عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
اور کتنا ہمیں ستاو گے
مر مٹیں گے تو باز آو گے

پاس ہو کر تم اس رگ جاں کے
کیسے کہہ دو کہ دور جاو گے

خود سے اک انتقام لینا ہے
کیوں ذرا دوستی نبهاو گے

جو تمہاری تلاش میں نکلا
کیا اسے خاک میں ملاو گے

اس ہی امید پر ہوں زندہ میں
اک نہ اک دن تو مان جاو گے

خود تو بیٹهے ہو اوٹ میں چهپ کر
اور ہمیں آئینہ دکهاو گے

ہو گیا عشق گر تمہیں صاحب
ہم بتادیں نہ چین پاو گے

 

الف عین

لائبریرین
ردیف کچھ رواں نہیں لگ رہی۔ محاورہ ’نہیں جا سکتا‘ ہے۔ ویسے غزل میں کچھ اچھے اشعار ہیں، لیکن طویل بحر کی وجہ سے بھرتی کے الفاظ بھی کافی ہیں۔ اب اس پر تنقیدی نظر خود ڈالو
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ یہ غزل تو اچھی کہہ گئے ہو میاں عظیم!!
بس دو اشعار میں اصلاح کی ضرورت ہے
اتنی ہمت بھی کہاں ہے کہ ہمیں مر جائیں
ہمیں دو طرح سے پڑھا جاتا ہے، جب کہ تمہاری مراد صرف ایک ہمیں، بمعنی ’ہم ہی‘ سے ہے۔
اتنی ہمت ہی کہاں آپ ہی ہم مر جائیں
بہتر ہو گا، اگرچہ ُہم مر‘ میں م کی تکرار کا سقم ہے۔

خاک چھانی ہے زمانے کی مگر کیا حاصل
کس کی حسرت میں بتاؤ تو بھلا گھر جائیں
دو لخت لگتا ہے، ربط ہے تو سمجھ میں نہیں آیا۔

اسقدر جینے کے ہاتھوں ہیں ستائے صاحب
ہو سکے موت کسی اور کی ہم مر جائیں
دوسرا مصرع مکمل ابلاغ نہیں دے رہا، شاید یوں ہے ’ہو سکے تو کسی اور کی موت ہو، تو ہم مر جائیں‘ لیکن ’تو‘ کے بغیر واضح نہیں ہوتا۔
باقی درست ہیں اشعار
 

عظیم

محفلین
زندگی ہم تُجھے کس طور بسر کر جائیں
اتنی ہمت بھی کہاں ہے کہ ابھی مر جائیں

وہ جفاکار ہی تھے اور بھلا کیا کرتے
ہم سے جتنی ہے توقع پہ وفا کر جائیں

کیوں ڈراتے ہو ہمیں حشر کے دن سے ناصح
ہم سے اِس گردشِ ایام سے ہی ڈر جائیں

خاک چھانی ہے زمانے کی مگر کیا حاصل
ہو چکا ہم کو بتاؤ جو بھلا گھر جائیں

اے غمِ دہر اب اتنا بھی ہمیں کیا ہونا
دیکھ ہم تُجھ سے کنارا نہ کہیں کر جائیں

اسقدر جینے کے ہاتھوں ہیں ستائے صاحب
کاش کس اور کی آئی ہی کبھی مر جائیں
 

عظیم

محفلین
ماشاء اللہ یہ غزل تو اچھی کہہ گئے ہو میاں عظیم!!
بس دو اشعار میں اصلاح کی ضرورت ہے
اتنی ہمت بھی کہاں ہے کہ ہمیں مر جائیں
ہمیں دو طرح سے پڑھا جاتا ہے، جب کہ تمہاری مراد صرف ایک ہمیں، بمعنی ’ہم ہی‘ سے ہے۔
اتنی ہمت ہی کہاں آپ ہی ہم مر جائیں
بہتر ہو گا، اگرچہ ُہم مر‘ میں م کی تکرار کا سقم ہے۔

خاک چھانی ہے زمانے کی مگر کیا حاصل
کس کی حسرت میں بتاؤ تو بھلا گھر جائیں
دو لخت لگتا ہے، ربط ہے تو سمجھ میں نہیں آیا۔

اسقدر جینے کے ہاتھوں ہیں ستائے صاحب
ہو سکے موت کسی اور کی ہم مر جائیں
دوسرا مصرع مکمل ابلاغ نہیں دے رہا، شاید یوں ہے ’ہو سکے تو کسی اور کی موت ہو، تو ہم مر جائیں‘ لیکن ’تو‘ کے بغیر واضح نہیں ہوتا۔
باقی درست ہیں اشعار


:straightface:
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور مقطع پھر دیکھو۔ مطلع یوں کہیں تو
مر گئے، تب تو باز آؤ گے؟
مقطع میں ’ہم بتا دیں’ کو بدلو

اس ہی امید پر ہوں زندہ میں
’اس ہی‘ اچھا نہیں لگتا اسی کی جگہ۔
زندہ ہوں بس اسی امید پہ میں
 

عظیم

محفلین
اور کتنا ہمیں ستاو گے
مر گئے ہم تو باز آو گے

پاس ہو کر تم اس رگ جاں کے
کیسے کہہ دو کہ دور جاو گے

خود سے اک انتقام لینا ہے
کیوں ذرا دوستی نبهاو گے

جو تمہاری تلاش میں نکلا
کیا اسے خاک میں ملاو گے

ہیں اسی آس پر ہی زندہ ہم
اک نہ اک دن تو مان جاو گے

خود تو بیٹهے ہو اوٹ میں چهپ کر
اور ہمیں آئینہ دکهاو گے

ہو گیا عشق گر تمہیں صاحب
تا قیامت نہ چین پاو گے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مقطع ارشاد ہے :cool:

اسقدر جینے کے ہاتهوں ہیں ستائے صاحب
بس میں اپنے ہو اگر آج ابهی مر جائیں
 

loneliness4ever

محفلین
مخمور بهائی مقطع : ) آپ نے تو مطلع چست کر ڈالا :p


عظیم بھائی ہوا یہ کہ آپ کی عمدہ غزل پڑھکر ایک دم یہ سطور زبان پر آگئیں
تو سوچا استاد کی نظر سے گزار دوں ۔۔۔ مگر استاد تو شاید نہیں آئے صاحب ِ دھاگہ
آپ آگئے ۔۔۔۔ معذرت اگر ناگوار گزرا ۔۔۔۔ :glasses-nerdy:
 

عظیم

محفلین
عظیم بھائی ہوا یہ کہ آپ کی عمدہ غزل پڑھکر ایک دم یہ سطور زبان پر آگئیں
تو سوچا استاد کی نظر سے گزار دوں ۔۔۔ مگر استاد تو شاید نہیں آئے صاحب ِ دھاگہ
آپ آگئے ۔۔۔۔ معذرت اگر ناگوار گزرا ۔۔۔۔ :glasses-nerdy:


کوئی بات نہیں : ) ہوتا ہے چلتا ہے دنیا ہے - یہ کس فلم کا ڈائیلاگ ہے ؟ :p
 

عظیم

محفلین
زندگی ہم تجهے کس طور بسر کر جائیں
اتنی ہمت بهی نہیں ہے کہ ہمیں مر جائیں

بابا ہمیں بطور ہم ہی -
 
Top