عطاءالحق قاسمی کی ایم ڈی پی ٹی وی تقرری غیر قانونی قرار

زیرک

محفلین
عطاءالحق قاسمی کی ایم ڈی پی ٹی وی تقرری غیر قانونی قرار
سپریم کورٹ آف پاکستان نے عطاءالحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تقرری غیر قانونی قرار دے دی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں عطاءالحق قاسمی کو دی جانے والی تنخواہوں اورمراعات کو بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے انہیں واپس لینے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ فیصلے کے مطابق عطاءالحق قاسمی کے بطور ایم ڈی پی ٹی وی تمام فیصلے بھی غیر قانونی متصور ہوں گے۔ عطاءالحق قاسمی کی تنخواہوں اور مراعات پر 19 کروڑ 78 لاکھ سے زیادہ کے اخراجات ہوئے، عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ یہ رقم پرویزرشید، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد سے وصول کی جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کل ادا شدہ تنخواہوں اور مراعات 19 کروڑ 78 لاکھ روپے کا آدھا حصہ عطاءالحق قاسمی ادا کریں گے، ٪20 رقم (4 کروڑ) پرویز رشید سے اور ٪20 رقم (4کروڑ) اسحاق ڈار سے جبکہ ٪10رقم (2کروڑ) فواد حسن فواد ادا کریں گے، علاوہ ازیں عطاء الحق قاسمی کو تا حیات سرکاری عہدے کے لیے نا اہل شریف بھی قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت مستقل بنیادوں پر قانونی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایم ڈی پی ٹی وی کی تعیناتی کرے جس کا تعلق اسی شعبے سے متعلق ہو۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
عطاءالحق قاسمی کی تنخواہوں اور مراعات پر 19 کروڑ 78 لاکھ سے زیادہ کے اخراجات ہوئے، عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ یہ رقم پرویزرشید، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد سے وصول کی جائے۔
کمال ہے۔ گناہ کسی نے کیا، بھرے کوئی اور۔
 

فرقان احمد

محفلین
فیصلے کے مطابق عطاء الحق قاسمی صاحب پر کرپشن کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو ان کے لیے یہ فیصلہ ایک حد تک باعث اطمینان ہو گا۔ تاہم، جن افراد نے انہیں 'بھرتی'کروایا، اُن سے پیسے کون نکلوائے گا؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے ایک اور اپیل عدالت میں داخل کی جائے گی۔ ممکن ہے کہ یہ پیسے بھی 'بڑے میاں صاحب'کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
فیصلے کے مطابق عطاء الحق قاسمی صاحب پر کرپشن کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔
غیر قانونی بھرتیاں، ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال وغیرہ کرپشن کے زمرہ میں ہی آتا ہے۔
نیزنجی چینلز کی بھرمار کے بعد پی ٹی وی پر سالانہ اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ کرنا ویسے ہی حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ اور ویسے بھی پی ٹی وی 80، 90کی دہائی والے شاہکارپروگرامز، ڈراما سیریز اب بنا پا رہا ہے۔ نہ اپنی تکنیکی کوالٹی دیگر نجی چینلز کے مقابلہ میں بہتر کر پایا ہے۔ آج بھی پی ٹی وی کی نشریات 80 کی دہائی والے تھکے حال کیمروں سے براڈکاسٹ کی جاتی ہیں۔ ایسے ڈائنوسار ادارے کی اگر دور جدید کے بہترین کوالٹی والے چینلز (92 نیوز ایچ ڈی، 24 نیوز ایچ ڈی) وغیرہ کی طرح اصلاحات نہیں ہوتی۔ تو اسے پہلی فرصت میں بند کر دینا چاہئے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطاء الحق قاسمی از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنادیا،جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کاتحریری کردہ تحریری فیصلہ سناتے ہوئے عطا الحق قاسمی کے بطور ایم ڈی اور ڈائریکٹر پی ٹی وی تقرر کوغیرقانونی قرار دےدیا، 48 صفحات پرمشتمل تحریری فیصلے میں عدالت نےحکم دیا کہ عطا الحق قاسمی نے بطور ایم ڈی جو احکامات دیئے وہ غیرقانونی ہیں،عطا الحق قاسمی نے جتنی تنخواہ اور مالی فوائد لیے وہ بھی غیر قانونی ہیں.
عدالت نے حکم دیا کہ عطا الحق قاسمی نے 19 کروڑ 78 لاکھ روپے وصول کیےیہ واپس لیے جائیں،آدھے پیسے عطا الحق قاسمی سے اور باقی آدھے پرویزرشید،اسحاق ڈار اورفوادحسن فواد سےلیے جائیں، عدالت کا کہنا تھا کہ ایم ڈی پی ٹی وی کے عہدے پرمستقل تعیناتی کی جائے،سابق وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے پروکلاء سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل طے کروں گا۔
 

زیرک

محفلین
فیصلے کے مطابق عطاء الحق قاسمی صاحب پر کرپشن کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو ان کے لیے یہ فیصلہ ایک حد تک باعث اطمینان ہو گا۔ تاہم، جن افراد نے انہیں 'بھرتی'کروایا، اُن سے پیسے کون نکلوائے گا؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے ایک اور اپیل عدالت میں داخل کی جائے گی۔ ممکن ہے کہ یہ پیسے بھی 'بڑے میاں صاحب'کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں۔
کرپشن کا الزام ہے یا نہیں؟ یہ تو تفصیلی فیصلے سے پتہ چلے گا۔کرپشن سے متعلق کچھ باتوں کی نشاندہی جاسم محمد نے کر دی ہے تمام شریکِ جرم سامنے آتے جائیں گے،کڑی سے کڑی ملتی جائے گی تو بات بالآخر سربراہِ حکومت پر ہی جائے گی۔
 

زیرک

محفلین
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کل ادا شدہ تنخواہوں اور مراعات 19 کروڑ 78 لاکھ روپے کا آدھا حصہ عطاءالحق قاسمی ادا کریں گے، ٪20 رقم (4 کروڑ) پرویز رشید سے اور ٪20 رقم (4کروڑ) اسحاق ڈار سے جبکہ ٪10رقم (2کروڑ) فواد حسن فواد ادا کریں گے، علاوہ ازیں عطاء الحق قاسمی کو تا حیات سرکاری عہدے کے لیے نا اہل شریف بھی قرار دیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات بالآخر سربراہِ حکومت پر ہی جائے گی۔
میرے خیال میں یہاں یہ تنقید آ سکتی ہے کہ حالیہ وزیر اعظم عمران خان بھی تو اپنے قریبی دوستوں کو جھولیاں بھر بھر کے وزارتیں بانٹ رہے ہیں۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ قانوناً وزارت پانےکیلئے متعلقہ بیک گراؤنڈ سےہونا لازمی نہیں ہے۔ جبکہ پروفیشنل اداروں جیسے پی ٹی وی ، پی آئی اے وغیرہ میں ایسی سیاسی بھرتیاں غیرقانونی ہیں۔ اور ان سرکاری اداروں کی تباہی کا اصل ذمہ دار بھی ۔ یہ کرپشن کا نظام بھٹو دور کی نیشنلائیزیشن کے بعد شروع ہوا تھا۔ جسے بعد میں نوازاور زرداری حکومتوں نے چار چاند لگا دئے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یعنی کہ بدی اور شر کا منبع ایک بار پھر میاں صاحب کو ہی ٹھہرا دیا گیا ہے! وہ شاعر کیا خوب کہہ گئے ہیں، اس جرم کو بھی شامل کر لو میرے معصوم گناہوں میں! :)
 

جاسم محمد

محفلین
میرے خیال میں سارا قصور میاں صاحب کا بھی نہیں ہے۔ ان کو یہ کرپشن کا نظام 'ورثہ' میں ملا تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹونے آتے ساتھ ہی پہلا حملہ پاکستانی معیشت کے ڈرائیورز (22 امیر خاندانوں) پر کیا۔ اور ان سے جبرا نجی کمپنیز اور انڈسٹریٹریز چھین کر سرکار کی تحویل میں دے دیں۔ جن میں خود میاں صاحب کی 'اتفاق فاؤنڈری' بھی شامل تھی۔ ان ذاتی معاشی نا انصافیوں کا بدلہ لینے میاں صاحب سیاست میں اترے۔ اور پھرپوری ریاست سے انتقام لے کر قوم کی جان چھوڑی۔
 

زیرک

محفلین
آپ دوستوں سے عرض ہے کہ ہر دور حکومت میں بچہ نواز پروگرام رکھے گئے جس سے اپنوں کو نوازا گیا، اللہ کے فضل سے سندھ طاس معائدے کے بعد جو ڈیم کنسٹرکشن شروع ہوئی وہاں بھی اپنوں کو نوازا گیا اور اس کے ساتھ پاکستان میں انڈسٹری نے پنپنا شروع کیا تو بھی اپنوں کو ہی نوازا گیا اور ان تمام کاموں کی شروعات عیوب خان کے دور میں شروع ہوئی۔پاکستانی معیشت کے ڈرائیورز (22 امیر خاندانوں) کی بنیاد مضبوط کرنےکے لیے اس میں مزید سیمنٹ اسی دور میں ڈالا گیا تھا۔ بھٹو کی نیشنلائزیشن واقعی درست نہیں تھی مگر اس وقت دنیا بھر میں یہی چل رہا تھا سو ہم نے بھی بھیڑ چال میں اپنی بھیڑ ذبح کر دی۔ نوازشریف صاحب نے اپنے دور اقتدار میں ملکی انڈسٹری کی بجائے خاندانی انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں جو کردار نبھایا ہے دنیا اس سے بخوبی واقف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوازشریف صاحب نے اپنے دور اقتدار میں ملکی انڈسٹری کی بجائے خاندانی انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں جو کردار نبھایا ہے دنیا اس سے بخوبی واقف ہے۔
متفق۔ میرا نواز شریف سے بنیادی اختلاف ان کی ذاتی کرپشن، مالی ہیر پھیر سے زیادہ ملکی معیشت کومسلسل غلط سمت میں ڈالنے پر ہے۔
میاں صاحب سرمایہ دارخاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ابا حضور ایک مقامی سٹیل فاؤنڈری چلاتے تھے۔ وہ اگر صحیح معنوں میں حب الوطن ہوتے تو آج پاکستان بھارتی اسٹیل کےلکشمی میتل کا مقابلہ کر رہاہوتا۔ میاں صاحب نے تو اُلٹا ملک لوٹ لوٹ کر اس کی لٹیا ہی ڈبو دی۔
 

جاسم محمد

محفلین
بدقسمتی سے پاکستان میں خرابیوں کی جڑوں کو پروان چڑھانے والے موصوف ہی تھے، اس لیے ان کا نام عیوب خان بنتا ہے۔
صدر ایوب کا ملک کی سیاست پر قابض ہونا ناگزیر تھا۔ آپ ایوب کے مارشل لاء سے قبل ملک کےسیاسی حالات پڑھ لیں۔ دو سالوں میں 6 بار وزرا اعظم کو تبدیل کیا گیا۔ جب سیاست دان ملک کو اس بے سمتی کی طرف خود لے کرجائیں تو ان کی اجتماعی کوتاہیوں کا فائدہ اٹھانے والے پر سارا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
صدر ایوب میں بہت سےعیب ہوں گے۔ مگر ان کے دور میں کئے گئے ترقیاتی کاموں کا پھل آج تک پاکستانیوں کو مل رہا ہے۔ وہ جیسے بھی تھا، وژنری بندہ تھا۔ اس نے بہت کم قرضے لے کر اور تمام تر ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دو بڑے ڈیمز بنا دئے۔ ایسے ڈیمز بعد میں آنے والے حکمرانوں کو بنانا نصیب نہ ہوئے۔
 

زیرک

محفلین
صدر ایوب میں بہت سےعیب ہوں گے۔ مگر ان کے دور میں کئے گئے ترقیاتی کاموں کا پھل آج تک پاکستانیوں کو مل رہا ہے۔ وہ جیسے بھی تھا، وژنری بندہ تھا۔ اس نے بہت کم قرضے لے کر اور تمام تر ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دو بڑے ڈیمز بنا دئے۔ ایسے ڈیمز بعد میں آنے والے حکمرانوں کو بنانا نصیب نہ ہوئے۔
ملک کے تین دریا بیچ دئیے ان کا یہی جرم سب جرائم پہ بھاری ہے محترم
 

جاسم محمد

محفلین
ملک کے تین دریا بیچ دئیے ان کا یہی جرم سب جرائم پہ بھاری ہے محترم
یہ الزام بھی بھٹو پارٹی سے بہت بار سُنا۔ ان کی سیاست ہی یہاں سے شروع ہوئی تھی۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان کے تین مشرقی دریا تو تقسیم پاک و ہندو کے وقت سے ہی بھارت کی تحویل میں تھے۔ اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان پر بھارت کا پہلے سے حق تھا۔ باقی تین مغربی دریا پاکستان کے ہیں اور رہیں گے۔ انہی زمینی حقائق کی بنیاد پر معاہدہ ہوا تھا۔ تفصیل
 
Top