سید زبیر
محفلین
اورنگزیب کے مزار پر ایک لمحہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم جو سطوت شاہانہ کے مالک تھے کبھی
ابھی دلی ۔ تو ابھی ارضِ دکن
رات دن گھوڑے پہ سرگرم سفر رہتے تھے
عشق خیرات کیا کرتے تھے
نور جاگیر عطا کرتے تھے
ایک فرمان سے قسمت پہ مہر لگتی تھی
تم کہ شاہی میں فقیرا نہ ادا رکھتے تھے
تم کو اپنے لیے ہوس جاہ نہ تھی
مسند شاہی کو
دولت کی کوئی چاہ نہ تھی
تم تو وہ تھے جو گذارے کے لیے
نانِ جویں کی خاطر
ٹوپیاں سی کے
صحیفے کی کتابت کر کے
پس انداز کیا کرتے تھے
شکر ادا کرتے تھے
تم تو وہ تھے کہ جہاں اپنے قدم رکھتے تھے
بس وہیں فتح کے نقارے بجا کرتے تھے
آج یہ حال ہے
پیر و مرشد کی درگاہ کے خنک سائے میں
قبرِ بے سائباں میں سوئے ہو
اور رکھا ہے سرہانے
لکڑی کا مقفل ڈبہ
جس میں دالے گئے سکوں کی کھنک
دور تلک جاتی ہے
عرفان جعفری