سب کے مراسلے دیکھے۔۔۔
سب نے اپنی اپنی عقل، مشاہدات اور تجربات کے مطابق لکھا۔۔۔
میرے پاس کوئی عقل نہیں۔۔۔
جب سے قرآن و حدیث سمجھا عقل و دانائی و خرد طاق پر رکھ دی۔۔۔
انسانی زندگی کے ہر مرحلہ پر وحی الٰہی نے جو حل دیا ہے وہ انسانی فطرت کے عین مطابق اور انسانی عقول سے ماوراء ہے۔۔۔
اسی پس منظر کے تناظر میں عشق مجازی کے بارے میں کچھ بیان کردوں۔۔۔
چوں کہ یہ ساری باتیں اللہ اور اس کے محبوب رسول کی بیان فرمودہ ہیں چناں چہ ان ہی کو فائدہ دیں گی جو ان پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔
باقی اپنے اپنے نظریات میں آزاد ہیں۔۔۔
۱) عشق مجازی کو اللہ اور رسول نے سخت ناپسند کیا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
۱) لا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ و سآء سبیلا
زِنا (میں مبتلا ہونا تو دور کی بات) اس (میں ملوث کردینے والے اسباب)کے قریب بھی نہ جاؤ۔۔۔کیوں کہ یہ (زِنا)کھلی بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔۔۔
۲)چوں کہ بدنظری بدفعلی کا پہلا قدم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی مرحلے میں اس کی حوصلہ شکنی فرمادی۔۔۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفضوا فروجھم و قل للمومنات یغضض من ابصارھن و یحفضن فروجھن۔۔۔
اے نبی آپ مومنین سے کہہ دیجیے کہ (غیر عورتوں سے) اپنی نگاہوں کی حفاطت کریں (تاکہ) ان کی شرمگاہیں محفوظ رہیں۔۔۔ اور اے نبی آپ مومنات سے بھی کہہ دیجیے کہ (غیر مردوں سے) اپنی نگاہوں کی حفاطت کریں (تاکہ) ان کی شرمگاہیں محفوظ رہیں۔۔۔
۳) اسی پاکیزگی کے تناظر میں اللہ تعالیٰ مسلم مرد و خواتین کو ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مخاطب ہونے کے آداب خود بتارہے
ہیں:
ا) وإذا سأللتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم
(اللہ تعالیٰ مردوں کو حکم دے رہے ہیں کہ) جب مومن خواتین سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔۔کیوں کہ یہی بات تمہارے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر ہے۔۔۔
ب) فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض
(اور عورتوں کو سکھا رہے ہیں کہ جب غیر مردوں سے گفتگو کرو تو) اپنی (فطری) لوچ دار آواز میں بات نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جن کے دلوں میں مرض ہے وہ تمہاری طمع (یعنی حرص، چاہت، محبت) کرنے لگیں گے۔
عورتوں کی طرف ناجائز میلان رکھنے کو اللہ تعالیٰ دلوں کا مرض بتارہے ہیں۔
۴) اور نبی کریم ارشاد فرماتے ہیں:
اذا تعشق تزوج
(جو اللہ و رسول کی بات نہیں مانتا، چاہے مرد ہو یا عورت، نظر کی حفاظت نہیں کرتا، ادھر ادھر منہ مارتا پھرتا ہے اور عشق مجازی میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ)
جس سے عشق ہوجائے اس سے فوراً نکاح کرلے۔۔۔(تاکہ کسی بے حیائی کے فعل کا ارتکاب نہ ہو)۔۔۔
۵)جب حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے زلیخا پڑی۔۔۔اور سات دروازے بند کرکے ان کو اپنی طرف مائل کیا تو وہ وہاں رُکے نہیں ۔۔۔ پوری رفتار سے اس سے دور بھاگے۔۔۔ اس گناہ میں ملوث ہونے سے قید خانے جانا بہتر سمجھا۔۔اور اپنے اللہ سے یوں فریاد کی۔۔۔
رب السجن احب الی من ما یدعوننی الیہ
اے میرے اللہ یہ عورتیں مجھے جس کام کے لیے اکسا رہی ہیں اس میں ملوث ہونے سے مجھے تیری راہ کے قید خانے محبوب ہیں۔۔۔
یہ ہے اللہ کا عشق۔۔۔ کہ اپنے محبوب کی ناراضگی سے بچنے کے لیے خود کو دنیاوی اذیت میں مبتلا کرنے کو محبوب قرار دے رہے ہیں۔۔
اللہ و رسول کے ارشادات کی رو سے معلوم ہوا کہ ان دونوں کو اپنے بندوں اور امتیوں کی پاک دامنی و پاکیزگی کس قدر مطلوب ہے۔۔۔
عشق حقیقی کا راستہ کوچۂ عشق مجازی سے ہرگز نہیں گزرتا۔۔۔ کہاں وہ پاک ذات کہاں یہ ناپاک گناہ۔۔۔
انبیاء کرام سے زیادہ عشق خدا کا مرتبہ کس کو حاصل ہوگا۔۔لیکن کسی نبی کا دامن اس غلاظت سے کبھی آلودہ نہیں ہوا۔۔۔
عشق عشق کی باتیں کرنے والے کیا اپنی ماں بہن بیٹی کے بارے میں لوگوں کو فخریہ بتاسکتے ہیں کہ آج کل میری بہن یا بیٹی کی فلاں لڑکے سے عاشقی معشوقی چل رہی ہے؟؟؟
یا اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں؟؟
اگر یہ اچھا کام ہوتا تو اسے چھپاتے کیوں؟؟؟
کبھی حج عمرے کے بارے میں بھی چھپایا ہے کہ میری ماں بہن حج عمرہ کرنے گئی ہیں۔۔۔یا اسے ببانگ دہل لوگوں کو خوشی خوشی بتاتے ہیں؟؟؟
عشق مجازی کیسے حاصل ہوتا ہے اور کون کون اسے حاصل کرنے کا اہل ہے۔۔یہ الگ بحث ہے۔۔۔
اگر کسی کو شوق ہوا تو بیان کردوں گا۔۔۔