علامہ دانش کے سفرنامے (مکمل)

علامہ دانش کے سفرنامے
معراج
نونہال ادب
ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی


خوشبو کی تلاش
ہم قہوہ پینے میں مصروف تھے کہ علامہ دانش کمرے میں داخل ہوئے۔ انھیں دیکھ کہ ہر شخص احترام سے کھڑا ہو گیا۔ ہم نے بہت پر جوش طریقے سے مصافحہ کیا اور گلے ملے۔
آزونا فوراً قہوے کی پیالی لے آیا۔
کپتان مرشد نے پوچھا، "علامہ صاحب بہت دن بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے کہیے اتنا عرصہ آپ کہاں رہے؟"
علامہ قہوے کی چسکی لے کر بولے، "میں ایک سال تک خوشبو کی تلاش میں امریکا کے جنگلوں کی خاک چھانتا رہا۔"
ہم علامہ کی بات کا مطلب نہیں سمجھے۔ انہوں نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ آج کل خوشبو کا استعمال کتنی کثرت سے ہو رہا ہے۔ عطر، سینٹ، پاؤڈر، صابن، ٹوتھ پیسٹ کے علاوہ خوشبو سیکڑوں چیزوں میں استعمال ہوتی ہے۔ دنیا کے بے شمار لوگ ہر روز کسی نہ کسی شکل میں خوشبو استعمال کرتے ہیں۔" یہ کہہ کر علامہ دانش ذرا دیر کے لیے رُکے، انہوں نے اپنی جیب سے ایک ڈبیا نکالی اور اسے کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ اس میں ایک نیلگوں پھول رکھا ہوا تھا۔ علامہ نے جوش سے تھرائی ہوئی آواز میں کہا، "یہ پھول جنوبی امریکا کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔ شاید آپ لوگ یقین نہ کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ پھول خوشبو اور عطر سازی کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دے گا۔ جو ملک اس پھول کا عطر نکالے گا وہ ہر سال کروڑوں روپے کما سکتا ہے۔"
یہ کہ کر علامہ دانش ذرا دیر کے لیے رکے۔ پھر انھوں نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی اور اس کا ڈاٹ کھول کر اپنی ہتھیلی پر بھورے رنگ کے سیال کے چند قطرے ٹپکائے ۔ کمرہ بھینی بھینی خوش بو سے مہک اٹھا۔ علامہ نے پوچھا، "سچ بتائیے، آپ نے اس سے پہلے اتنی عمدہ خوشبو سونگھی ہے؟ ہم سب ایک آواز ہو کر بولے، "کبھی نہیں۔" علامہ دانش نے کہا، " جو کمپنی اس عطر کو نکالے گی وہ کروڑوں روپے کمائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ اس عطر کو حاصل کرنے کے لیے منہ مانگے دام ادا کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔"
میں نے کہا، "علامہ صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا۔ آپ کو ان پھولوں کو حاصل کرنے میں کیا دشواری ہے؟" علامہ نے کہا، "یہ پھول جنوبی امریکا میں گیانا کے جنگلوں میں ملتے ہیں۔ مجھے اس کا سراغ مقامی باشندوں سے ملا تھا۔ اس پھول کی تلاش میں، میں دو سال تک جنگلوں میں گھومتا رہا، جس سے میری صحت خراب ہو گئی ہے۔ جب یہ پھول ملا تو خزاں کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ پھول جھڑ رہے تھے اور اس کے بیج دستیاب نہ ہو سکے۔ اگر بیج مل جاتے تو میں اپنے ساتھ لے آتا اور گھر پر پودوں کی کاشت کرتا، لیکن افسوس مجھے مرض نے مہلت نہ دی۔ میں اگلی فصل بہار کا انتظار کیے بغیر لوٹ آیا۔ میں اپنے ساتھ چند پھول لا سکا تھا، جس کا عطر آپ نے سونگھا ہے۔" یہ کہہ کر علامہ کچھ دیر تک قہوے سے شغل فرماتے رہے۔ پھر بولے، "ہمارے ساتھ ایک ہندو ملازم بھی تھا، جس کا نام رامن تھا۔ اُسے بھی پودے کے متعلق کچھ معلومات تھیں۔ جیسے ہی وہ پودا دریافت ہوا، رامن کہیں روپوش ہو گیا۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ کسی غیر ملکی کمپنی میں ملازم ہو گیا ہے۔ اس کمپنی نے رامن کو اُن پھولوں کے بیج لانے پر مامور کیا ہے۔ اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا تو میری محنت پر پانی پھر جائے گا۔"
میں نے مشورہ دیا، "آپ برطانوی حکام سے مل کر اس جعلساز کو روکنے کی کوشش کیجیے۔" علامہ دانش سر ہلا کر بولے، "ناممکن، بالکل ناممکن، اس طرح تو پھولوں کا راز سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ ہم اسے صرف اس طرح شکست دے سکتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے پہنچ جائیں۔" میں جلدی سے بولا، "کہیں آپ کا خیال جہاز سے پہنچنے کا تو نہیں ہے؟" علامہ نے تائید کی، "آپ بالکل صحیح سمجھے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا وہاں کوئی ایسا وسیع میدان ہے جہاں طیارہ اُتارا جا سکے؟ علامہ دانش بولے، "میدان تو کوئی نہیں ہے البتہ جھیلیں کافی موجود ہیں۔" مرشد نے کہا، "خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا جہاز خشکی اور تری دونوں جگہ اُتارا جا سکتا ہے۔ اب فرمائیے کہ کب روانہ ہونا چاہیے؟"
علامہ مسکرا کر بولے، "جلد از جلد۔"
تین دن کے بعد ہم گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن پہنچے۔ رات گزارنے کے لیے ہم تو ایک ہوٹل میں چلے گئے۔ علامہ دانش، رامن کے متعلق تفتیش کرنے چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد واپس لوٹے اور ہمیں بتایا کہ رامن ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ہے۔ حالات ابھی تک موافق تھے۔ اگلی صبح ہمارا طیارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ علامہ دانش ، کپتان مرشد کے ساتھ ہی کاک پٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک نقشہ ان کے سامنے پھیلا ہوا تھا، جسے دیکھ دیکھ کر وہ ہدایات دے رہے تھے۔ میدانی علاقہ عبور کرنے کے بعد نقشے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی، کیوں کہ اب نہیں دریائے کابو کے ساتھ ساتھ پرواز کرنی تھی جو گھنے جنگل میں سانپ کی طرح پیچ و خم کھاتا ہوا بہہ رہا تھا۔ یہ پرواز کوئی دو گھنٹے جاری رہی۔ سامنے ایک وسیع جھیل نظر آرہی تھی۔ علامہ نے کہا، "جہاز کو جھیل کے مشرقی کنارے پر اُتار لیجیے پھولوں کا ذخیرہ یہاں سے قریب ہی ہے۔" یہاں پرندوں کا ایک غول پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ مرشد نے ان سے بچ کر جہاز کو بہت مہارت سے پانی میں اُتارا۔ جہاز کچھ دُور تک پانی کے اوپر تیرتا چلا گیا ۔ پھر کپتان مرشد نے ایک موڑ کاٹا اور جہاز کو سرکنڈوں کے جھنڈ کے نیچے کھڑا کر دیا۔ ہم جہاز سے اترے اور پانی سے گزر کر کنارے پر پہنچے۔ ہر طرف مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کبھی کبھی کسی پرندے کی آواز سنائی دے جاتی اور بس۔ علامہ دانش مسکرا کر بولے، "سفر خوب رہا۔ اس پرواز نے مسافت کو بہت مختصر کر دیا ہے۔ ورنہ پچھلی دفعہ میں جب یہاں پہنچا تھا تو دو مہینے لگ گئے تھے۔" میں نے کہا، "اب آپ پروگرام طے کریں کہ ہمیں کیا کرنا ہے!!" مرشد جھٹ سے بولا، "پہلے ہمیں ناشتہ کرنا ہے۔ میری آنتیں بہت دیر سے قل پڑھ رہی ہیں۔" آزونا کہیں سے کھانے کی ٹوکری اُٹھا لایا اور چائے بنانے میں مصروف ہو گیا۔ علامہ دانش تفصیل سے سمجھانے لگے کہ ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو آزونا نے ہمیں تین بڑے بڑے تھیلے دیے۔
کپتان مرشد بولا، "علامہ صاحب، معاف کیجیے گا میں آپ کا دو وجہ سے ساتھ نہیں دے سکتا ، ایک یہ کہ میں کھانے کے بعد آرام کیا کرتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ میں جہاز کو خالی چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔"
علامہ میری طرف مڑ کر بولے، "یہاں جنگل میں درندے نہیں ہوتے۔ پھر بھی تم احتیاطاً بندوق ساتھ لیتے چلو۔"
میں اور علامہ دانش ایک تنگ سی پک ڈنڈی پر چلنے لگے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ہم ایک کھلے میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں پر بے شمار جنگلی اور خود رو (اپنے آپ اُگنے والے) پودے اُگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ علامہ اچانک رک گئے اور بولے، "سونگھنا ذرا۔" مسرت سے علامہ دانش کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ بہت ہی مسحور کن خوشبو آرہی تھی میں نے دو تین لمبے لمبے سانس لیے اور کہا، "بے شک لاجواب خوشبو ہے۔" علامہ نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور پھول توڑنے لگے۔ میں صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ وہاں ایک ہی جیسے پھول اُگے ہوئے تھے۔ علامہ بہت اختیاط سے چن چن کر پھول توڑ رہے تھے۔ میں نے کندھے سے بندوق اُتاری اور اُسے ایک درخت کی ٹہنی سے لٹکا دیا اور پھر گھاس پر لیٹ گیا۔ جب علامہ صاحب نے تینوں تھیلے پھولوں اور بیجوں سے بھر لیے تب انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔
جب ہم چلنے لگے تو ہمیں جھیل کی جانب سے جہاز کے انجن کا شور سنائی دیا۔ ہم یہ سمجھے کہ مرشد جہاز کو کسی اور جگہ لے جارہا ہے۔ ہم اپنے خیالوں میں مگن چلے جا رہے تھے کہ اچانک دو آدمی درختوں کے پیچھے سے نکل کر ہمارے سامنے آگئے۔ ان میں سے ایک کالا تھا اور دوسرا گورا۔ میں صحیح صورت حال سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کالے نے پستول نکالی اور ہماری طرف رُخ کر کے بولا، "ہاتھ اوپر اُٹھا لو۔" میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر بندوق کی طرف گیا۔ کالا آدمی پھر دھاڑ کر بولا، "خبردار کوئی حرکت نہ کرنا ورنہ گولی مار کر بھیجا اُڑا دوں گا۔" ہم نے تھیلے زمین پر ڈال دیے اور ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہو گئے۔ میں اپنی اس بے پروائی پر بہت شرمندہ تھا کہ میں بندوق کو کندھے پر لٹکائے ہوئے گھومتا پھرتا رہا۔ حالانکہ بندوق خطرے کے وقت میرے ہاتھ میں ہونی چاہیے تھی۔ کالا آدمی را من تھا۔ اس نے بھی جنگل میں پہنچنے کے لیے ہوائی راستہ اختیار کیا تھا۔ رامن اس صورت حال سے بہت لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ ہنس کر بولا، "جون ، تم ان کے ہاتھوں سے تھیلے لے لو۔ یہ بندوق بھی اُتارتے لانا۔" بندوق اتارتے وقت جون ہنسا اور میرا خون کھولنے لگا، لیکن قہر درویش بجان درویش میں اسے دیکھتا رہا۔ رامن نے ایک قہقہہ لگایا، "اب تم اباؤٹ ٹرن ہوجاؤ، شاباش، خبر دار! پیچھے مڑ کر مت دیکھنا ورنہ بھیجا اُڑا دوں گا۔" رامن نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ وہ دونوں چلے گئے غصے اور شرمندگی سے میرا حال بہت بڑا ہو رہا تھا۔ علامہ میرا کندھا تھپک کر بولے، "پرواہ مت کرو جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اب رنج کرنے سے کیا فائدہ؟" میں نے کہا، "میرا ارادہ یہ ہے کہ ہم ان کا پیچھا کریں، ممکن ہے کہ ہم ان سے پھول اور بیج لینے میں کامیاب ہو جائیں۔" عین اسی وقت آزونا بھی وہاں آگیا۔ اس کے کپڑے پسینے سے بھیگ رہے تھے۔ وہ ہانپتے ہوئے بولا، "صاحب، مرشد جی نے یہ تھیلے اور بندوق بھیجی ہے اور کہا ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس کی فکر نہ کرنا، بس یہ تھیلے پھولوں اور بیجوں سے بھر کر فوراً واپس آجانا۔" میں نے حیران ہو کر پوچھا، "کیا اسے معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا گزری ہے؟" پھر بات کچھ کچھ میرے ذہن میں آنے لگی۔ میں نے پوچھا، "کیا تم نے کوئی اور جہاز بھی اتر تے ہوئے دیکھا ہے؟" آزونا بولا، "جی ہاں ، وہ لوگ جھیل کے دوسری طرف اُترے ہیں۔" میں نے غصے اور جوش سے کہا، "کیوں نہ پہلے ان سے نپٹ لیا جائے۔" آزونا بولا، "مرشد صاحب نے کہا تھا کہ آپ لوگ پھول لیتے آئیں۔باقی کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔" ہم پھولوں کے ذخیرے تک گئے۔ ذرا سی دیر میں ہم نے پھولوں اور بیجوں سے نہ صرف تھیلے بھر لیے بلکہ اپنی جیبیں بھی بھر لیں۔ پھر ہم دوڑتے ہوئے واپس لوٹے۔ جہاز پر پہنچ کر دیکھا کہ مرشد صاحب چائے سے شغل فرمارہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی اُس نے زور سے کہا، "بھئی واہ وا، کیسی عمدہ خوشبو آرہی ہے۔" علامہ دانش نے مختصر طور سے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو بیان کیا۔ میں نے کہا، "کیا ان لوگوں کا جہاز ابھی تک زمین پر موجود ہے؟"
مرشد نے بہت مختصر سا جواب دیا، "جی ہاں!" میں نے حیران ہو کر پوچھا، "وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ اُسے تو اب تک چلا جانا چاہیے تھا۔" کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "شاید ان کے جہاز میں کچھ خرابی ہو گئی ہے؟" "اب پہیلیاں تو نہ بجھواؤ" میں نے بے چینی سے کہا۔ کپتان مرشد نے چائے کی پیالی تپائی پر رکھ دی اور کہا، "ارے بھولے بادشاہ جیسے ہمیں ان کے آنے کی امید نہیں تھی، اسی طرح وہ بھی ہمارے آنے سے بے خبر تھے۔ جیسے ہی ان کا جہاز زمین پر اُترا میں فوراً پہچان گیا کہ یہ کون ذات شریف ہیں۔ جہاز میں صرف دو آدمی تھے اور وہ دونوں ہی پھولوں کی تلاش میں چل دیے۔ یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ کم از کم پائلٹ کو ضرور جہاز کے نزدیک کھڑا ہونا چاہیے تھا۔"
میں نے بےتابی سے پوچھا، "پھر کیا ہوا؟" کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "ہونا کیا تھا؟ میں اور آزونا جہاز کی طرف لڑھک گئے اور اس کا اسپارکنگ پلگ نکال لائے۔ بس جہاز اب تک زمین پر آرام کر رہا ہے۔"
پھر کپتان مرشد علامہ دانش سے مخاطب ہوا، "کیا یہ اُچکا پیدل گھر پہنچ سکتا ہے؟" علامہ نے کہا، "ہاں، کیوں نہیں؟ یہ جنگل کے چپے چپے سے واقف ہے۔ اسے شہر تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئے گی۔ یہ علاقہ جنگلی جانوروں سے بھی محفوظ ہے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "شہر تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگ جائے گا؟"
علامہ کچھ سوچ کر بولے، "کوئی چھے ہفتے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "آپ اس عرصے میں عطر اپنے نام پر رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔"
علامہ بولے، "بہت آسانی سے۔"
کپتان مرشد بولا، "میرا فیصلہ ہے کہ رامن اور اس کے ساتھی پیدل واپس جائیں گے۔ اب آپ لوگ جلدی سے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ جائیں۔ رامن اور اس کے ساتھی کو جہاز کی خرابی کا علم ہو گیا تو وہ ہماری تلاش میں ادھر آئیں گے اور خون خرابے تک نوبت آجائے گی؟" علامہ بولے، "ممکن ہے کہ وہ واپس پہنچ کر کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم پلگ ان کے حوالے کر دیں۔" مرشد چڑ کر بولا، "جناب یہ لوگ رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ آپ پر پستول تانے رہے کیا یہ جرم نہیں ہے؟ وہ آپ کا مال و متاع لوٹ کر لے گئے، کیا یہ جرم نہیں ہے؟ وہ آپ کی تحقیق کو دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دینا چاہتے ہیں، یہ تو ایسا ہی سنگین جرم ہے جیسا کہ ڈاکا ڈالنا۔ کوئی اور عدالت تو انہیں ڈرانے دھمکانے اور چوری کی سزا کے طور پر انھیں لمبا ہی بھیجتی۔ میں انھیں صرف چھے ہفتے کی سزا سنا رہا ہوں۔" مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا اور اُسے جھیل کے درمیان میں لے آیا۔ جونہی جہاز اُڑنے لگا دو آدمی پانی میں اُتر کر دوڑتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ مرشد نے کھڑکی سے منہ نکالا اور زور سے بولا، "الوداع۔"
چند لمحوں میں جہاز پانی کی سطح سے بلند ہو کر ہوا میں اُڑنے لگا۔ علامہ بتا رہے تھے کہ، "یہ خوشبو پھولوں کے مُرجھاتے ہی ختم ہو جائے گی اور ان کے پاس کوڑے کچرے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ ہمارا جہاز پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
نارنجی بیل
باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم سب برآمدے میں کھڑے بارش کا نظارہ کررہے تھے۔ ایک ٹیکسی ہمارے دفتر کے باہر آ کر رکی اور اس میں سے ہمارے معزز دوست علامہ دانش اترے۔ انہوں نے حسبِ معمول برساتی کوٹ پہنا ہوا تھا، سر پر ترکی ٹوپی، پاؤں میں فل بوٹ، ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چھتری تھی۔
علامہ کمرے میں داخل ہوئے، آزونا نے برساتی اتاری اور کھونٹی پر لٹکا دی۔ نصر نے پوچھا، "علامہ صاحب! خیریت تو ہے؟"
علامہ نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور مرشد کی طرف بڑھا دیا۔
مرشد بلند آواز سے خط کا مضمون پڑھنے لگا۔
"محترم علامہ صاحب!
ایک مریض جس کا نام رشید نوری ہے، سخت بیمار ہے اور وہ آپ سے ملنے کا بہت آرزومند ہے۔ مہربانی فرماکر آپ جلد تشریف لے آئیں۔
داروغہ پاگل خانہ فوزیہ، قاہرہ"
مرشد نے مسکرا کر کہا، "اللہ خیر کرے۔ اب تو پاگل خانے سے بھی خطوط آنے لگے۔"
علامہ نے تیز نظروں سے مرشد کو گھور کر دیکھا اور بولے، "رشید نوری ان لوگوں میں سے ہے جو تحقیق اور مطالعہ میں اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ میں تحقیقات کر رہے تھے کہ اچانک لاپتا ہوگئے۔ ڈیڑھ سال بعد اطلاع ملی کہ یہ پاگل خانے میں بند ہیں۔"
کپتان مرشد نے پوچھا، "اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟"
علامہ نے کہا، "اب ہمیں قاہرہ چلنا ہے۔"
موسم خوشگوار ہوتے ہی ہم قاہرہ کی طرف پرواز کرنے لگے۔ دو گھنٹے بعد ہمارا ہیلی کاپٹر قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترا۔ ہم رشید نوری سے ملے تو اس کاحال بہت خراب تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ تھوڑی دیر کا مہمان ہے۔
رشید نوری نے کہا، "علامہ صاحب! میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ کو وسطی افریقہ کےسفر کا حال سنا سکوں۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش رہا۔ پھر اس نے اپنی داستان شروع کی:
"میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ کے جنگلوں میں کام کر رہا تھا کہ راستہ بھٹک کے غیر آباد اور سنسان صحرا کی طرف جا نکلا۔ صحرا کے اندر ایک پہاڑی سلسلہ تھا۔ میرے ساتھ جو قلی تھے ان میں عجیب طرح کی بےچینی پیدا ہوگئی۔ ایک قلی نے سواحلی زبان میں مجھے بتایا کہ ان پہاڑوں پے بھوت پریت رہتے ہیں جو لوگوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے آگے جانے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں ہر صورت آگے جانا چاہتا ہوں تو ان جنگلی لوگوں نے سامان پھینک دیا اور وہاں سے بھاگ گئے۔ میں یہ صورت حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور پہاڑیوں کے پاس جا پہنچا۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ پہاڑی کے پاس دور دور تک خار دار پودے اگے ہوئے تھے، جو چھو جائیں تو جسم میں شدید جلن پیدا ہوجاتی ہے۔ میں ابھی ان پودوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہاچانک کہیں سے عجیب الخلقت لوگوں کا ایک غول برآمد ہوا اور ان لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان لوگوں کا رنگ سفید تھا، سنگ مرمر کی طرح سفید۔ لیکن اس میں زندگی کی گرمی کے بجائے موت کی زردی پائی جاتی تھی۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ شاید وہ اتنی دیر بولتے بولتے تھک گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا، "وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گئے۔ وہاں زمین بالکل ہموار تھی اور وہاں پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ یہ لوگ ڈابو قبیلے کے تھے اور دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے کاشتکاری میں کمال حاصل کرلیا تھا اور ایسے ایسے پودے اور جڑی بوٹیاں دریافت کرلی تھیں جن کا علم دنیا والوں کو بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ایسی طاقت بخش دوائیں تیار کرلی تھیں جن کے استعمال سے انسان کی صحت اور قوت بحال رہتی اور وہ بہت عرصے تک بڑھاپے سے محفوظ رہتا ہے۔"
یہ کہہ کے رشید نوریکچھ دیر کے لیے پھر خاموش ہوگیا۔
اس نے پھر کہا، "پھر ان کا بڑا پجاری آگیا۔ اس نے ایک تیز نوکدار چیز میرے ماتھے میں چبھودی۔ میں درد کی شدت سے بےہوش ہوگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو پجاری نے کہا، "اب تم ہمیشہ کے لیے ہمارے غلام بن کر رہو گے۔ میں نے تمہارے سے مین ایک بیج کاشت کردیا ہے۔ صرف ایک خاص عرق اس پودے کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ جب تک تم یہ عرق پیتے رہو گے اس بیج کی نشونما رکی رہے گی۔ جب تم عرق پینا چھوڑ دوگے تو یہ پودا جڑ پکڑ لے گا۔ اس کی جڑیں تمہارے دماغ میں پیوست ہوجائیں گی اور تم سے پٹخ پٹخ کر مرجاؤ گے۔"
میں ایک سال تک ان لوگوں پاس مقیم رہا۔ مین نے ان لوگوں کے طور طریقے دیکھے۔ وہ جو عجیب و غریب پودے کاشت کرتے تھے۔ میں ان کی قید سے فرار ہوگیا۔ میں بہت تکلیفیں ا ٹھا کر ساحل تک پہنچا۔ وہاں سے ایک کشتی میں سوار ہو کر قاہرہ پہنچ گیا۔
یہاں پہنچتے ہی میرے سر میں تکلیف ہونے لگی۔ میں جان گیا کہ پجاری نے میرے سر مین جو بیج اگایا تھا، اس نے جڑ پکڑ لی ہے۔ میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن یہ مرض کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔ ایک ڈاکٹر نے فیصلہ دے دیا کہ جنگلوں میں مارے مارے پھرنے سے میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ چناں چہ لوگوں نے نے مجھے پاگل خانے میں بند کروادیا۔"
یہ کہہ کے رشید نوری کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ علامہ کا دل بھی بھر آیا۔ وہ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے رہے اور رشید نوری کو تسلی و تشفی دیتے رہے۔
جب ہم وہاں سے لوٹے تو علامہ کا مزاج بہت برہم تھا۔ داروغہ پاگل خانے نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو علامہ جھڑک کر بولے، "دنیا کے سب سے بڑے پاگل! اپنا ناپاک ہاتھ دور رکھ۔ تمہیں تو پاگل اور ہوش مند کا فرق تک معلوم نہیں ہے۔"
رشید نوری کو علامہ نے ایک بوٹی کھلائی جس سے اس بیج کا اثر زائل ہوگیا۔
راستے میں علامہ نے بار بار یہ مصرعہ پڑھا، "خرد کا م جنوں پڑگیا جنوں کا خرد"
علامہ دانش نے کہا، "میرا ارادہ ہے کہ میں وسطی افریقہ جاکر خود تحقیق کروں۔ مجھے نباتات سے بہت دلچسپی ہے اور پھر وہاں عجیب و غریب لوگ بھی تو ہیں جو کئی سو سالوں سے وہاں آباد ہیں۔"
آزونا نے دبی دبی آواز میں کہا، "کہیں ہمارا حشر بھی رشید نوری جیسا نہ ہو۔"
کپتان مرشد نے ڈانٹ کر کہا، "چپ نالائق! ایسی فضول باتیں نہیں کرتے۔"
کئی دن بعد ہم وسطی افریقہ پہنچے۔یہ سفر خاصا دشوار ثابت ہوا۔ ہم بہت سا ضروری اور غیرضروری سامان اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ رشید نوری نے بہت اچھی طرح ہمیں راستہ سمجھا دیا تھا۔ اس لیےصحرائی پہاڑیوں تک پہنچنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ پہاڑی کے چاروں طرف دلفریب گھنا جنگل تھا۔ درختوں اور پودوں کا رنگ بہت گہرا سبز تھا۔ ہم نے پہاڑی کے اوپر پرواز کی۔ اس پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ اس کے درمیاںن ایک مندر تھا۔ علامہ دانش نے کہا، "رشید نوری کی کہانی کا یہ حصہ تو صحیح ثابت ہوا۔ اب بستی کے لوگوں کے متعلق تحقیقات کرنا باقی ہیں۔"
ہم نے اپنا جہاز ریگستان میں اتار لیا۔ ہم جہاز سے نیچے اترے۔ ہمارے نزدیک ہی پہاڑی تھی۔ اس کے آس پاس بہت اونچے اونچے درخت اور بےحد سنز رنگ کے پودے اگے ہوئے تھے۔ علامہ دانش نے جیب سے نوٹ بک نکالی اور کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے سامنے ناگ پھنی کے بڑے بڑے پودے تھے جن کے کانٹے ایک گز لمبے تھے۔ بعض پودے تو اتنے بڑے تھے کہانہیں دیکھ کر دہشت ہوتی تھی۔
میں ناگ پھنی کے پودوں کی طرف چلا۔ اچانک علامہ نے چیخ کر کہا، "ٹھہرجاؤ، آگے خطرہ ہے۔"
میں ٹھٹھک کر ٹھہر گیا۔ علامہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور زمین کی طرف اشارہ کرکے بولے، "یہ بھی دیکھا ہے تم نے؟"
میں نے غور سے زمین کی طرف دیکھا۔ اللہ کی پناہ، یوں لگتا تھا کہ جیسے بےشمار برچھیاں زمین سے سر نکالے کھڑی ہیں۔ علامہ دانش نے کہا، "اس کا نام ہسپانوی خنجر ہے۔ ویسے تو یہ ایک قسم کی گھاس ہےمگر تیزی میں خنجر و تلوار سے کم نہیں ہے۔ یہ موٹے سے موٹے چمڑے کو کاغذ کی طرح پھاڑ دیتا ہے۔ اگر تم ان پر پاؤں رکھ دیتے تو ایسا زخم پڑ جاتا جو بہت مشکل سے ٹھیک ہوتا۔ یہ گھاس پہاڑی کے دامن میں بیس فٹ چوڑائی میں پھیلی ہوئی تھی۔
میں نے کہا، "یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پودے خود نہیں اگے، بلکہ انہیں باقاعدہ کاشت کیا گیا ہے۔"
مرشد نے کہا، "یہاں کسی ٹینک میں بیٹھ کر ہی گزرا جاسکتا ہے۔"
علامہ بولے، "ایک راستہ ان ہی کانٹے دار پودوں اور خنجر کھاس کے درمیان سے ہوتا ہوا پہاڑی کے اوپر جاتا ہے۔"
بہت مشکل سے ہم نے یہ راستہ تلاش کرلیا۔ یہ بہت ٹیڑھا ترچھا اور تنگ سا راستہ تھا۔ مرشد بولا، "میں ان پہاڑی لوگوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی فوج بھی پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرے تو اسے ایک قطار بنا کر یہاں سے گزرنا ہوگا۔"
علامہ بولے، "پھر اسے کاردار پودوں کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ ان کے کانٹے ایسے زہریلے اور خطرناک ہیں کہ اگر کسی کو چبھ جائیں تو وہ تڑپ تڑپ کر مرجائے گا لیکن اس کا علاج نہیں ہو سکے گا۔"
میں نے پوچھا، "اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟"
علامہ بولے، "زہر آلود گل لالہ، جو دیکھنے میں بےحد خوبصورت پھول ہے لیکن اس سے زہریلی گیس نکلتی ہے۔ ان کے پاس سے گزرنے والا چند منٹ میں بےہوش ہوکر گر پڑے۔ اس کے علاوہ آدم خور درخت ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے پاس سے گزرنے کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی شاخیں اسے چکڑ لیں گی اور ذرا سی دیر میں اس کا گوشت پوست کھا جائیں گی۔ بچھوا بوٹی ہے جو ڈنک مار کر ہلاک کردیتی ہےاور۔۔۔"
مرشد گھبرا کر بولا، "آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں ان باتوں سے آگاہ کردیا۔ میرا ابھی خودکشی کا ارادہ نہیں ہے۔ میرا ارادہ تو یہ ہے کہ آپ ابھی جہاز پر تشریف لے چلیے۔"
علامہ دانش بولے، "کاش ہم ان لوگوں کو کسی طرح سمجھا سکتے کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔"
ہم نے خنجروں کی باڑ کے ارد گرد پھر دیکھا، لیکن ہمیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔
آزونا کانپتے ہوئے بالا، "مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہجیسے لوگ ہماری نگرانی کر رہے ہیں اور چھپ کر ہماری باتیں سن رہے ہیں۔"
رات کے وقت ہم بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ جب نیند نے غلبہ کیا تو ہم سونے کے لیے بستروں پر لیٹ گئے۔ ارے صاحب! بستر کیسے؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جہاز کے نیچے نرم نرم ریت پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے۔ ہم نے باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔
سب سے پہلے آزونا کی باری تھی۔ اس نے آدھی رات کے وقت ہمیں جگایا۔ وہ بولا، "مجھے بےچینی محسوس ہورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ لیکن کیا؟ یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔"
جب علامہ نے دریافت کیا تو وہ بولا، "مجھے ایسی آواز سنائی دی کہ جیسے اولے پڑ رہے ہوں، حالاں کہ مطلع صاف ہے۔"
اس پر مرشد جھنجلا کر بولا، "تم نرے وہمی ہو۔"
آزونا قسم کھا کر بولا، "میری منہ پر مٹر کے دانے کے برابر کوئی چیز بہت زور سے ٹکرائی، پھر یوں محسوس ہوا جیسے اولے گر رہے ہوں۔"
ہم نے ٹاچ کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا لیکن ہمیں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ اب مرشد کی باری تھی۔ وہ صبح تین بجے تک پہرا دیتا رہا۔ پھر اس نے مجھے جگایا۔ اس نے بھی کوئی بات نہیں دیکھی اور نہ کوئی آواز سنی۔ وہ بستر پر لیٹ کر سوگیا۔ اب میری باری تھی۔ میں ایک گھنٹے سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا۔ صبح سے ذرا دیر پہلےمیں نے عجیب سی آواز سنی۔ پتوں میں ہوا کے گزرنے سے جو سرسراہٹ ہوتی ہے، یہ آواز اس جیسی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ سرسراہٹ چاروں طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ پھر کوئی چیز میرے پاؤں پر رینگنے لگی۔ میں نے جھک کر دیکھا، یہ کوئی کیڑا سا تھا، جو زمین سے باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اسے کیچوا سمجھا اس لیے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ اب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اللہ کی پناہ، ایک دو نہیں ہزاروں کیڑے زمین سے نکل رہے تھے۔ میں نے جھک کر غور سے دیکھا تب معلوم ہوا کہ جنہیں مین کیڑے سمجھ رہا تھا وہ پودے تھے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودے بڑھنے لگے اور ان سے شاخیں اور پتیاں پھوٹنے لگیں۔ میں نے کئی پودے دیکھے ہیں جو تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ بانس کا پودا ایک دن میں ڈیڑھ دو فٹ تک بڑھ جاتا ہے لیکن ہمارے جہاز کے ارد گرد جو بیل اگ رہی تھی اس کے بڑھنے کی رفتار تو حیرت انگیز تھی۔ پہلے تو مین کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیلیں دو تین فٹ سے زیادہ لمبی ہوگئیں۔ کچھ بیلیں تو ہمارے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
پھر اچانک مجھے ہوش آگیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آزونا نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔اس نے جو ژالہ باری کی آواز سنی تھی وہ ان بیجوں کا چھڑکاؤ تھا جو پہاڑی باشندوں نے اوپر سے پھینکے تھے۔
جب یہ بیج زمین پر گرے تو انہوں نے جڑ پکڑلی اور اب یہ بیلیں طوفانی رفتار سے بڑھتی جاہی تھیں۔تھوڑی دیر بعد یہ جہاز کو اپنی لپیٹ مین لے لیں گی اور اس کا اڑنا ناممکن ہوجائے گا۔ مین نے ایک چیخ ماری جسے سن کر سب بیدار ہوگئے اور میری طرف دوڑنے۔
اب روشنی کافی پھیل چکی تھی اور ہر چیز صاف نظر آرہی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی یہ نارنجی رنگ کی بیل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے دیوانوں کی طرح بیل اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکنا شروع کیا لیکن ادھر ہم ایک طرف سے بیل اکھاڑتے یہ دوسری طرف سے جہاز پر چڑھنے لگتی۔ مرشد چلا کر بولا، "جہاز پر سوار ہوجاؤ۔ ہمیں فوراً پرواز کرنا ہے۔"
سب لوگ جہاز پر سوار ہوگئے۔ بدقسمتی سے میرا پاؤں بیل میں الجھ گیا اور میں دھڑام سے زمین پر جا گرا۔ اس سے پہلے مین زمین سے اٹھ کھڑا ہوتا، بیل کی شاخیں مجھے جکڑنے لگیں۔ میں نے بیل کو اکھاڑ اکھاڑ کے پھینکا اور گرتا پڑتا جہاز کی طرف بھاگا۔ مین بہت مشکل سے جہاز پر سوار ہوسکا۔
پیل کی لچھے دار شاخیں ابھی تک میرے گلے کا ہار بنی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے میں کوئی بہادر سورما ہوں اور کسی جنگ سے فتح یاب ہو کر لوٹا ہوں۔
بہرحال، ہم جہاز پر سوار ہوگئے۔ کپتان مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا۔ جب جہاز نے پرواز کی تو اس کے طاقتور انجن نے ان بیلوں کے پڑخچے اڑا دیے۔ ہم نے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نارنجی بیل دور دور تک پھیل چکی تھی اور اب پہاڑی کی طرف سیلاب کی طرح بڑھ رہی تھی۔
علامہ دانش نے کہا، "تم نے وہ مثل سنی ہوگی کہ چاہ کن راہ درپیش۔ یعنی جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود اس میں گرجاتا ہے۔ اب اگر تم ان لوگوں کی تباہی کا منظر دیکھنا چاہو تو کچھ دیر کے لیےاور رک جاؤ۔"
میں نے پوچھا، "پھر کیا ہوگا؟"
علامہ بولے، "یہ طوفانی بیل اب کسی سے رکنے والی نہیں ہے۔ ذرا دیر بعد یہ پہاڑی پر چڑھ جائے گی اور۔۔۔" علامہ دانش کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ پھر بولے، "یہ تباہی انہوں نے خود اپنے ہاتھوں مول لی ہے۔"
کچھ دیر بعد جب ہم ایک چکر کاٹ کر واپس لوٹے تو ہم نے عجیب دہشت ناک منظر دیکھا۔ بیلوں نے پہاڑی پر چڑھ کر پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں سے لوگوں میں ایک عجیب سی بےچینی اور دہشت پائی جاتی تھی۔ ذرا دیر بعد بیلیں پہاڑی کے اوپر پھیلنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بیل آدمیوں سے لپٹنے لگی۔ وہ لوگ بےبسی کے عالم میں چیخ و پکار کر رہے تھے لیکن اب ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ علامہ ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بولے، "افسوس، یہ لوگ خود ہی اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں۔"
جب ہم واپس لوٹے تو دور دور تک نارنجی بیل پھیلی ہوئی تھی۔​
 
پُراسرار غار میں
ہم نے علامہ دانش کے ساتھ بہت سے سفر کیے۔ ہر دفعہ ہم کوئی نہ کوئی بات دریافت کرکے واپس لوٹے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ ہم کسی خبر کی تصدیق کے لیے اس جگہ پہنچے تو بات کچھ اور ہی نکلی۔
ایک دن علامہ نے اطلاع دی کہ ہمیں بورینو چلنا ہے۔
کپتان مرشد نے پوچھا، "کس لیے؟"
علامہ نے اپنے بیگ سے ایک اخبار کا تراشہ نکالا۔ اس میں کسی صاحب نے جن کا نام رضوان شومیر تھا، ایک مضمون لکھا تھا۔ یہ ملایا میں کاشتکار تھے اور دریائے لی لانگ کے ساتھ ساتھ ان کا ربر کا فارم پھیلا ہوا تھا۔ مضمون میں لکھا تھا کہ ایک قریبی پہاڑ میں ایک غار ہے۔ ایسا غار دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ اس غار میں موجود ہر چیز سفید ہے، بالکل دودھیا سفید رنگ کی۔ یعنی جو چمگادڑیں غار میں رہتی ہیں وہ بالکل سفید ہیں۔ سانپ، کیڑے مکوڑے اور دوسرے حشرات بھی سفید رنگ کے ہیں۔ غار کے آس پاس جھاڑیاں، پودے، درخت، گھاس پھونس غرض یہ کہ ہر چیز بالکل دودھیا سفید ہے۔ جب یہ مضمون اخبار میں چھپا تو لوگوں نے اسے ایک دلچسپ افسانہ سمجھا اور اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔
کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا آپ کا ارادہ ملایا چلنے کا ہے؟ ممکن ہے یہ غار والی بات نری بکواس ہو۔"
میں نے کہا، "یہ اخبار کا تراشہ بھی کوئی پچاس سال پرانا ہے۔ ممکن ہے کہ مضمون نگار اب تک مر کھپ چکا ہو۔ پھر اس بات کی تصدیق کون کرے گا؟"
علامہ دانش نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ پھر انہوں نے بیگ سے کچھ خطوط اور کاغذ نکالے اور بولے، "بھئی میں کسی کام میں تصدیق کئے بغیر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ میں نے حکومت ملایا سے رضوان شومیر کے متعلق دریافت کیا۔ وہاں سے یہ اطلاع ملی کہ وہ تو کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکا ہے۔ اس کا بیٹا فریدوں شومیر اب ان زمینوں کا مالک ہے۔ پھر میں نے فریدوں شومیر کو خطوط لکھے اور اس سے پوچھا کہ یہ پراسرار غار اب تک موجود ہے یا ختم ہوچکا؟ اگر یہ غار موجود ہے تو اس کے قریب کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہمارا ہیلی کاپٹر اتر سکے؟"
کپتان مرشد نے پوچھا، "پھر اس خط کا کوئی جواب موصول ہوا؟"
علامہ بولے، "جی ہاں، فریدوں شومیر نے لکھا ہے کہ وہ غار اب تک موجود ہے۔ اس نے غار کو خود نہیں دیکھا۔ اس کے فارم پر کام کرنے والے لوگ بھی غار کا رخ کرنے سے بچتے ہیں۔ فریدوں شومیر کے گھر کے پاس ایک دریا گزرتا ہے۔ غار وہاں سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہماری مہمان نوازی کرکے اسے خوشی ہوگی۔"
کپتان مرشد ہنس کر بولا، "لیجئے مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اب کوئی دشواری باقی نہیں رہی۔"
میں نے پوچھا، "اب سفر کب شروع ہوگا؟"
علامہ بولے، "جلد ہی۔"
لیکن چھوٹے چھوٹے کام ایسے در پیش آئے کہ ہم ایک مہینے تک اس مہم پر نہ جاسکے۔ آخر ہم فریدوں شو میر کے ہاں پہنچے۔ فریدوں بہت ہی ملنسار اور خوش اخلاق شخص ثابت ہوا۔ وہ ہم سے مل کر بے حد خوش ہوا۔ اس نے کہا، "یہ غار یہاں سے کوئی بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں پہنچنے کا راستہ ایک جنگل سے گزرتا ہے۔ جنگل کے بعد وہ پہاڑ ہے جہاں یہ غار ہے۔ آٹھ ہزار فیٹ کی بلندی پر چڑھنے کے بعد دودھیا سفید رنگ کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ تھوڑی دور آگے جائیں تو غار نظر آنے لگتا ہے۔"
علامہ نے پوچھا،"کیا اس مہم پر آپ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے؟"
فریدوں شومیر نے کہا، "مجھے ضروری کام سے شہر جانا ہے، اس لیے میں آپ کا ساتھ نہ دے سکوں گا۔ البتہ میرا گائیڈ غار تک آپ کی رہنمائی کرے گا۔"
اگلے روز ہم غار کی تلاش میں نکلے۔ جنگل کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ گرمی بہت شدید تھی۔ ہمارے جسم سے پسینے کی دھاریں بہنے لگیں۔ بانس کا جنگل بہت گھنا تھا۔ اس میں سے گزرتے وقت مچھروں نے یلغار کردی۔ سانپوں کی کثرت تھی، جس کی وجہ سے ہر ایک قدم احتیاط سے رکھنا پڑتا تھا۔ سب سے بڑی مصیبت جونکیں تھیں جو کپڑوں میں گھس جاتیں اور جسم سے چپک کر خون چوسنے لگتیں۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لئے بار بار ٹھہرنا پڑتا۔
ہم نے وہاں قدرت کی گل کاریوں کا نمونہ دیکھا۔ بے شمار رنگوں کے لا تعداد پھول کھلے ہوئے تھے۔ ان پر تتلیاں منڈ لاتی تھیں۔ وہاں صراحی دار پودے بھی تھے۔ جوں ہی کوئی بھونرا یا تتلی ان پر بیٹھتی، صراحی کا ڈھکنا خود بخود بند ہو جاتا۔ صراحی دار پودا اسے ہڑپ کر جاتا۔
جنگل ختم ہوا تو پہاڑی سلسلہ شروع ہوگیا۔ چھ ہزار فٹ کی بلندی پر چڑھنے کے بعد اچھی خاصی سردی محسوس ہونے لگی۔ ایک جگہ پہنچ کر ہمارا گائیڈ (راستہ دکھانے والا) ٹھہر گیا اور کپکپاتی ہوئی آواز بولا، "جناب، میں اس جگہ سے آگے نہیں جاؤں گا۔"
اس نے انگلی کے اشارے سے ہمیں راستہ بتایا اور کہا، "آپ اس راستے پر چلتے رہیں۔ وہ غار یہاں سے ایک کلو میٹر دور ہے۔ میں یہاں آپ کا انتظار کروں گا۔ اگر آپ شام تک واپس نہ لوٹے تو میں سمجھوں گا کہ آپ شیطان روحوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔"
مرشد جھنجلا کر بولا، "تم لوگ پڑھ لکھ کر بھی جنگلی اور جاہل ہی رہے۔"
علامہ دانش بولے، "پہاڑی پر چڑھنے کی نسبت اترنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہم تین بجے تک واپس لوٹ آئیں گے۔"
کپتان مرشد گھڑی میں وقت دیکھ کر بولے، "ہمارے پاس کام کرنے کے لئے تین گھنٹے کے قریب وقت ہے۔"
ہم تیزی سے پہاڑی راستے پر چلنے لگے۔ آخر ہم غار تک جا پہنچے۔ غار کے آس پاس دور دور تک سفید کاہی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ یہ کاہی ریت کی طرح نرم تھی۔ غار کے اندر سے ایک سفید رنگ کا اژدھا نکلا۔ یہ بھی سفید رنگ کا تھا۔ یہ کچھ بیمار سا معلوم دیتا تھا، اسی لیے بہت مشکل سے آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔ وہ ہم پر حملہ آور ہونے کے بجائے ایک طرف ہوکر چلا گیا۔ جلد ہی ہم پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مرحوم رضوان شومیر نے اپنے مضمون میں جو کچھ لکھا تھا، وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ ہم نے اپنی ٹارچیں روشن کیں اور غار میں داخل ہو گئے۔ غار کے اندر ہر چیز دودھیا سفید رنگ کی تھی۔ میں ایک سفید جھاڑی میں جا گھسا، آزونا نے ایک سفید رنگ کے سانپ پر پاؤں رکھ دیا۔ وہ سانپ ہس ہس کرتا ہوا ایک طرف کو چلا گیا۔ روشنی کی وجہ سے چمگادڑیں پھڑ پھڑا کر اڑنے لگیں۔ دو تین سفید چمگادڑیں علامہ دانش سے ٹکرائیں۔ غار کی دیواروں پر کہیں کہیں سفید رنگ کی گھاس تھی۔ وہاں سفید رنگ کی مکھیاں، تتلیاں اور چھپکلیاں بھی تھیں۔ علامہ نے جھک کر ایک کیڑے کو اٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر دیکھنے لگے۔ سفید غبار لگنے سے ان کی ہتھیلی سفید ہوگئی تھی۔ میں نے ایک سفید پتا توڑا۔ میرا ہاتھ بھی غبار لگنے سے بالکل سفید ہوگیا تھا۔
علامہ بولے، "میرے خیال میں یہ کوئی دھات ہے۔"
میں نے پوچھا، "کون سی؟"
علامہ بولے، "یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔"
انہوں نے غار کی دیوار کو دو تین بار سونگھا اور بولے، "یہ دھات لوہے یا تانبے جیسی سخت ہے۔ ہم اس کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر لے چلتے ہیں تاکہ اس کا اچھی طرح معائنہ کرسکیں۔"
مرشد نے کلہاڑی مارکر ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیوار سے توڑا۔ میں نے اسے اٹھانا چاہا۔ اللہ کی پناہ، یہ تو بہت بھاری ہے۔ میں نے علامہ سے کہا، "شاید آپ میری بات کا یقین نہ کریں گے۔ یہ ماچس کی ڈبیا کے برابر ٹکڑا تو کئی من وزنی ہے۔"
علامہ، مرشد اور آزونا نے باری باری اس ٹکڑے کو اٹھانا چاہا لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔
میں نے کہا، "شاید یہ دنیا کی سب سے بھاری دھات ہے"
علامہ دانش کے منہ سے بے ساختہ نکلا، "آرچی کل دھات۔ دنیا کی وہ شے جو کئی برس سے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔"
میں اور آزونا، دونوں ماچس کی ڈبیا کے برابر ٹکڑے کو دھکیلتے ہوئے غار سے باہر لائے۔ اس کا جو حصہ باہر کی طرف تھا وہ دودھیا سفید رنگ کا تھا لیکن تازہ کٹا ہوا حصہ گہرا گلابی، بلکہ چمکدار سرخ رنگ کا تھا۔ یہ کسی قسم کی دھات ہی تھی۔
علامہ بار بار بڑبڑاتے، "آرچی کل دھات، دنیا کی نایاب ترین چیز۔"
میں نے غور سے علامہ کی طرف دیکھا۔ ان کا رنگ بھی دودھیا سفید ہورہا تھا۔
کپتان مرشد نے میری طرف دیکھ کر پوچھا، "تم بہت خوف زدہ اور پریشان دکھائی دیتے ہو؟"
میں نے کہا، "تم سر سے پاؤں تک بالکل سفید ہو رہے ہو۔"
کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "بہت خوب، کیا آپ نے اپنا رنگ بھی ملاحظہ فرمایا؟"
تب میں نے غور سے اپنے ہاتھ پاؤں کو دیکھا۔ وہ بھی دودھیا سفید ہو رہے تھے۔
علامہ دانش اچانک بولے، "یہ سب اسی دھات کا اثر ہے۔ اگر ہم کچھ دیر اور یہاں ٹھہریں گے تو اس کا غبار ہمارے اوپر جم جائے گا۔"
پھر ایک عجیب بات رونما ہوئی۔ دھات کے ٹکڑے سے دھواں نکلنے لگا۔ میں نے اسے ہاتھ لگا کر دیکھا اور میری چیخ نکل گئی۔ دھات کا وہ ٹکڑا بے حد گرم ہورہا تھا۔ شاید روشنی اور حرارت کے اثر سے دھات نے آگ پکڑ لی تھی۔ چوں کہ غار کے اندر کافی ٹھنڈ تھی، شاید اس لئے وہاں دھات نہیں جلی تھی۔
مرشد نے تجویز پیش کی، "ہمیں یہاں سے فورا چل دینا چاہئے۔"
علامہ بولے، "میں اس نایاب دھات کا ٹکڑا لئے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ آرچی کل، جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔"
ہم نے غار کی طرف دیکھا تو ہمیں ایک اور صدمہ ہوا۔ غار کے اندر سے دھواں نکل رہا تھا۔ دراصل وہ جگہ جہاں سے ہم نے دھات کا ٹکڑا توڑا تھا روشنی یا ہوا لگنے سے جل اٹھا تھا۔ ادھر جو ٹکڑا ہم لائے تھے اس میں بھی آگ لگ رہی تھی، اس کی چنگاری کاہی کے ڈھیر پر پڑی وہ بھی دھڑا دھر جلنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دور اور نزدیک ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ ہمیں جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا۔ ہم بہت دور تک بھاگتے ہی چلے گئے۔ ایک جگہ رک کر ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اللہ کی پناہ، غار سے دودھیا رنگ کی تیز روشنی نکل رہی تھی۔ جس کو دیکھنے سے آنکھیں چوندھیائی جا رہی تھیں۔ ہمارے پیچھے پگھلا ہوا لاوا بہتا چلا آرہا تھا۔ اب ایک اور مصیبت ہوئی۔ ہمارے جسموں پر جو سفید غبار لگا ہوا تھا، اس میں بھی سخت جلن ہونے لگی۔ کہیں کہیں پھنسیاں بن گئیں۔
ہم گرتے پڑتے پہاڑی سے نیچے اترے اور بہت مشکل سے فریدوں کے بنگلے تک پہنچے۔ علامہ دانش نے بہت رنج اور افسوس سے کہا، "دوست، مثل مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ میں نے نادانی، بلکہ لا علمی سے تمہیں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ آرچی کل دنیا کی سب سے مہنگی اور نایاب دھات صرف میری وجہ سے ناپید ہوگئی۔"
فریدوں شومیر نے کہا، "جب تک آپ واپس اپنے ملک نہ پہنچ جائیں، اس بات کا تزکرہ کسی سے نہ کیجیے گا۔ ورنہ ممکن ہے کہ حکومت کے اہل کار آپ کو تنگ کریں۔"
اگلے دن اخبارات میں ایک آتش فشاں کے پھٹنے کی خبر چھپی۔ اس کے کچھ دن بعد ہم نے قاہرہ کے اخبارات میں ایک مضمون چھپنے کے لیے دیا، جس کا عنوان تھا:
آرچی کل۔۔۔ وہ دھات جو اب ناپید ہو چکی ہے۔
سنا ہے ہمارے بعد وہاں کئی پارٹیاں "آرچی کل" کی تلاش میں گئیں اور ناکام و نامراد واپس لوٹیں۔ شاید پتھروں کے ڈھیر تلے اب تک آرچی کل کا کچھ ذخیرہ باقی ہو لیکن اس کے لئے اب کون اپنی جان جوکھوں میں ڈالے!
ڈو ڈو کی تلاش
چائے پینے کے بعد ہم گپ شپ میں مصروف تھے۔ اچانک علامہ دانش نے ایک سوال پوچھا، "اچھا یہ بتائیے کہ وہ کون سا پرندہ ہے جس کی نسل تھوڑے عرصے پہلے ہی ختم ہوئی ہے؟"
مرشد نے الل ٹپ دو تین نام گنوائے۔ علامہ ہر بار مسکرا کر کہتے، "غلط، بالکل غلط۔"
آکر ہم نے درخواست کی کہ آپ خود ہی اس پرندے کا نام بتادیجیے۔ تب علامہ مسکرا کر بولے، "اس پرندے کا نام ڈوڈو ہے۔"
مرشد نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا، "یہ بھی کوئی نام ہوا؟ ڈو ڈو۔"
علامہ نے کہا، "اس پرندے کا یہ نام پرتگالیوں نے دیا۔ پرتگالی زبان میں ڈو ڈو کا مطلب ہے بےوقوف۔ یہ پرندہ بہت ہی بےوقوف ہوتا تھا۔ اگر کوئی اس پرندے کو پکڑنا چاہے تو یہ بالکل بھی مزاحمت نہیں کرتا۔"
یہ کہہ کر علامہ نے ایک موٹی سی کتاب نکالی اور ہمیں ڈوڈو کی تصویر دکھائی۔ یہ بہت ہی بھدا اور بےڈھنگا سا پرندہ تھا۔ یہ بطخ سے کچھ بڑا تھا ااور ٹرکی مرغ سے کچھ چھوٹا۔ اس کی ٹانگوں پر مچھلی کی طرح چھلکے تھے۔ دم مڑی ہوئی تھی۔ چونچ انڈے جیسی لمبوتری تھی۔ یہ شکل سے ہی احمق دکھائی دیتا تھا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے پر تھے مگر یہ اڑ نہیں سکتا تھا۔
علامہ نے بتایا، "یہ پرندہ صرف ماریشس کے ساحل کے نزدیک پایا جاتا تھا۔ ایک پرتگالی سیاح کا بیان ہے کہ اس جزیرے پر یہ پرندہ بہت بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا۔ جب آبادکار وہاں پہنچنے لگے تو انہوں نے اس پرندے کا بےحد شکار کیا۔ آخر ۱۷۰۰ء میں اس پرندے کی نسل مکمل طور سے ختم ہوگئی۔ دو تین ڈوڈو برطانیہ بھیجے گئے۔ وہ وہاں پہنچتے ہی مرگئے۔ ان پرندوں میں مصالحہ بھروا کر عجائب گھروں مین رکھ دیا گیا لیکن ناجانے نکس طرح یہ نمونے بھی غاءب ہوگئے۔ اب دنیا میں اس پرندے کا وجود نہیں۔ جو کچھ ہمیں معلوم ہوسکا ہے وہ صرف پرانی تحریروں اور تصویروں کے ذریعے ہی معلوم ہوسکا ہے۔
مرشد بولا، "کتنی حیرت ناک بات ہے کہ یہ پرندہ ایک صرف ایک مخصوص جگہ پر پایا جاتا تھا اور اچانک ہی اس کی نسل کا خاتمہ ہوگیا۔"
علامہ ہنس کر بولے، "بھئی یہ تو کتابی بات تھی، حقیقت کچھ اور ہے۔"
اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی۔ میں نے کہا، "علامہ صاحب! آپ تو پہیلیاں بھجوانے لگے۔"
علامہ بولے، "میری عقل میں بھی یہ بات آج تک نہ آ سکی کہ اس پرندے کی نسل ختم کیسے ہوگئی؟ اگر اس کے پر نہیں تھے اور یہ اڑنے کے قابل نہیں تھا تو کیا ہوا؟ جب آباد کاروں نے اس کا شکار شروع کیا تو یہ تیر کر کسی دوسرے جزیرے جا سکتا تھا۔ بحر ہند میں جزیرہ ماریشس کے آس پاس بہت سے چھوٹے چھوٹے غیرآباد جزیرے ہیں، جو ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج بھی کچھ ڈوڈو ان جزیروں میں رہتے ہیں۔"
یہ کہہ کر علامہ نے ایک بہت بڑا نقشہ میز پر پھیلادیا اور ایک جگہ انگلی رکھ کر بولے، "یہ ہے ماریشس اور یہ اس کے آس پاس بارہ کے قریب جزیرے ہیں، جن میں ڈوڈو کی موجودگی کا امکان ہے؟"
کپتان مرشد حیران ہو کر بولا، "کیا آپ کا ارادہ ان جزیروں میں جانے کا ہے؟"
علامہ بہت پرجوش لہجے میں بولے، "بالکل درست کہا۔ میں ان جزیروں کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔"
یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی۔ دراصل سیر و تفریح کیے ہوئے مدتیں گزر گئیں۔ پکنک منانے کے لیے ماریشس جیسے خوبصورت جزیرے سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔
اب اگر مین سفر کی تفصیل سنانے بیٹھون تو بہت وقت درکار ہوگا۔ مختصر یہ کہ ہم ان جزیروں پر گئے۔ ان میں سے بہت سوں کے نام بھی مجھے یاد نہیں رہے۔ کوئی کوہان کی شکل کا تھا، کوئی خنجر جیسا نوکدار اور لمبوترا، کوئی انڈےکی طرح بیضوی اور کوئی بالکل گول۔ کئی ہفتوں تک ہم ان جزیروں کی خاک چھانتے رہے لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ آخر ہم تھک ہار کر مایوس ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈوڈو واقعی اب ناپید ہوچکے ہیں اور ان کا وجود باقی نہیں رہا۔ علامہ کے عزم و ہمت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ ہم جزیرہ مڈغاسکر سے چلے۔ شروع شروع میں موسم بہت خوشگوار تھا۔ پھر اچانک موسم تبدیل ہونے لگا۔ آسمان پر گہرے بادل چھا گئے۔ سمندر ابھی تک پرسکون تھا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ طوفان آنے والا ہے۔ کپتان مرشد بہت فکرمند نظر آرہا تھا۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو وہ بولا، "ہمارے پاس بہت تھوڑا سا پٹرول بچا ہے۔ اگر بدقسمتی سے ہم بھٹک گئے تو ممکن ہے کہ ہم افریقہ پہنچ جائیں یا ہوسکتا ہے کہ جہاز کو سمندر میں اتارنا پڑے۔
اچانک ہمیں ایک جزیرہ نظر آیا۔ یہ کوئی ایک میل لمبا، دو یا تین سو گز چوڑا اور سطح سمندر سے دس بارہ فیٹ اونچا تھا۔ اس کی سطح بالکل ہموار اور سپاٹ تھی۔
یہ جزیرہ دیکھ کر مرشد پھر فکر و پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ نقشے میں اس جگہ کسی جزیرے کا نشان نہیں تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے راستے سے بھٹک گئے تھے۔ مرشد پیشانی سے پسینہ پونچھ کر بولا، "سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گڑبڑ کیسے ہوگئی۔ شاید قطب نما میں کچھ خرابی ہوگئی تھی۔ اب یہی مناسب ہے کہ ہم پٹرول ضائع کر کے کوئی خطرہ مول نہ لیں، بلکہ اسی جزیرے پر اتر جائیں اورآسمان کے صاف ہونے کا انتظار کریں۔"
ہم جزیرے کے پاس ہی سمندر میں اتر گئے۔ یہ جزیرہ بالکل صاف تھا۔ میرا مطلب ہے کہ اس جزیرے پر سبزہ یا گھاس وغیرہ بالکل نہیں تھا۔ مرشد نے جہاز کر جزیرے کے ساتھ لگا دیا۔ ہم کچھ دیر دم لینے کے بعد جزیرے پر اترے۔ تب وہ بات رونما ہوئی جس کا کوئی سان و گمان تک نہ تھا۔ شاید یہ درجہ حرارت میں فرق ہوجانے کے باعث ہوا یا ممکن ہے کہ اس کی کوئی اور وجہ ہو۔ ہوا یہ کہ اچانک ہی دھند چھا گئی۔ علامہ دانش بولے، "اس علاقے میں عام طور سے دھند نہیں چھایا کرتی۔"
مرشد نے کہا، "شکر کرو کہ ہم نے جہاز اتار لیا تھا، ورنہ اس دھند میں جہاز کو اتارنا بھی ناممکن ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ دھند جلد ہی دور ہوجائے گی اور سورج دکھائی دینے لگے گا۔"
میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ اتنی دیر ہم جزیرے پر چہل قدمی کریں اور پھر ایک ایک کپ گرما گرم چائے پئیں۔"
ہم جزیرے پر اتر گئے۔ کچھ دیر تک ادھر ادھر گھومنے پھرنے کے بعد ہم نے چائے پی۔ علامہ اور مرشد تو گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ میں ٹہلتا ٹہلتا دور نکل گیا۔ جزیرے پر کہیں کہیں سیپیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز موجود نہیں تھی۔
میرا خیال تھا کہ دھند تھوڑی دیر میں چھٹ جائے گی مگر یہ تو اور زیادہ گہری ہوگئی۔ کچھ دیر بعد یہ عالم ہوگیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں واپس لوٹا اور اندھوں کی طرح راستہ ٹٹولتا ہوا جہاز تک پہنچا۔ ہم جہاز پر سوار ہو گئے۔
مرشد جہاز کو چلا کر کسی نہ کسی طرح خشکی پر لے گیا۔ ہم دھند چھٹنے کا انتظار کرنے لگے۔ رات ہو گئی اور گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔
میں نے کہا، "اگر اس وقت سمندر میں طوفان آگیا تو بڑا غضب ہوگا۔"
کپتان مرشد نے کہا، "مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ طوفان سے پہلے تیز ہوا چلے گی جو اس دھند کو اڑا لے جائے گی اور ہمیں راستہ دیکھنے میں آسانی پیدا ہوجائے گی۔"
ہم نے رات کے وقت باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلے کپتان مرشد کی باری تھی۔ اس وقت تک کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
پھر آزونا کی باری تھی۔ صبح چار بجے کے قریب اس نے مجھے جگایا۔ وہ کچھ فکرمند دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بولا، "مجھے کچھ عجیب سی سرسراتی ہوئی آوازیں سنائی دیتی ر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سمندر کی لہروں کا شور نہیں تھا۔ اگر سمندر میں طوفانی لہریں اٹھتیں تو یہ شور مسلسل سنائی دیتا۔"
میں شش و پنج مین پڑ گیا کہ مرشد کو جگاؤں یا نہ جگاؤں۔ دھند ابھی تک چھائی ہوئی تھی۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا اور پہرا دینے لگا۔ موسم کچھ ٹھنڈا تھا۔ دھند اور تاریکی کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے مجھے شوں شوں شاں شاں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
پانچ بجے کے قریب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔ صبح ہونے والی تھی۔ ہوا کے جھونکوں میں تیزی آنے لگی اور اس کے ساتھ ہی سمندر کی لہریں جزیرے کے ساحل سے ٹکرانے لگیں۔ مین اپنی ٹانگیں سیدھی کرنے کی غرض سے جزیرے پر اترا۔ کوئی نرم و لطیف چیز میرے پاؤں تلے آگئی۔ اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ میرے ساتھیوں میں سے کسی کا کوٹ یا کمبل جزیرے پر پڑا رہ گیا ہے۔ میں نے دوسرا قدم زمین پر رکھا تو پھر کوئی نرم اور ملائم سی چیز میرے پاؤں تلے آگئی۔ یہ کیا ہوسکتی ہے؟ اچانک میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ کہیں یہ ہشت پا نہ ہو۔ یہ خیال میرے ذہن میں آنا تھا کہ میرا ایک ایک رواں کھڑا ہوگیا۔ مین جلدی سے جہاز پر سوار ہو گیا۔
خوش قسمتی سے اس وقت دھند بھی چھٹنے لگی اور صبح کی روشنی پھیلنے لگی۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اب کپتان مرشد اور دوسرے دوستوں کو بیدار کرنا چاہیے۔ اس خیال سے مین نے بتی جلائی۔ کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا سب ٹھیک ہے؟"
میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔"
مرشد نے حیران ہو کر پوچھا، "تمہاری بات کا کیا مطلب ہے؟"
میں نے کہا، "اب ہوا چل پڑی ہے دھند کا زور ٹوٹ رہا ہے اور سمندر میں تلاطم پیدا ہو چلا ہے لیکن جزیرے پر کوئی نرم نرم سی چیز پڑی ہے۔ میری سمجھ مین نہیں آتا کہ وہ کیا ہوسکتی ہے؟"
مرشد نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا، "میں سمجھا نہیں کہ تم کس نرم نرم چیز کا ذکر لے بیٹھے ہو۔"
میں نے کہا، "سمجھا تو میں بھی نہیں، اسی لیے تمہیں جگایا ہے۔ اب کافی روشنی ہے۔ ابگر تم پسند کرو تو ہم باہر چل کر دیکھ لیں؟"
مرشد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے جلدی سے اپنا سوئٹر پہنا اور میرے پیچھے پیچھے چل دیا۔
اب میں باہر کا نظارہ کیسے بیان کروں؟ تیز ہوا دھند اڑا لے گئی تھی۔ مشرق سے سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس کی کرنوں سے ہر چیز نظر آرہی تھی۔ ہم نے جزیرے پر نظر ڈالی تو ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ جزیرے پر دور دور تک ہزاروں کی تعداد مین سفید سفید رنگ کے سمندری پرندے موجود تھے۔ ان کی شکل ایسی تھی کہ دیکھتے ہی ہنسی آنے لگتی۔ ان کی بجلی کے بلب جیسی چونچ، مڑی ہوئی دم اور موٹا بھدا جسم تھا۔ وہ ہمارے جہاز کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ تعداد میں اتنے زیادہ سے تھے کہ جزیرے پر تل دھرنے کو جگہ نہیں رہی تھی۔
کپتان مرشد بولا، "یہ خواب ہے یا حقیقت؟ یہ پرندے تو ڈوڈو ہیں۔ ہم انہیں ڈھونڈنے نکلے تھے لیکن انہوں نے ہمیں ڈھونڈ نکالا۔ تم جاکر علمہ کو بلا لاؤ۔ کوءی شور نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ پرندے ڈر کر اڑ جائیں اور علامہ ان کی دید سے محروم رہ جائیں۔"
میں کیبن میں گیا اور علامہ اور آزونا کو جگا کر یہ بات بتا دی۔ علامہ کا جوش اور مسرت سے برا حال تھا۔ وہ جلدی سے اپنی ڈاءری لے کر باہر آئے اور بیس پچیس منٹ تک ڈوڈو کی ایک ایک چیز کی تفصیل لکھتے رہے۔
آخر کپتان مرشد بولا، "میں دخل اندازی کی معافی چاہتا ہوں۔ دراصل سمندری لہریں اب طوفانی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔ ہمین فوراً چل دینا چاہیے۔ ورنہ یہ لہریں ہمیں بہا لے جائیں گی۔"
میں نے تجویز پیش کی، "سب ڈو ڈو تقریباً ہم شکل ہیں۔ آپ دو تین ڈو ڈو پکڑ کر لے آئیے اور اطمینان سے ان کا مشاہدہ کرتے رہیے۔"
علامہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ انہوں نے ایک پرندے کو منتخب کیا اور اسے گردن سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ اس غریب پرندے نے کوءی شور شغب نہیں کیا۔ کپتان مرشد نے ہاتھ ہلا ہلا کر شور مچایا لیکن پرندوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ اسی طرح کھڑے رہے اور ہمیں دیکھتے رہے۔
ہم سب مل کر چیخے چلائے۔ آزونا ایک خالی پیپا اٹھا لایا۔ وہ بہت دیر تک پیپا پیٹ پیٹ کر شور مچاتا رہا۔ کپتان مرشد نے بندوق سے کئی ہوائی فائر کیے لیکن توبہ کیجیے، ان پرندوں پر تو ذرہ برابر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔
تب علامہ قہقہہ مار کے ہنسے اور بولے، "کسی نے اس کا نام ٹھیک ہی رکھا ہے، ڈو ڈو یعنی بےعقل اور بےوقوف جانور۔"
میں اور آزونا بھی قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ مرشد غصے سے چیخا، "آپ لوگوں کو ہنسی کی سوجھی ہے اور میری جان پر بنی ہوئی ہے۔ ان پرندوں کی وجہ سے راستہ رکا پڑا ہے۔ ادھر سمندر لمحہ بہ لمحہ چڑھتا جا رہا ہے۔"
تب ہمیں صورتحال کا اندازہ ہوا۔ معاملہ واقعی بہت نازک تھا۔ میں نے دو تیں ڈو ڈؤں کو ڈنڈے سے ہنکار کر دور کیا تو ان کی جگہ لینے کے لیے کچھ اور ڈو ڈو آگے آگئے۔
ہم سب نے ڈنڈے سنبھال لیے اور ان پرندوں کو ہانک ہانک کر دور کرنے لگے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی ہمیں ان کوششوں میں ناکامی حاصل ہوئی۔ آخر ہم تھک ہار کر پسینے پسینے ہوگئے۔ مرشد جھنجھلا کر بندوق اٹھا لایا اور بولا، "میں انہیں مار مار کر صفایا کروں گا۔"
علامہ تحمل سے بولے، "بےوقوف نہ بنو۔ دیکھتے نہیں کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ انہیں مارنے کے لیے تمہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں بار گولی چلانا پڑے گی۔"
ہم نے بہت خطرناک مہموں میں حصہ لیا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈالی لیکن یہ مہم تو سب سے زیادہ دشوار ثابت ہوئی۔
میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دیکھتا کیا ہوں کہ دو تین ڈو ڈو اچھل کر جہاز کے پروں پر سوار ہوگئے۔ آزونا نے انہیں گرانا چاہا تو ان کمبختوں نے جہاز پر اپنے پنجے گاڑ دیے۔ جب آزونا نے انہیں جہاز سے نیچے گرایا تو اس کے ساتھ ہی جہاز کا ٹکڑا بھی ٹوٹ کر گر پڑا۔
مرشد نے چلا کر کہا، "اللہ کے لیے انہیں کچھ مت کہو ورنہ یہ جہاز کے پڑخچے اڑا دیں گے۔"
اب ڈو ڈو جہاز پر چڑھنے شروع ہوگئے تھے۔ اب ایک اور خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے کہا، "اگر یہ پرندے جہاز پر سوار ہوگئے تو ہمیں ڈبو دیں گے۔"
ادھر سمندر کی موجوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی تھی۔ اب اگر جہاز کچھ دیر تک اور جزیرے پر رہتا تو موجیں اسے ساحل سے ٹکرا کر پاش پاش کر دیتیں۔
مرشد نے کہا، " دوستو! ہمارے پاس صرف پانچ میٹ کا وقفہ ہے۔ آپ سب لوگ ڈنڈے لے کر ان پرندوں کو دور ہنکائیے۔ میں جہاز کو آہستہ آہستہ آگے بڑھاتا جاؤں گا۔"
لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی۔ مرشد نے جہاز کا انجن اسٹارٹ کیا۔ پرندے یا تو انجن کے شور سے یا پھر ہوا کے زور سے ادھر ادھر ہٹنے لگے۔ پرندے ایک دوسرے پر بری طرح گرے پڑتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے دھنکی ہوئی روئی کے گالے ایک دوسرے پر گرے جاتے ہوں۔ میں زندگی بھر یہ منظر نہیں بھولوں گا۔ کچھ ڈو ڈو کمر کے بل اور کچھ اپنے سروں کے بل ایک دوسرے پر لڑھک لڑھک کر گر رہے تھے۔ دو تین منٹ میں ہی ہمارے سامنے کافی دور تک میدان بالکل صاف تھا۔
تب مرشد نے جہاز کو چلانا شروع کیا۔ اللہ کی مہربانی سے راستہ خود بہ خود صاف ہوتو چلا گیا۔ جو دو چار بےوقوف ڈو ڈو جہاز کے راستے میں حائل ہوئے ان کے پڑخچے اڑ گئے۔
جب ہم ڈو ڈو پرندوں سے کافی دور آگے نکل آئے، تب مرشد نے جہاز کو اڑان دی۔ میں نے جہاز سے جھانک کر دیکھا، جزیرے پر دور دور تک پرندے نظر آرہے تھے۔ کپتان مرشد نے قطب نما دیکھ کر راستہ متعین کیا اور ہمارا جہاز پرواز کرنے لگا۔ دو گھنٹے بعد ہم ماریشس پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم نے جہاز میں ایندھن بھروایا۔ اس کے بعد ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ ہماری منزل استنبول تھی۔ ہم نے یہ پرندہ ڈو ڈو، وہاں چڑیا گھر کو تحفے میں دے دیا۔
ڈو ڈو کو وہاں کی ٹھنڈی ہوا راس نہ آئی۔ وہ اگلے روز ہی مر گیا۔ علامہ نے اس میں مصالحہ بھروا کر اسے توپ کاپی کے عجائب گھر میں رکھوا دیا۔
بدقسمتی سے وہاں چوروں نے نقب لگائی۔ وہ ہیرے جواہرات کے ساتھ یہ نادر اور نایاب پرندہ بھی اٹھا کر لے گئے۔ علامہ کو اس کا بےحد صدمہ ہوا۔ وہ بار بار کہتے تھے، "میں ڈو ڈو کے بدلے بڑی سے بڑی رقم دینے کو تیار ہوں۔ کاش یہ چور یہ ڈو ڈو میرے حوالے کردے۔ ہیرے جواہرات کا کیا ہے؟ کھو جائیں گے تو اور بہت سے مل جائیں گے لیکن یہ گم شدہ ڈو ڈو پھر کبھی نہ مل سکے گا۔"
اخبار الجمہوریہ میں کئی دن تک اشتہار چھپتا رہا لیکن ڈو ڈو واپس نہ مل سکا۔ اس کے بعد ہم نے ماریشس کے آس پاس سینکڑوں بار پرواز کی مگر وہ جزیرہ نہ مل سکا اور نہ ڈو ڈو کہیں نظر آئے۔ آج بھی مرشد آزونا کو کبھی کبھی پیار سے ڈو ڈو یعنی بےوقوف کہہ کر پکارتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ آزونا اس بات کا برا بھی نہیں مانتا۔​
 
چمکنے والے پھول
علامہ دانش سے بہت دنوں تک ملاقات نہیں ہوئی۔ ہم ان سے ملنے اور کوئی نیا معرکہ سرانجام دینے کے لئے بےتاب تھے۔ علامہ کے پاس نت نئی خبروں کا ذخیرہ رہتا تھا، لیکن وہ کسی مہم پر جانے سے پہلے اس خبر کے متعلق پوری تحقیق کرکے معلومات ضرور حاصل کیا کرتے ۔ آخر ایک دن علامہ ہمارے دفتر میں پہنچے۔ ہم نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ علامہ نے اپنا بیگ کھول کر ایک اخبار کا تراشہ نکالا اور بولے، "برما کے شمال مشرقی حصے میں جنگل کے اندر ایک جھیل ہے، جس کے درمیان ایک ٹاپو (جزیرہ) ہے۔ اس جزیرے میں ایسے پھول کھلتے ہیں، جن کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ پھول رات کے وقت چمکتے ہیں اور ان سے اچھی خاصی روشنی خارج ہوتی ہے۔"
کپتان مرشد نے مسکرا کر کہا، "آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ پھولوں سے روشنی نکلتی ہو۔"
علامہ سنجیدگی سے بولے، "شروع میں تو مجھے بھی اس بات پر یقین نہیں آیا۔ میں نے حکومت برما سے خط و کتابت کی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔" علامہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے اور کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر بولے، "رات کے وقت جگنو کو چمکتے ہوئے آپ نے دیکھا ہے۔ کچھ مچھلیاں بھی چمکنے کی خاصیت رکھتی ہیں۔ بعض پودے ایسی گیسیں خارج کرتے ہیں، جو ہوا میں ملنے سے چمک پیدا کرتی ہیں۔ بعض سبزیوں میں فاسفورس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ جب وہ سبزیاں گلتی سڑتی ہیں تو ایسی گیسیں خارج کرتی ہیں، جن میں فاسفورس کی کچھ مقدار ہوتی ہے۔ یہ فاسفورس ہوا میں جلتا ہے تو روشنی پیدا ہوتی ہے۔"
میں نے کہا، "کیا اس قسم کی روشنی کے لئے فاسفورس کی موجودگی ضروری ہے؟"
علامہ سر ہلا کر بولے، "بالکل صحیح، دراصل فاسفورس کے معنی ہیں، 'میں چمکتا ہوں'۔ ایسی روشنی کے لئے فاسفورس کی موجودگی یقینی بات ہے۔ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پودے فاسفورس کی گیس خارج کرتے ہیں یا پھر ان کے پھولوں میں فاسفورس کی مقدار موجود ہے۔
آزونا قہوہ لے آیا، ہم قہوہ پینے میں مصروف ہو گئے۔
اگلے ہفتے ہم برما پہنچے۔ برما کے جنگلوں میں بہت سی جھیلیں ہیں۔ ان میں صحیح جھیل کا تلاش کرنا بےحد دشوار ثابت ہوا۔ وہاں کے لوگ بےحد وہمی اور ڈرپوک نکلے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ جب ہم جھیل کے نزدیک پہنچتے تو لوگوں کی زبان گنگ ہوجاتی۔ وہ ہمیں کچھ بتانے سے بچتے اور ڈرے سہمے ہوئے رہتے۔ جب ہم جھیل سے بہت دور نکل جاتے تو ہمیں جھیل کے بارے میں سنی سنائی باتیں بتاتے۔ ہم بہت دقت اور دشواری کے بعد اس جھیل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جھیل کے آس پاس دور دور تک کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ وہاں مکانات تو موجود تھے، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہاں لوگ آباد تھے لیکن جب پھولوں سے روشنی نکلنے لگی تو وہ اسے روحوں کا کارنامہ سمجھ کر خوف زدہ ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔
جھیل کے درمیان ایک ٹاپو تھا۔ اس میں ایک ٹوٹا پھوٹا مندر تھا۔ شاید یہاں بھی خوب چہل پہل رہتی ہوگی لیکن اب ویرانی کا دور دورہ تھا۔
ہم نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر جہاز کو جھیل میں اتارا۔ میں جھیل کی خوبصورتی کو کیسے بیان کروں۔ نیلگوں پانی میں ابھرا ہوا جزیرہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑا ہوا نظر آتا تھا۔ جزیرے میں سبزہ بہت تھا۔ طرح طرح کے پھولدار پودے تھے۔ ناریل کے درخت جھرمٹ کی شکل میں جگہ جگہ تھے۔ شاید آپ اس منظر کو بہت خوبصورت اور دلکش سمجھتے ہوں گے۔ ذرا مجھ سے پوچھ کر دیکھئے تو میں بتاؤں کہ اس خوبصورتی کے ساتھ مچھروں کی کثرت، خون چوسنے والی جونکیں، زہریلی مکڑیاں اور خوف ناک سانپوں کے علاوہ بے شمار کیڑے مکوڑے بھی تھے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا تھا، لیکن ہم تحقیق کے شوق میں نکلے تھے۔ ہمیں اپنی جان کی کوئی فکر اور پروا نہیں۔
مرشد نے کہا، "مجھے تو یہاں وہ پھول نظر نہیں آئے۔"
علامہ بولے، "یہ پھول رات کو چمکتے ہیں، اس لئے دن میں نظر نہیں آتے۔"
میں نے اکتا کر کہا، "میں بہت تھک گیا ہوں، میں جہاز پر واپس جاکر کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔"
آزونا اور مرشد نے بھی میری بات کی تائید کی۔ ہم سب جہاز پر واپس پہنچے۔ ہم نے چائے پی۔ کچھ دیر آرام کیا پھر رات کا اندھیرا چھانے لگا۔ آزونا کھانا لے آیا۔ ہم سب کھا پی کر فارغ ہوئے۔ علامہ اپنی کوئی داستان دھرانے لگے۔ اس دلچسپ گفتگو میں خاصی رات بیت گئی۔
علامہ دانش بولے، "پھولوں کی روشنی دیکھنے کے لئے یہ وقت بہت اچھا ہے۔"
کپتان مرشد نے کہا، "معاف کیجئے گا۔ شاید آپ بھول گئے ہیں کہ یہ جنگل جہاں دن کے وقت خاموشی طاری رہتی ہے، رات کے وقت کچھ قسم کے جانور ، سانپ، چھپکلیاں اور دوسرے حشرات (کیڑے مکوڑے) کھانے پینے کی تلاش میں باہر نکلتے ہیں۔ مجھے رات کی تاریکی میں جنگل کی سیر کرنے کا شوق نہیں۔"
میں نے بھی کپتان مرشد کی تائید کی اور کہا، "ممکن ہے کوئی اس اندھیرے میں سانپ یا بچھو پر پاؤں رکھ دے یا کہیں سے کوئی تیندوا نکل آئے۔ ان دریاؤں میں مگرمچھ بھی پائے جاتے ہیں۔"
علامہ فکر مند ہو کر بولے، "پھر کیا کیا جائے؟ تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ۔"
کپتان مرشد نے کہا، "اس وقت تو سب لوگ سوجائیں۔ دن نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہم جزیرے پر چلیں گے۔ ایک گھنٹے میں ہم کافی گھوم پھر لیں گے۔ اس کے بعد سورج نکل آئے گا تو ہم اپنا کام ختم کرکے واپس لوٹیں گے۔"
سب نے اس بات کو پسند کیا۔ ہم سب سوگئے۔ صبح ہونے سے ٹھیک ایک گھنٹے پہلے الارم بجنے لگا۔ ہم سب اس مہم پر چل دئیے۔ سب سے آگے کپتان مرشد تھا۔ اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔ اس کے پیچھے ہم سب تھے۔ ہر ایک کے پاس ضروری سامان تھا۔ راستے میں کوئی خاص بات پیش نہیں آئی۔ چوہے اور دوسرے جنگلی جانور ہمارے قدموں کی چاپ سن کر جھاڑیوں میں گھس جاتے۔ آخر ہم اس ویران مندر تک جا پہنچے۔ اچانک کپتان مرشد ٹھہر گیا اور غور سے مندر کی طرف دیکھنے لگا۔ کوئی بات ضرور تھی جو اس کی سمجھ نہ آ رہی تھی۔ ہم نے بھی مندر کی طرف دیکھا۔ وہاں عجیب ہی منظر تھا۔ مندر عجیب سی روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ یہ پراسرار روشنی کنول کے ان پھولوں سے نکل رہی تھی، جو مندر کے آس پاس اگے ہوئے تھے۔
یہ پھول بھی انوکھے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ پھول شفاف کاغذ کے بنے ہوئے ہوں اور ان کے اندر دور کہیں بلب روشن ہو۔ جن سے نیلی پیلی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں۔ ان پھولوں کی ہر پتی سے روشنی خارج ہو رہی تھی۔ ان کی ٹہنیاں اور ڈنٹھل نظر نہیں آ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ پھول ہوا میں تیر رہے ہوں۔
علامہ دانش نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے منہ سے خوشی کی آواز نکلی۔ وہ دوڑتے ہوئے پھولوں کے پاس پہنچے۔ انہوں نے پھولوں کو پکڑا اور انہیں غور سے دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے پھولوں کو سونگھا۔ اچانک وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹے۔ پھولوں سے عجیب طرح کی بدبو نکل رہی تھی۔ یہ سڑے ہوئے انڈوں کی طرح تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ بری۔ اس بدبو سے مجھے متلی ہونے لگی۔ ایسی بدبو مردم خور (انسانوں کو کھانے والے) پودوں اور صراحی دار پودوں سے آتی ہے۔
جونہی علامہ دانش کی طبیعت ٹھیک ہوئی وہ پھر ان پھولوں کے پاس جا پہنچے اور ان کا مطالعہ کرنے لگے۔ میں، آزونا اور مرشد تو دور دور سے ہی ان پھولوں کا نظارا کرتے رہے۔ ہم پھولوں کے پاس جاکر کیا کرتے؟ کچھ دیر بعد اس روشنی کو دیکھ دیکھ کر طبیعت اکتا گئی۔ بدبو کی وجہ سے مجھے متلی ہونے لگی، لیکن علامہ کے ذوق و شوق کا وہی عالم تھا۔ وہ اس اہم دریافت پر کوئی تقریر فرما رہے تھے۔ انہوں نے ایک پھول توڑا، اس کی روشنی اچانک جاتی رہی۔ انہوں نے ٹارچ کی روشنی میں پھول کا معائنہ کیا۔ اس کی پتیاں گندے اور ردی کاغذ جیسی تھیں۔ علامہ نے نفرت سے کہا، "اس پودے کے چپچپے عرق سے میرے ہاتھ خراب ہو گئے ہیں۔ آزونا ذرا پانی لاؤ تاکہ میں اپنے ہاتھ دھو سکوں۔"
ہم نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا۔ علامہ کے ہاتھوں پر گاڑھا، سرخ اور چپچپا عرق لگا ہوا تھا۔ میں تو یہ سمجھا کہ علامہ کا ہاتھ زخمی ہوگیا ہے۔ علامہ بھی یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ انہوں نے جلدی جلدی گھاس اور پتوں سے یہ عرق پوچھا اور ہاتھوں کو صاف کیا۔
کپتان مرشد نے تجویز پیش کی کہ ہمیں جو دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا، اب ہمیں واپس جہاز پر جانا چاہئے۔ سورج نکلنے کے بعد ہم دوبارہ یہاں آ جائیں گے۔
علامہ دانش بولے، "میں خالی ہاتھ واپس جانا پسند نہیں کرتا۔ میں کچھ پودے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ پھولوں کے چمکنے کا راز پودے کی جڑوں میں پوشیدہ ہے۔"
علامہ دانش کی بات ہمیں ٹھیک معلوم دی۔ ہم نے چاقو سے زمین کھودنی شروع کی، لیکن پودوں کی جڑیں تو بہت گہری تھیں۔
اب اچھا خاصا اجالا ہوگیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ پھولوں کی چمک بھی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ علامہ دانش بہت غور سے اس تبدیلی کو دیکھ رہے تھے۔ جوں ہی سورج نکلا، پھول مرجھا گئے کچھ پھول تو جھڑ کر گر پڑے۔
آزونا جہاز سے بیلچہ اور کدال لے آیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹا اور زمین کھودنے لگا۔ وہ بہت دیر تک کھدائی کرتا رہا لیکن ان پودوں کی جڑیں بہت گہرائی تک چلی گئی تھیں۔
ہم اس صورتحال سے تنگ آچکے تھے۔ آزونا نے پوری قوت سے زمین میں بیلچہ مارا اور مٹی کی کافی مقدار نکال کر باہر پھینکی۔ یہ ٹھیک ہمارے قدموں کے پاس گری۔ جوں ہی یہ مٹی زمین پر گری، اس میں حرکت ہونے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے مٹی میں جان پڑ گئی ہو۔ ہم نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ بےشمار کیڑے ہیں، سرخی مائل بھورے رنگ کے۔ نہ جانے ان میں کس غضب کی طاقت تھی۔ یہ اپنے بدن کو سکیڑ کر ہوا میں چھلانگ لگاتے اورپانچ چھ فیٹ تک اچھلتے۔ ایک کیڑے نے کپتان مرشد کو کاٹ لیا۔ ایک قدر شناس کیڑا علامہ کی ناک سے چپک گیا۔ وہ چیخ مارکر دوڑے لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ علامہ اسی کیڑے کو ہاتھ میں پکڑے اس کا معائنہ فرمارہے تھے۔ ادھر آزونا نے ایک زوردار چیخ ماری۔ میں نے اسے کھینچ کر گڑھے سے باہر نکالا۔ اس کے پیچھے پیچھے سینکڑوں، ہزاروں کیڑوں کا ایک چشمہ بہتا ہوا چلا آرہا تھا۔ ہم پوری تیز رفتاری سے دوڑے۔ علامہ ابھی تک کیڑوں کے اس سیلاب کا مشاہدہ کررہے تھے۔ کپتان مرشد نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "دوڑئیے اپنی جان کو بچانے کے لئے دوڑئیے۔ ورنہ یہ کیڑے ہمیں چٹ کرجائیں گے۔"
علامہ اور مرشد بھی ہمارے پیچھے پیچھے تیز رفتاری سے دوڑنے لگے۔ ہم نے پیچھے مڑکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کیڑوں کی فوج بھی اسی تیز رفتاری سے ہمارے پیچھے چلی آرہی تھی۔ یہ دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔ ہم پھر اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ذرا غور فرمائیے۔ ہم کس چیز سے ڈر کر بھاگ رہے تھے۔ وہ نہ خونخوار جانور تھا نہ دشمن کی فوج۔ یہ تو حقیر اور بے حقیقت کیڑے تھے۔
جب ہم پانی کے پاس پہنچے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جلدی سے جہاز پر سوار ہوگئے۔ کپتان مرشد نے جہاز کا انجن چلایا اور اسے کنارے سے کافی دور لے گیا۔ ہم نے دیکھا کہ کیڑوں کی فوج پانی کے پاس جاکر ٹھہر گئی۔ کچھ دیر بعد دور دور تک کیڑے ہی کیڑے نظر آنے لگے۔
کپتان مرشد نے کہا، "علامہ صاحب، اب آپ ان پودوں کی جڑیں حاصل نہ کرسکیں گے۔"
علامہ افسوس سے بولے، "شاید تم ٹھیک ہی کہتے۔ ان لاتعداد کیڑوں سے نمٹنا ہمارے لئے مشکل، بلکہ ناممکن ہے۔"
ہم برما کے دارالحکومت رنگون گئے۔ وہاں ایک سرکاری افسر نے ہمیں بتایا کہ بہت عرصے پہلے یہ جزیرہ آباد تھا۔ پھر نہ جانے کہاں سے بہت سے مگرمچھ ادھر آگئے اور جزیرے کے لوگوں کو ہڑپ کرنے لگے۔ ایک پجاری نے مگرمچھوں کو پکڑنے کے لئے ایک گہرا گڑھا کھودا اور اس میں ایک بیل باندھ دیا۔ مگرمچھ اس گڑھے میں اترنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ گڑھا ان مکروہ صورت جانوروں سے بھر گیا۔ پجاری نے باہر نکلنے کا راستہ بند کردیا۔ وہ مگرمچھ گڑھے میں پھنس کر رہ گئے اور کچھ دن بعد وہیں مر کھپ گئے۔ ان کے مردہ جسموں سے سڑاند پھوٹنے لگی۔ لوگ اس بدبو سے گھبرا گئے اور جزیرہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد لوگوں میں یہ بعد مشہور ہوگئی کہ جزیرے میں روحیں رہتی ہیں۔
ہم اس مہم سے ناکام لوٹے۔ راستے میں علامہ دانش نے بتایا، "ان مگرمچھوں کے جسم گل سڑ کر کھاد بن گئے۔ اس میں فاسفورس کی بہت مقدار شامل تھی۔ یہی فاسفورس پھولوں میں چمکتا تھا۔ گلنے سڑنے کے عمل سے یہ لا تعداد کیڑے بھی پیدا ہوگئے۔"
میں نے کہا ، "مردہ مگرمچھوں، ان کیڑوں اور پھولوں میں کیا تعلق تھا؟ یہ بات میری سمجھ میں تو آئی نہیں اور وہ کنول کے پھول ٹوٹ تے ہی کیوں مرجھا جاتے تھے؟"
علامہ مسکرا کر بولے، "یہ معمّہ تو ابھی تک میں بھی حل نہیں کرسکا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور سائنس دان اس راز کو حل کر لے۔"
سونٹے والا بھوت
ہم برما کے سفر سے واپس لوٹے تو میز پر کچھ خطوط پڑے ہوئے تھے۔ علامہ نے ان خطوط کو پڑھا۔ ایک خط ان کے مطلب کا نکل آیا۔ یہ کسی جن بھوت کے متعلق تھا۔ اتفاق سے علامہ دانش ان دنوں بھوتوں میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔ علامہ نے کہا، "ایک اور سفر کی تیاری کیجیے۔ اب ہمیں جنوبی افریقہ سے دعوت نامہ ملا ہے۔"
مرشد نے کہا، "جی بہت خوب! ارشاد فرمائیے۔"
علامہ بولے، "افریقہ کے جنوب مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ بہت سے جزیرے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بالکل ویران اور غیر آباد ہیں۔ وہاں گھاس پھونس، سبزہ یا کسی قسم کی نباتات نہیں اگتی۔ وہاں سیل، پنگوئن، سمندری جانور اور پرندے رہتے ہیں۔ یہ جزیرے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے اس علاقے میں جہاز رانی بےحد دشوار ہے۔ ان میں سے ایک جزیرہ والی رُو ہے۔ اس میں بےشمار غار ہیں۔ یوں سمجھو کہ جیسے اس جزیرے میں غاروں کا چھتا بنا ہوا ہے۔ اس سے پانچ میل دور ایک اور جزیرہ ہے۔ اس کا نام ریک ہے۔ یہاں ایک کمپنی نے اپنا ڈپو بنا رکھا ہے۔ اس کمپنی کے جہاز وہاں ٹھہرتے ہیں۔
جزیرہ والی رُو پہلے اچھا خاصا آباد تھا لیکن اب وہاں ایک بھوت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا قد بہت بڑا ہے، شکل بےحد خوفناک ہے اور جسم پر لمبے لمبے بال ہیں۔ وہ بہت زور زور سے چیختا چنگھاڑتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگیں لگاتا رہتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا سونٹا ہے۔ دن کے وقت وہ بھوت کہیں غائب رہتا ہے۔ رات ہوتے ہی وہ چیختا چنگھاڑتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔ لوگوں میں اس کی موجودگی سے بےحد دہشت پھیلی اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے۔ حکومت جنوبی افریقہ نے ہم لوگوں سے کہا ہے کہ ہم تحقیقات کریں۔"
میں نے ہنس کر کہا، "اس دفعہ ایک چیختے چنگھاڑتے بھوت سے ہمارا واسطہ پڑا ہے۔"
مرشد نے پوچھا، "وہاں جہاز اتارنے کے لیے کوئی مناسب جگہ بھی ہے یا نہیں؟"
علامہ بولے، "میرا خیال ہے وہاں جہاز اتارنا کافی مشکل کام ہوگا۔ جزیرے پر بےشمار پرندے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اچھے خاصے بھاری بھرکم اور موٹے تازے ہیں۔ ان میں سے اگر ایک پرندہ بھی جہاز سے ٹکرا جائےتو تباہی یقینی سمجھو۔"
ہم جزیرہ والی رو میں پہنچے۔ کپتان مرشد نے بہت مہارت اور ہوشیاری سے جہاز کو پانی میں اتارا۔ پھر وہ اسے چلاتا ہوا خشکی تک لے گیا۔ ہم جزیرے کا جائزہ لینے کے لیے چل پڑے۔ ہم میں آزونا اور مرشد تو مسلح تھے۔ علامہ دانش کا وہی حلیہ تھا۔ ان کے سر پر عمامہ، پاؤں میں فل بوٹ تھے اور برساتی کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ کندھے پر کیمرا لٹکا ہوا۔
علامہ نے حکم دیا، "بھوت پر ہرگز گولی مت چلانا۔ میں اسے زندہ پکڑنا چاہتا ہوں۔ اگر ہم اسے پکڑ نہ سکے تو میں اس کی ایک تصویر ضرور اتارنا چاہتا ہوں۔"
جزیرے پر پرندوں نے انڈے دے رکھے تھے۔ ہم بہت احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے ان کے گھونسلوں کے پاس سے گزرے۔ اگر غلطی سے کسی پنگوئن کے پاس قدم جا پڑتا تو وہ ٹھونگ مار کر بوٹی ہی نوچ لیتا۔
میں فطرتاً بزدل نہیں ہوں لیکن ایسی ویران و سنسان جگہ پر دل گھبرانے لگا۔ جب ہم قبرستان کے پاس سے گزرے تو ہم نے دیکھا کہ قبریں کھلی پڑی ہیں۔ مردوں کی ہڈیاں، ڈھانچے اور کھوپڑیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ یہ سب اسی مردم خور بھوت کی کارستانی تھی۔ یہ دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ آزونا تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میں نے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ نہ جانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ البتہ علامہ ڈھانچوں اور کھوپڑیوں کی کھٹاکھٹ تصویریں اتاررہے تھے۔
مرشد نے کہا، "یہاں جو کچھ ہے، وہ ہم دیکھ چکے۔ اب ہمیں جزیرے کی دوسری جگہوں کا جائزہ لینا چاہیے۔"
کافی دیر تک ہم نے کوئی نئی چیز نہیں دیکھی۔ ایک سیل میرے قریب آیا۔ اس کا ارادہ مجھ پر حملہ کرنے کا تھا۔ اگر اس جزیرے پر سیل کا شکار منع نہیں ہوتا تو میں اسے گولی مار دیتا۔
ایک پہاڑی کا چکر کاٹ کر ہم دوسری طرف پہنچے۔ ایک تنگ کھاڑی دور تک چلی گئی تھی۔ ہم نے جو کچھ وہاں دیکھا، وہ ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔ وہ جگہ مذبح خانہ بنہ ہوئی تھی۔ ہر طرف خون بکھرا پڑا تھا۔ ساحل کی ریت خون سے سےخ ہورہی تھی۔ پہاڑی پر خون ہی خون تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ سمندر کا پانی بھی خون سے لال ہورہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی ہو، لیکن خون کس کا تھا؟ دور و نزدیک کوئی زندہ یا مردہ چیز نہیں تھی۔ ہمیں وہاں صرف ایک جاندار مخلوق نظر آئی اور وہ تھی شارک۔ یہ شارکیں وہاں کافی تعداد میں موجود تھیں۔ پانی میں تیرتی ہوئی شارکوں کے پر دور دور تک نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا، "آپ نے پکنک کے لیے بہت خوب جگہ منتخب کی۔"
مرشد ہنس کر بولا، "نہانے کے لیے تو اس سے بہتر جگہ مل ہی نہیں سکتی۔ ایک غوطہ لگاؤ اور عدم آباد پہنچ جاؤ۔"
علامہ نے شارکوں کے دانت دیکھے تو ان کا رنگ بھی زرد پڑ گیا۔ وہ پریشان ہو کر بولے، "اللہ جانے یہاں کیا ہورہا ہے؟"
مرشد بولا، "بھوت اپنی سفاکی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک بھوت اتنا قتل و خون نہیں کر سکتا۔"
یہ کہہ کر مرشد دو تین قدم آگے بڑھا۔ اس نے تازہ تازہ خون مین انگلی ڈبو کر اسے سونگھا۔ وہ کچھ نہیں بولا اور نہ ہم نے کچھ پوچھنا مناسب سمجھا۔ کہنے سننے کے لیے اب اور کیا باقی رہ گیا تھا؟ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اسی وقت جہاز میں بیٹھ کر واپس ہو چکا ہوتا۔ اس بھوت سے نمٹنا میرے بس کی بات نہین تھی۔
جب ہم جہاز پر پہنچے تو شام کا دھندلکا چھا رہا تھا۔ کپتان مرشد کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ مرشد نے کہا، "سب لوگ جہاز میں سوار ہوجائیں، ہمیں اسی وقت واپس چلنا ہے۔"
میں نے خوش ہو کر کہا، "بھئی واہ! تم نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔"
مرشد نے گھور کر میری طرف دیکھا اور بولا، "اس خوش فہمی میں مت رہو کہ ہم واپس جا رہے ہیں۔"
میں نے حیران ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟"
مرشد نے کہا، "میں جہاز کو یہاں سے اڑا کر لے جاؤں گا اور اسے جزیرے کے نزدیک ہی اتار کر واپس آجاؤں گا۔"
علامہ جزبز ہو کر بولے، "آخر اس کا مطلب؟"
کپتان مرشد نے کہا، "میں اس بھوت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سیر و تفریح کے لیے یہاں آئے تھے اور دن بھر پکنک منا کر واپس چلے گئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم یہاں آئے تو جہاز کے شور کی وجہ سے بھوت چوکنا ہوگیا۔ ممکن ہے کہ وہ کسی غار میں ہو اور ہماری سب حرکات دیکھ رہا ہو۔ جب وہ دیکھ لے گا کہ جہاز واپس چلا گیا ہے تو اسے اطمینان ہوجائے گا۔ وہ اپنے غار سے باہر نکلے گا اور بےفکر ہو کر گھومنے پھرنے لگے گا۔ بس میں یہی چاہتا ہوں۔"
علامہ خوش ہو کر بولے، "بھئی بہت خوب!"
مرشد نے اس منصوبے پر عمل کای اور جہاز کو دور لے جا کر پانی میں اتارا اور اسے چلاتا ہوا جزیرے کے نزدیک جھاڑیوں مین لے گیا اور اسے وہاں چھپا دیا۔ ہم چھپتے چھپاتے گاؤں میں داخل ہوئے۔ پہلے یہاں کافی رونق رہتی ہوگی۔ اب مکان خالی اور ویران پڑے تھے۔ ہم ایک ایسے کمرے میں چھپ گئے، جس میں چاروں طرف کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں۔
رات کے پہلے وقت میں خاصا اندھیرا تھا، جب چاند نکل آیا تو ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی۔ کوئی بارہ بجے کا عمل ہوگا کہ کپتان مرشد بہت آہستہ سے بولا، "وہ دیکھو، بھوت اس چوٹی پر کھڑا ہے۔"
ہم نے دیکھا، پہاڑی کی چوٹی پر ایک لمبا تڑنگا بھوت کھڑا تھا۔ اس کے سارے جسم پر لمبے لمبے بال تھے اور ہاتھ میں ایک موٹا سا سونتا تھا۔
علامہ نے آہستہ سے کہا، "آؤ اسے جا کر پکڑ لیں۔"
مرشد نے کہا، "کیا آپ نے اس کے ہاتھ مین سونٹا نہیں دیکھا؟ وہ سونٹا مار کر بھیجا نکال دے گا اور اگر ہم نے اسے گولی ماری تو قتل کے الزام میں دھر لیے جائیں گے۔"
تھوڑی دیر بعد وہ بھوت چلتا ہوا پہاڑی کی دوسری طرف چلا گیا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
علامہ ہاتھ ملتے ہوئے بولے، "افسوس وہ بچ کر نکل گیا۔"
کپتان مرشد نے کہا، "آپ سب میرے پیچھے پیچھے آئیے۔ خبردار کوئی شور نہ ہو۔"
ہم چھپتے چھپاتے ہوئے اس طرف چلے جہاں بھوت گیا تھا۔ اس پہاڑی کے پیچھے ایک اور پہاڑی تھی۔ ہم نے اسے پار کیا۔ اس کے پیچھے تیسری پہاڑی تھی۔ ہم نے اسے بھی پار کیا۔ آہستہ آہستہ چلتے بلکہ رینگتے ہوئے ہمیں تین گھنٹے لگ گئے۔
اس تیسری پہاڑی کی چوٹی بہت اونچی تھی۔ نیچے ایک میدانی علاقہ تھا۔ ہم نے چوٹی سے جھک کر دیکھا۔ وہاں آگ جل رہی تھی۔ ہم حیران رہ گئے۔ مرشد نے پوچھا، "علامہ صاحب! کیا بھوت پریت آگ بھی جلاتے ہیں؟"
علامہ چڑ کر بولے، "مجھے کیا معلوم؟ آج تک کسی بھوت سے میرا واسطہ نہیں پڑا۔"
مرشد ہنکارا بھر کر بولا، "ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھوت آگ جلانا جانتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے علاوہ بھی وہ بہت کچھ جانتا ہے۔"
میں نے پوچھا، "آخر بھوت کو آگ جلانے کی کیا ضرورت تھی؟"
مرشد ہنس کر بولا، "میرا خیال ہے کہ وہ آگ پر بھون بھون کے تکے کباب کھاتا ہے۔ ذرا صبح ہوجائے تو اس کی مزاج پرسی کرتے ہیں۔"
آزونا ستاروں کی طرف دیکھ کر بولا، "صبح ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے۔"
دن نکلنے تک ہم اسی جگہ بیٹھے رہے۔ ہم نے پھر جھانک کر دیکھا۔ میں نے کچھ لوگوں کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ کچھ دیر بعد چھے سات آدمی ایک چھوٹی سی کشتی کھیتے ہوئے ساحل پر آئے۔ میں نے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ یوں اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا کہجیسے اسے سب باتوں کا پہلے سے علم تھا۔
وہاں کوئی گڑبڑ ضرور تھی لیکن کیاِ؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ لوگ ایک غار میں گئے اور وہاں سے کسی چیز کے بنڈل اٹھا کے لائے اور انہیں ایک جگہ ڈھیر کردیا۔
علامہ نے پوچھا، "یہ لوگ کون ہیں؟"
کپتان مرشد کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ وہ بالا، "یہ لوگ سیل کے شکاری ہیں اور سیل کا ناجائز شکار کرتے ہیں۔"
علامہ نے پوچھا، "تمہارا مطلب ہے کہ ان بنڈلوں میں کھالیں ہیں؟"
مرشد نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ اس علاقے میں سیل کا شکار کرنا منع ہے۔ یہ لوگ ایک جزیرے سے یہاں شکار کھیلنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ سونٹے والا بھوت ان کا کارندہ ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو خوفزدہ کر کے یہاں سے دور رکھے۔ جب میں نے خون دیکھا تو مجھے اسی وقت شبہ ہوگیا تھا کہ یہاں سیل کو زبح کیا جاتا ہے۔ اگر سیل کو گولی مارتے تو سیل کی کھال میں سوراخ ہوجاتا اور وہ بےکار ہوجاتی۔ اس لیے اسے سونٹے مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس کی کھال اتار کرگوشت سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ اسی لیے اس جگہ شارک مچھلیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔"
یہ کہہ کر مرشد تیزی سے پہاڑی سے نیچے اترنے لگا۔ وہ سیدھا اس جگہ پہنچا جہاں شکاریوں کی کشتی کھڑی تھی۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کشتی کے پیندے پر دے مارا۔ اس میں ایک بڑا سوراخ ہوگیا۔ کشتی فوراً ہی پانی میں ڈوب گئی۔ اس نے خوشی سے چہک کر کہا، "لیجیے ان کا کھیل ختم ہوا۔ اب وہ جزیرے پر قیدی ہیں۔"
کچھ دیر بعد شکاری، کھالوں کے بنڈل اٹھا کر کشتی کی طرف لے چلے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس جگہ لے گئے جہاں کشتی موجود تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کشتی غائب ہے تو انہوں نے بہت شور مچایا۔ انہوں نے ڈوبی ہوئی کشتی کو باہر نکالا۔ جب انہوں نے دیکھا کہکشتی کے پیندے میں سوراخ ہے تو انہیں یقین ہوگیا کہ جزیرے پر کوئی اور بھی موجود ہے۔ انہوں نے ریوالور نکال لیے اور ہماری تلاش میں ادھر ادھر چل دیے۔
ہم نے بہت ہوشیاری سے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ مرشد نے اونچی آواز میں کہا، "اپنے ہتھیار پھینک دو، تم ہمارے گھیرے میں ہو۔"
یہ کہتے ہی اس نے ایک ہوائی فائر بھی داغ دیا۔ وہ لوگ دھماکے سے اچھل ہی پڑے۔ انہوں نے مجبور ہو کر اپنے ہتھیار پھینک دیے اور ہاتھ اونچے کر کے کھڑے ہوگئے۔
ادھر ہمارے افریقی ملازم آزونا نےوائرلیس کے زریعہ سے جنوبی افریقہ کی حکومت کے بحری افسروں سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے فوری طور پر دو موٹر لانچیں روانہ کردیں۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہم نے ان مجرموں کو جرم کے ثبوت یعنی کھالوں کے بنڈلوں سمیت پولیس کے حوالے کر دیا۔
ان میں سے ایک سرکاری گواہ بن گیا۔ اس نے ساری حقیقت کا انکشاف کردیا۔ ان نے کہا، "دوسرے جزیرے پر جہازراں کمپنی نے جو ڈپو بنا رکھا تھا، وہ صرف حکومت کو دھوکا دینے کے لیے تھا۔ ورنہ وہ کمپنی دو سال سے سیل کا ناجائز شکار کر رہی تھی۔ اگر علامہ دانش دخل اندازی نہ کرتے تو یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا۔"
ان لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کے منصوبہ بنایا تھا۔ جزیرے پر رہنے والوں کی موجودگی میں سیل کا شکار کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے جزیرے کے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بھگا دینے کا منصوبہ بنایا۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایک لمبا تڑنگا حنشی ملازم رکھا۔ اسے بالوں والا لباس پہنایا۔ وہ دن بھر کسی غار میں چھپا رہتا اور رات کے وقت باہر نکلتا۔ اسے حقیقی رنگ دینے کے لیے وہ ٹیپ ریکارڈر سے چیخوں اور چنگھاڑوں کی بہت خوفناک آوازیں نکالتا۔
یہ تھی اس سونٹے والے بھوت کی حقیقت، جسے جان کر علامہ دانش کو بہت مایوسی ہوئی۔ کپتان مرشد بھی اتنا ہی رنجیدہ اور مایوس تھا۔ حکومت نے ہمارے اس کارنامے کی تعریف کی اور ہمیں انعام و کرام سے نوازا۔ علامہ دانش کو ملک کا سب سے بڑا قومی اعزاز اسٹار آف افریقہ میرا مطلب ہے ستارہ افریقہ عطا کیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک لاکھ روپے کا انعام بھی تھا۔
مجھے، آزونا اور مرشد کو بھی حکومت نے انعامات عطا کیے۔ علامہ آج بھی کسی بھوت پریت سے ملنے کے لیے اتنے ہی آرزومند ہیں۔​
 
بھُوتوں کی بستی
علّامہ دانش ان دنوں بھوتوں کے متعلق تحقیقات کر رہے تھے۔ اتفاق سے انہی دنوں آسٹریلیا کے اخباروں میں ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی۔ وہاں ایک ویران بستی میں بھوتوں نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ اس کی تصدیق کئی لوگوں نے کی تھی۔ علّامہ نے ہمیں اخبار کا ایک تراشہ پڑھنے کے لیے دیا۔ اس میں یوں لکھا تھا:
بھُوتوں کی بستی
جنوبی آسٹریلیا میں دریائے کوپر کے کنارے ایک بستی جارج ٹاؤن آباد تھی۔ دریا کے دونوں طرف بہت اونچے اونچے درخت تھے اور اس کی وادی بےحد سرسبز و شاداب تھی۔ لوگوں نے وہاں مویشیوں کے فارم قائم کر رکھے تھے۔ بدقسمتی سے دریا نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا۔ اس کے کنارے بسنے والے گاؤں جارج ٹاؤن کے لوگ پانی کی تلاش میں اپنے گھربار چھوڑ کر دوسری جگہوں میں منتقل ہونے لگے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد یہ بستی بالکل ویران ہوکر رہ گئی۔جو جانور وہاں باقی رہ گئے تھے، وہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے۔ آخر بھوک پیاس سے وہیں مر گئے۔ ہزاروں جانوروں کے ڈھانچے وہاں بکھرے پڑے ہیں۔ ایک خشک تالاب کے ارد گرد سینکڑوں جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ پیاس سے مر گئے تھے۔ان کا گوشت تو کب کا گل سڑ چکا تھا۔ صرف ہڈیوں کے ڈھانچے اور چمڑا رہ گیا تھا۔
بعض مکانات مٹی میں دفن ہوچکے ہیں، بعض گر چکے ہیں لیکن کچھ مکانات ابھی تک صحیح سالم موجود ہیں۔ ان کے رہنے والے جو میز، کرسیاں، کتابیں، کپڑے اور دوسری چیزیں جس طرح چھوڑ کر گئے تھے وہ جوں کی توں موجود ہیں۔ پہلے ان مکانوں میں انسان رہتے بستے تھے، مگر اب وہاں چوہوں، الوّوں اور پہاڑی کوّوں کا بسیرا ہے۔ غرض پورا ماحول بےحد دہشت ناک ہے۔ کچھ عرصے بعد یہ افواہ سنی گئی کہ یہاں بھوتوں نے ڈیرا جما لیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ بھوت چیختے چلاتے ہیں اور انسانوں کی طرح بولتے ہیں۔
کچھ عرصے قبل ایک سفید فام شخص سونے چاندی کی تلاش میں اس بستی میں پہنچا۔ کچھ دنوں بعد وہ گرتا پڑتا واپس ایک آبادی میں پہنچا۔ وہ ڈر کے مارے پاگل سا ہورہا تھا۔ اس نے بہت مشکل سے بھوتوں کے متعلق کچھ بتایا۔ وہ کچھ عرصے بخار میں مبتلا رہ کر چل بسا۔
ایک افسر بہت دلیر آدمی تھا۔وہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے وہاں گیا۔اس کا بھی بھوتوں سے واسطہ پڑا۔ بھوتوں نے اس کو اتنا ڈرا دیا کہ وہ بہت دن تک بیمار رہا۔ آخر وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر انگلستان چلا گیا۔
ہمارے اخباری نمائندوں کی ایک جماعت اس خبر کی سچائی معلوم کرنے کے لیے جارج ٹاون پہنچی۔ وہاں کا ماحول بےحد دہشت ناک ہے۔ ان کے وقت تو وہاں بالکل سناٹا طاری رہتا ہے۔ انہوں نے رات کے وقت بھوتوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں۔ وہ بھی دہشت زدہ ہو کر وہاں سے واپس لوٹے۔
میں نے اخبار علّامہ کو واپس دے دیا۔
علّامہ نے اخبار کو اپنے بیگ میں رکھا اور بولے، "میرا ارادہ ہے کہ آسٹریلیا جاؤں اور خود ان بھوتوں کے متعلق تحقیقات کروں۔"
اگلے ہفتے ہم آسٹریلیا پہنچے۔ جو اخبار میں لکھا ہوا تھا، وہ حرف بہ حرف درست نکلا۔ ویران اور غیر آباد مکانات دیکھ دیکھ کر وحشت ہونے گی۔ جگہ جگہ ہڈیوں کے ڈھیر اور ڈھانچے دیکھ کر طبیعت اور بھی زیادہ پریشان ہوئی۔ میں نے وہ تالاب بھی دیکھا، جس کے پاس سینکڑوں جانور بھوک پیاس سے مر گئے تھے اور ان کے ڈھانچے ابھی تک پڑے ہوئے تھے۔
دن کا وقت تو جیسے تیسے گذر گیا۔ رات آئی تو ڈر کے مارے میری بری حالت تھی۔ کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا بھوتوں کو دیکھنے کے لیے نہیں چلو گے؟"
میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا، "مجھے معاف ہی رکھیے۔ مجھے بھوتوں سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔"
جب مرشد، آزونا اور علامہ دانش چلے گئے تو اور بھی زیادہ دہشت محسوس ہونے لگی۔ میں جہاز سے باہر نکلا، سوکھی جھاڑیاں اور گھاس پھونس اکھٹی کی اور چائے بنانے لگا۔ کچھ دیر بعد جب میں چائے پی رہا تھا تو کسی نے بہت آہستہ سے لیکن صاف اور واضح آواز میں کہا، "وہ سب مر گئے۔"
میرا رواں رواں خوف سے کھڑا ہوگیا۔ میں نے وہاں سے بھاگ جانا چاہا لیکن میرے پاؤں من من بھر کے ہوگئے تھے۔
پھر کسی نے بہت درد ناک آواز میں کہا، "پانی پانی، اللہ کے لیے مجھے پانی پلادو۔"
جواب میں کوئی قہقہہ مار کر ہنسا۔ پھر کسی نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا، "آہ، وہ سب مر گئے مرگئے مرگئے۔"
میں نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی تو نہ تھا۔ پھر کسی نے میرے سر کے بالکل اوپر چیخ مار کر کہا، "ہائے سب مرگئے، مرگئے۔"
میں نے اوپر نگاہ ڈالی، وہاں کوئی نہیں تھا۔ دور آسمان پر ستارے ٹمٹمارہے تھے۔ مجھے پاگل بنانے کے لیے یہ بہت کافی تھا۔ میں نے خوف اور دہشت سے ایک چیخ ماری اور اپنے ساتھیوں کی تلاش میں دیوانوں کی طرح دوڑا۔ میں نے پوری قوّت سے آواز دی، "تم کہاں ہو؟ مرشد، آزونا، علّامہ۔"
کسی نے بہت قریب سے جواب دیا، "مرگئے، سب مر گئے، مرگئے۔" پھر کوئی سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ میں کمزور اعصاب کا وہمی آدمی نہیں ہوں لیکن اس وقت خوف اور دہشت سے میرا حال بہت برا تھا۔ میں مدد کے لیے چیختا چلاتا ہوا دوڑتا چلا گیا۔ راستے میں ان جانوروں کے ڈھانچوں سے ٹکرا گیا جو تالاب کے کنارے پڑے تھے۔ میں تالاب میں جا گرا اور بہت سے ڈھانچے میرے اوپر آ گرے۔ گرتے وقت میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ اس کے بعد میں بےہوش ہوگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میرے سب ساتھی میرے پاس موجود تھے۔ انہوں نے ہی مجھے تالاب سے نکالا تھا۔ میں نے مختصر لفظوں میں اپنی کہانی سنادی۔ مرشد ہنس کر بولا، "یہ سب تمہارا وہم ہے۔ ہم بھی یہاں بہت دیر سے گھوم پھر رہے ہیں، ہمیں تو کوئی بھوت ملا نہیں۔" اس کی تسلی آمیز باتوں سے میرے دل کو بھی ڈھارس ہوئی۔ میں نے کہا، "تم سب میرے ساتھ چلو۔ پھر خود ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میں سچ کہتا ہوں یا جھوٹ؟"
ہم اس جگہ پہنچے جہاں میں نے چائے بنائی تھی۔ اچانک کسی نے بہت گھٹی گھٹی آواز میں کہا، "پانی پانی، مجھے تھوڑا سا پانی پلادو۔"
کوئی سامنے کے مکان سے قہقہہ مار کر ہنسا، ۔ پھر کسی نے چیخ ماری اور دردناک آواز میں کہا، "سب مرگئے، آہ، مرگئے مرگئے۔"
ہمارا افریقی ملازم تو اچانک ہی بےہوش ہو کر گر پڑا۔ وہ بےچارا بہت دیر سے ہمّت کا مظاہرہ کر رہا تھا لیکن بھوتوں کی چیخ و پکار کی تاب نہ لاسکا۔ میں اس کی تیماداری میں مصروف ہوگیا۔ کافی دیر بعد اسے ہوش آیا۔ مرشد تعجب سے بولا، "یہ بات تو بہت عجیب ہے!"
وہ جلدی سے جہاز میں گھس گیا اور وہاں سے بارہ بور کی رائفل اٹھا لایا۔ علّامہ تیزی سے بولے، "تم کیا کرنا چاہتے ہو؟"
مرشد بولا، "میں صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ درجن بھر گولیاں کھا کر بھوت کیا کہتے ہیں۔"
علّامہ بولے، "بےوقوف مت بنو۔ بھوتوں پر ان گولیوں کا اثر نہیں ہوگا۔"
مرشد بولا، "یہ بھی دیکھا جائے گا۔"
کسی نے اس وقت عین ہمارے سر کے اوپر سے چلا کر کہا، "مرگئے، آہ سب مےگئے۔"
کپتان مرشد آواز کی سمت میں اندھا دھند گولیاں چلانے لگا۔
کسی نے بڑی خوف ناک چیخ ماری لیکن بھوت کا نام و نشان تک نظر نہیں آیا۔ میرے جسم پر ٹھنڈے پسینے کی دھاریں بہنے لگیں۔
کپتان مرشد نے کہا، "میں بھوتوں کو دیکھے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔"
اس نے اپنی بندوق میں گولیاں بھریں اور گاؤں کی طرف چلا۔ میں مرشد کے ساتھ ساتھ ہی رہا۔ راستے میں وہی دہشت ناک آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ کبھی کوئی نزدیک سے بولتا، کبھی آوازیں دور سے آتیں۔ کبھی یوں لگتا کہ بدروحیں ہر طرف منڈلاتی پھر رہی ہوں۔ آخر ہم ان ٹوٹے پھوٹے مکانات تک جا پہنچے۔ کپتان مرشد نے ٹارچ کی روشنی میں ایک مکان کے اندر دیکھا۔ وہاں چوہے، چمگاڈریں اور مکڑی کے جالوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں تھا۔ علّامہ دانش بولے، "تم نے روشنی کر کے بھوتوں کو بھگا دیا ہے۔ اب ذرا اس ٹارچ کو تھوڑی دیر کے لیے بجھادو۔"
کپتان مرشد نے علّامہ کی ہدایت پر عمل کیا اور ٹارچ بجھادی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اندھیرے میں مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔
کوئی پانچ منٹ بعد ہی کوئی ہمارے قریب قہقہہ مار کر ہنسا۔ کپتان مرشد نے اسی سمت میں ٹارچ سے روشنی پھینکی لیکن افسوس ذرا دیر ہوگئی تھی۔ ایک سایہ ہوا میں تیرتا ہوا کھڑکی سے باہر نکل گیا۔مرشد نے فوراً اس طرف ایک فائر داغ دیا۔ باہر سے بہت سی چیخیں اور شور سنائی دیا۔ شاید بھوت ہماری بےبسی کا مذاق اڑا رہے تھے۔
میں نے آہستہ سے کہا، "میرا خیال بہت ہوچکا ہے۔ اب ان بھوتوں کا پیچھا چھوڑ دو۔ واپس چلو۔"
علّامہ بھی میرے ہم خیال تھے لیکن مرشد بہت عزم سے بولا، "واہ جی، اتنا روپیہ پیسہ خرچ کر کے ہم ان بھوتوں سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ تم میں سے جو کوئی جانا چاہتا ہے، وہ بہت شوق سے واپس جائے۔ میں تو ان بھوتوں سے ملے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔"
علّامہ دانش نے کئی مرتبہ بڑبڑاتے ہوئے کہا، "کہ یہ سب کیا اسرار ہے۔"
مرشد نے مجھ سے کہا، "تم یہ ٹارچ سنبھال کر آگے آگے چلو۔"
میری تو جیسے جان ہی نکل گئی، لیکن مجھے کپتان مرشد کا حکم ماننا پڑا۔ ہم ایک کمرے میں پہنچے۔ وہاں پیانو رکھا ہوا تھا۔جوں ہی میں نے کمرے میں قدم رکھنا چاہا۔ کوئی چیز بہت تیزی سے باہر کی طرف نکلی۔ اس نے بہت زور سے میرے منہ پر چانٹا مارا، میں لڑکھڑا کر گرا اور ساتھ ہی ٹارچ میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر دور جا گری۔
مرشد نے جلدی سے ٹارچ اٹھا کر اس کی روشنی میرے اوپر پھینکی اور پوچھا، "یہ کیا چیز تھی؟"
میں نے ہکلاتے ہوئے کہا، "میں خود نہیں جانتا، بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ کسی نے بہت زور سے میرے منہ پر چانٹا مارا ہے۔"
میں نے محسوس کیا کہ میرا چہرہ گیلا ہورہا ہے۔ علّامہ دانش نے ٹارچ کی روشنی میں میرا چہرہ دیکھا اور بولے، "ارے! تمہارے منہ پر تو خون لگا ہوا ہے۔"
مرشد نے جلدی جلدی کپڑے سے میرا منہ پوچھا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے چہرے پر کوئی زخم نہیں آیا تھا۔
ہم نے کمرے میں قدم رکھا تو ہماری نظریں خون میں لت پت چوہے پر پڑیں۔
مرشد مسکرا کر بولا، "ایک بات تو معلوم ہوگئی۔ وہ یہ کہ تمہارے چہرے پر جو خون لگا ہوا تھا وہ اس چوہے کا تھا۔"
پھر وہ علّامہ سے مخاطب ہوا، "علامہ صاحب! کیا بھوت چوہے بھی کھاتے ہیں؟"
علّامہ دانش جھنجھلا کر بولے، "ارے بھئی مجھے کیا معلوم، بھوت کیا کھاتے ہیں اور کیا نہیں کھاتے! مجھے آج تک کسی بھوت سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔"
کپتان مرشد ہنس کر بولا، "کیا آپ بھوت سے ملنا پسند فرمائیں گے؟"
مجھے محسوس ہوا کہ کپتان مرشد بھوتوں کی حقیقت جان چکے ہیں۔ مرشد نے کہا، "ذرا ایک منٹ ٹھہریے۔"
پھر اس نے ٹارچ میرے ہاتھوں میں تھمادی اور بولا، "جوں ہی میں آواز دوں تم ٹارچ کی روشنی چوہے پر پھینکنا۔ دیکھو، ایک منٹ کی تاخیر بھی کام بگاڑ سکتی ہے۔ بھوت ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔"
اب پھر انتظار کا دور شروع ہوا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک ہم دم سادھے کھڑے رہے۔ اچانک مرشد نے آواز دی، "ٹارچ جلاؤ، جلدی۔"
میں نے ٹارچ کی روشنی مردہ چوہے پر پھینکی۔ دھائی، مرشد کی بندوق سے گونج دار آواز نکلی۔ ہم دوڑتے ہوئے مکان سے باہر نکلے۔ وہاں مردہ چوہے کے برابر ایک پہاڑی کوّا پرا تھا۔
علّامہ ہنس کر بولے، "تم بھوت مارنے گئے تھے یا پہاڑی کوّے کو؟"
مرشد طنزیہ لہجے میں بولا، "اجی قبلہ، میں نے بھوت پر گولی چلائی تھی اور آپ کا بھوت یہی ہے۔"
مین نے کہا، "اب پہیلیاں تو نہ بھجواؤ۔ مجھے تمہاری باتوں سے الجھن سی ہونے لگی ہے۔"
کپتان مرشد ہنس کر بولا، "ارے بھولے بادشاہ! یہی تو وہ بھوت ہے، جس سے ڈر کر تم بےہوش ہوگئے تھے۔ کیا تم نے پہاڑی کوّوں کو بولتے نہیں سنا؟ سدھائے ہوئے پہاڑی کوّے طوطوں سے زیادہ بہتر اور صاف بول سکتے ہیں۔"
اب ساری بات صاف ہوگئی تھی۔ ہم اپنی حماقتوں پر دل کھول کر ہنسے۔ علّامہ دانش قہقہہ لگا کر بولے، "کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔"
جب ہم جہاز پر پہنچے اس وقت بھی قہقہے لگا رہے تھے۔ آزونا ہمارا حال دیکھ کر بہت فکرمند ہوا۔ وہ سمجھا ہم سب پاگل ہوگئے ہیں۔ اپنی ہنسی پر بہت مشکل سے قابو پا کے مرشد نے آزونا کو سب بات بتادی۔ وہ بھی بھوتوں کی حقیقت جان کر قہقہے لگانے لگا۔ وہ جہاز کے کیبن میں گیا اور چائے بنا کر لایا۔ کافی دیر بعد ہماری ہنسی اور قہقہوں کا طوفان تھما۔
علّامہ بولے، "کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ جسے ہم بےحد پراسرار راز سمجھتے تھے، حقیقت میں وہ کچھ بھی نہ تھا۔ البتہ کچھ باتیں میری سمجھ میں بھی نہیں آئیں۔ پہاڑی کوّا دن کا جانور ہے۔ اس مین کس طرح الوّوں اور چمگادڑوں کی طرح رات میں دیکھنے اور دن میں اندھے پن کی خاصیت پیدا ہوگئی؟ ممکن ہے کبھی کوئی ساٗنسدان اس راز سے پردہ اٹھا دے۔"
اگلے دن ہم ان پہاڑی کوّوں کی تلاش میں نکلے۔ اندھیرے کونوں کھدروں میں ہم نے بہت سے کوّوں کو اونگھتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے دو تین کوّوں کو پکڑ کر روشنی میں لا کر چھوڑ دیا۔ ان کی آنکھیں روشنی میں چندھیا گئیں اور وہ اندھوں کی طرح ہوگئے۔
علّامہ نے کہا، "جب لوگ یہاں آباد ہوئے اور بستیاں بنا کر رہنے لگے تو وہ لوگ یہ کوّے بھی اپنے ساتھ لائے ہوں گے۔ کچھ کوّے لوگوں نے اپنے گھر میں پال رکھے تھے۔ یہ طوطوں کی طرح انسانی آواز کی نقل اتار سکتے ہیں اور بہت جلدی بولنا سیکھ جاتے ہیں۔ جب دریائے کوپر خشک ہوگیا تو لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے۔ شاید دو تین لوگ یہاں کسی وجہ سے رہ گئے۔ وہ پیاس سے مرنے لگے تو کسی نے پکارا، "پانی پانی، اللہ کے واسطے مجھے پانی پلا دو۔" کوئی اور شخص سب لوگوں کی تباہی پر سسکیاں بھر کر رویا ہوگا اور بولا ہوگا، "مرگئے، آہ مرگئے، سب مرگئے۔"
اب اتفاق دیکھیے ان کوّوں نے آخری الفاظ یاد کرلیے۔ وہ یہی الفاظ بار بار دہراتے رہے۔ پھر انہوں نے انڈے دیے اور ان سے بچّے نکلے، انہوں نے بھی یہ سبق یاد کرلیا۔ اس طرح ہوتے ہوتے پہاڑی کوّوں کی ساری آبادی ان الفاظوں کی نقل کرنے لگی۔ ان کوّوں کو ان باتوں کا مطلب تو معلوم نہیں تھا، مگر جس سفید فام شخص نے انہیں سنا، اس کے حواس گم ہوگئے۔ یہی حال اس کے افسر کا ہوا۔"
کپتان مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "اور یہی حال تمہارا ہوا۔ آزونا تو خیر سے ہے ہی وہمی۔"
میں نے جھینپ کر کہا، "مجھ ہی پر کیا موقوف ہے، یہاں تو بڑے بڑے پہلوانوں کا پِتّا پانی ہوجاتا ہے۔"
یوں علّامہ دانش کی ہر بات کی تہہ تک پہنچنے کی عادت اور مرشد کی بہادری کے سبب یہ راز سب پر ظاہر ہوگیا۔
لوہے کے پنجے والا بھوت
ہم اپنے دوست فریدوں شومیر سے ملنے کے لیے ملایا پہنچے۔ اس نے ایک بے حد ضروری کام کے لیے ہمیں بلایا تھا۔ جب ہم ملایا پہنچے تو فریدوں نے ہمارا پرجوش استقبال کیا۔ علامہ دانش نے پوچھا، "آپ نے ہمیں کس لیے یاد فرمایا ہے؟" فریدوں نے ادھر اُدھر دیکھا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہاں ہمارے علاوہ کوئی اور شخص موجود نہیں ہے تب وہ بولا، "آج کل یہاں گاؤں ملاکا میں عجیب واقعات پیش آرہے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ گاؤں میں بھوت آتے ہیں۔"
میں اور مرشد ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ ان دنوں علامہ رانش بھوتوں کے متعلق تحقیقات کر رہے تھے۔ اگر کسی جگہ بھوتوں کی موجودگی کی اطلاع ملتی تھی تو علامہ فوراً وہاں پہنچ جاتے تھے۔
فریدوں شومیر نے کہا، "یہ بھوت گاؤں کے ایک کسان عبداللہ نے دیکھے ہیں۔ میں نے اسے بلوایا ہے۔ وہ اب آتا ہی ہوگا۔"
کچھ دیر بعد عبداللہ بھی آگیا۔ وہ ایک پڑھا لکھا اور سمجھ دار شخص تھا۔ فریدوں شو میر نے کہا، "عبداللہ! تم اطمینان سے کرسی پر بیٹھ جاؤ اور جو کچھ تم نے دیکھا ہے وہ تفصیل سے بیان کرو۔" عبداللہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ پھر وہ کہنے لگا، "میں ملاکا گاؤں سے کافی فاصلے پر ایک الگ تھلگ جگہ پر رہتا ہوں۔ پہلے میں فوج میں ملازم تھا۔ جب میری مدت ملازمت ختم ہو گئی تو میں نے اپنا پولٹری فارم کھول لیا اور مرغ بانی کرنے لگا۔ میرے دن چین و سکون سے گزر رہے تھے کہ اچانک عجیب و غریب واقعات پیش آنے لگے۔" علامہ نے پوچھا، "کیسے واقعات۔"
عبداللہ نے کہا، "جناب، میں کم زور اعصاب کا وہمی شخص نہیں ہوں۔ آپ یقین کیجیے کہ میں جو کچھ بیان کروں گا، اس میں رتی بھر بھی جھوٹ نہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ میں نے بھوتوں کو دیکھا ہے۔"
علامہ نے پوچھا، "کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ کوئی پرندہ مثلاً الو نہیں تھا، بھوت ہی تھا ؟" عبداللہ نے کہا، "میں نے الووں کو بولتے ہوئے کئی دفعہ سنا ہے، لیکن الوؤں کو کھانستے یا چھینکتے کبھی نہیں سنا۔" مرشد حیران ہو کر بولا، "تمھارا مطلب ہے کہ یہ بھوت کھانستا اور چھینکتا بھی ہے؟" عبد اللہ بولا، "جی ہاں، ایک رات میں نے بھوت کو کھانستے اور چھینکتے ہوئے بھی سنا ہے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے اسے شدید زکام ہو رہا ہے۔"
مرشد بولا، "علامہ صاحب! کیا بھوتوں کو زکام بھی ہو سکتا ہے؟" علامہ دانش سخت بےزار ہو کر بولے، "ارے بھئی، مجھے کیا معلوم کہ بھوتوں کو کون کون سا مرض لاحق ہو سکتا ہے؟" عبد اللہ نے پھر اپنی بات سنانی شروع کی، "ایک دفعہ مرغیوں کے کٹ کٹانے کا شور سن کر میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ بھوت اپنے پنجے میں مرغیوں کا دڑبا اٹھا کر لے جا رہا ہے۔ بھوت دڑبے کو بہت دور تک لے گیا، آخر اسے میدان کے درمیان میں پھینک کر چلا گیا۔"
مرشد نے پوچھا، "کیا تم نے بھوتوں کو دیکھا بھی ہے؟"
عبد اللہ بولا، "جی ہاں ، میں نے بھوت کو دیکھا بھی ہے۔ اندھیرے کی وجہ سے میں بھوت کو اچھی طرح سے تو نہیں دیکھ سکا۔ اس کا بڑا سا سر تھا اور پیپے جیسا جسم تھا۔ اس نے اپنے پنجے سے درخت کی ایک موٹی سی شاخ پکڑلی اور ہوا میں معلق ہو گیا۔ اسے ہوا میں جھولتا ہوا دیکھ کر میں بےحد خوف زدہ ہوا۔ اور اپنے گھر میں جا کر چھپ گیا۔ جب میں نے اس بات کا ذکر اپنی بیوی سے کیا تو وہ بھی خوف زدہ ہوئی۔ اس نے بتایا کہ آدھی رات کے بعد جن اور بھوتوں کا راج ہوتا ہے۔"
مرشد نے پوچھا، "یہ بھوت تم نے کب دیکھے تھے؟"
عبداللہ بولا، "یہ بھوت اندھیری راتوں میں آتا ہے۔ ایک دفعہ ۲۸ شعبان کو جب حسین کاتو کی شادی ہوئی تھی، دوسری دفعہ ۲۹ رمضان کی رات کو، اس سے اگلے دن میں عید کی نماز پڑھنے کے لیے گیا تھا۔ باقی تاریخیں مجھے یاد نہیں ہیں۔"
کپتان مرشد نے جلدی سے یہ تاریخیں اپنی نوٹ بک میں لکھ لیں۔
اگلے دن ہم اس جگہ کو دیکھنے کے لیے گئے۔ جہاں بھوت آتے تھے۔ عبداللہ کسان کے مکان کے سامنے ایک کھلا میدان تھا۔ اس سے آگے درختوں کی دہری قطار تھی۔ یہ درخت ایک سڑک کے کنارے پر لگائے گئے تھے۔ یہ سٹرک اب ٹوٹ پھوٹ چکی تھی اور استعمال نہیں ہوتی تھی۔ اچانک مرشد ایک جگہ ٹھہر گیا اور بولا، "کیا تم نے یہ بھی دیکھا؟" میں نے غور سے زمین کی طرف دیکھا کہ دور دور تک درختوں کی ٹہنیاں اور پتے بکھرے پڑے تھے۔
مرشد نے کہا، "ذرا غور کرو کہ یہ کس کی کارستانی ہو سکتی ہے؟" علامہ نے پوچھا، "تم ہی بتادو کہ یہ کون ہو سکتا ہے" مرشد بولا، "یقینا یہ کام کسی لکڑ ہارے کا نہیں ہے، بلکہ یہ اسی بھوت کی شرارت ہے۔ جب وہ درخت پر اپنے پنجے مارتا ہے تو ٹہنیاں اور پتے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتے ہیں۔" ہم کچھ دور تک سٹرک پر چلتے رہے۔ اب راستہ پہلے سے بہتر ہو گیا تھا۔ سٹرک پر ٹائروں کے نشان تھے۔ علامہ دانش بولے، "معلوم ہوتا ہے کہ یہ سٹرک ابھی تک استعمال کی جاتی ہے۔" کپتان مرشد بہت گہری سوچ میں تھا۔ وہ بولا، "اس سٹرک پر کس کی آمد و رفت ہوتی ہے؟ آئیے ہم ان نشانات کے ساتھ ساتھ چلیں۔"
کچھ فاصلے پر پکی سڑک شروع ہو گئی۔ ہم اس سڑک پر چلتے رہے۔ کوئی ایک یا ڈیڑھ میل پر ایک سرائے نظر آئی۔ اس کے باہر موٹے موٹے حرفوں میں لکھا ہوا تھا:
"سرائے اشرف لیوشان۔"
یہاں پر ہر وقت گرم چائے اور قہوہ دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ رہائش کا بھی معقول انتظام ہے۔
ایک اور جگہ موٹے حرفوں میں لکھا ہوا تھا:
"عام استعمال کی ہر چیز یہاں دستیاب ہے۔"
کپتان مرشد نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک داڑھی والے شخص نے دروازہ کھولا۔ اس کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ ہوگی، آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ وہ شکل صورت سے بہت چالاک نظر آتا تھا، یہ سرائے کا مالک اشرف لیوشان تھا۔ کپتان مرشد نے انگریزی میں کہا، "مسٹر چار کپ گرم قہوہ لائیں۔" اشرف لیوشان ہمیں سرائے کے اندر لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ قہوہ لے کر آیا۔ اس نے کہا، "آپ لوگ سیاح معلوم ہوتے ہیں۔ کیسے کہاں کہاں کی سیر کی اور کب تک یہاں قیام کیجئے گا؟"
کپتان مرشد نے کہا، "ارے بھئی، دیکھا تو بہت کچھ ہے۔ اب واپسی کا ارادہ ہے۔ ممکن ہے کہ کل صبح ہی یہاں سے رخصت ہو جائیں۔"
جیسے ہی اشرف لیوشان وہاں سے گیا، کپتان مرشد نے سرائے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ سرائے بہت شان دار تھی اور اس کا سامان بھی بہت اعلی اور قیمتی تھا۔ قہوہ پی کر ہم واپس ہوئے۔ کپتان مرشد نے کہا، "گاؤں سے باہر ایسی شان دار سرائے کا کام ہے؟ اللہ جانے لوگ یہاں آتے بھی ہوں گے یا نہیں؟" میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ یہاں بہت کم لوگ آتے ہیں؟"
کپتان مرشد نے کہا، "اشرف لیوشان، یہ نام میں نے پہلے بھی کہیں سنا ہے۔ مگر کہاں؟" وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا، "آہا، یاد آگیا۔ مشرف لیوشان سے قاہرہ کے ہوائی اڈے پر ملاقات ہوئی تھی۔ وہ یقیناً اس کا بھائی ہے۔ وہ ہوائی فوج میں پائلٹ ہے اور غبارہ کلب کا رکن بھی ہے۔" اگلے دن جب ہم ناشتا کر رہے تھے۔ کپتان مرشد نے اخبار دیکھ کر کہا، "آج ہم بھوت سے ملاقات کرنے چلیں گے۔ میرا خیال ہے کہ وہ آج رات یا کل رات پھر نازل ہوگا۔" میں نے کہا، "یہ تمہیں کیسے علم ہوا کہ بھوت آج رات نازل ہوگا؟"
مرشد مسکرا کر بولا، "اخبار سے۔"
میں نے کہا، "تمہارا مطلب ہے کہ بھوت نے اخبار میں خبر چھپوائی ہے کہ میں آج رات آرہا ہوں۔ میرے استقبال کے لیے تیار رہیے۔"
مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "ارے بھئی، سیدھی سی بات ہے کہ آج رات چاند کی ۲۸ تاریخ ہے بھوت عام طور سے ۲۸ یا ۲۹ تاریخ کو اندھیری راتوں میں آتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج رات موسم خوش گوار رہے گا۔" آزونا تو یہ خبر سنتے ہی کانپنے لگا۔ علامہ دانش کا جوش اور ان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ آخر ان کی پرانی خواہش یعنی بھوت کو دیکھنے کی آرزو پوری ہونے والی تھی۔ انہوں نے کہا، "کاش ہم کسی طرح اس بھوت کو زندہ پکڑ سکیں یا کم سے کم اس کی دو چار تصویریں ہی اتار سکیں۔"
مرشد مسکرا کر بولا، "مجھے یقین ہے کہ ہم بھوت کو پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔" علامہ دانش حیران ہو کر بولے، "ارے بھئی تم تو پہیلیاں بجھوانے لگے، کچھ پتا بھی تو چلے کہ تم بھوت کو کیسے پکڑو گے؟ کیا تم اس بھوت کی دم میں رسی باندھ دو گے یا اس پر بھالے پھینک کر اسے پھانس لو گے؟"
مرشد ہنس کر بولا، "معاف کیجیے گا میں ابھی آپ کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم بھوت کو پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کام کو سر انجام دینے کے لیے مجھے آپ تینوں کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ بھوت آج رات نہ آئے، اس صورت میں ہمیں کل رات اس کا انتظار کرنا ہوا۔"
جب ہمارے میزبان فریدوں شومیر کو ہمارے پروگرام کا علم ہوا تو وہ بہت فکر مند ہوا۔ اس نے کہا، "آپ کو کوئی خطرہ پیش آنے کا امکان تو نہیں ہے؟ میرا مطلب ہے کہ اگر آپ کو کوئی خطرہ ہو تو میں اپنے مسلح محافظ آپ کے ساتھ بھیج دوں؟ آپ یقین کیجیے کہ اگر آپ کا بال بھی بیکا ہوا تو مجھے زندگی بھر شرمندگی رہے گی۔"
مرشد نے کہا، "آپ کوئی فکر نہ کیجیے۔ ہمیں بھوت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔"
شام کے وقت ہم بھوت سے ملنے کے لیے نکلے۔ ہم اس جگہ پہنچے جہاں درختوں پر بھوت اترتا تھا۔ مرشد بولا، "یہ ایک بڑے سر والا بھوت ہے اور اس کے لوہے کے پنجے ہیں۔ آپ لوگ ہوشیار ہو کر بیٹھیے گا۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی بھوت کے پنجے میں پھنس جائے۔"
ہم ایک جگہ جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ مرشد نے کہا، "آزونا، جب میں کہوں تم بھوت کے سر کا نشانہ لے کر تیر چلا دینا۔ خبردار کوئی اور شخص بھوت پر گولی نہ چلائے۔"
رات اندھیری تھی اور ستاروں کی مدھم روشنی میں تھوڑے فاصلے کی چیزیں بھی صاف نظر نہیں آرہی تھیں۔ سڑک کے دوسرے کنارے پر اشرف لیوشان کی سرائے کی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ رات کے دو بجے کے قریب آسمان پر ایک گول گول شے نمودار ہوئی۔ علامہ بولے، "لو بھئی، ہوشیار ہو جاؤ، بھوت آرہا ہے۔"
تھوڑی دیر بعد یہ بھوت بالکل ہمارے سروں پر تھا۔ پھر اس کا پنجہ دکھائی دیا اور اس نے درخت کی ایک مضبوط ٹہنی کو پکڑ لیا۔ بھوت کو دیکھ کر میرا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں بہت ڈرا ہوا تھا۔ آزونا بے ہوش ہونے کی تیاری کر رہا تھا۔
مرشد نے اسے جھنجوڑ کر کہا، "اللہ کے بندے ہوش میں آؤ۔ فوراً بھوت کے سر کا نشانہ لے کر تیر چلاؤ۔" آزونا نے تیر چلایا جو بھوت کے سر میں گڑ گیا۔ بھوت بہت زور زور سے سانس لینے لگا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے تیز ہوا شائیں شائیں کر رہی ہو۔ اس کے ذرا دیر بعد بھوت کا پیپے نما جسم زمین پر گرا اور زور کا دھماکہ ہوا۔ ایک شخص اس میں سے باہر نکلا۔ وہ فرار ہونا چاہتا تھا کہ کپتان مرشد بہت زور سے چلایا، "مسٹر مشرف لیوشان کھیل ختم ہو چکا ہے۔ خبردار گولی چلانے کی کوشش نہ کرنا، اپنا پستول زمین پر ڈال دو اور ہاتھ اوپر اٹھالو۔" مشرف لیوشان کو اس حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ ادھر یہ ڈرامہ جاری تھا کہ اچانک بہت تیز روشنی سے ہمارے آس پاس کی جگہ روشن ہو گئی۔ یہ فریدوں شومیر اور اس کے ساتھی تھے۔ یہ لوگ ہماری حفاظت کرنے کے خیال سے آئے تھے اور بہت دیر سے عبداللہ کسان کے گھر میں چھپے ہوئے تھے۔ جب یہ ڈراما اپنے عروج پر تھا تو یہ لوگ بھی ٹارچیں لے کر آگئے۔
روشنی میں ہم نے دیکھا کہ جسے لوگ بھوت سمجھتے تھے وہ ایک بہت بڑا سا غبارہ تھا۔ اس کے نیچے ہلکی مشین لگی ہوئی تھی اور ایک بڑا سا گول پیپا تھا جس میں سامان رکھا جاتا تھا اور ایک یا دو آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ دور سے ایک موٹر آتی دکھائی دی۔ مرشد بولا، "مہربانی فرما کر روشنی بند کر دیجیے، اس ڈرامے کا آخری ادا کار تشریف لا رہا ہے۔
ہم خاموشی سے موٹر کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگے۔ جب وہ ہمارے قریب آگئی تو مرشد نے چلا کر کہا، "مسٹر اشرف لیوشان اتر جاؤ، تم پولیس کی حراست میں ہو۔" اشرف لیوشان نے کوئی گڑ بڑ نہیں کی اور کار سے نیچے اتر آیا۔ فریدوں شومیر کے آدمیوں نے اسے پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا۔ جب ہم واپس لوٹے تو ستارے ٹمٹمار ہے تھے۔ فریدوں شومیر کے گھر پہنچتے صبح ہو گئی تھی۔ ناشتے کی میز پر کپتان مرشد نے بتایا، "جب میں نے روندی ہوئی گھاس، ٹوٹی ہوئی ٹہنیاں اور پتیاں دیکھیں تو مجھے یقین ہو گیا کہ عبداللہ کسان کا بیان درست ہے۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ یہاں کیا چیز اترتی ہے ؟ آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی شخص غبارے کے ذریعے سے آجارہا ہے۔ جب غبارہ سرائے کے نزدیک پہنچتا ہے تو وہ گیس کم کر دیتا ہے، جس سے وہ غبارہ نیچے اترنے لگتا ہے۔ جب وہ درختوں کے قریب پہنچتا ہے تو وہ لوہے کا آنکڑا کسی شاخ میں پھنسا دیتا ہے۔ ایک دن اتفاق سے یہ آنکڑا مرغی کے دڑبے میں اٹک گیا۔ وہ اسے کھینچتا ہوا دور تک لے گیا عبداللہ کسان اسے بھوت کا کارنامہ سمجھا۔
اب میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ غبارہ کون استعمال کر رہا ہے؟ جب ہم اشرف لیوشان سے ملے تو مجھے یہ نام کچھ جانا پہچانا سا معلوم ہوا۔ مجھے یاد آگیا کہ مشرف لیوشان سے جو اشرف کا بھائی ہے قاہرہ ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی تھی۔ مشرف لیوشان غبارہ کلب کا ممبر ہے اور وہ غبارہ اُڑانے کی مہارت رکھتا ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار ترکی سے یونان تک غبارے میں سفر کرچکا ہے ۔ لیکن افسوس، اس نے اپنی مہارت اور ہوشیاری کا غلط استعمال کیا۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ناجائز طریقے سے ایسی چیزیں لا رہا ہے جنھیں حکومت ملایا نے منع قرار دیا ہے۔"
علامہ نے پوچھا، " وہ یہ چیزیں کہاں سے لاتا ہے؟“ ہمارے میزبان فریدوں نے کہا، "اس کا جواب میں دیتا ہوں۔ یہاں سے کچھ دور سمندر شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے تھوڑی دور حکومت انڈونیشیا کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔ وہاں قریب ترین گاؤں بنگ کالس ہے۔" کپتان مرشد نے کہا، "جب میں نے اشرف لیوشان کی سرائے دیکھی تو مجھے یقین ہوگیا کہ اسمگلنگ کا مال اس جگہ رکھا جاتا ہے۔" اگلے دن اخبارات میں اسمگلروں کا گروہ پکڑے جانے کی خبریں چھپیں۔ اس کے ساتھ ہمارے فوٹو بھی اخبار کی زینت بنے حکومت ملایا نے ہمیں انعام سے نوازا۔ جب ہم واپس پہنچے تو علامہ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ بھوتوں کے متعلق تحقیق کرنے کے جو خطوط ملے تھے، وہ سب آگ میں جھونک دیے۔ ان کا موڈ بے حد خراب تھا۔ انھوں نے کہا، "آئندہ کوئی خط بھوتوں سے متعلق آتے تو اسے پھاڑ کر پھینک دینا۔"
کپتان مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "اگر کوئی بھوت بھی آجائے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے بھوت ہونے کا یقین دلائے تو ہر گزیقین نہ کرنا اور اسے دھکے دے کر باہر نکال دینا۔" ہم سب نے ایک زور دار قہقہہ بلند کیا۔ اس طرح بھوتوں کے متعلق ہماری مہم انجام کو پہنچی۔
ایوبیوں کا راز
اس دفعہ ہمیں حکومت ایران کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ علامہ نے تفصیل سے بتایا کہ، "تبریز کے پہاڑی علاقے میں اونچے پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک وادی ہے۔ یہاں کچھ لوگ آباد ہیں جو اپنے آپ کو صلاح الدین ایوبی کے لشکریوں کی اولاد بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوبی لشکر کا ایک دستہ بھٹک کر ادھر آنکلا۔ کچھ لوگوں نے یہیں شادیاں کر لیں اور رہنے سہنے لگے۔ یہ لوگ انہی لشکریوں کی اولاد ہیں۔ اس علاقے میں کہیں تو اونچی اونچی پہاڑیاں ہیں جن پر سال بھر برف جمی رہتی ہے اور کہیں ہموار علاقہ ہے ۔ یہاں موسم اچھا رہتا ہے اور سیب، انگور، ناشپاتی اور دوسرے بہت سے پھلوں کی کاشت ہوتی ہے۔ اس علاقے سے کئی ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اسی لیے یہاں ترک، عرب، ازبک، کرد، ایرانی، تاتاری اور کئی نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ ہر قبیلہ اپنے سردار کا حکم مانتا ہے۔ دنیا ترقی کرکے کہیں کی کہیں پہنچ گئی مگر یہ لوگ ابھی تک ویسے ہی جاہل اور اُجڈ ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے معاملات میں دخل دینے کی کوشش کرے تو یہ لوگ بہت بُرا مانتے ہیں اور اس شخص کو مار ڈالتے ہیں۔ اسی لیے سیاح اس علاقے سے بچ کر نکلتے ہیں۔
اس عجیب و غریب علاقے سے متعلق سب سے زیادہ دلچسپ خبر یہ ہے کہ یہاں ایوبی لشکریوں کی اولاد آباد ہے۔ ان کے متعلق ہمیں زیادہ باتیں معلوم نہیں۔ یہ لوگ ابھی تک ویسا ہی لباس پہنتے ہیں۔ ان کے پاس صدیوں پرانی تلواریں ہیں اور یہ لوگ اسی طرح رہتے بستے ہیں جس طرح ان کے آباؤ اجداد ( باپ دادا) رہتے تھے۔"
یہ کہہ کر علامہ دانش خاموش ہو گئے۔ بس یہی کچھ معلومات حکومت ایران نے پہنچائی تھیں۔ علامہ دانش اور کیتان مرشد ان تلواروں کو دیکھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے، جو صلاح الدین کے سپاہیوں نے استعمال کی تھیں۔ آزونا کو یقین تھا کہ یہ سب فوجی افریقی نسل کے کالے لوگ تھے۔ وہ ان سے ملنے بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں چومنے کو بے تاب تھا۔
علامہ نے پوچھا، "تم کچھ فکر مند دکھائی دیتے ہو؟" میں نے کہا، "میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔ مجھے تو یہ سب محض افسانہ نظر آتا ہے۔" کپتان مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "تم پر کچھ آزونا کا اثر ہو گیا ہے۔ اس لیے ہر بات میں کالا نظر آتا ہے۔" علامہ بولے، "بھئی اسی بات کی سچائی معلوم کرنے کے لیے ہم وہاں جارہے ہیں،" مرشد نے پوچھا، "وہاں کوئی جگہ ایسی ہے جہاں ہم ہیلی کاپٹر اتار سکیں؟" علامہ نے ایران کا نقشہ ہمارے سامنے پھیلا دیا۔ انہوں نے ایک جگہ انگلی رکھ دی اور بولے، "یہ ہے وہ جگہ جہاں ہمیں جانا ہے۔ اس کے نزدیک ہی یہ ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔ اس کے علاوہ دور دور تک پہاڑیاں ہیں۔" مرشد بولا، "جی ہمارا کام بن جائے گا۔" ہم ایران پہنچے۔ دور دور تک ویران علاقے اور خشک پہاڑیوں سے گزر کر ہم اس جگہ پہنچے یہ جگہ بہت سرسبز تھی۔ علامہ نے جیسا بتایا تھا ہم نے اسے ویسا ہی پایا۔ ایک چھوٹی سی جھیل میں ہم نے جہاز کو اُتارا۔ جھیل کے کنارے پر خودرو (اپنے آپ اُگنے والے) پودے تھے جو پھولوں سے لدے ہوتے تھے۔ اس کے ایک طرف آسمان کی بلندیوں کو چھونے والا پہاڑ ، اس کی برف پوش چوٹیوں سے برف پگھل پگھل کر چھوٹے ندی نالوں کی شکل میں بہتی ہوئی اس جھیل میں گر رہی تھی۔ میرا دل چاہا کہ میں اس حسین منظر کو دیکھتا ہی رہوں اور ساری عمر اس جھیل کے کنارے گزار دوں۔ اس جھیل کے دوسرے سرے پر وہ جگہ تھی جہاں ایوبی رہتے تھے۔
ہم جھیل کے کنارے بیٹھ کر گپ شپ میں مصروف ہو گئے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک بہت لمبا تڑنگا شخص ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ بہت پُر رعب اور باوقار نظر آتا تھا۔ اس نے ریشمی عبا پہن رکھی تھی، جس پر چاند اور ستارے کڑھے ہوئے تھے۔ سر پر سبز عمامہ، پاؤں میں زرد رنگ کے سیلپر، گلے میں موتیوں کی مالا تھی، انگلیوں میں انگوٹھیاں تھیں، ہاتھوں میں کنگن اور نہ جانے کیا کیا الم غلم چیزیں پہن رکھی تھیں۔ مجھے تو پہلی نظر میں یہ علی بابا (الف لیلی والا علی بابا) دکھائی دیا۔ وہ سیدھا ہماری طرف آیا۔ اس نے جھک کر سلام کیا۔ شاید اس نے بھانپ لیا تھا کہ علامہ ہمارے سربراہ ہیں، چنانچہ وہ ان کے پاس پہنچا اور ان کے ہاتھ چوم کر بولا، "خوش آمدید! اہلاً و سہلاً۔" میں اتنا ہی سمجھ گیا۔ اس کے بعد اس نے فارسی اور ترکی ملی جلی زبان بولنی شروع کی، جس کا کوئی کوئی لفظ میری سمجھ میں آجاتا۔ البتہ علامہ دانش اچھی طرح اس کی باتیں سمجھ رہے تھے۔ علامہ نے بعد میں ہمیں بتایا کہ یہ شخص علی بابا کسی شہزادے کا درباری نجومی تھا۔ کسی بات پر ناراض ہو کر شہزادے نے اسے ملازمت سے نکال دیا۔ اب وہ سامنے کی پہاڑیوں کے ایک غار میں رہتا ہے۔ اس نے ہمیں اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی، جسے علامہ نے منظور کر لیا۔ ہم نجومی (جے میں علی بابا ہی کہوں گا) کے غار میں پہنچے۔ میں اس غار کی آرائش (سجاوٹ) دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاندار اور قیمتی قالین فرش پر بچھے ہوئے اور دیواروں پر لٹکے ہوئے تھے۔ بےحد قیمتی فانوس غار کی چھت میں لٹکے ہوئے تھے۔ فرش پر ریشمی گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔ ایک تپائی پر صراحی میں شراب رکھی ہوئی تھی۔ ہم گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ علی بابا ایک طشتری میں پھل لے کر آیا۔ باہر ایک چشمے سے ٹھنڈا پانی لے کر اس سے بے حد لذیذ شربت تیار کیا۔ علی بابا کا یہ ٹھاٹھ باٹھ بار بار حیران بلکہ پریشان کر رہا تھا۔ علی بابا اور علامہ دانش میں گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ اللہ جانے۔ دونوں نے کیا کیا باتیں کیں۔ اچانک علامہ نے صلاح الدین ایوبی کے سپاہیوں کے متعلق باتیں شروع کیں۔ علی بابا جو کچھ بتارہا تھا، علامہ اس کا ترجمہ کر کے بتاتے رہے۔ علی بابا نے کہا، "خوش قسمتی سے آپ لوگ ایوبیوں کے بالکل نزدیک ہی اُترے ہیں۔ یہ اجنبی لوگوں کی جان کے دشمن ہیں۔ جب کوئی بھولا بھٹکا مسافر ان لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، یہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ بس یوں جانیے کہ ان لوگوں سے ملنا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ یہ لوگ درویشوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ ان سے ملنا چاہیں تو درویشوں کا بھیس بدل کر مل سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے میرے پاس کچھ فالتو چنے اور عمامے ہیں۔ آپ انہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ مجھے بھی اس جگہ کا پوری طرح علم نہیں ہے، جہاں یہ ایوبی لوگ رہتےہیں۔"
ان پہاڑیوں میں بہت سی وادیاں تھیں۔ اب اگر ہم کسی غلط جگہ پہنچ جاتے تو ممکن ہے کہ ہم کسی ازبک یا تاتاری قبیلے کے ہاتھ لگ جاتے، جو ہمارے سروں کو کاٹ کر لٹکا دیتے۔
علی بابا کی تجویز ہمیں پسند آئی۔ جب ہم نے درویشوں کے چغے پہنے تو بہت لطف آیا۔ مرشد نے درویشوں کا چغہ پہننے سے انکار کر دیا۔ وہ بولا، "مجھے سوانگ بھرنا پسند نہیں آتا۔ یہ ڈراما آپ ہی کیجیے مجھے اپنے جہاز کو خالی چھوڑنا پسند نہیں، اس لیے میں چلتا ہوں۔ اللہ حافظ!" یہ کہہ کر مرشد وہاں سے رخصت ہوا۔ اچانک کافی فاصلے پر گھنٹیوں کی آواز سنائی دی۔ پھر کوئی بہت زور زور سے ڈھول پیٹ کر کچھ کہنے لگا۔ علی بابا نے کہا، "ہمارے ملک میں اخبار نہیں ہوتے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ خبریں پہنچانے کے لیے یہی ڈھنڈورچی ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر خبریں سناتے ہیں۔ اس کے معاوضے میں لوگ انہیں کھانے پینے کی چیزیں اور دوسرے تحفے دیتے ہیں۔ انہیں ہر جگہ جانے کی پوری آزادی ہے اور کوئی قبیلہ انھیں کچھ نہیں کہتا۔ ان لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ کون سا قبیلہ کہاں رہتا ہے۔ ذرا ٹھہریے میں اسے اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں۔"
علی بابا، ڈھنڈورچی کو اپنے ساتھ لے کر غار میں آیا اس نے ڈھنڈورچی کی بہت خاطر مدارت کی۔ غار کے اندر سے اُبلے ہوئے چاول اور کوفتے لے کر آیا۔ اس نے علی بابا سے ایک نامعلوم زبان میں بات کی۔ اس نے اشارے سے بتایا کہ ہم ایوبیوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ پہلے تو وہ انکار میں سر ہلاتا رہا، آخر وہ رضامند ہو گیا۔ اگلے دن جب ہم بیدار ہوئے تو ہمارا میزبان موجود نہیں تھا۔
ہم ایوبیوں سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ سب سے آگے وہ ڈھنڈورچی تھا۔ اس کے پیچھے علامہ، پھر آزونا اور سب سے آخر میں میں تھا۔ میں راستے میں جگہ جگہ چاک سے نشان بناتا گیا تاکہ اگر ہمیں وہاں سے اچانک فرار ہونا پڑے تو کوئی دشواری پیش نہ آئے اور ہم ان نشانات کو دیکھتے ہوئے واپس پہنچ جائیں۔ میں نے علامہ کے ساتھ بہت سے سفر کیے لیکن یہ سفر سب سے انوکھا تھا۔ رہ رہ کر یہ خیال میرے ذہن میں آتا کہ شاید یہ ہماری زندگی کا سب سے زیادہ خطرناک سفر ہے اور میرے جسم میں سنسنى دوڑ جاتی۔ ہم بہت دیر تک چلتے رہے۔ ہمارا راستہ کبھی پہاڑیوں پر سے گزرتا، کبھی سرسبز و شاداب (ہری بھری) وادی سے۔ راستے میں ندی نالے بھی آئے۔ ہمارا رہبر جگہ جگہ ٹھہر کر ڈھول پیٹتا، پھر چیختی ہوئی آواز میں کچھ کہتا۔ مجھے تو یہ سب بالکل فضول معلوم ہو رہا تھا۔ وہاں دور دور تک کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ آخر ایک جگہ پہنچ کر ہمارے رہبر نے اشارے سے بتایا کہ یہ تنگ سا راستہ اس وادی میں جاتا ہے۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ اس وادی میں داخل ہوا۔ علامہ کا خوشی سے برا حال تھا۔ ہمیں بھی خوشی تھی کہ چلو یہ سفر ختم تو ہوا۔ سفر ختم ہوا بلکہ یوں کہیے کہ ہماری زندگی کا سفر بھی ساتھ ہی ختم ہو جاتا۔ جب ہم تنگ سی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے وادی میں داخل ہوئے تو ہمارے استقبال کے لیے چار ایوبی جوان آئے۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ جسم پر جو قمیض پہنی ہوئی تھی اس پر ہلال (چاند) بنا ہوا تھا اور سروں پر عمامے تھے۔ آزونا آہستہ سے میرے کان میں بولا، "صاحب جی، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے لیے پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔" اور اس کی بات درست نکلی۔ وہ ہمارے لیے پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ ایک نے اپنے چغے سے پستول نکال لیا۔ میں استقبال کا یہ نرالا انداز دیکھ کر ہنس پڑا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ہمارا رہبر بھی ہمارے اوپر پستول تانے ہوئے کھڑا تھا۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا، "رک کیوں گئے؟ چلتے رہو جاسوسو!" ہم حیران ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ علامہ نے عربی میں کہا، "یہ سب کیا ہے؟ تم ہمیں کیوں ہراساں کیے دیتے ہو۔"
ایوبی قبیلے کے ایک شخص نے کہا، "تمہیں ابھی ساری باتوں کا علم ہو جائے گا۔ تم لوگ جاسوس ہو اور ہم جاسوسوں سے نمٹنا اچھی طرح جانتے ہیں۔"
علامہ حیران ہو کر بولے، "جاسوس؟ کیسے جاسوس؟ کس کے جاسوس ہیں؟" ایوبی بولا، "حکومت ایران کے جاسوس۔ اب تم مرنے سے پہلے سُن لو کہ ایران، عراق اور اسلامی دنیا پر اب بہت جلد ہماری حکومت ہوگی، بنو اسرائیل، زنده باد۔"
علامہ اچانک بولے، "آہ! میں سب کچھ سمجھ گیا۔ تم لوگ یہودی ہو۔ تم نے صلاح الدین ایوبی کے لشکریوں کی اولاد ہونے کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے اور تم کسی مکروہ سازش میں مصروف ہو۔" ایک یہودی ہنس کر بولا، "میرا خیال ہے آپ ہی علامہ دانش ہیں۔ اچھا تو سب سے پہلے میں آپ ہی کو جہنم رسید کروں گا۔ ون۔ ٹو۔" اس کے ساتھ ہی ایک فائر ہو گیا۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کرلیں۔ میں انہیں مرکر گرتا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرسکتا تھا، شاید آزونا بھی آنکھیں بند کیے کھڑا تھا۔ جب میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ علامہ ابھی تک صحیح سلامت کھڑے تھے۔ میں نے یہودیوں کی طرف دیکھا۔ جو شخص گولی چلانے والا تھا وہ جہنم رسید ہو چکا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا؟ کیا اس شخص نے اپنے ہی کو گولی ماری تھی ؟ پھر کسی نے بہت جانے پہچانے لہجے میں کہا، "سب لوگ ہتھیار زمین پر پھینک دیں۔ ورنہ میں ایک ایک کو بھون کر رکھ دوں گا۔" یہودیوں کی بدحواسی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اچانک یہ کیا ہوگیا؟ انہوں نے یکے بعد دیگرے (باری باری) اپنے ہتھیار زمین پر پھینک دیے۔ اب ہمارے رہبر نے نقلی مونچھیں اور داڑھی اتار دی۔ یہ ہمارا عزیز دوست مرشد تھا۔ حیرت اور مسرت سے ہم سب کا برا حال تھا۔ خوشی اس بات کی تھی کہ اللہ نے ہمیں دوبارہ زندگی عطا فرمائی۔ حیرت اس بات کی تھی کہ اس ڈرامے میں مرشد کہاں سے آن ٹپکا؟ وہ تو ہمارے سامنے واپس چلا گیا تھا۔
مرشد نے چیختی ہوئی آواز میں کہا ، "اب تم سب ایک قطار بنا کر یہاں سے نکلو۔ خبردار کسی نے غلط حرکت کی تو اسے جہنم رسید کر دوں گا۔" وہ چاروں یہودی ایک قطار بنا کر وادی سے باہر نکلے۔ ہم ان کے پیچھے پیچھے تھے۔ جیسے ہی وہ باہر نکلے انہوں نے ایک طرف کو دوڑنا شروع کر دیا۔ مرشد بولا، "اب آپ لوگ بھی اپنی جان کی خیر منائیں۔ آپ جتنی تیزی سے دوڑ سکیں دوڑیے۔ ہم نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ان لوگوں نے بہت سے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنایا ہوا ہے۔"
ہم پوری رفتار سے بھاگے۔ جب ہم علی بابا کے غار کے پاس سے گزر رہے تھے تو دور سے کسی نے فائر جھونک دیا۔ ہم اندھا دھند بھاگے۔ آخر ہم جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ وہاں ہم نے جھاڑیوں میں علی بابا کو پڑا ہوا دیکھا۔ اس کی پگڑی لڑھک کر دور جاگری تھی اور اس کے سنہرے بال ہوا میں لہرا ر ہے تھے۔ اس کے پاس ہی ایک اور شخص بےہوشی کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ کپتان مرشد ہانپتے ہوئے بولا، "یہ شخص وہ ڈھنڈور چی ہے۔ یہ بھی یہودی ہے۔" جب ہم جہاز پر سوار ہو چکے تو دور سے لوگوں کا ایک ہجوم نعرے لگاتا اور نہ جانے کیا کچھ بولتا بکتا ہوا ہماری طرف دوڑا۔ مرشد نے انجن چالو کیا اور جہاز کو چلاتا ہوا جھیل کے درمیان میں لے گیا۔ ہمارا جہاز ہوا میں بلند ہوا۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا۔ اللہ جانے کہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ امڈ اُمڈ کر آرہے تھے۔ کچھ نے ہماری طرف بندوق سے فائر بھی کیا، لیکن خوش قسمتی سے ہم ان کی پہنچ سے بہت دور نکل چکے تھے۔ میں نے کہا، "میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تم اس ڈرامے میں کہاں سے آ ٹپکے۔" مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "بات در اصل یہ ہے کہ مجھے شروع میں علی بابا پر شک ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ میں جیسے ہی غار سے باہر نکلا، میری نظر بجلی کی تاروں پر پڑی۔ اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ یہ نجومی کوئی جعلساز ہے اور ضرور یہ ہم لوگوں کو دھوکا دے گا۔ میں چھپتا چھپاتا ہوا بجلی کی تاروں کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس طرح مجھے ان لوگوں کا ٹھکانا معلوم ہو گیا جو ایوبی بنے ہوئے تھے۔ رات کے وقت علی بابا رائفل لے کر میری تلاش میں نکلا۔ میں تو شروع ہی سے اس کی تاک میں تھا۔ جوں ہی وہ میرے قریب پہنچا میں نے اس کے سر پر رائفل کا دستہ دے مارا وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ میں نے اسے کھینچ کر جھاڑیوں میں چھپا دیا اور اس کے ہاتھ پاؤں اچھی طرح باندھ دیے۔ جب کافی دیر ہو گئی اور علی بابا واپس نہ لوٹا تو اُسے تلاش کرنے کے لیے ڈھنڈورچی باہر نکلا۔ میں نے اس کا بھی یہی حشر کیا۔ اس کی نقلی داڑھی مونچھ میں نے اپنے چہرے پر چپکالی اور اس کے کپڑے پہن کر میں غار میں آگیا۔ اس کے بعد کا ڈرامہ تمھارے سامنے ہے۔" علامہ نے کہا، "تو تم نے ہمیں پہلے ہی کیوں نہ خبردار کیا؟" کپتان مرشد بولا، "اسے آپ میری بے وقوفی کہیے یا شوخی۔ میں سارے واقعے کو ڈرامائی شکل دینا چاہتا تھا۔"
علامہ بولے، "تمہارا بےحد شکریہ تم نے ہماری جانیں بچائیں۔ ورنہ ہم غدار یہودیوں کے ہاتھوں مارے جاتے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔" کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز (اڑان) کے بعد ہم تہران پہنچے۔ ہم نے ان نقلی ایوبیوں کے متعلق سب باتیں تفصیل سے بتائیں۔ ایران کی حکومت نے فوراً کئی فوجی دستے وہاں روانہ کیے اور ان یہودیوں کی سازش کا قلع قمع (خاتمہ) کر دیا۔ اگلے دن کی بات ہے کہ حکومت ایران نے ہماری اس کارگزاری پر ہمیں تمغے اور انعام عطا کیا۔
ہمارے جہاز کو بھی "شاہین" کا خطاب اور ڈھائی لاکھ روپے انعام دیا۔ مرشد نے مسکرا کر کہا، "کہتے ہیں مرا ہاتھی سوالاکھ کا ہوتا ہے اور۔۔۔" علامہ جھٹ سے بولے، "زندہ ہاتھی ڈھائی لاکھ کا۔" ہم چاروں نے زور کا قہقہہ لگایا۔​
 
خزانے کی تلاش
علامہ دانش نے قہوے کی چسکی لے کر سوال کیا، "آپ میں سے کوئی صاحب خزانے کی تلاش میں دلچسپی رکھتا ہے؟"
کپتان مرشد نے کہا، "میں ایسی مہموں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔"
علامہ دانش نے کہا، "میں پوچھ سکتا ہوں کہ کس لئے؟"
مرشد نے کہا، "وہ اس لئے کہ اول تو خزانے کی تلاش بہت جان جوکھوں کا کام ہے۔ عموما خزانہ ایسی جگہ دفن ہوتا ہے جہاں کسی کی رسائی (پہنچ) نہ ہو۔ اگر کوئی خزانے تک پہنچ بھی جائے تو واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ کچھ نہ کچھ ایسی بات ہوجاتی ہے کہ تمام کوشش اور محنت و مشقت پر پانی پھر جاتا ہے۔"
میں نے کہا، "علامہ صاحب، آپ سائنس کے تجربات اور نت نئی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آپ کو خزانے کا خیال کیسے آگیا؟"
علامہ ہنس کر بولے، "میں بھی ایسے خزانے کا ذکر کر رہا ہوں جو بہت ہی قیمتی اور نایاب ہے۔ میرا مطلب ہے کہ پرانے قلمی نسخے (کتابیں)، مٹی اور کانسی کے برتن، ہاتھی دانت سے بنے ہوئے بت، یہ سب چیزیں سینکڑوں سال پرانی ہیں۔ آپ ان چیزوں کی قیمت سونے چاندی سے نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ سونا چاندی زمین سے نکلتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں ضائع ہوجائیں تو پھر دوبارہ نہیں بن سکتیں۔"
مرشد نے پوچھا، "یہ تاریخی خزانہ کہاں موجود ہے؟"
علامہ نے کہا، "جنوبی برما میں ہے۔ آج کل وہاں باغی فوج کا قبضہ ہے۔"
مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ لوگوں کو خزانہ گاڑنے کے لئے ایسی ہی جگہ موزوں نظر آتی ہے جہاں کوئی نہ پہنچ سکے۔"
علامہ گھڑی دیکھ کر بولے، "ابھی ذرا دیر میں ہمارے ایک دوست آنے والے ہیں۔"
عین اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور آزونا ایک شخص کو ساتھ لے کر اندر آیا۔ آنے والا ایک برمی شخص تھا۔ یہ مغربی طرز کا لباس یعنی کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھا۔
علامہ دانش نے تعارف کرواتے ہوئے کہا، "آپ ہیں مسٹر وان لنگ، اس تاریخی خزانے کے مالک۔"
سب لوگ مسٹر وان لنگ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس نے باری باری سب سے ہاتھ ملایا۔ پھر وہ میرے قریب ہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ علامہ دانش بولے، "اب مسٹر وان لنگ سے خزانے کے متعلق تفصیل سنئے۔"
وان لنگ نے سگریٹ سلگایا اور کہا، "میں شولنگ خاندان کا فرد ہوں۔ میرا خاندان اپنے علم و فضل کی وجہ سے مشہور تھا۔ میں شہر پارومی میں رہتا ہوں۔ عرصہ گزرا ہم لوگ بے حد امیر تھے لیکن رفتہ رفتہ ہماری سب جائداد بکتی چلی گئی۔ آخر ہمارے پاس صرف ایک مندر کچھ زمین اور وہ قدیم خزانہ رہ گیا۔ یہ خزانہ یعنی کتابیں، تصویریں، مجسمے، برتن اور اسی طرح کی پرانی چیزیں کئی سو سال پرانی ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے ملک کی پرانی تہذیب اور کاریگری کا نمونہ ہیں۔ جب ہمارے علاقے پر باغیوں نے حملہ کردیا تو میرے والد نے ہر چیز کو ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر ایک صندوق میں بند کردیا۔ ہم دونوں نے مل کر باغیچے میں ایک گڑھا کھودا اور صندوق دفن کردیا۔ ہمارے علاقے پر باغیوں نے قبضہ کرلیا اور ہمیں وہاں سے فرار ہونا پڑا۔ ان لوگوں نے ہمارے مکان کو ڈھا دیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ خزانہ ابھی تک اسی جگہ دفن ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اس خزانے کو وہاں سے نکال کر کسی عجائب گھر کو تحفے میں دے دوں تاکہ دنیا بھر کے لوگ اسے دیکھیں اور میرے ملک کی تہذیب و تمدن کو دیکھ سکیں۔"
مرشد نے کہا، "آج کل وہاں جانا بےحد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔"
وان لنگ نے کہا، "جی بے شک، لیکن ہوائی پرواز کے ذریعے سے خزانہ حاصل کرلینے کی کچھ امید ہے۔"
مرشد بولا، "میں آپ کا مطلب سمجھ گیا۔ کیا آپ کے گھر کے آس پاس کوئی جگہ ایسی ہے جہاں طیارہ اتارا جاسکے؟"
وان لنگ بولا، "جی ہاں، میرے گھر کے پاس دور دور تک زمین ہموار ہے۔ بہت دن گزرے وہاں کے درخت کاٹ دئیے گئے تھے۔"
میں نے پوچھا، "وہاں کے لوگ آپ سے دوستانہ طریقے سے پیش آئیں گے یا دشمنوں کی طرح؟"
وان لنگ نے کہا، "وہاں کے پرانے لوگ تو ہمارے دوست اور خیر خواہ تھے۔ جو لوگ اب نئے نئے آئے ہیں ان کے متعلق میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ احتیاطا فرض کر لیجئے کہ وہاں کا ہر شخص ہمارا دشمن ہے۔"
علامہ بولے، "اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں مقابلے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔"
کپتان مرشد نے کہا، "ہمیں اصل خطرہ زمین پر اترنے کے بعد ہے۔ ہم اوپر سے جائزہ لیں گے، اگر علاقہ ویران اور غیر آباد نظر آیا تو ہم نیچے اتر کر خزانہ تلاش کریں گے۔ اگر وہاں لوگ نظر آئے تو واپس لوٹ آئیں گے۔"
علامہ نے ایک نقشہ میز پر پھیلا دیا اور بولے، "کیا آپ اپنے علاقے کی نشان دہی کرسکتے ہیں؟"
وان لنگ نے فورا ایک جگہ انگلی رکھ دی اور بولا۔"یہ برما روڈ ہے۔ یہ دریائے اراوتی اور یہ رہا ہمارا گاؤں پرومی۔"
اگلے جمعہ کی بات ہے۔ ہم برما روڈ کے ساتھ اڑے چلے جارہے تھے۔ ہم سات گھنٹے کے لمبے سفر کے بعد اپنی منزل کے نزدیک پہنچ گئے۔ اس وقت سورج طلوع ہورہا تھا۔ اس کی سنہری کرنوں سے ہر چیز جگمگا رہی تھی۔ وان لنگ اپنے کیبن (کمرے) سے باہر نکلا۔ وہ اب برمی لباس پہنے ہوئے تھا۔ ہم اسے دیکھ کر حیران ہوئے۔ وہ بولا، "میں نے برمی لباس اس لئے پہنا ہے کہ میں وہاں کے لوگوں کو بتا سکوں کہ میں بھی ان کا بھائی بندہ ہوں۔"
جہاز کی بلندی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ ہم زمین کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔ زیادہ تر زمین ہموار تھی۔ کہیں کہیں مکانات نظر آرہے تھے۔ جہاز نے ایک چکر کاٹا اور ایک وسیع میدان میں اتر گیا۔ علاقے کی ویرانی عجیب افسوس ناک منظر پیش کررہی تھی۔ وان لنگ علاقے کو غور سے دیکھتا رہا پھر بولا، "بالکل صحیح، اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ہم کہاں اترے ہیں۔ دریا نے شاید اپنا راستہ تبدیل کرلیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ ہمارے باغ کے درختوں کو بھی بہا کر لے گیا ہے۔"
وہ پتھروں کے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے بولا، "وہ رہا میرا مکان۔"
غم کی شدت سے اس کی آواز بھرا گئی۔ وہ بولا، "آہ ظالموں نے سب کچھ تباہ کردیا۔ نہ گھر کا نشان چھوڑا، نہ مندر کا۔"
پھر وہ ہماری طرف مڑکر بولا، "وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ لوگ کدالیں اور بیلچے ساتھ لے آئیے۔"
مرشد بولا، "دوستو! میں طیارے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اللہ جانے کب کیا حادثہ پیش آجائے۔"
ہم خزانے کی تلاش میں چلے۔ ہمارے پاس بندوقیں تھیں، آزونا نے بیلچہ اور کدال اٹھا رکھی تھی۔ آگے آگے وان لنگ چل رہا تھا۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ ٹھہر گیا۔ اس نے اشارے سے بتایا، "یہی وہ جگہ ہے۔"
ہم سب زور شور سے کھدائی کرنے لگے۔ اچانک ہمیں گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ کچھ دیر بعد ہمارے سامنے ایک برمی نمودار ہوا۔ اس نے پہلے تو ہمیں غور سے دیکھا۔ پھر شاید اسے کچھ شبہ ہوا۔ اس نے ہوا میں فائر کیا اور تیز لہجے میں کچھ چلاتا ہوا ایک طرف کو بھاگ نکلا۔
میں نے پوچھا، "وہ کیا کہتا تھا؟"
وان لنگ بولا، "اس کا مطلب تھا کہ مقابلے کے لئے تیار رہو۔"
شاید مرشد نے بھی خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ اس نے جہاز اسٹارٹ کردیا تھا۔ سب لوگ تیزی سے کھدائی کررہے تھے۔ آخر کچھ دیر کے بعد ایک صندوقچہ برآمد ہوا۔
وان لنگ خوشی سے چینخا، "یہی ہے، یہی ہے۔"
ہم نے صندوقچے کے چاروں طرف سے مٹی ہٹائی اور اسے باہر نکالا۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ اچانک شور سنائی دیا اور بہت سے برمی ایک ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہوئے۔ ان میں سے کسی نے فائر بھی جھونک دیا۔ گولی ایک پتھر سے ٹکرائی۔
دشمنوں نے تین طرف سے ہم پر حملہ کیا۔ ہم جلدی سے زمین پر لیٹ گئے اور گولیاں سنسناتی ہوئی ہمارے سروں سے گزرنے لگیں۔ ایسے وقت میں اللہ بہت یاد آتا ہے۔ ہم سب دعائیں مانگنے میں مصروف تھے۔ ہمارا دوست وان لنگ بھی کوئی منتر پڑھ رہا تھا۔ عین اس وقت جب ہم سمجھ رہے تھے کہ دشمن غالب آجائے گا، جہاز سے دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ مرشد مشین گن گھما گھما کر چاروں طرف فائر کر رہا تھا۔ دشمن تتر بتر ہوگئے اور آہستہ آہستہ ان کا زور ٹوٹنے لگا۔
اب ایک اور مصیبت نازل ہوئی۔ شمال مشرق کی طرف سے ایک کالی گھٹا اٹھی اور تیزی سے آسمان پر چھانے لگی۔ ہم بہت خوف ذدہ ہوئے، کیونکہ اندھیرا ہونے سے آس پاس کا علاقہ نظر نہیں آسکے گا اور دشمن کو موقع مل جائے گا کہ وہ ہم پر بھرپور حملہ کرکے جہاز پر قبضہ کر لے۔
ادھر سب لوگ ایک طرف اکٹھے ہوگئے۔ ہر کوئی آسمان کو دیکھ دیکھ کر زور زور سے چلا رہا تھا۔
علامہ دانش بولے، "میرا خیال ہے کہ یہ گھٹا انہیں بھاری نقصان پہنچاتی ہوگی۔"
ہم نے مل کر صندوق کو اٹھایا اور جہاز کی طرف بھاگے۔ مرشد نے ہمیں دیکھ کر فائرنگ بند کردی تھی۔ صندوق بہت بھاری تھا۔ جوں ہی ہم نے صندوق جہاز پر لادا ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ ہم بھی بڑی مشکل سے جہاز میں سوار ہو پائے۔ مرشد نے جہاز کا دروازہ بند کردیا۔ اس کے ساتھ ہی طوفان آگیا۔ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا اور جہاز پر گولیوں کی بوچھاڑ سی ہونے لگی۔ ہمارے تو دل دہل گئے۔ ایسی خطرناک صورتحال سے پہلے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔
مرشد نے بہت غور سے دیکھا، تب اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ گولیوں کی بوچھاڑ نہیں تھی اور نہ ہی یہ اولے گررہے تھے، یہ تو ٹڈی دل کی یلغار تھی۔ سامنے کے شیشے (ونڈ اسکرین) پر ٹڈیوں کے گچھے کے گچھے جمع ہوگئے اور باہر کا منظر نظر آنا بند ہوگیا۔ مرشد کا رنگ ذرد پڑ گیا۔ اس نے زور سے کہا، "دوستو آپ سب میری کامیابی کے لئے دعا فرمائیں۔ میں اندھا دھند پرواز کرنے والا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ٹڈیوں کے دل میں پھنس کر جہاز کے پنکھے حرکت نہ کرسکیں اور یہ بھی ممکن ہے ہم اس مصیبت سے نکل جائیں۔"
اچانک کپتان مرشد نے ایک پہیا گھمایا۔ جہاز کے پنکھے تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ اتنا زبردست شور ہوا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ آہستہ آہستہ جہاز اوپر اٹھنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی شور بھی بڑھتا چلا گیا۔ ہم نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی ذرا دیر میں ہر چیز تہس نہس (تباہ و برباد) ہو کر رہ جائے گی۔ اچانک شور ختم ہوگیا۔ جہاز کے اندر تیز روشنی پھیل گئی۔ ہم ٹڈی کے دل سے اوپر نکل چکے تھے۔
ہمارے نیچے دور دور تک زمین بالکل سیاہ نظر آرہی تھی۔ مرشد نے مسکرا کر کہا، "میں نے سنا ہے کہ ٹڈیاں ہر چیز کا صفایا کردیتی ہیں۔" پھر ہنس کر بولا، "ذرا ان نالائقوں کا تصور کیجئے جنہیں ٹڈیاں چٹ کرچکی ہوں گی۔"
علامہ ناراض ہوکر بولے، "تم اپنی خیر مناؤ کہ سلامتی سے باہر نکل آئے۔ تم نے سنا نہیں کہ دشمن کے مرنے پر خوشی نہ کرو، کیونکہ کسی دن تمہارا دوست بھر مرجائے گا۔ لیکن ٹھہرو میں تمہیں ترکی کا شعر سناتا ہوں۔"
اس کے بعد علامہ شعر سنا سنا کر مرشد کو بور کرتے رہے۔ میں چادر اوڑھ کر سو گیا۔ یہاں تک کہ ہم استنبول پہنچ گئے۔
علامہ نے وان لنگ سے کہا، "دیکھو برخوردار تمہارا خزانہ یہاں رکھا جائے گا۔ جب تمہارے ملک میں امن برقرار ہوجائے اس وقت تم اس امانت کو اپنے وطن لے جانا۔"
وہ تاریخی چیزیں کچھ عرصے پہلے تک "توپ کاپی" عجائب گھر میں محفوظ تھیں۔
دستانے کا راز
برما سے واپسی کے بعد ہم بہت دنوں تک فارغ رہے۔ علامہ دانش اپنی تجربہ گاہ میں کسی دوا پر تجربہ کر رہے تھے، اس لیے بہت دنوں تک ان سے بھی ملاقات نہ ہو سکی۔ آخر اللہ اللہ کرکے ان کی زیارت نصیب ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت آزونا بھی ڈاک لے کے آگیا۔ دو خطوط تھے اور دونوں ہی کپتان مرشد کے نام۔ پہلا خط کسی فلم کمپنی کی طرف سے تھا۔ وہ مصر اور اسرائیل کی جنگ پر کوئی فلم بنا رہے تھے۔ مرشد ناراضی سے بولا، "فلم کمپنی کو میری ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ میں پائلٹ ہوں، کوئی فلم اسٹار نہیں ہوں۔" دوسرے لفافے پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا، "ذاتی، صرف کپتان مرشد کے لیے۔" مرشد نے لفافہ چاک کیا، اس میں سے ایک ربڑ کا دستانہ برآمد ہوا۔ میں نے کہا، "یہ تو کسی قدر دان نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔" کپتان مرشد نے مسکرا کر کہا، "صرف ایک دستانہ؟ الحمد للہ میرے دونوں ہاتھ سلامت ہیں۔ اب بھلا دوسرے ہاتھ میں میں کیا پہنوں گا؟" میں نے پوچھا، "دستانے کے ساتھ کوئی خط پتر بھی ہے ؟"
مرشد نے لفافے کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھا اور بولا، "اس میں اور کچھ نہیں ہے۔" میں نے کہا، "ممکن ہے کہ تمہارا اپنا دستانہ ہو اور تم کہیں بھول آتے ہو؟" مرشد نے کہا، "نہیں، یہ بات بھی نہیں۔ اوہو! اس کے ایک کونے پر چھے کونے والا ستارہ بنا ہوا ہے۔"
علامہ جو بہت دیر سے خاموش بیٹھے تھے، گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور بولے، "یہ دستانہ ذرا مجھے دکھانا۔"
میں نے دستانہ اُن کی طرف بڑھا دیا۔ علامہ اُسے غور سے دیکھتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ بولے، "بہت دن پہلے کی بات ہے جب دستانہ بھیجنے کا مطلب تھا دعوت مقابلہ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی تمہاری جان کا دشمن ہے۔ ذرا سوچو تو سہی کہ تمہاری کس سے مخالفت یا دشمنی ہے؟" اس سے پہلے کہ مُرشد کچھ کہتا، میں بول پڑا ، "چھے کونے والے ستارے کا مطلب ہے کہ دشمن یہودی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔" مرشد ایک لمبا سانس لے کہ بولا، "آہ، میں سب سمجھ گیا ہوں کہ مجھے کس نے للکارا ہے۔ تمہیں وہ نقلی ایوبی تو یاد ہوں گے جنہوں نے تبریز کی پہاڑیوں میں اپنا اڈہ بنا رکھا تھا ؟"
مجھے بھی وہ بات یاد آگئی۔ کچھ عرصے پہلے ہم نے یہودیوں کی ایک تنظیم (جماعت) کو ختم کیا تھا۔ وہ لوگ تبریز کی وادیوں میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو صلاح الدین ایوبی کے سپاہیوں کی اولاد بتاتے تھے۔ ان کا ناپاک ارادہ یہ تھا کہ وہ پورے عالم اسلام پر چھاجائیں اور اپنی حکومت قائم کریں۔ مرشد نے اپنی عقل مندی اور ذہانت سے معلوم کر لیا تھا کہ یہ دھوکے باز کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے ہم سب کو مار ڈالنا چاہا تھا لیکن مرشد نے ان میں سے ایک کو مار ڈالا اور باقی لوگوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ہم سب کی موت یقینی تھی۔
کپتان مرشد نے دوبارہ کہا، "مجھے یقین ہے کہ یہ مقابلے کی دعوت اُنہی یہودیوں میں سے کسی نے بھیجی ہے۔ عین اسی وقت ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے ائیر مارشل صاحب کا سیکریٹری بول رہا تھا، "مرشد صاحب، آپ فوراً ہیڈ کوارٹر پہنچیں۔ ائیر مارشل آپ سے اسی وقت بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔" کپتان مرشد ائیر مارشل کے دفتر پہنچا۔ وہاں ایک پتلا دبلا اور لمبے قد والا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا اور اس نے پرتپاک اندازہ میں مرشد سے ہاتھ ملایا۔ اس نے کہا، "کپتان مرشد، مجھے آپ سے مل کر بے حد مسرت ہوئی۔ ہم نے آپ کو اس لیے تکلیف دی کہ ہم عرب اسرائیل جنگ پر ایک فلم بنانا چاہتے ہیں۔"
مرشد نے کہا، "میں ایک پائلٹ ہوں، کوئی فلمی اداکار نہیں ہوں۔"
فلم کا مینیجر ہارون بولا، "اوہو، تم میری بات نہیں سمجھے۔ اس جنگ میں طیاروں کی لڑائی کا ایک منظر ہے۔ ہم جو طیارے اس میں استعمال کر رہے ہیں، انہیں اڑانے کے لیے آپ ہی موزوں شخص ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کوئی دشواری یا پریشانی پیش نہیں آئے گی۔"
مرشد کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر بولا، "یہ فرمائیے کہ مجھے کیا کام کرتا ہوگا ؟" ہارون بولا، "آپ کا جہاز کسی یہودی بستی پر گولا باری کرکے واپس لوٹ رہا ہو گا، ایک اسرائیلی جہاز آپ کا پیچھا کرے گا۔ وہ آپ پر فائرنگ کرے گا مگر آپ اپنا جہاز بہت مہارت اور ہوشیاری سے نکال کرلے جائیں گے۔ آپ اطمینان رکھیے، اس جنگ میں استعمال ہونے والا سب گولا بارود مصنوعی ہوگا۔ آپ یقین کیجیے کہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ میں آدھے گھنٹے کے اس کام کا معاوضہ دس ہزارہ ڈالر ادا کروں گا۔" ائیر مارشل نے بھی زور دے کر کہا، "بھئی اب تم انکار مت کرنا۔" مرشد نے بہت دبی دبی آواز سے کہا، "جی مجھے یہ پیشکش منظور ہے۔" جب مُرشد وہاں سے واپس لوٹا تو وہ بہت فکر مند اور پریشان دکھائی دیتا تھا۔
اس نے ہمیں یہ سب گفتگو سُنائی۔
علامہ بولے، "مجھے اس ڈرامے میں کچھ گڑبڑ معلوم دیتی ہے۔ بھئی صاف بات تو یہ ہے کہ مجھے تمھاری زندگی خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔"
مرشد نے کہا، "وہ تو میں سمجھتا ہوں۔" میں نے پوچھا، "پھر تم انکار کیوں نہیں کر دیتے؟ چند ہزار ڈالر کے عوض اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالتے ہو۔"
مرشد نے کہا، "مجھے معاوضے کی فکر اور پروا نہیں ہے۔ میں اس دستانے کی گتھی سلجھانا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ دستانے کا راز اس فضائی مقابلے سے وابستہ ہے۔"
اگلے دن ہم فلم کے مینیجر ہارون کے دفتر میں گئے۔ وہاں ایک خاتون بھی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ہارون نے تعارف کراتے ہوئے کہا، "مس شامیہ، آپ ہمارے دوست ہیں کپتان مرشد اور مرشد صاحب، یہ مس شامیہ ہیں جو آپ کے جہاز کا پیچھا کریں گی۔" مرشد نے ایک نظر مس شامیہ پر ڈالی۔ اُس کی آنکھوں میں نفرت اور حقارت جھلک رہی تھی۔ اس نے اپنے دستانے پر ہاتھ پھیرا اور مرشد ایک ہی نظر میں سارا معاملہ سمجھ گیا۔ دستانے کا راز اب کھلنے والا ہی تھا۔
مرشد جب طیارے پر سوار ہونے کے لیے رخصت ہوا تو ہم سب بہت گرم جوشی سے ملے۔ آزونا نے بہت آہستہ سے کہا، "صاحب جی، اب بھی وقت ہے۔ آپ مان جائیے نا۔ دیکھیے میں اس میں خطرے کی بو محسوس کر رہا ہوں۔"
مرشد نے اس کا کندھا تھپتھپا کر کہا، "اللہ حافظ، ان شاء اللہ پھر ملیں گے۔" ہارون نے کہا، "تم مس شامیہ سے ریڈیو کے ذریعہ سے بات چیت کر سکتے ہو۔ تم کیمرے کے نزدیک ہی رہنا تا کہ ہم اس مصنوعی جنگ کی تصویریں لے سکیں تمہارے پیچھے شامیہ کا جہاز ہو گا۔ تم دونوں کے جہازوں میں مصنوعی اسلحہ اور گولا بارود ہے جسے تم موقع موقع سے استعمال کرتے رہوگے۔" ذرا دیر بعد مرشد اور شامیہ کا جہاز ہوا میں تھا۔ ان کے اوپر ایک اور جہاز تھا جو دونوں کی تصویریں لے رہا تھا۔ مس شامیہ کی آواز گونجی، "تم تیار ہو ؟" مرشد نے کہا، "جی ہاں میں تیار ہوں۔"
مس شامیہ بولی، "مجھے آج کے دن کا بہت شدت سے انتظار تھا۔ تم نے میرے بھائی کو تبریز میں ہلاک کیا، میں آج تم سے اس کا بدلالوں گی۔ مجھے اس فلم سے کوئی غرض نہیں۔ جونہی میں تمہارا جہاز گراؤں گی، فوراً بھاگ کر اسرائیل میں اپنے دوستوں کے پاس پہنچ جاؤں گی۔ اس مقابلے میں مجھے تم پر یہ برتری حاصل ہے کہ میرے پاس اصلی بارود ہے اور تمہارے پاس نقلی۔ مجھے تم سے بس یہی کچھ کہنا تھا۔ اوور (یعنی ختم)۔" اس کے ساتھ ہی کلک کی آواز سنائی دی اور گفتگو کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ مرشد مس شامیہ سے صحیح صورت حال بیان کرنا چاہتا تھا لیکن شامیہ نے اس کا موقع ہی نہ دیا۔ وہ تو انتقام میں اندھی ہورہی تھی۔ شامیہ اچانک ہی مرشد کے جہاز کی دم پر حملہ آور ہوئی۔ اُس نے بہت مہارت سے جہاز کو بچایا۔ وہ کئی دفعہ مرشد کے جہاز پر حملہ آور ہوئی۔ وہ کبھی جہاز کو اچانک موڑ لیتا، کبھی یک لخت اوپر لے جاتا، کبھی غوطہ مار کر بالکل نیچے لے آتا۔ اس کا سر چکرانے لگا اور جوڑ جوڑ دُکھنے لگا۔ ایک دفعہ جب شامیہ مرشد کے بالکل نیچے پرواز کر رہی تھی ، مرشد نے اپنے جہاز کی دم اس کے جہاز کے انجن سے ٹکرانی چاہی لیکن شامیہ بہت ہوشیاری سے جہاز کو بچا کر لےگئی۔
اچانک کپتان مرشد کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے دانت پر دانت جما کر کہا۔ "اب تم میری ہوشیاری کا کمال دیکھو۔"
وہ بالکل زمین کے ساتھ ساتھ پرواز کرنے لگا۔ اس کے سامنے ٹیلے فون کی تاریں تھیں۔ وہ ان کے نیچے سے جہاز کو گزار کر لے گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے مس شامیہ تھی۔ وہ جوش جنون میں تاروں کو نہ دیکھ سکی اور اگر اس نے دیکھا بھی ہو گا تو بہت دیر بعد۔ اس کا جہاز تاروں سے ٹکرا گیا۔ شاید اُس کے پنکھوں میں کچھ خرابی ہو گئی تھی، وہ ڈگمگانے لگا۔ آخر وہ ایک طرف کو جھک گیا اور کچھ دیر کے بعد وہ زمین پر جا گرا۔ خوش قسمتی سے جہاز سیدھا گرا تھا۔ جہاز سے دھویں کے بادل نکلنے لگے۔ اک ذرا سی چنگاری سے اس میں آگ لگ سکتی تھی۔ کپتان مرشد نے بھی جہاز کو زمین پر اُتار دیا۔ جہاز زمین پر اُتر کر دور تک ریت میں گھسٹتا چلا گیا۔ ہر طرف گردوغبار کے بادل چھا گئے۔ کپتان مرشد شامیہ کے جہاز کی طرف دوڑا۔ وہ مس شامیہ کی جان بچانا چاہتا تھا۔ وہ جہاز میں فاتحانہ انداز سے بیٹھی ہوئی تھی۔ کپتان مرشد کو آتا دیکھ کہ اس نے پستول نکال لیا اور اس کا رُخ مرشد کی طرف کردیا۔
مرشد چلایا، "اللہ کے لیے پستول مت چلانا۔" یہ کہتے ہی وہ زمین پر گر پڑا۔ یہ اس نے اچھا ہی کیا، کیوں کہ مس شامیہ نے گولی چلا دی تھی۔ شعلے کی گرمی سے دھویں نے آگ پکڑ لی اور جہاز جلنے لگا۔ فائر بریگیڈ یعنی آگ بجھانے والے عملے نے آگ پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کام یاب نہ ہوسکے اور جہاز جل کر بالکل تباہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ ظالم یہودی عورت بھی جل کر راکھ ہو گئی۔ فلم کا مینجر بارون دوڑتا ہوا کپتان مرشد کے پاس پہنچا اور بولا، "مجھے اس حادثے پر بہت افسوس ہے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔"
یہ کہہ کر اس نے جیب سے چیک بک نکالی اور پچاس ہزار ڈالر کا چیک کاٹ کر مرشد کو دینے لگا۔ وہ بولا، "مجھے یقین ہے کہ فلمی میلے میں ہماری فلم اول آئے گی۔ اس میں جنگ کے منظر بالکل اصلی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ تمہاری کوششوں سے ہوا۔ اس لیے میں تمہیں پچاس ہزار ڈالر کا چیک بطور انعام پیش کرتا ہوں۔"
کپتان مرشد نے اس کا ہاتھ نفرت سے جھٹک دیا اور بولا، "ذلیل شخص، اپنا پیسہ اپنے پاس رکھ۔ مجھے پہلے تم سے کچھ حساب کتاب چکانا ہے۔"
"کیسا حساب؟" ہارون لا علم بن کر بولا۔ ہم سب ہارون کو کھینچتے ہوئے ایک کمرے میں لے گئے۔ مرشد نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، "مجھے یقین ہے کہ تم مس شامیہ کے متعلق اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ یہودن ہے۔"
ہارون اکڑ کر بولا، "ہاں تو پھر؟" مرشد تیز لہجے میں بولا، "اور تمہیں یہ بھی علم ہو گا کہ اس کے بھائی کو میں نے تبریز کے پہاڑی علاقے میں مار ڈالا تھا۔" ہارون بولا، "یہ بھی درست ہے۔ مجھے یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ مس شامیہ کے بھائی کو آپ نے مار ڈالا ہے۔ تب مجھے یہ خیال سوجھا کہ میں آپ دونوں کا آمنا سامنا کروا دوں وہ اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی اور آپ اپنا بچاؤ کریں گے۔ اس طرح جو فلم بنے گی وہ بالکل اصلی جنگ ہوگی۔"
مرشد نے کہا، "کیا تمہیں معلوم ہے کہ مس شامیہ کے پاس اصلی گولا بارود تھا۔" ہارون ہنس کر بولا، "جی ہاں، یہ بات بھی درست ہے۔ جب کافی دیر تک مقابلے کے بعد وہ آپ کا جہاز گرا کر بھاگ جاتی تو ہمارے دونوں مقصد حل ہو جاتے یعنی فلم بھی بن جاتی اور اسرائیل کا دشمن بھی بلاک ہو جاتا ہے۔" یہ کہتے ہی اس نے پستول نکال لیا اور کڑک کر بولا، "بد بختو! اب تمہارا آخری وقت آپہنچا ہے۔"
مرشد نے بہت سکون سے کہا، "ایک آخری سوال اور پوچھنا ہے۔ کیا وہ دستانہ تم نے بھیجا تھا؟"
بارون بولا، "ہاں، اس دستانے کا مطلب تھا کہ اب تم خبردار ہوجاؤ۔ تمھارا انجام آپہنچا ہے۔"
ہارون کے چہرے کے نقوش بھیانک ہو گئے۔ وہ بولا، "اب تم مرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ ایک ۔۔۔ دو۔۔۔" دھائیں!!!!
دھائیں کی آواز کے ساتھ ہی ایک معجزہ سا ہوگیا، یعنی ہارون لڑکھڑا کر آگے کی طرف گرا۔ اس کے سر سے خون اُبل رہا تھا۔ اس وقت آزونا لپک کر آگے بڑھا اور اس نے ہارون کی جیب سے نوٹ بک اور پچاس ہزار کا چیک نکال لیا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا لیکن مجھے گولی چلانے والا کہیں نظر نہیں آیا۔ اوپر روشن دان
سے کسی نے کہا، "اللہ کا شکر ہے کہ وہ بد کردار اپنے انجام کو پہنچا۔"
روشن دان میں مصری پولیس کے جوان کا چہرہ نظر آرہا تھا۔ یہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ علامہ نے مصری پولیس سے رابطہ قائم کر کے انہیں اپنے شک و شبہ سے آگاہ کر دیا تھا۔ اُس وقت سے کئی پولیس والے ہارون کی نگرانی کررہے تھے۔ مصری پولیس نے فلم کمپنی کے دفتر پر چھاپہ مار کہ اس کے تمام کام کرنے والوں کو گرفتار کرلیا۔ ان میں سے بہت سے یہودی نکلے جو مصری حکومت کے خلاف کام کر رہے تھے۔ ہمیں مصری حکومت نے بہت انعام دیا۔ سب سے بڑا انعام تو آزونا نے مرشد کو دیا۔ وہ پچاس ہزار ڈالر کا چیک تھا جو اس نے ہارون کی جیب سے نکال لیا تھا۔ آزونا نے کہا، "صاحب جی! اب آپ بالکل انکار نہ کیجیے گا۔ یہ آپ کی جائز کمائی ہے۔ یہ آپ کا حق ہے۔" علامہ نے بھی تائید کی، "ارے میاں رکھ لو اسے۔ یہ تمہارے پسینے اور اس مردود یہودی کے گاڑھے خون کی کمائی ہے۔"
آزونا نے چیک مرشد کی جیب میں ٹھونس دیا۔​
 
نیلی ریت کا جزیرہ
ہم بہت دنوں سے بےکار بیٹھے تھے۔ دفتر میں کوئی کام نہیں تھا۔ آزونا دن بھر قہوہ بنا بنا کر پلاتا رہتا۔ ہم لوگ گپ شپ میں دن گزارتے یا پھر تاش اور شطرنج کھیلتے رہتے آخر ایک دن علامہ دانش کو ایک تار موصول ہوا۔ حکومت انڈونیشیا نے ان سے فوراً پہنچنے کی فرمائش کی تھی۔
ہم انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ پہنچے۔ ہمارے استقبال کے لیے ڈاکٹر رشید سربانتو ائیر پورٹ پر موجود تھے۔ علامہ دانش ڈاکٹر رشید سے بہت تپاک سے ملے۔ انہوں نے کہا، "یہ میرے بہت پرانے دوست ڈاکٹر رشید سربانتو ہیں۔ یہ ملک کے مشہور سائنس داں ہیں۔ ڈاکٹر آج کل ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال پر تحقیق کر رہے ہیں۔" ڈاکٹر رشید سربانتو لمبے قد کا، دبلا پتلا بوڑھا شخص تھا۔ لباس پر شکنیں پڑی ہوئی ، گنجا اور آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں کی عینک لگی ہوئی تھی۔ کتابوں میں غائب دماغ پروفیسروں کا جو حال اور حلیہ درج ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر وہ سب باتیں یاد آنے لگیں۔ رات کے وقت ڈاکٹر رشید نے ہمیں بتایا، "میں نے آپ کو مرغابی کے انڈے دکھانے کے لیے یہاں بلوایا ہے۔"
میں اور مرشد ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ مرشد آہستہ سے بولا، "یہ بھی کوئی دکھانے کی چیز ہے؟"
ڈاکٹر رشید ایک ٹوکری اُٹھا کر لائے۔ اس میں کچھ انڈے رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا، "مرغابیاں سردیوں کے موسم میں جزیرہ سلمانیہ میں آتی ہیں اور موسم سرما (سردی) گزار کر واپس چلی جاتی ہیں۔" علامہ بےزاری سے بولے، "بھئی ان انڈوں میں ایسی کیا خوبی ہے جسے دکھانے کے لیے آپ نے ہمیں بلوایا ہے؟" ڈاکٹر رشید نے کھڑکیوں کے پردے گرا دیئے اور بولے، "اب میں آپ کو وہ حیرت انگیز بات دکھاؤں گا جو پہلے آپ نے کبھی نہ دیکھی ہوگی۔" یہ کہتے ہی ڈاکٹر نے بٹن دبا کر روشنی بجھادی۔ پھر ہم نے حیرت انگیز اور بے حد دلچسپ تماشا دیکھا۔ ان انڈوں سے تیز دودھیا سفید رنگ کی روشنی خارج ہونے لگی۔ ہم دیر تک یہ روشنی دیکھتے رہے۔ نہ جائے آزونا کو کیا سوجھی کہ اس نے اپنی جیب سے تسبیح نکالی اور اسے ادھر اُدھر جھلانے لگا۔ اس تسبیح کے دانے رات کے اندھیرے میں چمکتے تھے۔ علامہ دانش ایک لمبا سانس لے کر بولے، "بے شک یہی بات ہوگی۔ فاسفورس اور اس کے مرکبات اندھیرے میں چکتے ہیں۔ ان انڈوں میں فاسفورس کی کچھ مقدار موجود ہوگی۔"
ڈاکٹر رشید نے بٹن دبایا اور کمرا روشن ہو گیا۔ وہ بولے، "پہلے میں بھی یہی سمجھا تھا کہ ان انڈوں میں فاسفورس ہے جس کی وجہ سے یہ رات کے وقت چمکتے ہیں، لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ انڈوں میں چمک کی وجہ نیلی ریت ہے۔"
ڈاکٹر رشید نے ذرا دیر کے بعد پھر کہا، "یہ مرغابیاں جزیرہ سلمانیہ پر سردی کا موسم گزارے نے آتی ہیں۔ وہ ریت کے ذرات کھا جاتی ہیں۔ وہ یہ ریت کیوں کھاتی ہیں؟ میرا خیال ہے کہ وہ دانہ دن کا ہضم کرنے کے لیے ریت پھانک جاتی ہیں۔ یہی ذرات ان کے انڈوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کے چمکنے کا سبب بنتے ہیں۔ کہیے کیا یہ ایک دل چسپ کہانی نہیں ہے؟"
ہم ایک آواز ہو کہ بولے، "بے شک، بے شک۔"
ڈاکٹر رشید نے کہا، "جب میں نے تحقیق کی تو یہ بات سامنے آئی کہ یہ ریت ریڈیم کی جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔" مرشد نے کہا، "ریڈیم تو وہ دھات ہے جو ایٹم بم میں استعمال ہوتی ہے۔" میں بولا، "میرا خیال ہے کہ ریڈیم کا حاصل کرنا بے حد مشکل کام ہے۔" ڈاکٹر رشید نے کہا، "اُسی ریڈیم کی جگہ یہ ریت آسانی سے استعمال کی جا سکتی ہے اور سلمانیہ کے جزیرے میں یہ ریت بہت بڑی مقدار میں موجود ہے۔" علامہ دانش خوشی کے مارے ڈاکٹر صاحب سے لپٹ ہی گئے۔ وہ بولے، "مغربی ملک ہمیں غریب ہونے کا طعنہ دیتے رہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب ہمارے پاس ریڈیم ہے۔ ہم امیر ہیں، ارے ہم امیر ہیں۔" دونوں بڈھے خوشی کے مارے ناچنے لگے۔ یہ دیکھ کر ہم اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکے۔ پہلے تو مرشد اپنے منہ پر رومال رکھ کر بھاگا۔ اس کے پیچھے میں اور آزونا بھی کمرے سے باہر نکل گئے۔ کافی دیر بعد ہم کمرے میں واپس آئے۔ مرشد نے پوچھا، "ڈاکٹر صاحب، یہ فرمائیے کہ ہم اس سلسلے میں آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟" ڈاکٹر صاحب نے کہا، "میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ جا کہ اس ریت کا ایک ڈبا بھر کر لاؤں۔ میرے دوست دانش، میں نے تمہارے ساتھ رہ کر بہت کام کیے ہیں، میں چاہتا ہوں یہ کارنامہ بھی تمہارے ساتھ ہی پورا کروں۔"
مرشد بولا، "آپ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ جزیرہ سلمانیہ کہاں ہے؟"
ڈاکٹر نے کہا، "یہ بات تم لوگ جانتے ہی ہو کہ ہمارا ملک انڈونیشیا بہت سے جزیروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بہت سے جزیرے تو بہت چھوٹے ہیں، اتنے چھوٹے کہ ان پر انسانی آبادی نہیں ہے ۔ کچھ جزیرے سمندر میں ڈوبتے اُبھرتے رہتے ہیں۔ یہ جزیرہ سلمانیہ ملک کے بالکل آخری کونے پر واقع ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ جزیرہ کسی آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے وجود میں آیا ہے۔" مرشد نے کہا، "وہاں جہاز اُتارنے کے لیے کوئی مناسب جگہ بھی ہے یا نہیں؟ ہمارا جہاز سمندر اور خشکی دونوں جگہ پر اُتر سکتا ہے؟" ڈاکٹر رشید نے کہا، "سلمانیہ کے پاس سمندر میں چٹانیں ہیں۔ اس لیے وہاں جہاز کا اُتارنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس جزیرے سے تھوڑی دور جزیرہ کارابو یا میں جہاز اُتارا جا سکتا ہے۔"
مرشد بولا، " آپ چاہتے ہیں کہ ہم ریت کا ایک ڈبہ بھر کر لے آئیں۔"
ڈاکٹر نے کہا، "بے شک، میں یہی چاہتا ہوں۔" علامہ دانش جلدی سے بولے، "یہ کام فوراً ہوجانا چاہیے، کیوں کہ اگر دوسرے ملکوں کو اس ریت کا علم ہو گیا تو وہ اس جزیرے پر حملہ کر دیں گے۔"
اگلے دن ہم جزیرہ سلمانیہ پر پرواز کر رہے تھے۔ راستے میں ہم بہت سے چھوٹے اور بڑے جزیروں پر سے گزرے۔ علامہ دانش بولے، "قدرت نے اس علاقے کو بےپناہ خوب صورتی اور حسن عطا فرمایا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہیرے اور موتیوں کا مالا ٹوٹ کر سمندر کی سطح پر بکھر گئی ہو۔" ڈاکٹر رشید نے جزیرے کا ایک نقشہ بنا کر ہمیں دے دیا تھا۔ اس لیے سلمانیہ کو تلاش کرنا ہمارے لیے آسان ہو گیا تھا۔ مرشد بولا، "میرا خیال ہے کہ یہ جزیرہ سلمانیہ ہونا چاہیے۔" ڈاکٹر رشید داڑھی کھjا کر بولے، "میرا بھی یہی خیال ہے کہ یہ جزیرہ سلمانیہ ہے، لیکن یہ تھوڑے ہی دنوں میں کتنا بدل گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کی پہاڑی دو حصوں میں ٹوٹ گئی ہے۔ شاید یہاں کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹا ہے۔ کیا تم جہاز کر کار کابویا کے آس پاس اُتار سکتے ہو؟" مرشد بولا، "اگر سمندر میں طوفانی لہریں اُٹھنے لگیں تو ہمارا جہاز ڈوب بھی سکتا ہے۔" مرشد جہاز کو کارا کابویا کی طرف لے چلا۔ وہ خشکی پر اُتارنے کا پروگرام بنا ہی رہا تھا کہ ایک اور مصیبت پیش آگئی۔ جزیرے کے لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے اور برچھیاں تھیں۔ وہ ہماری طرف منہ کر کے چیخ رہے تھے اور نیزے ہوا میں لہرا لہرا کر اپنے غصے کا اظہار کر رہے تھے۔
ڈاکٹر بولا، "خبردار جہاز کو جزیرے پر اُتارنے کی غلطی نہ کرنا۔ مجھے ان مقامی لوگوں کے تیور خطرناک دکھائی دیتے ہیں۔"
علامہ دانش بولے، "میرا خیال ہے کہ ان پر کوئی آفت آئی ہے اور وہ ہمیں اس تباہی کا ذمےدار سمجھتے ہیں۔" مجبور ہو کر مرشد نے اپنے جہاز کو جزیرے سے کچھ دور آگے سمندر میں اُتار لیا۔ مقامی باشندے ابھی تک غصے اور نفرت سے چیخ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ہی ہم جزیرے پر قدم رکھیں گے تو وہ ہماری تکا بوٹی کر دیں گے۔ دن بھر اسی حال میں گزر گیا۔ سمندر پر سکون تھا۔ ڈاکٹر نے کہا، "سمندر کے اوپر بھورے رنگ کے جھاگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹا ہے۔" علامہ دانش بولے، "انڈونیشیا میں بہت سے آتش فشاں پہاڑ ہیں۔ جب مشہور پہاڑ کراکاٹو پھٹا تھا میں اس کے نزدیک ہی موجود تھا اور ایک جہاز پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے وہ خوف ناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔" شام کے وقت دس بارہ افراد ایک کشتی میں سوار ہو کر ہمارے جہاز کے پاس آئے۔ ان کے چہروں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی دوستانہ ارادے سے نہیں آتے ہیں ۔ آزرونا، مرشد اور میں مقابلے کے لیے تیار ہو کر بیٹھ گئے۔ ایک آدمی نے جو ان کا سردار معلوم ہوتا تھا کسی غیر زبان میں چیخ چیخ کر کچھ کہا۔ ڈاکٹر صاحب بہت نرمی سے انھیں سمجھاتے رہے۔ آخر وہ لوگ واپس چلے گئے۔
مرشد نے پوچھا، "یہ لوگ کیا کہتے تھے؟" ڈاکٹر نے کہا، "وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ تم نے اگنی (آگ کے دیوتا) کو ناراض کر دیا ہے۔ تم لوگ فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ وہ تمہیں بھسم (جلا کر خاک) کر دے گا۔" علامہ بولے، "میرا خیال ہے کہ یہاں کوئی آتش فشاں پھٹا ہے، یہ لوگ اسی کے متعلق بتا رہے ہوں گے۔"
رات کے وقت ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ جزیرہ سلمانیہ سے سفید دودھیا رنگ کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس سے آس پاس کا علاقہ روشن ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی برچھی کی نوک جیسی آگ کا شعلہ سلمانیہ کی چٹان سے نکلتا اور کچھ دیر لہرا کر غائب ہو جاتا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، "یہ روشنی اسی نیلی ریت سے نکل رہی ہے۔" ہم کیبن میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔ اچانک ایک گرج سُنائی دی ۔ ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دھما کا کس جگہ ہوا تھا لیکن یہ جگہ ہمارے آس پاس ہی کہیں پر تھی۔ پھر اچانک ایک تیز لہر سے جہاز ڈگمگانے لگا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے یہ گرج اور دھماکے کی آوازیں رات بھر سنائی دیتی رہیں۔ زور دار لہروں سے ہمارا جہاز ہچکولے کھاتا رہا۔ ایک دھما کا تو اتنا زور دار تھا کہ ہم سب اُچھل پڑے۔ آزونا سہمی ہوئی آواز میں بولا، "میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ دھما کا ہمارے قدموں کے نیچے ہوا ہے۔ شاید ہم کسی آتش فشاں کی چوٹی پر بیٹھے ہوتے ہیں۔" میں نے کہا، "اگر وہ منحوس قبائلی ابھی تک یہاں موجود ہیں تو ان کے کباب بن جائیں گے۔" مرشد بولا، "کچھ اپنی خبر بھی ہے اچھے میاں! تم بھی تو اسی پہاڑ کی چوٹی پر تشریف رکھتے ہو؟" علامہ بولے، "وہ قبائلی یہاں سے فرار ہو چکے ہوں گے۔" اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی۔ دن کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ دُور دُور تک کیچڑ کے بڑے بڑے دل تیرتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ سلمانیہ کی پہاڑی ابھی تک موجود تھی لیکن اس کی بلندی پہلے سے کم رہ گئی تھی۔ مرشد بولا، "مقامی لوگ تو رات کے وقت یہاں سے فرار ہو گئے۔ اب تم لوگ بھی یہاں سے چل پڑو۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم کسی بھی لمحے بھک سے اڑ جائیں گے۔" ڈاکٹر رشید سربانتو جو دور بین لگائے سلمانیہ کی پہاڑی کو بہت دیر سے دیکھ رہے تھے چیخ کر بولے، "اوہو، یہ تو ڈوب رہا ہے۔" ہم نے غور سے دیکھا، واقعی جزیرہ سلمانیہ آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہا تھا۔ علامہ حسرت بھری آواز میں بولے، "انا للہ وانا الیہ راجعون۔" علامہ بولے، "کاش کہ یہ کچھ دیر اور ٹھہر جائے۔ ہم ایک ڈبہ ریت کا بھر لیں۔ اس کے بعد ہماری بلا سے، یہ پہاڑ رہے یا جائے بھاڑ میں۔"
ہم نے ایک کشتی سمندر میں اُتاری۔ ابھی ہم اس میں اُترنے والے ہی تھے کہ فضا پھر بو جھل بوجھل سی محسوس ہونے لگی۔ آزونا بولا یہ طوفان آنے سے پہلے کی علامت (نشانی) ہے۔"
اس کی پیشگوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ اچانک ایک زور دار دھماکا ہوا۔ مرشد بولا۔ "میرا مشورہ ہے کہ آپ وہاں نہ جائیے۔ خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔" علامہ دانش بولے، "میری جان رہے یا جائے۔ میں خود وہاں جاؤں گا اور ایک ڈبہ ریت سے بھر کر لاؤں گا۔" وہ سیڑھی سے نیچے اُترنے لگے۔ علامہ نے پھر کہا، "میرے واپس آنے سے پہلے اگر سمندر میں طوفانی لہریں آنے لگیں تو میرا انتظار نہ کرنا اور جہاز کو اڑا کرلے جانا۔"
آزونا بولا، "آپ اکیلے نہیں جائیں گے میں آپ کا ساتھ دوں گا۔" ان کی دیکھا دیکھی ، میرے اندر بھی جوش پیدا ہوا۔ میں بھی چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ مرشد اور ڈاکٹر رشید ہمیں آوازیں دیتے رہ گئے، "ارے اپنی جان کو خطرے میں مت ڈالو۔ واپس آجاؤ۔"
لیکن ہم کشتی میں سوار ہو چکے تھے۔ ہمارے چاروں طرف کیچڑ اور جھاگ دار لاوا پھیلا ہوا تھا۔ اس کیچڑ میں چپو چلاتا بے حد دشوار کام تھا۔ ہم بڑی کوشش کے بعد سلمانیہ جزیرے تک پہنچ پائے۔ اس وقت چٹان کا زیادہ حصہ سمندر میں ڈوب چکا تھا، مٹی کا ایک تودہ ما باقی رہ گیا تھا۔ آزونا نے اس تودے پر چھلانگ لگا دی۔ اس نے ابھی آدھا ڈبہ بھرا ہوگا کہ سمندر کا پانی تودے کے اوپر پھیل گیا۔ آزوتا کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ علامہ نے آواز دی، "اب واپس آجاؤ۔" آزونا بہت مشکل سے کشتی پر سوار ہو سکا۔ جزیرے کا باقی حصہ بھی بہت تیزی سے پانی میں ڈوبنے لگا۔ کشتی کے چاروں طرف کیچڑ کی موٹی تہہ جمع ہو گئی۔ گندھک کے دھویں سے دم گھٹنے لگا۔ اس دلدل میں چپو چلانا اور بھی زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ ہم کو بہت محنت کرنی
پڑی۔ جب ہماری کشتی جہاز کے پاس پہنچی تو مرشد نے دستی کا زینہ لٹکا دیا۔ ہم باری باری جہاز میں سوار ہو گئے۔ جزیرہ سلمانیہ پورے طور سے پانی میں ڈوب چکا تھا۔ میں نے علامہ کو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا، لیکن اس دن وہ ڈاکٹر سے لپٹ کر خوب روئے۔ وہ بار بار کہتے، "قدرت کو یہ منظور نہیں تھا کہ انڈونیشیا بھی امیر ممالک کی صف میں شامل ہو۔ اگر یہ نیلی ریت کا جزیرہ غرق نہ ہوتا تو انڈونیشیا سب سے امیر ملک شمار ہوتا۔" مرشد بولا، "اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ اگر یہ جزیرہ باقی رہتا تو دنیا کے سب بڑے بڑے ملک اس پر قبضہ کرنے کے لیے دوڑ پڑتے اور بہت خون خرابہ ہوتا۔"
اس نیلی ریت کا کیا ہوا؟ کیا حکومت انڈونیشیا نے اسے کسی مفید کام میں استعمال کیا یا نہیں؟ میں اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔
موت کے سوداگر
انڈونیشیا کے سفر سے واپسی پر ہم اپنے پرانے دوست فریدوں شومیر سے ملنے کے لیے ملایا پہنچے۔ ایک دبلے پتلے شخص نے بہت ادب سے سلام کیا۔ وہ شکل سے بہت بیمار اور پریشان دکھائی دیتا تھا۔ اس شخص نے کہا سرکار، "شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں فریدوں شومیر کا ملازم ہوں۔ میرا نام دینو ہے۔" ہم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ دینو ہی تھا۔ مگر جب ہم نے اُسے آخری دفعہ دیکھا تھا وہ اچھا صحت مند، موٹا ، لال گلابی چہرے والا جوان تھا۔ اب اس کا حلیہ اتنا بدل چکا تھا کہ میں تو کیا، کوئی بھی اسے دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی دینو ہے۔
مرشد بے ساختہ بولا، "یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟"
دینو بولا، "حضور، یہی بتانے کے لیے تو میں حاضر ہوا ہوں۔" افریقی ملازم آزونا دینو کے لیے کرسی لایا۔ دینو نے اپنے آپ کو کرسی میں گرا دیا۔ وہ بولا، "سرکار جیسے ہی مجھے آپ کے آنے کی اطلاع ملی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ اگر آپ نہ آتے تو جانتے ہیں کہ میں کیا کرتا؟"
پھر وہ خود ہی بات پوری کرتے ہوئے بولا، "میں کسی جوہری کی دُکان میں پتھر مار دیتا۔ اس طرح چوری کرنے کے جرم میں گرفتار ہوجاتا اور جیل بھیج دیا جاتا۔" مرشد نے کہا، "میں تمہاری بات کا مطلب نہیں سمجھا۔ آخر تم جیل جانا کیوں چاہتے ہو؟"
دینو بولا، "جناب اس طرح میرا علاج ہو جاتا اور میرا مرض دور ہو جاتا۔" مرشد نے پوچھا، "ہمیں تو آج ہی معلوم ہوا ہے کہ ہسپتال کے بجائے اب جیل خانوں
میں بھی علاج ہونے لگا ہے۔"
دینو بولا، "میں ایک بدقسمت نشے باز ہوں۔"
یہ کہتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مرشد نے ایک سگرٹ سلگا کر دینو کو دیا۔
دینو کے ہاتھ اس بری طرح کانپ رہے تھے کہ سگرٹ اس کی انگلیوں سے چھوٹ کر گر پڑا۔
میں نے کہا، "تمہیں نشے کی بُری عادت کیسے پڑگئی؟"
آزونا نفرت سے بولا، "مجھے یقین ہے کہ برے لوگوں کی صحبت میں رہ کر اس کی عادت بگڑ گئی ہے۔"
علامہ نے آزونا کو ڈانٹا، "چپ خاموش۔ یوں ہی اول فول نہیں بولا کرتے۔ بولنے سے پہلے تولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔" دینو گڑ گڑا کر بولا، "اللہ کے لیے کوئی بدگمانی نہ کیجیے۔ بدگمانی کرنا سخت گناہ ہے۔ میں ایک لڑائی میں زخمی ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں کو میرا پاؤں کاٹنا پڑا۔ اس کی جگہ انھوں نے مصنوعی پاؤں لگا دیا تھا۔ ٹانگ کا زخم تو ٹھیک ہوگیا، مگر اس کا درد دور نہ ہوا۔ ڈاکٹر درد دور کرنے کے لیے گولیاں دے دیتے، جن سے درد دور ہو جاتا لیکن کچھ دن کے بعد پاؤں میں پھر درد ہونے لگتا ہے۔"
مرشد جلدی سے بولا، "بس بس ، میں سمجھ گیا۔ پھر یوں ہوا کہ تم ان گولیوں کے عادی ہوگئے اور تمہاری صحت خراب ہو گئی۔" دینو نے کہا، "میری صحت کی بربادی فقط ان گولیوں کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس کا سبب کچھ اور ہے۔ ایک دن گولیاں ختم ہو گئیں۔ میں درد سے تڑپ رہا تھا۔ میں ایک دوا ساز کی دکان پر پہنچا اور اس سے اپنا حال بیان کیا۔ اس نے کچھ دیر تک غور کیا پھر اس نے مجھے سفید سفوف کی ایک پڑیا تھمادی۔"
علامہ بہت زور سے چونکے۔ ان کے منہ سے بےساختہ نکلا، "اللہ رحم کرے۔" دینو نے اپنی بات جاری رکھی، "یہ سفوف بہت ہی جادو اثر ثابت ہوا۔ اسے کھاتے ہی مجھے درد سے نجات مل گئی۔ یہ سفوف کافی مہنگا تھا مگر آرام اور سکون کے لیے اس کو استعمال کرنا پڑتا تھا۔" علامہ نے پوچھا، "کیا تم نے اس دوا ساز سے سفید سفوف کا نام پوچھا؟" دینو نے کہا، "میں نے سفوف کا نام پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔" علامہ نے پھر پوچھا، "کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ سفوف اصل میں کیا چیز ہے؟" دینو نے کہا، "جی ہاں، اب مجھے اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے کہ اس کا نام کیا ہے؟ اس سفوف کا نام ہیروئن ہے۔“ علامہ سر ہلا کر بولے، "ہاں، میرا دھیان بھی اس طرف گیا تھا۔ اچھا اب تم اپنی بات جاری رکھو۔" دینو بولا، "جب مجھے دوبارہ درد ہوا تو میں سیدھا اسی دوا ساز کے پاس پہنچا۔ اس نے مجھے سفوف کی پڑیا دے دی۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن اچانک مجھے محسوس ہوا کہ یہ سفوف کوئی خطرناک نشہ اور دوا ہے اور میں بدقسمت اس کا عادی ہو چکا ہوں۔ میرے لیے اب اس سفوف کے بغیر زندگی گزارنی مشکل تھی۔ وہ بدفطرات شخص جو یہ نشہ آور چیز فروخت کر رہا تھا، اس بات سے واقف ہوگیا کہ میں اب عادی نشے باز بن چکا ہوں۔ اس نے سفوف کی پیڈیا کے دام بڑھا دیے۔ وہ یہ بہانہ بناتا ہے کہ سفوف اب مشکل سے ملتا ہے۔"
مرشد بولا، "شاید وہ ٹھیک ہی کہتا ہو؟" دینو بولا، "قصّہ مختصر، میں نے اپنی کمائی کا پیسہ پیسہ اس نشے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اب میں کوڑی کوڑی کو محتاج ہو چکا ہوں۔ اس بد بخت نشہ فروش نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں۔ میں ایک پڑیا کے لیے بھیک مانگتا ہوں اور وہ مجھے دھکے دے کر وہاں سے نکال دیتا ہے۔"
مرشد بولا، "میرا خیال ہے کہ اب وہ تمہیں کبھی سفوف کی پڑیا نہیں دے گا۔"
دینو بولا، "سرکار سارا کھیل پیسے کا ہے۔ میں اسے آج پیسے دینے شروع کر دوں تو وہ دوبارہ ہیروئن دیتا شروع کر دے گا۔ لیکن حضور ، اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ میں اس منحوس چیز کو ہاتھ تک نہ لگاؤں گا۔"
فریدوں شومیر، جو اب تک خاموشی سے سُن رہے تھے، بولے، "تم نے اس دوا فروش کا نام نہیں بتایا ہے۔" دینو بولا، "سرکار، اس کا نام زید آذری ہے، محلہ گوڑا کھاتہ کے نکڑ پر اس کی دکان ہے۔" دینو کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہ بولا، "سرکار آپ میری حالت دیکھتے ہیں کیا تھا اور اب کیا ہو گیا ہوں۔ آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے مجھے بچا لیجیے۔ میں آپ کی منت کرتا ہوں۔" علامہ دانش بولے، "نشے سے بچنے کے لیے تم خود ارادہ کرو اور اس پر قائم رہو۔ میں تمہیں ایسی جگہ بھیج دوں گا جہاں تم ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رہو گے۔ میرا مطلب ہے کہ تم مگہ شریف میں حج کرنے کے لیے روانہ ہوجاؤ۔"
فریدوں شومیر بولا، "حج کے سب اخراجات میں ادا کروں گا۔" یہ کہہ کر اس نے میز پر سے اخبار اُٹھایا اور اس کے ورق الٹنے لگا۔ ایک اشتہار پڑھ کر فریدوں شومیر نے کہا، "کل صبح ایک جہاز جارہا ہے۔ میں ابھی تمہاری سیٹ کا انتظام کیے دیتا ہوں۔" علامہ دانش نے اس کا علاج کرنے کے لیے کچھ دوائیں تجویز کیں۔
فریدوں شومیر نے کہا، "میں تم سے دو ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ تم مجھے اس نشہ فروش کے بارے میں کچھ اور باتیں بتاؤ۔" دینو بولا، "کوڑا کھاتہ گلی کی دُکان پر ہفتے میں دوبار ایک رولز رائس گاڑی آتی ہے۔ اس میں سے ایک وردی والا ڈرائیور اُترتا ہے۔ ایک پیکٹ جس میں یقیناً ہیروئن ہوتی ہے اس دکاندار کو دے کر چلا جاتا ہے۔ گاڑی میں ایک خاتون بیٹھی ہوتی ہے۔ وہ شکل صورت سے کسی معزز گھرانے کی عورت دکھائی دیتی ہے۔"
فریدوں شومیر نے پوچھا، "تمہیں یقین ہے کہ اس پیکٹ میں ہیروئن ہی ہوتی ہے۔" دینو بولا، "ایک دن میں دُکاندار کے پاس ہیروئن لینے کے لیے پہنچا تو اس نے کہا کہ آدھے گھنٹے کے بعد آنا آج مال ختم ہو گیا ہے۔ میں دُکان کے پاس ہی کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد وہ رولز رائس آئی اور ڈرائیور پیکٹ دے کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی میں دکاندار کے پاس پہنچا۔ اس نے کہا، مال آگیا ہے، تم پڑیا لے جاؤ۔"
فریدوں نے پوچھا، "کیا تم نے موٹر کار کا نمبر نوٹ کیا؟"
دینو بولا، "جی نہیں، مجھے اس کا خیال نہیں آیا۔" فریدوں بولا، "تم نے اس کی خبر پولیس میں کیوں نہیں دی؟ کم سے کم تم مجھے تو بتا سکتے تھے۔"
دینو بولا، "جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ اگر میں کسی کو اس کی خبر دیتا تو وہ لوگ مجھے زندہ نہ چھوڑتے۔" فریدوں شومیر نے اپنے ملازموں کو بلا کر تاکید کی کہ دینو کو ایک کمرے میں بند کردیں اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھیں اور کل اپنی نگرانی میں اسے جہاز پر سوار کروادیں۔ اس کے جانے کے بعد علامہ نے کہا، "یوں تو ہر قسم کا نشہ بُرا ہوتا ہے لیکن ہیروئن کا نشہ سب سے برا ہے۔ یہ انسان کی جسمانی حالت تباہ کر دیتا ہے۔ اس میں بہت سی اخلاقی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ ہیروئن فروخت کرتے ہیں وہ زبردست منافع کماتے ہیں۔ لیکن ہیروئن کے عادی شخص اپے پیسے کے ساتھ ساتھ صحت بھی گنوا دیتے ہیں۔"
فریدوں بولا، "ہمارے ملک میں افیون اور ہیروئین کی درآمد پر پابندی ہے۔ نہ جانے یہ کون شخص ہے جو ہماری لوگوں میں زہر گھول رہا ہے۔" یہ کہہ کر اس نے پولیس کے محکمے میں ٹیلیفون کیا۔ انسپکٹر وقاص فوراً تفتیش کے لیے پہنچا۔
مرشد نے شروع سے آخر تک پورا واقعہ اسے سُنایا۔ انسپکٹر وقاص بولا، "اس میں دیر کیسی؟ میں ابھی جا کر اس مردود، بدبخت، حرام خور دوا فروش کو گرفتار کر لیتا ہوں؟" مرشد بولا، "یہی تو سب سے بڑی خرابی ہے کہ ہم اصل مجرموں کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے کارندوں اور نوکروں کو پکڑ لیتے ہیں۔ اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو اصل مجرم کا پیچھا کرتا۔"
انسپکٹر وقاص غصے سے بولا، "جی ، تو پھر آپ ہی مجرم کا پیچھا کیجیے۔ آپ نے بےکار مجھے تکلیف دی۔"
یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ فریدوں بولا، "اب آپ ہی کچھ کیجیے۔ محکمہ پولیس ہم سے تعاون نہیں کرے گا؟"
ایک ہفتہ یونہی گزر گیا۔ فریدوں شومیر اور اس کے آدمیوں نے بندرگاہ اور ہوائی اڈے کی نگرانی کی۔ آخر بہت کوشش اور تحقیقات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہیروین کسی باہر کے ملک سے نہیں آرہی ہے۔
ایک دن مرشد اور میں کار میں سڑک پر گھوم رہے تھے۔ مرشد نے کار مارکیٹ سے موڑ کر اچانک ہی روک دی اور آگے کھڑی ہوئی ایک کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ کار مجھے مشکوک لگ رہی ہے۔ میں بڑی دیر سے خاموشی سے اس کا پیچھا کررہا ہوں۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اس کار کا ہیروئن کی سپلائی سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔"
مرشد اور میں رولز رائس کار کی تلاش میں لگے رہے۔ یہ کار ایک بہت معزز شخص نواب حسن کی تھی۔ یہ لوگ جس جس جگہ ہیروئن فروخت کرتے تھے ہم نے ان کی تفصیل اکھٹی کرلی۔ کار کا مالک نواب حسن ہفتے اتوار کا دن اپنے فارم (کھیت) پر گزارتا تھا۔ یہ فارم شہر سے بہت دور واقع تھا۔ مرشد نے کہا، "نواب حسن پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس کے فارم کو دیکھنا چاہیے۔ جب تک کوئی کھلا ثبوت نہ مل جائے اس شخص پر ہاتھ ڈالنا اپنے آپ کو مصیبت میں پھنسنانے کے برابر ہے۔" فریدوں شومیر بولا، "آج جمعہ کا دن ہے۔ نواب حسن کل اپنے فارم پر روانہ ہو گا۔ بس یہی وقت کام کرنے کا ہے؟" اگلے دن یعنی ہفتے کی شام کو ہم نواب کے فارم پر پہنچے۔ کھیت کے چاروں طرف دس بارہ فیٹ اونچی باڑ لگی ہوئی تھی۔ کھیت میں باجرہ یا اسی قسم کی کوئی فصل اُگائی ہوئی تھی جس کے پودے اونچے اونچے تھے۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، دُور دُور تک یہی پودے دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے کھیت کا چکر لگایا۔ یہ کوئی بیس ایکٹر رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ کھیت کے ایک طرف جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔ ایک سیاہ فام (کالا) بوڑھا آدمی حقہ پی رہا تھا۔ جھونپڑی سے ذرا دور ایک چار دیواری تھی جس پر چھت پڑی ہوئی تھی۔ شاید یہ جانوروں کا باڑا تھا۔ مرشد بوڑھے کے پاس پہنچا۔ اس نے کہا "بڑے میاں، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟" سیاہ فام بوڑھا بولا، "بھائی اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو، تم باہر ہی سے پوچھ لو۔"
مرشد نے کہا، "دراصل ہم ڈونگ پور جارہے تھے۔ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔" سیاہ فام بولا، "جی میں بھی یہاں نیا نیا آیا ہوں۔ آپ کسی اور سے راستہ معلوم کرلیجیے۔" مرشد ویہاں سے لوٹا۔ اس کا موڈ بےحد خراب تھا۔ وہ بولا، "مجھے یقین ہے کہ یہاں پر ہیروئن کا اڈہ ہے۔ نواب حسن سے دو دو ہاتھ کرنے سے پہلے اس کا کھیت ضرور دیکھنا چاہیے۔" دو گھنٹے بعد ہمارا جہاز نواب حسن کے کھیت کی طرف پرواز کر رہا تھا۔ باہر سے کھیت کا اندرونی حصہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اب اوپر سے صاف دکھائی دے رہا تھا اور کھیت کا ایک ایک گوشہ ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ مرشد اچانک زور سے بولا، "ارے، ارے۔ یہ کیا ہے؟"
میں نے جلدی سے پوچھا، "کیا ہوا؟"
مرشد بولا، "باجرے کی فصل کے درمیان سرخ رنگ کے پھولوں کی کیاریاں نظر آرہی ہیں۔ کچھ کالے لوگ کھیت میں کام کر رہے ہیں "
میں نے پوچھا، "یہ پھول کیسے ہو سکتے ہیں؟"
مرشد بولا، "وہ کون سے پھول ہو سکتے ہیں جو چوری چھپے اُگائے جاتے ہیں؟" میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ میں نے گھبرا کر کہا، "کہیں تمہارا اشارہ افیون کے پھولوں کی طرف تو نہیں؟" مرشد آہستہ سے بولا، "تم ٹھیک سمجھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ افیون کے پھول ہی ہیں۔ کچھ ملکوں میں کسان حکومت کے آدمیوں کو دھوکا دینے کے لیے یہی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔"
"ہمارا اگلا قدم کیا ہو گا؟" میں نے پوچھا۔
مرشد نے کہا، "ہم رات کے وقت نواب حسن کے کھیت میں جائیں گے۔ اگر ہم نے خار دار تار کو کاٹ کر راستہ بنایا تو انہیں ضرور اس بات کی خبر ہوجائے گی اور چڑیا اُڑ جائے گی۔" میں نے پوچھا، "پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟" مرشد بولا، "ان تاروں پر کمبل کے ٹکڑے ڈال دیے جائیں تو ہم کانٹوں والی تار پر آسانی سے چڑھ کر دوسری طرف اُتر سکتے ہیں اور کسی کو شبہ بھی نہیں ہوگا۔ ہم دو تین پودے کاٹ کرے آئیں گے۔" دوپہر تک ہم نے سیر و تفریح میں وقت گزارا۔ شام کے وقت پھر ہم نواب حسن کے کھیت کی طرف چلے۔ ایک جگہ پہنچ کر مرشد نے درختوں کے جھنڈ کے پاس کار روک دی اور بولا، "آپ لوگ ہمارا انتظار کیجیے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔" آزونا نے اپنے سر پر کمبل کے ٹکڑوں کی گٹھری اُٹھائی ہوئی تھی۔ کانٹے دار تار کے پاس
پہنچ کر مرشد نے کمبل کے ٹکڑے لیے اور انہیں تہہ کرکے تاروں کے اوپر ڈال دیا۔ ہم تینوں باری باری کانٹے دار تاروں کے اوپر چڑھ کر دوسری طرف اُتر گئے۔ مزدوروں کے آنے جانے کے لیے ایک پگڈنڈی بنی ہوئی تھی۔ ہم اس پر چلنے لگے۔ ابھی ہم تھوڑی دور گئے تھے کہ آزونا کا پاؤں کسی چیز میں اُلجھا اور وہ لڑکھڑا کر گر گیا۔ میں نے جھک کر دیکھا۔ یہ ایک تار تھا۔ میں بےساختہ
بولا، "میرا خیال ہے یہ تار کسی خفیہ الارم سے منسلک (ملا ہوا) ہے؟" مرشد پریشان ہو کہ بولا، "اوہو، ہمیں جلدی کرنی چاہیے۔ ورنہ سب کیسے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔" ہم تیزی سے دوڑتے ہوئے کیاریوں تک پہنچے۔ ہمیں بہت دُور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں۔ مرشد نے جلدی جلدی دو تین پودے چاقو سے کاٹ کر جیب میں رکھے، پھر ہم اسی راستے پر دوڑنے لگے۔ جب ہم باڑ کے نزدیک پہنچے تو اس وقت کتے ہمارے قریب پہنچ چکے تھے۔ سب سے پہلے مرشد پھر میں تار پر چڑھ کر دوسری طرف اُتر گئے۔ آزونا جب تار پر چڑھا تو کتے اس کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ اس نے اوپر سے ہی چھلانگ لگادی اور لڑھکتا ہوا دور چلا گیا۔
مرشد نے جلدی جلدی تاروں پر سے کمبل اُتارے۔ ہم تیز رفتاری سے دوڑے۔ کتوں کے جوش اور غصے کا یہ حال تھا کہ وہ اُچھل اُچھل کہ حملے کرتے اور تاروں سے ٹکرا کر پیچھے ہٹتے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ باڑ کو توڑ ڈالیں گے یا اس کوشش میں جان دے دیں گے۔ عین اسی وقت فریدوں شومیر اپنی کا لے کر آپہنچا۔ ہم جلدی سے اس میں سوار ہو گئے۔ مرشد بولا، "فوراً چل دو۔ ممکن ہے کہ نواب حسن کے آدمی ہمارا پیچھا کریں۔"
فریدوں شومیر پوری تیز رفتاری سے کار دوڑانے لگا۔ راستے میں مرشد نے کہا، "اس منحوس جگہ کی زبردست حفاظت کی جاتی ہے ۔ جگہ جگہ خفیہ تاروں کا جال ہے۔ جن پر قدم رکھتے ہی الارم بجنے لگتے ہیں۔ زبردست کتے ہیں جو آدمی کے چیتھڑے کر ڈالیں اور نہ جانے کیا کیا ہے۔" فریدوں شومیر مسکرا کر بولا، "کچھ کامیابی بھی ہوئی یا یوں ہی واپس لوٹ آئے؟" مرشد جیب سے پودے نکال کر بولا، "یہ دیکھیے حضرت بندہ جب کسی کام میں ہاتھ ڈالتا ہے تو خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔" فریدوں شومیر نے کہا، "تم کس سوچ میں گم ہو؟" میں نے کہا، "میں سوچتا ہوں کہ نواب حسن اور اس کے آدمیوں نے خفیہ الارم بجنے کے بعد کیا کیا ہوگا۔" فریدوں شومیر بولا، "تم فکر نہ کرو۔ یہاں کے لوگ رات کے وقت کھیتوں میں گھس کر سبزیاں چراتے ہیں۔ یہ مرض یہاں عام ہے۔" ان ہی باتوں میں راستہ کٹ گیا۔ ہم فریدوں شومیر کی کوٹھی میں داخل ہوئے تو رات کے دو بج رہے تھے۔ علامہ ابھی تک ہمارے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مرشد نے پودے دکھائے۔ علامہ دانش بے اختیار بول اُٹھے، "وہی، بالکل وہی۔ یہ افیون کے پودے ہیں۔ یہ دیکھو۔ پھولوں کے ڈوڈوں میں چیرا لگا ہوا ہے۔ اس سے سفید رنگ کا رس ابھی تک رس رس کر باہر نکل رہا ہے۔ یہ رس جم کر افیون بن جائے گا۔" فریدوں شومیر کا غصے سے برا حال تھا۔ وہ بولا، "یہ لوگ قاتل ہیں بلکہ قاتلوں سے کہیں زیادہ سفاک (ظالم) اور سنگ دل۔ قاتل ایک ہی وار میں جان لے لیتا ہے لیکن ان کا شکار مدت تک ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے اور سسک سسک کر جان دیتا ہے۔"
میں بولا، "اب آپ انسپکٹر وقاص کو بلا لیجیے۔"
فریدوں شومیر نے انسپکڑ وقاص کو ٹیلیفون کرکے بلوالیا۔ اس نے ہمارا کارنامہ تفصیل سے بیان کیا۔ انسپکٹر وقاص بھی ہماری کوشش سے بہت متاثر ہوا۔ مرشد بولا، "آپ ایسا جال بچھائیے کہ سب مجرم ایک ہی وقت میں گرفتار ہو جائیں۔" انسپکٹر وقاص اور سادہ کپڑے پہنے ہوئے سپاہیوں نے نواب صاحب کا مکان چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ اگلی شام جب نواب حسن رولز رائس کار میں سوار، اپنے بنگلے پر پہنچا تو اس کے سیاہ فام (کالے) ڈرائیور نے دروازہ کھولا۔ نواب حسن بہت شان سے گاڑی سے برآمد ہوا۔
سیاہ فام ڈرائیور نے پچھلی سیٹ پر رکھے ہوئے دو سوٹ کیس اٹھائے اور نواب حسن کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ بنگلے کے دروازے پر پہنچ کر نواب حسن نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور دروازہ کھولنا چاہا۔ اتنے میں انسپکٹر وقاص نے آگے بڑھ کر کہا، "ذرا ایک منٹ ٹھہریے۔" نواب حسن نے حیرانی سے انسپکٹر کو گھور کر دیکھا اور کہا، "کون ہو تم؟ اور کیا چاہتے ہو؟" انسپکڑنے اپنا کارڈ نکال کر نواب کے سامنے کر دیا اور کہا، "ہم پولیس والے ہیں اور آپ کے سوٹ کیس کی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔" نواب حسن کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ اس کی ساتھی عورت تو چیخیں مارنے لگی۔ نواب بولا، "بھئی گلی میں یہ ڈرامہ رچانے سے بہتر ہے کہ ہم گھر کے اندر چلیں اور معاملہ طے کرلیں۔" نواب حسن رشوت کا لالچ دے رہا تھا، لیکن انسپکٹر وقاص چیخ کر بولا، "جو کچھ ہو گا یہیں ہوگا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ سوٹ کیس کھو لو۔"
نواب حسن بولا، "دراصل یہ سوٹ کیس میرے نہیں ہیں۔" انسپکٹر بولا، "اگر آپ کے نہیں ہیں تو پھر کس کے ہیں؟"
نواب بولا، "میرے ایک دوست کے ہیں۔" انسپکٹر نے مسکرا کر کہا، "خوب، بہت خوب۔ اچھا تو اس دوست کا نام اور پتا کیا ہے؟" جواب میں نواب حسن خاموش رہا۔ تب انسپکٹر بولا، "اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ پکڑے گئے نا آخر؟" وہ خاتون نڈھال سی ہو کر گرنے لگی تو انسپکٹر گرج کر بولا، "خبردار خاتون بے ہوش ہونے کی کوشش نہ کرنا۔" اور وہ خاتون واقعی بےہوش ہو کر گر پڑی۔ ایک سپاہی نے اسے سنبھالا۔ ایک دوسرے نے سوٹ کیس کو کھولا۔ وہ بھورے رنگ کے پیکٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان پیکٹوں پر لوگوں کے نام اور پتے درج تھے۔ کچھ پیکٹ سادہ تھے۔ ان پر کسی کا نام درج نہیں تھا۔ انسپکڑ نے سیاہ فام سے کیا دیکھو میاں، اگر تم خود ہی اُگل دو گے تو تمہاری سزا میں کمی ہو سکتی ہے۔"
وہ کالا آدمی بولا، "حضور، میں تو ملازم ہوں۔ جو کچھ کرنا ہوتا ہے میرا مالک خود ہی کرتا ہے۔ آپ جو پوچھیں گے میں اس کا جواب دوں گا۔" انسپکٹر بولا، "اچھا یہ بتاؤ کہ ان پیکٹوں میں کیا ہے؟"
کالا آدمی تھوک نگل کر بولا، "آپ بہتر جانتے ہیں۔ ان میں ہیروئن ہے۔" انسپکٹر نے پوچھا، "یہ سادہ پیکٹ کیسے ہیں۔" کالا بولا، "یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو مال خود وصول کرنے آتے ہیں۔ مثلاً ٹورا پنواڑی، دوا فروش۔ یہ سب لوگ تھوڑی دیر میں آنے ہی والے ہیں۔"
انسپکٹر وقاص مونچھیں مروڑ کر بولا، "آتے جاؤ پھنستے جاؤ۔" کچھ ہی دیر میں لوگ آنے شروع ہو گئے۔ ٹورا پنواڑی، دوا فروش اور دوسرے لوگ آتے رہے اور سادہ کپڑوں والے سپاہی انہیں پکڑ پکڑ کر تھانے پہنچاتے رہے۔ آخر انسپکڑ خود ہی بولا، "میرا خیال ہے کہ سب مُرغے پھنس چکے ہیں۔ اب ان بٹیروں کی باری ہے جو مال کے انتظار میں بیٹھے ہوں گے۔" سپاہیوں کا ایک دستہ ان لوگوں کی گرفتاری کے لیے روانہ کر دیا گیا جن کے نام پیکٹوں پر درج تھے۔
پولیس کی پارٹیاں رات بھر چھاپے مار کر مجرموں کو گرفتار کرتی رہیں۔
اگلے دن انسپکٹر وقاص ہم سے ملنے کے لیے آیا۔ اس نے بتایا کہ کھیت کے اندر جو بڑے بڑے کمرے بنے ہوئے ہیں وہاں پر ہیروئن تیار کرنے کا کارخانہ لگا ہوا ہے۔ ہمارے اس کارنامے کا بڑا چرچا ہوا۔ حکومت نے ہمیں کئی لاکھ روپے انعام کے علاوہ تمغے بھی دیے۔​
 
سفید شیر کا بُھوت
علامہ دانش بہت دیر سے اخبار کے مطالعے میں مصروف تھے۔ مرشد نے کہا، "کوئی خاص خبر؟"
علامہ بڑیڑائے، "سفید شیر کا بھوت۔"
میں نے حیرانی سے کہا، "سفید شیر کا بھوت؟ یہ کوئی ناول ہے یا فلم ہے۔"
علامہ نے کہا، "ارے بھئی، یہ سچ سچ کا بھوت ہے۔ چیختا چنگھاڑتا ہوا بھوت۔ اس کے جسم سے شرارے نکل رہے تھے۔"
مرشد بےیقینی سے بولا، "مجھے تو یہ گپ معلوم دیتی ہے؟"
علامہ نے اخبار کا تراشہ اُٹھایا اور اونچی آواز میں پڑھنے لگے، "نائیجیریا کے گاؤں گالا ڈومبا میں ایک سفید رنگ کا شیر دیکھا گیا ہے۔ رات کے اندھیرے میں شیر چمک رہا تھا اور اس کے جسم سے شرارے نکل رہے تھے۔ اطلاع کے مطابق، گالا ڈومبا میں مویشیوں کے فارم کی افتتاحی تقریب ہو رہی تھی۔ اچانک ایک شخص چیختا چلاتا ہوا وہاں سے گزرا۔ ایک شیر اس کا پیچھا کررہا تھا۔ رات کی تاریکی میں شیر چمک رہا تھا۔ اس واقعے کو کمشنر صاحب کے علاوہ بہت سے مقامی باشندوں نے خود دیکھا ہے۔" میں نے سوال کیا، "کیا شیر سفید رنگ کا بھی ہو سکتا ہے؟"
علامہ بولے، "کیوں نہیں؟ دنیا میں ہزاروں قسم کے سفید حیوان ملتے ہیں۔ مثلاً قطب شمالی میں سفید کتے ملتے ہیں۔ برفانی ریچھ کا رنگ سفید ہوتا ہے، لیکن ان کا رنگ رات کے وقت چمکتا نہیں ہے۔" مرشد بولا، "اس شیر سے کیا تکلیف پہنچ رہی ہے؟ کیا یہ آدم خور ہے؟" علامہ بولے، "ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔" مرشد بولا، "تو پھر اس شیر نے کیا ہگڑ بگڑ مچائی ہے؟"
علامہ آزونا کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے، "یہ افریقی لوگ بھی بےحد وہمی اور ڈرپوک ہوتے ہیں۔" آزونا نے بالکل برا نہیں مانا بلکہ مسکرا کر سر جھکا دیا۔ اگر یہی بات میں یا مرشد کہتے تو وہ غصے سے چلانے لگتا۔ علامہ نے پھر کہا، "یہ افریقی لوگ شیر اور چیتوں سے بالکل نہیں ڈرتے لیکن جن بھوت اور جوجو (جادو) سے ان کی جان نکلتی ہے۔ مقامی لوگ سفید شیر سے بہت دہشت زدہ ہوئے اور علاقہ خالی کرکے بھاگ گئے۔" مرشد بولا، "کاش یہ سفید شیر ہمارے ہاتھ آجائے اور ہم اسے کسی چڑیا گھر کے ہاتھ منہ مانگے داموں پر فروخت کردیں۔" علامہ دانش نے مسکرا کر کہا، "خوش ہو جاؤ۔ قدرت نے تمہیں یہ موقع دے دیا ہے۔" اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے ایک خط نکالا اور بولے یہ حکومت نائیجیریا کا دعوت نامہ ہے۔ ہمیں جلد از جلد وہاں پہنچتا ہے۔" آزونا بہت خوش ہوا۔ وہ بہت مدت بعد اپنے وطن جارہا تھا۔ اگلے دن ہم نائیجیریا کی طرف پرواز کر رہے تھے۔
راستے میں مرشد بولا، "علامہ صاحب! وہ آپ کیا فرما رہے تھے کہ سب افریقی بےحد بزدل اور وہمی ہوتے ہیں۔" مرشد آزونا کو چھیڑ رہا تھا۔ علامہ ہنس کر بولے، "وہ تو میں اب بھی کہتا ہوں کہ سب افریقی۔۔۔ آزونا کے علاوہ سب افریقی بزدل اور وہمی ہوتے ہیں۔ جب میں آزونا کے ساتھ ہوتا ہوں تو یہ موت کے منہ میں جانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔" آزونا کا سینہ فخر سے تن گیا۔ یہ اس کی سچی تعریف بھی تھی۔ مصیبت کے وقت وہ ہمیشہ علامہ دانش کی ڈھال بنا رہا۔ ویسے افریقیوں کی طرح وہ بھی جنوں اور بھوتوں سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ ہوائی اڈے پر ہمارے استقبال کے لیے کمشنر صاحب خود موجود تھے۔ وہ ہمیں اپنے بنگلے پر لے گئے۔ وہاں کچھ اور ملاقاتی بھی موجود تھے۔ علامہ نے کہا، "آپ لوگوں نے ہمیں کس لیے بلوایا ہے؟" کمشنر نے کہا، "میں تفصیل سے آپ کو پوری بات سناتا ہوں۔ ہمارے ہاں جانور کم ہیں۔ یہاں پر گوشت کی جتنی پیداوار ہے، لوگ اس سے کہیں زیادہ گوشت کھا جاتے ہیں۔ چناں چہ ہر ماہ ہزاروں ڈالر کا گوشت در آمد کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں جنوبی امریکا نے گوشت کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ مجبور ہو کر حکومت نائیجریا نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا فارم قائم کرے۔ بد قسمتی سے افریقہ کی ہوا خراب ہے، جس کی وجہ سے جانور زیادہ عرصے زندہ نہیں رہتے۔ ہم نے بہت تحقیق کے بعد ایک جگہ تلاش کی جہاں آب و ہوا اچھی ہے۔ یہ گاؤں گالا ڈومبا ہے۔ ہم نے وہاں چرا گاہ بنائی۔ آسٹریلیا اور جنوبی امریکا سے بہترین جانور منگوائے، انہیں بیماری سے بچاؤ کے ٹیکے لگوائے ابھی تک سب ٹھیک ٹھاک تھا کہ۔۔۔"
علامہ جھٹ سے بولے، "کہ شیر آگیا۔" کمشنر بولا، "بالکل یہی ہوا۔ اس شیر نے سارا پروگرام چوپٹ کر کے رکھ دیا۔ افریقہ کے لوگ شیروں سے نہیں ڈرتے لیکن اس شیر سے لوگ اتنے زیادہ دہشت زدہ ہوئے کہ علاقہ خالی ہونے لگا۔ لوگ کام چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ہم نے انہیں ہر قسم کا لالچ دیا لیکن وہ کام پر واپس آنے پر رضا مند نہ ہوئے۔ ہمارا سب منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔"
میں نے پوچھا، "ان جانوروں کا کیا ہوا؟" کمشنر نے کہا، "سب جانور ادھر اُدھر بھاگ نکلے۔"
مرشد نے کہا، "سنا ہے کہ آپ نے بھی سفید شیر کو دیکھا ہے۔"
کمشنر سر ہلا کر بولا، "یہ بالکل ٹھیک ہے۔ عین اس روز جب فارم کا افتتاح ہوا سب لوگ فارم کے اندر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چیخنے چلانے کی آواز سنائی دی۔ ذرا دیر بعد فارم کا مینجر مسٹر کربی دوڑتا ہوا ہمارے پاس سے گزارا۔ اس کے پیچھے پیچھے وہ سفید رنگ کا شیر تھا۔ اس کے جسم سے روشنی خارج ہو رہی تھی۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی بھوت ہے۔"
آزونا میرے کان میں آہستہ سے بولا، "سرکار، میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ ضرور کوئی پلید روح یا چھلاوا ہے۔ میرے دادا بتاتے تھے کہ۔۔۔"
میں نے دبی دبی آواز میں ڈانٹا، "چُپ۔ خاموش!" حاضرین میں سے ایک صاحب بولے، "میرا ہی نام کربی ہے۔ میں فارم کا مینجر ہوں۔ اس رات وہ شیر کا بھوت میرا پیچھا کر رہا تھا۔ کچھ دور چل کر میں نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بھوت۔۔۔ یعنی میرا مطلب ہے کہ شیر اچانک ہی غائب ہو گیا؟" میں نے آزونا کی طرف مڑ کر دیکھا۔ وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی کسی طرف سے شیر نمودار ہوگا اور آزونا کو اپنے جبڑوں میں دبا کر غائب ہو جائے گا۔
مرشد نے پوچھا، "کیا کسی اور نے اس بھوت کو قریب سے دیکھا؟"
ایک شخص جو شکل و صورت سے امریکی معلوم ہو رہا تھا بولا، "میں پریرا ہوں۔ میں جنگلی جڑی بوٹیاں اور چھوٹے موٹے جانور پکڑ کر بازار میں فروخت کرتا ہوں۔ اس شیر سے میری بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ ہوا یوں کہ میں جانوروں کی تلاش میں پھر رہا تھا کہ اچانک میرا سامنا اس شیر سے ہوگیا۔ اتفاق سے میرے پاس پستول تھا۔ میں نے نشانہ باندھ کر ایک دو نہیں بلکہ پوری چھے گولیاں داغ دیں۔ میں نے بہت قریب سے گولی چلائی تھی اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ گولیاں اس کے سر میں لگیں لیکن اس کا بال بیکا نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر میں بدحواس ہو کر بھاگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ شیر نے میرا پیچھا نہیں کیا۔ وہ غراتا ہوا واپس لوٹ گیا۔ اس بات سے میرے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ مقامی لوگ شیر کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ صحیح ہے؟"
آزونا بولا، "سرکار میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ کوئی بدروح یا جن بھوت ہے۔ میرے دادا ابا کہتے تھے کہ گولیاں بھوتوں پر کوئی اثر نہیں کرتیں۔"
علامہ صاحب بولے، "کیا کسی نے اس بھوت کو پکڑنے کی کوشش کی؟ کمشنر نے کہا ہم نے شیر کا شکار کرنے کے لیے شکاری پارٹیاں بلوائیں۔ یہ شکاری دن رات جنگل میں گھومتے رہتے لیکن شیر تو ایسا غائب ہوا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ جب انہوں نے جستجو چھوڑ دی تو شیر پھر نمودار ہو گیا۔ شکاریوں نے پھر تلاش شروع کر دی۔ زہریلا گوشت پھینکا، پھندے لگائے ، گھات لگا لگا کر بیٹھے رہے لیکن شیر پھر غائب ہو گیا۔ جونہی تلاش ختم ہوئی، شیر پھر نمودار ہو گیا۔ اس بات سے مقامی لوگوں میں یہ یقین پکا ہو گیا کہ یہ شیر کوئی بھوت ہے۔ جب تک یہ شیر موجود ہے ہمارا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔"
آزونا بولا، "سرکار، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ کوئی بد روح ہے۔ اسے پکڑنے کے لیے جوجو بابا (جادوگر) کی ضرورت ہے۔ آپ کسی عامل کو طلب کرتے۔"
علامہ نے اسے آہستہ سے ڈانٹا، "ہشت۔ بےوقوف، چُپ رہ۔" مرشد نے کہا، "جب اس شیر کو پکڑنے میں شکاری ناکام رہے تو آپ نے ہمیں کیوں زحمت دی؟"
کمشنر بولا، "میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی کہ آپ کو جن بھوتوں سے دلچسپی ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ کے پاس ہوائی جہاز ہے۔ آپ پورے علاقے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ جیسے ہی شیر کو دیکھیں اُسے گولی مار دیں تاکہ میں عوام کو دکھا سکوں کہ اب شیر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
ہم کافی دیر تک کمشنر کے بنگلے میں رہے۔ شام کے وقت ہم فارم کی طرف چلے۔ دور دُور تک خشک گھاس پھیلی ہوئی تھی۔ کہیں کہیں درخت تھے۔ گڑھوں میں پانی جمع تھا۔ ان کے ارد گرد سرکنڈے اُگ آئے تھے۔ ان کے نزدیک ہی کچھ مویشی گھاس چرتے پھررہے تھے۔ شاید یہ فارم کے مویشی تھے۔"
علامہ نے کہا، "نائیجیریا میں دو موسم ہوتے ہیں۔ ایک خشک جو نومبر سے مارچ تک رہتا ہے۔ دوسرا موسم برسات کا ہے جو اپریل سے اکتوبر تک رہتا ہے۔ آج کل خشک موسم ہے۔ جب برسات ہوگی تو دھواں دھار بارش ہوگی اور ہر طرف جل تھل ہو جائے گا۔"
جس بنگلے میں ہمیں ٹھہرایا گیا وہ لکڑی کا جھونپڑا سا تھا۔ جس میں صرف دو کمرے تھے۔ بنگلے سے کچھ فاصلے پر آبادی تھی۔سرکنڈے سے بنائے ہوئے جھونپڑے، ان پر گارے کا پلستر کیا ہوا تھا۔ یہ مکان قیف کی شکل کے تھے اور ایک دائرے کی شکل میں بنے ہوئے تھے۔ یہ جھونپڑیاں بھی ویران تھیں۔ کھانا کھا کر ہم بستروں پر لیٹ گئے۔ علامہ بولے، "سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیر نے کسی کو اپنا لقمہ نہیں بنایا۔" مرشد ہنس کر بولا، "کیوں بھئی آزونا، یہ بھوت آدم خور بھی ہوتے ہیں؟ میرا مطلب ہے کہ آدمیوں کو سالم سموچا نگل جاتے ہیں یا یوں ہی ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیتے ہیں۔" آزونا بولا، "دادا ابا بتاتے تھے کہ بھوت انسانوں کو نہیں کھاتے، بس انہیں دہشت زدہ کر کے مار ڈالتے ہیں۔"
مرشد ہنس کر بولا، "میں ایسے بھوت سے ضرور ملوں گا جو لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا ہو۔ اگر میرے سامنے آگیا تو اسے مزہ چکھا دوں گا۔ میں دیکھوں گا کہ ۳۰۳ بور کی گولی کا اس پر اثر ہوتا ہے یا نہیں؟" آزونا بہت اعتماد سے بولا، "بھوت کے اوپر گولیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ دادا! بتاتے تھے کہ۔۔۔" آزونا نے کوئی لمبی کہانی چھیڑ دی۔
اچانک جانوروں کا ایک ریوڑ دوڑتا ہوا ہمارے پاس سے گزرا۔
مرشد بولا، "یہ جانور خوب پہچانتے ہیں کہ اب خطرے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب اس وقت وہی سفید شیر یا کوئی اور شیر شکار کو نکلا ہے۔" عین اسی وقت دُور کہیں سے شیر کے غرانے کی آواز سُنائی دی۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ ہر کوئی اُدھر دیکھ رہا تھا جدھر سے آواز آئی تھی۔
علامہ نقشہ دیکھ کر بولے، "اوہو، ادھر تو پریرا رہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شیر اس کے مکان کے آس پاس ہی کہیں گھوم پھر رہا ہے۔"
میں نے کہا، "کیوں نہ ہم اس کے گھر چلیں اور اس کی خیریت دریافت کریں۔" مرشد بستر پر لیٹتے ہوئے بولا، "رات کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے پھرنا شریفوں کا شیوہ نہیں ہے۔ آزونا ، تم دو بندوقیں میز پر رکھ دینا۔ اچھا دوستوں اللہ حافظ۔" اس کے ساتھ ہی وہ بستر پر دراز ہو گیا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ رات کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے مجھے بھی نیند آنے لگی اور نہ جانے کس وقت میں سو گیا۔ رات کے پچھلے پہر اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی ۔ شاید مجھے کوئی آواز سنائی دی تھی یا پھر کوئی آس پاس چل پھر رہا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے خراٹے لے رہے تھے۔ میں دبے پاؤں چلتا ہوا کھڑکی تک پہنچا اور میں نے باہر جھانک کر دیکھا۔ میری نظروں کے سامنے چند فیٹ کے فاصلے پر سفید رنگ کا شیر کھڑا تھا۔ اس کے جسم سے روشنی نکل رہی تھی۔ شیر کو دیکھ کر میرے اعصاب جواب دے گئے۔ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ جھنجھنا رہا تھا۔میں نے چیخنا چاہا، مگر میرے منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔ بس میں صرف دیکھ سکتا تھا۔ میری نظر شیر پر جمی ہوئی تھی۔
شیر نے منہ کھولا اور غرایا اور واپس جانے کے لیے مڑا۔ اچانک مجھے ہوش آگیا۔ میں نے ایک زور دار چیخ ماری، "شیر شیر۔" سب لوگ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے۔ "کہاں ہے؟ کہاں ہے؟" سب ایک آواز ہو کر بولے۔
میں نے کہا، "وہاں، اُدھر، ابھی ابھی باہر تھا۔"
سب نے باہر جھانک کہ دیکھا۔ آزونا نے ٹارچ کی روشنی باہر ڈالی۔ لیکن شیر کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا۔ دور سے ایک غراہٹ کی آواز سنائی دی اور بس۔ مرشد نے کہا، "تم نے کو ئی خواب تو نہیں دیکھا ؟" میں نے سخت غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "میں قسم کھا کر یقین دلاتا ہوں کہ وہ شیر ہی تھا۔ وہ وہاں کھڑا ہوا تھا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔"
آزونا نے لیمپ کی بتی اونچی کی۔ میں نے کہا، "مجھے ایک بات اور بھی یاد آئی۔ میں نے ایک سیٹی کی آواز بھی سنی ہے۔"
علامہ بولے، "زیبرا بھی سیٹی کی آواز نکال سکتا ہے۔ بعض قسم کے الو ، پہاڑی کوے اور طوطے بھی سیٹی بجا سکتے ہیں۔" مرشد بولا، "خیر یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ یہاں شیر آیا تھا اور تم نے اس کے درشن بھی کرلیے۔ اب تم سو جاؤ۔ صبح ملاقات ہو گی۔"
اچانک جانوروں کا ایک ریوڑ وہاں سے دوڑتا ہوا گزرا۔ مرشد بولا، "یہ ایک اور ثبوت ہے کہ شیر آس پاس گھوم رہا ہے۔"
میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ اب شیر دوبارہ ادھر نہیں آئے گا۔ مرشد بولا، "اور میرا خیال ہے کہ آپ لوگ اپنے اپنے بستروں پر لیٹ کر بے فکری سے سو جائیے۔"
اگلے دن ہم نے بنگلے کے آس پاس کی جگہ کا معائنہ کیا۔ روندی ہوئی گھاس سے یہ بات صاف ظاہر تھی کہ شیر یہاں آیا تھا۔ ہم شیر کی تلاش میں دن بھر جگہ جگہ پھرتے رہے۔ ہم نے جنگل کا چپا چپا چھان مارا لیکن شیر کا کوئی سراغ ملنا تھا نہ ملا۔ رات کے وقت پھر شیر کی غراہٹ سنائی دی۔ علامہ فکر مند لہجے میں بولے، "یہ آواز پریرا کے گھر کی طرف سے آر ہی ہے۔" میں اور مرشد بندوقیں ہاتھ میں لیے ہوئے پریرا کے گھر کی طرف چلے۔ ہمیں دور میدان میں ایک شعلہ سا نظر آیا۔ میں نے آہستہ سے کہا، "مرشد، یہ تو مجھے پریرا دکھائی دیتا ہے لیکن وہ رات کے وقت یہاں کیا کرتا پھر رہا ہے؟"
مرشد بولا، "آؤ واپس چلیں، صبح اس سے دریافت کرلیں گے۔"
ہم شیر کے انتظار میں دیر تک جاگتے رہے۔ رات کے کوئی چار بجے کا وقت تھا جب شیر کی غراہٹ سنائی دی۔ ہم سب دبے پاؤں چلتے ہوئے کھڑکی تک پہنچے۔ سفید شیر کھڑکی سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس کے جسم سے دودھیا سفید رنگ کی روشنی خارج ہو رہی تھی۔ علامہ دانش اور مرشد حیرانی سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس عجیب مخلوق کو دیکھ رہے تھے۔ آزونا شاید بے ہوش ہونے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے اس کا بازو پکڑ کر اسے جھنجھوڑا اور کہا، "اللہ کے بندے، ذرا ہوش میں رہو۔"
مرشد کو جیسے اچانک ہی ہوش آگیا۔ وہ جلدی سے پیچھے مڑا۔ اس نے بندوق اٹھائی اور کھڑکی کی طرف لپکا۔ اس کی نظر آزونا کی تسبیح پر پڑی۔ وہ چونک کر بولا، "یہ۔۔۔ یہ کیا ہے؟ علامہ ذرا ادھر دیکھیے۔" علامہ دانش نے مڑ کر دیکھا۔ آزونا کی تسبیح اندھیرے میں چمک رہی تھی۔ وہ بڑبڑائے، "اوہو۔ ضرور یہی بات ہو گی۔ بے شک یہی بات ہے۔" باہر شیر نے منہ کھول کر غراہٹ کی آواز نکالی اور بہت آہستہ آہستہ چلتا ہوا باہر چلا گیا۔
میں نے جھنجھلا کر پوچھا، "آخر آپ نے اسے گولی کیوں نہیں مار دی؟ مرشد بولا، "شیر بالکل بےضرر اور معصوم ہے۔ اسے مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔" علامہ بولے، "کوئی شخص اس شیر کو دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے یہ شیر کسی کا پالتو ہے اور فاسفورس کا مرکب روغن میں ملاکر اس کے اوپر لگا دیا گیا ہے۔ فاسفورس رات کے اندھیرے میں چمکتا ہے، اسی لیے یہ شیر رات کے وقت چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہمی لوگ اسے بھوت سمجھنے لگے۔"
میں نے پوچھا، "اس شیر کی کہانی پھیلانے سے کسی کو کیا ملے گا؟"
مرشد بولا، "حکومت نائیجریا اس جگہ گائیوں اور بھینسوں کا فارم قائم کرنا چاہتی ہے۔ جو کمپنی نائیجریا کو گوشت فراہم کرتی تھی، اسے بےحد نقصان پہنچا۔ اس کمپنی نے حکومت نائیجیریا کی اسکیم کو ناکام بنانے کے لیے یہ چال چلی۔ اس کمپنی نے ایک شخص کی خدمات حاصل کیں ۔"
میں نے کہا، "تمہیں کسی پر شبہ ہے مسڑ کربی پر جو فارم کا مینیجر ہے یا پریرا پر؟" مرشد بولا، "ابھی میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔" اگلی صبح ہم شیر کی تلاش میں نکلے۔ مرشد بولا، "ہمیں سب سے پہلے پریرا کے پاس چلنا چاہیے۔ پچاس میل کے علاقے میں وہی ایک شخص باقی رہ گیا ہے۔ باقی سب لوگ تو شیر کے ڈر سے فرار ہو چکے ہیں۔" علامہ بولے، "اپنی بندوقیں بھی ساتھ لیتے چلو۔ ہمیں شیر سے زیادہ شیر والے سے خطرہ ہے۔" علامہ کے مشورے کو سب نے پسند کیا۔ آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد ہم پریرا کے مکان پر پہنچ گئے۔ راستے میں ہم نے گائے کا ڈھانچہ پڑا ہوا دیکھا۔
علامہ بولے، "شاید اسے سفید شیر نے ہلاک کیا ہے؟"
آزونا بولا، "نہیں آقا، اسے شیر نے نہیں مارا۔ اسے کسی انسان نے مارا ہے۔ اس کی ہڈیوں پر چھری کے نشانات ہیں۔"
علامہ بولے، "معلوم ہوتا ہے کہ یہ پریرا کی کارستانی ہے۔"
جب ہم پریرا کے مکان پر پہنچے تو وہاں تالا پڑا ہوا تھا۔ آزونا زمین پر اوندھا لیٹ کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ ہم حیرانی سے اس کی حرکتیں دیکھتے رہے۔ وہ آہستہ سے بولا، "شیر یہیں کہیں موجود ہے!" وہ زمین سونگھتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گیا اور بولا، "اس دیوار کے پیچھے شیر موجود ہے۔" آزونا نے دیوار میں لگی ہوئی کھڑکی کے پٹ کھول دیے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایک چیخ ماری، "شیر۔" میں نے بھی کھڑکی سے دیکھا۔ میرے سامنے وہی شیر کھڑا تھا جسے میں دو بار پہلے دیکھ چکا تھا۔ اس کے پنجوں میں گوشت کا بڑا سا ٹکڑا دبا ہوا تھا۔ اس نے بہت معصوم نظروں سے میری طرف دیکھا۔ علامہ اور مرشد نے بھی شیر کو دیکھا۔ علامہ بولے، "یہ شیر پالتو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ شیر اب بوڑھا ہو گیا ہے، اس لیے وہ شکار کرنے سے قاصر ہے۔ پریرا بچھڑوں کا گوشت اسے کھلاتا ہے۔" علامہ نے سیٹی بجائی۔ شیر کھڑا ہو گیا اور دم ہلانے لگا۔
علامہ بولے، "جب شیر کو بلانا ہوتا ہے تو پریرا سیٹی بجاتا ہے اور یہ ایک وفادار کتے کی طرح اس کی تعمیل کرتا ہے۔" مرشد ہنس کر آزونا سے بولا، "جب تم اپنے دادا سے ملو تو ان سے کہنا یہ بھوت پریت کچھ نہیں ہوتے۔ سب سے بڑا بھوت انسان خود ہوتا ہے۔" کچھ دیر بعد پریرا بھی آگیا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے بہت برا سا منہ بنایا۔ جب ہم نے اسے اپنے آنے کا مقصد بتایا تو اس کی شکل اور زیادہ بگڑ گئی۔ وہ چیخ کر بولا، "میں کسی شیر کے متعلق نہیں جانتا۔ تم لوگ مجھے زیادہ پریشان نہ کرو۔"
مرشد کھڑا ہو گیا اور اس کا بازو پکڑ کر بولا، "مسٹر تمہارا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ تم اپنے جرم کا اقرار کر لو تو بہتر ہے۔" پریرا بولا، "جرم؟ کیسا جرم؟ افریقہ میں شیر پالنا کوئی جرم نہیں ہے۔" علامہ غصے سے بولے، "تم کیا بکتے ہو؟ میں افریقہ کے قانون سے اچھی طرح واقف ہوں۔ افریقہ میں شیر پالنا سخت جرم ہے۔" مرشد بولا، "تم ابھی میرے ساتھ چلو اور جو شیر پچھلے کمرے میں بند ہے اسے گولی مار دو۔" پریرا کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ کرسی پر گرپڑا اور روتے ہوئے کہنے لگا، "اللہ کے لیے میرے شیر کو کچھ مت کہنا۔ سرکس میں ہم دونوں بہت عرصے تک کام کرتے رہے ہیں۔ اس نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ میں اس کے منہ میں اپنا سر رکھ دیتا تھا۔ اس نے کبھی مجھے نہیں کاٹا۔ اس کے نہ تو دانت ہیں اور نہ پنجے۔ وہ تو شکار بھی نہیں کر سکتا۔" پریرا نے اپنی داستان سُنانی شروع کی، "میں جنوبی امریکا میں ایک سرکس میں کام کرتا تھا۔ میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی۔ اس نے مجھے ایک بڑی رقم کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ میں یہ سب کام اس کی مرضی کے مطابق کرنے پر رضامند ہو گیا۔ وہ مجھے ایک خاص جہاز میں شیر کے ساتھ اُڑا کر یہاں لایا۔ شیر بہت بوڑھا تھا۔ میں اس کے کھانے پینے کا بندوبست کرتا۔
رات کے وقت شیر کو گھومنے پھرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا۔ جب میں سیٹی بجاتا تو شیر فوراً واپس آجاتا۔ دن کے وقت میں اسے کمرے میں بند رکھتا، کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ کوئی اسے مار نہ ڈالے۔ میرا کام یہ تھا کہ میں مقامی لوگوں کو ڈرا کر یہاں سے بھگادوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جوں ہی کام پورا ہو جائے گا وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اب تین ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ وہ مجھے لینے کے لیے نہیں آئے۔" مرشد بولا، "اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔ جو لوگ دوسروں سے دھوکا کرتے ہیں وہ خود بھی دھوکا کھاتے ہیں۔"
میں نے کہا، "جب تمہاری کہانی اخباروں میں چھپے گی تو لوگ خوب مزے لے لے کر پڑھیں گے۔" پریرا منت سماجت کرنے لگا۔ وہ بولا، "اللہ کے لیے تم لوگ مجھے یہاں چھوڑ کر نہ جانا۔ میں اکیلا رہتے رہتے تنگ آچکا ہوں۔"
مرشد بولا، "نہیں، نہیں، ہم تمہیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔" آزونا بولا، "شیر کا ساتھ جانا زیادہ ضروری ہے تاکہ ہم لوگوں کو سفید بھوت دکھا سکیں۔" علامہ بولے، "میں بھی آزونا کی بات سے متفق ہوں۔ شیر کا کوئی قصور نہیں۔ سب قصور ان ذلیلوں کا ہے جو لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ ان لوگوں سے زیادہ شریف تو یہ شیر ہے جس نے کسی کا خون نہیں بہایا۔"
ہم پریرا اور شیر دونوں کو نائیجیریا کے دارالحکومت لاگوس لے گئے۔ شیر چڑیا گھر میں ہے اور پریرا جیل میں بند ہے۔ یوں سفید شیر کے بھوت کا ڈراما ختم ہوا۔
نایاب خزانہ
ہم اپنے دفتر میں بیٹھے قہوہ نوشی میں مشغول تھے۔ آزونا ایک ملاقاتی کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ اس شخص نے سب کو سلام کیا اور بولا، "میرا نام محمود خان زادہ ہے۔ میں علامہ دانش سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہوں۔"
علامہ بولے، "جی فرمائیے، میرا ہی نام دانش ہے۔" خان زادہ بولا، "مجھے ایک خزانے کی تلاش ہے۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کی مدد چاہیے۔"
علامہ بے صبری سے ہاتھ ہلا کر بولے، "معاف کیجیے گا ہمیں خزانوں وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"
خان زادہ بولا، "جناب، یہ کوئی معمولی خزانہ نہیں ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جس کی میرے باپ دادا بہت عرصے تک حفاظت کرتے رہے۔ میرا مطلب ہے کہ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے سکے جن کا تعلق امیہ اور عباسی خاندانوں سے ہے۔ آج کل یہ سکے نایاب ہیں۔"
یہ سنتے ہی علامہ دانش کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ وہ بولے، "میاں صاحب زاد ہے، تمہارا بیان دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔ اب سناؤ کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟" خان زادہ بولا، "میرے دادا آرمینیا کے حکمراں تھے۔ جب روسی فوجوں نے وہاں قبضہ کیا تو وہ اس خزانے کو ایک محفوظ مقام پر دفن کر کے فرار ہو گئے۔ دادا کے بیان کے مطابق انہوں نے ان سکوں کو ریشمی کپڑوں میں لپیٹا اور صندوق میں بند کر کے اسے ایک خاص جگہ دفن کر دیا۔ یہ سب کام انہوں نے نہایت رازداری کے ساتھ رات کے وقت کیا تھا۔"
کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ صندوق ابھی تک اسی جگہ موجود ہے؟"
خان زادہ بولا، "جی ہاں، دادا جان کے علاوہ کوئی شخص اس راز سے واقف نہیں تھا۔ انہوں نے مرتے وقت تک کسی کو یہ راز نہیں بتایا تھا۔ انہیں اندیشہ تھا کہ جیسے ہی اور لوگوں کو یہ راز معلوم ہو گا، وہ خزانے کے دعوے دار بن جائیں گے۔"
میں نے پوچھا، "آپ کا یہ خزانہ کسی جگہ دفن ہے؟" خان زادہ نے ایک نقشہ میز پر پھیلا دیا اور بولا، "خزانہ اس جگہ دفن ہے۔ یہ
مقام ترکی کی سرحد سے پندرہ میل دور روس کے اندر واقع ہے۔" مرشد بے ساختہ بولا، "الہی خیر! کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں خزانے کی تلاش میں روس جانا ہوگا۔"
خان زادہ بولا، "آپ نے درست فرمایا۔" مرشد نے کہا، "حکومت روس نے سرحد کی نگرانی کے لیے جگہ جگہ چوکیاں قائم کر رکھی ہیں ۔ مسلح پہرے دار کتوں کے ساتھ سرحد کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ اگر بد قسمتی سے ہم روسیوں کے ہتھے چڑھ گئے تو وہ ہماری بہت بری دُرگت بنائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی گولی مار دیں۔" علامہ جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے، بولے، "آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ کتے بے حد خطرناک ہیں۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتے رہتے یہ وحشی ہو گئے
ہیں اور جراثیم آلود جانور کھا کھا کر بے حد زہریلے ہو گئے ہیں۔ بس تم یہ سمجھ لو کہ سانپ کے کاٹے کا علاج ممکن ہے لیکن ان کتوں کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں ہے۔" سچی بات تو یہ ہے کہ علامہ صاحب کی باتیں سُن کر میں اپنے دل میں بہت ڈرا۔
میرا خیال ہے کہ اس کا سب پر اثر ہوا ہوگا۔
میں نے کہا، "جب یہ خزانہ آپ کی ملکیت ہے تو آپ دعوا کیوں نہیں کر دیتے؟" علامہ بولے، "تم بھی کیسی فضول باتیں کرتے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے جس ملک میں خزانہ ہوتا ہے وہ ملک اس کا قانونی حق دار ہوتا ہے۔ اگر حکومت روس کو اس بات کی خبر ہو گئی تو وہ پورا علاقہ کھود ڈالیں گے۔"
مرشد نے فکر مند ہو کر کہا، "میرے خیال میں خزانہ حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم جہاز کو اڑا کر وہاں لے جائیں جہاں خزانہ دفن ہے۔ اسے جہاز میں لا دیں اور واپس آجائیں۔"
میں نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا، "بہت ہی مشکل بلکہ نا ممکن۔"
خان زادہ پرجوش لہجے میں بولا، "یاد رکھیے کہ اگر یہ خزانہ تلف ہو گیا تو یہ ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ میں یہ خزانہ اس ملک کی نذر کرنے کو تیار ہوں جو اُسے حاصل کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔" علامہ بولے، "حکومت ترکی، روس کے ساتھ ٹکر لینے پر کبھی تیار نہیں ہوگی ہمیں یہ کام خود ہی کرنا ہوگا اور نوجوان، تم یقین رکھو خزانے کی تلاش میں ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اگرچہ۔۔۔" مرشد بات مکمل کرتے ہوئے بولا، "اگرچہ یہ کام بےحد دشوار ہے۔" یہ ایک بےحد مشکل کام تھا۔ ہم بہت دنوں تک اس مہم کے ایک ایک پہلو پر غور کرتے رہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ حکومت ترکی ہمیں روس کی سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ آخر بہت مشکل سے ترکی کی حکومت رضامند ہوگئی۔ آخر ہماری روانگی کا وقت آپہنچا۔ یہ چودھویں کی رات تھی۔ چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ موسم گرما کے دن تھے ۔ ہوا ساکن تھی اور دُور دُور تک بادلوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ خان زادہ نے ایک نقشہ میز پر پھیلا دیا اور بولا، "دیکھیے یہ ایک دریا ہے جو "S" کی شکل بناتا ہوا بہہ رہا ہے۔ اس کے قریب ہی یہ پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ میدان ہے۔ اس کے ایک سرے پر پولیس والوں کی چوکی ہے۔ دوسرے سرے پر، یہاں اس جگہ خزانہ دفن ہے۔" جب ہم نے ترکی کی سرحد عبور کی تو مرشد بولا، "ذرا نیچے نگاہ رکھنا۔ جوں ہی تمہیں کوئی چمک دار چیز دکھائی دے مجھے خبر دینا۔" چاند کی دھیمی روشنی میں ہمیں چمک دار لکیر دکھائی دی۔ یہ وہ دریا تھا جو "S" کی شکل بناتا ہوا بہہ رہا تھا۔ ہم نے مرشد کو بتایا۔ وہ بولا، "میں خزانے کے میدان سے کوئی ایک میل پہلے ہی جہاز کو دریا میں اُتار لوں گا۔ پھر ہم اسے کشتی کی طرح کھیتے ہوئے میدان تک نے جائیں گے۔" مرشد نے جہاز کا انجن بند کیا۔ جہاز آہستہ آہستہ زمین کی طرف اُترنے لگا۔ آخر جہاز کا پیندا پانی کی سطح کو چھونے لگا اور جہاز مکمل طور سے پانی میں اتر گیا۔ مرشد نے دبی دبی آواز میں کہا، "چپ خاموش، ذرا کان لگا کر سُنو، اگر کسی نے ہمیں دریا میں اُترتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ ضرور اس طرف آئے گا۔" ہم دیر تک دم سادھے بیٹھے رہے۔ دس پندرہ منٹ گزر گئے۔ ہمیں اطمینان ہو گیا کہ کسی نے ہمارے جہاز کو اترتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ تب مرشد نے کہا، "ذرا ہوشیاری سے چپو چلانا۔ رات کے سناٹے میں ذرا سی آواز بھی دور دور تک سنائی دیتی ہے۔"
ہم چپوؤں کی مدد سے جہاز کو کھیتے ہوئے اس طرف لے چلے۔ یہ کام بہت مشکل ثابت ہوا اور ہمیں بہت محنت کرنی پڑی۔ جہاز بہت سست رفتاری سے چلتا رہا۔ آخر ہم میدان تک پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ کپتان نصر بھی ساتھ تھے۔ وہ تو جہاز ہی پر بیٹھے رہے، باقی ہم سب جہاز سے نیچے اُتر گئے۔ ہم نے زمین کھودنے کے اوزار یعنی بیلچہ، کدال وغیرہ اُٹھا رکھے تھے۔ کتوں سے بچاؤ کے لیے ہم نے فل بوٹ پہنے ہوئے تھے۔ بہت موٹے اونی پاجامے قمیض کے اوپر چمڑے کی جیکٹ یعنی کرتی پہنتی ہوئی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں یہ لباس بہت تکلیف دے رہا تھا لیکن مجبوری سب کام کرواتی ہے۔ اس بھاری لباس کی وجہ سے چلنا پھرنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ہمارے پاس خنجر اور پستول تھے۔ آزونا نے تیر کمان اٹھائی ہوئی تھی۔ جیب میں غلیل اور پتھر ڈالے ہوئے تھے۔ علامہ کے ہاتھ میں ایک پنجرہ تھا۔
وہ بار بار کہتے، "یہ میرا خفیہ ہتھیار ہے۔"
اسلحہ ساتھ رکھنا اس لیے ضروری تھا کہ اگر مقابلے کی ضرورت پیش آجائے تو ہم اپنی جان بچانے کے لیے استعمال کرسکیں۔ خان زادہ حیرانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہ بولا، "وہ جگہ جسے نقشے میں میدان ظاہر کیا گیا ہے اب جھاڑیوں اور گھاس کی وجہ سے جنگل بنی ہوئی ہے۔" میں نے کہا، "یہ تو بہت برا ہوا۔ اب ہم گھاس پھونس کی موجودگی میں فاصلہ کیسے ناپیں گے۔" خان زادہ بولا، "کوشش تو کرنی چاہیے۔" ہم نے فیتا سنبھالا اور فاصلے ناپ ناپ کر خزانے کی جگہ کا تعین کرنے لگے۔ پھر ہم نے کھدائی شروع کی۔ آخر ہماری محنت کارگر ثابت ہوئی۔ کدال کسی سخت چیز سے ٹکرائی۔ کپتان مرشد جھک کر مٹی ہٹانے لگا۔ وہ بولا، "یہ رہا، صندوق کا کنڈا میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔" کافی جدوجہد کے بعد اس نے صندوق کو کھینچ کر باہر نکالا۔ زمین کی نمی کی وجہ سے صندوق کا پیندا بالکل گل سڑ چکا تھا ۔ وہ ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا اور سب سکے گڑھے میں جا گرے۔
میں نے پریشان ہو کر کہا، "اب کیا ہو گا۔" علامہ دانش بولے، "انہیں ساتھ لیے بغیر تو میں واپس نہیں جاؤں گا۔" یہ کہہ کر انہوں نے اپنا کوٹ زمین پر پھیلا دیا۔ مرشد زمین پر اوندھا لیٹ گیا۔ اور گڑھے میں ہاتھ ڈال ڈال کر سکے نکالنے لگا۔ سب سے مشکل بات یہ تھی کہ یہ سارا کام بغیر کسی آواز کے کرنا تھا۔ سکوں کی جھنکار سُن کر پہرے دار ہوشیار ہوجاتے اور سب کیے کرائے پر پانی پھر جاتا۔ مرشد بہت دیر تک مٹی میں ٹٹول کر سکے نکالتا رہا۔ تب اس نے پوچھا، "اب دو چار ہی سکے باقی رہ گئے ہوں گے۔ کیا میں انہیں چھوڑ دوں؟"
علامہ جھنجھلا کر بولے، "یہ سکے قوم کی امانت ہیں۔ ایک ایک سکہ نکالنا ہمارے لیے بےحد ضروری ہے۔" صبح کی سفیدی نمودار ہو رہی تھی۔ اب سورج نکلنے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔ اب ایک اور گڑ بڑ ہو گئی۔ پہرے دار کی ڈیوٹی شروع ہو گئی تھی۔ وہ کتوں کو ساتھ لے کر گشت کے لیے نکلا۔ ایک کتے نے ہماری بو سونگھ لی تھی۔ وہ اوپر کی طرف منہ کر کے بھونکنے اور غرانے لگا۔ پہرے دار نے کتے کو چمکارا پچکارا لیکن کتا ہماری طرف منہ کرکے بھونکتا ہی رہا۔ تب شاید پہرےدار کو ہماری موجودگی کا احساس ہو گیا۔ میں نے کہا، "آپ خان زادہ کے ساتھ خزانے کو لے کر چلیے میں، مرشد اور آزونا آپ کے پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ خان زادہ نے خزانے کی گٹھری اٹھائی اور جہاز کی طرف دوڑنے لگا۔ عین اسی وقت پہرے دار آٹھ کتوں کو ساتھ لے کر ہماری طرف دوڑا۔ وہ کسی غیر زبان میں گالیاں بھی دیتا جا رہا تھا۔ مرشد نے ہوا میں گولی چلا دی اور بولا، "ذرا سنبھل کر آنا ورنہ تمہارے سر کی خیر نہیں۔"
وہ مرشد کی بات تو کیا سمجھا ہوگا، گولی کا مطلب اچھی طرح اس کی سمجھ میں آگیا۔ اس کم بخت نے کتوں کو ہماری طرف ہشکا دیا۔ اُف میرے اللہ، آٹھ خونخوار کتے ہماری طرف تیر کی طرح لپکے۔ علامہ نے اپنا خفیہ ہتھیار استعمال کیا یعنی پنجرہ کھول کر اس میں سے خرگوش نکالے اور زمین پر چھوڑ دیے۔
خرگوش تیزی سے دوڑتے ہوئے پہاڑیوں کی طرف نکل گئے۔ چھے کتے بھی ان کی تلاش میں چلے گئے۔ علامہ کا خفیہ ہتھیار بہت کارآمد ثابت ہوا تھا۔ دو کتے بہت تیز رفتاری سے ہماری طرف آئے۔ مرشد نے گولی چلائی، جو ایک کتے کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئی۔ آزونا نے چلہ کھینچ کر تیر چھوڑا جو دوسرے کتے کے سینے کے پار ہو گیا۔ مگر وہ کم بخت ایسا سخت جان نکلا کہ مرتے مرتے بھی میری ٹانگ سے لپٹ گیا۔ اس کے دانت میرے فل بوٹ میں پیوست ہو گئے۔ میں نے لوہے کا سریا مار مار کر اس کی کھوپڑی پاش پاش کر دی مگر اس ظالم نے ٹانگ چھوڑ کر نہ دی۔ یہ صورت حال دیکھ کر پہرے دار نے فرار ہونا چاہا لیکن آزونا نے اس کا موقع نہ آنے دیا۔ اس کے کھینچ کر ایک پتھر مارا جو پہرے دار کی گدی پر لگا ۔ وہ چکرا کر زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔
مرشد اور آزونا میری امداد کو پہنچے۔ آزرونا نے خنجر سے کتے کا جبڑا چیر ڈالا۔ پھر لوہے کا سریا اس کے منہ میں ڈال کر اس کا منہ کھولا اور اس موذی کے شکنجے سے میری ٹانگ چھڑائی۔ اسی وقت دُور سے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ کتے جو خرگوش کے پیچھے چلے گئے تھے، اب اپنے شکار سے فارغ ہو کر واپس آرہے تھے۔ ہم پوری رفتار سے جہاز کی طرف دوڑے۔ وہ کتے اپنے مالک کے قریب پہنچ کر رک گئے۔ انہوں نے اپنے مالک کو سونگھ کر دیکھا۔ جب انہوں نے اسے بےہوش پایا تو ان پر وحشت سوار ہو گئی ۔ وہ اسے ادھیڑنے اور بھنبھوڑنے لگے۔ یہ دہشت ناک منظر دیکھ کر ہمارے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ ہم جہاز پر سوار ہوگئے مرشد نے جہاز کی کل دبادی۔ اس کے پر تیزی سے گھومنے لگے۔ کچھ دیر بعد جہاز ہوا میں بلند ہو گیا اور ہم ترکی کی طرف پرواز کرنے لگے۔ راستے میں علامہ نے کہا، "میں کتوں کی بےشمار قسموں سے واقف ہوں۔ یہ کتے اپنی قسم کے واحد ( ایک ہی) ہیں جو اپنے مالک کے وفادار نہیں۔" علامہ نے میری ٹانگ کا معائنہ کیا۔ اس پر ایک معمولی سی خراش لگی ہوئی تھی۔ علامہ نے کہا، "میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ یہ کتے بےحد زہریلے ہیں۔ تمہاری ٹانگ کے اس معمولی زخم کا فوراً علاج نہ کیا گیا تو زہر پھیل جائے گا۔"
پھر وہ مرشد اور آزونا سے بولے، "تم دونوں اسے مضبوطی سے پکڑلو۔" انہوں نے لائٹر جلایا اور میری ٹانگ پر جس جگہ خراش تھی، وہاں شعلہ لگا دیا۔ میں ضبط کیے بیٹھا رہا۔ آخر تکلیف کی شدت سے ہلکی سی چیخ مار کر بےہوش ہو گیا۔ علامہ مجھے سیدھے ہسپتال لے گئے۔ وہاں کئی روز تک میرا علاج ہوتا رہا۔
علامہ دانش بہت مستعدی سے میری تیمار داری کرتے رہے۔ اپنے پہرے دار کی موت پر حکومت روس نے بہت واویلا مچایا لیکن انہیں خبر نہ ہو سکی کہ یہ کس کی کارروائی ہے۔ وہ سکے علامہ نے حکومت ترکی ، مصر اور ایران میں تقسیم کر دیے۔ اس کارنامے پر حکومت ترکی نے ہمیں کئی لاکھ روپے انعام عطا کیے۔ ایک تمغہ علامہ کو دیا گیا، لیکن جو تمغہ یعنی (ٹانگ پر داغنے کا نشان) علامہ نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ وہ زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔​
 
علامہ دانش کا اغوا
ہم اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اپنے گزشتہ سفر کا حال لکھنے میں مصروف تھا۔ علامہ دانش ایک موٹی سی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ مرشد آزونا کو کسی بات پر ڈانٹ کر رہا تھا کہ اتنے میں دفتر میں تین آدمی داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک کو میں پہچانتا تھا، یہ ترکی کے وزیر انصاف تھے۔ باقی دو غیر ملکی دکھائی دیتے تھے۔ وزیر نے کہا "معاف کیجیے گا، میں آپ لوگوں کو بے وقت تکلیف دے رہا ہوں لیکن بات ہی کچھ ایسی تھی کہ۔۔۔۔" وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر چُپ ہو رہا۔ پھر ذرا دیر کے بعد بولا، "پہلے میں ان دو حضرات کا تعارف آپ سے کروا دوں۔ یہ صاحب انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ہیں اور یہ دوسرے صاحب پولیس انسپکٹر ہیں۔"
ہم نے ان حضرات سے ہاتھ ملایا۔ مرشد میرے کان میں آہستہ سے بولا، "اللہ خیر کرے، مجھے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دیتی ہے ۔" ترکی کے وزیر نے دھیمی آواز میں کہا، "بات یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ سے مشہور شخصیتوں کے قتل اور اغوا کی وارداتوں نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے۔ میں جو خبر آپ کو سُناتا ہوں وہ بےحد افسوس ناک ہے۔ آپ کے دوست ڈاکٹر رشید سربانتو بہت دنوں سے لاپتہ ہیں۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ انہیں اغوا کر لیا گیا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ انہیں قتل کردیا گیا ہو۔"
غم سے علامہ کی حالت غیر ہو گئی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ مرشد نے کہا، "علامہ صاحب۔"
علامہ بولے، "میں اس لیے روتا ہوں کہ دنیا سے ایک عالم شخص رخصت ہو گیا ہے۔"
میں نے کہا، "ممکن ہے کہ ڈاکٹر سربانتو ابھی زندہ ہوں اور دشمنوں نے انہیں کہیں قید کر رکھا ہو۔"
مرشد نے کہا، "سربانتو کا اغوا کیسے ہوا؟"
وزیر بولا، "ڈاکٹر سر بانتو دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ وہ اپنے دفتر نہیں پہنچ سکے۔ انہیں راستے میں ہی اغوا کر لیا گیا ہے۔"
مرشد نے پوچھا، "کیا اغوا کرنے والوں کا کوئی سُراغ ملا ہے؟"
انڈونیشیا کا وزیر خارجہ پہلی مرتبہ گفتگو میں شریک ہوا۔ اس نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ انڈونیشیا ہزاروں جزیروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان میں سے بہت سے جزیرے تو اتنے چھوٹے ہیں کہ وہاں لوگ نہیں رہ سکتے۔ ہم نے انہیں تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ان کا سراغ نہیں مل سکا۔ ہمیں یقین ہے کہ جس خفیہ تنظیم نے یہ کارروائی کی ہے، اس کا اڈہ انڈو نیشیا کے کسی جزیرے میں ہے۔"
کافی دیر تک خاموشی رہی۔ وزیر خارجہ نے پھر کہا، "ہماری خفیہ پولیس نے اطلاع دی ہے کہ ان کا اگلا شکار علامہ دانش ہوں گے۔ آپ تینوں کی جان بھی خطرے میں ہے؟" یہ سُن کر میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میرا خیال ہے کہ کچھ ایسا ہی حال مرشد اور آزونا کا بھی تھا۔ ہم موت سے نہیں گھبراتے لیکن اس طرح بے خبری کی حالت میں مارے جانا ہمیں بالکل پسند نہیں تھا۔ انڈونیشیا کے وزیر نے کہا، "علامہ صاحب! آپ ہماری گزارش پر انڈونیشیا چلے چلیے۔ ڈاکٹر سربانتو کی گمشدگی کے بعد نیلی ریت سے یورینیم حاصل کرنے کا کام رُکا ہوا ہے۔" مرشد بے ساختہ بولا، "واہ صاحب، یہ آپ نے کیا فرمایا؟ آپ خود ہی بتا چکے ہیں کہ تنظیم کا اڈہ بھی انڈونیشیا میں ہے اور وہ لوگ اب علامہ دانش کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔"
وزیر بولا، "آپ یقین کیجیے کہ علامہ صاحب کی پوری طرح حفاظت کی جائے گی۔" آزونا نے کہا آپ لوگ سربانتو کی حفاظت تو نہ کر سکے۔" پھر وہ علامہ سے مخاطب ہوا، "آقا ! آپ میرے ساتھ نائیجیریا چلیے۔ میرے قبیلے کے ہزاروں جنگجو دن رات آپ کی حفاظت کریں گے۔"
علامہ ہنس کر بولے، "ارے بھلے مانس، ہم سائنس دانوں کی قسمت میں چین سکون سے بیٹھنا نہیں لکھا ہے۔ جسے ایک دفعہ تحقیق کا چسکا پڑ جائے وہ چین سے بیٹھ ہی نہیں سکتا۔"
پھر علامہ انڈونیشیا کے وزیر سے بولے، "مجھے آپ کے ساتھ چلنا منظور ہے۔" وزیر نے ایک خاص کاغذ پر دستخط کر کے کہا، "میں نے یہ خاص اجازت نامہ جاری کر دیا ہے۔ آپ جس وقت بھی چاہیں انڈونیشیا جا سکتے ہیں۔ کل صبح ایک جہاز روانہ ہونے والا ہے۔ آپ پسند فرمائیں تو کل صبح ہی رخصت ہو جائیے۔"
علامہ بولے ”مجھے منظور ہے۔" ہم نے علامہ کی بہت منت سماجت کی کہ آپ وہاں نہ جائیے لیکن وہ جو فیصلہ کرچکے تھے، اس سے ہٹنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اگلے دن صبح سویرے علامہ انڈونیشیا روانہ ہو گئے۔ روانگی کے وقت آزونا اُن سے مل کر رو دیا۔ علامہ بولے، "ارے میں تو تمہیں بہت حوصلے والا سمجھتا تھا، اب جلدی سے آنسو پونچھ ڈالو۔" پھر وہ ہم سے بولے، " تم آزونا کا خیال رکھنا۔" کچھ دیر بعد ان کا جہاز پرواز کر گیا۔ جب تک جہاز نظر آتا رہا آزونا ہاتھ ہلاتا رہا۔ ہم گھر واپس لوٹے تو ترکی کے وزیر نے کہا، "خرابی کی اصل جڑ ابھی باقی ہے۔ میرا مطلب ہے وہ خفیہ تنظیم جس نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔ جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، اسلامی دنیا کے مشہور آدمیوں کی جان کو خطرہ رہے گا۔"
اتنے میں آزونا قہوہ لے آیا۔ ہم قہوہ پینے میں مشغول ہو گئے۔ ترکی کے وزیر نے کہا۔ "انڈونیشیا کی پولیس خفیہ تنظیم کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ انھوں نے مجبور ہو کر کئی ملکوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔" مرشد نے پوچھا، "کیا حکومت ترکی کو بھی ایسی درخواست موصول ہوئی ہے؟"
وزیر بولا، "آپ نے درست فرمایا۔ ہماری خفیہ پولیس نے ایک منصوبہ بنایا ہے۔"
"وہ کیا ؟"
وزیر بولا، "ہم ایک شخص کو علامہ دانش بنا کر پیش کریں گے۔ دشمن تنظیم اسے اغوا کرنے کی کوشش کرے گی۔ خفیہ پولیس کے لوگ نقلی علامہ کے آس پاس ہی رہیں گے۔ اس طرح وہ اغوا کرنے والوں کا پیچھا کرتے کرتے ان کے اڈے تک پہنچ جائیں گے۔" مرشد نے پوچھا، "وہ شخص جسے آپ علامہ دانش بنا کر پیش کریں گے۔ کون ہوگا؟" ترکی کا وزیر ہنسا، "وہ شخص علامہ کا خاص دوست ہے اور ان کی نقل اچھی طرح اُتار سکتا ہے۔"
پھر میری طرف اشارہ کر کے کہا، "میرا مطلب ہے کہ آپ۔" میرے دماغ میں پھلجھڑیاں سی چھوٹنے لگیں۔ یا اللہ یہ میں بیٹھے بٹھائے کسی مصیبت میں پھنس گیا؟ مرشد تیز لہجے میں بولا، "آپ جانتے ہیں کہ اس میں کتنا خطرہ ہے؟ نہ جانے دشمن کس وقت وار کر بیٹھے اور ہمارا دوست بےخبری میں مارا جائے۔" وزیر بولا، "کوئی خطرہ مول لیے بغیر دشمن تک پہنچنا ممکن نہیں۔ علامہ صاحب اور دوسرے لوگوں کی جان بچانے کا صرف یہی طریقہ ہے۔"
میں نے کہا، "میں دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔" ایک ماہ تک مجھے تربیت دی گئی۔ آخر وہ گھڑی آپہنچی جب مجھے انڈونیشیا جانا تھا۔ پہلے میرا میک اپ کیا گیا۔ علامہ کا پرانا سوٹ، اس کے اوپر برساتی کوٹ، ہاتھ میں چھڑی اور سر پر ان کا پرانا ہیٹ۔ جب میں نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو خود بھی حیران رہ گیا۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ علامہ کے حلیے میں یہ کوئی اور شخص ہے۔ آزونا اور مرشد تو مجھے دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔
میں نے ڈانٹ کر کہا، "تمھیں ہنسی آتی ہے۔ مجھے اس کوٹ میں سخت گرمی لگ رہی ہے۔ نہ جانے علامہ اسے کیسے پہنتے ہوں گے۔" جب میں جکارتہ کے ہوائی اڈے پر اترا تو میرے آنے کی خبر اخباروں میں چھپ چکی تھی۔ ہر روز علامہ دانش کی مصروفیات کے متعلق دو تین خبریں ضرور چھپ جاتیں۔ میں کسی ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھاتا تو رات کا کھانا کہیں اور اُڑاتا۔ کبھی کسی سائنس کانفرنس کا افتتاح کرتا، کبھی کسی کارخانے کا معائنہ کرتا۔
اخبار کے رپورٹر کی حیثیت سے مرشد اور دو تین سادہ لباس والے پولیس کے آدمی میرے آس پاس ہی رہتے۔
ایک دن دوپہر کے وقت میں ہوٹل میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی اور بہت آہستہ سے کہا، "علامہ دانش!" میں نے دروازہ کھولا۔ یہ ایک نو عمر لڑکا تھا۔ اس نے مجھے ایک بند لفافہ دیا۔ میں نے بہت احتیاط سے لفافے کو کھولا۔ اس میں سے ایک پرچہ نکلا۔ اس پر لکھا ہوا تھا، "ٹیلیفون نہ کیجیے۔ آپ کی جان خطرے میں ہے۔ ہوٹل کے باہر گاڑی کھڑی ہے۔ آپ فوراً پولیس کے دفتر پہنچیے۔" خط پر نہ تو کسی کے دستخط تھے اور نہ کوئی مہر لگی ہوئی تھی ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ گھڑی آپہنچی جس کا مجھے بہت عرصے سے انتظار تھا۔ میں ہوٹل سے باہر نکلا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ایک سفید رنگ کی کار میرے قریب آکر رکی۔ ڈرائیور نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر بہت آہستہ سے کہا، "علامہ دانش آپ ہی ہیں؟" میں نے سر ہلا کر ہاں کہا۔ ڈرائیور نے بہت اخلاق سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور کہا، "تشریف رکھیے سرکار۔"
میں موٹر میں سوار ہو گیا۔ جب میں سیٹ پر بیٹھا تو میرے وزن سے فوم کا گدا دب گیا اور ایک سرسراتی ہوئی آواز نکلی جیسے ریل کے انجن سے بھاپ نکلتی ہے۔ میں نے میٹھی میٹھی خوشبو محسوس کی۔ ایسی گیس کی خوشبو جو بےہوش کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں مجھ پر اس کا اثر ہو گیا اور میرا ذ ہن اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔
جب آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ میں کسی گاڑی میں لیٹا ہوا ہوں۔ ایک سفید سایہ میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔ جب میں اچھی طرح دیکھنے کے قابل ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک نرس تھی۔ ٹریفک کے شور سے میں نے اندازہ لگایا کہ میں کسی بڑی سڑک سے گزر رہا ہوں۔
نرس نے مجھے آنکھیں کھولتے ہوئے دیکھ کر کہا، "یہ پی لیجیے۔" میں نے کہا، "میں کہاں ہوں؟ کیا راستے میں کوئی ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا؟" نرس بولی "جی ہاں، ایکسیڈنٹ ہی ہوا تھا۔ آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔ آپ صدمے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے۔" میں نے کہا، "کیا میں ایمبولینس میں ہوں؟“ نرس بولی، "جی ہاں۔" میں نے پھر پوچھا، "اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟"
نرس نے کہا، "ہسپتال، بس اب زیادہ باتیں مت کیجیے۔ آپ کے انجکشن کا وقت ہو چلا ہے۔" یہ کہہ کر نرس نے ایک سرنج میں دوا بھری اور بہت بےدردی سے میرے بازو میں گھونپ دی۔
شاید یہ اس انجکشن کا اثر تھا کہ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے میرے اوپر کئی من کا وزن رکھا ہوا ہو۔ میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ میرا ذہن بھی کام کر رہا تھا، لیکن میرا جسم حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ پھر میں نے اسی حالت میں محسوس کیا کہ ایمبولینس ایک جگہ ٹھہر گئی ہے۔ کسی نے ایمبولینس کا دروازہ کھولا۔ میں جس اسٹریچر پر لیٹا ہوا تھا اسے باہر نکالا گیا۔ یہ کوئی غیر آباد اور سنسان سا علاقہ تھا۔ اس میں ایک جہاز کھڑا ہوا تھا جس پر ریڈ کراس کا نشان بنا ہوا تھا۔ اس کے پائلٹ نے چمڑے کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔
نرس آہستگی سے بولی، "یہ ڈاکٹر داؤد ہیں۔ یہ اس جہاز کے پائلٹ ہیں۔ یہ آپ کو ایک قریبی ہسپتال تک لے جائیں گے۔ ڈاکٹر نے میری نبض دیکھی۔ اس کی آنکھوں میں سفاکی جھلک رہی تھی۔ وہ بولا، "آپ کی صحت بہت عمدہ ہے۔ امید ہے کہ آپ بہت جلدی بھلے چنگے ہو جائیں گے۔" اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ کاک پٹ میں بیٹھ گیا۔ نرس میری دیکھ بھال کے لیے میرے پاس ہی رہی ۔ کچھ دیر کے بعد جہاز اُڑنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ دوا کا اثر ختم ہو رہا ہے اور میری قوت بحال ہو رہی ہے۔ شاید یہ نم دار ہوا کا اثر تھا۔ جب جہاز زمین پر اترا تو میں پوری طرح ٹھیک ہو چکا تھا۔ نرس نے سہارا دے کر مجھے اُترنے میں مدد دی۔ مجھے لہروں کا شور سنائی دیا اور نمکین ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگے۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ ہم سے تھوڑی دور سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس جزیرے پر درخت وغیرہ نہیں تھے۔ ایک طرف اونٹ کے کوہان جیسی شکل کی پہاڑی اُبھری ہوتی تھی۔ نرس مجھے کھینچتی ہوئی ایک پتھر کی بنی ہوئی عمارت میں لے گئی۔ یہ کوئی بہت پرانا قلعہ تھا۔
اس کے چاروں طرف اونچی اونچی خار دار تاروں کی باڑھ لگی ہوئی تھی۔ راستے میں، میں نے ایک بہت کم زور، بیمار بوڑھے شخص کو دیکھا۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوتی تھی اور کپڑے پھٹ کر تار تار ہو رہے تھے۔ وہ ڈاکٹر رشید سربانتو تھے۔ انہیں زنده سلامت دیکھ کر مجھے بےحد خوشی ہوئی۔ میں نے ان کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں سلام کیا اور ان کا حال پوچھا۔ ڈاکٹر سربانتو مجھے خالی خالی نظروں سے دیکھتے رہے۔
میں نے پھر کہا، "سربانتو یہ میں ہوں تمھارا دوست، علامہ دانش۔" ڈاکٹر سربانتو نے آہستہ سے کہا، "جناب! معاف فرمائیے گا، میں آپ کو نہیں جانتا۔" ڈاکٹر سربانتو کے عجیب رویے سے مجھے بہت حیرت ہوئی۔
ڈاکٹر داؤد اور نرس مجھے ایک کمرے میں لے گئے۔ اس میں دو کرسیاں رکھی ہوتی تھیں۔
ایک کرسی ایسی تھی جیسی دندان سازوں کے ہاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد نے مجھے کرسی پر بیٹھا دیا۔ پھر اس نے اپنی جیکٹ اُتار کر کھونٹی پر لٹکائی اور مجھ سے مخاطب ہوا، "دیکھیے مسٹر آپ جب تک کوئی گڑ بڑ نہ کریں گے، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔"
پھر اس نے اشارے سے نرس کو واپس جانے کا حکم دیا۔
ڈاکٹر داؤد بولا، "مسٹر دانش، میرا خیال ہے کہ آپ کی طبعیت اب بہتر ہے۔" میں نے جھوٹ موٹ کہا، "میں بےحد کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔ لگتا ہے جیسے میرے ہاتھ پاؤں بے جان ہو گئے ہوں۔"
ڈاکٹر داؤد مسکرانے لگا۔ میں نے پھر کہا، " آپ کون ہیں اور مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟" ڈاکٹر داؤد بولا، "میں یہودی تنظیم سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہم دنیا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہماری قوت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔" میں نے کہا، "میں زندگی بھر آپ کی تنظیم کا وفادار رہوں گا۔ آپ جو چاہیں گے ہیں وہ کام کروں گا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھے جان سے نہ ماریے۔" ڈاکٹر بولا، "آپ کے زندہ رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم کسی بھی انسان کے ذہن سے یاد داشت حاصل کر کے دوسرے شخص کے ذہن میں منتقل کر سکتے ہیں۔" یہ کہہ کر ڈاکٹر ذرا دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ وہ پھر بولا، "انسانی ذہن میں باریک لکیروں کا جال سا بچھا ہوتا ہے جس میں یاد داشت محفوظ رہتی ہے۔ ہم ان لکیروں کو ذہن سے نکال لیتے ہیں اور اس کا ذہن بالکل کورا ہو جاتا ہے ۔ پھر ہم یہ لکیریں کسی دوسرے شخص کے ذہن میں منتقل کر دیتے ہیں؟"
میرا سر چکرانے لگا۔ میں نے کہا، "تم میرے ساتھ اس کمرے میں اکیلے ہو تمھیں ڈر تو نہیں لگ رہا ہے؟"
ڈاکٹر قہقہہ مار کر ہنسا، "ڈر؟ بھلا میں تم سے کیوں ڈرنے لگا؟" یہ کہہ کر ڈاکٹر داؤد نے دراز کھول کر ایک قلم نکالا اور بولا، " میرے دوست اس کا ایک نقطہ بھی تمھارے جسم پر لگ گیا تو کافی عرصے کے لیے تمھاری یاد داشت جاتی رہے گی۔ تم نے راستے میں ڈاکٹر سربانتو کو دیکھا ہے۔ ہم اس کا ذہن منتقل کرنا چاہتے تھے مگر اچانک اس نے حملہ کر دیا۔ مجبور ہو کر ہم نے یہ سوئی اس کے چھودی۔ اس کی یاد داشت اب بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اب وہ نہ زندوں میں ہے نہ مردوں میں۔" اب مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سربانتو کا رویہ بدلا بدلا سا کیوں تھا۔ اللہ کی پناہ ۔ میرا واسطہ ایک پاگل اور جنونی سے تھا۔ ڈاکٹر داؤد بولا، "کیا تم تیار ہو ؟“
میں نے کہا، "میرا حلق خشک ہو رہا ہے۔ مجھے ایک گلاس پانی پلوا دیجیے۔"
ڈاکٹر نے ٹیلیفون پر کسی انجان زبان میں کسی سے کچھ کہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بندر جیسی شکل والا شخص پانی کا گلاس لے کر آیا۔ جب وہ جاچکا تو میں نے پانی کا ایک گھونٹ پیا اور ایک زور دار چیخ ماری۔ میں نے کہا، "بدبخت تم نے مجھے زہر دے دیا ہے۔" یہ کہتے ہی میرا سر ڈھلک گیا اور میں لڑھک کر کرسی سے نیچے گرنے لگا۔
ڈاکٹر گھبرا کر بولا، "بے وقوف لوگو تم نے یہ کیا کر دیا ہے؟“
وہ جلدی سے آگے بڑھا تا کہ میرے گرتے ہوئے جسم کو سہارا دے سکے۔ جوں ہی وہ میرے قریب آیا میں اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پوری قوت سے ایک گھونسا اس کی کنپٹی پر رسید کیا۔ وہ اس اچانک حملے کی تاب نہ لا سکا اور لڑکھڑا کر گرا۔ یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اس قاتل قلم کی نب اس کے ہاتھ میں بیٹھ گئی۔
میں نے کھینچ کھانچ کر ڈاکٹر داؤد کو اس کرسی پر بٹھایا جہاں کچھ دیر پہلے میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ پاؤں چمڑے کی پیٹیوں سے باندھ دیے، منھ پر رومال باندھ دیا۔ پھر اس کے اوپر ایک سفید چادر ڈال دی۔
اس کام سے فارغ ہو کر میں نے ڈاکٹر کا سیاہ چشمہ بہنا، کپڑوں کی الماری سے اس کے کپڑے نکال کر پہنے، منہ پر ڈاکٹروں والا سفید کپڑا باندھا۔ علامہ دانش کا سوٹ اور برساتی ایک چادر میں لپیٹ کر بغل میں دبائی اور بڑی شان سے چلتا ہوا سامنے کے دروازے سے باہر نکلا۔
ابھی تک جہاز باہر میدان میں کھڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر سربانتو اس کی صفائی میں مصروف تھے۔
میں نے کہا، "سربانتو، آپ جہاز کے اندر بیٹھیے۔" ڈاکٹر نے چُپ چاپ میرے حکم کی تعمیل کی اور جہاز میں سوار ہو گیا۔ میں نے انجن اسٹارٹ کیا اور تھوڑی دیر بعد جہاز فضا میں پرواز کر رہا تھا۔ میں نے جکارتہ کے ہوائی اڈے سے رابطہ قائم کیا۔ میں نے انھیں پوری صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا ، "میرے ساتھ ڈاکٹر سربانتو بھی ہیں۔ خفیہ تنظیم کا اڈہ جکارتہ کے شمال میں ایک جزیرے میں واقع ہے۔ اس جزیرے میں ایک پرانا قلعہ ہے۔ وہاں اونٹ کے کوہان جیسا ٹیلہ ابھرا ہوا ہے۔"
جب میں جکارتہ کے ہوائی اڈے پر اترا تو میرے استقبال کے لیے بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے علامہ نے مجھے گلے لگا کر مبارک باد دی۔ پھر مرشد نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ میں نے کہا، "مرشد، دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد میں بےحد تھکن اور کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔"
مرشد بولا، "اب تم جاکر آرام کرو۔ باقی کام یہ لوگ خود کر لیں گے۔" جب آزونا مجھ سے گلے مل رہا تھا تو میں صرف اتنا کہہ سکا، "آزونا، میری طبیعت بہت خراب ہے۔"
اس کے بعد میں بے ہوش ہوگیا۔ مجھے چوبیس گھنٹوں کے بعد ہوش آیا۔ میرے دوستوں نے میری بڑی تیماداری کی۔ مرشد نے بتایا، "تمہارے آنے کے تھوڑی دیر بعد انڈونیشیا کی ملٹری نے جزیرے پر دھاوا بول دیا۔ یہودی تنظیم کے بہت ایجنٹ پکڑے گئے۔ ان میں وہ نرس بھی شامل تھی ڈاکٹر داؤد کا حافظہ واقعی جاتا رہا تھا۔"
بعد میں انڈونیشیا کی فضائیہ نے بمباری کر کے پرانے قلعے کو تباہ کر دیا۔ یہ بات بہت بعد میں معلوم ہوئی کہ اس وقت قلعے میں ایک ہزار سے زیادہ یہودی ایجنٹ چھپے ہوئے تھے۔ وہ سب کے سب قلعے کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔ وہ خفیہ اڈہ ان کی قبر بن گیا۔ اسی شام کا ذکر ہے کہ مرشد میری تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ میں کچھ شرمندہ سا ہو کر بولا، "آج تک تم نے بھی تو بے شمار کارنامے سرانجام دیے ہیں۔"
وہ ہنس کر بولا، "میاں تمہارا ایک کارنامہ ان سب پر بھاری ہے۔"
علامہ دانش ابھی تک انڈونیشیا میں ہیں، وہ ڈاکٹر سربانتو کے علاج اور نیلی ریت پر تحقیق کرنے میں مصروف ہیں۔​
 
Top