عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
تُم نہیں ہو بَتا دِیا ہوتا
سارا جھگڑا مِٹا دِیا ہوتا

مُجھ سے رہتے ہزار، کوسوں دُور
پر یہ پردہ ہٹا دِیا ہوتا

یہ جو سینے میں دِل رکھا میرے
ایک پتھر رکھا دِیا ہوتا

اپنے در سے نہ مُجھ اُٹھاتے کاش
اس جہاں سے اُٹھا دِیا ہوتا

کُچھ تو کرتے دوا مرے دُکھ کی
ورنہ دارُو بَتا دِیا ہوتا

اُن سے وعدوں کا پاس رکهتا ہوں
جن کو شاید بُھلا دِیا ہوتا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
چاہتیں اور تیرے سوا کیا کریں
ہیں ترے عشق میں مبتلا کیا کریں

بُھول جائیں غمِ دہر کی داستاں
ہم مگر اپنے بارے کہا کیا کریں

دی ہمیں زندگی بھی تو ہجراں میں دی
وصل کو موت سے ہم جُدا کیا کریں

رو لِیا پیٹ سینہ ، گریبان چاک
چاک در چاک تو ہی بَتا کیا کریں

ہم سے مجبور چاہیں بُتوں کو بھی کیا
ہم سے بے بس خُدا اے خُدا کیا کریں

صرف رسوائی پلڑے میں باندھی ، ہمیں
ہم تری شہرتوں کا بھلا کیا کریں

کب ہیں مایُوس صاحب ہمیں بخت سے
جو ہُوا سو ہُوا ، ہو چُکا کیا کریں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کیا ترے ساتھ کُفر کرتے ہیں
ہم جو اپنے لئے سنورتے ہیں

تُو نے دیکھا نہ اک نظر ہم کو
ہم تِری بے رُخی پہ مرتے ہیں

بول اُٹھو کہ ہم کہاں جائیں
جو تِرے شہر سے گُزرتے ہیں

اِک نظر دیکھ لو ہمیں ظالم
ہر تِرے ظلم سے مکرتے ہیں

اپنی جاں پر یقیں نہیں لیکن
جا تِرا اعتبار کرتے ہیں

ہر طرح سے ہمیں ستا کر، وہ
اب دِل و جان میں اُترتے ہیں

کیا سُدھارو گے تُم ہمیں واعظ
ہم سے بِگڑے کہاں سُدھرتے ہیں

پچھلے وعدوں کو بُھول جاؤ اب
پھر سے قول قرار کرتے ہیں

ہم ہیں صاحب عجیب دیوانے
اپنی دیوانگی سے ڈرتے ہیں
 

عظیم

محفلین
جب محبت کسی سے ہوتی ہے
نفرت اِس زندگی سے ہوتی ہے

آسماں کیا یہ دُشمنی تیری
ہم سے ہر آدمی سے ہوتی ہے

دِل کی دھڑکن ذرا ٹھہرنا تو
زندگی موت ہی سے ہوتی ہے

ہم نہ اپنے سے بات کرتے ہیں
گفتگو اجنبی سے ہوتی ہے

کیا تمنا کریں سوا تیرے
کیا تمنا کسی سے ہوتی ہے

کیسے بتلائیں اِس زمانے کو
بات جو شاعری سے ہوتی ہے

کفر ہوتا ہے آج سج دھج کے
بندگی سادگی سے ہوتی ہے

ہم جو رُسوا ہیں اُن کی محفل میں
اپنی شہرت اِسی سے ہوتی ہے

صاحب اپنا اندھیر بول اُٹھا
روشنی روشنی سے ہوتی ہے
 

عظیم

محفلین
اب گلہ کیا ہو بے وفائی کا
آپ سے آپ کی خُدائی کا

منہ پہ مُسکان ہے نہ جانے کیا
رنگ آیا مِری دُہائی کا

تُم کسی طور سے نہیں مانے
مُجھ کو جھگڑا ہے پارسائی کا

لمحہ لمحہ قیامتیں ٹوٹِیں
ٹُوٹے کاسہ مِری گدائی کا

قُرب کی ساعتوں میں در آیا
حُزن تک آپ سے جُدائی کا

کیا لطائفِ جاں کہوں یارو !
ایک پایا ہے چار پائی کا

خُوش ہُوں صاحب عطائے ربی سے
مُجھ کو بخشا ہے غم خُدائی کا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کہاں تک تاب لائیں ہم بتا دو
رُخِ روشن سے یہ پردہ ہٹا دو

تمہاری آرزو میں مر چلے ہیں
کہ جیتے جی ہمیں جینا سِکھا دو

تمہیں ہے واسطہ اپنی انا کا
ہماری خاکساری کی جزا دو

معاذاللہ ہُوا جاتا ہُوں کافر
بُتِ کافر تمہیں کوئی دُعا دو

ہُوں کیا اُس کی نگاہوں میں رقیبو
خُدا کے واسطے اتنا بتا دو

کہاں لے جاؤں مَیں اپنا یہ لاشہ
مرے قاتل مُجھے تیرا پتا دو

عظیم اُس کا کہا مانو اگر ہو
تمہیں ممکن زمانے کو بُھلا دو
 

عظیم

محفلین
دُنیا سے دُور کردو خُود سے جُدا نہ کرنا
مُجھ پر یہ ظلم ایسا میرے خُدا نہ کرنا

۔۔۔

تُم سے یہ التجا ہے سہہ نہ سکوں مَیں جن کو
اپنے وہ غم مُجھے تُم ہرگز عطا نہ کرنا

اتنا تو حق ہے تُم پر مانگوں تمہیں تمہیں سے
لیکن خُوشی تمہاری حق تُم ادا نہ کرنا

دیکھوں بھی کس کی جانب آنکھیں بھی کس سے موڑوں
خوابوں کی سلطنت ہے نیندیں ہوا نہ کرنا

مالک مرے میں تُم سے اتنا ہی چاہتا ہُوں
بخشی جو قید مُجھ کو اُس سے رہا نہ کرنا

جاؤں گا ناچتا مَیں گاتا جہاں وہ ہوگا
لوگو مگر نہیں ہے میرا پتا نہ کرنا

صاحب جہان سارا دیکھا سا لگ رہا ہے
دیکھو تُم اِس کے بارے ہم سے کہا نہ کرنا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جانے کِس کو پُکارتا ہُوں مَیں
یہ جو لہجہ سُدھارتا ہُوں مَیں

تنگ آیا ہُوں زندگی تُجھ سے
اس لِئے خُود کو مارتا ہُوں مَیں

میری مجبوریوں کو سمجھو بھی
جیتنے پر بھی ہارتا ہُوں مَیں

تُجھ سے کوئی گلہ نہیں مُجھ کو
شعر یُوں ہی بگارتا ہُوں میں

اب چلے آؤ بھی کہ روز و شب
صرف تُم کو پکارتا ہُوں مَیں

ایک پل میں ، تمہارے ہجراں کے
لاکھ صدیاں گُزارتا ہُوں مَیں

آہ صاحب نہ جانے کیا ہے عشق
خُود کو کتنا سنوارتا ہُوں مَیں
 

عظیم

محفلین
راہ تکتا ہے یار جانے دو
اے غمِ روزگار جانے دو

تُم ہماری خبر کو کیا پہنچو
دشمنوں سے ہو یار جانے دو

کل کسے دیکھنے کی مہلت ہے
آج ہی تُجھ نثار جانے دو

تُم کہاں اور کہاں وہ اُس کی چاہ
اے دِلِ بے قرار جانے دو

نقد چکتا کِیا مری جاں کا
وہ یہ بولے اُدھار جانے دو

بس کرو ہو چُکا بہت صاحب
حسرتِ دید یار جانے دو
 

عظیم

محفلین
اُس کی خاطر سوال ہے بابا
کس کو اپنا خیال ہے بابا

مَیں کہاں اور آرزو اُس کی
کب یہ میری مجال ہے بابا

رات دن ہُوں مگر اُسی دُھن میں
جس کا دھننا محال ہے بابا

دل سمبھلتا نہیں سمبھالے سے
روح تک اب نڈھال ہے بابا

کیسی مشکل میں گِھر گیا ہُوں مَیں
مُجھ پہ کیسا وبال ہے بابا

کاٹ کھاتی ہے تیرگی مُجھ کو
یہ بھی میری مثال ہے بابا

زندگی کیا اِسی کو کہتے ہیں
زندہ رہنا محال ہے بابا

پر نہیں وہ مری نگاہوں میں
اُس کا حسن و جمال ہے بابا

مَیں ہی سب کی خبر میں رہتا ہُوں
کس کو میرا خیال ہے بابا

حوصلہ دیجئے گا صاحب کو
غم سے بیٹا نڈھال ہے بابا
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو ذاتی مکالمے میں ارسال کرنی تھی اپنے بابا کو!!
ھسب معمول کچھ شعر بھرتی کے ہیں، کچھ عمدہ ہیں
جس کا دھننا محال ہے بابا

دھننا فعل کا دھُن سے کوئی تعلق نہیں، روئی دھنی جاتی ہے دھن نہیں!!
 

عظیم

محفلین
یہ تو ذاتی مکالمے میں ارسال کرنی تھی اپنے بابا کو!!
ھسب معمول کچھ شعر بھرتی کے ہیں، کچھ عمدہ ہیں
جس کا دھننا محال ہے بابا

دھننا فعل کا دھُن سے کوئی تعلق نہیں، روئی دھنی جاتی ہے دھن نہیں!!

جی بابا غلطی سے یہاں پوسٹ ہو گئی .
 

عظیم

محفلین
آپ سے دِل لگا کے بیٹھے ہیں
ساری دُنیا بُھلا کے بیٹھے ہیں

اُن کے آنے کی ناں خبر پہنچی
ہم کہ راہیں سجا کے بیٹھے ہیں

اپنی رُسوائیوں کے ڈر سے ہم
اتنی شہرت کما کے بیٹھے ہیں

کیا مٹاؤ گے تُم ہمیں لوگو !
ہم تو خُود کو مِٹا کے بیٹھے ہیں

وہ ہمارے نہیں ہُوئے لیکن
اُن کو اپنا بنا کے بیٹھے ہیں

یاد کرتے ہیں جن کو صبح و شام
وہ بھی ہم کو بُھلا کے بیٹھے ہیں

اے تمنا ہماری کیا ہے تُجھ
خُود سے نظریں چُرا کے بیٹھے ہیں

درد کیسا بتائیں ہم صاحب
اپنے دِل میں دبا کے بیٹھے ہیں
 

عظیم

محفلین
متاعِ جاں لٹانا چاہتا ہُوں
مَیں کب دُنیا کمانا چاہتا ہُوں

مَیں تیری عاشقی میں اے ستمگر !
نئی رسمیں نبھانا چاہتا ہُوں

کبھی میری بھی جانب ہوں نگاہیں
زمانے کو دِکھانا چاہتا ہُوں

اے بُت رو رو کے دِل کا حال سارا
تِرے آگے سُنانا چاہتا ہُوں

مُجھے تُم یاد آنے پر تُلے ہو
تمہیں مَیں بُھول جانا چاہتا ہُوں

یہ دُنیا ظلم کرتی جا رہی ہے
یہ دُنیا کو بتانا چاہتا ہُوں

بہائے اشک یاں آنکھوں سے سب نے
مَیں اپنا خُوں بہانا چاہتا ہُوں

جنوں کا حال میرے تُم نہ پوچھو
تمہیں کو ڈھونڈ لانا چاہتا ہُوں

اگر دُنیا ہے ایسی تو مَیں صاحب
یہ دُنیا چھوڑ جانا چاہتا ہُوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
زندگی ہم تُجھے کس طور بسر کر جائیں
اتنی ہمت بھی کہاں ہے کہ ہمیں مر جائیں

وہ جفاکار ہی تھے اور بھلا کیا کرتے
ہم سے جتنی ہے توقع پہ وفا کر جائیں

کیوں ڈراتے ہو ہمیں حشر کے دن سے ناصح
ہم تو اِس گردشِ ایام سے ہی ڈر جائیں

خاک چھانی ہے زمانے کی مگر کیا حاصل
کس کی حسرت میں بتاؤ تو بھلا گھر جائیں

اے غمِ دہر اب اتنا بھی ہمیں کیا ہونا
دیکھ ہم تُجھ سے کنارا نہ کہیں کر جائیں

اسقرر جینے کے ہاتھوں ہیں ستائے صاحب
ہو سکے موت کسی اور کی ہم مر جائیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اے میرے مہرباں تُجھ کو بھلایا جا نہیں سکتا
کہ مُجھ سے یہ عذابِ جاں اُٹھایا جا نہیں سکتا

ترا وعدہ ہے وہ وعدہ کہ دے کر جان بھی ظالم
ہمیں سے ناتوانوں سے نبھایا جا نہیں سکتا

کہاں اِس دشت میں ڈھونڈوں کوئی سائہ نظر آؤ
یہ مُجھ سے تیرا چھپ جانا چھپایا جا نہیں سکتا

کسے آواز دوں کوئی سنے فریاد کیوں میری
کہ مُجھ سے اِک تعلق تک نبھایا جا نہیں سکتا

کرو ہو جبر کیوں جانے اذیت کس لئے دے ہو
تمہیں معلوم ہے تم کو ہرایا جا نہیں سکتا

میں کیا جانوں مُجھے غم کیا ہے اور کیوں مسکراتا ہوں
خبر کیا مُجھ کہ میں تُجھ سے رُلایا جا نہیں سکتا

چلو تُم ہی کوئی الزام دھر کر مُجھ سزا دے دو
کہ میرا جرم اب مُجھ سے بتایا جا نہیں سکتا

کرو گے قتل جب مُجھ کو زمانے کو بتا دینا
لہو ایسے غلاموں کا بہایا جا نہیں سکتا

کہاں میں اور کہاں یہ شعر کہنے کی ادا صاحب
مگر دکھڑا نصیبوں کا سنایا جا نہیں سکتا
 
Top