عشق حقیقی براسطہ عشق مجازی

قیصرانی

لائبریرین
سب کی خدمت میں السلام و علیکم

یہ دھاگہ نظر سے گزرا تو رہ نہ سکا اور تمام تبصرہ جات پڑھ ڈالے ۔۔ بھئی لطف آگیا ہر کسی نے بہت خوبصورت باتیں کیں اور سوائے ایک کے میں سب سے متفق ہوں کیونکہ جس نے جیسا چاہا ویسا پایا عشق و محبت کو ۔۔۔ اس حوالے سے کئی اقوال اور کئی لطائف بھی ہیں ۔۔ کسی کو لگتا ہے کہ عشق دنیا سے کنارہ کشی کا نام ہے تو کوئ دنیا سے عشق کو سہی سمجھتا ہے ۔۔ کوئی کہتا ہے عشق میں وصل ہو نہیں سکتا تو کوئی جسمانی یا جنسی ملاپ کو عشق سمجھ لیتا ہے ۔۔ کوئی عشق میں آنکھ سرخ بال بڑھائے نمائش کرتا ہے تو کوئی دل میں درد کو چھپا کر اس سے لذت حاصل کرتا ہے ۔۔ جس طرح دنیا میں ابھی تک لوگ مختلف چیزوں کو دریافت کر رہے ہیں اسی طرح عشق ایک کثیر المعانی شے بھی ہے اور کبھی ایک نقطے میں سما جاتا ہے ۔۔ عاشق بدنام بھی ہوتا ہے عاشق کا نام بھی ہوجاتا ہے ۔۔ کبھی عاشق محبوب کو بدنام کردیتا ہے ، تو کبھی محبوب کو اوج کمال تک پہنچادیتا ہے ۔۔ زیادہ تر عاشق ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں مگر کچھ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔۔
عشق کا کوئی خاص رنگ نہیں یہ تو سب رنگ ہے بھائی ۔۔۔ اور عشق کا کمال یہ ہے کہ یہ کسی خاص کے لیئے مخصوص نہیں ، سب کے لیئے ہے اچھے کے لئے بھی ہے اور بہت برے کے لئے بھی ہے ۔ کوئی پابندی نہیں ۔
مجھ ایسے بدکار شرابی کبابی کاذب و بدنیتے کو بھی عشق ہوجاتا ہے بھئی ہم بھی عاشق کہلا جاتے ہیں کبھی تو ۔۔۔ کوئی زاہد کسی زہد شکن کا شکار ہوکر عاشق ہوجاتا ہے ۔۔۔ عشق لا محدود ہے لیکن سب عشاق نے اس کا کوئی پیمانہ بنا رکھا ہوتا ہے کہ یہ ہوگیا تو بس عشق کی معراج مل جائے گا ۔۔۔ ارے معراج ایک ہی بار ہوئی تھی جہاں حقیقی عاشق ہو محبوب کی ملاقات ہوئی ۔۔۔

لیکن ایک بات مجازی کے بغیر حقیقی کو سمجھا اور پہنچا نہیں جا سکتا ۔۔ ہمیں پیدا مجاز میں کیا گیا ہے حقیقت کی طرف جانے کو ۔۔
جی، شیشہ پیتی تصویر تو دیکھ چکا ہوں۔ دخانی بھی لکھ دیجئے :)
 

باسل احمد

محفلین
میرا ایک دوست ولی محمد پاکستان ائیر فورس میں سینئیر ٹیکنیشن ہے ، میں جب بھی چھٹی جاتا ہوں ، وہ اور ہمارا ایک مشترکہ اسلام الدین بھائی دوست مجھے برنس روڈ لے جاتے ہیں ، برنس روڈ کو اپ لوگ کراچی کی پہلی فوڈ سٹریٹ سمجھ لیں جہاں اچھے اچھے اور مزے دار روائتی کھانے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔ قریب چار سال پہلے میں چھٹی پر پاکستان گیا ہوا تھا ، ایک دن اُس نے مجھے فون کیا کہ کسی دن برنس روڈ چلتے ہیں ، ہمارے درمیان وقت اور تاریخ طے ہو گئی ، اسلام الدین بھائی باقاعدہ ایک بزرگ سے بعیت ہیں اور خود بھی سر درد پر دم اور یرقان پر فی سبیل اللہ تعویذ دیتے ہیں ، ہم لوگ میرے بھائی کے ساتھ صدر پہنچے وہ ہمیں وہاں اُتار کر خود کسی کام سے چلا گیا ، ولی کو صدر مین کچھ کام تھا وہ نبٹا کر ہم لوگوں نے برنس روڈ جانے کا ارادہ کیا ، ولی کہنے لگا کہ پیدل چلتے ہیں ، بھوک مزید چمکے گی ، ہم لوگ صدر سے برنس روڈ کی طرف پیدل ہی چل پڑے جیسے ہی ہم لوگ برنس روڈ پہنچے اسلام بھائی کی ایک جوتی ٹوٹ گئی ، قریب ہی سڑک کنارے ایک پرانے درخت تلے ایک بزرگ بیٹھے جوتے مرمت کر رہے تھے ، اسلام بھائی نے اُنہیں اپنی جوتی مرمت کرنے کے لیے دی ، ہم تینوں اُن کے پاس ہی فٹ پاتھ پر رکھے بنچ پر بیٹھ گئے ، باتوں باتوں میں عشق زیر بحث آ گیا ، اسلام بھائی نے عشق کی صوفیانہ تعریف بیان کی بات عشق مجازی سے ہوتی عشق حقیقی تک پہنچ گئی ۔ میں عشق حقیقی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سمجھ کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرنے لگا ، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے عشق رسول صلی اللہ کی مثالیں دینے لگا ، جوتی سیتے سیتے بزرگ نے سر اُٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور بولے ۔
بیٹا جی ! عشق رسول نہ کہو ، حب رسول کہو ۔ اور حضرت بلال کو عاشق رسول نہ کہو ، بلکہ محب رسول کہو ۔
مجھ سے پہلے ہی اسلام بھائی نے پوچھا ۔ کیوں بابا جی ۔ محبت کی انتہا عشق ہے اور حضرت بلال کو رسول اللہ سے محبت عشق تک پہنچی ہوئی تھی ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا میری بات کا برا نہ ماننا مگر میرے دو ایک سوالوں کا جواب دو گے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ کیوں نہیں بابا جی آپ پوچھیں ۔
بابا جی نے کہا ۔ بیٹا ! تم اپنی ماں سے کتنی محبت کرتے ہو ۔
اسلام بھائی نے جواب دیا ۔ بہت زیادہ ! بلکہ دپنیا میں سب سے زیادہ ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! کیا تمہاری اپنی ماں سے محبت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ بے شک بابا جی ، مجھے اپنی ماں سے بے انتہا محبت ہے ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! تو کیا تم اپنے ماں کے عاشق ہو ؟
اسلام بھائی تو کیا ہم تینوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا جو لفظ تم اپنی ماں کے لیے استعمال کرنا پسند نہیں کرتے وہ تم کیسے میرے پیارے آقآ صلاۃ السلام کے لیے استعمال کرتے ہو ، عشق کبھی بھی اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ، محبت ہمیشہ اچھے معنی میں استعمال ہوتی ہے ، ایک باپ کو اپنی بیٹی سے بے انتہا محبت ہوتی ہے ، مگر محبت کی اُس انتہا کے لیے بھی ہم لوگ عشق کا لفظ استعمال نہیں کرتے ، بیٹے اپنی ماں اور ماؤں کے اپنے بیٹوں کی محبت لازوال ہے مگر ہم اُسے محبت ہی کہتے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت کی انتہا کے لیے بھی مناسب لفظ " حب رسول " ہی ہے ۔
میرے بھائی! اگر آپ کا یا ان بابا جی کابیان کردہ موقف درست ہے تو آپ اس عربی عبارت کے کیا معنی کریں گے جو کہ ہم اپنے لٹریچر میں بیان کرتے ہیں کہ ’’عشق محمد ربّہ‘‘ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے عاشق ہیں۔ یہ فقرہ کفار کیا مومنین بھی فرمایا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے عشق میں فنا تھے۔اور ہمارے لیے اسوہ حسنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات مبارکہ ہے تو اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہو جاتے ہیں تو یہ عشق رسول ہی کہلائے گا۔
 

طارق راحیل

محفلین

بعض اہل تصوف کے ہاں یہ تصور موجود ہے کہ عشق مجازی، عشق حقیقی کی سیڑھی ہے۔ عشق مجازی سےمراد وہ عشق ہے جو انسان کو کسی اور انسان سے ہو جاتا ہے اور عشق حقیقی سے مراد وہ عشق ہے جو انسان کو اللہ تعالی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر عشق مجازی صنف مخالف سے ہوتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی جنس کے دوافراد کے مابین ایسا عشق ہو جائے۔ اپنے پیرومرشد سے سبھی صوفی عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ صوفی خانقاہوں میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ آتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑی عمر کا کوئی شخص کسی کم عمر خوبصورت لڑکے پر عاشق ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے شیخ کے لیے ایک مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ تربیت میں امرد پرستی (خوبصورت لڑکوں سے عشق) کی مذمت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔


بعض صوفی بزرگوں کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ کسی خاتون یا لڑکے کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے زبردست قسم کی شاعری کر دی۔ بعض صوفی بزرگوں سے عشق مجازی کی تعریف میں اشعار بھی منقول ہیں جیسے مولانا جامی کا شعر ہے:
متاب از عشق رد گرچہ مجازیست۔۔۔۔ کہ آن بہر حقیقت کارساز یست۔
یعنی عشق سے اعراض نہ کرو چاہے مجازی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ عشق حقیقی کے لیے سبب ہے۔ اس کے متعلق سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں:
"ان بزرگوں کا عشق مجازی کی تائید سے صرف اتنا مراد ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کو عشق مجازی ہو جائے تو پھر اس سے کام لینا چاہیے تاکہ اس کو ہی عشق حقیقی کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس مردار [معشوق] کے ساتھ تو بالکل تعلق نہ رکھا جائے بلکہ ہو سکے تو تعلق توڑ دیا جائے اور اس سے جو سوز و گداز پیدا ہو، اس کو عشق حقیقی کے لیے استعمال کیا جائے۔ سب سے بہتر طریقہ تو اس میں یہ ہے کہ اگر شیخ کامل ہو تو اس کی راہنمائی حاصل کی جائے، ورنہ وضو کر کے خوشبو لگا کر خوب دل کے ساتھ 500 سے ایک ہزار تک ذکر نفی اثبات اس طرح کرے کہ لا الہ کے ساتھ سوچے کے میں نے اس مردار کی محبت کو دل سے نکال دیا اور الا اللہ کے ساتھ یہ تصور کرے کہ اپنے دل میں اللہ تعالی کا محبت داخل کیا۔ اس میں ضرب بھی ہو ۔"

ماخذ:سید شبیر احمد کاکا خیل۔ فہم تصوف:ص 224-225
 

الشفاء

لائبریرین
عشق حقیقی۔۔۔:):):)
عشق مجازی۔۔۔:D:D:D

میخانے میں بیٹھے انتظار کرنے والوں کوکوئی پوچھتا نہیں
باہر سے دامن بچا کر گزرنے والوں کو پکڑ کر " ٹُن" کر دیتا ہے۔
بڑا عجیب ہے یہ ساقی۔ عشق کے میخانے کا۔۔۔
 
میرا ایک دوست ولی محمد پاکستان ائیر فورس میں سینئیر ٹیکنیشن ہے ، میں جب بھی چھٹی جاتا ہوں ، وہ اور ہمارا ایک مشترکہ اسلام الدین بھائی دوست مجھے برنس روڈ لے جاتے ہیں ، برنس روڈ کو اپ لوگ کراچی کی پہلی فوڈ سٹریٹ سمجھ لیں جہاں اچھے اچھے اور مزے دار روائتی کھانے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں ۔ قریب چار سال پہلے میں چھٹی پر پاکستان گیا ہوا تھا ، ایک دن اُس نے مجھے فون کیا کہ کسی دن برنس روڈ چلتے ہیں ، ہمارے درمیان وقت اور تاریخ طے ہو گئی ، اسلام الدین بھائی باقاعدہ ایک بزرگ سے بعیت ہیں اور خود بھی سر درد پر دم اور یرقان پر فی سبیل اللہ تعویذ دیتے ہیں ، ہم لوگ میرے بھائی کے ساتھ صدر پہنچے وہ ہمیں وہاں اُتار کر خود کسی کام سے چلا گیا ، ولی کو صدر مین کچھ کام تھا وہ نبٹا کر ہم لوگوں نے برنس روڈ جانے کا ارادہ کیا ، ولی کہنے لگا کہ پیدل چلتے ہیں ، بھوک مزید چمکے گی ، ہم لوگ صدر سے برنس روڈ کی طرف پیدل ہی چل پڑے جیسے ہی ہم لوگ برنس روڈ پہنچے اسلام بھائی کی ایک جوتی ٹوٹ گئی ، قریب ہی سڑک کنارے ایک پرانے درخت تلے ایک بزرگ بیٹھے جوتے مرمت کر رہے تھے ، اسلام بھائی نے اُنہیں اپنی جوتی مرمت کرنے کے لیے دی ، ہم تینوں اُن کے پاس ہی فٹ پاتھ پر رکھے بنچ پر بیٹھ گئے ، باتوں باتوں میں عشق زیر بحث آ گیا ، اسلام بھائی نے عشق کی صوفیانہ تعریف بیان کی بات عشق مجازی سے ہوتی عشق حقیقی تک پہنچ گئی ۔ میں عشق حقیقی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سمجھ کے مطابق اپنا نکتہ نظر بیان کرنے لگا ، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے عشق رسول صلی اللہ کی مثالیں دینے لگا ، جوتی سیتے سیتے بزرگ نے سر اُٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور بولے ۔
بیٹا جی ! عشق رسول نہ کہو ، حب رسول کہو ۔ اور حضرت بلال کو عاشق رسول نہ کہو ، بلکہ محب رسول کہو ۔
مجھ سے پہلے ہی اسلام بھائی نے پوچھا ۔ کیوں بابا جی ۔ محبت کی انتہا عشق ہے اور حضرت بلال کو رسول اللہ سے محبت عشق تک پہنچی ہوئی تھی ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا میری بات کا برا نہ ماننا مگر میرے دو ایک سوالوں کا جواب دو گے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ کیوں نہیں بابا جی آپ پوچھیں ۔
بابا جی نے کہا ۔ بیٹا ! تم اپنی ماں سے کتنی محبت کرتے ہو ۔
اسلام بھائی نے جواب دیا ۔ بہت زیادہ ! بلکہ دپنیا میں سب سے زیادہ ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! کیا تمہاری اپنی ماں سے محبت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔
اسلام بھائی بولے ۔ بے شک بابا جی ، مجھے اپنی ماں سے بے انتہا محبت ہے ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا ! تو کیا تم اپنے ماں کے عاشق ہو ؟
اسلام بھائی تو کیا ہم تینوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔
بابا جی بولے ۔ بیٹا جو لفظ تم اپنی ماں کے لیے استعمال کرنا پسند نہیں کرتے وہ تم کیسے میرے پیارے آقآ صلاۃ السلام کے لیے استعمال کرتے ہو ، عشق کبھی بھی اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ، محبت ہمیشہ اچھے معنی میں استعمال ہوتی ہے ، ایک باپ کو اپنی بیٹی سے بے انتہا محبت ہوتی ہے ، مگر محبت کی اُس انتہا کے لیے بھی ہم لوگ عشق کا لفظ استعمال نہیں کرتے ، بیٹے اپنی ماں اور ماؤں کے اپنے بیٹوں کی محبت لازوال ہے مگر ہم اُسے محبت ہی کہتے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت کی انتہا کے لیے بھی مناسب لفظ " حب رسول " ہی ہے ۔


ایک دفعہ پھر سے ایسے ۔۔۔۔۔ صفت انسان کیلئے انا للہ و انا الیہ راجعون، جو عظیم الفاظ میں بھی غلاظت کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ تف ہے صد بار
 

نور وجدان

لائبریرین
اس لڑی میں کی جانے والی گفتگو کافی سیر حاصل ہے ۔۔۔ اس کو پڑھتے کافی لطف محسوس کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض لوگ لباسِ مجاز میں کیفیتات کو محبت کی اصل سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق ایک روحانی کیفیت ہے جو کبھی کسی بھی وقت مرض میں گرفتار کرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی مثال موسیقی کی سی ہے جب آپ کی روح کسی خاص دھن پر رقص کرنا شروع کردے تو عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔روح ہجرت کی ماری ، پہچان کے لیے بے قرار ہوتی ہے ۔۔۔۔۔بندہ دنیاوی تصرفات کی بدولت روح کو توجہ نہیں دے سکتا تو وجود مادی سے دوری ، جدائی اس کی ہجرت کا اصل پتا بتاتی ہے ۔۔۔۔۔۔عشق کا تعلق اللہ سے ہے جبکہ دنیا میں اکثر اوقات مجازی محبت اللہ سے عشق کی جانب لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر روح اپنے خالق کے فراق میں مبتلا ہے مگر مادی جسم اس کی پہچان نہین کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔کچھ وجود براہ راست خالق سے عشق کی بوٹی لیے پیدا ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو مجاز عشق کی جانب لے جاتے ہیں اور اکثر لوگ عشق کی حقیقت جانے بنا اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔خالص روحیں جل جل مرنا پسند کرتی ہیں اس لیے موم کی مانند گھلی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ جسم خاکی سے ضرورت کا پیمانہ بھرا جاسکتا ہے جبکہ چاہت کو اس سے مربوط نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔ اکثر کہانیاں یا واقعات میں مجازی محبت کو اللہ کی جانب جانے کا زینہ سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔مجاز میں اگر حقیقت دکھ جائے تو حقیقت مجاز اور مجاز حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائنس کا ایک قانون ہے کہ ہر دو اجسام ایک دوسرے سے کشش رکھتے ہیں ہر وجود جو کشش ثقل رکھتا ہے اس کے مطابق دوسرا وجود اس کی جانب کھینچا چلا جائے گا ۔۔۔۔ جس کی کشش جتنی زیادہ ہوگی وہ وجود کو اپنے سے چپکا لے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا میں سب سے زیادہ کشش کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ ہر شے میں اس کا جلوہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگ براہ راست اللہ کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں کہ خالص و شفاف روحیں اللہ کو بنا کسی حجت اور میڈیم کے چاہتی ہیں کچھ ارواح مجاز میں اس کی حقیقت پالیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مجازی عشق اس لحاظ سے حقیقت کی جانب جانے کا زینہ ہے مگر لازمی شرط نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوز و گداز ، ہجر و روگ جیسی کیفیات اس کا مرقع ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اللہ سے ربط جڑ جاتا ہے تو بندوں سے محبت لازم ہوجاتی ہے
 

فرقان احمد

محفلین
گو یہ ناممکن تو نہیں، تاہم، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے عشق میں مبتلا ہو جائے۔ محترمہ نور سعدیہ شیخ نے درست فرمایا ہے کہ مجازی عشق حقیقت کی جانب جانے کا زینہ ہو سکتا ہے مگر لازمی شرط نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو بلا شک و شبہ عشق مجازی کے مقابلے میں عشق حقیقی کو ہی فوقیت حاصل ہے اور حقیقی کا لفظ ہی یہ بات واضح کر دینے کے لیے کافی ہے کہ باقی سب کچھ بہرصورت غیر حقیقی ہے اور غیر حقیقی ہونے کا مطلب بالکل واضح ہے اور اس کی تشریح کی کوئی ضرورت نہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام، اولیائے عظام اور نیک پاک روحیں انسان کو اللہ سے تعلق مضبوط بنانے کا درس دیتی رہی ہیں۔ اب یہ معاملہ بالکل الگ ہے کہ روزمرہ زندگی میں اس خاص حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا تعلق عشق مجازی سے کیسے قائم کیا جائے۔ سیدھی بات تو یہ ہے کہ عام طور پر کشش، چاہت، پیار وغیرہ کو محبت اور کبھی عشق کا نام دے کر ان لفظوں کی بے توقیری کی جاتی ہے۔ محبت بڑا نفیس جذبہ ہے اور ہر کس و ناکس کی مجال نہیں کہ وہ اس کا بار بھی اٹھا سکے؛ بعض اوقات تو محبت کی تاب بھی نہیں لائی جا سکتی کجا کہ عشق کا دعوٰی کر دیا جائے، وہ بھی کسی دوسرے انسان کے ساتھ۔ پھر کہہ دوں، یہ ناممکن نہیں تاہم یہ غیر حقیقی ہو گا اور بالآخر یہ عشق مجازی انسان کو عشق حقیقی کی طرف لے جائے گا، بشرط یہ کہ وہ رہگزر کو منزل تصور نہ کر لے۔ یہاں وہ مقامات شروع ہو جاتے ہیں جن کا بندہء ناچیز کو زیادہ علم نہ ہے اور وہی افراد ان نازک مقامات کو سمجھتے ہیں جو ان مراحل سے گزر چکے ہیں یا اس کا کسی صورت ادراک رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ باری تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ قلبی تعلق بنائے رکھیں اور لفظوں کی حرمت کا پاس لحاظ رکھیں اور خاص طور پر محبت اور عشق کے لفظوں کو کسی صورت بے توقیر نہ ہونے دیں۔
 

مظہر آفتاب

محفلین
گو یہ ناممکن تو نہیں، تاہم، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے عشق میں مبتلا ہو جائے۔ محترمہ نور سعدیہ شیخ نے درست فرمایا ہے کہ مجازی عشق حقیقت کی جانب جانے کا زینہ ہو سکتا ہے مگر لازمی شرط نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو بلا شک و شبہ عشق مجازی کے مقابلے میں عشق حقیقی کو ہی فوقیت حاصل ہے اور حقیقی کا لفظ ہی یہ بات واضح کر دینے کے لیے کافی ہے کہ باقی سب کچھ بہرصورت غیر حقیقی ہے اور غیر حقیقی ہونے کا مطلب بالکل واضح ہے اور اس کی تشریح کی کوئی ضرورت نہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام، اولیائے عظام اور نیک پاک روحیں انسان کو اللہ سے تعلق مضبوط بنانے کا درس دیتی رہی ہیں۔ اب یہ معاملہ بالکل الگ ہے کہ روزمرہ زندگی میں اس خاص حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا تعلق عشق مجازی سے کیسے قائم کیا جائے۔ سیدھی بات تو یہ ہے کہ عام طور پر کشش، چاہت، پیار وغیرہ کو محبت اور کبھی عشق کا نام دے کر ان لفظوں کی بے توقیری کی جاتی ہے۔ محبت بڑا نفیس جذبہ ہے اور ہر کس و ناکس کی مجال نہیں کہ وہ اس کا بار بھی اٹھا سکے؛ بعض اوقات تو محبت کی تاب بھی نہیں لائی جا سکتی کجا کہ عشق کا دعوٰی کر دیا جائے، وہ بھی کسی دوسرے انسان کے ساتھ۔ پھر کہہ دوں، یہ ناممکن نہیں تاہم یہ غیر حقیقی ہو گا اور بالآخر یہ عشق مجازی انسان کو عشق حقیقی کی طرف لے جائے گا، بشرط یہ کہ وہ رہگزر کو منزل تصور نہ کر لے۔ یہاں وہ مقامات شروع ہو جاتے ہیں جن کا بندہء ناچیز کو زیادہ علم نہ ہے اور وہی افراد ان نازک مقامات کو سمجھتے ہیں جو ان مراحل سے گزر چکے ہیں یا اس کا کسی صورت ادراک رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ باری تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ قلبی تعلق بنائے رکھیں اور لفظوں کی حرمت کا پاس لحاظ رکھیں اور خاص طور پر محبت اور عشق کے لفظوں کو کسی صورت بے توقیر نہ ہونے دیں۔
یہ الفاظ توقیرتو تب ہی پائیں گے جب ہم انہیں اپنی زندگی میں صحیح مقام دیں گے؟
 

سید عمران

محفلین
سب کے مراسلے دیکھے۔۔۔
سب نے اپنی اپنی عقل، مشاہدات اور تجربات کے مطابق لکھا۔۔۔
میرے پاس کوئی عقل نہیں۔۔۔
جب سے قرآن و حدیث سمجھا عقل و دانائی و خرد طاق پر رکھ دی۔۔۔
انسانی زندگی کے ہر مرحلہ پر وحی الٰہی نے جو حل دیا ہے وہ انسانی فطرت کے عین مطابق اور انسانی عقول سے ماوراء ہے۔۔۔
اسی پس منظر کے تناظر میں عشق مجازی کے بارے میں کچھ بیان کردوں۔۔۔
چوں کہ یہ ساری باتیں اللہ اور اس کے محبوب رسول کی بیان فرمودہ ہیں چناں چہ ان ہی کو فائدہ دیں گی جو ان پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔
باقی اپنے اپنے نظریات میں آزاد ہیں۔۔۔

۱) عشق مجازی کو اللہ اور رسول نے سخت ناپسند کیا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

۱) لا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ و سآء سبیلا
زِنا (میں مبتلا ہونا تو دور کی بات) اس (میں ملوث کردینے والے اسباب)کے قریب بھی نہ جاؤ۔۔۔کیوں کہ یہ (زِنا)کھلی بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔۔۔

۲)چوں کہ بدنظری بدفعلی کا پہلا قدم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی مرحلے میں اس کی حوصلہ شکنی فرمادی۔۔۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفضوا فروجھم و قل للمومنات یغضض من ابصارھن و یحفضن فروجھن۔۔۔

اے نبی آپ مومنین سے کہہ دیجیے کہ (غیر عورتوں سے) اپنی نگاہوں کی حفاطت کریں (تاکہ) ان کی شرمگاہیں محفوظ رہیں۔۔۔ اور اے نبی آپ مومنات سے بھی کہہ دیجیے کہ (غیر مردوں سے) اپنی نگاہوں کی حفاطت کریں (تاکہ) ان کی شرمگاہیں محفوظ رہیں۔۔۔

۳) اسی پاکیزگی کے تناظر میں اللہ تعالیٰ مسلم مرد و خواتین کو ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مخاطب ہونے کے آداب خود بتارہے
ہیں:

ا) وإذا سأللتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم
(اللہ تعالیٰ مردوں کو حکم دے رہے ہیں کہ) جب مومن خواتین سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔۔کیوں کہ یہی بات تمہارے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر ہے۔۔۔

ب) فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض
(اور عورتوں کو سکھا رہے ہیں کہ جب غیر مردوں سے گفتگو کرو تو) اپنی (فطری) لوچ دار آواز میں بات نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جن کے دلوں میں مرض ہے وہ تمہاری طمع (یعنی حرص، چاہت، محبت) کرنے لگیں گے۔
عورتوں کی طرف ناجائز میلان رکھنے کو اللہ تعالیٰ دلوں کا مرض بتارہے ہیں۔

۴) اور نبی کریم ارشاد فرماتے ہیں:

اذا تعشق تزوج
(جو اللہ و رسول کی بات نہیں مانتا، چاہے مرد ہو یا عورت، نظر کی حفاظت نہیں کرتا، ادھر ادھر منہ مارتا پھرتا ہے اور عشق مجازی میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ)جس سے عشق ہوجائے اس سے فوراً نکاح کرلے۔۔۔(تاکہ کسی بے حیائی کے فعل کا ارتکاب نہ ہو)۔۔۔

۵)جب حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے زلیخا پڑی۔۔۔اور سات دروازے بند کرکے ان کو اپنی طرف مائل کیا تو وہ وہاں رُکے نہیں ۔۔۔ پوری رفتار سے اس سے دور بھاگے۔۔۔ اس گناہ میں ملوث ہونے سے قید خانے جانا بہتر سمجھا۔۔اور اپنے اللہ سے یوں فریاد کی۔۔۔

رب السجن احب الی من ما یدعوننی الیہ
اے میرے اللہ یہ عورتیں مجھے جس کام کے لیے اکسا رہی ہیں اس میں ملوث ہونے سے مجھے تیری راہ کے قید خانے محبوب ہیں۔۔۔

یہ ہے اللہ کا عشق۔۔۔ کہ اپنے محبوب کی ناراضگی سے بچنے کے لیے خود کو دنیاوی اذیت میں مبتلا کرنے کو محبوب قرار دے رہے ہیں۔۔

اللہ و رسول کے ارشادات کی رو سے معلوم ہوا کہ ان دونوں کو اپنے بندوں اور امتیوں کی پاک دامنی و پاکیزگی کس قدر مطلوب ہے۔۔۔
عشق حقیقی کا راستہ کوچۂ عشق مجازی سے ہرگز نہیں گزرتا۔۔۔ کہاں وہ پاک ذات کہاں یہ ناپاک گناہ۔۔۔
انبیاء کرام سے زیادہ عشق خدا کا مرتبہ کس کو حاصل ہوگا۔۔لیکن کسی نبی کا دامن اس غلاظت سے کبھی آلودہ نہیں ہوا۔۔۔
عشق عشق کی باتیں کرنے والے کیا اپنی ماں بہن بیٹی کے بارے میں لوگوں کو فخریہ بتاسکتے ہیں کہ آج کل میری بہن یا بیٹی کی فلاں لڑکے سے عاشقی معشوقی چل رہی ہے؟؟؟
یا اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں؟؟
اگر یہ اچھا کام ہوتا تو اسے چھپاتے کیوں؟؟؟
کبھی حج عمرے کے بارے میں بھی چھپایا ہے کہ میری ماں بہن حج عمرہ کرنے گئی ہیں۔۔۔یا اسے ببانگ دہل لوگوں کو خوشی خوشی بتاتے ہیں؟؟؟
عشق مجازی کیسے حاصل ہوتا ہے اور کون کون اسے حاصل کرنے کا اہل ہے۔۔یہ الگ بحث ہے۔۔۔
اگر کسی کو شوق ہوا تو بیان کردوں گا۔۔۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
سب کے مراسلے دیکھے۔۔۔
سب نے اپنی اپنی عقل، مشاہدات اور تجربات کے مطابق لکھا۔۔۔
میرے پاس کوئی عقل نہیں۔۔۔
جب سے قرآن و حدیث سمجھا عقل و دانائی و خرد طاق پر رکھ دی۔۔۔
انسانی زندگی کے ہر مرحلہ پر وحی الٰہی نے جو حل دیا ہے وہ انسانی فطرت کے عین مطابق اور انسانی عقول سے ماوراء ہے۔۔۔
اسی پس منظر کے تناظر میں عشق مجازی کے بارے میں کچھ بیان کردوں۔۔۔
چوں کہ یہ ساری باتیں اللہ اور اس کے محبوب رسول کی بیان فرمودہ ہیں چناں چہ ان ہی کو فائدہ دیں گی جو ان پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔
باقی اپنے اپنے نظریات میں آزاد ہیں۔۔۔

۱) عشق مجازی کو اللہ اور رسول نے سخت ناپسند کیا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

۱) لا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ و سآء سبیلا
زِنا (میں مبتلا ہونا تو دور کی بات) اس (میں ملوث کردینے والے اسباب)کے قریب بھی نہ جاؤ۔۔۔کیوں کہ یہ (زِنا)کھلی بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔۔۔

۲)چوں کہ بدنظری بدفعلی کا پہلا قدم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی مرحلے میں اس کی حوصلہ شکنی فرمادی۔۔۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفضوا فروجھم و قل للمومنات یغضض من ابصارھن و یحفضن فروجھن۔۔۔

اے نبی آپ مومنین سے کہہ دیجیے کہ (غیر عورتوں سے) اپنی نگاہوں کی حفاطت کریں (تاکہ) ان کی شرمگاہیں محفوظ رہیں۔۔۔ اور اے نبی آپ مومنات سے بھی کہہ دیجیے کہ (غیر مردوں سے) اپنی نگاہوں کی حفاطت کریں (تاکہ) ان کی شرمگاہیں محفوظ رہیں۔۔۔

۳) اسی پاکیزگی کے تناظر میں اللہ تعالیٰ مسلم مرد و خواتین کو ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مخاطب ہونے کے آداب خود بتارہے
ہیں:

ا) وإذا سأللتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم
(اللہ تعالیٰ مردوں کو حکم دے رہے ہیں کہ) جب مومن خواتین سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔۔کیوں کہ یہی بات تمہارے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر ہے۔۔۔

ب) فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض
(اور عورتوں کو سکھا رہے ہیں کہ جب غیر مردوں سے گفتگو کرو تو) اپنی (فطری) لوچ دار آواز میں بات نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جن کے دلوں میں مرض ہے وہ تمہاری طمع (یعنی حرص، چاہت، محبت) کرنے لگیں گے۔
عورتوں کی طرف ناجائز میلان رکھنے کو اللہ تعالیٰ دلوں کا مرض بتارہے ہیں۔

۴) اور نبی کریم ارشاد فرماتے ہیں:

اذا تعشق تزوج
(جو اللہ و رسول کی بات نہیں مانتا، چاہے مرد ہو یا عورت، نظر کی حفاظت نہیں کرتا، ادھر ادھر منہ مارتا پھرتا ہے اور عشق مجازی میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ)جس سے عشق ہوجائے اس سے فوراً نکاح کرلے۔۔۔(تاکہ کسی بے حیائی کے فعل کا ارتکاب نہ ہو)۔۔۔

۵)جب حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے زلیخا پڑی۔۔۔اور سات دروازے بند کرکے ان کو اپنی طرف مائل کیا تو وہ وہاں رُکے نہیں ۔۔۔ پوری رفتار سے اس سے دور بھاگے۔۔۔ اس گناہ میں ملوث ہونے سے قید خانے جانا بہتر سمجھا۔۔اور اپنے اللہ سے یوں فریاد کی۔۔۔

رب السجن احب الی من ما یدعوننی الیہ
اے میرے اللہ یہ عورتیں مجھے جس کام کے لیے اکسا رہی ہیں اس میں ملوث ہونے سے مجھے تیری راہ کے قید خانے محبوب ہیں۔۔۔

یہ ہے اللہ کا عشق۔۔۔ کہ اپنے محبوب کی ناراضگی سے بچنے کے لیے خود کو دنیاوی اذیت میں مبتلا کرنے کو محبوب قرار دے رہے ہیں۔۔

اللہ و رسول کے ارشادات کی رو سے معلوم ہوا کہ ان دونوں کو اپنے بندوں اور امتیوں کی پاک دامنی و پاکیزگی کس قدر مطلوب ہے۔۔۔
عشق حقیقی کا راستہ کوچۂ عشق مجازی سے ہرگز نہیں گزرتا۔۔۔ کہاں وہ پاک ذات کہاں یہ ناپاک گناہ۔۔۔
انبیاء کرام سے زیادہ عشق خدا کا مرتبہ کس کو حاصل ہوگا۔۔لیکن کسی نبی کا دامن اس غلاظت سے کبھی آلودہ نہیں ہوا۔۔۔
عشق عشق کی باتیں کرنے والے کیا اپنی ماں بہن بیٹی کے بارے میں لوگوں کو فخریہ بتاسکتے ہیں کہ آج کل میری بہن یا بیٹی کی فلاں لڑکے سے عاشقی معشوقی چل رہی ہے؟؟؟
یا اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں؟؟
اگر یہ اچھا کام ہوتا تو اسے چھپاتے کیوں؟؟؟
کبھی حج عمرے کے بارے میں بھی چھپایا ہے کہ میری ماں بہن حج عمرہ کرنے گئی ہیں۔۔۔یا اسے ببانگ دہل لوگوں کو خوشی خوشی بتاتے ہیں؟؟؟
عشق مجازی کیسے حاصل ہوتا ہے اور کون کون اسے حاصل کرنے کا اہل ہے۔۔یہ الگ بحث ہے۔۔۔
اگر کسی کو شوق ہوا تو بیان کردوں گا۔۔۔​
عشق اسے نہیں کہتے ! آپ نے عشق کو سمجھا ہی نہیں ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ روشنی ڈالیں۔۔۔

عشق کا تعلق جذبہ ہجر سے ہے
جوں جوں بندہ زندگی کو پرکھتا ہے ، جانچتا ہے وہ جان جاتا ہے اس کی روح اپنے اصل سے دور ہے
خالق نے دنیا بنائی ہے اور مخلوق اسکی بنائی ہوا خیال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چیز کی تخلیق میں خیال کار فرما ہوتا ہے ، روح بھی ایک خیال ہے
سمجھ لیجئے ، روح سے تعلق جذبہ ہجرت عشق ہے
جوں جوں ہجر کی بوٹی کا احساس ملتا جاتا ہے ، بندہ کے دل میں '' عشق ''کا احساس رہ جاتا ہے بندہ خود خالی ہوجاتا ہے
خالق کا احساس دل میں تو ھو ھو کی صدا باقی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔
بندہ خالق سے ملنے کی جستجو میں عشق ، اضطراب ، بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہتے کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔۔
جذبہ عشق خالص ترین اسی شکل میں ہوتا ہے یا سمجھ لیں کہ شفاف روح جس پر صرف ھو کا رنگ ہوتا ہے ، وہی عشق کے قابل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سلمان فارسی کے عشق کی تڑپ دیکھیے ۔۔۔۔۔۔۔فارس کی سرزمین ، مجوسیوں کے خاندان سے حقیقت کی تلاش میں نکلے ، وہ حقیقت اللہ ہے ، عشق نے براہ راست خالق سے ربط رکھا اور بندہ جستجو میں آنحضرت رسالت مآب کے لیے فارس سے عرب کی سرزمیں پر آیا ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابوذر غفاری ۔۔۔۔۔جو اپنے قبیلے کے سردار ، تاجر تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر سچائی کی تلاش میں دولت شان و شوکت چھوڑ ھو ھو کی صدا دیتے رہے ، خانہ کعبہ میں بیٹھے لا الہ الا اللہ کا کلمہ تب پڑھا جب سیدنا فاروق ایمان نہیں لائے تھے ، بدن لہولہان زخمی مگر زبان سے جاری الا اللہ کا کلمہ چھوٹا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔لوگ خون میں لت پت بے ہوش بو ذر غفاری کو چھوڑ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عشق ہے
عشق تو قرن کے بادشاہ کو ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ان کو کیسے خبر ہوگئی احد میں سیدنا رحمت دو عالم شہ ابرار محمد صلی علیہ والہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔خالق سے ربط تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشق ہجر کی ماری روح کا جذبہ ہے ۔۔۔ہجر کے اس جذبے کو بوٹی عشقہ سے مشابہت اسی وجہ دی گئی کہ اس کی وجہ سے سچی شفاف ارواح نے دولت ، شان و شوکت ، بھوک ، پیاس ،،،،،،،،،،،،،سب چھوڑ دیا مگر باقی رہا تو سچا عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب روح پر رنگ چڑھ جائے تو مجاز کی محبت میں انسان اللہ کو تلاش کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ملتا نہیں ہے کیونکہ روح پر رنگ چڑھ جاتا ہے ، عشق کا تعلق خالص اللہ سے ہے اور مجاز بس ایک راستہ ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے دوری ، اضطراب کی بے نام وجہ کو مجاز میں تلاشتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن کو درست معنوں میں عشق ہوا ۔۔۔۔۔۔وہ ہیر ،رانجھا ، سسی پنوں ، سوہنی ماہیوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سچے عاشق جنہوں نے سب کچھ بھلادیا مگر عشق یاد رہا ہے ، ہجرت کا غم یاد رہا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،اور مجاز میں ان کو اللہ مل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باقی ہوس رہ جاتی ہے یا نفس رہ جاتا ہے جس کو عشق یا محبت کا نام دینا زیادتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچا عشق صرف اللہ سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجاز میں ایسی صورت کم ہی دکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت کم روحیں مجاز میں عشق تلاشتی ہیں ایسی ارواح معشوق میں خود کو بھلا دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان جب خود کو بھول جاتا ہے تو اللہ ملتا ہے ۔۔۔عشق یکسر فراموشی کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
عشق کا مادہ اللہ نے انسان کو ودیعت فرمایا ہے۔۔۔
لیکن اس کی حدود بھی متعین فرمادیں۔۔۔
عشق حقیقی والوں کو اللہ ضرور ملتا ہے۔ ۔۔
اللہ اپنے عاشقوں کو کبھی اپنی ذات کے بدلے مجاز نہیں دیتے۔۔۔
سسی پنوں ، ہیر رانجھا آج کل کے ہوں یا پچھلے۔۔۔
انہیں قطعاً عشق حقیقی کی ہوا نہیں لگی۔۔۔
یہ تو خالصتاً دنیاوی عاشقی مشوقی تھی۔۔۔
عشق حقیقی کی ہوا تو حافظ شیرازی کو لگی تھی جو انہیں جنگلوں میں لے گئی۔۔۔
جہاں وہ رات دن اللہ سے فریاد کرتے تھے کہ
اپنے ملنے کا پتا کوئی نشاں
مجھ کو بتلادے اے رب جہاں
ان کے عشق کی بے تابیوں کے صدقے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نجم الدین کبریٰ کو حکم دیا ۔۔۔
اور شیخ خود مرید کے پاس پہنچا۔۔۔
اس کو راہ خدا کی منزلیں طے کروائیں۔۔۔
اور بالآخر واصل باللہ کردیا۔۔۔
 

مظہر آفتاب

محفلین
)جب حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے زلیخا پڑی۔۔۔اور سات دروازے بند کرکے ان کو اپنی طرف مائل کیا تو وہ وہاں رُکے نہیں ۔۔۔ پوری رفتار سے اس سے دور بھاگے۔۔۔ اس گناہ میں ملوث ہونے سے قید خانے جانا بہتر سمجھا۔۔اور اپنے اللہ سے یوں فریاد کی۔۔۔
اسی واقع میں عشق مجازی اور عشق حقیقی واضع ہو جاتے ہیں حضرت زلیخا نے عشق مجازی کا خواب دیکھا اور جب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو اظہار کے جتن کئے حضرت یوسف کو دھمکی دی مگر وہ نہ ڈرے پھر وہ واقع ہوا لیکن عشق سر پر سوار رہا بڑھاپا آگیا مگر عشق کی آگ کم نہ ہوئی اور جب حضرت یوسف نے انہیں معاف کر کے اللہ سےاس کی جوانی مانگی تو
حضرت زلیخانے جوانی پا لینے کے بعدعشق حقیقی کی طرف رخ کر لیا ۔
 

سید عمران

محفلین
اسی واقع میں عشق مجازی اور عشق حقیقی واضع ہو جاتے ہیں حضرت زلیخا نے عشق مجازی کا خواب دیکھا اور جب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو اظہار کے جتن کئے حضرت یوسف کو دھمکی دی مگر وہ نہ ڈرے پھر وہ واقع ہوا لیکن عشق سر پر سوار رہا بڑھاپا آگیا مگر عشق کی آگ کم نہ ہوئی اور جب حضرت یوسف نے انہیں معاف کر کے اللہ سےاس کی جوانی مانگی تو
حضرت زلیخانے جوانی پا لینے کے بعدعشق حقیقی کی طرف رخ کر لیا ۔
جی ہاں! جب زلیخا نے اللہ تعالیٰ سے اپنی جسارت کی معافی مانگی، توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے توبہ کے صدقے انہیں پاک کرکے انعام سے نوازا۔۔
عین حالت گناہ میں کوئی انعام نہیں ملا۔۔۔
 

مظہر آفتاب

محفلین
جی ہاں! جب زلیخا نے اللہ تعالیٰ سے اپنی جسارت کی معافی مانگی، توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے توبہ کے صدقے انہیں پاک کرکے انعام سے نوازا۔۔
عین حالت گناہ میں کوئی انعام نہیں ملا۔۔۔
تو یہ بات ظاہر ہے عشق مجازی کے بنا عشق حقیقی کا مقام نہیں سمجھا جا سکتا ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
ان اولیاء اللہ کی زندگیاں تو پڑھیں ، معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سے مجاز کے عشق میں مبتلا رہیں ۔۔۔مجاز کا عشق بھی زینہ ہے ۔۔۔۔سسی پنوں ، ہیرا رانجھا ایک مثال دی تھی ۔۔۔حضرت امیر خسرو کو حضرت نظام الدین اولیاء سے عشق تھا۔۔۔۔
آج رنگ ہے ۔۔۔۔
چھاپ تلک سب چھین۔۔۔۔۔۔۔
یہ کلام ان کی ہجرت کے درد و اضطراب سے بھرپور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیاوی عشق کوئی نہیں ہوتا ------------------
بس عشق حقیقت سے ہوتا ہے ، آپ یا کوئی اسے محسوس کرسکتا ہے ۔۔۔۔بابا فرید الدین کے پاس ایک غیر مسلم مجازی عشق کے درد میں جلتا ہوا آیا ہے جس کا عشق اس سے روٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔آپ نے اس کی تعظیم کی اور بولے کہ یہ ہم سے اچھا ہے کہ اس کا عشق خالص ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالص جذبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق ایک خالص جذبہ ہے جو کسی کو مجازی رنگ میں ملتا ہے تو کسی کو بے رنگی میں ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔
کوئی رنگوں کی بہار لیے کالا رنگ بن جاتا ہے تو کوئی بے رنگی ذات لیے خالق سے جا ملتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق کالا ہو سفید۔۔۔۔۔۔۔عشق تو عشق ہے ۔۔۔۔عشق میں فرق نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگی ہو یا بے رنگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص ہے تو مجاز ہی حقیقت ہے اور حقیقت میں مجاز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔یہ بس سمجھنے کی بات ہے ۔۔۔۔۔ایسا احساس سمجھ کے ہی ملتا ہے ۔۔۔میں اپنے اضطراب میں گم ہوں۔۔۔۔۔
میری رگ رگ میں یار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں انالحق مارکے سولی چڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہی حقیقت ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہی مجاز ہوں ۔۔۔۔۔میں ہی عاشق ہوں میں ہی معشوق ہوں۔۔۔۔۔۔۔
میں حجاب میں ملوں تو کالا رنگ ہوں
میں بے نقاب شفافی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں تو میں ہوں ۔۔۔۔۔۔میں ہی سب کچھ ہوں
میں جس کے عشق میں مبتلا ہوں ، اس کے خیال نے مجاز کو مجھ سے چھین کے میرا عشق کے خیال کو مجاز کی شکل دے دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ذرے سے آفتاب ہوں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں روشنی کی شعاع نہیں ہوں میں روشنی کا منبع ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہجوم میں ملتا ہوں
میں خلوت ، جلوت کا شہنشاہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں عشق ہوں ۔۔
میں روگ ہوں ، میں عشق قلندر ذات ۔۔۔۔۔۔۔
بدن روئی ہوتے اہمیت کھو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ر
روح طاقت پاتے مجسم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ! وہی ہے چار سو ۔۔۔۔۔۔۔اور تو کچھ ملتا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ میں وہ گاتا ہے جس کو میں ساز ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
میں اسی کا سر ہوں ، جس نے سنگیت دیا میں عشق ہوں ۔۔۔۔
کسی نے رام رام کہتے مجھے پالیا ۔۔۔۔۔۔
کوئی اللہ اللہ کہتے دور رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے پتھر کو خدا جانا اور مجھے پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے دل کو صنم خانہ بنادیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا مجاز ۔۔۔۔کیا حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔جہاں خلوص ،جہاں جذب ہے ، وہاں وہاں اللہ ہے ۔۔۔۔۔وہاں احد کا جلوہ ہے ۔۔۔۔۔
وہاں میں وحدت میں ضم ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں میں اس سے ربط میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
میری جلن ، درد اضطراب آگ بن گئے ہیں ،،،،،،،میرا وجود آگ ہورہا ہے کیوں روح ہجر کے دکھ میں لیر لیر ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجاز کو اتنی شدت سے چاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔میری شدت نے مجھے رب دکھادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجاز نے رب سے ملادیا ۔۔۔۔۔۔۔حق ھو ۔۔۔۔ایک تو ہی ہے ، تیری ذات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھو کی ذات جس جس مظہر میں ہے ، جو جو مظہر اس کو نور لیے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔
اس کی تجلی سے اپنی تجلی ملا لے ۔۔۔۔۔سچا جذب مل جائے گا ۔۔۔۔۔۔تجھے رب مل جائے گا
 
آخری تدوین:
Top