1/3
باذوق بھائی،
جتنی باتیں آپ نے یہاں میرے متعلق کی ہیں، اور جتنے الزامات لگائے ہیں،
اور پھر جب میں جواب دیتی ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ بحث ختم کر دوں کیونکہ ایسے بحوث سے اردو ویب کے پراجیکٹ پر اثر پڑتا ہے۔
سسٹر مہوش علی !
میں نے الزامات نہیں لگائے تھے بلکہ اردو ویب پراجکٹس کی بھلائی کی خاطر مخلصانہ مشورہ دیا تھا۔ اگر آپ اسے "الزامات" گردانتی ہیں تو پھر میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔
یہ خودساختہ اصول ہے۔
قارئین سے گذارش ہے کہ اس تھریڈ میں ہر وہ پوسٹ چیک کر لیں جہاں لفظ "
مس" آیا ہو۔ پتا چل جائے گا کہ کوئی بھی ایک ایسی صحیح حدیث پیش نہیں کی گئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے ایسا اصول بیان کیا ہو۔
صرف ایک حدیث میں کچھ ملتے جلتے ایسے الفاظ آئے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :
عبداللہ ابن ابی کا بیٹا پکا مسلمان تھا۔
اس نے رسول ص سے خصوصا ان الفاظ میں درخواست کی تھی کہ "یا رسول اللہ، میرے والد کو اپنا وہ کرتہ عطا فرمائیے جو کہ خصوصی طور پر آپکی جلد سے مس رہا ہو۔"
مجھے نہیں معلوم کہ مہوش علی نے حدیث کی آخری سطر کیوں حذف کر ڈالی؟
بہرحال مکمل حدیث ۔۔۔ تینوں زبانوں میں ملاحظہ فرمائیں :
انگریزی :
آنلائن ربط
Narrated Jabir bin 'Abdullah:
Allah's Apostle came to Abdullah bin Ubai (a hypocrite) after his death and he has been laid in his pit (grave). He ordered (that he be taken out of the grave) and he was taken out. Then he placed him on his knees and threw some of his saliva on him and clothed him in his (the Prophet's) own shirt. Allah knows better (why he did so). 'Abdullah bin Ubai had given his shirt to Al-Abbas to wear. Abu Harun said, "Allah's Apostle at that time had two shirts and the son of 'Abdullah bin Ubai said to him, 'O Allah's Apostle! Clothe my father in your shirt which has been in contact with your skin.' ' Sufyan added, "Thus people think that the Prophet clothed 'Abdullah bin Tubal in his shirt in lieu of what he (Abdullah) had done (for Al Abbas, the Prophet's uncle.)"
عربی :
آنلائن ربط
[ARABIC]حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو سمعت جابر بن عبد الله ۔ رضى الله عنهما ۔ قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله بن أبى بعد ما أدخل حفرته فأمر به فأخرج، فوضعه على ركبتيه، ونفث عليه من ريقه، وألبسه قميصه، فالله أعلم، وكان كسا عباسا قميصا. قال سفيان وقال أبو هارون وكان على رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصان، فقال له ابن عبد الله يا رسول الله، ألبس أبي قميصك الذي يلي جلدك.
قال سفيان فيرون أن النبي صلى الله عليه وسلم ألبس عبد الله قميصه مكافأة لما صنع.[/ARABIC]
اردو :
آنلائن ربط
اردو ترجمہ : مولانا محمد داؤد راز
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) سے سنا ، انہوں نے کہا کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی (منافق) کو اس کی قبر میں ڈالا جا چکا تھا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتا اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
(غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ) انہوں نے حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کو ایک قمیص پہنائی تھی (غزوۂ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے)۔ سفیان نے بیان کیا کہ ابو ہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے (جو مومن مخلص تھے رضی اللہ عنہ) نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئے جو آپ کے جسد اطہر کے قریب رہتی ہے۔
سفیان نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔
صحيح بخاري ، كتاب الجنائز ، باب : میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟ ، حدیث : 1365
تینوں تراجم میں سرخ الفاظ پر غور فرمائیں۔
صحیح بخاری کا ایک سچا اور عادل راوی اپنا علم اور اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے کہ :
لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔
بتائیے کہ صحیح بخاری کے صادق و عادل گواہ کی شہادت کو قبول کیا جائے یا 1400 سال بعد کے کسی قاری کے قیاس کو؟
وہ قیاس جو یہ فیصلہ صادر کر رہا ہے کہ :
جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔
ایک خاص ملک کو ، اس ملک کے علماء کو بڑے طعنے دئے گئے کہ ۔۔۔۔۔ احادیث کو چھپایا جا رہا ہے ۔۔۔۔
کون چھپا رہا ہے احادیث کو؟؟ کون احادیث کے بعض الفاظ پر انگلی رکھ کر خودساختہ مفہوم پیش کر رہا ہے؟؟ کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت رہ جاتی ہے؟؟
حدیث غدیر خم کا تو خوب زور و شور سے پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اپنے ان محترم دوستوں کے قلم یا منہ سے صحیح بخاری میں درج وہ قولِ علی (رضی اللہ عنہ) بھی سنا جس میں علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر ابوبکر(رضی اللہ عنہ) اور ان کے بعد عمر(رضی اللہ عنہ) ہیں۔
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، حدیث : 3715
مگر ہم کبھی نہیں کہتے کہ فلاں فلاں طبقہ احادیث کو چھپا رہا ہے کیونکہ فقۂ اسلامی کا مشہور اصول ہے کہ :
عدم ذکر ، نفیِ ذکر نہیں۔
لہذا اگر کسی کی نظر سے سعودی علماء کی کتب میں کوئی حدیث نہ گزرے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہئے کہ :
سعودی علماء فلاں فلاں حدیث کا انکار کرتے ہیں یا اس کو چھپاتے ہیں !
علاوہ ازیں ۔۔۔۔
یہ تو سب کو پتا ہے کہ دنیا بھر میں مغربی میڈیا کا تسلط ہے ، لیکن کیا یہ دعویٰ بھی کوئی کر سکتا ہے کہ دنیا بھر کے اسلامی میڈیا پر سعودی عرب کا قبضہ ہے؟
کیا نیٹ پر اسلام کے ہر مکتب فکر اور فرقہ/ مسلک کی کتب موجود نہیں ہیں؟ کیا ہر کتابِ حدیث کی من پسند شرح آپ کو نہیں ملے گی؟
اتنا سب ہوتے ہوئے بھی کتمانِ علم کا الزام شور و غل کے ساتھ برپا کیا جائے تو یہ کس ذہنیت کی نشانی ثابت ہوگی؟؟
معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ۔۔۔۔ ایک اسلامی ملک کے خلاف لگائے جانے والے خودساختہ الزامات کی حقیقت سوائے الزام لگانے والے کے اپنے ذاتی بغض، کینہ اور تعصب کے اور کچھ نہیں !!
خیر چلئے ۔۔۔۔ موضوع پر آتے ہوئے مزید آگے بڑھتے ہیں ۔۔۔
اس حدیث کے درج ذیل الفاظ ۔۔۔
سفیان نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔
۔۔۔ کی شرح میں ، بخاری کی مشہور شرح "فتح الباری" میں
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
یہ سند سفیان کے نزدیک متصل ہے اور اسے امام بخاری نے کتاب الجہاد میں باب "قیدیوں کو کپڑا پہنانے کے بارے میں" عبداللہ بن محمد بن سفیان سے مذکورہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
حافظ عسقلانی کی تحقیق پر آئیے خود چیک کر لیتے ہیں وہ حدیث جو کہ باب "قیدیوں کو کپڑا پہنانے کے بارے میں" میں موجود ہے۔
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو، سمع جابر بن عبد الله ۔ رضى الله عنهما ۔ قال لما كان يوم بدر اتي باسارى، واتي بالعباس ولم يكن عليه ثوب، فنظر النبي صلى الله عليه وسلم له قميصا فوجدوا قميص عبد الله بن ابى يقدر عليه، فكساه النبي صلى الله عليه وسلم اياه، فلذلك نزع النبي صلى الله عليه وسلم قميصه الذي البسه. قال ابن عيينة كانت له عند النبي صلى الله عليه وسلم يد فاحب ان يكافئه
صحيح بخاري , كتاب الجهاد والسير , باب : الكسوة للاسارى
اردو ترجمہ : مولانا داؤد راز
حضرت عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی سے قیدی (مشرکین مکہ) لائے گئے۔ جن میں حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) بھی تھے (جو کہ اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے)۔ ان کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے قمیص تلاش کروائی۔ (وہ لمبے قد کے تھے) اس لیے عبداللہ بن ابی (منافق) کی قمیص ہی ان کے بدن پر آ سکی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ قمیص پہنا دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عبداللہ بن ابی کی موت کے بعد) اپنی قمیص اتار کر اسے پہنائی تھی۔
ابن عیینہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اس کا احسان تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اسے ادا کر دیں۔
صحيح بخاري ، كتاب الجهاد والسير ، باب : الكسوة للاسارى ، حدیث : 3045
غیر جانبدار اور انصاف پسند قارئین ذرا تجزیہ فرمائیں۔
ان دونوں احادیث سے کیا وہ اصول اخذ کیا جا سکتا ہے جس کے تحت محترمہ مہوش علی لکھتی ہیں کہ :
[نوٹ: اس روایت کی رو سے اس وقت تک کفار و منافقین کے متعلق آیات نازل نہ ہوئی تھِیں اور رسول ص کا خیال تھا کہ انکے تبرکات سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے]
ذرا انصاف سے بتائیں کہ وہ "
خیال" کہاں ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے زبردستی منسوب کیا جا رہا ہے؟؟
مانا کہ درج بالا دونوں احادیث میں ایسا بھی لکھا نہیں ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدنِ مبارک سے مس کیا ہوا لباس یا لعابِ دہن متبرک نہیں ہے !
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔
ہم نہایت ادب سے دین کا درد رکھنے والوں سے پوچھنا چاہیں گے کہ :
کس کا قول قبول کیا جائے؟؟
حدیث کا ادھورا متن پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے خودساختہ خیال باندھنے والے کا
یا
صحیح بخاری کے متفقہ مصدقہ راوی حضرت سفيان ابن عيينة رحمة اللہ علیہ کا ۔۔۔۔ جو فرماتے ہیں کہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر منافق اعظم عبداللہ بن ابی کا جو احسان تھا ، اس کا بدلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص پہنا کر اتار دیا !!
---
یہ تو ہوئے نقلی دلائل ۔۔۔
آئیے کہ ذرا عقل سے بھی اس اصول کو پرکھ لیتے ہیں :
جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ اور مدینہ میں رہا۔ لامحالہ ایسے بےشمار اوقات آئے ہوں گے جب زمین کے بےشمار مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کو زمین کی مٹی نے مس کیا ہوگا۔
مکہ اور مدینہ کے ایسے تمام مقامات کیا واقعی "متبرک" قرار پا گئے ہیں کہ مسلمانوں کو ان مقامات کی "تعظیم" کا اللہ نے یا رسول اللہ نے یا صحابہ نے مکلف ٹھہرایا ہو؟؟
کیا یہ غیر عقلی اور غیر فطری بات نہیں لگتی۔
------
اب بات رہ جاتی ہے ان دو سوالات کی :
1۔ نبی کریم کی طرف سے اپنا لعاب دہن ایک منافق کے منہ میں ڈالنے کی کیا حکمت تھی؟
2۔ عبداللہ بن ابی کے مسلمان بیٹے نے خصوصی طور پر ایسا کیوں پوچھا کہ : اپنا وہ کرتہ عطا فرمائیے جو کہ خصوصی طور پر آپکی جلد سے مس رہا ہو۔
یہاں پر اصل سوال یہ نہیں ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن یا آپ کا کرتا متبرک تھا یا نہیں؟
بلکہ یہ ہے کہ : "اِس حدیث" کے کس فقرے سے کس کو ایسا حتمی فیصلہ سنانے کا حق مل سکتا ہے کہ :
نبی کے تبرکات سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
؟؟؟؟؟؟؟
جبکہ نبی کریم کے اس فعل پر تو حدیث کے اصل راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
[ARABIC]فالله اعلم[/ARABIC] (اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے)۔
برکت پہنچانے والی ذات تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے ، ذیل کی حدیث دلیل کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ معجزات کو ہم تو باعث برکت سمجھتے تھے اور تم لوگ ان سے ڈرتے ہو۔
ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور پانی تقریباً ختم ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ بھی پانی بچ گیا ہو اسے تلاش کرو۔ چنانچہ لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے۔ آپ نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال دیا اور فرمایا :
[ARABIC]حى على الطهور المبارك، والبركة من الله[/ARABIC]
برکت والا پانی لو اور برکت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا۔
صحيح بخاري ، كتاب المناقب ، باب : علامات النبوة في الاسلام ، حدیث : 3620
برکت درحقیقت خیر کا نام ہے اور فرمانِ نبوی کے مطابق سب خیر اللہ کی طرف سے ہے۔
اور اللہ کب کس کو برکت سے نوازے ، وہ خود نبی کو وحی سے بتائے گا یا پھر ان لوگوں کی بات کا اعتبار ہوگا جو نبی کے تبرکات سے برکت کے حصول کا اعتراف کریں (جیسا کہ کچھ صحیح احادیث سے ایسے اعترافات سامنے آتے ہیں)۔
لیکن محض اپنے قیاس سے حتمی طور پر یہ کہہ دینا کہ :
فلاں فلاں کافر / منافق کو نبی کے تبرکات سے برکت مل گئی یا فائدہ پہنچ گیا ۔۔۔۔
معذرت کہ ایسے بلا دلیل قیاسات نہ تو ہم کو قابل قبول ہیں اور نہ تبرکات پر ایسا انحصار کر بیٹھنے کی تعلیم ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دی ہے۔
بلکہ نبی کریم ص نے جو اصل تعلیم ہم کو دی ہے ، اس کی طرف بھائی خاور بلال نے بجا طور پر یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا کہ :
نجات کا دارو مدار تو اعمال ہی رہیں گے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ تعلیم دی ہو کہ تم لوگ میرے استعمال کی چیزوں، میرے کپڑوں یا میرے بالوں کو باعثِ شفاعت سمجھنا۔
ہمارا آپ سے پُرخلوص مطالبہ ہے کہ کوئی ایک ایسا سچا و مستند فرمانِ نبی لے آئیں جس میں نبی ص نے ایسا "حکم" دیا ہو جس کی طرف اوپر کے اقتباس میں بھائی خاور نے اشارہ کیا ہے۔
بےشک ان تمام صحیح احادیث پر ہمارا ایمان ہے جن سے وضاحت ہوتی ہے کہ صحابہ نے نبی کے تبرکات سے فوائد حاصل کیے۔
لیکن کیا صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات کو بذات خود شفا سمجھتے تھے یا ان کو "شفا کا سبب" سمجھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ : برکت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ؟؟
علاوہ ازیں ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال صالحہ کی طرف کس طرح حکیمانہ رہنمائی کی تھی ۔۔۔۔
حضرت ابی قراد رضي الله عنه سے روایت کی گئی صحیح حدیث اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں :
[ARABIC]عن عبد الرحمن بن أبي قراد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ يوما فجعل أصحابه يتمسحون بوضوئه فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم : ( ما يحملكم على هذا ؟ ) قالوا : حب الله ورسوله : فقال النبي صلى الله عليه وسلم : من سره أن يحب الله ورسوله أو يحبه الله ورسوله فليصدق حديثه إذا حدث وليؤد أمانته إذا أؤتمن وليحسن جوار من جاوره[/ARABIC]
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا تو آپ کے اصحاب آپ کے وضو کا پانی لے کر اپنے بدن پر ملنے لگے تو آپ نے فرمایا :
تمہیں ایسا کرنے پر کون سی چیز آمادہ کر رہی ہے؟
ان لوگوں نے کہا : اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو ۔۔۔
جب وہ بات کرے تو سچی بات کرے
اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرے
اور جو اس کا پڑوسی ہو ، اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
(علامہ البانی نے اس حدیث کو ثابت کہا ہے اور اس کے متعدد طرق و شواہد کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنے مجموعے "الاحادیث الصحیحہ" میں حدیث نمبر:2998 کے تحت درج کیا ہے)
۔۔۔
عصر حاضر کے محدث کبیر علامہ البانی اپنی کتاب "
التوسل انواعه واحكامه" میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حدیبیہ وغیرہ میں صحابہ کرام کو اپنے آثار سے تبرک حاصل کرنے میں رضامندی ظاہر کی تھی کیونکہ اس وقت اس کی سخت ضرورت تھی اور وہ ضرورت یہ تھی کہ آپ کفار قریش کو ڈرائیں اور اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت ، تعظیم و تکریم اور خدمت کے جذبہ کو ظاہر کریں۔
لیکن اس کے بعد آپ نے نہایت حکیمانہ طور پر مسلمانوں کو اس تبرک سے پھیر دیا تھا اور ان کو اعمال صالحہ کی طرف رہنمائی کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ اعمال صالحہ اللہ کے نزدیک اس تبرک سے بہتر ہے۔
۔۔۔ جاری ہے (مزید 2 پوسٹس باقی ہیں)