عشقیہ کہانی از سید مہدی بخاری

عشقیہ کہانی
سید مہدی بخاری

پرانی بات ہے ۔ ابھی موبائل فون کا رواج نہیں آیا تھا ۔ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اس زمانے کی پی ٹی سی ایل کے دو فون تھے ۔ جب موقع ملتا ایسے ہی ادھر اُدھر کا نمبر ملاتے کہ شاید کسی مہوش سے بات ہو جائے ۔ ہمارے دو تین دوستوں کی اسی طرح دوستی ہو چکی تھی اور وہ اس بات پہ بہت نازاں تھے۔


کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن حسبِ معمول کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ فون کی دوسری جانب ایک نفیس سی کھنکتی ہوئی زنانہ آواز ابھری ۔ پہلے تو ہمارے اپنے اوسان خطا ہو گئے لیکن اپنے آپ سے کہا ' برخوردار ایسا موقع پتہ نہیں پھر ملے نا ملے ہمت نہیں ہارنی چاہیے ' چنانچہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اور شوٹ و شوٹ چلتی سانسوں کو کنٹرول کرتے ہوئے السلام علیکم کہا اور بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ امجد جیدی گھر پر ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ دل میں دعا کی کہ خدا کرے اس نام کا کوئی شخص اس گھر میں نہ ہو ۔ دعا قبول ہوئی اور جواب آیا یہاں پر امجد جیدی نہیں رہتے ۔ اس پر ہم نے کہا شاید رانگ نمبر مل گیا ہے اور بات کو لمبا کرتے ہوئے کہا آپ کو خوامخواہ زحمت دی جس کے لئے معذرت خواہ ہیں ۔ بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے نہایت شستہ انداز میں وضاحت کی کہ وہ ہمارا کلاس فیلو ہے اور آج ہم نے مل کے اسائنمنٹ تیار کرنی تھی جس کیلیے اس نے یہاں ہاسٹل آنا تھا۔

دوسری طرف سے رس گھولتی آواز نے کہا کوئی بات نہیں ۔ اس پہ جلدی سے کہ مبادا فون بند نہ کر دیا جائے ہم نے ہمت کر کے کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ بھی ہماری طرح سٹوڈنٹ ہیں ۔ اس پہ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی جب فون بند کرنے کی بجائے جواب آیا ہاں میں کالج میں پڑھتی ہوں۔ اب باقاعدہ گفتگو شروع ہو گئی ۔ ایک دوسرے کے سبجیکٹ پوچھے گئے ۔ پڑھائی کے معاملے میں پیش آنے والی مشکلات وغیرہ کا ذکر ہوا۔ چونکہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اس لیئے مشکلات کے حل کیلیے ہم نے اپنی ممکنہ خدمات پیش کر دیں ۔ اس طرح یہ رانگ نمبر واقفیت میں بدل گیا اور پھر وقتاً فوقتاً فون آنے جانے لگ گئے ۔

فون پہ بات چیت کا یہ سلسلہ ہمارے دل میں گھر کرتا گیا اور آہستہ آہستہ اُنسیت میں تبدیل ہوتا گیا ۔ ملاقات کی تڑپ جاگ اٹھی۔ اس پر اپنے ایک جہان دیدہ کلاس فیلو سے مشورہ کیا تو پہلے پہل اس نے مذاق اڑایا کہ چیونٹی کے بھی پر نکل آئے ہیں۔ بعد میں مشورہ دیا کہ اب بلا جھجک ملاقات کی بات کر دی جائے اور اظہارِ محبت کیا جائے ۔ گذارش کی دیہاتی بندے ہیں گھبراہٹ ہوتی ہے ۔ کہا خط لکھ کے کہہ دو ۔


چنانچہ ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک خط لکھا " مجھے نہیں معلوم کہ فون پہ ہونے والی باتوں کا سلسلہ کب ایک کسک میں تبدیل ہوا اور دل میں آپ سے ملنے کی تمنا جاگ اٹھی ۔ کیا آپ اس صورتِ حال میں میری مدد کر سکیں گی "

خاطر خواہ اور مثبت جواب آیا اور کہا گیا کہ پہلے ہم ان کی گلی کا چکر لگائیں۔ وہ ہمیں دیکھنا چاہ رہی تھیں۔ اس پہ ہم کھل اٹھے ۔ مگر مسئلہ یہ ہوا کہ غربت کے مارے ہمارے پاس نہ تو ڈھنگ کے اور نا ہی فیشنِ وقت کے کپڑے تھے اور نہ کوئی سواری ۔ اور ہم پہلا امپریشن خراب نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ ہم نے کہہ رکھا تھا کہ ہم ایک وجیہ نوجوان ہیں جس کی شکل وحید مراد سے ملتی ہے اور اس کی طرح کے فیشن کرتے ہیں ۔


دوستوں سے منت کر کے ایک اچھی رنگین دھاریوں والی امپورٹڈ قمیض اور فیشنی جینز کی پینٹ لی۔ سواری کے سلسلے میں ایک دوست نے مہربانی کی اور اپنی موٹر سائیکل دیدی لیکن چونکہ ہمیں چلانی نہیں آتی تھی اسی دوست سے عرض کیا کے وہ ہمیں وہاں لے جائے ۔ کچھ ردوکد کے بعد ہماری حالت پہ ترس کھا کے راضی ہوگیا۔

پری وِش سے وقت اور دن طے کیا۔ نشانی کے طور پر موٹر سائیکل کا نمبر بھی بتا دیا تاکہ پہچاننے میں کوئی دقّت نہ ہو ۔

مقررہ دن کو مانگے کی رنگین قمیض اور بلیو جینز پہنی ۔ ایک دوست کے فیشنی گاگل آنکھوں پہ چڑھائے اور مانگے کی ہی موٹر سائیکل پے ڈرائیور ( موٹرسائیکل کے مالک ) کے پیچھے بیٹھ کر اس احتیاط کے ساتھ کوچہء جاناں کو چل دیے کہ اس کے کپڑے اور گیٹ اپ بالکل سادہ اور ہم سے کمتر ہو کیونکہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔

حسینہ بالکونی میں کھڑی ہماری ہی راہ تک رہی تھی ۔ آسمانی رنگ کے سوٹ میں کسی اپسراء سے کم نا لگتی تھی ۔ موٹر سائیکل کو پہچان گئی چوری چھپے ہاتھ ہلایا ۔ ہم نے بھی جوابی ہاتھ ہلائے اور جب تک وہ نظر آتی رہی ہم ادھر اُدھر دیکھ کر گاہے گاہے ہاتھ ہلاتے گئے ۔

اپنی اس عظیم کامیابی پر بہت خوش ہاسٹل پہنچے تو رہا نا گیا اور اسے فون کیا اور پوچھا کہ ہم اس کو کیسے لگے۔ اُس کی آواز میں بھی خوشی جھلک رہی تھی۔ چہک کر بولی " آپ بہت اچھے اور پیارے لگ رہے تھے لیکن یہ باندر کون تھا جو آپ کے پیچھے بیٹھا تھا"
۔۔۔

بشکریہ واٹزایپ گروپ
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یہ زمانے بہت پرانے ہو گئے، تب تو پی ٹی سی ایل فون پر سی ایل آئی کی سہولت بھی نہیں تھی۔ اس طرح کی کالز کے سد باب کے لیے والدین ایکسچینج میں باقاعدہ درخواست دے کر فون پر آبزرویشن لگواتے تھے تا کہ "بُرے" کے گھر تک پہنچا جا سکے :)
 
یہ زمانے بہت پرانے ہو گئے، تب تو پی ٹی سی ایل فون پر سی ایل آئی کی سہولت بھی نہیں تھی۔ اس طرح کی کالز کے سد باب کے لیے والدین ایکسچینج میں باقاعدہ درخواست دے کر فون پر آبزرویشن لگواتے تھے تا کہ "بُرے" کے گھر تک پہنچا جا سکے :)
بلاشبہ ایسا ہی تھا۔
میں پنجم یا ششم میں پڑھتا تھا جب ابا جی کی ترقی ہوئی اور ہمارے گھر میں سرکاری ٹیلیفون لگ گیا۔ بس پھر کیا تھا، جب کبھی موقع ملنا ہم نے کوئی نا کوئی نمبر گھما دینا۔ ایک دو بار یہ ابزرویشن والے الاہمے بھی آئے لیکن عموماً تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ کہ جس کا اثر ایک آدھ دن ہی ہوتا تھا، ہم۔۔۔۔۔ پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں، پھر وہی زندگی ہماری ہے۔ :cool2:
 

محمد وارث

لائبریرین
بلاشبہ ایسا ہی تھا۔
میں پنجم یا ششم میں پڑھتا تھا جب ابا جی کی ترقی ہوئی اور ہمارے گھر میں سرکاری ٹیلیفون لگ گیا۔ بس پھر کیا تھا، جب کبھی موقع ملنا ہم نے کوئی نا کوئی نمبر گھما دینا۔ ایک دو بار یہ ابزرویشن والے الاہمے بھی آئے لیکن عموماً تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ کہ جس کا اثر ایک آدھ دن ہی ہوتا تھا، ہم۔۔۔۔۔ پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں، پھر وہی زندگی ہماری ہے۔ :cool2:
ویسے آپس کی بات ہے چوہدری صاحب، میں ایسے موقعوں پر ہمیشہ اکیلے جاتا تھا تا کہ کہانی والا آخری جملہ سننا نہ پڑے :LOL:
 
Top