں دیتا ہوں ساتھ ساتھ۔:)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اَلدَّرْسُ الثَّانِی
حَرْفِ تَنْکِیْر اور حَرْفِ تَعْرِیْف
۱۔ اِسمِ نکرہ یا تنکیر:عربی زبان میں اِسمِ نکرہ پر عموماً تنوین یعنی دوپیش( ٌ ) دو زبر( ً ) یا دو زیر A پڑھی جاتی ہے۔اِس حالت میں اِس تنوین کوحرفِ تنکیر سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ انگریزی میں​
ہے ۔ اُردو میں اِس کا ترجمہ ‘‘کوئی ایک’’ یا‘‘ ایک’’ یا‘‘ کچھ’’ کیا جاتا ہے۔جیسے:​
رَجُلٌ (کوئی ایک مردیا ایک مرد)، مَاءٌ (کچھ پانی )مگرہر جگہ تنوین کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں۔​
تنبیہ:بعض اوقات اِسمِ علم پر بھی تنوین آتی ہے۔
جیسے: مُحَمَّدٌ، عَمْرٌو، زَیْدٌوغیرہ۔ ایسی صورت میں تنوین کو حرفِ تنکیر نہ سمجھیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن الرَّ حِیْم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلیٰ آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔ اَمَّا بعد
علم الصرف کا مختصر تعارُف
علم الصرف کی تعریف:
صرف لغت میں گھمانے، چلانےاوربیان کرنے کو کہا جاتا ہے۔​
اور اِصطلاح میں علم الصرف اَیسے علم کا نام ہے :​
۱۔جس میں صیغوں کی گردانیں ،​
۲۔اُن کی پہچان اور​
۳۔ایک صیغے سے دوسرے صیغے کے بنانے کا طریقہ معلوم ہو۔​
موضوع:
علم الصرف کاموضوع افعالِ متصرفہ اور اسمائے متمکنہ (معربہ) ہیں۔​
غرض:
علم الصرف کی غرض کلمات کے حروفِ اَصلیہ اور زائِدہ کی پہچان اور عربی کلمات اور صیغوں میں غلطی سے محفوظ ہونا ہے ۔​
واضِع :
واضِع کا معنیٰ ہے بُنیاد رکھنے والا،علم الصرف کی بُنیاد رکھنے والا شخص مشہور قول کے مطابق معاذ بن مسلم الہراوی ہے ۔​
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
Istlahaat1.png
 

عبدالحسیب

محفلین
بہت عمدہ سلسلہ شروع کیا ہے فارقلیط رحمانی بھائی جان۔
اَلدَّرْسُ الْاَوَّلُ

عربی زبان کا علم قرآن کو سمجھنے کی حد تک…

یہ دونوں مراسلے تو نہایت مفید ہیں۔ ابھی باقی مراسلے پڑھنا باقی ہے۔ عربی سِکھانے کا یہ انداز بہت پسند آیا۔
دو یاز دہم میں عربی بطور دوسری زبان ،100 نشانات کا میرا مضمون تھا۔ ہمیں تو استادِ محترم نے گردانیں ، مضمون ، خط، اور چند آیات کی تشریح طوطے کی طرح رٹا دیے تھے۔ خیر اس وقت مضمون میں بہترین نشانات حاصل کرنا ہی مقصود تھا:) لیکن عربی زبان کے حسن کا اندازہ وہیں سے ہوا۔ اب تو کوئی بھی گردان ، مضمون وغیرہ یاد نہیں! اب عربی زبان سیکھنا مقصود ہے ۔ انشاء اللہ یہاں بہت کچھ سیکھنے ملے گا۔
 

وجی

لائبریرین
اللہ آپکو جزائے خیر دے بہت زبردست سلسلہ شروع کیا ہے آپنے
 
Top