عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 54
میں نے الشذری سے کہا۔ "ہمیں ہرگز اس طرح نہ کھانا چاہیے کیونکہ یہ کوئی ڈھنگ نہیں کہ میزبان ندارد، ہم کھانے بیٹھ جائیں۔" اس پر شذری بگڑ کھڑے ہوئے کہ "تم عربی سادگی سے واقف نہیں۔ یہ بھی کوئی ہندوستان ہے کہ لازمی طور پر میزبان نوالہ گننے کے لیے ضرور ہی موجود ہو۔" میں نے پھر الشذری سے کہا کہ ایک مرتبہ حبشی سے کچھ اشاروں ہی سے پوچھو کہ آخر یہ غیر معمولی بات کیوں ہے؟ ایھا الشیخ کر کے حبشی سے پھر جو شذری نے سوال کیا تو وہ بگڑ کھڑا ہوا اور بدتمیزی سے ہاتھ کو جھٹکے دے کر نہ معلوم کیا بکنے لگا اور پھر غصے ہو کر اشارہ سے کہا کہ کھانا کھاؤ۔ اب الشذری مجھ سے خفا ہونے لگے۔ "جو میں کہتا ہوں وہ تم نہیں سنتے اس طرح بھی دعوتیں ہوتی ہیں۔" پھر حجاز کی اسی قسم کی ایک آدھ دعوت کا تذکرہ کیا جو خود انہوں نے کی تھیں اور میں نے کہا کہ کوئی لفنگا آ کر تمہارے یہاں کھا گیا ہو تو میرے اوپر بے حد گرم ہوئے اور کھانے کو بسم اللہ کہہ کر آگے ہاتھ بڑھایا۔ خوان پوش جو ہٹا تو میری روح پرواز کر گئی، کیونکہ وہاں سوائے آب گوش اور روٹی کے اور کچھ بھی نہ تھا اور یہاں میں گویا بھوک پر دھار رکھ کر آیا تھا۔ یہ آب گوش عجیب کھانا ہے خدا ہر ہندوستانی کو اس سے امن میں رکھے۔ بازاروں میں آپ دیکھ لیجئے کہ بڑی سی دیگ میں گوشت کے ٹکڑے گھلائے جا رہے ہیں۔ کچھ واجبی سا نمک اور روایتاً کہا جاتا ہے کہ از قسم لونگ وغیرہ بھی پڑتا ہے۔ بس اس جوشاندے کے ساتھ روٹی کھائی جاتی ہے۔ بوٹی ہڈی سے کوئی سروکار نہیں۔ جب دیگ کا پانی کم ہو جاتا ہے تو اور ڈال دیا جاتا ہے۔ مگر شاید ایک دفعہ کے علاوہ پھر نمک تو پڑتا نہیں کیونکہ آب گوش کا پھیکا ہونا لازمی ہے۔ غرض یہ آب گوش تھا۔ جس کا لبالب بھرا ہوا بڑا سا پیالہ بازار سے دو پیسے کو آ سکتا تھا۔ میں نے ناامید ہو کر الشذری سے کہا : "بھئی مجھ سے یہ نہیں چلے گا کیا معلوم تھا ورنہ گھر سے کھانا کھا کر آتے۔"
الشذری نے اس پر ایک مصنوعی قہقہہ لگایا۔ "سبحان اللہ۔" انہوں نے کہا۔ "اور آپ کیا سمجھے تھے کیا بریانی متنجن۔۔۔ جناب یہ تو عرب لوگ ہیں۔ خود حضور سرور کائنات ﷺ کی دعوتوں کا حال پڑھ لو، جو موجود ہوتا تھا پیش کرتے تھے۔"
میں نے کہا : "بھئی تم عجیب آدمی ہو اس بھلے مانس آدمی کو صرف دعوت ہی کے معاملہ میں سنت رسول اللہ کی پیروی کرنا رہ گئی ہے۔ ورنہ یوں ساز و سامان، فرنیچر، جھاڑ فانوس، فرش و فروش سب کچھ ہے، لاحول بھیجو ایسی دعوت پر اور گھر چلو، مگر الشذری اس پر مذہبی رنگ دینے لگے اور اندیشہ ظاہر کیا کہ عجیب نہیں اسی سلسلہ میں ہم دونوں جہنم رسید کر دیے جائیں۔
القصد ہم نے کھانا شروع کیا، مجھ سے دو لقموں سے زائد نہ کھایا گیا۔ وہ عربوں کی سادگی پر لیکچر دے رہے تھے اور میں شوربے کی سادگی پر لیکچر دے رہا تھا جو آب رواں سے بھی زیادہ پتلا
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 55
تھا۔ میری دانست میں اس سے وضو قطعاً جائز ہو گا۔ غرض میں کھانے کے بجائے کھانے سے کھیلنے لگا۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ میں گھر جا کر کھاؤں گا، مگر الشذری گویا ہٹ پر ہٹ لگا رہے تھے۔ آؤٹ ہونے سے پلے ہی دو طویل القامت عرب وارد ہوئے، فوراً ہی بھائی الشذری نے ہاتھ کے اشارے سے ھذا طعام کہہ کر ان کو مدعو کیا۔ اپنے ہندوستان میں قائدہ ہے کہ ایسے موقع پر بھوکے بھی ہوں تو کہہ دیتےہیں کہ "بسم اللہ کیجئے، خدا زائد دے۔" مگر عراق میں بھوک نہ بھی لگ رہی ہو تب بھی آپ کا آدھا کھانا آپ کے کہنے سے پہلے ہی کھا جائیں گے۔ فوراً یہ دونوں کھانے لگے اور وہ بھی شاید شارٹ ہینڈ میں، کیونکہ بس چار لقموں ہی میں میدان صاف کر دیا۔ اتنے میں حبشی ملازم آیا اور اس سے انہوں نے بلاتکلف کھانے کو کہا۔ بڑی تیزی سے ان دونوں نے باتیں گیں اور پھر ہم دونوں کی طرف گھور کر اس طرح دیکھا کہ بس کھا ہی تو جائیں گے، ادھر دوسری طرف اس نالائق حبشی نے آنکھیں گھمانا شروع کیں۔ میں کچھ گھبرایا اور الشذری بھی چکرائے کہ اتنے میں ایک غریب نے برہم ہو کر الشذری سے کہا : "ہندی مکار اولاد الکلب۔" الشذری تیزی سے خفا ہو کر بولے : "انا اھل السلام۔" اس پر وہ پھٹ پڑا، اور دوسری طرف سے حبشی نے اپنے دانتوں کو چمکا کر گویا مغلظات سنانا شروع کیں۔ بڑی تیزی سے دونوں عرب اور حبشی ہم دونوں کو مغلظات سنا رہے تھے لیکن بھائی شذری بھی کسی سے کم نہ تھے اور وہ اپنی بے تک اڑا رہے تھے۔ "انا حبیب القاضی صاحب انا مدعونی طعام ہذا للیل انت بداخلاق۔ انت توہین متشہیر انا قلت الفساد بالقاضی صاحب۔"
یعنی ہم قاضی صاحب کے دوست ہیں ہمیں آج رات دعوت میں مدعو کیا گیا۔ تم بداخلاق ہو، ہماری توہین و تشہیر کرتے ہو۔ اس فساد کا تذکرہ ہم قاضی صاحب سے کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ میرا خیال تھا کہ اگر کہیں جلدی سے کھانا نہ آتا تو نوبت غل غپارٹ تک پہنچتی اور عجب نہیں جو ہم اور شذری دونوں وہیں جام شہادت نوش کرتے۔ عربوں کی بھی طبیعت عجیب ہے۔ ادھر کھانا آیا اور ادھ خلق مجسم بن گئے، ہم دونوں کو ان دونوں نے جبراً راضی کر کے کھلانا شروع کیا۔ میں نے تو ایک لقمہ لے کر ہاتھ کھینچا مگر بھائی شذری نے اور کھایا۔
اتنے میں قاضی صاحب آ گئے مع تین چار احباب کے۔ ان دونوں عربوں نے دوڑ کر ان سے سلام علیک کی اور فوراً رخصت، قاضی صاحب کے ساتھ ہمارے وہ فارسی داں عراقی کرم فرما تھے۔ جنہوں نے ہمارا قاضی صاحب سے تعارف کرایا تھا۔ جب سب آ کر دوسرے کمرے میں بیٹھے تو بھائی الشذری نے کھانے کے وقت جو بدتمیزیاں ہوئی تھیں ان کی سخت شکایت کی اور بالخصوص حبشی کی۔ وہ سخت متعجب ہوئے کہ "ہائیں تم کھانا کیسے کھا چکے، کھانا تو اب آئے گا۔" اب میں الشذری کی طرف دیکھتا ہوں، اور وہ میری طرف۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 56
قاضی صاحب حبشی پر آگ بگولا ہو کر گویا برس پڑے۔ اگر کسی نے غضبناک عرب کو دیکھا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے غضبناک شیر دیکھا ہے اور پھر جب کہ عرب کے مہمان کی توہین کی گئی ہو، مگر حبشی نے جو جواب قاضی صاحب کو دیا اس سے وہ صرف خاموش ہی نہیں ہو گئے بلکہ ان کا غصہ بھی رفوچکر ہو گیا اور شرمندہ ہو کر وہ معافی مانگنے لگے۔
قصہ مختصر ان فارسی دان حضرت نے بہت جلد معاملہ صاف کر دیا۔ واقعہ دراصل یوں تھا کہ باہر دوپہر کو قاضی صاحب کو دو سائل ملے اور ان سے قاضی صاحب نے کھانے کو کہا تھا کہ اول وقت آ کر کھانا کھا جانا۔ ادھر اس حبشی سے کہہ دیا تھا کہ شام کو دو سائل آئیں گے، ان کو کھانا کھلا دینا۔" قبل اس کے کہ وہ سائل پہنچیں ہم دونوں جا پہنچے اور پھر بھائی الشذری کی عربی دانی! حبشی نے الشذری سے جب پوچھا کہ "کیا تم وہی دونوں ہو جو بازار میں قاضی صاحب سے ملے تھے اور کھانے کو کہا تھا؟" اس کا جواب الشذری نے محض اس وجہ سے اثبات میں دیا تھا کہ حبشی کی گفتگو میں اگر وہ کوئی لفظ سمجھے تھے تو وہ "طعام" کا تھا۔
جب دونوں سائل آئے اور انہوں نے حبشی سے کھانے کو کہا تو ایک طرف تو حبشی خفا کہ ہم دونوں نے اس کو دھوکہ دیا اور دوسری طرف یہ سائل خفا کہ ہم دونوں کا کھانا یہ دونوں دھوکہ دے کر کھا گئے۔
خمیازہ اس غلط فہمی کا زیادہ تر خود بھائی شذری نے بھگتا جو خوب پیٹ بھر کر کھا چکے تھے، کیونکہ جب دسترخوان لگا اور اس پر بائین قسم کے انواع و اقسام کے کھانے مثلاً انجیر کی کھیر وغیرہ چنے گئے تو میں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور بھائی شذری کو دیکھ رہا تھا کہ ان کی حالت قابل رحم تھی۔
چودھری صاحب اس حادثے کے بعد کچھ دن تو قائل رہے۔ جگہ جگہ میں ان پر فقرے چست کرتا مگر بہت جلد بھول گئے اور پھر وہی عادت کہ سمجھیں نہ سمجھیں مگر عربی بولنے سے باز نہ آتے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ تین عرب دوست ہمارے یہاں آئے۔ ان کو الشذری نے محض عربی بولنے کی نیت سے بلا لیا تھا۔ میں ان سے بہت تنگ تھا کیونکہ یہ تینوں بالکل اجڈ تھے اور جو کچھ بھی پاتے ڈھونڈھ کر کھا جاتے۔
میتھی کا ساگ اور قیمہ جو ہندوستان کا تحفہ ہے اور بہترین پکا ہوا ایک روز کل کا کل کھا گئے اور پھر قدر اس کی یہ کہ اس کو گھاس اور گوشت کہتے۔ غرض میں ان کی بدعتوں سے تنگ تھا۔
یہ تینوں آئے اور الشذری سے دماغ پچی کرنے لگے۔ بھائی شذری کے سر میں سخت درد تھا اور وہ رومال باندھے ہوئے تھے، ان نالائقوں نے الشذری سے کچھ کہا جو کسی طرح ہم دونوں سمجھ

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 57
گئے وہ کہتے تھے کہ "قریب ہی پڑوس میں ایک حکیم رہتا ہے، وہاں چلو ابھی فورا درد سر جاتا رہے گا۔" اندھا کیا چاہے دو آنکھیں شذری راضی ہو گئے، ہم دونوں مع ان تینوں کے وہاں پہنچے۔ یہ حکیم بھی عجیب احمق صورت اور وضع کا تھا۔ عطائی معلوم ہوتا تھا۔ ایک بڑے سے تخت پر بیٹھا تھا۔ الشذری نے نبض دکھائی اور جس طرح بھی ہو سکا اپنا حال بیان کیا۔ اس نے جو کچھ کہا، نہ میں سمجھا اور نہ الشذری۔ مگر بھائی الشذری نے مجھ سے کہا کہ بھائی تم نہیں سمجھے، یہ دراصل کہہ رہا ہے کہ "دوا ذرا تلخ ہو گی۔ اگر تم منظور کرو تو میں علاج کروں ورنہ نہ کروں" علاج کی تکلیف درد سر کی تکلیف سے بہتر ہے اور پھر ان تینوں عربوں نے کہا کہ دوا پلانے میں یا علاج کرانے میں ہم تم کو پکڑ لیں گے۔" میں اس وقت تو بھائی الشذری کی عربی دانی کا قائل ہو گیا کیونکہ جب دوبارہ دونوں نے کہا تو مجھ کمبخت کی بھی یہی سمجھ میں آیا کہ الشذری ٹھیک سمجھے ہیں۔ اب بھائی شذری کا ماتھا دیکھنے کے لیے ان کو تخت پر لٹا دیا گیا۔ وہ تخت پر چت لیٹ گئے اور میں برابر کھڑا تھا۔ میں نے الشذری سے کہا کہ "یہ کیا معاملہ ہے، تم کو لٹایا کیوں ہے دوا تو بیٹھ کر پی جاتی ہے۔ ذرا پوچھ لو، کہیں غلط فہمی تو نہیں ہوئی؟" اس پر الشذری تیز ہو کر بولے کہ "تم سمجھتے ہو نہیں۔ خدا معلوم ہر بات میں دخل کیوں دیتے ہو؟ وہ پہلے پیشانی دیکھے گا یا کچھ اور دیکھے گا۔" میں چپ ہو رہا۔ اتنے میں گردن زدنی حکیم نے ایک میلا سا چمڑے کا بیگ نکالا۔ اس مین سے ایک بورے سینے کا سا لوہے کا سوا نکالا اور اس کو سنبھال کر اس نے اس طرح چودھری صاحب کا سر پکڑ کر آنکھوں کے سامنے نچایا کہ جیسے ان کی آنکھ پھوڑنا چاہتا تھا۔ میں کم مگر شذری زیادہ گھبرائے مگر معذور تھے۔ جب شذری بے قابو کر دیے گئے تو کشتم کشتا بند ہوئی اور ان کو صرف پیٹھ میں کسی سخت شے کے چبھنے کی شکایت تھی اور مجھ کو بھی اطمینان سا ہو گیا کہ شذری قتل وتل نہیں ہو رہے ہیں کہ اتنے میں وہ چلائے۔ "ارے میری آنکھ پھوٹ جائے گی۔" واہدہ ارے۔۔۔ واہدہ چشم۔۔۔" کیا دیکھتا ہوں وہ موذی تو شذری کی جان پر تلے ہوئے ہیں۔ بری طرح گرفت میں تھے اور ایک عجیب کاروائی ہو رہی تھی وہ یہ کہ ان کی پیشانی اسی سوئے سے بری طرح مرغ مسلم کی طرح گودی جا رہی تھی۔ اب وہ اس ڈر کے مارے جنبش بھی نہ کرتے تھے کہ کہیں ہاتھ چوک جائے تو آنکھ نہ پٹ ہو جائے۔ میں نے دل میں کہا یہی غنیمت ہے اور اب میں سمجھ گیا کہ یہ علاج ہو رہا ہے۔ بہت جلد ان کی پیشانی لہولہان ہو گئی۔ بڑی تیزی سے خون پونچھ کر ایک کپڑا بھگو کر باندھا گیا اور الشذری چھوڑ دیئے گئے۔ "ارے کمبختوں تم نے مجھے کس چیز پر چت لٹایا کہ میری پیٹھ میں سوراخ کر دیا۔" یہ کہہ کر کراہتے ہوئے الشذری اٹھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کرکی قسم کا ایک چھوٹا سا تالا ہے جس میں اس کی کنجی مع دوسری چابیوں کے گچھے کے موجود تھی اور اس پر شذری کو چت لٹا کر تین عرب ان کی چھاتی پر
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 58
کودوں دلتے رہے تھے۔ غصے میں آ کر بھائی شذری نے اس نامعقول تالے کو مع کنجیوں کے بھنا کر دور پھینکا اور پھر اردو عربی اور فارسی کو ملا کر نہ معلوم ان تینوں عربوں اور حکیم کو کیا کچھ سنا ڈالا۔ ادھر حکیم کھڑا مسکرا رہا تھا اور اپنی کاروائی پر خوش ہو کر نمک پاشی کر رہا تھا۔
بہت جلد معاملہ صاف ہو گیا۔ نہ بیچارے حکیم کی خطا تھی اور نہ ان تینوں عربوں کی۔ اگر خطا اور غلطی تھی تو خود بھائی شذری کی۔ مترجم کی خدمات انجام دینے کے لیے ایک ہندوستانی آ گئے اور معلوم ہوا کہ حکیم بیچارے نے سب کچھ بھائی شذری کو سمجھا دیا تھا کہ کس طرح سوئے سے پیشانی گودی جائے گی اور سخت تکلیف ہو گی درد قطعی جاتا رہے گا، پھر یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ چاروں دوست تم کو پکڑ لیں گے بلکہ حکیم کو شکایت تھی کہ میں نے بجائے علاج میں مدد دینے کے بڑی گڑبڑ کی، کیونکہ میں نے اڑنگا لگا حکیم کوچت گرا دیا تھا۔ ان تمام باتوں کو خوب اچھی طرح حکیم نے سمجھا دیا تھا اور شذری نے رضامندی ظاہر کی تھی پھر اب شکایت کیسی۔
میری ٹانگ میں درد ہو رہا تھا ورنہ میں بری طرح الشذری کی وہیں خبر لیتا۔ حکیم کی فیس ادا کرنی پڑی۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس چپقلش کے بعد بھلا درد سر کا کیا کام، پتہ تک نہ رہا۔ ہاں تخت پر کشتی کرنے کی وجہ سے گھٹنوں میں البتہ سخت چوٹیں آئی تھیں۔ جو پہلے ہی سے ناؤ میں گر کر مضروب تھے مگر یہ چوٹیں ایک طرف اور اس نامراد چھوٹے سے تالے نے جو پیٹھ میں برما چلایا تھا، اس کی تکلیف ایک طرف۔ بس زخم نہیں ہوا تھا۔ ورنہ اس چھوٹے سے تالے کی کنجی گوشت میں پیوست ہو کر رہ گئی تھی اور کہیں اس آپریشن میں تھوڑی دیر اور لگتی تو عجب نہیں کہ گوشت کاٹ کر وہ اندر گھس جاتی۔
وہ دن اور آج کا دن شذی کا عربی بولنے کا شوق ایسا رخصت ہوا کہ پھر کبھی عربی نہیں بولے۔ جتنے دن عراق میں رہے دبے رہے۔ اور اگر کہیں موقع ہوتا تو یہی کہتے کہ بھئی کچھ سمجھے نہیں، بغیر مترجم کے کام نہ چلے گا۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 59
شاطر کی بیوی
(1)
عمدہ قسم کا سیاہ رنگ کا چمک دار جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلنے کا اصل لطف تو جناب جب ہے جب منہ میں پان بھی ہو، تمباکو کے مزے لیتے ہوئے جوتے پر نظر ڈالتے ہوئے بید ہلاتے جا رہے ہیں۔ یہی سوچ کر میں جلدی جلدی چلتے گھر سے دوڑا۔ جلدی میں پان بھی خود بنایا۔ اب دیکھتا ہوں تو چھالیہ ندارد۔ میں نے خانم کو آواز دی کہ چھالیہ لانا اور انہوں نے استانی جی کو پکارا۔ استانی جی واپس مجھے پکارا کہ وہ سامنے طاق میں رکھی ہے۔ میں دوڑا ہوا پہنچا۔ ایک رکابی میں کٹی اور بے کٹی یعنی ثابت چھالیہ رکھی ہوئی تھی۔ سروتا بھی رکھا ہوا تھا اور سبے سے تعجب کی بات یہ کہ شطرنج کا ایک رخص بھی چھالیہ کے ساتھ کٹا رکھا تھا۔ اس کے تین ٹکڑے تھے۔ ایک تو آدھا اور دو پاؤ پاؤ۔ صاف ظاہر ہے کہ چھالیہ کے دھوکے میں کترا گیا ہے، مگر یہاں کدھر سے آیا۔ غصہ اور رنج تو گمشدگی کا ویسے ہی تھا۔ اب رخ کی حالت زار جو دیکھی تو میرا وہی حال ہوا جو علی بابا کا قاسم کی لاش کو دیکھ کر ہوا تھا۔ خانم کے سامنے جا کر رکابی جوں کی توں رکھ دی۔ خانم نے بھویں چڑھا کر دیکھا اور یک دم ان کے خوبصورت چہرے پر تعجب خیز مسکراہٹ سی آ کر رکھ گئی اور انہوں نے مصنوعی تعجب سے استانی جی کی طرف رکابی کرتے ہوئے دیکھا۔ استانی جی ایک دم سے بھویں چڑھا کر دانتوں تلے زبان داب کے آنکھیں پھاڑ دیں، پھر سنجیدہ ہو کر بولیں :
جب ہی تو میں کہوں یا اللہ اتنی مضبوط اور سخت چھالیہ کہاں سے آ گئی۔ کل رات اندھیرے میں کٹ گیا۔ جب سے رکابی جوں کی توں وہیں رکھی ہے۔"
"اجی یہ یہاں آیا کیسے؟" میں نے تیز ہو کر کہا۔
استانی جی نے چوروں کی طرح خانم کی طرف دیکھ کے کہا : "خدا جانے کہاں سے آیا۔۔۔ میں ۔۔۔"
"میں خوب جانتا ہوں۔" یہ کہہ کر غصہ سے میں نے خانم کی طرف دیکھا اور زور سے کہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ّعظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صحفہ 46 تا 59، ورڈ فائل منسلک ہے۔
 

Attachments

  • Azeem Baig Pages 46 to 59.ZIP
    25.1 KB · مناظر: 2

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۰
"ہنسی کیوں ہو؟ میں خوب جانتا ہوں۔۔۔ ان باتوں سے کیا فائدہ؟"
ادھر وہ ہنس پڑیں اور ادھر دروازے سے استانی جی کا لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ میری جان ہی تو جل گئی اور میں نے یہ کہہ کر کہ "اسی موذی کی شرارت ہے۔" لڑکے کا کالر پکڑ کر دو تین بید ایسے جمائے کہ مزہ آ گیا۔ یہ بید گویا خانم کے لگے۔ دوڑ کر انہوں نے بید پکڑنے کی کوشش کی اور روکنا چاہا مگر میں نے مارنا بند نہ کیا۔ میں مار رہا تھا اور خانم کہہ رہی تھی۔ "اس کی کوئ خطا نہیں۔" مگر میں غصہ میں دیوانہ ہو رہا تھا اور مارے ہی گیا حتیٰ کہ نوبت بایں جا رسید کہ خانم نے بید پکڑ کر کہا : "تم مجھے مار لو مگر اسے نہ مارو۔" مگر مجھے غصہ ہی بے حد تھا۔ میں نے بید چھڑا لیا اور وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں۔ مین غصہ میں کانپتا ہوا باہر چلا آیا۔
میرا غصہ حق بجانب تھا یا نہیں۔ ناظرین خود انصاف کریں۔ شطرنج کا شوق ہوا تو ہاتھی دانت کے مہر منگائے۔ یہ مہرے نہایت ہی نازک اور خوبصورت تھے اور خان صاحب نے دو ہی دن میں سب کی چوٹیاں توڑ کر ہفتہ بھر کے اندر ہی اندر تمام مہرے برابر کر دیے تھے۔ خان صاحب نہ میز پر کھیلتے تھے اور نہ فرش پر، وہ کہتے تھے کہ شطرنج تخت پر ہوتی ہے۔ تاکہ زور سے مہرے ر مہرے مارنے کی آواز دے۔ اس کے بعد پھر بنارسی مہرے منگائے۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت، نہایت ہی سادہ اور سبک مہرے تھے کہ بس دیکھا کیجئے۔ ہفتہ بھر مشکل سے ان مہروں سے کھیلنے پائے ہوں گے کہ سفید بازی کا ایک پیدل خان صاحب کے سال بھر کے بچے نے کھا لیا۔ بہت کچھ اس کے حلق میں خان صاحب نے انگلیاں گنگھولیں۔ چت لٹایا، جھنجھورا، پیٹھ پر دھموکے دیے، مگر وہ ظالم اسے پار ہی کر گیا۔ سفید بازی چونکہ خان صاحب لیتے تھے لیکن اس کے بعد ہی جلد لال بازی کا بادشاہ کھو گیا۔ بہت ڈھونڈا، تلاش کیا مگر بے سود۔ اس کی جگہ دو ایک روز دیا سلائی کا بکس رکھا، پھر ایک روز مناسب عطر کی خالی شیشی مل گئی۔ وہ شاہ شطرنج کا کام دیتی رہی کہ اس کے بعد ہی لال بازی کا فیل اور سفید کا ایک گھوڑا غائب ہو گیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے اور پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ہو نہ ہو مہرے "آپ کے گھر میں" سے چروائے جاتے ہیں مگر میں یہی کہہ دیتا کہ یہ ناممکن ہے۔ انہیں بھلا اس سے کیا مطلب۔ بہتیرا وہ مجھے یقین دلاتے سر مارتے کہ سوائے ان کے کوئی نہیں، مگر مجھے یقین ہی نہ آتا۔ خان صاحب کہتے تھے "عورتوں کو شطرنج سے بغض ہوتا ہے۔" واقعہ یہ ہے کہ خانم میری شطرنج بازی کے خلاف تو تھیں اور بہت خلاف تھیں، مگر مجھ نہیں معلوم تھا کہ اس طرح مخل ہو سکتی ہیں، غرض ان مہروں کے بعد ہی رام پور سے خان صاحب نے منڈے مہرے امرود کی لکڑی کے منگوا دیے۔ رام پور کے بہتر، عمدہ. خوبصورت اور ساتھ ہی ساتھ مضبوط مہرے ہونا ناممکن ہیں۔ ابھی چار روز بھی آئے نہ ہوئے تھے

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۱
کہ یہ واقعہ ہوا۔ یعنی استانی جی نے چھالیا کے ساتھ اس نئی شطرنج کا رخ کتر ڈالا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میں نے اس واقعہ کا ذکر سب سے پہلے خان صاحب سے کیا۔ انہوں نے بائیں طرف کی ڈاڑھی کا چھبو جو ذرا نیچے آ گیا تھا خوب اوپر چڑھاتے ہوئے اور آنکھیں جھپکا کر اپنی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ "میں نہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب کہ ہو نہ ہو یہ آپ کے "گھر میں" ہی ہیں۔۔۔ اجی صاحب یہاں اللہ بخشے مرنے والی (پہلی بیوی) سے دن رات جوتی پیزار ہوتی رہتی تھی۔ پھر اس کے بعد اب اس سے بھی دو تین مرتبہ زور کے ساتھ چائیں چائیں ہو چکی ہے او رہوتی رہتی ہے مگر میں شطرنج کے معاملہ میں ذرا سخت ہوں۔ گھر والی کو سونے کا نوالہ کھلائے، مگر وہ جو کہے کہ شطرنج نہ کھیلو تو بس اسے کھا ہی جائے۔۔۔ جب جا کے کہیں شطرنج کھیلنی ملتی ہے۔ ورنہ یہ سمجھ لیجیے کہ آئے دن کے جھگڑے رہیں گے اور شطرنج کھیلنی دوبھر ہو جائے گی۔ ویسے آپ کا مزاج۔۔۔ میں تو کچھ کہتا نہیں۔"
میں نے سوچا خان صاحب واقعی سچ کہتے ہیں۔۔۔ مگر اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ خان صاحب بولے :
"ابھی کوئی سترہ برس کا ذکر ہے کہ مرنے والی لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ وہ پان نہیں بھیجتی تھی۔ ذرا غور تو کیجیے کہ ہم تو باہر شطرنج کھیل رہے ہیں۔ یہ صاحب بیٹھے ہیں اور پان ندارد! خدا بخشے کسی معاملہ میں نہیں دبتی تھی۔ ہاں تو۔۔۔ کوئی سترہ برس ہوئے وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ خوب چھنی۔ بڑی مشکل سے رام کیا۔"
"وہ کیسے؟" میں نے پوچھا۔
خان صاحب نے سر ہلا کر ایسا جواب دیا جیسے شاید ڈیوک آف ویلنگٹن نے نپولین کو شکست دے کر وزیر اعظم سے کہا ہو گا۔ "آپ بتائیے۔۔۔ پہلے آپ بتائیے۔ سنئے۔۔۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ بیگم صاحب یہ لو اپنا پانچ روپے کا مہر اور گھر کی راہ لو۔ بندہ تو شطرنج کھیلے گا۔۔۔ پر کھیلے گا۔۔۔ پان بناؤ تو بناؤ، نہین تو گاڑی بڑھاؤ اور چلتی پھرتی نظر آؤ۔ آخر جھک مار کر بنانا پڑے، اور وہی مثل رہی۔
پانڈے جی پچھتائیں گے
وہی چنے کی کھائیں گے
تو بات یہ ہے۔۔۔ مرزا صاحب بات یہ ہے کہ عورت ذات ذرا شطرنج کے خلاف ہوتی ہے اور ذرا کمزوری دکھائی اور سر پر سوار۔ خان صاحب نے اپنے بائیں ہاتھ کی کلمے کی انگلی پر داہنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو سوار کرتے ہوئے کہا۔ اب میں یہ لیکچر سن کر ترکیب سوچ رہا تھا کہ کہا کروں۔ جو کہوں کہ اپنا راستہ دیکھو تو خانم سیدھی طوفان میل سے گھر پہنچے گی۔ ایک لمحہ نہیں


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۲
رکے گی۔ گھر پر جی نہیں لگے گا۔ تار الگ دینے پڑیں گے اور ہفتہ بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد ہی لانا ہی پڑے گا۔"
خان صاحب نے کہا: "چلی جانے دیجئے۔ جھک مار کر پھر آخر کو خود ہی آئیں گی۔ مہینہ، دو مہینہ، تین مہینہ آخر کتنے دن نہ آئیں گی۔"
میں نے دل میں کہا کہ یہ علت ہے اور خان صاحب سے کہا کہ "مگر مجھے تکلیف ہو جائے گی۔"
"آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔" خان صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا۔ "آپ شطرنج نہین کھیل سکتے۔۔۔ لکھ لیجیے کہ آپ کے "گھر میں" آپ کا شطرنج سولی کر دیں گی۔ آپ نہین کھیل سکتے۔۔۔"
"آخر کیوں؟"
خان صاحب بولے: "لکھ لیجیے۔۔۔ بندہ خاں کی بات یاد رکھئے گا لکھ لیجئے۔۔۔"
"آخر کیوں لکھ لوں؟ کوئی وجہ؟"
"وجہ یہ!" خان صاحب نے اپنی داہنے ہاتھ کی مٹھی زور سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مار کر کہا: "وجہ یہ کہ معاف کیجئے گا آپ زن مرید ہیں۔۔۔ زن مرید۔۔۔! ادھر وہ اجائیں گی اور ادھر آپ۔۔۔ (انگلی گھما کر نقل بناتے ہوئے۔ "ہائے جورو! ہائے جورو!۔۔۔ ایسے کہیں شطرنج کھیلی جاتی ہے۔ لاحول ولا قوۃ"
میں نے طے کر لیا کہ خانم سے اس بارے میں قطعی سخت لڑائی ہو گی۔ میں نہین دبوں گا۔ یہ میرا شوق ہے، شوق۔ انہیں ماننا پڑے گا۔
(۲)
تین چار روز تک خانم سے سخت ترین جنگ رہی، یعنی خاموش جنگ، ادھر وہ چپ ادھر میں چپ۔ خانم کی مددگار استانی اور میرے مددگار خان صاحب۔ پانچویں دن یہ شطرنج دوبھر معلو ہونے لگی۔ میری سپاہ کمزوری دکھا رہی تھی۔ جی تھا کہ الٹا آتا تھا۔ خاموش جنگ سے خدا محفوظ رکھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے گیس کی لڑائی ہو رہی ہے۔ غنیم کا گیس دم گھوٹے دیتا تھا۔ خان صاحب طرح طرح کے حملے تجویز کرتے تھے، مگر جناب اس گیس کی لڑائی میں کوئی تدبیر نہ چلتی تھی۔ خان صاحب ماہر فنون تھے مگر جرمن گیس کا جواب توپ اور بندوق نہیں دے سکتی۔ یہ انہین معلوم نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پرانے زمانے کی لڑائیاں لڑئے ہوئے بیچارے کیا جانیں کہ خاموشی کا گیس کیا بلا ہوتی ہے۔ میری کمزوری پر دانت پیستے تھے، کہتے تھے۔ "نہ ہوا میں ۔۔۔۔ دکھا دیتا۔"


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۳
خان صاحب اول تو خود جنگی آدمی اور پھر جنرل بھی اچھے، مگر جناب سپاہی ہمت ہار جائے تو جنرل کیا کرے۔ چھ دن گزر گئے اور اب میں جنگ مغلوبہ لڑ رہا تھا۔ بہت ہمت کی، بہت کوشش کی، مگر ہار ہی گیا۔ شرائط صلح بھی بہت خراب تھی۔ شاید معاہدہ ورسیلز جس طرح ترکوں کے لئے ناقابل پذیرائی تھا، اسی طرح میرے لیے بھی شرائط ضرورت سے زیادہ سخت تھیں، مگر بقول "بزور شمشیر و بنوک سنگین" مجھ کو مجبوراً صلح نامہ پر دستخط کرنا پڑے اور صلح نامہ کی سخت شرائط ذرا ملاحظہ ہوں :
۱ - خان صاحب سے تمام تعلقات دوستی منقطع کر دوں گا، وہ گھر پر آئیں گے تو کہلوا دوں گا کہ نہیں ہوں۔ ویسے حصہ وغیرہ ان کے یہاں جائے گا اور آئے گا۔
۲ – شطرنج کھیلنا بالکل بند۔ اب کبھی شطرنج نہیں کھیلوں گا۔ خصوصاً رات کو تو کھیلوں گا ہی نہیں۔
۳ – شطرنج کے علاوہ تاش بھی نہین کھیلوں گا۔ سوائے اتوار کے رات کو وہ بھی نہیں۔
۴ – رات کو دیر کر کے آنا شطرنج کھیلتے رہ جانے کے برابر متصور ہو گا۔ کوئی ثبوت لیے بغیر تصور کر لیا جائے گا کہ شطرنج کھیلی گئی۔ کوئی عذر تسلیم نہ کیا جائے گا۔
پانچویں اور چھٹی شرط میں خود بیان کرنا پسند نہین کرتا۔
ساتویں شرط یہ تھی کہ اس معاہدہ کی پابندی نہ کی گئی تو "تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔"
خان صاحب سے میں نے اپنی شکست اور شرائط صلح کا ذکر صاف صاف نہین کیا مگر اتنا ضرور تسلیم کیا ہے کہ مہرے برابر استانی جی کے لڑکے سے چروائے جاتے رہے۔ پھر صلح کا ذکر کیا اور اس کے بعد کچھ روز کے لیے مصلحتاً شطرنج کھیلنا بند کرنے کا ذکر کا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے۔ دانت نکال کر انہوں نے ران پر ہاتھ مار کر پہلے تو دنیا بھر کی لڑاکا بیویوں کو گالیاں دیں اور پھر کہا :
"میاں لمڈے ہو۔ مجھ سے باتیں بنانے ائے ہو۔ بیوی کی جوتیاں کھا رہے ہو! ۔۔۔ شطرنج کھیلیں گے۔۔۔ یہ شطرنج ہے ! ہونہہ۔۔۔ میں نہ کہتا تھا۔۔۔ میری بلا سے۔ تم جانو تمہارا کام، مگر لکھ لو ایک دن سر پکڑ کر روؤ گے۔۔۔ گھر والی کو اتنا سر پر نہین چڑھاتے۔۔۔ تم جانو تمہارا کام۔۔۔ جب کبھی ملاقات ہوئی علیک سلیک کر لی۔ بس لکھ لو۔۔۔"
خان صاحب کی گفتگو سے کچھ پھریری سی آئی۔ گھر میں آیا تو خانم کو پھول کی طرح کھلا ہوا پایا۔ لاحول ولا قوۃ۔
شطرنج جائے چولھے میں۔ اتنی اچھی بیوی سے شطرنج کے پیچھے لڑنا حماقت ہے۔ کون لڑے۔


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۴
گول کرو۔
کسی نے سچ کہا ہے چور چوری سے جائے تو کیا ہیرا پھیری بھی چھوڑ دے۔ لگے ہاتھوں ادھر ادھر کبھی کبھار ایک دو بازیاں جم ہی جاتیں۔ کبھی خان صاحب کے یہاں پہنچ گیا تو کبھی میر صاحب کے یہاں۔ پھر بات چھپی نہیں رہتی۔ خانم کو بھی معلوم ہو گیا کہ کبھی کبھار میں کوئی جرم نہیں۔ خود خانم نے ہی کہا۔ میرا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ قسم کھانے کو بھی نہ کھیلو، کھیلو، شوق سے کھیلو، مگر ایسے کھیلو کہ کبھی کبھار ایک دو بازی وقت پر کھیل لئے کہ یہ کہ جم گئے تو اٹھتے ہی نہیں۔
خانم کو نہیں معلوم کہ "کبھی کبھار" سے اور شطرنج سے باپ مارے کا بیر ہے۔ کبھی کبھار والا بھلا کھیلنے والے کے آگے کیا جمے؟ جو لوگ مجھ سے آٹھ آٹھ ماتیں کھاتے تھے وہ الٹی مجھے آٹھ آٹھ پلانے لگے۔
دو ایک روز پھر ایسا ہوا کہ قدرے قلیل دیر سے آنا پڑا۔ خانم نے کبھی ناک بھویں سکیڑیں، کبھی ذرا چیں بہ چیں ہوئی، لیکن کبھی چپقلش کی نوبت نہ آئی بس بڑبڑا کر رہ گئیں۔ "پھر وہی شطرنج بازی۔۔۔ خان صاحب کے ساتھ۔۔۔ پھر کھیلنے لگے۔" وغیرہ وغیرہ۔ غرض اسی قسم کے جملوں تک خیریت گزری۔
(۳)
ایک روز کا ذکر ہے کہ خانم نے بزار سے بمبئی کے کام کی عمدہ عمدہ ساڑیاں منگائی تھیں۔ ایک ساڑی بیحد پسند تھی، مگر جیب میں اتنے دام نہیں۔ بار بار بے چین ہو کر وہی پسند آتی، مگر میرے پاس بھلا اتنے دام کہاں۔ کیسی اچھی ہے۔۔۔ رنگ تو دیکھو۔۔۔ بیل!۔۔۔ کیا کام ہو رہا ہے۔۔۔ اور پھر کپڑا۔۔۔ وہ جو میں دلا رہا تھا۔ اس کو طرح طرح سے گھما پھرا کر اس طرح مہنگا ثابت کیا گیا کہ سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔ ایسے موقع پر غریب شوہر کے کلیجہ پر ایک گھونسا لگتا۔ دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ "ظالم تجھے کیا خبر میرا بس چلے تو جہان لے دوں مگر کیا کروں۔ بیوی بھی بے بسی کو دیکھتی ہے۔ مجبوری کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ ایک سانس لے کر چپ سی ہو جاتی ہے۔ مرد کے لئے شائد اس سے زیادہ کوئی تکلیف دہ چیز نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دفعہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہ کرے اور کہیں نہ کہیں سے روپیہ پیدا کرے۔ اپنی چہیتی کا کہنا کر دے مگر وہاں تو یہ ھال ہے کہ آج ساڑی کا قصہ ہے تو کل جمپر کا اور یہ چیز ہے تو کل وہ چیز۔ کہاں تک کرے۔ بیوی بیچاری بھی کچھ مجبور نہیں کرتی مگر اس کی آنکھیں مجبور ہیں۔ زبان قابو میں ہے، مگر دل قابو میں نہیں۔ عمر کا تقاضا ہے، کیا اس سے بھی گئی گزری۔
غرض ایسا ہی موقع آیا۔ پسند کردہ ساڑھی نہ لی جا سکتی تھی اور نہ لینے کی طاقت تھی۔ مجبوراً

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۵
ایک دوسری پسند کی گئی تھی اور دام لے کر میں خود جا رہا تھا کہ کچھ نہیں تو دس پانچ روپیہ اسی میں کم کر دے اور اگر آدھے داموں میں دے دے تو پھر بڑھیا والی ہی لیتا آؤں۔
چلتے وقت خانم نے کہا : "دیکھئے ادھر سے جائیے گا۔ ادھر سے ہو کر۔" انگلی کے اشارہ سے کہا۔ اس سے یہ مطلب تھا کہ دوسری سڑک سے یعنی خان صاحب کے گھر سے بچتے ہوئے کہ شطرنج نہ کھیلنے لگوں۔ میرا ارادہ شطرنج کا نہ تھا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ "اب ایسا دیوانہ بھی نہیں کہ کام سے جا رہا ہوں اور چھوڑ چھاڑ شطرنج پر ڈٹ جاؤں۔"
خان صاھب کی بیٹھک کے سامنے سے گزرا تو دیکھوں کہ کچھ بھیڑ بھڑکا ہے۔ جی نہ مانا، رفتار کچھ ہلکی ہی تھی۔ آواز سن کر خان صاحب ننگے پیر چوکھٹ پر کھڑے ہو کر چلائے۔ "اجی مرزا صاحب" اونگھتے کو ٹھیلنے کا بہانہ، سائکل کا انجن روک دیا اور اتر پڑا۔
"دور ہی دور سے چلے جاؤ گے۔ ایسا بھی کیا ہے۔" یہ کہہ کر خان صاحب نے ہاتھ پکڑ کر مونڈھے پر بٹھایا ۔ ایک نئے شاطر آئے ہوئے تھے۔ دو یا تین ماتیں میر صاحب کو دے چکے تھے۔ اب ایک اور صاحب ڈٹے ہوئے تھے۔ بڑے زور کی بازی ہو رہی تھی۔ دونوں بازیاں برابر کی تھیں۔ گزشہ بازیوں کی خان صاحب نے تفصیل سنائی۔ میر صاحب نے بتایا کہ کس طرح پہلی بازی میں خان صاحب نے ایک غلط چال بتا کر ان کا گھوڑا پٹوا دیا اور پھر کس طرح دھوکہ میں خود انہوں نے اپنا رخ پیدل کے منہ میں رکھ دیا۔ ورنہ وہ بازی میر صاحب ضرور جیت جاتے بلکہ جیت ہی گئے تھے۔ کیونکہ قلعہ دشمن کا توڑ ہی دیا تھا اور بادشاہ زچ بیٹھا تھا۔ بس ایک گھوڑے کی شہ کی دیر تھی کہ غلطی سے پیدل کے منہ میں رخ رکھ دیا۔ ورنہ گھوڑا کم ہونے پر بھی انہوں نے مات کر دی ہوی۔ نئے شاطر نے کچھ اس کی تردید کی، وہ دراصل کافی دیر کرتے مگر مجبوری تھی اور کھیل میں منہمک تھے۔ دوسری بازی کی تفصیل بھی میر صاحب سنانا چاہتے تھے کہ کن غیر معمولی وجوہات سے اتفاقاً یہ بازی بھی بگڑ گئی،، مگر اب موجودہ کھیل زیادہ دلچسپ ہوا جا رہا تھا۔
بازی بہت جلد ختم ہو گئی اور نئے شاطر پھر جیتے۔ میں خان صاحب سے یہ کہتا ہوا اتھا کہ "ابھی آیا کچھ کپڑا لے آؤں۔" خان صاحب نے بڑے پختہ وعدے لئے جب جا کر چھوڑا۔ کپڑے والے کی دکان پر پہنچا اور ساڑھی خریدی۔ دام نقد ہی دے دیے۔ لالہ صاحب بہت معقول آدمی تھے اور بقول ان کے تمام کپڑے مجھے دام کے دام پہ دے دیتے تھے۔
دکان سے ساڑھی لے کر واپس آیا اور خان صاحب کے یہاں شطرنج دیکھنے لگا۔ بڑے کانٹے کی شطرنج کٹ رہی تھی۔ کیونکہ میر صاحب نے ان نوارد شاطر کر ایک مات دی تھی اور اب دوسری بازی بھی چڑھی ہوئی تھی۔
میرے بتانے پر نوارد صاحب نے بھنا کر میری طرف دیکھا اور کہا : "بولنے کی نہیں ہے

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۶
صاجب۔" خان صاحب تیز ہو کر بولے۔ "میر صاحب کیا اندھے ہیں؟ کیا انہیں اتنا نہیں دکھائی دیتا کہ مہرہ پٹ رہا ہے۔ کیا وہ ایسے اناڑی ہیں؟"
"آپ اور بھی بتائے دیتے ہیں" نوارد نے کہا۔ ادھر صاحب واقعی اندھے ہو رہے تھے اور اگر خان صاحب نہ بولتے تو گھوڑا مفت پٹ گیا ہوتا۔ وہ گھوڑے کو پٹتا چھوڑ کر رخ چل رہےتھے۔ اب رخ کی چال واپس کر کے انہوں نے گھوڑا پکڑا۔
"چال ہو گئی۔" نووارد نے بگڑ کر کہا۔ "چال کی واپسی نہیں۔"
میر صاحب جل کر بولے: "جھوٹی موٹی تھوڑی ہو رہا ہے۔ شطرنج ہو رہی ہے۔ چال کی واپسی کی برابر نہیں، مگر میں نے چال بھی تو نہیں چلی۔ میں نے رخ کو چھوا اور چال ہو گئی؟ یہ کیا؟ ۔۔۔ روتے ہو۔۔۔"
"جی نہیں۔" نووارد نے کہا۔ "چال ہو گئی آپ کو رخ وہی رکھنا پڑے گا۔ میں چال واپس نہیں دوں گا۔ یہ کہہ کر رخ اٹھا کر اس جگہ رکھ لیا اور میر صاحب نے پھر واپس رکھ لیا۔ تیز ہو کر نووارد نے جھنجھلا کر کہا۔ "جی نہیں چلنا پڑے گا۔" اور پھر اپنی چال بھی چال دہ۔ یعنی رخ سے میر صاحب کا گھوڑا مار مٹھی میں مضبوط پکڑ لیا۔
میر صاحب نے اور خان صاحب نے ہلڑ سا مچایا۔ میر صاحب کو جو تاؤ آیا تو گھوڑے کو رخ سے مار دیا۔ نووارد نے رخ کو رخ سے مارا تو خان صاحب نے غصہ میں اپنے وزیر سے مخالف کے فیل کو دیدہ و دانستہ مار کر وزیر کو پٹا مہرے بساط پر یہ کہہ کر پٹک دیئے "شطرنج کھیلتے ہو کہ روتے ہو؟ یہ لو میں ایسے اناڑیوں سے نہیں کھیلتا۔"
اب میں بیٹھا، مگر نہ میر صاحب کی زبان قابو میں تھی اور نہ خان صاحب کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میر صاحب میرے مہرے اٹھا اٹھا کر چلنے لگے۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام، وہ مضمون اس بازی کا ہوا۔ شیخ جی (نووارد) ویسے بھی اچھی شطرنج کھیلتے تھے، بازی بگڑنے لگی کہ میر صاحب نے پھر ایک چال واپس کی۔ شیخ جی نے ہاتھ پکڑ لیا حالانکہ میر صاحب چال چل چکے تھے، مگر کہنے لگے کہ "ابھی تو مہرہ میرے ہاتھ میں تھا۔" خوب خوب جھائیں جھائیں ہوئی۔ شیخ جی مہرہ پھینک کر بگڑ کھڑے ہوئے، نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ جی بھاگ گئے۔ میں بھی اٹھنے کو ہوا تو میر صاحب نے کہا کہ "آو ایک بازی ہو جائے۔" میں نے گھڑی دیکھی۔ ابھی تو شام ہی تھی، میں نے جلدی جلدی مہرے جمائے کہ لاؤ ایک بازی کھیل لوں۔
میر صاحب روز کےکھیلنے واہے، جھٹ پٹ انہوں نے مار کر دیا۔ میں نے جلدی سے دوسری بچھائی۔ وقت کی بات میر صاحب نے وہ بھی مات کیا۔ تیسری بچھائی، یہ دیر تک لڑی۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۷
میری بازی چڑھی ہوئی اور میں ضرور جیت جاتا کہ میرا وزیر دھوکہ میں پٹ گیا۔ چال واپس کی ٹھہری نہیں تھی۔ یہ بھی میر صاحب جیتے۔ خوش ہو کر کہنے لگے۔ "اب تم سے کیا کھیلیں، ہماری شطرنج خراب ہوتی ہے۔ کوئی برابر والا ہو تو ایک بات تھی۔"
مجھے غصہ آ رہا تھا۔ میں نے کہا۔ "میر صاحب وہ دن بھول گئے۔ جب چار چار مات دیتا تھا اور ایک نہیں گنتا تھا۔ میری شطرنج چھوٹی ہوئی ہے۔"
میر صاحب نے اور میری جان جلائی کہنے لگے۔ "ہار جاتے ہیں تو سب یوں ہی کہتے ہیں"
غرض پھر ہونے لگی، اب میں جیتا۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ تینوں بازیاں اتار دو اور میں نے دو اتار دیں اور تیسری زور سے جمی ہوئی تھی کہ خان صاحب نے سر اٹھا کر باہر جھانکا۔ "کون ہے؟" انہوں نے کہا اور سارس کی سی گردن اونچی کر کے دیکھا اور کہا :
"لیجیے۔" کچھ طنزاً کہا۔ "لیجئے وہ ایلچی آ گیا۔"
یہ میرا ملازم احمد تھا۔ وہ جا رہا تھا۔ میں نے آواز دے کر بلایا۔
"کیوں کیسے آئے۔"
"کچھ نہیں صاحب۔۔۔ دیکھنے بھیجا تھا۔"
"اور کچھ کہا تھا؟"
"جی نہیں بس یہی کہا تھا کہ دیکھ کے چلے آنا۔۔۔ جلدی سے۔"
"تو دیکھو" میں نے کہا۔ "کہا کہو گے جا کے؟۔۔۔ یہ کہنا کہ خان صاحب کے یہاں نہیں تھے۔ یوسف صاحب کے یہاں تھے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ تم سے تو یہی کہا ہے کہ خان صاحب کے یہاں دیکھ لینا۔۔۔ تو بس یہی کہہ دینا نہیں تھے۔۔۔ دیکھو۔۔۔"
"لا حول ولا قوۃ" خان صاحب نے بگڑ کر کہا۔ "ارے میاں تم آدمی ہو کہ پنج شاخہ! بیوی نہ ہوئی نعوذ باللہ وہ گئی۔ نہیں جی۔" خان صاحب نے غصہ سے احمد سے کہا۔ "جاؤ کہنا خان کے یہاں بیٹھے شطرنج کھیل رہے ہیں اور ایسے ہی کھیلیں گے۔"
"نہیں نہیں دیکھو۔۔۔" میں نے کہا مگر خان صاحب نے جملہ کاٹ دیا۔
"جاؤ یہاں سے کہہ دینا شطرنج کھیل رہے ہیں۔"
"مت کہنا۔" میں نے کہا۔ "ابھی آتا ہوں۔"
احمد چلا گیا اور اب خان صاحب نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ بہت سی انہوں نے تجویزیں میرے سامنے پیش کیں، مثلاً یہ کہ "میں ڈوب مروں۔۔۔ دوسری شادی کر لوں۔۔۔ گھر چھوڑ دوں۔۔۔ یہ سب محض اس وجہ سے کہ ایسی زندگی سے کہ بیوی کی سخت گیری کی وجہ سے شطرنج کھیلنا نہ ملے، موت سے بدرجہا بہتر۔
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۸
غرض اسی حجت اور بحث میں میرا ایک رخ پٹ گیا اور میری بازی بگڑنے لگی کہ میں نے میر صاحب کا وزیر مار لیا۔
میر صاحب غصہ ہو کر پھاند پڑھ۔ "ادھر لاؤ وزیر۔۔۔ ہاتھ سے وزیر چھینتے ہو۔ ابھی تو میرے ہاتھ میں ہی تھا۔"
"اس کی نہیں ہے۔" میں نے کہا۔ "وزیر واپس نہیں دوں گا۔ ابھی ابھی تم نے مجھ سے گھوڑے والا پیدل زبردستی چلوا لیا تھا اور اب اپنی دفعہ یوں کہتے ہو! میں نہیں دوں گا۔"
خان صاحب بھی میر صاحب کی طرف داری کرنے لگے۔ مگر یہ آخری بازی تھی جس سے میں برابر ہوا جا رہا تھا، لہذا میں نے کہا کہ میں ہرگز ہرگز چال واپس نہ دوں گا۔ خوب خوب حجت ہوئی، گزشتہ پرانی بازیوں کا ذکر کیا گیا۔ مجھے ان سے شکایت تھی کہ پرانی ماتیں جو میں نے ان کو دی تھیں وہ بھول گئے اور یہی شکایت ان کو مجھ سے تھی۔ پرانی ماتوں کا نہ میں نے اقبال کیا اور نہ انہوں نے۔ بالاخر جب یہ طے ہو گیا کہ میں وزیر واپس نہیں دوں گا تو میر صاحب نے مہرے پھینک کر قسم کھائی کہ اب مجھ سے کبھی نہ کھیلیں گے، لعنت ہے اس کے اوپر جو تم سے کبھی کھیلے۔ بے ایمان کہیں کے، تف ہے اس کم بخت پر جو تم سے اب کھیلے۔"
میں نے بھی اسی قسم کے الفاظ دہرائے اور نہایت بدمزگی سے ہم دونوں اتھنے لگے۔ خان صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔ بھئی یہ تو کچھ نہ ہوا برابر برابر ہو گئی۔ ایک کو ہارنا چاہیے۔" اس پر میر صاحب بقولے کہ میں جیتا اور میں بولا کہ یہ غلط کہتے ہیں، برابر ہے، خان صاحب نے کہا کہ اچھا، ایک بازی اور ہو، مگر میر صاحب کہنے لگے: "تو یہ ہے، ارے میاں خان صاحب تم مسلمان ہو اور میرا یقین نہیں کرتے میں قسم کھا چکا، لعنت ہو اس پر جو اب ان سے کھیلے۔"
میں نے میر صاحب سے طنزاً کہا : "میر صاحب قبلہ یہ شطرنج ہےً اس کو شطرنج کہتے ہیں۔ مذاق نباشد۔ ابھی سیکھئے کچھ دن۔"
"ارےجاؤ۔" میر صاحب بولے۔ "بہت کھلاڑی دیکھے ہیں۔ نہ معلوم تم سے کتنوں کو سکھا کر چھوڑ دیا۔ ابھی کچھ دن اور کھیلو۔" اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اٹھ کر چلے گئے۔ خان صاحب میرے لیے پان لینے گئے ، میں اپنی سائکل کے پاس پہنچا اور بتی جلائی۔ اتنے میں خان صاحب پان لے کر آ گئے اور میں چل دیا۔
بمشکل سامنے کے موڑ پر پہنچا ہوں گا کہ سامنے سے ایک آدمی نے ہاتھ سے مجھے روکا۔ میں رک گیا تو اس نے پیچھے اشارہ کیا۔ مڑ کر دیکھتا ہوں کہ میر صاحب چلاتے بھاگتےآتے ہیں۔ "اچھی مرزا صاحب، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔" میر صاحب ہانپتے ہوئے بولے۔ "واللہ میں نے اچھی طرح حساب کیا کعبہ کے رخ ہاتھ اٹھا کر کہتا ہوں میری دو بازیاں اس آخری بازی کو چھوڑ

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۶۹
کر تمہارے اوپر چڑھی رہیں۔"
میں نے کہا : "بالکل غلط، بلکہ میری ہی آپ پر ہوں گی۔ آپ وہ اس اتوار والی بازی بھی لگاتے ہوں گے، وہ جس میں آپ کا رخ کم تھا۔"
"کیوں نہیں ضرور لگاؤں گا۔" میر صاحب نے کہا۔
"یہ کیسے۔" میں نے کہا۔ "خوب! خان صاحب کی بازی اگر میں دیکھنے لگا اور ایک آدھ چال بتا دی تو وہ مات مجھے کیسے ہوئی۔"
"اچھا وہ بھی جانے دو خیر تو پھر ایک تو رہی۔"
"وہ کون سی؟"
"وہ جو شوکت صاحب کے یہاں ہوئی تھی۔"
"کون سی، کون سی مجھے یاد نہیں۔"
"ہاں ہاں بھلا ایسی باتیں تمہیں کیوں یاد رہنےلگیں، ایسے بچہ ہو نہ ہو۔"
"مجھے تو یاد نہیں میر صاحب۔" میں نے کہا۔ "ہمیشہ آپ کو مات دے کر چھوڑ کر اٹھا ہوں یا اتار کر، ورنہ آپ پر چڑھا کر۔"
"ارے میاں ایک روز سب کو مرنا ہے۔ کیوں اپنی عاقبت ایک بازی شطرنج کے پیچھے خراب کرتے ہو۔ ذرا خدا اور رسولﷺ سے نہیں ڈرتے۔ شرم نہیں آتی، مات پہ مات کھاتے ہو اور بھول جاتے ہو۔"
"میر صاھب۔" میں نے کہا۔ "آپ تو تین جنم لیں تب بھی مجھے مات دینے کا خواب نہین دیکھ سکتے۔ وہ اور بات ہے کہ بھول چوک میں ایک آدھ بازی پڑی مل جائے۔"
"ارے تم بیچارے کیا کھا کے کھیلو گے۔ گھر والی تو قابو میں آتی نہیں۔ میاں شطرنج کھیلنے چلے ہیں۔ اب دس برس رخ اٹھا کے کھلاؤں۔ کیا بتاؤں قسم کھا چکا ہوں ورنہ ابھی بتا دیتا۔"
"میر صاحب یہ شطرنج ہے۔" میں نے طنزاً کہا۔ "کبھی خوب میں بھی جیتے ہو؟"
"کیا قسم میری تم تڑواؤ گے؟"
"ابھی شطرنج سیکھئے۔" یہ کہہ کر میں نے پیر مار کے انجن اسٹارٹ کر دیا اور سائیکل کو آگے بڑھایا۔
"تو پھر ایک بازی میر رہی۔" میر صاحب ہینڈل پکڑ کر بولے۔
"غلط بات۔" میں نے کہا۔
لیکن ،میر صاحب نے سائیکل کو روک کر کھڑا کر دیا اور بولے۔ "ماننا پڑے گی۔"
میں نے کہا : "نہیں مانتا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
عطیم بیگ چغتائی کے افسانے صفحہ 60 تا 60 کی ورڈ فائل منسلک ہے۔
 

Attachments

  • Azim Baig P60 to 69.ZIP
    27.6 KB · مناظر: 2

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۲
نمبر ۱۲ یہ تو نمبر ۱۳ جوتوں کی دکان ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔"
میں "جوتوں کی دکان ہے!"
نمبر ۱۳۔ "جی ہاں۔"
میں۔ "اچھا تو پھر جوتوں کا نرخ ذرا بتا دیجئے گا۔"
کیا عرض کروں کہ کیا کچھ ان کانوں نے سنا، وہ وہ مغلضات سننے میں آئی ہیں کہ بیان سے باہر۔
اس نسخے کو دریافت ہونا تھا کہ ایک نیا سلسلہ چھڑ گیا۔ نمبر ۱۳ سے سلسلہ ملوا کر کوئی تو حکیم جی کو پوچھتا ہے تو کوئی پیر جی کو، اور کوئی شیخ جی کو پوچھتا ہے، تو کوئی پنڈت جی کو اور پھر اس میں لوگوں نے وہ وہ اختراعیں کی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کوئی کہتا ہے کہ "میں گھڑی شام کو بھیج دوں گا۔" نمبر ۱۳ کہتے ہیں کیسی گھڑی۔ آپ کو غلطی ہوئی ہے۔ وہ بات کرنے والا اپنی غلطی معلوم کرتے ہی جوتوں کا نرخ پوچھتا ہے۔
ایک صاحب نے تو حد ہی کر دی۔ بڑی لمبی چوڑی تمہید اٹھانے کے بعد بڑی دیر میں جوتوں کا نرخ اس قدر گھما پھرا کر پوچھا ہے کہ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ نہ معلوم انہوں نے کس طرح بہلا پھسلا کر نمبر ۱۳ سے کسی صاحب کے مکان یا محلے کا راستہ ٹیلی فون پر پوچھنا شروع کر دیا اور جب وہ بتا چکے تو اس کے بعد شکریہ ادا کر کے جوتوں کا نرخ پوچھا۔
نتیجہ اس کا ظاہر ہے۔ اسی مہینے میں نمبر ۱۳ نے تیلی فون اپنے یہاں سے اٹھوا دیا۔ یہ تو خیر ہونا ہی تھا مگر بیسویں صدی کی اس بہترین ایجاد سے اصل فائدہ کسی اور نے اٹھایا۔ کسی ڈاکٹر صاحب نے تیلی فون لیا۔ نمبر ۱۳ خالی تھ لہذا قاعدہ کے مطابق ان کو نمبر ۱۳ دیا گیا۔ لوگوں کو یہ کیا پتہ کہ نمبر ۱۳ پر اب کون ہے۔ لگے سب کے سب ڈاکٹر صاحب کی "کاری" کرنے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کیا مصیبت آئی کہ نہ لڑنے سے کام چلتا ہے نہ جھگڑنے سے نجات ملتی ہے تو بوکھلا کر انہوں نے اپنا نمبر بدلوایا۔ محکمے کو مجبوراً نمبر ۱۳ ایک عرصے تک خالی رکھنا پڑا۔ جب جا کر اس مصیبت کا خاتمہ ہوا۔
یہ ہے ان فوائد کا تھوڑا سا ذکر جن کی وجہ سے ٹیلی فون کو بیسویں صدی کی بہترین ایجاد تسلیم کرنا پڑتا۔ لیکن میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ نو میں موذی ہوں نہ کوئی بلا ہوں۔ ہاں تیلی فون کے ایک سیٹ کا البتہ مالک ہوں۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۳
خواب بیداری
پہلا حملہ
والد صاحب قبلہ کے حقے کی گڑگڑاہٹ اور والدہ صاحبہ کی چھالیہ کترنے کی آواز بند ہو چکی تھی۔۔۔ لالٹین تو پہلے ہی گل کر دی گئی تھی۔۔۔
رات اندھیری اور غمناک سی تھی۔ چاروں طرف گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اور ہوا ایک تیزی مگر روانی کے ساتھ چل رہی تھی۔ آسمان پر تاریکی کا دل بادل چھایا ہوا تھا۔ ہوا کی جنبش اور سرسراہٹ کے ساتھ آسمان کی چادروں پر سیاہی کی چادریں پھیلتی معلوم ہوتی تھیں۔ نہایت ہی "سیاہ" اور بھیانک رات تھی۔۔۔ میں۔۔۔ لیکن میں جاگ رہا تھا۔
چھت پر سے سامنے کا منظر!
دور تک ویران اور خشک پہاڑیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ جو رات کی تاریکی میں ڈوب کر رہ گیا تھا اور اس وقت اندھیرے میں ایک سیاہ اور خوفناک اجگر کا تخیل معلوم ہوتا تھا۔
میں نے غور سے پہاڑ کی طرف دیکھا۔ سیاہی اور تاریکی! ہوا کی۔۔۔ لرزش اور پیچ در پیچ تاریکی کے دھوئیں میں آنکھوں نے قدیم مقبرے کے بلند مینار کو ڈھونڈ لیا جو کہ تاریکی کے خون آشام دیو کی منحوس اور خاموش انگلی کی طرح پہاڑیوں کی فضا کی متزلزل تاریکی میں ہوا کی جنبش کے ساتھ بل کھاتا معلوم دیتا تھا۔
مجھے ایک پھریری سی آئی۔ اس اندھیر رات میں مسجد سے ملحق مقبرہ اور عمارتوں کے کھنڈروں کا نقشہ اپنی تمام ویرانگی اور نحوست کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ تاریکی۔ نحوست۔ کھنڈر۔ ویرانہ۔
شیر شاہ سوری کے زمانہ کی عمارتوں کے کھنڈر اس پہاڑی پر یاد رفتگان بنے ہوئے کھڑے تھے۔ کسی زمانہ میں یہاں ایک مغرور راجپوت کا قلعہ تھا جس کی شکستہ فصیلیں اور بوسیدہ دیواریں اب بھی جگہ بہ جگہ کھڑی رہ گئی تھیں۔ قلعے کے دروازے کے نشانات کے سامنے ستی کی چھتری


 
Top