عشق کا عین

محمداحمد

لائبریرین
میں نے عشق کا عین پڑھا تھا کسی زمانے میں۔ یہ اس کی اول اشاعت تھی۔ یہ ناول میرے لئے بھی بہت اثر انگیز ثابت ہوا تھا۔ ادب کا تو ہمیں نہیں پتہ لیکن اثر آفرینی تھی، شاید آج پڑھا ہوتا تو اتنا اثر انگیز نہ لگتا۔

کچھ عرصے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں کافی ترمیم و اضافہ کیا گیا تھا۔ کہیں سے کسی مجذوب کا قصہ ڈال دیا گیا اور کہانی کے مرکزی کردار کو اس مجذوب کی پیشن گویوں کے زیرِ اثر کردیا۔ اس طرح ساری کہانی کو فطری ڈگر سے ہٹا کر روحانی بنا دیا گیا۔ مجھے یہ ترمیم و اضافہ بالکل بھی پسند نہ آیا۔

انگریزی ادب پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا سو اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ اس بات کا اندازہ البتہ ضرور ہے کہ انگریزی ادب خود میں بہت وسعت سمیٹے ہوئے ہے اور پڑھنے والوں کو مایوس نہیں کرتا۔
 
میں نے کئی برس پہلے یہ ناول پڑھا تھا۔ کچھ باتیں میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ امید ہے کہ طالب علموں کے لیے دلچسپی کا باعث بنیں گی۔ میری رائے سو فیصد معروضی اور تنقیدی ہے۔ غیر متفق ہونے والوں کو اس کا پورا حق ہے۔ "عشق کا عین" پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ایک لمحے کو اردو ناول کے بارے میں ایک مختصر ترین رائے پیش کرنے کی اجازت بھی چاہوں گا۔

یہ تو ہم سب کو معلوم ہی ہے کہ اردو ناول صدی سے اوپر کی عمر پا لینے کے باوجود ابھی شیر خوارگی کے زمانے سے نہیں نکل سکا۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاتا۔ اگر کچھ حضرات بحث کرنا چاہیں تو ایسا کسی نئے دھاگے میں ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کے اردو کے عظیم ترین ناول بھی اس معیار کے نہیں کہ انھیں دنیا کے "بڑے ناولوں" کے مقابلے میں پیش کیا جا سکے۔ مزیدار ناول البتہ بہت لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ابنِ صفی ہی کے ناول۔ جو دلچسپ تو ہیں، مگر تنقیدی ذہن انھیں کبھی "عظیم" تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ ادبی دنیا میں کسی تحریر کا "بیسٹ سیلر" ہونا، اس کے مقام کا تعین نہیں کرتا۔

دوسری طرف راجہ گدھ جیسے ناول بھی ہیں، جنھیں ان کے تخلیق کاروں نے بڑی محنت سے لکھا اور یہ سوچ کر لکھا کہ "بڑا" کام کیا جائے۔ مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بانو قدسیہ کا موازنہ آپ ڈی ایچ لارنس، جیمز جوائس، ٹامس ہارڈی، لیو ٹالسٹائی، ورجینیا وولف وغیرہ (لسٹ بڑی طویل ہے) سے نہیں کر سکتے۔ مایوسی ہی ہوتی ہے۔

چلیں میں اپنے پیمانے کو ایک مختلف انداز میں بیان کرتا ہوں۔ ادبی صنف کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے نکال کر دیکھتے ہیں۔ ذرا موازنہ کیجیے راجہ گدھ، جنت کی تلاش اور عشق کے عین کا، ضربِ کلیم، دیوانِ غالب اور میر کی بہترین غزلوں سے۔ شاعری چھوڑیے، خطوطِ غالب ہی سے ملا لیجیے! مجھے یقین ہے کہ آپ خود ہی مان جائیں گے کہ خواب و خیال تک میں برابری ممکن نہیں۔

اب میں ذکر کرنا چاہوں گا زیرِ بحث ناول کا۔ مجھے اس ناول میں کسی طرح بھی فنکاری کا عنصر دکھائی نہیں دیا۔ ظا ہراً تو یوں لگتا ہے کہ ناول بڑی جلدی میں لکھا گیا ہے۔ اور موصوف ناول نگار نے محض جذباتیت اور تصوف کے ایک عجیب امتزاج سے "دلوں کو گرمانے" کی کوشش کی ہے۔ (نوجوان؟) "دلوں کو گرمانے" میں تو وہ شاید کامیاب ہو گئے ہیں، مگر ادبی محاذ پر کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ قاری کو بہر صورت رُلا دینا ہی ادب کا بڑا کمال نہیں ہوتا۔ میں ادب میں جذباتیت کے خلاف کے خلاف نہیں۔ کوئی بھی نہیں ہو سکتا کہ اگر موضوع انسان ہے تو ظاہر ہے کہ جذبات کا ذکر تو ہو گا۔ مگر آپ ذرا زیرِ بحث ناول میں پیش کردہ جذباتیت کا "سنز اینڈ لورز" اور "پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ" کی جذبات نگاری سے موازنہ کریں۔ ایک طرف سطحیت ہے اور دوسری طرف گہرائی۔ ایک طرف انسانی نفسیات سے لا علمی ہے اور دوسری طرف اس کا گہرا ادراک۔

"عشق کے عین" میں ایک اور بہت بڑی کمزوری اس کی زبان ہے۔ مصنف کو شاید زبان و بیان کی نوک پلک سنوارنے کا خیال تک نہیں آیا۔ کہانی کی زبان بہت عام سی اور کسی بھی قسم کی ادبی بلندی سے عاری ہے۔ آپ چاہیں تو اس ناول میں ایسے جملے ڈھونڈنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جنھیں "معرکتہ الآراء" کہا جا سکے۔ کامیابی نہ ملے گی۔ عظیم ادب میں تو عام زبان، حتیٰ کہ گرائمر کی غلطیوں سے اٹی زبان، بھی کچھ ایسے انداز میں ملتی ہے کہ پڑھنے والے کے دل و دماغ میں اتر جائے۔ یقین نہیں تو "گریٹ ایکسپکٹیشنز" میں دیے گئے "لوہار" کے ڈائلاگ ہی نکال کر دیکھ لیجے کہ کس خوبصورتی سے انھیں ناول میں پرویا گیا ہے۔

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں​
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے​
کاشف عمران بھائی سب سے پہلے آپ یہ دیکھیں کہ ہم کس ادبی قحط کے دور میں جی رہے ہیں
اور ہم جو کچھ لکھتے یا پڑھتے ہیں اُس کی لئے انسپائریشن کہاں سے حاصل کرتے ہیں
آج کل کتاب اور قاری کا رشتہ ختم ہوتا جا رہا ہے علاوہ ازیں کچھ لوگ فکشن کو سرے سے ہی ادب میں شامل ہی نہیں کرتے
میرے ذہن میں تصوف کے بارے میں بہت تذبذب تھا مگر اس ناول کو پڑھنے سے مجھے کافی حد تک تصوف کو سمجھنے میں مدد ملی
رہ گئی بات مکالمات کی اس بارے میں میں صرف اتنا کہوں گا کی مصنف نے عام آدمی کے ذہنی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہی یہ کتاب لکھی
میری ناقص رائے میں یہ خواص کے لئے نہیں عام آدمی کے لئے لکھی گئی ہے آپ کچھ لمحوں کے لئے عام آدمی کی ذہنی سطح پر آ کر اس کتاب کا مطالع کریں مانتا ہوں کہ عشق کا عین میں پلاٹ کی خامیاں ہیں مگر عشق کا شین پہلے سے بہتر ہے اس سلسلے میں مصنف کی قرآن فہمی کی داد نی دینا ذیادتی ہو گی مختلف تناظر میں مصنف نے جن قرانی آیات کا حوالہ دیا وہ مصنف کے گہرے مطالعے کی دلیل ہے یہاں میں آپ کو یہ بات بتاتا چلوں عشق کا شین پانچ سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی جو مصنف کی اپنے فن سے کمٹمنٹ کا ثبوت ہے
اختلافی باتیں بہت ہو گئیں صرف اتنا کہ کر اجازت چاہوں گا
مطع میں آ پڑی ہے سُخنِ گسترانہ بات
مقصود نہیں اس سے ترکِ محبت مجھے
:)
 
میں نے کئی برس پہلے یہ ناول پڑھا تھا۔ کچھ باتیں میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ امید ہے کہ طالب علموں کے لیے دلچسپی کا باعث بنیں گی۔ میری رائے سو فیصد معروضی اور تنقیدی ہے۔ غیر متفق ہونے والوں کو اس کا پورا حق ہے۔ "عشق کا عین" پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ایک لمحے کو اردو ناول کے بارے میں ایک مختصر ترین رائے پیش کرنے کی اجازت بھی چاہوں گا۔

یہ تو ہم سب کو معلوم ہی ہے کہ اردو ناول صدی سے اوپر کی عمر پا لینے کے باوجود ابھی شیر خوارگی کے زمانے سے نہیں نکل سکا۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاتا۔ اگر کچھ حضرات بحث کرنا چاہیں تو ایسا کسی نئے دھاگے میں ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کے اردو کے عظیم ترین ناول بھی اس معیار کے نہیں کہ انھیں دنیا کے "بڑے ناولوں" کے مقابلے میں پیش کیا جا سکے۔ مزیدار ناول البتہ بہت لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ابنِ صفی ہی کے ناول۔ جو دلچسپ تو ہیں، مگر تنقیدی ذہن انھیں کبھی "عظیم" تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ ادبی دنیا میں کسی تحریر کا "بیسٹ سیلر" ہونا، اس کے مقام کا تعین نہیں کرتا۔

دوسری طرف راجہ گدھ جیسے ناول بھی ہیں، جنھیں ان کے تخلیق کاروں نے بڑی محنت سے لکھا اور یہ سوچ کر لکھا کہ "بڑا" کام کیا جائے۔ مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بانو قدسیہ کا موازنہ آپ ڈی ایچ لارنس، جیمز جوائس، ٹامس ہارڈی، لیو ٹالسٹائی، ورجینیا وولف وغیرہ (لسٹ بڑی طویل ہے) سے نہیں کر سکتے۔ مایوسی ہی ہوتی ہے۔

چلیں میں اپنے پیمانے کو ایک مختلف انداز میں بیان کرتا ہوں۔ ادبی صنف کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے نکال کر دیکھتے ہیں۔ ذرا موازنہ کیجیے راجہ گدھ، جنت کی تلاش اور عشق کے عین کا، ضربِ کلیم، دیوانِ غالب اور میر کی بہترین غزلوں سے۔ شاعری چھوڑیے، خطوطِ غالب ہی سے ملا لیجیے! مجھے یقین ہے کہ آپ خود ہی مان جائیں گے کہ خواب و خیال تک میں برابری ممکن نہیں۔

اب میں ذکر کرنا چاہوں گا زیرِ بحث ناول کا۔ مجھے اس ناول میں کسی طرح بھی فنکاری کا عنصر دکھائی نہیں دیا۔ ظا ہراً تو یوں لگتا ہے کہ ناول بڑی جلدی میں لکھا گیا ہے۔ اور موصوف ناول نگار نے محض جذباتیت اور تصوف کے ایک عجیب امتزاج سے "دلوں کو گرمانے" کی کوشش کی ہے۔ (نوجوان؟) "دلوں کو گرمانے" میں تو وہ شاید کامیاب ہو گئے ہیں، مگر ادبی محاذ پر کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ قاری کو بہر صورت رُلا دینا ہی ادب کا بڑا کمال نہیں ہوتا۔ میں ادب میں جذباتیت کے خلاف کے خلاف نہیں۔ کوئی بھی نہیں ہو سکتا کہ اگر موضوع انسان ہے تو ظاہر ہے کہ جذبات کا ذکر تو ہو گا۔ مگر آپ ذرا زیرِ بحث ناول میں پیش کردہ جذباتیت کا "سنز اینڈ لورز" اور "پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ" کی جذبات نگاری سے موازنہ کریں۔ ایک طرف سطحیت ہے اور دوسری طرف گہرائی۔ ایک طرف انسانی نفسیات سے لا علمی ہے اور دوسری طرف اس کا گہرا ادراک۔

"عشق کے عین" میں ایک اور بہت بڑی کمزوری اس کی زبان ہے۔ مصنف کو شاید زبان و بیان کی نوک پلک سنوارنے کا خیال تک نہیں آیا۔ کہانی کی زبان بہت عام سی اور کسی بھی قسم کی ادبی بلندی سے عاری ہے۔ آپ چاہیں تو اس ناول میں ایسے جملے ڈھونڈنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جنھیں "معرکتہ الآراء" کہا جا سکے۔ کامیابی نہ ملے گی۔ عظیم ادب میں تو عام زبان، حتیٰ کہ گرائمر کی غلطیوں سے اٹی زبان، بھی کچھ ایسے انداز میں ملتی ہے کہ پڑھنے والے کے دل و دماغ میں اتر جائے۔ یقین نہیں تو "گریٹ ایکسپکٹیشنز" میں دیے گئے "لوہار" کے ڈائلاگ ہی نکال کر دیکھ لیجے کہ کس خوبصورتی سے انھیں ناول میں پرویا گیا ہے۔

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں​
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے​

بات تو پتہ کی ہے ۔
سوچنے کا ایک پہلو ضرور دیتی ہے۔
 
میں نے یہ ناول کافی عرصہ قبل سسپنس ڈائجسٹ میں پڑھا تھا چونکہ اس وقت ایک زبردست قسم کے جذباتی و رومانوی تجربے سے گذر رہا تھا، اسلئیے اس ناول نے کچھ زیادہ ہی متاثر کیا۔;) :p ۔۔اچھا ناول ہے لیکن اسکے بعد آنے والے عشق کے شین نے تو بیحد مایوس کیا۔۔:)
 
میں نے یہ ناول کافی عرصہ قبل سسپنس ڈائجسٹ میں پڑھا تھا چانکہ اس وقت ایک زبردست قسم کے جذباتی و رومانوی تجربے سے گذر رہا تھا، اسلئیے اس ناول نے کچھ زیادہ ہی متاثر کیا۔;) :p ۔۔اچھا ناول ہے لیکن اسکے بعد آنے والے عشق کے شین نے تو بیحد مایوس کیا۔۔:)
یہ کتاب آن لائن دستیاب ہے کیا ؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف عمران بھائی سب سے پہلے آپ یہ دیکھیں کہ ہم کس ادبی قحط کے دور میں جی رہے ہیں
اور ہم جو کچھ لکھتے یا پڑھتے ہیں اُس کی لئے انسپائریشن کہاں سے حاصل کرتے ہیں
آج کل کتاب اور قاری کا رشتہ ختم ہوتا جا رہا ہے علاوہ ازیں کچھ لوگ فکشن کو سرے سے ہی ادب میں شامل ہی نہیں کرتے
میرے ذہن میں تصوف کے بارے میں بہت تذبذب تھا مگر اس ناول کو پڑھنے سے مجھے کافی حد تک تصوف کو سمجھنے میں مدد ملی
رہ گئی بات مکالمات کی اس بارے میں میں صرف اتنا کہوں گا کی مصنف نے عام آدمی کے ذہنی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہی یہ کتاب لکھی
میری ناقص رائے میں یہ خواص کے لئے نہیں عام آدمی کے لئے لکھی گئی ہے آپ کچھ لمحوں کے لئے عام آدمی کی ذہنی سطح پر آ کر اس کتاب کا مطالع کریں مانتا ہوں کہ عشق کا عین میں پلاٹ کی خامیاں ہیں مگر عشق کا شین پہلے سے بہتر ہے اس سلسلے میں مصنف کی قرآن فہمی کی داد نی دینا ذیادتی ہو گی مختلف تناظر میں مصنف نے جن قرانی آیات کا حوالہ دیا وہ مصنف کے گہرے مطالعے کی دلیل ہے یہاں میں آپ کو یہ بات بتاتا چلوں عشق کا شین پانچ سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی جو مصنف کی اپنے فن سے کمٹمنٹ کا ثبوت ہے
اختلافی باتیں بہت ہو گئیں صرف اتنا کہ کر اجازت چاہوں گا
مطع میں آ پڑی ہے سُخنِ گسترانہ بات
مقصود نہیں اس سے ترکِ محبت مجھے
:)

ارے، علمی بحث میں ترکِ محبت کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ مجھے تو اپنی رائے سے اختلاف سن کر بڑا اچھا آتا ہے۔ اپنی رائے کے بارے میں دوسروں کا نقطہءِ جان سکنا کچھ کم نعمت تو نہیں!
یہ بھی "انسان فہمی" کا ایک ذریعہ ہے (جو میرا پسندیدہ مضمون ہے)۔ اور پھر آپ نے مجھ سے اختلاف کے باوجود کئی مقامات پر میری باتوں کی تصدیق بھی کی ہے۔

آپ کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ اس کتاب کا لطف اٹھانے کے لیے عام آدمی کی سطح پر آنا ہو گا کیونکہ مصنف نے یہ کتاب عام آدمی کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ بڑی بری بات ہوئی۔ بجائے اس کے کہ قاری کا علمی معیار بلند کیا جائے، مصنف خود ہی نیچے آ گیا! خود سوچیئے، اگر علامہ اقبال بھی یہی کام کرتے، تو ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کی جگہ آج ہمارے پاس کیا ہوتا۔ مگر انھوں نے اس بات کی چنداں پروا نہیں کی کہ عام آدمی کا ذہنی معیار کیا ہے۔ انھوں نے اپنی بات خواص تک پہنچائی، پھر اُن خواص نے ان کی باتوں کو آگے پھیلایا۔ یہ ہی درست عمل تھا۔ حد یہ ہے کہ آخر میں تو علامہ اقبال اردو چھوڑ کر صرف فارسی میں شعر کہنے لگے۔ مقصد اپنا معیار مزید بلند کرنا تھا تاکہ عام آدمی سے اور بھی دور ہو سکیں اور عام آدمی اپنی کم فہمی اور جلد بازی کے باعث جو غلط نتائج اخذ کرتا ہے، اس سے بچا جا سکے۔ سمجھنے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت پڑے گی تو قاری مزید محنت کرے گا۔ یوں بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔

اس تمہید کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ مصنف کی مردہ طرزِ تحریر کی وجہ وہ نہیں جو آپ نے بتائی۔ حقیقت میں مصنف اس سے بہتر لکھنے پر قادر ہی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کہیں اور، کسی اور مقام پر اس کے بہتر طرزِ تحریر کا نمونہ بھی میسر آ گیا ہوتا۔ یہ ناول شاید پہلے پہل کسی ڈائجسٹ میں چھپا تھا۔ اور یقینا ڈائجسٹ کے حساب سے ٹھیک ٹھاک ہے۔

جہاں تک آپ نے مصنف کی قرآن فہمی اور گہرے مطالعے کا ذکر کیا ہے، تو وہ ایک غیر متعلق بات ہے۔ پاکستان کے اسکولوں کالجوں میں ایسے ہزاروں اساتذہ ہوں گے جن کا مطالعہ 21 برس کے کیٹس سے دس گنا زیادہ ہو گا۔ مگر وہ سب مل کر بھی "Ode on a Grecian Urn" نہیں لکھ سکتے۔ اچھا لکھنے کی صلاحیت کا تعلق مطالعہ سے زیادہ مصنف کی "افتادِ طبع" اور فطری صلاحیتوں پر ہوتاہے۔ عظیم ادب لکھنا عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، کہ محض محنت کے بل پر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

مقصد اگر تصوف کا علم ہی ہے، تو ایک درمیانے درجے کا ناول (یہ بھی اردو کے حساب سے) ہی کیوں پڑھا جائے؟ کیوں نہ صوفیوں کے امام حضرت داتا گنج بخش کی "کشف المحجوب" پڑھ لی جائے، کہ اسم با مسمیٰ بھی ہے اور مستند بھی۔ ویسے میں نے خود کو کتاب کے اسلوب تک ہی محدود رکھا ہے۔ بات فلسفے اور مندرجات تک چلی گئی تو خواہ مخواہ لمبی ہو جائے گی۔ مزید براں، اس درجے کے ناول پر اس سے زیادہ تبصرہ تو خود سے زیادتی ہو گی۔ طلباء کے لیے جتنا لکھ چکا، کافی سے زیادہ ہے۔ آپ سے بات چیت البتہ خوب رہی!

آخری بات چھ سال میں کتاب مکمل کرنے والی۔ تو اس ضمن میں ایک بڑے آدمی کا قول یاد آ رہا ہے (شاید کہیں مشتاق یوسفی بھی اس کا ذکر کر گئے ہیں): "ایک بری کتاب لکھنے کے لیے بھی اچھی کتاب لکھنے جتنی محنت کرنی پڑتی ہے"۔ خراب لکھاری سو سال بھی لگا لے، تو ماسٹر پیس تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس کے بر عکس، ایک جینیئس (ایس ٹی کولریج) افیم کے نشے میں دھت ہو کر سونے کے بعد خواب میں بھی "Kubla Khan" جیسا شہکار لکھ ڈالتا ہے۔
 
ارے، علمی بحث میں ترکِ محبت کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ مجھے تو اپنی رائے سے اختلاف سن کر بڑا اچھا آتا ہے۔ اپنی رائے کے بارے میں دوسروں کا نقطہءِ جان سکنا کچھ کم نعمت تو نہیں!
یہ بھی "انسان فہمی" کا ایک ذریعہ ہے (جو میرا پسندیدہ مضمون ہے)۔ اور پھر آپ نے مجھ سے اختلاف کے باوجود کئی مقامات پر میری باتوں کی تصدیق بھی کی ہے۔

آپ کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ اس کتاب کا لطف اٹھانے کے لیے عام آدمی کی سطح پر آنا ہو گا کیونکہ مصنف نے یہ کتاب عام آدمی کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ بڑی بری بات ہوئی۔ بجائے اس کے کہ قاری کا علمی معیار بلند کیا جائے، مصنف خود ہی نیچے آ گیا! خود سوچیئے، اگر علامہ اقبال بھی یہی کام کرتے، تو ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کی جگہ آج ہمارے پاس کیا ہوتا۔ مگر انھوں نے اس بات کی چنداں پروا نہیں کی کہ عام آدمی کا ذہنی معیار کیا ہے۔ انھوں نے اپنی بات خواص تک پہنچائی، پھر اُن خواص نے ان کی باتوں کو آگے پھیلایا۔ یہ ہی درست عمل تھا۔ حد یہ ہے کہ آخر میں تو علامہ اقبال اردو چھوڑ کر صرف فارسی میں شعر کہنے لگے۔ مقصد اپنا معیار مزید بلند کرنا تھا تاکہ عام آدمی سے اور بھی دور ہو سکیں اور عام آدمی اپنی کم فہمی اور جلد بازی کے باعث جو غلط نتائج اخذ کرتا ہے، اس سے بچا جا سکے۔ سمجھنے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت پڑے گی تو قاری مزید محنت کرے گا۔ یوں بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔

اس تمہید کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ مصنف کی مردہ طرزِ تحریر کی وجہ وہ نہیں جو آپ نے بتائی۔ حقیقت میں مصنف اس سے بہتر لکھنے پر قادر ہی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کہیں اور، کسی اور مقام پر اس کے بہتر طرزِ تحریر کا نمونہ بھی میسر آ گیا ہوتا۔ یہ ناول شاید پہلے پہل کسی ڈائجسٹ میں چھپا تھا۔ اور یقینا ڈائجسٹ کے حساب سے ٹھیک ٹھاک ہے۔

جہاں تک آپ نے مصنف کی قرآن فہمی اور گہرے مطالعے کا ذکر کیا ہے، تو وہ ایک غیر متعلق بات ہے۔ پاکستان کے اسکولوں کالجوں میں ایسے ہزاروں اساتذہ ہوں گے جن کا مطالعہ 21 برس کے کیٹس سے دس گنا زیادہ ہو گا۔ مگر وہ سب مل کر بھی "Ode on a Grecian Urn" نہیں لکھ سکتے۔ اچھا لکھنے کی صلاحیت کا تعلق مطالعہ سے زیادہ مصنف کی "افتادِ طبع" اور فطری صلاحیتوں پر ہوتاہے۔ عظیم ادب لکھنا عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں، کہ محض محنت کے بل پر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

مقصد اگر تصوف کا علم ہی ہے، تو ایک درمیانے درجے کا ناول (یہ بھی اردو کے حساب سے) ہی کیوں پڑھا جائے؟ کیوں نہ صوفیوں کے امام حضرت داتا گنج بخش کی "کشف المحجوب" پڑھ لی جائے، کہ اسم با مسمیٰ بھی ہے اور مستند بھی۔ ویسے میں نے خود کو کتاب کے اسلوب تک ہی محدود رکھا ہے۔ بات فلسفے اور مندرجات تک چلی گئی تو خواہ مخواہ لمبی ہو جائے گی۔ مزید براں، اس درجے کے ناول پر اس سے زیادہ تبصرہ تو خود سے زیادتی ہو گی۔ طلباء کے لیے جتنا لکھ چکا، کافی سے زیادہ ہے۔ آپ سے بات چیت البتہ خوب رہی!

آخری بات چھ سال میں کتاب مکمل کرنے والی۔ تو اس ضمن میں ایک بڑے آدمی کا قول یاد آ رہا ہے (شاید کہیں مشتاق یوسفی بھی اس کا ذکر کر گئے ہیں): "ایک بری کتاب لکھنے کے لیے بھی اچھی کتاب لکھنے جتنی محنت کرنی پڑتی ہے"۔ خراب لکھاری سو سال بھی لگا لے، تو ماسٹر پیس تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس کے بر عکس، ایک جینیئس (ایس ٹی کولریج) افیم کے نشے میں دھت ہو کر سونے کے بعد خواب میں بھی "Kubla Khan" جیسا شہکار لکھ ڈالتا ہے۔
واہ جناب
آپ نے تو ڈرا ہی دیا کہ مزید بحث جاری رہی تو یہ دھاگہ بحرِ طویل کی غزل نہ بن جائے :)
ہر انسان کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اورعلمی بحث شعور اور ادراک کے دریچے کھولتی ہے
آپ کے کچھ خیالات سے اتفاق ہے
مگر بقول آپ کے
"اس درجے کے ناول پر اس سے زیادہ تبصرہ تو خود سے زیادتی ہو گی۔"
اس بحث کو ختم کرتا ہوں
چلو جی ہن مٹی پاؤ
ویسے بھی وقت کی کمی اس قسم کے مباحثوں میں شریک نہیں ہونے دیتی
دفتری معمولات بھی جاری ہیں اور ساتھ ساتھ محفل میں بھی حصہ ڈال رہا ہوں
رکھئیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
واہ جناب
آپ نے تو ڈرا ہی دیا کہ مزید بحث جاری رہی تو یہ دھاگہ بحرِ طویل کی غزل نہ بن جائے :)
ہر انسان کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اورعلمی بحث شعور اور ادراک کے دریچے کھولتی ہے
آپ کے کچھ خیالات سے اتفاق ہے
مگر بقول آپ کے
"اس درجے کے ناول پر اس سے زیادہ تبصرہ تو خود سے زیادتی ہو گی۔"
اس بحث کو ختم کرتا ہوں
چلو جی ہن مٹی پاؤ
ویسے بھی وقت کی کمی اس قسم کے مباحثوں میں شریک نہیں ہونے دیتی
دفتری معمولات بھی جاری ہیں اور ساتھ ساتھ محفل میں بھی حصہ ڈال رہا ہوں
رکھئیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف

یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے کہیں اتفاق بھی کیا ہے! شاعرانہ تعلی کی بات اور ہے۔ مگر اصل سچ یہی ہے کہ میں اپنا شمار طالبِ علموں میں کرتا ہوں، اور اپنی رائے کے سراسر غلط ثابت ہو جانے کو بعید از قیاس نہیں سمجھتا۔ وہ جو ذکر آپ نے تلخ نوائی کا کیا، تو آپ تو میٹھی باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ میں البتہ شاید کچھ منہ پھٹ واقع ہوا ہوں۔ تو یہ گستاخی تو شاید مجھی سے ہوئی ہو۔ اسی لیے معذرت تو میری جانب سے۔

اپنی ہی ایک رباعی پیش خدمت ہے:
کب واقفِ اسرار ہوا میرا دل​
ہرگز نہ کھلے مجھ پہ رموزِ مشکل​
ہر ناقصِ کم فہم کہے مجھ کو امام​
میں اپنے کمال میں ہوں ایسا کاملؔ​
اور پھر یہ شعر بھی ہے (اسے آپ پہلے پڑھ چکے ہیں) :​
عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​
گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​
 
یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے کہیں اتفاق بھی کیا ہے! شاعرانہ تعلی کی بات اور ہے۔ مگر اصل سچ یہی ہے کہ میں اپنا شمار طالبِ علموں میں کرتا ہوں، اور اپنی رائے کے سراسر غلط ثابت ہو جانے کو بعید از قیاس نہیں سمجھتا۔ وہ جو ذکر آپ نے تلخ نوائی کا کیا، تو آپ تو میٹھی باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ میں البتہ شاید کچھ منہ پھٹ واقع ہوا ہوں۔ تو یہ گستاخی تو شاید مجھی سے ہوئی ہو۔ اسی لیے معذرت تو میری جانب سے۔

اپنی ہی ایک رباعی پیش خدمت ہے:
کب واقفِ اسرار ہوا میرا دل​
ہرگز نہ کھلے مجھ پہ رموزِ مشکل​
ہر ناقصِ کم فہم کہے مجھ کو امام​
میں اپنے کمال میں ہوں ایسا کاملؔ​
اور پھر یہ شعر بھی ہے (اسے آپ پہلے پڑھ چکے ہیں) :​
عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​
گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​
کیا ہی کہنے جناب
الفاظ کو لڑی میں پرونا کوئی آپ سے سیکھے
رباعی نے تو غضب ڈھا دیا آج سیمابیِ رفتار کا یہ عالم ہے تو آگے چل کر کیا غضب ڈھائیں گے :)
 
کب واقفِ اسرار ہوا میرا دل​
ہرگز نہ کھلے مجھ پہ رموزِ مشکل​
ہر ناقصِ کم فہم کہے مجھ کو امام​
میں اپنے کمال میں ہوں ایسا کاملؔ​
اس زمیں میں غالب کی ایک رباعی پڑھ چکا ہوں پوری یاد نہیں آ رہی​
آخری شعر کچھ یوں ہے​
آسان کی کرتے ہیں فرمائش​
گویم مشکل و نہ گوئم مشکل​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کیا ہی کہنے جناب
الفاظ کو لڑی میں پرونا کوئی آپ سے سیکھے
رباعی نے تو غضب ڈھا دیا آج سیمابیِ رفتار کا یہ عالم ہے تو آگے چل کر کیا غضب ڈھائیں گے :)
نوازش ہے جناب کی۔مگر شاید آپ نے میرے پرانے پیغامات نہیں پڑھے۔ یہ تقریبا تمام شاعری کالج یونیورسٹی کے دور کی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں شاعری سے تائب ہوا اور دوسرے کاموں میں دل لگانے لگا۔ ورنہ اب تک شاید کتابیں ہو گئی ہوتیں۔ اب دنیائے شعر و سخن میں قریبا دس برس بعد پھر قدم رکھا ہے۔ نئے شعر تو ابھی تک دو تین ہی کہے ہیں۔ یہ سب "بچپن" کا کام ہی سمجھیے۔ اب لکھا تو امید ہے، سچ مچ کا فلسفہ ہو گا، کہ گئے برسوں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔
 
نوازش ہے جناب کی۔مگر شاید آپ نے میرے پرانے پیغامات نہیں پڑھے۔ یہ تقریبا تمام شاعری کالج یونیورسٹی کے دور کی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں شاعری سے تائب ہوا اور دوسرے کاموں میں دل لگانے لگا۔ ورنہ اب تک شاید کتابیں ہو گئی ہوتیں۔ اب دنیائے شعر و سخن میں قریبا دس برس بعد پھر قدم رکھا ہے۔ نئے شعر تو ابھی تک دو تین ہی کہے ہیں۔ یہ سب "بچپن" کا کام ہی سمجھیے۔ اب لکھا تو امید ہے، سچ مچ کا فلسفہ ہو گا، کہ گئے برسوں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔
بمثل راون ابھی پتہ نہیں آپ نے کون کون سی لنکائیں ڈھانی ہیں :)
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کب واقفِ اسرار ہوا میرا دل​
ہرگز نہ کھلے مجھ پہ رموزِ مشکل​
ہر ناقصِ کم فہم کہے مجھ کو امام​
میں اپنے کمال میں ہوں ایسا کاملؔ​
اس زمیں میں غالب کی ایک رباعی پڑھ چکا ہوں پوری یاد نہیں آ رہی​
آخری شعر کچھ یوں ہے​
آسان کی کرتے ہیں فرمائش​
گویم مشکل و نہ گوئم مشکل​
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل​
سن سن کر اسے سخنورانِ کامل​
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش​
گویم مشکل وگر نہ گوئم مشکل​
کالج کے دور میں پورا دیوانِ غالب، اور ہزاروں دیگر شعر یاد تھے۔ یہی کچھ کرتا رہا۔ اور آخر میں بری طرح فیل ہوا۔ میری زندگی ایک عجیب داستان رہی ہے۔ ناکامیوں اور قلابازیوں کا ایک شہکار! "خلاصہءِ تمثیل زندگانی" بیان کر چکا ہوں (یہ ترکیب ایک ساتھی کے کومنٹ کے بعد گڑھی!)۔ ضرور پڑھیے۔ اسے میں نے خوب دل لگا کر لکھا ہے۔ نثر میں اسے میرا پہلا کام ہی سمجھیے۔​
 
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل​
سن سن کر اسے سخنورانِ کامل​
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش​
گویم مشکل وگر نہ گوئم مشکل​
کالج کے دور میں پورا دیوانِ غالب، اور ہزاروں دیگر شعر یاد تھے۔ یہی کچھ کرتا رہا۔ اور آخر میں بری طرح فیل ہوا۔ میری زندگی ایک عجیب داستان رہی ہے۔ ناکامیوں اور قلابازیوں کا ایک شہکار! "خلاصہءِ تمثیل زندگانی" بیان کر چکا ہوں (یہ ترکیب ایک ساتھی کے کومنٹ کے بعد گڑھی!)۔ ضرور پڑھیے۔ اسے میں نے خوب دل لگا کر لکھا ہے۔ نثر میں اسے میرا پہلا کام ہی سمجھیے۔​
ہاہاہاہاہاہاہا
میری کہانی آپ سے بہت ملتی ہے
کچھ دین تاک تفصیلی تعارف پوسٹ کر رہا ہوں
 

asakpke

محفلین
میں نے عشق کا عین پڑھا تھا کسی زمانے میں۔ یہ اس کی اول اشاعت تھی۔ یہ ناول میرے لئے بھی بہت اثر انگیز ثابت ہوا تھا۔ ادب کا تو ہمیں نہیں پتہ لیکن اثر آفرینی تھی، شاید آج پڑھا ہوتا تو اتنا اثر انگیز نہ لگتا۔

کچھ عرصے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں کافی ترمیم و اضافہ کیا گیا تھا۔ کہیں سے کسی مجذوب کا قصہ ڈال دیا گیا اور کہانی کے مرکزی کردار کو اس مجذوب کی پیشن گویوں کے زیرِ اثر کردیا۔ اس طرح ساری کہانی کو فطری ڈگر سے ہٹا کر روحانی بنا دیا گیا۔ مجھے یہ ترمیم و اضافہ بالکل بھی پسند نہ آیا۔

انگریزی ادب پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا سو اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ اس بات کا اندازہ البتہ ضرور ہے کہ انگریزی ادب خود میں بہت وسعت سمیٹے ہوئے ہے اور پڑھنے والوں کو مایوس نہیں کرتا۔

آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ناول کے نئے ایڈیشن میں جو ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے اس نے اصل ناول کا مزا خراب کیا ہے۔

اس ناول پر کوئی ڈرامہ بھی بنا ہے شائد؟ تلاش کے باوجود کوئی تفصیل نہیں ملی۔ نئے ایڈیشن میں حقی صاحب نے ڈرامہ بننے کا بھی زکر کیا ہے۔

کسی کو تفصیل معلوم ہے تو ضرور بتائیں!
 

شزہ مغل

محفلین
عشق کا عین اس ناول کے بارے میں کیا کھوں کچھ چیزیں ایسی ھوتی ھیں جن کے بارے میں ھم کچھ بیان نھیں کر سکتے یا ان کے بارے میں کھنے کے لئے ھمارے پاس الفاظ نھیں ھوتے میں نے بہت سے ناول پڑھے بہت اچھے بھی لگے جن میں بانو قدسیہ کے ناول بھی شامل ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔واصف علی واصف کے بھی شامل ھیں اور ایسے بہت سے بے شمار مصنف ھیں‌ لیکن اس وقت جس مصنف کا ذکر کر رھا ھوں وھ بھی ان لوگوں سے پیچھے نھیں ھے اگر اس کو ایسے مصنفوں‌کی لسٹ میں شامل نہ کروں تو بہت زیادتی ھو گی میں جس آدمی ذکر کر رھا ھوں اس کا نام (علیم الھقی) ھے اور کتاب کا نام عشق کا عین ھے اس ایک آدمی کے عشق کی انتھا دکھائ ھے عشق پے ناول بہت سے لکھے گئے لیکن ایسا ناول میں نے پھلی بار پڑھا ھے امید ھے آپ کو بھی یہ پسند آئے گا
----------:):)
السلام علیکم!
میں اپنی ناقص رائے ناول پڑھنے کے بعد پیش کروں گی انشاء اللہ
 
Top