علامہ دہشتناک : صفحہ 18 - 19 : چھٹا صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




2duyvcg.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

زھرا علوی

محفلین
شگفتہ جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں اس صفحے پر میں نے کام کرنا ہے۔۔۔مجھے بتا دیں تاکہ میں اس پر کام شروع کروں۔۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

بالکل زھراء ، بلاتاخیر کام آغاز کر دیں ۔ یہ صفحہ ابھی تک کسی نے منتخب نہیں کیا لہذا آپ یہاں آغاز کر لیں۔

آپ اسے تحریر/ ٹائپ کرنے لگی ہیں ناں ؟
 

زھرا علوی

محفلین
جی ہاں
میں نے خود ہی کام تقسیم کر لیا ہے

میں ٹائپ کروں گی
سعود بھائی پہلی پروف ریڈنگ
محب علوی صاحب دوسری پروف ریڈنگ
شمشاد صاحب تیسری پروف ریڈنگ
 

زھرا علوی

محفلین
دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر اس کی طرف بڑھی۔
"وہ لوگ دوا خانوں میں ہیں۔دواؤں کی الماریوں کو سیل کر رہے ہیں۔"
ضابطے کی کاروائی میں دخلاندازی نہیں کی جا سکے گی!فیاض نے کہا"
پہلے تم بتاؤ معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟"
"پرسوں میری ایک مریضہ اچانک مر گئی تھی۔۔۔۔۔۔!"
"لس طرح۔" کیا یہیں ڈسپنسری میں۔!"
"نہیں اپنے گھر پر۔۔۔۔وہ۔۔۔دوا کی شیشی۔۔۔۔یہیں ڈسہنسری سے دی گئی تھی۔ اعصاب کو
سکون دینے والی ٹکیاں تھیں۔ بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ میرے پاس کچھ شیشیاں پہلے کی پڑی
ہوئی تھیں۔ ایک میں نے اسے دے دی تھی۔۔۔!"
"اوہ۔۔۔کہیں تم اس لڑکی یاسمین کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔۔۔!"
"وہی۔۔۔وہی۔۔۔۔!"
"خداوندا۔۔۔۔تو وہ ٹکیاں تم نے فراہم کی تھیں۔۔؟"
"ہاں۔۔۔اس وقت اس کی بہن دردانہ بھی ساتھ تھی۔۔۔!"
فیاض سر پکڑ بیٹھ گیا۔۔۔وہ اسکیس سے واقف تھا۔۔۔لڑکی نے اپنے گھر پر ہی بیگ سے دوا کی شیشی نکالی تھی۔دو ٹکیاں کھائی تھیں ۔ اور ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی تھی۔
"اگر شیشی تم نے فراہم کی تھی تو۔۔۔"وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔
"شیشی سر بند تھی۔۔۔میں نہیں جانتی کہ اس میں کیا ہے۔ اس پر لیبل اسی دوا کا موجود تھا
جسکی اسے ضروت تھی۔۔۔اس کی بہن کو یاد نہیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں یہیں نیرے سامنے کھائی تھیں۔ میری نرس شہادت دے گیکہ وہ اس کے لیے گلاس میں پانی لائی تھی
"تم نے اسے شیشی کب دی تھی۔۔؟"
مرنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔۔!"
"ٹکیوں کا مشاہدہ کرنےسے یہ معلوم ہوا ہے کہ ان میں پوٹاشیئم سائنایڈ کی آمیزش تھی اور بناوٹ کے اعتبار سے وہ اصل ٹکیوں سے مماثل تھیں۔!"
"کیا ساری ٹکیاں۔۔۔؟" ڈاکٹر زہرہ جبیں نے پوچھا۔
"جتنی بھی اس وقت شیشی میں تھیں۔؀"
"دو دن تک وہ انہیں ٹکیوں کو استعمال کرتی رہی تھی۔!"
"تم نے بہت دیر سے مجھے مطلع لیا۔!" فیاج مضطربانہ انداز میں بولا
"میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں ۔ابھی ایک گھنٹہپہلے انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور دواؤن کی الماریوں کو سیل لرنا شروع کر دیا۔"
"خیر میں دیکھتا ہوں۔ کیا وہ سب ڈسپنسری ہی میں ہیں۔؟"
زہرہ جبیں نے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔ "اب کیا ہو گا۔؟"
"فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ مرنے سے دو دن قبل بھی اس شیشی کی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔۔!"

فیاض مطب سے اتھ کر ڈسپنسری میں آیا جہان ضابطے کی کاروائی جاری تھی۔حلقے کے تھانے کے انچارج کی نگرانی میں ساری ادویات سیل کر دی گئی تھیں۔ فیاض کو دیکھ کر وہ پذیرائی کے لیے آگے بڑھا۔
"کیا وارنٹ بھی ہے۔"فیا ض نے پوچھا۔
"نہیں جناب عالی۔۔۔!" ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
"ٹھیک ہے۔"
"ویسے گرفتاری کا بھی امکان ہے۔۔؟"
"ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔وارنٹ تمہارے پاس ہی آئے گا۔۔؟"
"جی ہاں۔۔۔!"
"اس کا خیال رکھنا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔۔!"
"آپ بے فکر رہیں جناب۔آپ کو اطلاع دئیے بغیر کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔۔!"
"شکریہ۔۔!"
میں تو خادم ہوں جناب!"
فیاض پھر مطب میں واپس آ گیا۔
 
جی بیٹا میں اس کی پروف ریڈنگ کرتا ہوں نیز یہ کہ شگفتہ اپیا سے مزید صفحات کی درخواست کیجئے۔ مجھے ٹائپ کرنے کو کچھ مل نہیں رہا۔ :)
 

ٹائپ کردہ: زہرا علوی
پروف ریڈ اوّل: سعود ابن سعید


--------- متن شروع ---------

دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر اس کی طرف بڑھی۔
“وہ لوگ دوا خانوں میں ہیں۔ دواؤں کی الماریوں کو سیل کر رہے ہیں۔!”
ضابطہ کی کاروائی میں دخل اندازی نہیں کی جا سکے گی۔! فیاض نے کہا۔ “پہلے تم بتاؤ معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟”
“پرسوں میری ایک مریضہ اچانک مر گئی تھی۔!”
“کس طرح۔ کیا یہیں ڈسپنسری میں۔!”
“نہیں اپنے گھر پر۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ دوا کی شیشی۔۔۔۔ یہیں ڈسپنسری سے دی گئی تھی۔ اعصاب کو سکون دینے والی ٹکیاں تھیں۔ بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ میرے پاس کچھ شیشیاں پہلے کی پڑی ہوئی تھیں۔ ایک میں نے اسے دے دی تھی۔۔۔۔!”
“اوہ۔۔۔۔ کہیں تم اس لڑکی یاسمین کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔۔۔!”
“وہی۔۔۔۔ وہی۔۔۔۔!”
“خداوندا۔۔۔۔ تو وہ ٹکیاں تم نے فراہم کی تھیں۔!”
“ہاں۔۔۔۔ اس وقت اس کی بڑی بہن دردانہ بھی ساتھ تھی۔!”
فیاض سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ وہ اس کیس سے واقف تھا۔۔۔۔ لڑکی نے اپنے گھر ہی پر بیگ سے دوا کی شیشی نکالی تھی۔ دو ٹکیاں کھائی تھیں۔ اور ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی تھی۔
“اگر شیشی تم نے فراہم کی تھی تو۔۔۔۔” وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔
“شیشی سر بند تھی۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اس میں کیا ہے۔ اس پر لیبل اسی دوا کا موجود تھا جس کی اسے ضروت تھی۔۔۔۔ اس کی بہن کو یاد نہیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں یہیں میرے سامنے کھائی تھیں۔ میری نرس شہادت دے گی کہ وہ اس کے لیے گلاس میں پانی لائی تھی۔”
“تم نے اسے شیشی کب دی تھی۔!”
“مرنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔!”
“ٹکیوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ان میں پوٹاشیم سائنائیڈ کی آمیزش تھی اور بناوٹ کے اعتبار سے وہ اصل ٹکیوں سے مماثل تھیں۔!”
“کیا ساری ٹکیاں۔۔۔۔؟” ڈاکٹر زہرہ جبیں نے پوچھا۔!
“جتنی بھی اس وقت شیشی میں تھیں۔!”
“دو دن تک وہ انہیں ٹکیوں کو استعمال کرتی رہی تھی۔!”
“تم نے بہت دیر میں مجھے مطلع کیا۔!” فیاض مضطربانہ انداز میں بولا۔
“میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔ ابھی ایک گھنٹہ پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور دواؤں کی الماریوں کو سیل کرنا شروع کر دیا۔”
“خیر میں دیکھتا ہوں۔ کیا وہ سب ڈسپنسری ہی میں ہیں۔؟”
زہرہ جبیں نے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔ “اب کیا ہو گا۔”
“فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ مرنے سے دو دن قبل بھی اس شیشی کی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔!”
فیاض مطب سے اٹھ کر ڈسپنسری میں آیا جہاں ضابطے کی کاروائی جاری تھی۔ حلقے کے تھانے کے انچارج کی نگرانی میں ساری ادویات سیل کر دی گئی تھیں۔ فیاض کو دیکھ کر وہ پذیرائی کے لیے آگے بڑھا۔
“کیا وارنٹ بھی ہے۔” فیا ض نے پوچھا۔
“نہیں جناب عالی۔۔۔۔!” ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
“ٹھیک ہے۔”
“ویسے گرفتاری کا بھی امکان ہے۔!”
“ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ وارنٹ تمہارے پاس ہی آئے گا۔!”
“جی ہاں۔!”
“اس کا خیال رکھنا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔!”
“آپ بے فکر رہیں جناب۔ آپ کو اطلاع دیئے بغیر کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔!”
“شکریہ۔!”
“میں تو خادم ہوں جناب!”
فیاض پھر مطب میں واپس آ گیا۔


--------- متن تمام ---------
 
پہلی پروف ریڈنگ مکمل!!

شمشاد بھائی اس سلسلے کو آگے بڑھائیں۔

اس پروف ریڈنگ میں جو بڑی خامیاں سامنے آئیں ان کو ٹائپ کنندہ سے علیٰحدہ گفتگو میں بتا دوں گا۔ مزید یہ کہ میں نے اسے اسکین شدہ مواد سے بالکل مماثل رکھنے کی کوشش کی ہے۔ گر چہ اس کی پنکچویشن مجھے تسلی بخش نہیں لگی۔ پر محاورہ ہے “الکاتب کالحمار۔” :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جی بیٹا میں اس کی پروف ریڈنگ کرتا ہوں نیز یہ کہ شگفتہ اپیا سے مزید صفحات کی درخواست کیجئے۔ مجھے ٹائپ کرنے کو کچھ مل نہیں رہا۔ :)


زھراء :)

سعود بھیا سے کہیں کچھ دیر انتظار کریں ، میں ابھی صفحات اپلوڈ کرنے لگی ہوں ۔ اس دوران چاہیں تو بے شک مصلّیٰ بچھا لیں تاکہ یہاں بجلی اچانک سے غائب نہ ہوجائے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ٹائپ کردہ: زہرا علوی
پروف ریڈ اوّل: سعود ابن سعید
پروف ریڈ ودئم : شمشاد

--------- متن شروع ---------

دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر اس کی طرف بڑھی۔
"وہ لوگ دوا خانے میں ہیں۔ دواؤں کی الماریوں کو سیل کر رہے ہیں۔!"
ضابطہ کی کاروائی میں دخل اندازی نہیں کی جا سکے گی۔! فیاض نے کہا۔ “پہلے تم بتاؤ معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟”
“پرسوں میری ایک مریضہ اچانک مر گئی۔!"
“کس طرح۔ کیا یہیں ڈسپنسری میں۔!”
“نہیں اپنے گھر پر۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ دوا کی شیشی۔۔۔۔ یہیں ڈسپنسری سے دی گئی تھی۔ اعصاب کو سکون دینے والی ٹکیاں تھیں۔ بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ میرے پاس کچھ شیشیاں پہلے کی پڑی ہوئی تھیں۔ ایک میں نے اسے دے دی تھی۔۔۔۔!”
“اوہ۔۔۔۔ کہیں تم اس لڑکی یاسمین کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔۔۔!”
“وہی۔۔۔۔ وہی۔۔۔۔!”
“خداوندا۔۔۔۔ تو وہ ٹکیاں تم نے فراہم کی تھیں۔!”
“ہاں۔۔۔۔ اس وقت اس کی بڑی بہن دردانہ بھی ساتھ تھی۔!”
فیاض سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ وہ اس کیس سے واقف تھا۔۔۔۔ لڑکی نے اپنے گھر ہی پر بیگ سے دوا کی شیشی نکالی تھی۔ دو ٹکیاں کھائی تھیں۔ اور ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی تھی۔
“اگر شیشی تم نے فراہم کی تھی تو۔۔۔۔” وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔
“شیشی سر بند تھی۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اس میں کیا ہے۔ اس پر لیبل اسی دوا کا موجود تھا جس کی اسے ضروت تھی۔۔۔۔ اس کی بہن کو یاد نہیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں یہیں میرے سامنے کھائی تھیں۔ میری نرس شہادت دے گی کہ وہ اس کے لیے گلاس میں پانی لائی تھی۔”
“تم نے اسے شیشی کب دی تھی۔!”
“مرنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔!”
“ٹکیوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ان میں پاٹاشیم سائنائیڈ کی آمیزش تھی اور بناوٹ کے اعتبار سے وہ اصل ٹکیوں سے مماثل تھیں۔!”
“کیا ساری ٹکیاں۔۔۔۔؟” ڈاکٹر زہرہ جبیں نے پوچھا۔!
“جتنی بھی اس وقت شیشی میں تھیں۔!”
“دو دن تک وہ انہیں ٹکیوں کو استعمال کرتی رہی تھی۔!”
“تم نے بہت دیر میں مجھے مطلع کیا۔!” فیاض مضطربانہ انداز میں بولا۔
“میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔ ابھی ایک گھنٹہ پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور دواؤں کی الماریوں کو سیل کرنا شروع کر دیا۔”
“خیر میں دیکھتا ہوں۔ کیا وہ سب ڈسپنسری ہی میں ہیں۔؟”
زہرہ جبیں نے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔ “اب کیا ہو گا۔”
“فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ مرنے سے دو دن قبل بھی اس شیشی کی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔!”
فیاض مطب سے اٹھ کر ڈسپنسری میں آیا جہاں ضابطے کی کاروائی جاری تھی۔ حلقے کے تھانے کے انچارج کی نگرانی میں ساری ادویات سیل کر دی گئی تھیں۔ فیاض کو دیکھ کر وہ پذیرائی کے لیے آگے بڑھا۔
“کیا وارنٹ بھی ہے۔” فیا ض نے پوچھا۔
“نہیں جناب عالی۔۔۔۔!” ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
“ٹھیک ہے۔”
“ویسے گرفتاری کا بھی امکان ہے۔!”
“ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ وارنٹ تمہارے پاس ہی آئے گا۔!”
“جی ہاں۔!”
“اس کا خیال رکھنا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔!”
“آپ بے فکر رہیں جناب۔ آپ کو اطلاع دیئے بغیر کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔!”
“شکریہ۔!”
“میں تو خادم ہوں جناب!”
فیاض پھر مطب میں واپس آ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرے پاس تو ڈاکٹر دعاگو کے بھی کوئی چالیس کے قریب صفحے ہیں۔
خیر اب علامہ دہشتناک کا کون سا صفحہ لکھنا ہے،
زھرا آپ پروف ریڈینگ کا کام لے لیں، لکھنے کے لیے مجھے دے دیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top