انیس الرحمن
محفلین
علامہ دانش کے سفرنامے
معراج
نونہال ادب
ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی
خوشبو کی تلاش
معراج
نونہال ادب
ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی
خوشبو کی تلاش
ہم قہوہ پینے میں مصروف تھے کہ علامہ دانش کمرے میں داخل ہوئے۔ انھیں دیکھ کہ ہر شخص احترام سے کھڑا ہو گیا۔ ہم نے بہت پر جوش طریقے سے مصافحہ کیا اور گلے ملے۔
آزونا فوراً قہوے کی پیالی لے آیا۔
کپتان مرشد نے پوچھا، "علامہ صاحب بہت دن بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے کہیے اتنا عرصہ آپ کہاں رہے؟"
علامہ قہوے کی چسکی لے کر بولے، "میں ایک سال تک خوشبو کی تلاش میں امریکا کے جنگلوں کی خاک چھانتا رہا۔"
ہم علامہ کی بات کا مطلب نہیں سمجھے۔ انہوں نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ آج کل خوشبو کا استعمال کتنی کثرت سے ہو رہا ہے۔ عطر، سینٹ، پاؤڈر، صابن، ٹوتھ پیسٹ کے علاوہ خوشبو سیکڑوں چیزوں میں استعمال ہوتی ہے۔ دنیا کے بے شمار لوگ ہر روز کسی نہ کسی شکل میں خوشبو استعمال کرتے ہیں۔" یہ کہہ کر علامہ دانش ذرا دیر کے لیے رُکے، انہوں نے اپنی جیب سے ایک ڈبیا نکالی اور اسے کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ اس میں ایک نیلگوں پھول رکھا ہوا تھا۔ علامہ نے جوش سے تھرائی ہوئی آواز میں کہا، "یہ پھول جنوبی امریکا کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔ شاید آپ لوگ یقین نہ کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ پھول خوشبو اور عطر سازی کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دے گا۔ جو ملک اس پھول کا عطر نکالے گا وہ ہر سال کروڑوں روپے کما سکتا ہے۔"
یہ کہ کر علامہ دانش ذرا دیر کے لیے رکے۔ پھر انھوں نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی اور اس کا ڈاٹ کھول کر اپنی ہتھیلی پر بھورے رنگ کے سیال کے چند قطرے ٹپکائے ۔ کمرہ بھینی بھینی خوش بو سے مہک اٹھا۔ علامہ نے پوچھا، "سچ بتائیے، آپ نے اس سے پہلے اتنی عمدہ خوشبو سونگھی ہے؟ ہم سب ایک آواز ہو کر بولے، "کبھی نہیں۔" علامہ دانش نے کہا، " جو کمپنی اس عطر کو نکالے گی وہ کروڑوں روپے کمائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ اس عطر کو حاصل کرنے کے لیے منہ مانگے دام ادا کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔"
میں نے کہا، "علامہ صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا۔ آپ کو ان پھولوں کو حاصل کرنے میں کیا دشواری ہے؟" علامہ نے کہا، "یہ پھول جنوبی امریکا میں گیانا کے جنگلوں میں ملتے ہیں۔ مجھے اس کا سراغ مقامی باشندوں سے ملا تھا۔ اس پھول کی تلاش میں، میں دو سال تک جنگلوں میں گھومتا رہا، جس سے میری صحت خراب ہو گئی ہے۔ جب یہ پھول ملا تو خزاں کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ پھول جھڑ رہے تھے اور اس کے بیج دستیاب نہ ہو سکے۔ اگر بیج مل جاتے تو میں اپنے ساتھ لے آتا اور گھر پر پودوں کی کاشت کرتا، لیکن افسوس مجھے مرض نے مہلت نہ دی۔ میں اگلی فصل بہار کا انتظار کیے بغیر لوٹ آیا۔ میں اپنے ساتھ چند پھول لا سکا تھا، جس کا عطر آپ نے سونگھا ہے۔" یہ کہہ کر علامہ کچھ دیر تک قہوے سے شغل فرماتے رہے۔ پھر بولے، "ہمارے ساتھ ایک ہندو ملازم بھی تھا، جس کا نام رامن تھا۔ اُسے بھی پودے کے متعلق کچھ معلومات تھیں۔ جیسے ہی وہ پودا دریافت ہوا، رامن کہیں روپوش ہو گیا۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ کسی غیر ملکی کمپنی میں ملازم ہو گیا ہے۔ اس کمپنی نے رامن کو اُن پھولوں کے بیج لانے پر مامور کیا ہے۔ اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا تو میری محنت پر پانی پھر جائے گا۔"
میں نے مشورہ دیا، "آپ برطانوی حکام سے مل کر اس جعلساز کو روکنے کی کوشش کیجیے۔" علامہ دانش سر ہلا کر بولے، "ناممکن، بالکل ناممکن، اس طرح تو پھولوں کا راز سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ ہم اسے صرف اس طرح شکست دے سکتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے پہنچ جائیں۔" میں جلدی سے بولا، "کہیں آپ کا خیال جہاز سے پہنچنے کا تو نہیں ہے؟" علامہ نے تائید کی، "آپ بالکل صحیح سمجھے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا وہاں کوئی ایسا وسیع میدان ہے جہاں طیارہ اُتارا جا سکے؟ علامہ دانش بولے، "میدان تو کوئی نہیں ہے البتہ جھیلیں کافی موجود ہیں۔" مرشد نے کہا، "خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا جہاز خشکی اور تری دونوں جگہ اُتارا جا سکتا ہے۔ اب فرمائیے کہ کب روانہ ہونا چاہیے؟"
علامہ مسکرا کر بولے، "جلد از جلد۔"
تین دن کے بعد ہم گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن پہنچے۔ رات گزارنے کے لیے ہم تو ایک ہوٹل میں چلے گئے۔ علامہ دانش، رامن کے متعلق تفتیش کرنے چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد واپس لوٹے اور ہمیں بتایا کہ رامن ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ہے۔ حالات ابھی تک موافق تھے۔ اگلی صبح ہمارا طیارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ علامہ دانش ، کپتان مرشد کے ساتھ ہی کاک پٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک نقشہ ان کے سامنے پھیلا ہوا تھا، جسے دیکھ دیکھ کر وہ ہدایات دے رہے تھے۔ میدانی علاقہ عبور کرنے کے بعد نقشے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی، کیوں کہ اب نہیں دریائے کابو کے ساتھ ساتھ پرواز کرنی تھی جو گھنے جنگل میں سانپ کی طرح پیچ و خم کھاتا ہوا بہہ رہا تھا۔ یہ پرواز کوئی دو گھنٹے جاری رہی۔ سامنے ایک وسیع جھیل نظر آرہی تھی۔ علامہ نے کہا، "جہاز کو جھیل کے مشرقی کنارے پر اُتار لیجیے پھولوں کا ذخیرہ یہاں سے قریب ہی ہے۔" یہاں پرندوں کا ایک غول پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ مرشد نے ان سے بچ کر جہاز کو بہت مہارت سے پانی میں اُتارا۔ جہاز کچھ دُور تک پانی کے اوپر تیرتا چلا گیا ۔ پھر کپتان مرشد نے ایک موڑ کاٹا اور جہاز کو سرکنڈوں کے جھنڈ کے نیچے کھڑا کر دیا۔ ہم جہاز سے اترے اور پانی سے گزر کر کنارے پر پہنچے۔ ہر طرف مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کبھی کبھی کسی پرندے کی آواز سنائی دے جاتی اور بس۔ علامہ دانش مسکرا کر بولے، "سفر خوب رہا۔ اس پرواز نے مسافت کو بہت مختصر کر دیا ہے۔ ورنہ پچھلی دفعہ میں جب یہاں پہنچا تھا تو دو مہینے لگ گئے تھے۔" میں نے کہا، "اب آپ پروگرام طے کریں کہ ہمیں کیا کرنا ہے!!" مرشد جھٹ سے بولا، "پہلے ہمیں ناشتہ کرنا ہے۔ میری آنتیں بہت دیر سے قل پڑھ رہی ہیں۔" آزونا کہیں سے کھانے کی ٹوکری اُٹھا لایا اور چائے بنانے میں مصروف ہو گیا۔ علامہ دانش تفصیل سے سمجھانے لگے کہ ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو آزونا نے ہمیں تین بڑے بڑے تھیلے دیے۔
کپتان مرشد بولا، "علامہ صاحب، معاف کیجیے گا میں آپ کا دو وجہ سے ساتھ نہیں دے سکتا ، ایک یہ کہ میں کھانے کے بعد آرام کیا کرتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ میں جہاز کو خالی چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔"
علامہ میری طرف مڑ کر بولے، "یہاں جنگل میں درندے نہیں ہوتے۔ پھر بھی تم احتیاطاً بندوق ساتھ لیتے چلو۔"
میں اور علامہ دانش ایک تنگ سی پک ڈنڈی پر چلنے لگے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ہم ایک کھلے میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں پر بے شمار جنگلی اور خود رو (اپنے آپ اُگنے والے) پودے اُگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ علامہ اچانک رک گئے اور بولے، "سونگھنا ذرا۔" مسرت سے علامہ دانش کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ بہت ہی مسحور کن خوشبو آرہی تھی میں نے دو تین لمبے لمبے سانس لیے اور کہا، "بے شک لاجواب خوشبو ہے۔" علامہ نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور پھول توڑنے لگے۔ میں صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ وہاں ایک ہی جیسے پھول اُگے ہوئے تھے۔ علامہ بہت اختیاط سے چن چن کر پھول توڑ رہے تھے۔ میں نے کندھے سے بندوق اُتاری اور اُسے ایک درخت کی ٹہنی سے لٹکا دیا اور پھر گھاس پر لیٹ گیا۔ جب علامہ صاحب نے تینوں تھیلے پھولوں اور بیجوں سے بھر لیے تب انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔
جب ہم چلنے لگے تو ہمیں جھیل کی جانب سے جہاز کے انجن کا شور سنائی دیا۔ ہم یہ سمجھے کہ مرشد جہاز کو کسی اور جگہ لے جارہا ہے۔ ہم اپنے خیالوں میں مگن چلے جا رہے تھے کہ اچانک دو آدمی درختوں کے پیچھے سے نکل کر ہمارے سامنے آگئے۔ ان میں سے ایک کالا تھا اور دوسرا گورا۔ میں صحیح صورت حال سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کالے نے پستول نکالی اور ہماری طرف رُخ کر کے بولا، "ہاتھ اوپر اُٹھا لو۔" میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر بندوق کی طرف گیا۔ کالا آدمی پھر دھاڑ کر بولا، "خبردار کوئی حرکت نہ کرنا ورنہ گولی مار کر بھیجا اُڑا دوں گا۔" ہم نے تھیلے زمین پر ڈال دیے اور ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہو گئے۔ میں اپنی اس بے پروائی پر بہت شرمندہ تھا کہ میں بندوق کو کندھے پر لٹکائے ہوئے گھومتا پھرتا رہا۔ حالانکہ بندوق خطرے کے وقت میرے ہاتھ میں ہونی چاہیے تھی۔ کالا آدمی را من تھا۔ اس نے بھی جنگل میں پہنچنے کے لیے ہوائی راستہ اختیار کیا تھا۔ رامن اس صورت حال سے بہت لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ ہنس کر بولا، "جون ، تم ان کے ہاتھوں سے تھیلے لے لو۔ یہ بندوق بھی اُتارتے لانا۔" بندوق اتارتے وقت جون ہنسا اور میرا خون کھولنے لگا، لیکن قہر درویش بجان درویش میں اسے دیکھتا رہا۔ رامن نے ایک قہقہہ لگایا، "اب تم اباؤٹ ٹرن ہوجاؤ، شاباش، خبر دار! پیچھے مڑ کر مت دیکھنا ورنہ بھیجا اُڑا دوں گا۔" رامن نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ وہ دونوں چلے گئے غصے اور شرمندگی سے میرا حال بہت بڑا ہو رہا تھا۔ علامہ میرا کندھا تھپک کر بولے، "پرواہ مت کرو جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اب رنج کرنے سے کیا فائدہ؟" میں نے کہا، "میرا ارادہ یہ ہے کہ ہم ان کا پیچھا کریں، ممکن ہے کہ ہم ان سے پھول اور بیج لینے میں کامیاب ہو جائیں۔" عین اسی وقت آزونا بھی وہاں آگیا۔ اس کے کپڑے پسینے سے بھیگ رہے تھے۔ وہ ہانپتے ہوئے بولا، "صاحب، مرشد جی نے یہ تھیلے اور بندوق بھیجی ہے اور کہا ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس کی فکر نہ کرنا، بس یہ تھیلے پھولوں اور بیجوں سے بھر کر فوراً واپس آجانا۔" میں نے حیران ہو کر پوچھا، "کیا اسے معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا گزری ہے؟" پھر بات کچھ کچھ میرے ذہن میں آنے لگی۔ میں نے پوچھا، "کیا تم نے کوئی اور جہاز بھی اتر تے ہوئے دیکھا ہے؟" آزونا بولا، "جی ہاں ، وہ لوگ جھیل کے دوسری طرف اُترے ہیں۔" میں نے غصے اور جوش سے کہا، "کیوں نہ پہلے ان سے نپٹ لیا جائے۔" آزونا بولا، "مرشد صاحب نے کہا تھا کہ آپ لوگ پھول لیتے آئیں۔باقی کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔" ہم پھولوں کے ذخیرے تک گئے۔ ذرا سی دیر میں ہم نے پھولوں اور بیجوں سے نہ صرف تھیلے بھر لیے بلکہ اپنی جیبیں بھی بھر لیں۔ پھر ہم دوڑتے ہوئے واپس لوٹے۔ جہاز پر پہنچ کر دیکھا کہ مرشد صاحب چائے سے شغل فرمارہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی اُس نے زور سے کہا، "بھئی واہ وا، کیسی عمدہ خوشبو آرہی ہے۔" علامہ دانش نے مختصر طور سے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو بیان کیا۔ میں نے کہا، "کیا ان لوگوں کا جہاز ابھی تک زمین پر موجود ہے؟"
مرشد نے بہت مختصر سا جواب دیا، "جی ہاں!" میں نے حیران ہو کر پوچھا، "وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ اُسے تو اب تک چلا جانا چاہیے تھا۔" کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "شاید ان کے جہاز میں کچھ خرابی ہو گئی ہے؟" "اب پہیلیاں تو نہ بجھواؤ" میں نے بے چینی سے کہا۔ کپتان مرشد نے چائے کی پیالی تپائی پر رکھ دی اور کہا، "ارے بھولے بادشاہ جیسے ہمیں ان کے آنے کی امید نہیں تھی، اسی طرح وہ بھی ہمارے آنے سے بے خبر تھے۔ جیسے ہی ان کا جہاز زمین پر اُترا میں فوراً پہچان گیا کہ یہ کون ذات شریف ہیں۔ جہاز میں صرف دو آدمی تھے اور وہ دونوں ہی پھولوں کی تلاش میں چل دیے۔ یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ کم از کم پائلٹ کو ضرور جہاز کے نزدیک کھڑا ہونا چاہیے تھا۔"
میں نے بےتابی سے پوچھا، "پھر کیا ہوا؟" کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "ہونا کیا تھا؟ میں اور آزونا جہاز کی طرف لڑھک گئے اور اس کا اسپارکنگ پلگ نکال لائے۔ بس جہاز اب تک زمین پر آرام کر رہا ہے۔"
پھر کپتان مرشد علامہ دانش سے مخاطب ہوا، "کیا یہ اُچکا پیدل گھر پہنچ سکتا ہے؟" علامہ نے کہا، "ہاں، کیوں نہیں؟ یہ جنگل کے چپے چپے سے واقف ہے۔ اسے شہر تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئے گی۔ یہ علاقہ جنگلی جانوروں سے بھی محفوظ ہے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "شہر تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگ جائے گا؟"
علامہ کچھ سوچ کر بولے، "کوئی چھے ہفتے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "آپ اس عرصے میں عطر اپنے نام پر رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔"
علامہ بولے، "بہت آسانی سے۔"
کپتان مرشد بولا، "میرا فیصلہ ہے کہ رامن اور اس کے ساتھی پیدل واپس جائیں گے۔ اب آپ لوگ جلدی سے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ جائیں۔ رامن اور اس کے ساتھی کو جہاز کی خرابی کا علم ہو گیا تو وہ ہماری تلاش میں ادھر آئیں گے اور خون خرابے تک نوبت آجائے گی؟" علامہ بولے، "ممکن ہے کہ وہ واپس پہنچ کر کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم پلگ ان کے حوالے کر دیں۔" مرشد چڑ کر بولا، "جناب یہ لوگ رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ آپ پر پستول تانے رہے کیا یہ جرم نہیں ہے؟ وہ آپ کا مال و متاع لوٹ کر لے گئے، کیا یہ جرم نہیں ہے؟ وہ آپ کی تحقیق کو دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دینا چاہتے ہیں، یہ تو ایسا ہی سنگین جرم ہے جیسا کہ ڈاکا ڈالنا۔ کوئی اور عدالت تو انہیں ڈرانے دھمکانے اور چوری کی سزا کے طور پر انھیں لمبا ہی بھیجتی۔ میں انھیں صرف چھے ہفتے کی سزا سنا رہا ہوں۔" مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا اور اُسے جھیل کے درمیان میں لے آیا۔ جونہی جہاز اُڑنے لگا دو آدمی پانی میں اُتر کر دوڑتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ مرشد نے کھڑکی سے منہ نکالا اور زور سے بولا، "الوداع۔"
چند لمحوں میں جہاز پانی کی سطح سے بلند ہو کر ہوا میں اُڑنے لگا۔ علامہ بتا رہے تھے کہ، "یہ خوشبو پھولوں کے مُرجھاتے ہی ختم ہو جائے گی اور ان کے پاس کوڑے کچرے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ ہمارا جہاز پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
آزونا فوراً قہوے کی پیالی لے آیا۔
کپتان مرشد نے پوچھا، "علامہ صاحب بہت دن بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے کہیے اتنا عرصہ آپ کہاں رہے؟"
علامہ قہوے کی چسکی لے کر بولے، "میں ایک سال تک خوشبو کی تلاش میں امریکا کے جنگلوں کی خاک چھانتا رہا۔"
ہم علامہ کی بات کا مطلب نہیں سمجھے۔ انہوں نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ آج کل خوشبو کا استعمال کتنی کثرت سے ہو رہا ہے۔ عطر، سینٹ، پاؤڈر، صابن، ٹوتھ پیسٹ کے علاوہ خوشبو سیکڑوں چیزوں میں استعمال ہوتی ہے۔ دنیا کے بے شمار لوگ ہر روز کسی نہ کسی شکل میں خوشبو استعمال کرتے ہیں۔" یہ کہہ کر علامہ دانش ذرا دیر کے لیے رُکے، انہوں نے اپنی جیب سے ایک ڈبیا نکالی اور اسے کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ اس میں ایک نیلگوں پھول رکھا ہوا تھا۔ علامہ نے جوش سے تھرائی ہوئی آواز میں کہا، "یہ پھول جنوبی امریکا کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔ شاید آپ لوگ یقین نہ کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ پھول خوشبو اور عطر سازی کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دے گا۔ جو ملک اس پھول کا عطر نکالے گا وہ ہر سال کروڑوں روپے کما سکتا ہے۔"
یہ کہ کر علامہ دانش ذرا دیر کے لیے رکے۔ پھر انھوں نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی اور اس کا ڈاٹ کھول کر اپنی ہتھیلی پر بھورے رنگ کے سیال کے چند قطرے ٹپکائے ۔ کمرہ بھینی بھینی خوش بو سے مہک اٹھا۔ علامہ نے پوچھا، "سچ بتائیے، آپ نے اس سے پہلے اتنی عمدہ خوشبو سونگھی ہے؟ ہم سب ایک آواز ہو کر بولے، "کبھی نہیں۔" علامہ دانش نے کہا، " جو کمپنی اس عطر کو نکالے گی وہ کروڑوں روپے کمائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ اس عطر کو حاصل کرنے کے لیے منہ مانگے دام ادا کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔"
میں نے کہا، "علامہ صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا۔ آپ کو ان پھولوں کو حاصل کرنے میں کیا دشواری ہے؟" علامہ نے کہا، "یہ پھول جنوبی امریکا میں گیانا کے جنگلوں میں ملتے ہیں۔ مجھے اس کا سراغ مقامی باشندوں سے ملا تھا۔ اس پھول کی تلاش میں، میں دو سال تک جنگلوں میں گھومتا رہا، جس سے میری صحت خراب ہو گئی ہے۔ جب یہ پھول ملا تو خزاں کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ پھول جھڑ رہے تھے اور اس کے بیج دستیاب نہ ہو سکے۔ اگر بیج مل جاتے تو میں اپنے ساتھ لے آتا اور گھر پر پودوں کی کاشت کرتا، لیکن افسوس مجھے مرض نے مہلت نہ دی۔ میں اگلی فصل بہار کا انتظار کیے بغیر لوٹ آیا۔ میں اپنے ساتھ چند پھول لا سکا تھا، جس کا عطر آپ نے سونگھا ہے۔" یہ کہہ کر علامہ کچھ دیر تک قہوے سے شغل فرماتے رہے۔ پھر بولے، "ہمارے ساتھ ایک ہندو ملازم بھی تھا، جس کا نام رامن تھا۔ اُسے بھی پودے کے متعلق کچھ معلومات تھیں۔ جیسے ہی وہ پودا دریافت ہوا، رامن کہیں روپوش ہو گیا۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ کسی غیر ملکی کمپنی میں ملازم ہو گیا ہے۔ اس کمپنی نے رامن کو اُن پھولوں کے بیج لانے پر مامور کیا ہے۔ اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو گیا تو میری محنت پر پانی پھر جائے گا۔"
میں نے مشورہ دیا، "آپ برطانوی حکام سے مل کر اس جعلساز کو روکنے کی کوشش کیجیے۔" علامہ دانش سر ہلا کر بولے، "ناممکن، بالکل ناممکن، اس طرح تو پھولوں کا راز سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ ہم اسے صرف اس طرح شکست دے سکتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے پہنچ جائیں۔" میں جلدی سے بولا، "کہیں آپ کا خیال جہاز سے پہنچنے کا تو نہیں ہے؟" علامہ نے تائید کی، "آپ بالکل صحیح سمجھے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا وہاں کوئی ایسا وسیع میدان ہے جہاں طیارہ اُتارا جا سکے؟ علامہ دانش بولے، "میدان تو کوئی نہیں ہے البتہ جھیلیں کافی موجود ہیں۔" مرشد نے کہا، "خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا جہاز خشکی اور تری دونوں جگہ اُتارا جا سکتا ہے۔ اب فرمائیے کہ کب روانہ ہونا چاہیے؟"
علامہ مسکرا کر بولے، "جلد از جلد۔"
تین دن کے بعد ہم گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن پہنچے۔ رات گزارنے کے لیے ہم تو ایک ہوٹل میں چلے گئے۔ علامہ دانش، رامن کے متعلق تفتیش کرنے چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد واپس لوٹے اور ہمیں بتایا کہ رامن ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ہے۔ حالات ابھی تک موافق تھے۔ اگلی صبح ہمارا طیارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ علامہ دانش ، کپتان مرشد کے ساتھ ہی کاک پٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک نقشہ ان کے سامنے پھیلا ہوا تھا، جسے دیکھ دیکھ کر وہ ہدایات دے رہے تھے۔ میدانی علاقہ عبور کرنے کے بعد نقشے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی، کیوں کہ اب نہیں دریائے کابو کے ساتھ ساتھ پرواز کرنی تھی جو گھنے جنگل میں سانپ کی طرح پیچ و خم کھاتا ہوا بہہ رہا تھا۔ یہ پرواز کوئی دو گھنٹے جاری رہی۔ سامنے ایک وسیع جھیل نظر آرہی تھی۔ علامہ نے کہا، "جہاز کو جھیل کے مشرقی کنارے پر اُتار لیجیے پھولوں کا ذخیرہ یہاں سے قریب ہی ہے۔" یہاں پرندوں کا ایک غول پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ مرشد نے ان سے بچ کر جہاز کو بہت مہارت سے پانی میں اُتارا۔ جہاز کچھ دُور تک پانی کے اوپر تیرتا چلا گیا ۔ پھر کپتان مرشد نے ایک موڑ کاٹا اور جہاز کو سرکنڈوں کے جھنڈ کے نیچے کھڑا کر دیا۔ ہم جہاز سے اترے اور پانی سے گزر کر کنارے پر پہنچے۔ ہر طرف مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کبھی کبھی کسی پرندے کی آواز سنائی دے جاتی اور بس۔ علامہ دانش مسکرا کر بولے، "سفر خوب رہا۔ اس پرواز نے مسافت کو بہت مختصر کر دیا ہے۔ ورنہ پچھلی دفعہ میں جب یہاں پہنچا تھا تو دو مہینے لگ گئے تھے۔" میں نے کہا، "اب آپ پروگرام طے کریں کہ ہمیں کیا کرنا ہے!!" مرشد جھٹ سے بولا، "پہلے ہمیں ناشتہ کرنا ہے۔ میری آنتیں بہت دیر سے قل پڑھ رہی ہیں۔" آزونا کہیں سے کھانے کی ٹوکری اُٹھا لایا اور چائے بنانے میں مصروف ہو گیا۔ علامہ دانش تفصیل سے سمجھانے لگے کہ ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو آزونا نے ہمیں تین بڑے بڑے تھیلے دیے۔
کپتان مرشد بولا، "علامہ صاحب، معاف کیجیے گا میں آپ کا دو وجہ سے ساتھ نہیں دے سکتا ، ایک یہ کہ میں کھانے کے بعد آرام کیا کرتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ میں جہاز کو خالی چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔"
علامہ میری طرف مڑ کر بولے، "یہاں جنگل میں درندے نہیں ہوتے۔ پھر بھی تم احتیاطاً بندوق ساتھ لیتے چلو۔"
میں اور علامہ دانش ایک تنگ سی پک ڈنڈی پر چلنے لگے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ہم ایک کھلے میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں پر بے شمار جنگلی اور خود رو (اپنے آپ اُگنے والے) پودے اُگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ علامہ اچانک رک گئے اور بولے، "سونگھنا ذرا۔" مسرت سے علامہ دانش کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ بہت ہی مسحور کن خوشبو آرہی تھی میں نے دو تین لمبے لمبے سانس لیے اور کہا، "بے شک لاجواب خوشبو ہے۔" علامہ نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور پھول توڑنے لگے۔ میں صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ وہاں ایک ہی جیسے پھول اُگے ہوئے تھے۔ علامہ بہت اختیاط سے چن چن کر پھول توڑ رہے تھے۔ میں نے کندھے سے بندوق اُتاری اور اُسے ایک درخت کی ٹہنی سے لٹکا دیا اور پھر گھاس پر لیٹ گیا۔ جب علامہ صاحب نے تینوں تھیلے پھولوں اور بیجوں سے بھر لیے تب انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔
جب ہم چلنے لگے تو ہمیں جھیل کی جانب سے جہاز کے انجن کا شور سنائی دیا۔ ہم یہ سمجھے کہ مرشد جہاز کو کسی اور جگہ لے جارہا ہے۔ ہم اپنے خیالوں میں مگن چلے جا رہے تھے کہ اچانک دو آدمی درختوں کے پیچھے سے نکل کر ہمارے سامنے آگئے۔ ان میں سے ایک کالا تھا اور دوسرا گورا۔ میں صحیح صورت حال سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کالے نے پستول نکالی اور ہماری طرف رُخ کر کے بولا، "ہاتھ اوپر اُٹھا لو۔" میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر بندوق کی طرف گیا۔ کالا آدمی پھر دھاڑ کر بولا، "خبردار کوئی حرکت نہ کرنا ورنہ گولی مار کر بھیجا اُڑا دوں گا۔" ہم نے تھیلے زمین پر ڈال دیے اور ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہو گئے۔ میں اپنی اس بے پروائی پر بہت شرمندہ تھا کہ میں بندوق کو کندھے پر لٹکائے ہوئے گھومتا پھرتا رہا۔ حالانکہ بندوق خطرے کے وقت میرے ہاتھ میں ہونی چاہیے تھی۔ کالا آدمی را من تھا۔ اس نے بھی جنگل میں پہنچنے کے لیے ہوائی راستہ اختیار کیا تھا۔ رامن اس صورت حال سے بہت لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ ہنس کر بولا، "جون ، تم ان کے ہاتھوں سے تھیلے لے لو۔ یہ بندوق بھی اُتارتے لانا۔" بندوق اتارتے وقت جون ہنسا اور میرا خون کھولنے لگا، لیکن قہر درویش بجان درویش میں اسے دیکھتا رہا۔ رامن نے ایک قہقہہ لگایا، "اب تم اباؤٹ ٹرن ہوجاؤ، شاباش، خبر دار! پیچھے مڑ کر مت دیکھنا ورنہ بھیجا اُڑا دوں گا۔" رامن نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ وہ دونوں چلے گئے غصے اور شرمندگی سے میرا حال بہت بڑا ہو رہا تھا۔ علامہ میرا کندھا تھپک کر بولے، "پرواہ مت کرو جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اب رنج کرنے سے کیا فائدہ؟" میں نے کہا، "میرا ارادہ یہ ہے کہ ہم ان کا پیچھا کریں، ممکن ہے کہ ہم ان سے پھول اور بیج لینے میں کامیاب ہو جائیں۔" عین اسی وقت آزونا بھی وہاں آگیا۔ اس کے کپڑے پسینے سے بھیگ رہے تھے۔ وہ ہانپتے ہوئے بولا، "صاحب، مرشد جی نے یہ تھیلے اور بندوق بھیجی ہے اور کہا ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس کی فکر نہ کرنا، بس یہ تھیلے پھولوں اور بیجوں سے بھر کر فوراً واپس آجانا۔" میں نے حیران ہو کر پوچھا، "کیا اسے معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا گزری ہے؟" پھر بات کچھ کچھ میرے ذہن میں آنے لگی۔ میں نے پوچھا، "کیا تم نے کوئی اور جہاز بھی اتر تے ہوئے دیکھا ہے؟" آزونا بولا، "جی ہاں ، وہ لوگ جھیل کے دوسری طرف اُترے ہیں۔" میں نے غصے اور جوش سے کہا، "کیوں نہ پہلے ان سے نپٹ لیا جائے۔" آزونا بولا، "مرشد صاحب نے کہا تھا کہ آپ لوگ پھول لیتے آئیں۔باقی کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔" ہم پھولوں کے ذخیرے تک گئے۔ ذرا سی دیر میں ہم نے پھولوں اور بیجوں سے نہ صرف تھیلے بھر لیے بلکہ اپنی جیبیں بھی بھر لیں۔ پھر ہم دوڑتے ہوئے واپس لوٹے۔ جہاز پر پہنچ کر دیکھا کہ مرشد صاحب چائے سے شغل فرمارہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی اُس نے زور سے کہا، "بھئی واہ وا، کیسی عمدہ خوشبو آرہی ہے۔" علامہ دانش نے مختصر طور سے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو بیان کیا۔ میں نے کہا، "کیا ان لوگوں کا جہاز ابھی تک زمین پر موجود ہے؟"
مرشد نے بہت مختصر سا جواب دیا، "جی ہاں!" میں نے حیران ہو کر پوچھا، "وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ اُسے تو اب تک چلا جانا چاہیے تھا۔" کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "شاید ان کے جہاز میں کچھ خرابی ہو گئی ہے؟" "اب پہیلیاں تو نہ بجھواؤ" میں نے بے چینی سے کہا۔ کپتان مرشد نے چائے کی پیالی تپائی پر رکھ دی اور کہا، "ارے بھولے بادشاہ جیسے ہمیں ان کے آنے کی امید نہیں تھی، اسی طرح وہ بھی ہمارے آنے سے بے خبر تھے۔ جیسے ہی ان کا جہاز زمین پر اُترا میں فوراً پہچان گیا کہ یہ کون ذات شریف ہیں۔ جہاز میں صرف دو آدمی تھے اور وہ دونوں ہی پھولوں کی تلاش میں چل دیے۔ یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ کم از کم پائلٹ کو ضرور جہاز کے نزدیک کھڑا ہونا چاہیے تھا۔"
میں نے بےتابی سے پوچھا، "پھر کیا ہوا؟" کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "ہونا کیا تھا؟ میں اور آزونا جہاز کی طرف لڑھک گئے اور اس کا اسپارکنگ پلگ نکال لائے۔ بس جہاز اب تک زمین پر آرام کر رہا ہے۔"
پھر کپتان مرشد علامہ دانش سے مخاطب ہوا، "کیا یہ اُچکا پیدل گھر پہنچ سکتا ہے؟" علامہ نے کہا، "ہاں، کیوں نہیں؟ یہ جنگل کے چپے چپے سے واقف ہے۔ اسے شہر تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئے گی۔ یہ علاقہ جنگلی جانوروں سے بھی محفوظ ہے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "شہر تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگ جائے گا؟"
علامہ کچھ سوچ کر بولے، "کوئی چھے ہفتے۔" کپتان مرشد نے پوچھا، "آپ اس عرصے میں عطر اپنے نام پر رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔"
علامہ بولے، "بہت آسانی سے۔"
کپتان مرشد بولا، "میرا فیصلہ ہے کہ رامن اور اس کے ساتھی پیدل واپس جائیں گے۔ اب آپ لوگ جلدی سے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ جائیں۔ رامن اور اس کے ساتھی کو جہاز کی خرابی کا علم ہو گیا تو وہ ہماری تلاش میں ادھر آئیں گے اور خون خرابے تک نوبت آجائے گی؟" علامہ بولے، "ممکن ہے کہ وہ واپس پہنچ کر کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم پلگ ان کے حوالے کر دیں۔" مرشد چڑ کر بولا، "جناب یہ لوگ رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ آپ پر پستول تانے رہے کیا یہ جرم نہیں ہے؟ وہ آپ کا مال و متاع لوٹ کر لے گئے، کیا یہ جرم نہیں ہے؟ وہ آپ کی تحقیق کو دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دینا چاہتے ہیں، یہ تو ایسا ہی سنگین جرم ہے جیسا کہ ڈاکا ڈالنا۔ کوئی اور عدالت تو انہیں ڈرانے دھمکانے اور چوری کی سزا کے طور پر انھیں لمبا ہی بھیجتی۔ میں انھیں صرف چھے ہفتے کی سزا سنا رہا ہوں۔" مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا اور اُسے جھیل کے درمیان میں لے آیا۔ جونہی جہاز اُڑنے لگا دو آدمی پانی میں اُتر کر دوڑتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ مرشد نے کھڑکی سے منہ نکالا اور زور سے بولا، "الوداع۔"
چند لمحوں میں جہاز پانی کی سطح سے بلند ہو کر ہوا میں اُڑنے لگا۔ علامہ بتا رہے تھے کہ، "یہ خوشبو پھولوں کے مُرجھاتے ہی ختم ہو جائے گی اور ان کے پاس کوڑے کچرے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ ہمارا جہاز پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
نارنجی بیل
باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم سب برآمدے میں کھڑے بارش کا نظارہ کررہے تھے۔ ایک ٹیکسی ہمارے دفتر کے باہر آ کر رکی اور اس میں سے ہمارے معزز دوست علامہ دانش اترے۔ انہوں نے حسبِ معمول برساتی کوٹ پہنا ہوا تھا، سر پر ترکی ٹوپی، پاؤں میں فل بوٹ، ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چھتری تھی۔
علامہ کمرے میں داخل ہوئے، آزونا نے برساتی اتاری اور کھونٹی پر لٹکا دی۔ نصر نے پوچھا، "علامہ صاحب! خیریت تو ہے؟"
علامہ نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور مرشد کی طرف بڑھا دیا۔
مرشد بلند آواز سے خط کا مضمون پڑھنے لگا۔
"محترم علامہ صاحب!
ایک مریض جس کا نام رشید نوری ہے، سخت بیمار ہے اور وہ آپ سے ملنے کا بہت آرزومند ہے۔ مہربانی فرماکر آپ جلد تشریف لے آئیں۔
داروغہ پاگل خانہ فوزیہ، قاہرہ"
مرشد نے مسکرا کر کہا، "اللہ خیر کرے۔ اب تو پاگل خانے سے بھی خطوط آنے لگے۔"
علامہ نے تیز نظروں سے مرشد کو گھور کر دیکھا اور بولے، "رشید نوری ان لوگوں میں سے ہے جو تحقیق اور مطالعہ میں اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ میں تحقیقات کر رہے تھے کہ اچانک لاپتا ہوگئے۔ ڈیڑھ سال بعد اطلاع ملی کہ یہ پاگل خانے میں بند ہیں۔"
کپتان مرشد نے پوچھا، "اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟"
علامہ نے کہا، "اب ہمیں قاہرہ چلنا ہے۔"
موسم خوشگوار ہوتے ہی ہم قاہرہ کی طرف پرواز کرنے لگے۔ دو گھنٹے بعد ہمارا ہیلی کاپٹر قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترا۔ ہم رشید نوری سے ملے تو اس کاحال بہت خراب تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ تھوڑی دیر کا مہمان ہے۔
رشید نوری نے کہا، "علامہ صاحب! میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ کو وسطی افریقہ کےسفر کا حال سنا سکوں۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش رہا۔ پھر اس نے اپنی داستان شروع کی:
"میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ کے جنگلوں میں کام کر رہا تھا کہ راستہ بھٹک کے غیر آباد اور سنسان صحرا کی طرف جا نکلا۔ صحرا کے اندر ایک پہاڑی سلسلہ تھا۔ میرے ساتھ جو قلی تھے ان میں عجیب طرح کی بےچینی پیدا ہوگئی۔ ایک قلی نے سواحلی زبان میں مجھے بتایا کہ ان پہاڑوں پے بھوت پریت رہتے ہیں جو لوگوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے آگے جانے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں ہر صورت آگے جانا چاہتا ہوں تو ان جنگلی لوگوں نے سامان پھینک دیا اور وہاں سے بھاگ گئے۔ میں یہ صورت حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور پہاڑیوں کے پاس جا پہنچا۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ پہاڑی کے پاس دور دور تک خار دار پودے اگے ہوئے تھے، جو چھو جائیں تو جسم میں شدید جلن پیدا ہوجاتی ہے۔ میں ابھی ان پودوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہاچانک کہیں سے عجیب الخلقت لوگوں کا ایک غول برآمد ہوا اور ان لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان لوگوں کا رنگ سفید تھا، سنگ مرمر کی طرح سفید۔ لیکن اس میں زندگی کی گرمی کے بجائے موت کی زردی پائی جاتی تھی۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ شاید وہ اتنی دیر بولتے بولتے تھک گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا، "وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گئے۔ وہاں زمین بالکل ہموار تھی اور وہاں پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ یہ لوگ ڈابو قبیلے کے تھے اور دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے کاشتکاری میں کمال حاصل کرلیا تھا اور ایسے ایسے پودے اور جڑی بوٹیاں دریافت کرلی تھیں جن کا علم دنیا والوں کو بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ایسی طاقت بخش دوائیں تیار کرلی تھیں جن کے استعمال سے انسان کی صحت اور قوت بحال رہتی اور وہ بہت عرصے تک بڑھاپے سے محفوظ رہتا ہے۔"
یہ کہہ کے رشید نوریکچھ دیر کے لیے پھر خاموش ہوگیا۔
اس نے پھر کہا، "پھر ان کا بڑا پجاری آگیا۔ اس نے ایک تیز نوکدار چیز میرے ماتھے میں چبھودی۔ میں درد کی شدت سے بےہوش ہوگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو پجاری نے کہا، "اب تم ہمیشہ کے لیے ہمارے غلام بن کر رہو گے۔ میں نے تمہارے سے مین ایک بیج کاشت کردیا ہے۔ صرف ایک خاص عرق اس پودے کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ جب تک تم یہ عرق پیتے رہو گے اس بیج کی نشونما رکی رہے گی۔ جب تم عرق پینا چھوڑ دوگے تو یہ پودا جڑ پکڑ لے گا۔ اس کی جڑیں تمہارے دماغ میں پیوست ہوجائیں گی اور تم سے پٹخ پٹخ کر مرجاؤ گے۔"
میں ایک سال تک ان لوگوں پاس مقیم رہا۔ مین نے ان لوگوں کے طور طریقے دیکھے۔ وہ جو عجیب و غریب پودے کاشت کرتے تھے۔ میں ان کی قید سے فرار ہوگیا۔ میں بہت تکلیفیں ا ٹھا کر ساحل تک پہنچا۔ وہاں سے ایک کشتی میں سوار ہو کر قاہرہ پہنچ گیا۔
یہاں پہنچتے ہی میرے سر میں تکلیف ہونے لگی۔ میں جان گیا کہ پجاری نے میرے سر مین جو بیج اگایا تھا، اس نے جڑ پکڑ لی ہے۔ میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن یہ مرض کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔ ایک ڈاکٹر نے فیصلہ دے دیا کہ جنگلوں میں مارے مارے پھرنے سے میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ چناں چہ لوگوں نے نے مجھے پاگل خانے میں بند کروادیا۔"
یہ کہہ کے رشید نوری کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ علامہ کا دل بھی بھر آیا۔ وہ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے رہے اور رشید نوری کو تسلی و تشفی دیتے رہے۔
جب ہم وہاں سے لوٹے تو علامہ کا مزاج بہت برہم تھا۔ داروغہ پاگل خانے نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو علامہ جھڑک کر بولے، "دنیا کے سب سے بڑے پاگل! اپنا ناپاک ہاتھ دور رکھ۔ تمہیں تو پاگل اور ہوش مند کا فرق تک معلوم نہیں ہے۔"
رشید نوری کو علامہ نے ایک بوٹی کھلائی جس سے اس بیج کا اثر زائل ہوگیا۔
راستے میں علامہ نے بار بار یہ مصرعہ پڑھا، "خرد کا م جنوں پڑگیا جنوں کا خرد"
علامہ دانش نے کہا، "میرا ارادہ ہے کہ میں وسطی افریقہ جاکر خود تحقیق کروں۔ مجھے نباتات سے بہت دلچسپی ہے اور پھر وہاں عجیب و غریب لوگ بھی تو ہیں جو کئی سو سالوں سے وہاں آباد ہیں۔"
آزونا نے دبی دبی آواز میں کہا، "کہیں ہمارا حشر بھی رشید نوری جیسا نہ ہو۔"
کپتان مرشد نے ڈانٹ کر کہا، "چپ نالائق! ایسی فضول باتیں نہیں کرتے۔"
کئی دن بعد ہم وسطی افریقہ پہنچے۔یہ سفر خاصا دشوار ثابت ہوا۔ ہم بہت سا ضروری اور غیرضروری سامان اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ رشید نوری نے بہت اچھی طرح ہمیں راستہ سمجھا دیا تھا۔ اس لیےصحرائی پہاڑیوں تک پہنچنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ پہاڑی کے چاروں طرف دلفریب گھنا جنگل تھا۔ درختوں اور پودوں کا رنگ بہت گہرا سبز تھا۔ ہم نے پہاڑی کے اوپر پرواز کی۔ اس پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ اس کے درمیاںن ایک مندر تھا۔ علامہ دانش نے کہا، "رشید نوری کی کہانی کا یہ حصہ تو صحیح ثابت ہوا۔ اب بستی کے لوگوں کے متعلق تحقیقات کرنا باقی ہیں۔"
ہم نے اپنا جہاز ریگستان میں اتار لیا۔ ہم جہاز سے نیچے اترے۔ ہمارے نزدیک ہی پہاڑی تھی۔ اس کے آس پاس بہت اونچے اونچے درخت اور بےحد سنز رنگ کے پودے اگے ہوئے تھے۔ علامہ دانش نے جیب سے نوٹ بک نکالی اور کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے سامنے ناگ پھنی کے بڑے بڑے پودے تھے جن کے کانٹے ایک گز لمبے تھے۔ بعض پودے تو اتنے بڑے تھے کہانہیں دیکھ کر دہشت ہوتی تھی۔
میں ناگ پھنی کے پودوں کی طرف چلا۔ اچانک علامہ نے چیخ کر کہا، "ٹھہرجاؤ، آگے خطرہ ہے۔"
میں ٹھٹھک کر ٹھہر گیا۔ علامہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور زمین کی طرف اشارہ کرکے بولے، "یہ بھی دیکھا ہے تم نے؟"
میں نے غور سے زمین کی طرف دیکھا۔ اللہ کی پناہ، یوں لگتا تھا کہ جیسے بےشمار برچھیاں زمین سے سر نکالے کھڑی ہیں۔ علامہ دانش نے کہا، "اس کا نام ہسپانوی خنجر ہے۔ ویسے تو یہ ایک قسم کی گھاس ہےمگر تیزی میں خنجر و تلوار سے کم نہیں ہے۔ یہ موٹے سے موٹے چمڑے کو کاغذ کی طرح پھاڑ دیتا ہے۔ اگر تم ان پر پاؤں رکھ دیتے تو ایسا زخم پڑ جاتا جو بہت مشکل سے ٹھیک ہوتا۔ یہ گھاس پہاڑی کے دامن میں بیس فٹ چوڑائی میں پھیلی ہوئی تھی۔
میں نے کہا، "یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پودے خود نہیں اگے، بلکہ انہیں باقاعدہ کاشت کیا گیا ہے۔"
مرشد نے کہا، "یہاں کسی ٹینک میں بیٹھ کر ہی گزرا جاسکتا ہے۔"
علامہ بولے، "ایک راستہ ان ہی کانٹے دار پودوں اور خنجر کھاس کے درمیان سے ہوتا ہوا پہاڑی کے اوپر جاتا ہے۔"
بہت مشکل سے ہم نے یہ راستہ تلاش کرلیا۔ یہ بہت ٹیڑھا ترچھا اور تنگ سا راستہ تھا۔ مرشد بولا، "میں ان پہاڑی لوگوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی فوج بھی پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرے تو اسے ایک قطار بنا کر یہاں سے گزرنا ہوگا۔"
علامہ بولے، "پھر اسے کاردار پودوں کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ ان کے کانٹے ایسے زہریلے اور خطرناک ہیں کہ اگر کسی کو چبھ جائیں تو وہ تڑپ تڑپ کر مرجائے گا لیکن اس کا علاج نہیں ہو سکے گا۔"
میں نے پوچھا، "اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟"
علامہ بولے، "زہر آلود گل لالہ، جو دیکھنے میں بےحد خوبصورت پھول ہے لیکن اس سے زہریلی گیس نکلتی ہے۔ ان کے پاس سے گزرنے والا چند منٹ میں بےہوش ہوکر گر پڑے۔ اس کے علاوہ آدم خور درخت ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے پاس سے گزرنے کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی شاخیں اسے چکڑ لیں گی اور ذرا سی دیر میں اس کا گوشت پوست کھا جائیں گی۔ بچھوا بوٹی ہے جو ڈنک مار کر ہلاک کردیتی ہےاور۔۔۔"
مرشد گھبرا کر بولا، "آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں ان باتوں سے آگاہ کردیا۔ میرا ابھی خودکشی کا ارادہ نہیں ہے۔ میرا ارادہ تو یہ ہے کہ آپ ابھی جہاز پر تشریف لے چلیے۔"
علامہ دانش بولے، "کاش ہم ان لوگوں کو کسی طرح سمجھا سکتے کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔"
ہم نے خنجروں کی باڑ کے ارد گرد پھر دیکھا، لیکن ہمیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔
آزونا کانپتے ہوئے بالا، "مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہجیسے لوگ ہماری نگرانی کر رہے ہیں اور چھپ کر ہماری باتیں سن رہے ہیں۔"
رات کے وقت ہم بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ جب نیند نے غلبہ کیا تو ہم سونے کے لیے بستروں پر لیٹ گئے۔ ارے صاحب! بستر کیسے؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جہاز کے نیچے نرم نرم ریت پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے۔ ہم نے باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔
سب سے پہلے آزونا کی باری تھی۔ اس نے آدھی رات کے وقت ہمیں جگایا۔ وہ بولا، "مجھے بےچینی محسوس ہورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ لیکن کیا؟ یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔"
جب علامہ نے دریافت کیا تو وہ بولا، "مجھے ایسی آواز سنائی دی کہ جیسے اولے پڑ رہے ہوں، حالاں کہ مطلع صاف ہے۔"
اس پر مرشد جھنجلا کر بولا، "تم نرے وہمی ہو۔"
آزونا قسم کھا کر بولا، "میری منہ پر مٹر کے دانے کے برابر کوئی چیز بہت زور سے ٹکرائی، پھر یوں محسوس ہوا جیسے اولے گر رہے ہوں۔"
ہم نے ٹاچ کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا لیکن ہمیں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ اب مرشد کی باری تھی۔ وہ صبح تین بجے تک پہرا دیتا رہا۔ پھر اس نے مجھے جگایا۔ اس نے بھی کوئی بات نہیں دیکھی اور نہ کوئی آواز سنی۔ وہ بستر پر لیٹ کر سوگیا۔ اب میری باری تھی۔ میں ایک گھنٹے سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا۔ صبح سے ذرا دیر پہلےمیں نے عجیب سی آواز سنی۔ پتوں میں ہوا کے گزرنے سے جو سرسراہٹ ہوتی ہے، یہ آواز اس جیسی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ سرسراہٹ چاروں طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ پھر کوئی چیز میرے پاؤں پر رینگنے لگی۔ میں نے جھک کر دیکھا، یہ کوئی کیڑا سا تھا، جو زمین سے باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اسے کیچوا سمجھا اس لیے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ اب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اللہ کی پناہ، ایک دو نہیں ہزاروں کیڑے زمین سے نکل رہے تھے۔ میں نے جھک کر غور سے دیکھا تب معلوم ہوا کہ جنہیں مین کیڑے سمجھ رہا تھا وہ پودے تھے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودے بڑھنے لگے اور ان سے شاخیں اور پتیاں پھوٹنے لگیں۔ میں نے کئی پودے دیکھے ہیں جو تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ بانس کا پودا ایک دن میں ڈیڑھ دو فٹ تک بڑھ جاتا ہے لیکن ہمارے جہاز کے ارد گرد جو بیل اگ رہی تھی اس کے بڑھنے کی رفتار تو حیرت انگیز تھی۔ پہلے تو مین کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیلیں دو تین فٹ سے زیادہ لمبی ہوگئیں۔ کچھ بیلیں تو ہمارے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
پھر اچانک مجھے ہوش آگیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آزونا نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔اس نے جو ژالہ باری کی آواز سنی تھی وہ ان بیجوں کا چھڑکاؤ تھا جو پہاڑی باشندوں نے اوپر سے پھینکے تھے۔
جب یہ بیج زمین پر گرے تو انہوں نے جڑ پکڑلی اور اب یہ بیلیں طوفانی رفتار سے بڑھتی جاہی تھیں۔تھوڑی دیر بعد یہ جہاز کو اپنی لپیٹ مین لے لیں گی اور اس کا اڑنا ناممکن ہوجائے گا۔ مین نے ایک چیخ ماری جسے سن کر سب بیدار ہوگئے اور میری طرف دوڑنے۔
اب روشنی کافی پھیل چکی تھی اور ہر چیز صاف نظر آرہی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی یہ نارنجی رنگ کی بیل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے دیوانوں کی طرح بیل اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکنا شروع کیا لیکن ادھر ہم ایک طرف سے بیل اکھاڑتے یہ دوسری طرف سے جہاز پر چڑھنے لگتی۔ مرشد چلا کر بولا، "جہاز پر سوار ہوجاؤ۔ ہمیں فوراً پرواز کرنا ہے۔"
سب لوگ جہاز پر سوار ہوگئے۔ بدقسمتی سے میرا پاؤں بیل میں الجھ گیا اور میں دھڑام سے زمین پر جا گرا۔ اس سے پہلے مین زمین سے اٹھ کھڑا ہوتا، بیل کی شاخیں مجھے جکڑنے لگیں۔ میں نے بیل کو اکھاڑ اکھاڑ کے پھینکا اور گرتا پڑتا جہاز کی طرف بھاگا۔ مین بہت مشکل سے جہاز پر سوار ہوسکا۔
پیل کی لچھے دار شاخیں ابھی تک میرے گلے کا ہار بنی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے میں کوئی بہادر سورما ہوں اور کسی جنگ سے فتح یاب ہو کر لوٹا ہوں۔
بہرحال، ہم جہاز پر سوار ہوگئے۔ کپتان مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا۔ جب جہاز نے پرواز کی تو اس کے طاقتور انجن نے ان بیلوں کے پڑخچے اڑا دیے۔ ہم نے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نارنجی بیل دور دور تک پھیل چکی تھی اور اب پہاڑی کی طرف سیلاب کی طرح بڑھ رہی تھی۔
علامہ دانش نے کہا، "تم نے وہ مثل سنی ہوگی کہ چاہ کن راہ درپیش۔ یعنی جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود اس میں گرجاتا ہے۔ اب اگر تم ان لوگوں کی تباہی کا منظر دیکھنا چاہو تو کچھ دیر کے لیےاور رک جاؤ۔"
میں نے پوچھا، "پھر کیا ہوگا؟"
علامہ بولے، "یہ طوفانی بیل اب کسی سے رکنے والی نہیں ہے۔ ذرا دیر بعد یہ پہاڑی پر چڑھ جائے گی اور۔۔۔" علامہ دانش کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ پھر بولے، "یہ تباہی انہوں نے خود اپنے ہاتھوں مول لی ہے۔"
کچھ دیر بعد جب ہم ایک چکر کاٹ کر واپس لوٹے تو ہم نے عجیب دہشت ناک منظر دیکھا۔ بیلوں نے پہاڑی پر چڑھ کر پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں سے لوگوں میں ایک عجیب سی بےچینی اور دہشت پائی جاتی تھی۔ ذرا دیر بعد بیلیں پہاڑی کے اوپر پھیلنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بیل آدمیوں سے لپٹنے لگی۔ وہ لوگ بےبسی کے عالم میں چیخ و پکار کر رہے تھے لیکن اب ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ علامہ ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بولے، "افسوس، یہ لوگ خود ہی اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں۔"
جب ہم واپس لوٹے تو دور دور تک نارنجی بیل پھیلی ہوئی تھی۔
علامہ کمرے میں داخل ہوئے، آزونا نے برساتی اتاری اور کھونٹی پر لٹکا دی۔ نصر نے پوچھا، "علامہ صاحب! خیریت تو ہے؟"
علامہ نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور مرشد کی طرف بڑھا دیا۔
مرشد بلند آواز سے خط کا مضمون پڑھنے لگا۔
"محترم علامہ صاحب!
ایک مریض جس کا نام رشید نوری ہے، سخت بیمار ہے اور وہ آپ سے ملنے کا بہت آرزومند ہے۔ مہربانی فرماکر آپ جلد تشریف لے آئیں۔
داروغہ پاگل خانہ فوزیہ، قاہرہ"
مرشد نے مسکرا کر کہا، "اللہ خیر کرے۔ اب تو پاگل خانے سے بھی خطوط آنے لگے۔"
علامہ نے تیز نظروں سے مرشد کو گھور کر دیکھا اور بولے، "رشید نوری ان لوگوں میں سے ہے جو تحقیق اور مطالعہ میں اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ میں تحقیقات کر رہے تھے کہ اچانک لاپتا ہوگئے۔ ڈیڑھ سال بعد اطلاع ملی کہ یہ پاگل خانے میں بند ہیں۔"
کپتان مرشد نے پوچھا، "اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟"
علامہ نے کہا، "اب ہمیں قاہرہ چلنا ہے۔"
موسم خوشگوار ہوتے ہی ہم قاہرہ کی طرف پرواز کرنے لگے۔ دو گھنٹے بعد ہمارا ہیلی کاپٹر قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترا۔ ہم رشید نوری سے ملے تو اس کاحال بہت خراب تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ تھوڑی دیر کا مہمان ہے۔
رشید نوری نے کہا، "علامہ صاحب! میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ کو وسطی افریقہ کےسفر کا حال سنا سکوں۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش رہا۔ پھر اس نے اپنی داستان شروع کی:
"میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ کے جنگلوں میں کام کر رہا تھا کہ راستہ بھٹک کے غیر آباد اور سنسان صحرا کی طرف جا نکلا۔ صحرا کے اندر ایک پہاڑی سلسلہ تھا۔ میرے ساتھ جو قلی تھے ان میں عجیب طرح کی بےچینی پیدا ہوگئی۔ ایک قلی نے سواحلی زبان میں مجھے بتایا کہ ان پہاڑوں پے بھوت پریت رہتے ہیں جو لوگوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے آگے جانے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں ہر صورت آگے جانا چاہتا ہوں تو ان جنگلی لوگوں نے سامان پھینک دیا اور وہاں سے بھاگ گئے۔ میں یہ صورت حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور پہاڑیوں کے پاس جا پہنچا۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ پہاڑی کے پاس دور دور تک خار دار پودے اگے ہوئے تھے، جو چھو جائیں تو جسم میں شدید جلن پیدا ہوجاتی ہے۔ میں ابھی ان پودوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہاچانک کہیں سے عجیب الخلقت لوگوں کا ایک غول برآمد ہوا اور ان لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان لوگوں کا رنگ سفید تھا، سنگ مرمر کی طرح سفید۔ لیکن اس میں زندگی کی گرمی کے بجائے موت کی زردی پائی جاتی تھی۔"
یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ شاید وہ اتنی دیر بولتے بولتے تھک گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا، "وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گئے۔ وہاں زمین بالکل ہموار تھی اور وہاں پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ یہ لوگ ڈابو قبیلے کے تھے اور دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے کاشتکاری میں کمال حاصل کرلیا تھا اور ایسے ایسے پودے اور جڑی بوٹیاں دریافت کرلی تھیں جن کا علم دنیا والوں کو بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ایسی طاقت بخش دوائیں تیار کرلی تھیں جن کے استعمال سے انسان کی صحت اور قوت بحال رہتی اور وہ بہت عرصے تک بڑھاپے سے محفوظ رہتا ہے۔"
یہ کہہ کے رشید نوریکچھ دیر کے لیے پھر خاموش ہوگیا۔
اس نے پھر کہا، "پھر ان کا بڑا پجاری آگیا۔ اس نے ایک تیز نوکدار چیز میرے ماتھے میں چبھودی۔ میں درد کی شدت سے بےہوش ہوگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو پجاری نے کہا، "اب تم ہمیشہ کے لیے ہمارے غلام بن کر رہو گے۔ میں نے تمہارے سے مین ایک بیج کاشت کردیا ہے۔ صرف ایک خاص عرق اس پودے کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ جب تک تم یہ عرق پیتے رہو گے اس بیج کی نشونما رکی رہے گی۔ جب تم عرق پینا چھوڑ دوگے تو یہ پودا جڑ پکڑ لے گا۔ اس کی جڑیں تمہارے دماغ میں پیوست ہوجائیں گی اور تم سے پٹخ پٹخ کر مرجاؤ گے۔"
میں ایک سال تک ان لوگوں پاس مقیم رہا۔ مین نے ان لوگوں کے طور طریقے دیکھے۔ وہ جو عجیب و غریب پودے کاشت کرتے تھے۔ میں ان کی قید سے فرار ہوگیا۔ میں بہت تکلیفیں ا ٹھا کر ساحل تک پہنچا۔ وہاں سے ایک کشتی میں سوار ہو کر قاہرہ پہنچ گیا۔
یہاں پہنچتے ہی میرے سر میں تکلیف ہونے لگی۔ میں جان گیا کہ پجاری نے میرے سر مین جو بیج اگایا تھا، اس نے جڑ پکڑ لی ہے۔ میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن یہ مرض کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔ ایک ڈاکٹر نے فیصلہ دے دیا کہ جنگلوں میں مارے مارے پھرنے سے میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ چناں چہ لوگوں نے نے مجھے پاگل خانے میں بند کروادیا۔"
یہ کہہ کے رشید نوری کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ علامہ کا دل بھی بھر آیا۔ وہ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے رہے اور رشید نوری کو تسلی و تشفی دیتے رہے۔
جب ہم وہاں سے لوٹے تو علامہ کا مزاج بہت برہم تھا۔ داروغہ پاگل خانے نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو علامہ جھڑک کر بولے، "دنیا کے سب سے بڑے پاگل! اپنا ناپاک ہاتھ دور رکھ۔ تمہیں تو پاگل اور ہوش مند کا فرق تک معلوم نہیں ہے۔"
رشید نوری کو علامہ نے ایک بوٹی کھلائی جس سے اس بیج کا اثر زائل ہوگیا۔
راستے میں علامہ نے بار بار یہ مصرعہ پڑھا، "خرد کا م جنوں پڑگیا جنوں کا خرد"
علامہ دانش نے کہا، "میرا ارادہ ہے کہ میں وسطی افریقہ جاکر خود تحقیق کروں۔ مجھے نباتات سے بہت دلچسپی ہے اور پھر وہاں عجیب و غریب لوگ بھی تو ہیں جو کئی سو سالوں سے وہاں آباد ہیں۔"
آزونا نے دبی دبی آواز میں کہا، "کہیں ہمارا حشر بھی رشید نوری جیسا نہ ہو۔"
کپتان مرشد نے ڈانٹ کر کہا، "چپ نالائق! ایسی فضول باتیں نہیں کرتے۔"
کئی دن بعد ہم وسطی افریقہ پہنچے۔یہ سفر خاصا دشوار ثابت ہوا۔ ہم بہت سا ضروری اور غیرضروری سامان اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ رشید نوری نے بہت اچھی طرح ہمیں راستہ سمجھا دیا تھا۔ اس لیےصحرائی پہاڑیوں تک پہنچنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ پہاڑی کے چاروں طرف دلفریب گھنا جنگل تھا۔ درختوں اور پودوں کا رنگ بہت گہرا سبز تھا۔ ہم نے پہاڑی کے اوپر پرواز کی۔ اس پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ اس کے درمیاںن ایک مندر تھا۔ علامہ دانش نے کہا، "رشید نوری کی کہانی کا یہ حصہ تو صحیح ثابت ہوا۔ اب بستی کے لوگوں کے متعلق تحقیقات کرنا باقی ہیں۔"
ہم نے اپنا جہاز ریگستان میں اتار لیا۔ ہم جہاز سے نیچے اترے۔ ہمارے نزدیک ہی پہاڑی تھی۔ اس کے آس پاس بہت اونچے اونچے درخت اور بےحد سنز رنگ کے پودے اگے ہوئے تھے۔ علامہ دانش نے جیب سے نوٹ بک نکالی اور کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے سامنے ناگ پھنی کے بڑے بڑے پودے تھے جن کے کانٹے ایک گز لمبے تھے۔ بعض پودے تو اتنے بڑے تھے کہانہیں دیکھ کر دہشت ہوتی تھی۔
میں ناگ پھنی کے پودوں کی طرف چلا۔ اچانک علامہ نے چیخ کر کہا، "ٹھہرجاؤ، آگے خطرہ ہے۔"
میں ٹھٹھک کر ٹھہر گیا۔ علامہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور زمین کی طرف اشارہ کرکے بولے، "یہ بھی دیکھا ہے تم نے؟"
میں نے غور سے زمین کی طرف دیکھا۔ اللہ کی پناہ، یوں لگتا تھا کہ جیسے بےشمار برچھیاں زمین سے سر نکالے کھڑی ہیں۔ علامہ دانش نے کہا، "اس کا نام ہسپانوی خنجر ہے۔ ویسے تو یہ ایک قسم کی گھاس ہےمگر تیزی میں خنجر و تلوار سے کم نہیں ہے۔ یہ موٹے سے موٹے چمڑے کو کاغذ کی طرح پھاڑ دیتا ہے۔ اگر تم ان پر پاؤں رکھ دیتے تو ایسا زخم پڑ جاتا جو بہت مشکل سے ٹھیک ہوتا۔ یہ گھاس پہاڑی کے دامن میں بیس فٹ چوڑائی میں پھیلی ہوئی تھی۔
میں نے کہا، "یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پودے خود نہیں اگے، بلکہ انہیں باقاعدہ کاشت کیا گیا ہے۔"
مرشد نے کہا، "یہاں کسی ٹینک میں بیٹھ کر ہی گزرا جاسکتا ہے۔"
علامہ بولے، "ایک راستہ ان ہی کانٹے دار پودوں اور خنجر کھاس کے درمیان سے ہوتا ہوا پہاڑی کے اوپر جاتا ہے۔"
بہت مشکل سے ہم نے یہ راستہ تلاش کرلیا۔ یہ بہت ٹیڑھا ترچھا اور تنگ سا راستہ تھا۔ مرشد بولا، "میں ان پہاڑی لوگوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی فوج بھی پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرے تو اسے ایک قطار بنا کر یہاں سے گزرنا ہوگا۔"
علامہ بولے، "پھر اسے کاردار پودوں کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ ان کے کانٹے ایسے زہریلے اور خطرناک ہیں کہ اگر کسی کو چبھ جائیں تو وہ تڑپ تڑپ کر مرجائے گا لیکن اس کا علاج نہیں ہو سکے گا۔"
میں نے پوچھا، "اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟"
علامہ بولے، "زہر آلود گل لالہ، جو دیکھنے میں بےحد خوبصورت پھول ہے لیکن اس سے زہریلی گیس نکلتی ہے۔ ان کے پاس سے گزرنے والا چند منٹ میں بےہوش ہوکر گر پڑے۔ اس کے علاوہ آدم خور درخت ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے پاس سے گزرنے کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی شاخیں اسے چکڑ لیں گی اور ذرا سی دیر میں اس کا گوشت پوست کھا جائیں گی۔ بچھوا بوٹی ہے جو ڈنک مار کر ہلاک کردیتی ہےاور۔۔۔"
مرشد گھبرا کر بولا، "آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں ان باتوں سے آگاہ کردیا۔ میرا ابھی خودکشی کا ارادہ نہیں ہے۔ میرا ارادہ تو یہ ہے کہ آپ ابھی جہاز پر تشریف لے چلیے۔"
علامہ دانش بولے، "کاش ہم ان لوگوں کو کسی طرح سمجھا سکتے کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔"
ہم نے خنجروں کی باڑ کے ارد گرد پھر دیکھا، لیکن ہمیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔
آزونا کانپتے ہوئے بالا، "مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہجیسے لوگ ہماری نگرانی کر رہے ہیں اور چھپ کر ہماری باتیں سن رہے ہیں۔"
رات کے وقت ہم بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ جب نیند نے غلبہ کیا تو ہم سونے کے لیے بستروں پر لیٹ گئے۔ ارے صاحب! بستر کیسے؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جہاز کے نیچے نرم نرم ریت پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے۔ ہم نے باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔
سب سے پہلے آزونا کی باری تھی۔ اس نے آدھی رات کے وقت ہمیں جگایا۔ وہ بولا، "مجھے بےچینی محسوس ہورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ لیکن کیا؟ یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔"
جب علامہ نے دریافت کیا تو وہ بولا، "مجھے ایسی آواز سنائی دی کہ جیسے اولے پڑ رہے ہوں، حالاں کہ مطلع صاف ہے۔"
اس پر مرشد جھنجلا کر بولا، "تم نرے وہمی ہو۔"
آزونا قسم کھا کر بولا، "میری منہ پر مٹر کے دانے کے برابر کوئی چیز بہت زور سے ٹکرائی، پھر یوں محسوس ہوا جیسے اولے گر رہے ہوں۔"
ہم نے ٹاچ کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا لیکن ہمیں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ اب مرشد کی باری تھی۔ وہ صبح تین بجے تک پہرا دیتا رہا۔ پھر اس نے مجھے جگایا۔ اس نے بھی کوئی بات نہیں دیکھی اور نہ کوئی آواز سنی۔ وہ بستر پر لیٹ کر سوگیا۔ اب میری باری تھی۔ میں ایک گھنٹے سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا۔ صبح سے ذرا دیر پہلےمیں نے عجیب سی آواز سنی۔ پتوں میں ہوا کے گزرنے سے جو سرسراہٹ ہوتی ہے، یہ آواز اس جیسی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ سرسراہٹ چاروں طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ پھر کوئی چیز میرے پاؤں پر رینگنے لگی۔ میں نے جھک کر دیکھا، یہ کوئی کیڑا سا تھا، جو زمین سے باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اسے کیچوا سمجھا اس لیے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ اب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اللہ کی پناہ، ایک دو نہیں ہزاروں کیڑے زمین سے نکل رہے تھے۔ میں نے جھک کر غور سے دیکھا تب معلوم ہوا کہ جنہیں مین کیڑے سمجھ رہا تھا وہ پودے تھے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودے بڑھنے لگے اور ان سے شاخیں اور پتیاں پھوٹنے لگیں۔ میں نے کئی پودے دیکھے ہیں جو تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ بانس کا پودا ایک دن میں ڈیڑھ دو فٹ تک بڑھ جاتا ہے لیکن ہمارے جہاز کے ارد گرد جو بیل اگ رہی تھی اس کے بڑھنے کی رفتار تو حیرت انگیز تھی۔ پہلے تو مین کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیلیں دو تین فٹ سے زیادہ لمبی ہوگئیں۔ کچھ بیلیں تو ہمارے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
پھر اچانک مجھے ہوش آگیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آزونا نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔اس نے جو ژالہ باری کی آواز سنی تھی وہ ان بیجوں کا چھڑکاؤ تھا جو پہاڑی باشندوں نے اوپر سے پھینکے تھے۔
جب یہ بیج زمین پر گرے تو انہوں نے جڑ پکڑلی اور اب یہ بیلیں طوفانی رفتار سے بڑھتی جاہی تھیں۔تھوڑی دیر بعد یہ جہاز کو اپنی لپیٹ مین لے لیں گی اور اس کا اڑنا ناممکن ہوجائے گا۔ مین نے ایک چیخ ماری جسے سن کر سب بیدار ہوگئے اور میری طرف دوڑنے۔
اب روشنی کافی پھیل چکی تھی اور ہر چیز صاف نظر آرہی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی یہ نارنجی رنگ کی بیل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے دیوانوں کی طرح بیل اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکنا شروع کیا لیکن ادھر ہم ایک طرف سے بیل اکھاڑتے یہ دوسری طرف سے جہاز پر چڑھنے لگتی۔ مرشد چلا کر بولا، "جہاز پر سوار ہوجاؤ۔ ہمیں فوراً پرواز کرنا ہے۔"
سب لوگ جہاز پر سوار ہوگئے۔ بدقسمتی سے میرا پاؤں بیل میں الجھ گیا اور میں دھڑام سے زمین پر جا گرا۔ اس سے پہلے مین زمین سے اٹھ کھڑا ہوتا، بیل کی شاخیں مجھے جکڑنے لگیں۔ میں نے بیل کو اکھاڑ اکھاڑ کے پھینکا اور گرتا پڑتا جہاز کی طرف بھاگا۔ مین بہت مشکل سے جہاز پر سوار ہوسکا۔
پیل کی لچھے دار شاخیں ابھی تک میرے گلے کا ہار بنی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے میں کوئی بہادر سورما ہوں اور کسی جنگ سے فتح یاب ہو کر لوٹا ہوں۔
بہرحال، ہم جہاز پر سوار ہوگئے۔ کپتان مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا۔ جب جہاز نے پرواز کی تو اس کے طاقتور انجن نے ان بیلوں کے پڑخچے اڑا دیے۔ ہم نے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نارنجی بیل دور دور تک پھیل چکی تھی اور اب پہاڑی کی طرف سیلاب کی طرح بڑھ رہی تھی۔
علامہ دانش نے کہا، "تم نے وہ مثل سنی ہوگی کہ چاہ کن راہ درپیش۔ یعنی جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود اس میں گرجاتا ہے۔ اب اگر تم ان لوگوں کی تباہی کا منظر دیکھنا چاہو تو کچھ دیر کے لیےاور رک جاؤ۔"
میں نے پوچھا، "پھر کیا ہوگا؟"
علامہ بولے، "یہ طوفانی بیل اب کسی سے رکنے والی نہیں ہے۔ ذرا دیر بعد یہ پہاڑی پر چڑھ جائے گی اور۔۔۔" علامہ دانش کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ پھر بولے، "یہ تباہی انہوں نے خود اپنے ہاتھوں مول لی ہے۔"
کچھ دیر بعد جب ہم ایک چکر کاٹ کر واپس لوٹے تو ہم نے عجیب دہشت ناک منظر دیکھا۔ بیلوں نے پہاڑی پر چڑھ کر پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں سے لوگوں میں ایک عجیب سی بےچینی اور دہشت پائی جاتی تھی۔ ذرا دیر بعد بیلیں پہاڑی کے اوپر پھیلنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بیل آدمیوں سے لپٹنے لگی۔ وہ لوگ بےبسی کے عالم میں چیخ و پکار کر رہے تھے لیکن اب ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ علامہ ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بولے، "افسوس، یہ لوگ خود ہی اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں۔"
جب ہم واپس لوٹے تو دور دور تک نارنجی بیل پھیلی ہوئی تھی۔