عروض کا سافٹوئر

میں تو یہیں (محفل میں) ہوتا ہوں امجد صاحب! آپ شاید مصروف ہیں آج کل؟
میں نے مواصلات میں دِقت پیش آنے اور ایک مراسلہ پوسٹ ہونے میں دو گھنٹے لگنے کی وجہ سے پوچھا، حالانکہ کریوسٹی کو تو سگنل ٹھیک مل رہے ہیں اور وہ امیجز اور ڈیٹا ٹھیک سے بھیج رہی ہے۔:ROFLMAO:
 
آپس کی بات ہے، شاعری خاصا ہوائی بلکہ خلائی قسم کا کام ہے۔ خاص طور پر کوئی اگر اوزان سے نکل جائے تو خود ہی پکار اٹھتا ہے کہ:
مرے وجدان کو کیا ہو گیا ہے​
خلائی شاعری کرنے لگا ہوں​

خلا سے بحر میں اترنا تو پڑتا ہے نا، ردیف قافیے کی کشتیاں زمین تک بھی پہنچا ہی دیں گی۔ اور پھر ۔۔۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی​
مجھے کچھ یہ بحر اور زمین وغیرہ کی قید سے اتفاق نہیں، اپنے خیالات ،جذبات اور احساسات کو الفاظ میں دھارنے میں ویسے ہی اتنی قید ہے اوپر سے شاعری بھی اگر مقید کرے گی حدود اور قواعد کی تو احساس جائے کہاں۔
میرے خیال میں بس اتنا کافی تھا کہ نظم ایسے ہوتی ہے اور غزل ایسے، یہ کافیہ اور یہ ردیف، یہ رباعی اور یہ قطعہ۔ کیا ہم جس قسم کے احساسات کو بیان کرنے جا رہے ہوتے ہیں جن الفاظ میں !! بحروں اور زمینوں کے مطابق ڈھالنے میں الفاظ کی تبدیلی نہیں ہو جاتی؟؟ اور کیا پھر وہ الفاظ یا شاعری (بھلے شاعری کے اصول و ضوابط پر پوری اتارنے کے بعد، بہت خوش الہان بھی ہو اور لوگوں کو پسند بھی ہو) پر کیا وہ شاعر کےاحساسات کو اب بھی ویسا ہی بیان کر رہی ہوتی ہے؟؟؟ اور لوگ ویسا ہی سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں جیسا شاعر نے محسوس کیا تھا اور انہیں بتانے کی کوشش کی تھی۔
 
میں نے مواصلات میں دِقت پیش آنے اور ایک مراسلہ پوسٹ ہونے میں دو گھنٹے لگنے کی وجہ سے پوچھا، حالانکہ کریوسٹی کو تو سگنل ٹھیک مل رہے ہیں اور وہ امیجز اور ڈیٹا ٹھیک سے بھیج رہی ہے۔:ROFLMAO:
میں ایک دور دراز دیہی علاقے میں ہوں۔ ہفتہ بھر سے یہاں شام آٹھ بجے کے قریب کانیکٹیوٹی سست ہو جاتی ہے۔
 
کیا یہ بھی کوئی بحر ہے؟

فاعلات فاعلات فعولن


میرا خیال ہے اس طرح کی کوئی بحر اردو میں مروج نہیں ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سرے سے ایسی کوئی بحر ہے ہی نہیں۔


جی بالکل ایک فارسی بحر ہے۔
فاع لاتن منفصل یا مفروقی کے ساتھ ہے۔
بحر کا نام:
بحرِ قلیب مسدس مکفوف محذوف
ارکان: فاع لاتُ فاع لاتُ فعولن

مگر مروج نہیں۔ البتہ کوئی لکھنا چاہے تو ضرور لکھ سکتا ہے۔ کوئی ممانعت نہیں۔
 
مجھے کچھ یہ بحر اور زمین وغیرہ کی قید سے اتفاق نہیں، اپنے خیالات ،جذبات اور احساسات کو الفاظ میں دھارنے میں ویسے ہی اتنی قید ہے اوپر سے شاعری بھی اگر مقید کرے گی حدود اور قواعد کی تو احساس جائے کہاں۔
میرے خیال میں بس اتنا کافی تھا کہ نظم ایسے ہوتی ہے اور غزل ایسے، یہ کافیہ اور یہ ردیف، یہ رباعی اور یہ قطعہ۔ کیا ہم جس قسم کے احساسات کو بیان کرنے جا رہے ہوتے ہیں جن الفاظ میں !! بحروں اور زمینوں کے مطابق ڈھالنے میں الفاظ کی تبدیلی نہیں ہو جاتی؟؟ اور کیا پھر وہ الفاظ یا شاعری (بھلے شاعری کے اصول و ضوابط پر پوری اتارنے کے بعد، بہت خوش الہان بھی ہو اور لوگوں کو پسند بھی ہو) پر کیا وہ شاعر کےاحساسات کو اب بھی ویسا ہی بیان کر رہی ہوتی ہے؟؟؟ اور لوگ ویسا ہی سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں جیسا شاعر نے محسوس کیا تھا اور انہیں بتانے کی کوشش کی تھی۔
محمد اسامہ سَرسَری آپ کی رائے جاننا چاہ رہا تھا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جی بالکل ایک فارسی بحر ہے۔
فاع لاتن منفصل یا مفروقی کے ساتھ ہے۔
بحر کا نام:
بحرِ قلیب مسدس مکفوف محذوف
ارکان: فاع لاتُ فاع لاتُ فعولن

مگر مروج نہیں۔ البتہ کوئی لکھنا چاہے تو ضرور لکھ سکتا ہے۔ کوئی ممانعت نہیں۔
'فاع' میں 'ع' ساکن ہے کیا؟ اور کیا یہاں 'یک حرفی' حرف آئے گا؟
 
کیا وہ شاعر کےاحساسات کو اب بھی ویسا ہی بیان کر رہی ہوتی ہے؟؟؟ اور لوگ ویسا ہی سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں جیسا شاعر نے محسوس کیا تھا اور انہیں بتانے کی کوشش کی تھی۔


شاعر کا ایک مطلب زبان دان یا سخن دان یا سخنور بھی ہے جناب۔ اگر شاعر اس مسئلے میں اپنے احساسات کے ابلاغ میں ناکام ہے تو اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں شاید دو ہی فنون ہیں جنہیں لوگ بغیر کسی استاد سے سیکھے ہی سمجھ لینا فرض یا واجب سمجھتے ہیں۔
پہلا اسلام، دوسرا شاعری۔

والسلام۔
 
'فاع' میں 'ع' ساکن ہے کیا؟ اور کیا یہاں 'یک حرفی' حرف آئے گا؟


رکن کی ساخت کے حساب سے فاع لاتن میں عین ساکن ہے۔ مگر عروضی تقطیع کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں آتا جیسا کہ دوسرا ساکن متحرک ہی ہوتا ہے۔ جس طرح فاعلاتن کی تقطیع ہوگی اسی طرح اس کی بھی ہوگی۔
ان دونوں میں فرق صرف بحر کے دائرے اور اجزائے ارکان کے لحاظ سے ہے۔ اسے سمجھنے کی آپ کے لئے ضرورت نہیں۔ ;)
 
شاعر کا ایک مطلب زبان دان یا سخن دان یا سخنور بھی ہے جناب۔ اگر شاعر اس مسئلے میں اپنے احساسات کے ابلاغ میں ناکام ہے تو اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں شاید دو ہی فنون ہیں جنہیں لوگ بغیر کسی استاد سے سیکھے ہی سمجھ لینا فرض یا واجب سمجھتے ہیں۔
پہلا اسلام، دوسرا شاعری۔

والسلام۔
دو باتیں:
پہلی:
میں تن من دھن سے سیکھنے پر تیار ہوں، پر مجھے ابھی تک جتنے مراسلے ملے ہیں بحر سے متعلق سمجھ ہی نہیں آئے، شاید میتھڈ یا الفاظ کا مسئلہ ہے۔
دوسری:اگر بحر وغیرہ کی پابندی میں شاعری میرے احساسات کی ویسے ہی ترجمانی کر سکتی ہے جیسے بغیر کسی بحر کی پابندی کے تو میں بصد شوق سیکھنا چاہوں گا اور میں اساتذہ کی تا حیات تکریم کرنے والے لوگوں میں سے ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
رکن کی ساخت کے حساب سے فاع لاتن میں عین ساکن ہے۔ مگر عروضی تقطیع کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں آتا جیسا کہ دوسرا ساکن متحرک ہی ہوتا ہے۔ جس طرح فاعلاتن کی تقطیع ہوگی اسی طرح اس کی بھی ہوگی۔
ان دونوں میں فرق صرف بحر کے دائرے اور اجزائے ارکان کے لحاظ سے ہے۔ اسے سمجھنے کی آپ کے لئے ضرورت نہیں۔ ;)
یعنی میں اسے بھی
فاعِلاتُ فاعلات فعولن
ہی سمجھوں؟
اشاری نظام: 1212-1212-221
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دو باتیں:
پہلی:
میں تن من دھن سے سیکھنے پر تیار ہوں، پر مجھے ابھی تک جتنے مراسلے ملے ہیں بحر سے متعلق سمجھ ہی نہیں آئے، شاید میتھڈ یا الفاظ کا مسئلہ ہے۔
دوسری:اگر بحر وغیرہ کی پابندی میں شاعری میرے احساسات کی ویسے ہی ترجمانی کر سکتی ہے جیسے بغیر کسی بحر کی پابندی کے تو میں بصد شوق سیکھنا چاہوں گا اور میں اساتذہ کی تا حیات تکریم کرنے والے لوگوں میں سے ہوں۔
امجد بھائی آپ یہ کتابچہ دیکھیں
http://kitaben.urdulibrary.org/Pages/BehrM.html

مجھے بھی اس سے بہت مدد ملی تھی آغاز میں۔
 
دو باتیں:
پہلی:
میں تن من دھن سے سیکھنے پر تیار ہوں، پر مجھے ابھی تک جتنے مراسلے ملے ہیں بحر سے متعلق سمجھ ہی نہیں آئے، شاید میتھڈ یا الفاظ کا مسئلہ ہے۔
دوسری:اگر بحر وغیرہ کی پابندی میں شاعری میرے احساسات کی ویسے ہی ترجمانی کر سکتی ہے جیسے بغیر کسی بحر کی پابندی کے تو میں بصد شوق سیکھنا چاہوں گا اور میں اساتذہ کی تا حیات تکریم کرنے والے لوگوں میں سے ہوں۔


بھائی بحر و اوزان کا روایتی طریقہ سمجھنا بہر حال ہر ایک کے لئے آسان نہیں ہے۔ اب تو بائنری نظام کی سہولت بھی موجود ہے۔
اس کے علاوہ شعر کو لکھنے کی بجائے گنگنا کر بھی کہا جاسکتا ہے۔ پھر اس میں جو کمی بیشی ہو اسے کسی استاد یا ماہر سے درستی کروا لیں۔
ضروری نہیں کہ آپ عروضی بن جائیں، بحر و اوزان پر مکمل دسترس حاصل کریں۔ ہمارے یہاں دوستوں میں اکثر ایسے ہیں جو عروض نہیں جانتے۔ بس طبع موزوں رکھتے ہیں، گنگناتے جاتے ہیں، اور شعر کہتے جاتے ہیں۔ اور حقیقت میں یہی تو عروض کی بنیاد ہے۔
آپ کسی بھی شاعر کا ایک شعر چن لیں، اس کی بحر معلوم کریں، اور اس بحر میں جتنے شعرا نے جتنی غزلیات کہیں ہیں انہیں جمع کرکے انہیں بلند آواز سے ایک ایک شعر کرکے قرات شروع کردیں، کوشش کریں کہ مشاعرے سنیں، شعری محافل میں شرکت کریں، تنقیدی محافل میں جائیں، یا کوئی غزل ایسی سنیں جو کسی مشہور سنگیت کار نے گائی ہو، اس کے ہم وزن غزلیں ڈھونڈیں، اور اسی لے میں گنگنائیں۔
اس طرح آپ کو نہ عروض سیکھنے کی ضرورت ہے، اور آہستہ آہستہ مصرعوں میں توازن بھی پیدا ہوجائے گا۔
 
جی بالکل ایک فارسی بحر ہے۔
فاع لاتن منفصل یا مفروقی کے ساتھ ہے۔
بحر کا نام:
بحرِ قلیب مسدس مکفوف محذوف
ارکان: فاع لاتُ فاع لاتُ فعولن

مگر مروج نہیں۔ البتہ کوئی لکھنا چاہے تو ضرور لکھ سکتا ہے۔ کوئی ممانعت نہیں۔

جی ہاں مزمل شیخ بسمل کا ارشاد بالکل بجا: کوئی لکھنا چاہے تو ضرور لکھے، ممانعت کوئی نہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال اکرام مجید کی پنجابی غزلوں کا مجموعہ ’’نویاں زمیناں‘‘ : اس میں فاضل شاعر نے ایسی بحور (بشمول عربی اور فارسی سے خاص بحور) میں شاعری کی ہے جو اردو میں بھی غیرمانوس ہیں۔
 
بھائی بحر و اوزان کا روایتی طریقہ سمجھنا بہر حال ہر ایک کے لئے آسان نہیں ہے۔ اب تو بائنری نظام کی سہولت بھی موجود ہے۔
اس کے علاوہ شعر کو لکھنے کی بجائے گنگنا کر بھی کہا جاسکتا ہے۔ پھر اس میں جو کمی بیشی ہو اسے کسی استاد یا ماہر سے درستی کروا لیں۔
ضروری نہیں کہ آپ عروضی بن جائیں، بحر و اوزان پر مکمل دسترس حاصل کریں۔ ہمارے یہاں دوستوں میں اکثر ایسے ہیں جو عروض نہیں جانتے۔ بس طبع موزوں رکھتے ہیں، گنگناتے جاتے ہیں، اور شعر کہتے جاتے ہیں۔ اور حقیقت میں یہی تو عروض کی بنیاد ہے۔
آپ کسی بھی شاعر کا ایک شعر چن لیں، اس کی بحر معلوم کریں، اور اس بحر میں جتنے شعرا نے جتنی غزلیات کہیں ہیں انہیں جمع کرکے انہیں بلند آواز سے ایک ایک شعر کرکے قرات شروع کردیں، کوشش کریں کہ مشاعرے سنیں، شعری محافل میں شرکت کریں، تنقیدی محافل میں جائیں، یا کوئی غزل ایسی سنیں جو کسی مشہور سنگیت کار نے گائی ہو، اس کے ہم وزن غزلیں ڈھونڈیں، اور اسی لے میں گنگنائیں۔
اس طرح آپ کو نہ عروض سیکھنے کی ضرورت ہے، اور آہستہ آہستہ مصرعوں میں توازن بھی پیدا ہوجائے گا۔
میں نے جب بھی شعر کہے انہیں گنگنایا ضرور، اور تقریباَ میں نے اپنی ہر غزل، نظم اور گیت کی لے طے کر رکھی ہے اور اسی میں گنگنایا کرتا ہوں بلکہ گایا کرتا ہوں۔
میری شاعری کے کچھ نمونے آپ کی خدمت میں پیش ہیں اب کسی طرح انہی سے سمجھا دیں کہ اگر یہ بحر میں ہوتیں تو کیسی ہوتیں۔

ہرجائی (برائے اصلاح)

ہم نہ بھی ملے تو

میں تو جیسے تم ہوں

مجھے کچھ درد دے دو (برائے اصلاح)

غزل: میں تنہا بھرے شہر میں بھی (امجد میانداد)

زندہ ہوتے تو !!!

دیکھو کوئی وعدہ نہ کرو، بھول جاؤ گے
 
بحرِ زمزمہ میں ایک نظم جناب سید ذیشان کی توجہ کے لئے

بابا مجھے معاف نہ کرنا

میں تیرا مجرم ہوں بابا!
بابا! مجھے معاف نہ کرنا
میں تیرا مجرم تو ہُوں ہی،
تیرے رب کا بھی مجرم ہوں
تیرے بچوں کا مجرم ہوں
دیکھ مرے ہاتھوں کو، بابا!
یہ میرے ہی خون سے تر ہیں
میں نے خود کو قتل کیا ہے
میں اپنی آزادی کا بھی خود قاتل ہوں!
میں اُس عزم کا،
اُس جذبے کا بھی قاتل ہوں
جس کے بل پر
تو نے دھرتی کا اِک ٹکڑا عرش مقام بنا ڈالا تھا
میں اُس آنکھ کا بھی مجرم ہوں
جس نے اندھی رات کے افسوں کو اشکوں کے نور سے توڑا
جس نے فکر کے ننھے ننھے جگنو پالے
اور ممولوں کو شہبازوں سے لڑوایا
جس نے مجھ کو خواب دکھایا
خواب جو عین وحی کی صورت، عرش سے اترا
ہاں!اُس کی تعبیر بڑی برکت والی تھی
برکت والی رات میں اتری
قدر کی رات میں قدرت نے اک تحفہ بخشا
لیکن میں نے اُس تحفے کی قدر نہ جانی
تحفہ دینے والے کو کیا منہ دکھلاؤں گا میں، بابا!

بابا! مجھے معاف نہ کرنا
میں نے خود کو قتل کیا ہے
میرے ہاتھ اور میرا دامن
میرے خون سے لت پت ہیں سب
نانِ جویں سے میری بھوک نہیں مٹتی اب
میری پیاس کو اب پانی ناکافی ٹھہرا
میری ایک خدا پر اب گزران نہیں ہے
میرا ایک خدا مغرب میں ایک شمال میں رہتا ہے
پر دونوں مجھ کو روٹی دینے سے قاصر ہیں
اور میں اپنی دوزخ جیسی بھوک مٹانے کی خاطر
حق اپنے جیسوں کا کھاتا ہوں
اور لہو پیتا ہوں
اپنی زمزم جیسی قدروں کا
میرے جسم پہ ہے آویزاں جو پیراہن
میری بہنوں کی عصمت کی لیروں سے وُہ سِل کے بنا ہے

مجھ کو اپنے کھانے سے بھی، پانی سے بھی،
لیروں سے بھی بو آتی ہے
میری سوچیں متعفن ہیں
میرے جذبے پژمردہ ہیں
میرے اندر کوئی پل پل
کرچی کرچی ٹوٹ رہا ہے
میں قاتل ہوں اپنے اندر کے انساں کا
بابا! مجھے معاف نہ کرنا

میری فکر پراگندہ ہے
میرا ذہن غلام ہوا ہے
بیچ خلا کے اُڑتی پھرتی، چلّاتی، چنگھاڑیں مارتی،
ان شیطانی آوازوں کا
جن کا منبع تک مجھ کو معلوم نہیں ہے
میرے گھر میں بھی اک ڈائن کا ڈیرہ ہے
جس نے مجھ کو بیوی بچوں سے بے گانہ کر رکھا ہے
اس کے خال و خد میں ایسا گم ہوں، بابا!
مجھ کو آگے پیچھے کا کچھ ہوش نہیں ہے
مجھ کو اب اپنے ہونے کا اور نہ ہونے کا بھی
کچھ ادراک نہیں ہے!

میری روح پہ اک دجّال نے قبضہ کر رکھا ہے، بابا!
میں سکرات کے عالم میں ہوں
کیا جانے میں زندہ بھی ہوں یا مردہ ہوں
بابا! میری ماں بھی مجھ سے رنجیدہ ہے!
وہ جو مجھ کو گود میں لے کر لوری گایا کرتی تھی
وہ لوری بے آواز ہے کب سے!
رات کی تاریکی میں اکثر
اک سسکی سی سنتا ہوں میں
شاید میری ماں روتی ہے
روتی ہو گی، مجھ کو ایسے حال میں پا کر،
اس کو رونا تو آئے گا، روئے گی نا!
بابا، مجھ کو ڈر لگتا ہے!
کہتے ہیں جب دھرتی روتی ہے تو سو طوفان آتے ہیں!
روتے روتے جب اس کی ہچکی بندھ جاتی ہے تو
ساری دنیا ہِل جاتی ہے
ہلتی ہو گی!
لیکن میں سکرات کے عالم میں کیا جانوں؟
بابا، میں نے اپنا بازو توڑ دیا ہے
میں نے اس ڈائن کی خاطر
سب کنبے کو چھوڑ دیا ہے
میں نے کیا چھوڑا ہے بابا، سب نے سب کو چھوڑ دیا ہے!
اور اب سارے خوف کے مارے کانپ رہے ہیں

میں نے اک تلوار بنائی بھی تھی اپنے دشمن سے لڑنے کو
لیکن میرے بازو اب تلوار اٹھانے جوگے کب ہیں!!
میں نے اس تلوار کو گھر کے اک کونے میں
اک دیوار بنا کے اس میں گاڑ دیا ہے
میری بازو بننے والے جو چند اِک تھے
ان کو بھی دیوار کے پیچھے ڈال چکا ہوں

بابا، مجھ کو ڈر لگتا ہے
میرے جسم کا خلیہ خلیہ کانپ رہا ہے
ڈرتا ہوں میں ٹوٹ نہ جاؤں!
سب کہتے ہیں مجھے سزا تو ملنی ہو گی! یہ تو ہوگا!
بابا! جانے تب کیا ہو گا؟!
بابا!
مجھے معاف نہ کرنا تجھ کو بھی تو مشکل ہو گا!
لیکن، بابا!
ہرگز مجھے معاف نہ کرنا!
بابا، مجھے معاف نہ کرنا!!


شذرہ: اس بحر میں لفظ ’’مجھے‘‘ کی بندش وتدمجموع یا وتدمفروق دونوں طرح درست ہے۔ اصولاً ’’مجھے‘‘ وتدمجموع ہے۔
 
مجھے کچھ یہ بحر اور زمین وغیرہ کی قید سے اتفاق نہیں، اپنے خیالات ،جذبات اور احساسات کو الفاظ میں دھارنے میں ویسے ہی اتنی قید ہے اوپر سے شاعری بھی اگر مقید کرے گی حدود اور قواعد کی تو احساس جائے کہاں۔
میرے خیال میں بس اتنا کافی تھا کہ نظم ایسے ہوتی ہے اور غزل ایسے، یہ کافیہ اور یہ ردیف، یہ رباعی اور یہ قطعہ۔ کیا ہم جس قسم کے احساسات کو بیان کرنے جا رہے ہوتے ہیں جن الفاظ میں !! بحروں اور زمینوں کے مطابق ڈھالنے میں الفاظ کی تبدیلی نہیں ہو جاتی؟؟ اور کیا پھر وہ الفاظ یا شاعری (بھلے شاعری کے اصول و ضوابط پر پوری اتارنے کے بعد، بہت خوش الہان بھی ہو اور لوگوں کو پسند بھی ہو) پر کیا وہ شاعر کےاحساسات کو اب بھی ویسا ہی بیان کر رہی ہوتی ہے؟؟؟ اور لوگ ویسا ہی سمجھ بھی رہے ہوتے ہیں جیسا شاعر نے محسوس کیا تھا اور انہیں بتانے کی کوشش کی تھی۔

میری رائے تو بھائی یہ ہے کہ:
1۔ آپ بحر اور زمین کی قید سے آزاد رہیں۔۔۔ شوق سے رہیں۔۔۔ یہ آپ کا اپنا ذوق ہے۔
2۔ اپنے احساسات کو جس طرح چاہیں لوگوں تک پہنچائیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کا حق ہے۔
3۔ جو لوگ بحر اور زمین کی قید کی وجہ سے اپنے احساسات کماحقہ پہنچانے میں ناکام ہوں انھیں بھی بے شک اس قید سے آزادی کا مشورہ دیں۔ یہ آپ کا اختیار ہے۔
4۔ مگر کلیۃً آپ کا بحر اور زمین کی قید سے اتفاق نہ کرنا اچھا نہیں لگے گا خاص طور پر ان لوگوں کو جو کثیر ریاضت کی وجہ سے اب نثر سے زیادہ نظم(بحر اور زمین کی قید) کے ماہر ہوچکے ہیں۔:)

میں نے پندرہ سال کی عمر میں شاعری شروع کی تھی، وزن کا کچھ نہیں پتا تھا، پورا ایک دیوان لکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ وزن کیا ہوتا ہے، پھر وزن سیکھا اور اب تک سیکھ ہی رہا ہوں۔:) مگر اتنا ضرور ہے کہ وزن کی طرف رہنمائی کرنے والی میرے لیے میری بے وزن شاعری ہی بنی ہے۔:):)
 
میری رائے تو بھائی یہ ہے کہ:
1۔ آپ بحر اور زمین کی قید سے آزاد رہیں۔۔۔ شوق سے رہیں۔۔۔
2۔ اپنے احساسات کو جس طرح چاہیں لوگوں تک پہنچائیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔
3۔ جو لوگ بحر اور زمین کی قید کی وجہ سے اپنے احساسات کماحقہ پہنچانے میں ناکام ہوں انھیں بھی بے شک اس قید سے آزادی کا مشورہ دیں۔
4۔ مگر کلیۃً آپ کا بحر اور زمین کی قید سے اتفاق نہ کرنا اچھا نہیں لگے گا خاص طور پر ان لوگوں کو جو کثیر ریاضت کی وجہ سے اب نثر سے زیادہ نظم(بحر اور زمین کی قید) کے ماہر ہوچکے ہیں۔:)
لیکن ریاضت اور بحر کے علم بردار بھی تو اُس لکھے کو شاعری ہی نہیں مانتے :)
اور قبلہ اب آپ کو ٹائپو کا تو پتہ ہے اکثر فراوانی میں سرزد ہو جاتی ہیں قافیہ کو تو ہم نے کافیہ لکھا غلطی تسلیم، لیکن خوش الہان لکھنے میں کیا غلطی سرزد ہو گئی :)
کیوں کہ سیکھتے رہیں گے جب تک علم ختم نہیں ہو جاتا ہمارے لیے۔
 
لیکن ریاضت اور بحر کے علم بردار بھی تو اُس لکھے کو شاعری ہی نہیں مانتے :)
اور قبلہ اب آپ کو ٹائپو کا تو پتہ ہے اکثر فراوانی میں سرزد ہو جاتی ہیں قافیہ کو تو ہم نے کافیہ لکھا غلطی تسلیم، لیکن خوش الہان لکھنے میں کیا غلطی سرزد ہو گئی :)
کیوں کہ سیکھتے رہیں گے جب تک علم ختم نہیں ہو جاتا ہمارے لیے۔

شاعری تو مانتے ہیں مگر بے بحری، اسی لیے اس محفل میں باقاعدہ اس کے لیے زمرہ مخصوص کردیا ہے بنام: آپ کی نثری شاعری بحور سے آزاد
”پتہ“ غلط ہے ”پتا“ درست ہے۔
خوش الحان صحیح لفظ ہے۔ الحان لحن سے مشتق ہے۔ جبکہ الہان کا ترجمہ ہے: مسافر کو سفر سے واپسی پر تحفہ دینا۔:)
 
Top