دیکھیں ہم مجاز سے دنیا مراد لیتے ہیں اور حقیقت سے دین۔ دنیاوی عشق جو کہ زیرِ بحث ہے وہ غیر لڑکیوں ہی سے عشق ہے در اصل۔ اور میرا نہیں خیال ہے کسی غیر سے عشق دیکھے بغیر یا تعلق رکھے بغیر ہوسکتا ہے۔ اگر ہم اسلام کی رو سے بات کریں تو یہ سب غیر اخلاقی، غیر اسلامی، بیہودگی اور بے حیائی ہی ہے۔ عشقِ مجازی میں جتنی بھی احتیاط کی جائے شیطان کے وار سے انسان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جو خود کو عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کے سفر کے دوران شیطان کے وار سے محفوظ سمجھتا ہے وہ سراسر غلطی پر ہے کیوں کہ شیطان کے وار سے تو بعض اوقات عالمِ دین بھی نہیں بچ پاتے۔ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ارشاد ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اگر آپ عشقِ حقیقی کی بات کریں تو یہ ساری باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہیں۔
میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں اور آپ کے جذبے کی قدر کرتا ہوں۔
موجودہ معاشرتی حالات کو دیکھتے ہوئے!
میں کسی کو عشق مجازی کو ترغیب نہیں دے رہا۔
عشق ایسی چیز نہیں کہ انسان اپنی مرضی سے کرنا شروع کر دے، یہ خوبخود پیدا ہوتا ہے اور بر وقت شروع میں اس پر قابو نا پایا جائے تو بس سے باہر ہوجا تا ہے۔ !
میرے مندرجہ ذیل مراسلے پر غور فرمائیے،
میرے ذاتی غور و فکر اور کچھ ذاتی تجربے کا حاصل مندرجہ ذیل ہے۔
اگر ہم عربی مقولہ "عشق آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا دیتی ہے (یعنی بھسم کر دیتی ہے) " کو ہی عشق سمجھ لیں تو ہمارے لئے آسان ہو جائے گا یہ سمجھنا کہ عشق مجازی ، عشق حقیقی کا راستہ کیسے بنتا ہے۔
جب کوئی انسان عشق میں مبتلا ہوجائے تو اسکا مقصود صرف معشوق ہوتا ہے۔ اور معشوق کے علاوہ ساری خواہشات اسکے اندر سے آہستہ ختم ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ نا روزگار کی فکر، نا کھانے پینے کا ہوش نا اپنے فرائض کا احساس اور نا اپنے حقوق کا احساس۔ یعنی معشوق کو پانے کی شدید خواہش انسان کو ہر چیز سے بے راغب کر دیتی ہے اور غافل کر دیتی ہے۔
انسان کی صحت بھی گرنے لگتی ہے۔ عاشق سوکھ کر کانٹا ہوجائے ، اس کی رنگت پیلی ہوجائے تو یہ ایک معمول کی بات ہے۔
اب ذرا اس پر غور کیا جائے کہ روحانی ترقی کیسے ہوتی ہے؟
روحانی ترقی کے لئے نفسانی خواہشات کو دبانا اور ترک کرنا پڑتا ہے۔ کھانے کی خواہش کم سے کم کی جائے۔ نا کسی کی غیبت، نا چغلی نا فالتو بات، نا بے حیائی کے کام الغرض ساری نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کی جائے۔
اب ذرا عاشق اور روحانی ترقی کے خواہش مند کا تقابل کریں تو صرف معشوق کا ہی فرق رہ جاتا ہے!
جب ایک عاشق صادق عشق میں کافی عرصے تک مبتلا رہے اور آہستہ آہستہ تمام نفسانی اور دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کر لے تو اسکی روح بہت طاقت ور ہوجائے گی اور قرب الہی کا مزا چکھنے لگے گی۔ اور ایک وقت آئے گا جب عاشق صادق قرب الہی کی لذت معشوق مجازی کے شوق سے بہت زیادہ پانے لگے گا تو معشوق مجازی اسکا مقصود نہیں رہے گا اور عشق حقیقی اسکی منزل پا لے گا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کوئی بھی جذبہ بذات خود گناہ نہیں ہوتا لیکن اس جذبے کے نتیجے انسان کے کرنے والے غلط کام گناہ ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کوکسی خلاف مزاج بات پر غصہ آیا، مگر آپ نے اس غصے کی وجہ سے کسی پر ظلم نہیں کیا تو آپ کو گناہ نہیں، لیکن اگر کسی بے گناہ پر ظلم کرتے ہوئے اسکو پیٹ دیا تو یہ گناہ ہے۔
ایسے ہی کسی کیلئے دل میں محبت یا عشق کا جذبہ پیدا ہوا، آپ نے دل میں دبا کر رکھا تو گناہ نہیں لیکن اسکے نتیجے میں کوئی بے حیائی کا کام کیا تو گناہ ہے۔
البتہ آجکل زیادہ تر محبت کے نام پر بے حیائی اور گناہ زیادہ ہو رہے ہیں ، یہ بات درست اور آپ کا کہنا بجا۔
اللہ آپ کو جزا دے اور خوش رکھے