عربی زبان کا علم قرآن کو سمجھنے کی حد تک…
عربی زبان کو قرآن کو سمجھنے کی حد تک سیکھنے کے لئے بہتر ہے کہ کتابوں کے اسباق اور موضوعات پڑھنے اور سمجھنے سے پہلے بنیادی اصطلاحات اور الفاظ کے معنی یاد کر لئے جائیں یا یاد کروا دیے جائیں… اور قرآنی ذخیرہ الفاظ کو بھی یاد کر لیں معنی کے ساتھ… کیونکہ اسباق کے ساتھ ساتھ پڑھنا، سمجھنا اور یاد کرنا مشکل ہوتا ہے…
.
اگر عربی زبان کے قواعد کو ایک منظم طریقے پر ترتیب دے لیا جائے یا انکی اصطلاحات کا ایک چارٹ بنا لیا جائے اور اس کی بنیاد پر عربی زبان کو سیکھنے کی کوشش کی جائے توزیادہ مشکل پیش نہ آئے… پھر چاہے کتاب کوئی بھی ہو… ابھی تک تو یہ ہو رہا ہے کہ عربی زبان سکھانے کے لئے بہت سی کتابیں چھاپی گئیں ہیں… کسی میں ایک اصطلاح اور اسکے قواعد اور کسی میں دو تین ساتھ ملا کر پیش کر دی گئیں ہیں…
.
عربی زبان سیکھنے کے طریقے عربیوں اور عجمیوں کے لئے مختلف ہوسکتے ہیں… عربی اہل زبان ہونے کی وجہ سے الفاظ، جملوں، محاوروں اورضرب الامثال کا استعمال جانتے ہیں… اور انہیں اپنے مطلب اور مقصد کے حساب سے استعمال کرتے ہیں… جبکہ عجمیوں کو الفاظ، جملوں کی بناوٹ ، اصطلاحات، سب کچھ سیکھنا ہوتا ہے… پاکستانیوں کے لئے عربی زبان کو سیکھنا کوئی خاص مشکل نہیں کیونکہ اردو میں پچھتر فیصد الفاظ عربی زبان کے ہی ہیں اور تقریبا انہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں… عربی حروف تہجی تمام کے تمام اردو حروف تہجی کا حصّہ ہیں اور انکے مخارج بھی ایک جیسے ہیں…
.
عربی زبان میں حرکات، اعراب اور حروف علت کی بہت اہمیت ہوتی ہے…
کیونکہ انکی تبدیلی، اضافے یا کمی کی وجہ سے اسماء اور افعال کے جنس، عدد، حالت، زمانے اور جملوں کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں… اس لئے انکا صحیح استعمال ضروری ہے… خاص طور پر قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے…
.
ایک اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ قرآن کے متن میں الفاظ پر حرکات کا استعمال کیا گیا ہے… اور اسکی وجہ یہی ہے کہ عجمی یعنی غیر عربیوں کے لئے قرآن پڑھتے وقت غلطی کی گنجائش نہ ہو… جبکہ عربی زبان میں باقی تحریروں میں حرکت نہیں لگی ہوتیں… یہ اہل زبان کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا لکھا ہے… بالکل ایسے ہی جیسے کہ اردو کی تحریروں میں بھی حرکات کا استعمال نہیں ہوتا…
.
قرآن کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں- قرآن میں تقریبا سات ہزار آٹھ سو الفاظ استعمال ہوئے ہیں- ان میں سے کئی الفاظ اور کچھ جملے متعدد مرتبہ آیات میں آئے ہیں- تقریبا تمام الفاظ اور جملے مقررہ قواعد کے تحت ہی بنے ہوئے ہیں… اس لئے قرآنی الفاظ کے ظاہری مطلب کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی…
.
عربی زبان میں قواعد کی اصطلاحات انگریزی اور اردو کی ہی طرح ہیں… انگریزی میں بات یا تقریر کو آٹھہ حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی اسم noun، فعل verb، صفت adjective، فعل متعلق adverb، ضمیر pronoun، عطف conjunction، جر preposition اور تعجب interjection ….. اردو اور عربی میں بھی یہی اصطلاحات موجود ہیں… لیکن اردو میں انکی کوئی ترتیب نہیں ہے… ایسا لگتا ہے جیسے کہ انگریزی قواعد کے طریقے پر الفاظ کو تقسیم کر کے قواعد بنا دی گئی ہے…
.
عربی قواعد انگریزی اور اردو کے مقابلے پر بہت منظّم ہے… جس کی وجہ سے عربی کا سیکھنا اور سمجھنا کافی آسان ہے… عربی کے اس نظم و ضبط کی وجہ سے اکثر لوگ اسے سیکھنا نہایت مشکل سمجھتے ہیں… حالانکہ عربی کو اس وجہ سے ہی سیکھنا آسان ہوا ہے…
اسے انگلش کی طرح سیکھیں تو یہ پریشانی کا باعث بنتی ہے… پاکستان میں عربی پر لاتعداد مختلف غیر منظّم کتابوں کے چھپنے کی وجہ یہی ہے کہ انھیں انگش قواعد کی طرز پر سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے… جس کے جیسے سمجھ آئی اس نے ویسے ہی کتاب چھاپ دی… جس کی وجہ سے وقت کا زیاں بھی ہوتا ہے اور طلبہ کے لئے ذہنی مشکلات بھی…
.
عربی زبان اور باقی زبانوں میں فرق
عربی زبان اور باقی دونوں زبانوں میں پہلا فرق یہ کہ عربی میں تمام با معنی الفاظ یعنی کلمات کو تین بنیادی حصّوں میں تقسیم کردیا گیا ہے یعنی اسم، فعل اور حرف… بولے جانے والے الفاظ کا تعلق ان تین میں سے کسی ایک سے ضرور ہوگا… باقی تمام اصطلاحات ان تین کے تابع ہونگی اور اسکی وجہ بھی موجود ہوگی…
.
دوسرا فرق یہ ہے کہ عربی میں حروف علّت کا کام آواز کے اتار چڑھاؤ کے لئے بنائی گئی تین صوتی حرکات، زبر، زیر اور پیش سے بھی لیا جاتا ہے… یہ حرکات الفاظ کی جنس، عدد، حالت اور زمانے کا تعین بھی کرتے ہیں… اسی لئے قرآن پڑھنے سے پہلے حرکات اور حروف علّت سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ قرآنی الفاظ کے معنی بدل جانے کا خدشہ ہوتا ہے…
.
تیسرا فرق یہ ہے کہ عربی میں گردان یعنی اسم اور فعل کی بناوٹ میں تبدیلی کے لئے ایک چارٹ ترتیب دیا گیا ہے… یہ گردانیں جنس gender اور عدد number کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہیں… انہیں یاد کرنا ایک ٹیکنیک ہی نہیں بلکہ ایک دلچسپ لسانی مشغلہ بھی ہے…
.
چوتھا فرق یہ ہے کہ قرآنی آیات کو بغیر ترجمے کے سمجھنے کے لئے عربی کا ماہر ہونا ضروری نہیں… یہ عمل آہستہ آہستہ خود ہی مکمّل ہو جاتا ہے اگر بنیادی قواعد پر صحیح توجہ دی گئی ہو…
.
عربی زبان کو سیکھنے کے لئے عربی کو دو قسم کے علوم میں تقسیم کیا گیا ہے…
١)عِلْمُ النَّحْو اور ٢) عِلْمُ الصَّرْف یا عِلْمُ التَّصْرِيف
.
١) علم النحو کلمات یعنی اسم، فعل اور حرف کو جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب کو کہتے ہیں… اس طرح کہ ہر کلمہ کے آخری حرف کی حرکت معلوم ہو…
مثال کے طور پر، اِلَى، ذَهَبَ, المَدرَسَةِ، خَالِدٌ, چار کلمے ہیں… اب انکو جوڑ کر جملہ بنانا اور اسے صحیح طرح ادا کرنا علم النحو ہے… “ذَهَبَ خَالِدٌ اِلَى المَدرَسَةِ” یعنی خالد اسکول گیا…
.
٢) علم الصرف، عربی کلمات کو زمانے اور حالتوں کی وجہ سے جملوں میں استعمال کرنے کے لئے مختلف شکلوں یا صیغوں میں تبدیل کرنا پڑتا ہے… اس تبدیلی یا تغیرات کے قواعد کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں…
علم النحو + علم الصرف = اللغة العربية
.
پچاس فیصد عربی…
عربی زبان میں مہارت حاصل کے بغیر پچاس فیصد عربی سیکھی جاسکتی ہے… کیسے؟
آپ نے ایک حدیث تو سنی ہوگی کہ “سوره الاخلاص ایک تہائی قرآن ہے”… اور اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ قرآن کا پیغام تین بنیادی حصّوں پر مشتمل ہے یعنی ایمان باالله، ایمان بالرسالہ ، ایمان باالآخرہ… اور سوره الاخلاص میں چونکہ الله کی توحید کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اس لئے یہ قرآن کا ایک تہائی پیغام کا برابر ہے… عام لوگوں میں یہ سمجھا گیا کہ تین مرتبہ سوره الاخلاص پڑھنے سے پورے قرآن پڑھنے کا ثواب مل جاتا ہے…
.
قرآن کی طرح عربی زبان بھی ایک معجزاتی زبان ہے….
عموما ہرزبان میں تین چار سو سالوں میں کافی تبدیلیاں آ جاتی ہیں… جیسے اردومیں آ رہی ہے… پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلوں کی طرح فخریہ طور پر اردو بگاڑ کربولنے لگے ہیں اور اس پر شرمندہ بھی نہیں… مثلا خیال کو کھیال، غور کو گور، غصّہ کو گصّہ، خود کو کھد، خوش کو کھش، خوشی کو کھشی، خارش کو کھارش، قدر کو کدر وغیرہ… اردو کے معاملے میں بڑے بڑے پڑھے لکھے، لوگوں کے چہیتے، ماں باپ بھی غفلت اور جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اس لئے اردو زبان بدل رہی ہے بلکہ کہنا چاہیے بگڑ رہی ہے اور اس بگاڑ کے مجرم پڑھے لکھے لوگ ہیں… شکر ہے میری امی نے ان معاملات میں ہماری بہت اچھی تربیت کی، ہم سے زیادہ اعلی قدروں کا خیال رکھا… اور جس کو ارود کی فکر ہے اسے چاہیے کہ پاکستانی چینلز دیکھنا چھوڑدے تاکہ اپنی قومی زبان جو کہ ہماری شناخت ہے، کی حفاظت کرسکے…
.
عربی زبان کا معجزہ یہ ہے کہ چودہ سو سال بعد بھی عام لوگوں میں اس کے الفاظ اور محاوروں کا استعمال صدیوں پہلے جیسا ہی ہے… اور اسکے بولنے والے اس سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسے اپنی اولاد سے… عربی زبان عربیوں کا فخر ہے… جبکہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کے لئے اردو ایک کنیز کہ جیسے چاہو سلوک کرو لیکن اس سے تعلق شرمندگی کا باعث ہوتی ہے…
عربیوں نے اپنی زبان کو دنیا میں عام کرنے کے لئے بہت محنت کی ہے… امت مسلمہ کے ابتدائی دورکی کامیابیوں کا تعلق تو تھا ہی عربیوں کی علمی کاوشوں سے… انکی مشہور شخصیات نے کسی نہ کسی طور عربی زبان کو رائج کرنے میں اپنا اپنا حصّہ ڈالا… افریقہ کے بہت سے ممالک تو اہل زبان ہی کی طرح عربی بولتے ہیں…
.
عربی قواعد شاید دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے منظّم اور جامع ہیں… الفاظ کا تعلق ایکدوسرے سے سمندر اور دریا جیسا ہے کہ اسی میں سے نکلے اور اسی میں جا گرے… عربی زبان کے اس نظم و ضبط کے بنیادی اصول سمجھ آجائیں تو سمجھ لیں آدھی عربی زبان سمجھ آگئی… اس میں دوسری زبانوں کی طرح ہزاروں چیزیں الگ الگ سمجھنے اور یاد کرنے کی ضرورت نہیں…
.
١) عربی زبان میں حروف تہجی ٢٩ ہیں اور ان سے یا تو مہمل (بے معنی) الفاظ بنتے ہیں یا موضوع (با معنی)…
.
٢) مہمل الفاظ کی کوئی قسم نہیں… لہٰذا بحث ہی فضول ہے…
.
٣) موضوع الفاظ کو کلمات کہتے ہیں، جسکا مطلب ہے ایسا لفظ جسکے کوئی معنی ہوں اور وہ گفتگو میں استعمال ہوتا ہے…
.
٤) موضوع الفاظ یا تو واحد (ایک لفظ) ہونگے یا مرکب (دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ)…
.
٥) تمام کے تمام کلمات یا تو اسم ہوتے ہیں یا حرف… اور تقسیم انکی خصوصیات کی وجہ سے ہے… اس لئے تمام الفاظ جو بھی ہیں لازما ان دو میں سے ایک کے اندر آئیں گے… لہذا ذہن بنا لیں کہ جو بات بھی میں کر رہی ہوں یا کر رہا ہوں یا تو اسم ہے یا پھر حرف…
.
٦) حرفمیں تمام جر preposition، عطف conjunction، تعجب interjection، استفہامیہ interrogative، شکیہ doubtful، تاکید must/must not, حروف کے علاوہ بھی اور حروف شامل ہوتے ہیں… حروف کا کوئی مادّہ یا وزن نہیں ہوتا، ان کی کوئی علامات نہیں ہوتیں اور یہ ہمیشہ جیسے ہیں ویسے ہی رہتے ہیں…
.
٧)اسممیں تمام انسانوں، اشیا، جانوروں، جگہوں کے نام شامل ہیں جنھیں اسم جامد یا اسم ذات کہتے ہیں کیونکہ یہ مادّے یا ایک خاص جسم کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اور ان سے کسی کام کے معنی نہیں نکلتے… گھر، پھول، زمین، آسمان، درخت، عورت، مرد، بچے، پانی، ہوا، کپڑا، کتب، قلم، کرسی…
کچھ اسم معنی بھی ہوتے ہیں یعنی وہ جسم کی صورت میں موجود نہیں ہوتے… جیسے جہاں، عقل، وسوسہ، خیالات، بات، کامیابی، ناکامی، عدل، ظلم، محنت، محبت، نیکی…
.
اس کے ساتھہ ساتھ ضمیر، اشارے، آوازیں، عادات، صفت، وقت، زمانہ رنگ اور اعداد بھی شامل ہیں کیونکہ انکا تعلق اسم سے ہی ہوتا ہے…
اسم اشارہ – یہ، وہ
اسم صوت – اف ، کائیں کائیں، آں چھو
اسم الصفہ – خوبصورت، اونچا، خشک، نیلا، سرخ، چار، گیارہ، بھوکا، خوش مزاج
.
حتی کہ کاموں کے نام بھی تمام کے تمام اسم ہی کہلاتے ہیں اور انھیں اسم مصدر کہتے ہیں… مصدر کے معنی ہیں پانی کا چشمہ… جیسے پانی چاہے نمکین ہو یا میٹھا، اسکے تمام قطروں کا مادّہ آکسیجن اور ہا ئیڈ روجن ہی ہوتے ہیں اور انکا وزن بھی ایک ہی جیسا ہوتا ہے یعنی دو ایٹم ہا ئیڈ روجن کے اور ایک آکسیجن کا…
.
اسی طرح اسم مصدر سے تمام افعال اوران سے مزید اسماء مصدر ہی مادّے اور خاص اوزان پر پھوٹتے ہیں… کیونکہ کہ ان ناموں سے کام کی نوعیت، حالت اور کام کرنے والے کی حالت کا پتہ چلتا ہے… اورفلسفہ یہ ہے کہ اسم ہوگا تو کام بھی ہوگا یعنی کام کا تصوراسم کے وجود سے ہے… یعنی زمین ہے تو گھوم رہی ہے نا تو گھومنا اسم ہوگیا، سورج ہے تو چمکتا ہے تو چمکنا اسم ہو گیا، درخت ہیں تو اگتے ہیں تو اگنا اسم ہو گیا، پھول ہیں توکھلتے ہیں توکھلنا اسم ہو گیا…. اسی طرح رونا، سونا، جاگنا، سوچنا، دیکھنا، بڑھنا، کھانا، پینا، سوچنا، بہنا، قتل کرنا، پونچھنا، جھاڑنا، بھاگنا، ملنا، بولنا، وغیرہ…
.
ان تمام اسماء کے وجود کے لئے کوئی عملی وجہ ہونا ضروری ہے… مثال کے طور پر آسانی پیدا کرو، لڑکے کی پیدائش ہوئی، وہ قتل ہو گیا، اس کو کھانسی ہو رہی ہے، اسکی موت واقع ہو گئی، اس نے گھومنا بند کردیا، تجسس نہ کرو…
اگر کسی بچے کو کہیں کہ طوطا پنجرے میں بند کردو… اور بھاگنا بند کردو… تو بچے کو پتہ ہوگا کہ بھاگنا اس کا عمل ہے جسے روکنا ہے…
.
٨) فعل اسم مصدر کے مادّے سے بنتا ہے لیکن اسے اسم کے تحت رکھنے کے بجائے ایک الگ کلمہ بنایا گیا ہے کیونکہ اس کی علامات اسم سے مختلف ہیں… فعل کام کو کہتے ہیں… کام یا تو ماضی میں ہو چکا ہوتا ہے، یا حال میں ہو رہا ہوتا ہے یا مستقبل میں ہونے والا ہوتا ہے…
تمام افعال مثبت یا منفی ہوتے ہیں یعنی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا پتا دیتا ہیں…
تمام افعال معروف یا مجہول ہوتے ہیں یعنی فاعل کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا مفعول کی طرف…
.
عربی میں فعل ماضی ہوتا ہے یا پھر مضارع… مضارع میں حال اور مستقبل دونوں ہوتے ہیں…
.
٩) کلمات میں اسم اور فعل معرب بھی ہو سکتے ہیں اور مبنی بھی…
معرب
اسم میں وہ اسماء جن کے آخری حروف پر تینوں حرکات اور تنوین آتی ہو… اور اسی وجہ سے ایسے اسماء کو منصرف کہتے ہیں…
اسم میں کچھ اسماء ایسے بھی ہیں جن پر کسرہ (زیر) یا تنوین نہیں آتی… یعنی صرف فتحہ (زبر) یا (پیش) آتا ہے… انہیں غیر منصرف کہتے ہیں…
عُثْمَانُ عُثْمَانَ - عِمْرَانُ عِمْرَانَ – طَلْحَةُ طَلْحَةَ – زَیْنَبُ زَیْنَبَ - اِبْرَاہِیمُ اِبْرَاہِیمَ – اَحْمَدُ اَحْمَدَ - عُمَرُعُمَرَ
سَکْرَانُ سَکْرَانَ – ثُلَاثُ ثُلَاثَ تین تین - بَعَلَّبَکَ بَعَلَّبَکَ -
.
مبنی
کلمہ میں وہ کلمات جن کے آخری حرف کی حرکت کبھی تبدیل نہیں ہوتی انھیں مبنی کہتے ہیں…
.
حرف تمام کے تمام مبنی ہوتے ہیں سوائے اسمائے ظروف (ظرف زمان اور ظرف مکان) اور اسم کنایہ کے…
.
فعل میں فعل ماضی، فعل امر حاضر معروف، فعل مضارع میں نون جمع موَنث اور نون تاکید مبنی ہوتے ہیں…
.
اسم میں اسم غیر متمکن مبنی ہوتے ہیں… اسم غیر متمکن میں اسم ضمیر، اسم موصول، اسم اشارہ اور اسم صوت مبنی ہوتے ہیں… اسمائے افعال بھی مبنی ہوتے ہیں…مرکب میں مرکب بنائی مبنی ہوتے ہیں…
.
<><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><><>
.
بنیادی اصطلاحات اور الفاظ
.
حرکت
.
حرکت – movement – جمع ہے حرکات… عربی میں آواز کی تین بنیادی حرکتیں ہیں جنھیں زیر (كَسْرَة) ، فَتْحَة (زبر)، ضمَّة (پیش) کہتے ہیں… فتحہ کی آواز اوپر کی طرف، کسرہ کی آواز نیچے کی طرف اور ضمہ کی آواز گول ہوتی ہے…مثلا اَمِنَ عَالِمُ مَلِكُ
.
مضموم – کوئی حرف جس پر پیش لگی ہو…
مکسور- کوئی حرف جس پرزیرلگی ہو…
.
ضمَّة (پیش) اسم کے آخری حرف پر ہو تو اس کے حالت رفع میں ہونے کی علامت بھی ہے اور ایسا اسم مرفوع کہلاتا ہے…
فَتْحَة (زبر) اسم کے آخری حرف پر ہو تو اس کے حالت نصب میں ہونے کی علامت بھی ہے اور ایسا اسم منصوب کہلاتا ہے… اسم کے منصوب ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ورنہ وہ مرفوع ہوگا…
زیر (كَسْرَة) اسم کے آخری حرف پر ہو تو اس کے حالت جر میں ہونے کی علامت بھی ہے اور ایسا اسم مجرور کہلاتا ہے… اسم کے مجرور ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ورنہ وہ مرفوع ہوگا…
.
متحرکہ – کوئی حرف جس پر تینوں حرکات، زبر، زیر، پیش میں سے کوئی علامت لگی ہو… جیسے
التّاءُ المُتَحَرِّكَةُ – ایسی (ت) جس پر زبر، زیر اور پیش میں سے کوئی حرکت لگی ہو جیسے تَ تِ تُ …
.
مسکون یا ساکن – without movement – وہ حرف جس پر سکون یا جزم لگا ہو… مسکون یا ساکن کلمہ پر کوئی حرکت نہیں ہوتی بلکہ آواز رک جاتی ہے… ساکن حرف اکثر اپنے سے پہلے لفظ کی حرکت سے ملایا بھی جاتا ہے… نْ نون ساکن یا مسکون کہلاتا ہے… یہی معاملہ باقی حروف کے ساتھہ بھی ہے…
.
مشدّد – وہ حرف جس پر شدّه یا تشدید لگی ہو… مشدّد حرف اصل میں دو مکرر حروف ہوتے ہیں، پہلا مسکون اور دوسرا متحرک…
جیسے رَ بْ + بَ = ربَّ ……. نّ نون مشدّد کہلاتے ہے اور باقی حروف کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے…
.
اعراب – کسی کلمہ یا لفظ کے آخری حرکت کی تبدیلی کو اعراب کہتے ہیں… رَبَّ رَبِّ رَبُّ
معرب – وہ کلمہ یا لفظ ہے جس کے آخری حرف کی حرکت بدلتی رہتی ہے… جیسے كَبِيرٌ كَبِيرً كَبِيرٍ… مَالِكٌ مَالِكً مَالِكٍ…
مبنی – وہ کلمہ ہے جس کے آخری حرف کی حرکت نہیں بدلتی، ہر حالت میں ایک جیسا رہتا ہے… مثلا هَذَا هَذِهِ نَحْنُ أَنَا ذَلِكَ اَلَّذِى
.
متمکن – جگہ دینا، اعراب میں تبدیلی کی خاصیت ہونا… وہ لفظ جس کی آخری حرکت میں تبدیلی کی گنجائش ہو…
.
.
حرف
.
حرف – letter – جمع ہے حروف … انسان کے منہ سے نکلنے والی مختلف آوازوں کو مختلف علامتوں سے ظاہر کیا اور لکھا جاتا ہے… ہر آواز کی علامت الگ ہوتی ہے جسے حرف کہتے ہے… کسی زبان میں استعمال ہونے والی تمام علامتیں ملک کر حروف تہجی بنتی ہیں… یعنی کہ وہ حروف جنھیں ہجے کر کے، جوڑ کے الفاظ بنائے جائیں… عربی زبان میں ٢٩ حروف تہجی ہیں… ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ ء ی …
.
حروف علت – vowel – الف ( ا) ، واؤ ( و) اور یا ( ى )، حروف علت کہلاتے ہیں… الف فتحہ کے ساتھ مل کر، واؤ پیش کے ساتھ ملکر اور یا کسرہ کے ساتھ ملکر حرکات کو لمبا کرتے ہیں…
.
حروف صحیحہ – consonants – حروف علت کے علاوہ باقی حروف تہجی، حروف صحیحہ کہلاتے ہیں…
.
مُكَرَّرْ - twice – کسی لفظ میں کوئی حرف دو بار استعمال ہونا مکرر کہلاتا ہے…
.
اَلِفُ الِاثْنَيْن – تثنیہ کا الف کہلاتا ہے اور ماضی میں دو مذکریا موَنث غائب کو ظاہر کرنے کے لئے فعل کے آخر میں لگایا جاتا ہے…
.
نُونُ النِّسوَةِ – یہ (ن) فعل ماضی کے آخر میں جمع موَنث غائب کے لئے لگایا جاتا ہے…
.
وَاؤُالجَمَاعَةِ – یہ واؤ فعل ماضی کے آخر میں جمع مذکر غائب کے لئے لگایا جاتا ہے…