شمشاد
لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۴
سی بنی ہوئی تھی اور دور تک ڈھلوان زمین چلی گئی تھی کہ جس کے اختتام پر شاہی مسجد اور کھنڈروں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ ان کھنڈروں میں خاص چیزیں دو تھیں۔ ایک تو سیاہ باؤلی اور دوسری تاریک سرنگ۔ سرنگ کے بارے میں طے تھا کہ جو اس میں گیا واپس نہ آیا۔ اور باؤلی کے بارے میں طرح طرح کی روایات مشہور تھیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ محبت کی ماری ستی اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ جل مرنے کے بعد اب اسی سیاہ باؤلی میں رہتی تھی اور اسی کی مناسبت سے یہ خوفناک باؤلی ستی کی باؤلی کہلاتی تھی۔
جہاں دن کو جاتے دہشت معلوم دے وہاں اس وقت کیا عالم ہو گا! میں سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ رات کی اندھیری تھی۔۔۔ تاریکی کے ہیبت ناک دیوتا کا راج تھا۔۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی پروائی ہوا ایک نظام کے ماتحت گویا بہہ رہی تھی۔۔۔ عالم کائنات ایک متزلزل اور تاریک سا خوب۔۔۔ ستی کی باؤلی۔۔۔ کھنڈر۔۔۔ دہشت۔۔۔ ستی۔۔۔ باؤلی۔۔۔ محبت۔۔۔ مگر جنت۔
رات ڈھل چکی تھی۔۔۔ تاریکی۔۔۔ خوفناک تاریکی میں بل کھا کر ایک نور کی سی لرزش پیدا ہوئی۔ ایک مختصر تلاطم۔۔۔ کشمکش۔۔۔ فضا کچھ متزلزل سی ہوئی۔ تاریکی کی خوفناک اور سیاہ چادروں کو لرزش سی ہوکئی۔۔۔ ایک دلربا ترنم کے ساتھ فضا میں حرکت سی ہوئی۔۔۔ آواز آئی۔۔۔ پیچ در پیچ دھوئیں کو آہستہ سے چیر کر ایک مسکراتا ہوا نورانی چہرہ نکلا! دھوئیں کے ہیولے میں رقصاں و لرزاں! چاند کی طرح سیاہ بدلیوں سے آنکھ مچولی۔۔۔ چشم زدن میں اس پاکیزہ اور معصوم چہرہ کے ارد گرد ایک عجیب و غریب دھواں سے پھیلتا ہوا معلوم ہوا۔۔۔
میرے منہ سے دفعتہً نکلا "جنت"، دل مارے خوشی کے بلیوں اچھل رہا تھا۔ میں نے پھر کہا "جنت" اور اٹھ بیٹھا۔۔۔ چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔۔۔ ایک خاموش طلسم تھا کہ چہرے کی سنجیدگی میں آنکھیں نین باز تھیں۔
میں نے پھر کہا۔ "جنت۔۔۔ کھیلو گی نہیں۔"
بجائے جواب ملنے کے چہرے کو حرکت ہوئی جیسے پانی پر ناؤ کو اس وقت حرکت ہوتی ہے جب وہ کنارہ سے روانہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جنت کا چہرہ بالکل اسی خاموشی اور اسی سکون کے ساتھ گویا کہ تاریکی میں آہستہ آہستہ۔۔۔ آہستہ آہستہ بہا جا رہا ہے۔
"کدھر؟" میرے منہ سے عالم بے اختیاری میں نکلا۔ اور ساتھ ہی میں اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔ بستر سے اٹھا۔۔۔ جنت کے خوبصورت اور نورانی چہرہ کے تعاقت میں۔۔۔ چھت پر سے نیچھے آیا۔۔۔ کنڈی کھولی۔۔۔ دروازہ سے باہر نکلا۔۔۔ جنت کا معصوم چہرہ آگے اور میں پیچھے!
سنسان گلیاں منٹوں میں طے ہوئیں۔ اب جنت کا چہرہ آگے اور میں پیچھے۔۔۔ ستی کی باؤلی کی طرف چلا جا رہا تھا! جنت کا چہرہ میری رہنمائی کر رہا تھا وہ بہا چلا جا رہا تھا۔ اور میں اس کے