خنجر سنبھال کر ٹوٹ نہیں پڑا تھا دشمنوں پر ۔۔۔۔۔ وہ کیڑے مکوڑوں میں سے نہیں تھا ۔ ذہین تھا ۔اس نے پوری حویلی ویران کردی لیکن قانون کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچ سکا تھا ۔“
ایک نوجوان نے اپنا ہاتھ اُٹھایا ۔
ہاں کہو ۔۔۔۔۔۔! کیا کہنا چاہتے ہو ! قد آور آدمی نے اُس کی طرف دیکھ کر کہا ۔ !
“حویلی والوں تک بھی تو قانون کا ہاتھ نہیں پہنچ سکا تھا!“ نوجوان بولا ۔ !
قانون کے محافظوں کی چشم پوشی اس کی وجہ تھی ۔ اگر جلی ہوئی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا تو ایک آدھ کے جسم سے گولیاں ضرور برآمد ہوتیں ۔لیکن اس بچے کے انتقام نے کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑا تھا جس سے اس کا سراغ قانون کے محافظوں کو مل سکتا ۔اس کے مقابلے میں حویلی والے بھی کیڑے مکوڑے تھے ! ۔۔۔۔۔۔تو کہنے کا مطلب یہ کہ ذہانت ہی برتری کی علامت ہے ۔
کوئی اور سوال ۔؟“
فوری طور پر کسی نے کچھ نہیں پوچھا تھا ۔ پھر ایک لڑکی نے ہاتھ اٹھایا ۔
“ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ پوچھو ۔!“
“کیا اب اس حویلی کا کوئی فرد زندہ نہیں ۔۔۔۔ ! “
“صرف ایک فرد ۔۔۔۔۔۔ جس کی موت سے پورے ملک میں تہلکہ مچ جائے گا ۔تم دیکھ ہی لو گے ۔!“
“ اور اس کا سراغ بھی کوئی نہ پاسکے گا ۔!“
“ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ “
کیا وہ کوئی اہم شخصیت ہے ۔!“
“ بہت زیادہ اہم بھی نہیں ہے ۔حکمران جماعت کی بساطِ سیاست کا ایک مہرہ سمجھ لو ۔!“
“ تب تو اس کا امکان ہے کہ انہیں سراغ مل جائے ۔اُس سے وہ چشم پوشی نہیں کر سکیں گے ۔!“
“اس بچے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا ۔اب بھی یہی ہوگا ۔! “
“میں نہیں سمجھ سکی جناب ۔! “
“ ان کی توجہ صرف اپوزیشن کی طرف مبذول ہوگی ۔! “
“ ہاں یہ تو ہے ۔!“ کسی نے کہا ۔
قد آور آدمی نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔اس بچے کو کوئی نہیں جانتا کیونکہ وہ بہت چھوٹی عمر میں ننھیال سے بھی بھاگ نکلا تھا ۔ بڑی دشواریوں سے اس نے اعلٰی تعلم حاصل کی ۔ لیکن طبعیت کا یہ عالم تھا کہ شاعری شروع کی تو دہشت تخلص کیا ۔۔۔۔۔۔ اور بھی یونیورسٹی میں علّامہ دہشت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اور اس کی غیبت میں بعض طالب علم سے علّامہ دہشت ناک بھی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی تم کیا کہنا چاہتی ہو ؟
آپ نے یہ کہانی ہمیں کیوں سنائی ہے ؟
جن پر اعتماد ہوجاتا ہے انہیں یہ کہانی ضرور سناتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ تم جیسے بےشمار شاگرد پورے ملک میں پہلے ہوئے ہیں اور جہاں بھی ہیں ذہانت کو بروئے کار لا کر بڑی بڑی پوزیشنیں حاصل کر چکے ہیں۔۔۔۔۔ کیا تم دسوں میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتے ہو ؟
ہرگز نہیں ۔“ سب بیک زبان بولے ۔“ آپ ہماری زندگی ہیں “
اس سال پانچ ہزار میں سے تم دس منتخب کئے گئے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ دس جو دس لاکھ پر بھی بھاری رہو گے ۔۔۔۔۔ ! اچھا ۔۔۔۔۔۔ ! عہد ۔! “ وہ ہاتھ اٹھا کر بولا ۔!
دسوں پھر قطار میں کھڑے ہوگئے ۔ اور بیک آواز کہنے لگے ۔ ہماری ذہانت کا سرچشمہ آپ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم کبھی آپ سے غداری نہیں کریں گے ۔!
لیکن مجھے اپنے سوال کا جواب نہیں ملا جناب ۔! لڑکی پھر ہاتھ اٹھا کر بولی ۔
کس سوال کا جواب ۔
ہمیں یہ کہانی کیوں سنائی گئی ہے ۔
یہ بتانے کے لیئے کہ جرم کی پردہ پوشی دو ہی طریقوں سے ممکن ہے ۔ یا تجوریوں کے دہانے کھول دو یا ذہانت کو بروئے کار لاؤ ۔۔۔ دولت کے بل بوتے پر کیئے جانے والے تمام اقدام کا اثر دیرپا نہیں ہوتا ۔اس لیئے اسے کیڑے مکوڑوں کے لیئے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ حویلی والوں نے دولت کے بل بوتے پر صرف اپنا تحفظ کیا تھا ۔ لیکن دوسرے ذہنوں سے اپنے جرائم کے نقوش نہیں مٹا سکے تھے ۔بے شک وہ عدالت تک نہ پہنچ سکے لیکن گاؤں کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ کچا مکان کس طرح تباہ ہوا ۔اب ذہانت کا کارنامہ دیکھو ! کوئی نہیں جانتا کہ حویلی کیسے تباہ ہوئی اور حویلی والوں کی اموات میں کس کا ہاتھ تھا ۔۔۔۔“
میں سمجھ گئی جناب !“ لڑکی نے طویل سانس لے کر کہا ۔