عشق کا عین

شاہ حسین

محفلین
عشق کا عین میں نے اسُ وقت پڑھا تھا جب یہ سسپنس ڈائجسٹ میں سلسلہ وار شائع ہو رہا تھا سن تو یاد نہیں پر شاید 1993سے 1996 کی بات ہے ۔
اسُ وقت اس کا انتظار کرنا بہت تکلیف دہ عمل ہوتا تھا اور اس کا سحر نئے شمارے کی آمد تک طاری رہا کرتا تھا ۔
 

باباجی

محفلین
عشق کا عین
بہت ہی زبردست اور پیارا ناول
ایک بہت اعلیٰ پائے کی تحریر سادہ اسلوب ، آسان فہم ، انتہائی پُر اثر
علیم الحق حقی صاحب بلا شبہ اس وقت پاکستان کے ادب کا اثاثہ ہیں
میں حیران ہوں ان لوگوں پر جنہیں یہ ناول پسند نہیں آیا
اور جو لوگ اس کی پختگی پر اعتراض کر رہے ہیں ان پر مجھے ہنسی آ رہی ہے
ان لوگوں کو چاہیئے کہ خود پختگی کے لیئے اس ناول کو پھر ایک بار پڑھیں
دورِ حاضر میں ان جیسا اعلیٰ پائے کا ناول نگار اور کوئی نہیں
ان تحریروں میں جو محبت، عزت، نرمی، سچائی اور عشق پایا جاتا ہے
وہ آپ کو کسی اور ناول نگار کی تحریر میں نظر نہیں آئے گا
ان ناولوں میں مجھے "وقت کے فاصلے" "حجِ اکبر" "دادا، چوزی اور موذی" بہت پسند ہیں
آپ حضرات بھی یہ ناول یہ ضرور پڑھیں
 
نام کی درستگی کرلیجئے

درست نام ہے
علیم الحق حقی
معذرت کے ساتھ آپ ’’درستگی‘‘ کی درستی کر لیجیے۔صحیح لفظ "درستی " ہے اور جو لفظ ہ ہوز سے ختم ہو اُس کے آخر میں "گی" آئے گا جیسے شگفتہ سے شگفتگی تشنہ سے تشنگی ، شائستہ سے شائستگی،وابستہ سے وابستگی اور جو لفظ "ت" سے ختم ہوں اُ ن کے آخر میں عمومَا"ی"یا یائے نسبتی آئے گا۔۔جیسے پست سے پستی،درست سے درستی،سُست سے سُستی،چُست سے چُستی
اگر ہماری کوئی بات با عث سوزِ جگر ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔۔
 
میرے خیال میں تو مصنف نےانجام کو زبردستی تصوف کا رنگ دیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہ ایک شاہکار رومانوی ناول ہو سکتا تھا۔
اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو میرے خیال سے آپ کو باقی حصے بھی پڑھنے چاہییں۔ کیونکہ ع ش ق ایک ہی رنگ میں لکے گئے ہیں۔ اور وہ ہے تصوف کا رنگ۔ آپ کو ع ش میں نے پڑھے ہیں۔ ق رہ گیا ہے۔
 
عشق کا عین
بہت ہی زبردست اور پیارا ناول
ایک بہت اعلیٰ پائے کی تحریر سادہ اسلوب ، آسان فہم ، انتہائی پُر اثر
علیم الحق حقی صاحب بلا شبہ اس وقت پاکستان کے ادب کا اثاثہ ہیں
میں حیران ہوں ان لوگوں پر جنہیں یہ ناول پسند نہیں آیا
اور جو لوگ اس کی پختگی پر اعتراض کر رہے ہیں ان پر مجھے ہنسی آ رہی ہے
ان لوگوں کو چاہیئے کہ خود پختگی کے لیئے اس ناول کو پھر ایک بار پڑھیں
دورِ حاضر میں ان جیسا اعلیٰ پائے کا ناول نگار اور کوئی نہیں
ان تحریروں میں جو محبت، عزت، نرمی، سچائی اور عشق پایا جاتا ہے
وہ آپ کو کسی اور ناول نگار کی تحریر میں نظر نہیں آئے گا
ان ناولوں میں مجھے "وقت کے فاصلے" "حجِ اکبر" "دادا، چوزی اور موذی" بہت پسند ہیں
آپ حضرات بھی یہ ناول یہ ضرور پڑھیں
باباجی علیم الحق حقی میرے بھی پسندیدہ رائیٹر ہیں۔آپ کے بتائے ہوئے ناول پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔مجھے ان کا ناول "بیلے کا سیاہ پھول" سب سے زیادہ پسند ہے۔اور تراجم میں "ساتواں پتھر" اور "سائباں"۔ان کا ایک ناول تھا جس میں ایک مصنف ہوتا ہے اور اس کی ایک فین انڈیا سے پاکستان آ جاتی ہے۔اس ناول کا نام آپ کو پتہ ہے؟
 

باباجی

محفلین
باباجی علیم الحق حقی میرے بھی پسندیدہ رائیٹر ہیں۔آپ کے بتائے ہوئے ناول پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔مجھے ان کا ناول "بیلے کا سیاہ پھول" سب سے زیادہ پسند ہے۔اور تراجم میں "ساتواں پتھر" اور "سائباں"۔ان کا ایک ناول تھا جس میں ایک مصنف ہوتا ہے اور اس کی ایک فین انڈیا سے پاکستان آ جاتی ہے۔اس ناول کا نام آپ کو پتہ ہے؟
نہیں محسن بھائی اس ناول کا نام مجھے نہیں پتا
اور میں نے ان کے تمام تو نہیں لیکن کچھ ناول پڑھے ہوئے ہیں
 
نہیں محسن بھائی اس ناول کا نام مجھے نہیں پتا
اور میں نے ان کے تمام تو نہیں لیکن کچھ ناول پڑھے ہوئے ہیں
کوئی بات نہیں بھائی۔دراصل آج میں نے اس ناول کا تذکرہ محفل پر دیکھا تو اس کو ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتا تھا پی ڈی ایف کی صورت میں پر ظاہر ہے کہ نام کے بغیر کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یہ ناول میں نے تیرہ چودہ سال کی عمر میں پڑھا تھا، لہذا جب میں نےسونے سے پہلے یہ ناول ختم کیا تو میں دل گرفتگی کے باعث رات بھر روتا رہا تھا۔ :D
 
اس ناول کو سمجھنے کے لئےعشق کا شین اور عشق کا قاف پڑھنا ضروری ہے
عشق کا شین بہت اثر انگیز ناول ہے
زیادہ نہیں بتاوں گا تجسس ختم ہو جائے گا
احباب سے درخواست ہے اسے ایک دفعہ پڑھ کر دیکھیں
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میں نے کئی برس پہلے یہ ناول پڑھا تھا۔ کچھ باتیں میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ امید ہے کہ طالب علموں کے لیے دلچسپی کا باعث بنیں گی۔ میری رائے سو فیصد معروضی اور تنقیدی ہے۔ غیر متفق ہونے والوں کو اس کا پورا حق ہے۔ "عشق کا عین" پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ایک لمحے کو اردو ناول کے بارے میں ایک مختصر ترین رائے پیش کرنے کی اجازت بھی چاہوں گا۔

یہ تو ہم سب کو معلوم ہی ہے کہ اردو ناول صدی سے اوپر کی عمر پا لینے کے باوجود ابھی شیر خوارگی کے زمانے سے نہیں نکل سکا۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاتا۔ اگر کچھ حضرات بحث کرنا چاہیں تو ایسا کسی نئے دھاگے میں ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کے اردو کے عظیم ترین ناول بھی اس معیار کے نہیں کہ انھیں دنیا کے "بڑے ناولوں" کے مقابلے میں پیش کیا جا سکے۔ مزیدار ناول البتہ بہت لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ابنِ صفی ہی کے ناول۔ جو دلچسپ تو ہیں، مگر تنقیدی ذہن انھیں کبھی "عظیم" تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ ادبی دنیا میں کسی تحریر کا "بیسٹ سیلر" ہونا، اس کے مقام کا تعین نہیں کرتا۔

دوسری طرف راجہ گدھ جیسے ناول بھی ہیں، جنھیں ان کے تخلیق کاروں نے بڑی محنت سے لکھا اور یہ سوچ کر لکھا کہ "بڑا" کام کیا جائے۔ مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بانو قدسیہ کا موازنہ آپ ڈی ایچ لارنس، جیمز جوائس، ٹامس ہارڈی، لیو ٹالسٹائی، ورجینیا وولف وغیرہ (لسٹ بڑی طویل ہے) سے نہیں کر سکتے۔ مایوسی ہی ہوتی ہے۔

چلیں میں اپنے پیمانے کو ایک مختلف انداز میں بیان کرتا ہوں۔ ادبی صنف کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے نکال کر دیکھتے ہیں۔ ذرا موازنہ کیجیے راجہ گدھ، جنت کی تلاش اور عشق کے عین کا، ضربِ کلیم، دیوانِ غالب اور میر کی بہترین غزلوں سے۔ شاعری چھوڑیے، خطوطِ غالب ہی سے ملا لیجیے! مجھے یقین ہے کہ آپ خود ہی مان جائیں گے کہ خواب و خیال تک میں برابری ممکن نہیں۔

اب میں ذکر کرنا چاہوں گا زیرِ بحث ناول کا۔ مجھے اس ناول میں کسی طرح بھی فنکاری کا عنصر دکھائی نہیں دیا۔ ظا ہراً تو یوں لگتا ہے کہ ناول بڑی جلدی میں لکھا گیا ہے۔ اور موصوف ناول نگار نے محض جذباتیت اور تصوف کے ایک عجیب امتزاج سے "دلوں کو گرمانے" کی کوشش کی ہے۔ (نوجوان؟) "دلوں کو گرمانے" میں تو وہ شاید کامیاب ہو گئے ہیں، مگر ادبی محاذ پر کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ قاری کو بہر صورت رُلا دینا ہی ادب کا بڑا کمال نہیں ہوتا۔ میں ادب میں جذباتیت کے خلاف کے خلاف نہیں۔ کوئی بھی نہیں ہو سکتا کہ اگر موضوع انسان ہے تو ظاہر ہے کہ جذبات کا ذکر تو ہو گا۔ مگر آپ ذرا زیرِ بحث ناول میں پیش کردہ جذباتیت کا "سنز اینڈ لورز" اور "پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ" کی جذبات نگاری سے موازنہ کریں۔ ایک طرف سطحیت ہے اور دوسری طرف گہرائی۔ ایک طرف انسانی نفسیات سے لا علمی ہے اور دوسری طرف اس کا گہرا ادراک۔

"عشق کے عین" میں ایک اور بہت بڑی کمزوری اس کی زبان ہے۔ مصنف کو شاید زبان و بیان کی نوک پلک سنوارنے کا خیال تک نہیں آیا۔ کہانی کی زبان بہت عام سی اور کسی بھی قسم کی ادبی بلندی سے عاری ہے۔ آپ چاہیں تو اس ناول میں ایسے جملے ڈھونڈنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جنھیں "معرکتہ الآراء" کہا جا سکے۔ کامیابی نہ ملے گی۔ عظیم ادب میں تو عام زبان، حتیٰ کہ گرائمر کی غلطیوں سے اٹی زبان، بھی کچھ ایسے انداز میں ملتی ہے کہ پڑھنے والے کے دل و دماغ میں اتر جائے۔ یقین نہیں تو "گریٹ ایکسپکٹیشنز" میں دیے گئے "لوہار" کے ڈائلاگ ہی نکال کر دیکھ لیجے کہ کس خوبصورتی سے انھیں ناول میں پرویا گیا ہے۔

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں​
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے​
 
بہت شکریہ کاشف عمران صاحب۔

ناول کے مطالعے میں اپنا دامن تقریباً خالی ہے۔ کچھ ناولوں کے کچھ کچھ حصے جو نصاب میں پڑھ لئے سو پڑھ لئے۔ کتاب خرید کر پڑھنے کی ’’جرأت‘‘ نہیں ہوئی، کہ
’’این نانِ جویں اول، آں ذوقِ کتاب آخر‘‘​

بہت آداب۔
 
اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو میرے خیال سے آپ کو باقی حصے بھی پڑھنے چاہییں۔ کیونکہ ع ش ق ایک ہی رنگ میں لکے گئے ہیں۔ اور وہ ہے تصوف کا رنگ۔ آپ کو ع ش میں نے پڑھے ہیں۔ ق رہ گیا ہے۔
ع اور ق میں پڑھ چکا ہوں ش کے چار حصے پڑھ چکا ہوں پانچواں تلاش کے باوجود نہیں مل رہا
ویسے جو بات ش میں ہے وہ باقی دو ناولوں میں نہیں ہے اور ق حقی صاحب نے نہیں سرفراز احمد راہی نے لکھا ہے
 
اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو میرے خیال سے آپ کو باقی حصے بھی پڑھنے چاہییں۔ کیونکہ ع ش ق ایک ہی رنگ میں لکے گئے ہیں۔ اور وہ ہے تصوف کا رنگ۔ آپ کو ع ش میں نے پڑھے ہیں۔ ق رہ گیا ہے۔
عشق کا "ِ" (زیر) ابھی تک نہیں آیا؟؟؟:confused:
 
Top