وقت کا دامن میرے لیے تنگ ہو رہا ہے [مجھے ایک اور پراجیکٹ کے لیے گرین سگنل دے دیا گیا ہے اور انشاء اللہ کل سے میں وہاں مصروف ہوں گی، مگر آپ لوگ اس گفتگو کو یہاں اچھے طریقے سے آگے بڑھاتے رہیے گا]
قبل اسکے کہ میں باذوق بھائی کے سوالات کا جواب دوں، میں چاہتی ہوں کہ میں قارئین کو اس مسئلے کے پس منظر سے آگاہ کر دوں، تاکہ وہ چیزوں کو اچھی طرح سے سمجھ سکیں۔
مسئلے کا بیک گراونڈ [اور بحث کس طرف جا رہی ہے]
ایک وقت آتا ہے جب انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ گفتگو کہاں سے شروع ہوئی ہے، کون کون سے فریقین کس کس طرح سے گفتگو میں آگے بڑھیں گے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
جب خاور بلال برادر سے گفتگو ہو رہی تھی تو مجھے بار بار مولانا مودودی یاد آ رہے تھے۔ میں مودودی صاحب کے قلم کی بہت فین ہوں، بہرحال انسان کی فطرت میں اختلاف رائے ہے، اس لیے کچھ مقامات پر مجھے بھی ان سے اختلاف ہے۔
1۔ ان میں سے ایک جگہ ہے کہ کچھ مقامات پر مجھے وہ نص کے مقابلے میں عقل سے ایسے ہی دلائل دیتے نظر آئے [اس بیان کو صرف میری ذاتی رائے سمجھا جائے اور ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں]۔ جب خاور بھائی سے بات ہو رہی تھی ان میں مجھے مولانا صاحب کی شبیہ ان میں نظر آ رہی تھی]
2۔ اور دوسرا یہ کہ مولانا صاحب تبرکات نبوی، شفاعت اور وسیلے کا انکار کرنے میں سعودی علماء سے زیادہ سخت ہیں۔ تو جن مقامات پر سعودی علماء ان چیزوں کا اقرار کر جاتے ہیں، وہاں پر میں نے مولانا صاحب کو عقل لڑاتے ہوئے انکا انکار کرتے دیکھا ہے۔
/////////////////////////////////////////////////
سعودی علماء کا تبرکات نبوی کا آدھا اقرار آدھا انکار
سعودی علماء نے تبرکات نبوی کا اقرار تو کیا ہے [کہ رسول ص کے بال، آپ ص سے مس شدہ کرتہ اور دیگر اشیاء یہ متبرک ہیں، مگر ایک جگہ پر آ کر وہ اسکا انکار کر رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ یہ چیز نہیں مانتے کہ جس جگہ رسول ص قیام کر لیں وہ بھی متبرک ہے۔
چنانچہ وہ جگہیں جہاں رسول ص کا قیام ہوا، پچھلی صدی کے مسلمانوں نے ان آثار کی حفاظت کی اور انہیں مقدس جانا، مگر سعودی حکومت نے ان جگہوں کو مسمار کر دیا۔ اور ایسا سعودی علماء کے فتاوی کی روشنی میں کیا گیا۔ مثلا
http://www.islam-qa.com/ پر آپ شیخ صالح اور دیگر سعودی علماء کے اس معاملے میں فتاوی پڑھ سکتے ہیں [انگلش زبان] جہاں وہ بیان کر رہے ہیں کہ یہ جن جگہوں پر رسول ص کھڑے ہوئے یا جس گھروں میں قیام کیا وہاں کوئی برکت نہیں۔
//////////////////////////////////////////////
پس منظر سمجھ لینے کے بعد اب آسان ہو گا کہ ہم باذوق برادر کے سوالات پر گفتگو کو آگے بڑھا سکیں:
معذرت کہ میں یہاں دخل در معقولات نہ کرتا۔ مگر محترمہ آپ کبھی نہ کبھی کچھ ایسی بات کر دیتی ہیں کہ مجھے وضاحت طلب کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ معاف کیجئے گا۔
کوئی ایک آیت اپنی بات کی دلیل میں بیان کیجئے گا اور پھر اس مفسر کا حوالہ ضرور دیجئے جس نے آپ جیسا خیال/قیاس بیان کیا ہو۔
ونیز ۔۔۔۔ کسی شارح حدیث کا وہ حوالہ بھی ضرور دیجئے جس میں اس نے کسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے ایسا لکھا ہو کہ : رسول ص جس جگہ بھی کھڑے ہو جاتے تھے، وہاں پر برکت کا نزول شروع ہو جاتا تھا !
باذوق برادر، پہلی بات تو یہ کہ مفسر قران یا شارح حدیث [اور وہ بھی ایسا مفسر اور ایسا شارح جسے آپ مانتے ہوں] کی شرط آپ کی اپنی ہے۔ مجھ پر جب کوئی معاملہ اس حد تک واضح ہو چکا ہو کہ جس کے بعد کم از کم اس معاملے میں تمام کے تمام نصوص سامنے آ چکے ہوں، تو پھر میرے لیے ممکن نہیں کہ میں کسی کی تقلید کروں، بلکہ یہاں اللہ تعالی مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میں خود نصوص پر غور و فکر اور تدبر کروں۔
ان جگہوں کا بابرکت ہونا کہ جہاں سے شعائر اللہ کا گذر ہو جاتا ہے
اللہ قران میں سامری کا واقعہ بیان کر رہا ہے کہ جبکہ اس نے وہ مٹی اٹھا لی تھی کہ جہاں سے حضرت جبرئیل
(علیہ السلام
) کا گذر ہوا تھا۔ اور اس نے جب یہ بابرکت مٹی اپنے بنائے ہوئے گائے کے گوسالہ میں ڈالی، تو اس کے اثر سے وہ گوسالہ بولنے لگا۔
اللہ قران میں فرما رہا ہے:
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے کہا کہ میں نے وہ دیکھا ہے جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا ہے تو میں نے نمائندہ پروردگار کے نشانِ قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھالی اور اس کو گوسالہ کے اندر ڈال دیا اور مجھے میرے نفس نے اسی طرح سمجھایا تھا (القران 20:96)
نوٹ: قران کی تقریبا تمام تفاسیر اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں نمائندہ پروردگار سے مراد جبرئیل امین
(علیہ السلام
) ہیں۔
یہ بات بھی آپ لوگ ذہنوں میں رکھیے کہ مولانا مودودی اس معاملے میں بھی کلاسیکل قدیم علماء و مفسرین کے برخلاف اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام وہاں سے گذرے تھے یا اس مٹی میں کوئی اثر پیدا ہو گیا تھا، بلکہ اسے سراسر سامری کا جھوٹ بیان کر رہے ہیں۔
جبکہ اس معاملے میں جتنی روایات ہیں [
جو آپ کو تفسیر طبری میں مل جائیں گی] یہ تمام روایات یہی بیان کر رہی ہیں کہ وہاں سے جبرئیل علیہ السلام کا گذر ہوا تھا۔
اور یہ روایات اتنی واضح ہیں کہ
مگر اس معاملے میں قران اور روایات اسقدر واضح ہیں کہ حتیٰ کہ سعودی عرب کے اردو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ شائع ہونے والے قران میں بھی انہوں نے یہ مانا ہے کہ وہاں سے جبرئیل علیہ السلام کا گذر ہوا تھا اور اسکی وجہ سے اس مٹی میں اثر پیدا ہو گیا تھا جس سے گوسالہ سے آواز آنا شروع ہو گئی۔
مزید دیکھئیے
تفسیر جلالین
تفسیر ابن عباس
احادیث مبارکہ:
نابینا صحابی کا اُس جگہ سے برکت حاصل کرنا جہاں رسولﷺ نے نماز ادا کی تھی
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے کہا مجھ سے عقیل بن خالد نے انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا مجھ سے محمود بن ربیع انصاری نے بیان کیا کہ حضرت عتبان بن مالک رسولﷺ کے صحابہ میں سے تھے اور ان انصاری لوگوں میں جو بدر کی لڑائی میں حاضر تھے۔ وہ آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میری بینائی بگڑی معلوم ہوتی ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں۔ جب مینہ برستا ہو اور وہ نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے بیچ میں ہے تو میں ان کی مسجد میں نہیں جا سکتا کہ ان کے ساتھ نماز پڑھوں۔ میں چاہتا ہوں یا رسول اللہ! آپ میرے پاس تشریف لائیے اور میرے گھر [کے ایک کونے] میں نماز پڑھ دیجئے کہ میں اس جگہ کو نماز گاہ بنا لوں۔ راوی نے کہا آنحضرتﷺ نے عتبان سےفرمایا اچھا میں ایسا کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ عتبان نے کہا پھر (دوسرے دن) صبح کو آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق دونوں مل کر دن چڑھے میرے پاس آئے۔ آنحضرتﷺ نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی۔ آپﷺ اندر آئے اور ابھی بیٹھے بھی نہیں کہ آپﷺ نے فرمایا تو اپنے گھر میں کس جگہ پسند کرتا ہے میں وہاں نماز پڑھوں؟ عتبان نے کہا میں نے آپﷺ کو گھر کا ایک کونہ بتا دیا تو آپﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا۔ ہم بھی کھڑے ہوئے اور صف باندھی۔ آپﷺ نے دو رکعات (نفل) پڑھ کر سلام پھیرا اور ہم نے کچھ حلیم تیار کر کے آپﷺ کو روک لیا (جانے نہ دیا)
صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان
باذوق برادر،
اتنی صاف و واضح حدیث کے بعد مجھے تو کسی اور کی ضرورت نہیں کہ وہ مجھے بتائے کہ نابینا صحابی نے اس لیے اُس کونے میں نماز پڑھوائی تاکہ وہ بعد میں اس جگہ کی برکت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
لیکن آپ سے التماس ہے کہ آپ اس روایت پر فتح الباری میں جو علامہ ابن حجر العسقلانی نے اُس جگہ میں برکت ہونے کی دلیل پکڑی ہے کہ جہاں رسول ص قیام کر لیں وہ یہاں پر پیش کر دیں۔
اور اردو میں جو صحیح بخاری علامہ راز کی 8 جلدوں میں پی ڈی ایف فائل میں آنلائن موجود ہے، اس میں اس حدیث کے ذیل میں پڑھ لیں کہ وہ کیسے اس سے دلیل پکڑ رہے ہیں کہ جس جگہ رسول ص قیام کر لیں وہ جگہ بابرکت ہو جاتی ہے۔
مجھے پتا ہے آپ مجھ پر ہی یہ بار ڈال دیں گے کہ میں ہی پیش کروں۔ تو ٹھیک ہے اگر آپ نے پیش نہ کیا تو پھر میں ہی پیش کر دوں گی۔
عبد اللہ ابن عمر کا رسولﷺ کے منبر سے برکت حاصل کرنا
قاضی عیاض بیان کرتے ہیں:
اور عبداللہ ابن عمر کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ، جہاں رسولﷺ تشریف فرما ہوتے تھے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔
حوالہ: الشفاء620:2
صحابی کا برکت حاصل کرنے کے لیے اس گھر میں داخل ہونا جہاں رسول ص نے قیام کیا تھا:
Narrated Abu Burda: When I came to Medina. I met Abdullah bin Salam. He said, "Will you come to me so that I may serve you with sawiq (i.e. powdered barley) and dates, and let you enter a (blessed) house in which the Prophet entered?
Sahih Bukhari, Volume 5, Book 58, Number 159
Narrated Abu Huraira:
…Then Moses asked, "O my Lord! What will be then?" He said, "Death will be then." He said, "(Let it be) now." He asked Allah that He bring him near the Sacred Land at a distance of a stone's throw. Allah's Apostle (p.b.u.h) said , "Were I there I would show you the grave of Moses by the way near the red sand hill."
Sahih Bukhari, Volume 2, Book 23, Number 423
Please also note in above tradition that how Prophet Musa (as) is wishing to be buried in a Sacred Land, while People say that it’s shirk to believe that there is any PLACE which can benefit us except Allah (swt
)
حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی پہلو رسول میں دفن ہونے کی خواہش
Narrated Hisham's father:
'Aisha said to 'Abdullah bin Az-Zubair, "Bury me with my female companions (i.e. the wives of the Prophet) and do not bury me with the Prophet in the house, for I do not like to be regarded as sanctified (just for being buried there).'
Narrated Hisham's father: 'Umar sent a message to 'Aisha, saying, "Will you allow me to be buried with my two companions (the Prophet and Abu Bakr) ?" She said, "Yes, by Allah." though it was her habit that if a man from among the companions (of the Prophet ) sent her a message asking her to allow him to be buried there, she would say, "No, by Allah, I will never give permission to anyone to be buried with them."
Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Number 428
دیکھ لیجئے نہ حضرت عائشہ کا صاف بیان ہے کہ رسول ص کے پہلو میں دفن ہونے کو صحابہ کی کمیونٹی میں بطور
sanctified دیکھا جا رہا تھا۔
Dawud ibn Salih says: "[The Caliph] Marwan [ibn al-Hakam] one day saw a man placing his face on top of the grave of the Prophet. He said: "Do you know what you are doing?" When he came near him, he realized it was Abu Ayyub al-Ansari. The latter said: "Yes; I came to the Prophet, not to a stone."
Ibn Hibban in his Sahih , Ahmad (5:422), Tabarani in his Mu`jam al-kabir (4:189) and his Awsat according to Haythami in al-Zawa'id (5:245), al-Hakim in his Mustadrak (4:515); both the latter and al-Dhahabi said it was sahih. It is also cited by al-Subki in Shifa' al-siqam (p. 126), Ibn Taymiyya in al-Muntaqa (2:261f.), and Haythami in al-Zawa'id (4:2).
Source:
Encyclopedia of Islamic Doctrine -
(Cached)
ابھی فی الحال میں بس کرتی ہوں۔ جناب ابن عمر اور مدینہ شہر کا حرم ہونا اور دیگر روایات وغیرہ انشاء اللہ کچھ دنوں کے بعد۔
ایک دعوت:
ذرا سوچئیے۔ ذرا سوچئیے۔
جب سعودی علماء مان لیتے ہیں کہ جو بھی چیز رسول ص سے مس ہو جائے وہ متبرک ہے [جیسے پیالہ، کرتہ، پانی وغیرہ]، تو پھر مجھے ذاتی حیثیت میں بہت حیرت ہے کہ وہ اس بات کا کیوں مسلسل انکار کر رہے ہیں کہ جہاں رسول ص نے قیام کیا اُس جگہ میں برکت نہیں؟ اصولی طور پر پہلی بات مان لینے کے بعد دوسری کا انکار کرنا ممکن نہیں رہتا۔
///////////////////////////////////////////////////////
امید کہ وضاحت ضرور کریں گی۔
اور یہ وضاحت مانگنے کی ضرورت اس لیے بھی پیش آ رہی ہے کہ ۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ اُس بستر کے قریب صرف ٹھہرے ہی نہیں بلکہ کافی دیر تک بستر پر بیٹھے اپنے عزیز از جان چچا سے منت کرتے رہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ ڈالیں ۔۔۔۔۔
مگر کیا ابوطالب نے کلمہ پڑھا ؟
آخر برکت کا نزول وہاں کیوں نہیں ہوا؟؟
حالانکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب چچا تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لیے یہ تک فرمایا تھا کہ : میں تب تک مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا تاوقتیکہ روک نہ دیا جاؤں
جناب ابو طالب کے متعلق میرا نظریہ یہ ہے کہ وہ مومن ہیں اور جو روایات سعید ابن مسیب سے نقل ہو رہی ہیں ان میں تضاد ہے اور بذات خود اس شخص کے متعلق صراحت ہے کہ یہ بنی امیہ کا حامی تھا۔
بہرحال ایمان ابو طالب الگ مسئلہ رہا۔ ہم موضوع پر پلٹتے ہیں۔
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ:
1۔ انبیاء کو اور مخصوص اولیاء اللہ کو اللہ نے "علم من الکتاب" عطا کیا ہے۔ [دیکھئیے آصف بن برخیا کا واقعہ قران میں جہاں جب وہ ملکہ بلقیس کے تخت کو پلک جھپکنے سے قبل لا کر حاضر کر رہے ہیں تو اللہ اس چیز کو "علم من الکتاب" [یعنی کتاب کا تھوڑا سا علم} قرار دے رہا ہے۔
2۔ اور کتاب کا یہ علم وہ علم اعظم ہے کہ جس کے ذریعے مانگی ہوئی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔
3۔ مگر یہ انبیاء اور خدا کے براہ راست منتخب اولیاء کبھی بھی خدا کی مرضی و مشیت کے خلاف نہیں جاتے اور اللہ کے بنائے ہوئے نظام میں دخل نہیں دیتے۔
اور اگر آپ اب بھی بستر کے نزدیک کھڑے ہونے کی بات کر رہے ہیں تو پھر آپ پر کاونٹر سوال اٹھ جائے گا کہ وہ نبی جو اپنے لعاب دہن سے علی کی آنکھوں کا درد ٹھیک کر دے، جو پھونک مار کر زخم کو ایسا مٹا دے کہ اسکا نام و نشان مٹ جائے اور درد کی ایک ٹیس بھی نہ اٹھے۔۔۔۔۔ تو اس نبی کے جب اپنے منہ کے دانت پتھر لگنے سے ٹوٹ جائیں اور خون بہے اور درد ہو تو رسول ص یہاں پر لعاب دہن اور اپنی پھونک کو استعمال کیوں نہیں کرتا؟