بحرِ زمزمہ میں ایک نظم جناب
سید ذیشان کی توجہ کے لئے
بابا مجھے معاف نہ کرنا
میں تیرا مجرم ہوں بابا!
بابا! مجھے معاف نہ کرنا
میں تیرا مجرم تو ہُوں ہی،
تیرے رب کا بھی مجرم ہوں
تیرے بچوں کا مجرم ہوں
دیکھ مرے ہاتھوں کو، بابا!
یہ میرے ہی خون سے تر ہیں
میں نے خود کو قتل کیا ہے
میں اپنی آزادی کا بھی خود قاتل ہوں!
میں اُس عزم کا،
اُس جذبے کا بھی قاتل ہوں
جس کے بل پر
تو نے دھرتی کا اِک ٹکڑا عرش مقام بنا ڈالا تھا
میں اُس آنکھ کا بھی مجرم ہوں
جس نے اندھی رات کے افسوں کو اشکوں کے نور سے توڑا
جس نے فکر کے ننھے ننھے جگنو پالے
اور ممولوں کو شہبازوں سے لڑوایا
جس نے مجھ کو خواب دکھایا
خواب جو عین وحی کی صورت، عرش سے اترا
ہاں!اُس کی تعبیر بڑی برکت والی تھی
برکت والی رات میں اتری
قدر کی رات میں قدرت نے اک تحفہ بخشا
لیکن میں نے اُس تحفے کی قدر نہ جانی
تحفہ دینے والے کو کیا منہ دکھلاؤں گا میں، بابا!
بابا! مجھے معاف نہ کرنا
میں نے خود کو قتل کیا ہے
میرے ہاتھ اور میرا دامن
میرے خون سے لت پت ہیں سب
نانِ جویں سے میری بھوک نہیں مٹتی اب
میری پیاس کو اب پانی ناکافی ٹھہرا
میری ایک خدا پر اب گزران نہیں ہے
میرا ایک خدا مغرب میں ایک شمال میں رہتا ہے
پر دونوں مجھ کو روٹی دینے سے قاصر ہیں
اور میں اپنی دوزخ جیسی بھوک مٹانے کی خاطر
حق اپنے جیسوں کا کھاتا ہوں
اور لہو پیتا ہوں
اپنی زمزم جیسی قدروں کا
میرے جسم پہ ہے آویزاں جو پیراہن
میری بہنوں کی عصمت کی لیروں سے وُہ سِل کے بنا ہے
مجھ کو اپنے کھانے سے بھی، پانی سے بھی،
لیروں سے بھی بو آتی ہے
میری سوچیں متعفن ہیں
میرے جذبے پژمردہ ہیں
میرے اندر کوئی پل پل
کرچی کرچی ٹوٹ رہا ہے
میں قاتل ہوں اپنے اندر کے انساں کا
بابا! مجھے معاف نہ کرنا
میری فکر پراگندہ ہے
میرا ذہن غلام ہوا ہے
بیچ خلا کے اُڑتی پھرتی، چلّاتی، چنگھاڑیں مارتی،
ان شیطانی آوازوں کا
جن کا منبع تک مجھ کو معلوم نہیں ہے
میرے گھر میں بھی اک ڈائن کا ڈیرہ ہے
جس نے مجھ کو بیوی بچوں سے بے گانہ کر رکھا ہے
اس کے خال و خد میں ایسا گم ہوں، بابا!
مجھ کو آگے پیچھے کا کچھ ہوش نہیں ہے
مجھ کو اب اپنے ہونے کا اور نہ ہونے کا بھی
کچھ ادراک نہیں ہے!
میری روح پہ اک دجّال نے قبضہ کر رکھا ہے، بابا!
میں سکرات کے عالم میں ہوں
کیا جانے میں زندہ بھی ہوں یا مردہ ہوں
بابا! میری ماں بھی مجھ سے رنجیدہ ہے!
وہ جو مجھ کو گود میں لے کر لوری گایا کرتی تھی
وہ لوری بے آواز ہے کب سے!
رات کی تاریکی میں اکثر
اک سسکی سی سنتا ہوں میں
شاید میری ماں روتی ہے
روتی ہو گی، مجھ کو ایسے حال میں پا کر،
اس کو رونا تو آئے گا، روئے گی نا!
بابا، مجھ کو ڈر لگتا ہے!
کہتے ہیں جب دھرتی روتی ہے تو سو طوفان آتے ہیں!
روتے روتے جب اس کی ہچکی بندھ جاتی ہے تو
ساری دنیا ہِل جاتی ہے
ہلتی ہو گی!
لیکن میں سکرات کے عالم میں کیا جانوں؟
بابا، میں نے اپنا بازو توڑ دیا ہے
میں نے اس ڈائن کی خاطر
سب کنبے کو چھوڑ دیا ہے
میں نے کیا چھوڑا ہے بابا، سب نے سب کو چھوڑ دیا ہے!
اور اب سارے خوف کے مارے کانپ رہے ہیں
میں نے اک تلوار بنائی بھی تھی اپنے دشمن سے لڑنے کو
لیکن میرے بازو اب تلوار اٹھانے جوگے کب ہیں!!
میں نے اس تلوار کو گھر کے اک کونے میں
اک دیوار بنا کے اس میں گاڑ دیا ہے
میری بازو بننے والے جو چند اِک تھے
ان کو بھی دیوار کے پیچھے ڈال چکا ہوں
بابا، مجھ کو ڈر لگتا ہے
میرے جسم کا خلیہ خلیہ کانپ رہا ہے
ڈرتا ہوں میں ٹوٹ نہ جاؤں!
سب کہتے ہیں مجھے سزا تو ملنی ہو گی! یہ تو ہوگا!
بابا! جانے تب کیا ہو گا؟!
بابا!
مجھے معاف نہ کرنا تجھ کو بھی تو مشکل ہو گا!
لیکن، بابا!
ہرگز مجھے معاف نہ کرنا!
بابا، مجھے معاف نہ کرنا!!
شذرہ: اس بحر میں لفظ ’’مجھے‘‘ کی بندش وتدمجموع یا وتدمفروق دونوں طرح درست ہے۔ اصولاً ’’مجھے‘‘ وتدمجموع ہے۔