نیرنگ خیال
لائبریرین
اک چھوٹا سی بٹیا رانی ہے گود میں۔ کب سے کھیل رہی ہے۔ میرے پیچھے چھپتی ہے۔ پھر ہنستی ہے۔ میں اسکو دیکھ دیکھ کرخوشی سے نہال ہوا جا رہا ہوں۔ ہنستا ہوں۔ یہ منہ پر اک دوپٹہ لے کر چھپ رہی ہے۔ جب میں چہرے سے دوپٹہ ہٹاتا ہوں۔ تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ بولنا نہیں آتا۔ دفتر بیٹھا تھا کہ حکمران اعلی کی طرف سے پیغام موصول ہوا۔ آپکی بٹیا پاپا کی رٹ لگائے ہے۔ فون پر سننے کی کوشش کی۔ سمجھ نہیں آئی۔ وقت ٹھہر گیا۔ کب شام ہوگی۔ میں گھر جاؤں گا۔ دیکھو گا اپنے نور عین کو۔ سنو گا اس سے۔ گھر پہنچا تو بٹیا سو رہی۔ بڑا بیقراری میں وقت گزارا۔۔۔ کب اٹھے۔ آخر وہ لمحہ آیا جب میری بٹیا نے پاپا کہا۔ اس انبساط کی لہر کو الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہوں۔ بار بار سنا۔ ویڈیو بنا لی۔ اس کی دادی، دادا، نانا، نانی کو فون کیا۔ سب کو بتایا۔ آج اس نے ہاتھ ملانا بھی سیکھ لیا۔ اب سلام کرنے پر ہاتھ ملاتی ہے۔ اور خدا حافظ کہنے پر ہاتھ ہلاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد اس چندا کی پہلی سالگرہ ہے۔ طرح طرح کے خیالات میں ذہن گھرا ہے۔ یہ کروں گا۔ وہ کروں گا۔ کتنی محبت ہے اولاد کی۔ دوری کی آزمائش کتنی سخت ہوگی۔
رات کو اسی طرح کھیلتے کھیلتے ہم دونوں باپ بیٹی سو گئے۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلی۔ دیکھا بٹیا پر سے کمبل ہٹا ہوا ہے۔ کمبل دیا۔ ذہن کے نہاں خانے میں اپنا بچپن روشن ہوگیا۔ میری ماں۔۔ میرا باپ۔۔ آنکھو ں کے سامنے کے مناظر دھندلا گئے۔ اور اوجھل منظر واضح ہوتے چلے گئے۔ میری بہنیں کہتی ہیں۔ کہ تو وہ توتا ہے جس میں امی کی جان ہے۔ کیسا توتا ہے جو رات کے اس پہر اپنی ماں سے بےفکر ہے۔ اسے احساس ہی نہیں کہ جس کی جان اس میں مقید ہے۔ اسکا کیا حال ہے۔ ماں شائد جاگ رہی ہوگی۔ سوچ کر فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پھر سوچا سوئی ہوئی تو نیند خراب ہوجائے گی۔ روک لیا خود کو۔۔۔۔ واقعات اک اک کر کے پردہ سکرین پر چلنے لگے۔ امی کہتی ہیں کہ تم میرے سے اک پل دور نہ ہوتے تھے۔ میں تمہیں اٹھا کر سارے کام کرتی تھی۔ پر تم کو ہٹانا ممکن نہ تھا۔ کاندھا اور بازو سوج جاتے ہونگے ماں کے۔تین سال کے قریب عمر تھی۔ جب پہلی بار بازو ٹوٹا۔ جب پلاسٹر چڑھایا ڈاکٹر نے تو میرا باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میری طرف نہیں دیکھتے تھے۔ پھر اک دن میرا پلاسٹر اتروا دیا۔ میرا بازو کو پکڑ کر بیٹھے رہتے۔ کہ کہیں جوڑ خراب نہ ہوجائے۔ مگر پٹی نہ باندھنے دیتے کہ میرا بیٹا معذور نہیں۔ بےقراری حد سے بڑھنے لگی۔ صبح ہونے میں نہیں آرہی۔ وقت ٹھہر گیا ہے۔ بارہ سال گزر گئے۔ حساب لگا رہا ہوں۔ ان گزشتہ بارہ سالوں میں گنتی کے چند دن جو ملا کر کچھ مہینے بھی نہیں بنتے گھر میں گزارے ہونگے۔ اس میں بھی کتنا وقت اپنی ماں کے پاس بیٹھا۔ کتنا وقت باپ کے پاس بیٹھا۔ بہت سوچا مگر یوں لگا کہ چند گھنٹے سے زیادہ وقت نہ گزارا ہوگا۔وہ ماں جس کا آج بھی قلبی تعلق اس قدر زیادہ ہے۔ کہ جب بھی کسی پریشانی نے گھیرا ہے۔ سب سے پہلے فون آیا ہے ماں کا۔ پوچھتی ہے بیٹا طبیعت ٹھیک ہے نا۔ دل ڈوبا جاتا ہے میرا۔ کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ۔ ندامت کا عرق آنکھو ں سے پھوٹ نکلا ہے۔ اور تاب نہیں اس عرق کو پونچھنے کی۔ بیگم جاگ گئی۔ بٹیا جاگ گئی۔ تو کیا سوچے گی۔ کہ کیسا آدمی ہے۔ کس لیئے رو رہا ہے۔ بتانا پڑے گا۔
اتنے بےحسی کیوں آگئی مجھ میں۔۔۔۔۔ بٹیا رانی کے بناء تو چند دن نہیں گزرتے۔۔۔ پھر اپنے والدین کے ساتھ ایسا کیوں کر بیٹھا۔ احساس ندامت ذہن پر حاوی ہوتا جاتا ہے۔جسم مکمل عرق انفعال میں تر ہے۔ دماغ طرح طرح کے بہانے تلاش رہا ہے۔ کہ دیکھ یار پہلے پڑھائی اور پھر ملازمت۔۔۔ تیرے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔۔۔۔ عرق ندامت نے رخسار کے ساتھ ساتھ قمیص کے سامنے کا حصہ بھی بھگو دیا ہے۔ میں بیٹھا ہوں۔ پر ٹھنڈ کا احساس نام کو نہیں۔ دل دماغ کے تمام حیلے بہانوں پر تردید کی مہر لگائے چلا جا رہا ہے۔ دماغ کا کہنا ہے کہ پڑھنے بھی تو انہوں نے ہی بھیجا تھا۔ پھر بہتر مستقبل۔۔۔ کیا کرتا تو۔۔۔ پھر دل کا ماننے سے انکار۔۔۔ اچھا اس میں تیرا قصور ہی نہیں۔ پر قصور تو واضح ہے۔ میرے نبی فرماتے ہیں کہ اگر حالت نماز میں مجھے میری ماں آواز دے تو میں فوراً لبیک کہتا ہوا جاؤں۔ مگرجب میری ماں کہتی ہے بیٹا تیرے بناء دل نہیں لگتا۔ تو ہنس پڑتا ہوں۔ امی اگلے مہینے آؤں گا۔ اگلہ مہینہ۔۔۔ کتنے اگلے مہینے گزرتے جاتے ہیں۔ دماغ کہتا ہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی ذمہ داریاں ہیں تجھ پر۔ ان سے بھی عہدہ برآ ہونا ہے تو نے۔ پر دل ہے کہ بس انکی آواز سننے کو ترسا جاتا ہے۔ صبح ہو جائے۔ بس صبح ہوجائے۔
رات کو اسی طرح کھیلتے کھیلتے ہم دونوں باپ بیٹی سو گئے۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلی۔ دیکھا بٹیا پر سے کمبل ہٹا ہوا ہے۔ کمبل دیا۔ ذہن کے نہاں خانے میں اپنا بچپن روشن ہوگیا۔ میری ماں۔۔ میرا باپ۔۔ آنکھو ں کے سامنے کے مناظر دھندلا گئے۔ اور اوجھل منظر واضح ہوتے چلے گئے۔ میری بہنیں کہتی ہیں۔ کہ تو وہ توتا ہے جس میں امی کی جان ہے۔ کیسا توتا ہے جو رات کے اس پہر اپنی ماں سے بےفکر ہے۔ اسے احساس ہی نہیں کہ جس کی جان اس میں مقید ہے۔ اسکا کیا حال ہے۔ ماں شائد جاگ رہی ہوگی۔ سوچ کر فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پھر سوچا سوئی ہوئی تو نیند خراب ہوجائے گی۔ روک لیا خود کو۔۔۔۔ واقعات اک اک کر کے پردہ سکرین پر چلنے لگے۔ امی کہتی ہیں کہ تم میرے سے اک پل دور نہ ہوتے تھے۔ میں تمہیں اٹھا کر سارے کام کرتی تھی۔ پر تم کو ہٹانا ممکن نہ تھا۔ کاندھا اور بازو سوج جاتے ہونگے ماں کے۔تین سال کے قریب عمر تھی۔ جب پہلی بار بازو ٹوٹا۔ جب پلاسٹر چڑھایا ڈاکٹر نے تو میرا باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میری طرف نہیں دیکھتے تھے۔ پھر اک دن میرا پلاسٹر اتروا دیا۔ میرا بازو کو پکڑ کر بیٹھے رہتے۔ کہ کہیں جوڑ خراب نہ ہوجائے۔ مگر پٹی نہ باندھنے دیتے کہ میرا بیٹا معذور نہیں۔ بےقراری حد سے بڑھنے لگی۔ صبح ہونے میں نہیں آرہی۔ وقت ٹھہر گیا ہے۔ بارہ سال گزر گئے۔ حساب لگا رہا ہوں۔ ان گزشتہ بارہ سالوں میں گنتی کے چند دن جو ملا کر کچھ مہینے بھی نہیں بنتے گھر میں گزارے ہونگے۔ اس میں بھی کتنا وقت اپنی ماں کے پاس بیٹھا۔ کتنا وقت باپ کے پاس بیٹھا۔ بہت سوچا مگر یوں لگا کہ چند گھنٹے سے زیادہ وقت نہ گزارا ہوگا۔وہ ماں جس کا آج بھی قلبی تعلق اس قدر زیادہ ہے۔ کہ جب بھی کسی پریشانی نے گھیرا ہے۔ سب سے پہلے فون آیا ہے ماں کا۔ پوچھتی ہے بیٹا طبیعت ٹھیک ہے نا۔ دل ڈوبا جاتا ہے میرا۔ کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ۔ ندامت کا عرق آنکھو ں سے پھوٹ نکلا ہے۔ اور تاب نہیں اس عرق کو پونچھنے کی۔ بیگم جاگ گئی۔ بٹیا جاگ گئی۔ تو کیا سوچے گی۔ کہ کیسا آدمی ہے۔ کس لیئے رو رہا ہے۔ بتانا پڑے گا۔
اتنے بےحسی کیوں آگئی مجھ میں۔۔۔۔۔ بٹیا رانی کے بناء تو چند دن نہیں گزرتے۔۔۔ پھر اپنے والدین کے ساتھ ایسا کیوں کر بیٹھا۔ احساس ندامت ذہن پر حاوی ہوتا جاتا ہے۔جسم مکمل عرق انفعال میں تر ہے۔ دماغ طرح طرح کے بہانے تلاش رہا ہے۔ کہ دیکھ یار پہلے پڑھائی اور پھر ملازمت۔۔۔ تیرے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔۔۔۔ عرق ندامت نے رخسار کے ساتھ ساتھ قمیص کے سامنے کا حصہ بھی بھگو دیا ہے۔ میں بیٹھا ہوں۔ پر ٹھنڈ کا احساس نام کو نہیں۔ دل دماغ کے تمام حیلے بہانوں پر تردید کی مہر لگائے چلا جا رہا ہے۔ دماغ کا کہنا ہے کہ پڑھنے بھی تو انہوں نے ہی بھیجا تھا۔ پھر بہتر مستقبل۔۔۔ کیا کرتا تو۔۔۔ پھر دل کا ماننے سے انکار۔۔۔ اچھا اس میں تیرا قصور ہی نہیں۔ پر قصور تو واضح ہے۔ میرے نبی فرماتے ہیں کہ اگر حالت نماز میں مجھے میری ماں آواز دے تو میں فوراً لبیک کہتا ہوا جاؤں۔ مگرجب میری ماں کہتی ہے بیٹا تیرے بناء دل نہیں لگتا۔ تو ہنس پڑتا ہوں۔ امی اگلے مہینے آؤں گا۔ اگلہ مہینہ۔۔۔ کتنے اگلے مہینے گزرتے جاتے ہیں۔ دماغ کہتا ہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی ذمہ داریاں ہیں تجھ پر۔ ان سے بھی عہدہ برآ ہونا ہے تو نے۔ پر دل ہے کہ بس انکی آواز سننے کو ترسا جاتا ہے۔ صبح ہو جائے۔ بس صبح ہوجائے۔
امی کی طبیعت خراب تھی تو چھوٹے بھائی کو ڈانٹا کہ ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں کیوں تاخیر ہوئی۔ جیسے سب فرائض اسی کے ہیں۔ جیسے میرا کوئی فرض نہیں۔ اپنی ان کوتاہیوں کے لیئے بڑی دیر سے کوئی وجہ تلاش رہا ہوں۔ آخر ابلیسی داماغ وجہ تلاش کر ہی لایا۔ کہ والدین کی محبت میں قلت اس لیئے ہے کہ آدم و حوا کے والدین ہی نہ تھے۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ والدین سے محبت کیسے کی جاتی ہے۔ کیسے ان کی خدمت کی جاتی ہے۔ وہ تو بس اولاد سے ہی محبت کرنا جانتے تھے۔ سو یہی وہ وراثت ہے جو مجھ تک پہنچی ہے۔ میں نے ثابت کر دیا ہے کہ میں صحیح وارث ہوں۔ اس دلیل سے دل کچھ مطمئن ہوگیا ہے۔ اب شائد نیند آجائے۔