دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر اس کی طرف بڑھی۔
"وہ لوگ دوا خانوں میں ہیں۔دواؤں کی الماریوں کو سیل کر رہے ہیں۔"
ضابطے کی کاروائی میں دخلاندازی نہیں کی جا سکے گی!فیاض نے کہا"
پہلے تم بتاؤ معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟"
"پرسوں میری ایک مریضہ اچانک مر گئی تھی۔۔۔۔۔۔!"
"لس طرح۔" کیا یہیں ڈسپنسری میں۔!"
"نہیں اپنے گھر پر۔۔۔۔وہ۔۔۔دوا کی شیشی۔۔۔۔یہیں ڈسہنسری سے دی گئی تھی۔ اعصاب کو
سکون دینے والی ٹکیاں تھیں۔ بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ میرے پاس کچھ شیشیاں پہلے کی پڑی
ہوئی تھیں۔ ایک میں نے اسے دے دی تھی۔۔۔!"
"اوہ۔۔۔کہیں تم اس لڑکی یاسمین کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔۔۔!"
"وہی۔۔۔وہی۔۔۔۔!"
"خداوندا۔۔۔۔تو وہ ٹکیاں تم نے فراہم کی تھیں۔۔؟"
"ہاں۔۔۔اس وقت اس کی بہن دردانہ بھی ساتھ تھی۔۔۔!"
فیاض سر پکڑ بیٹھ گیا۔۔۔وہ اسکیس سے واقف تھا۔۔۔لڑکی نے اپنے گھر پر ہی بیگ سے دوا کی شیشی نکالی تھی۔دو ٹکیاں کھائی تھیں ۔ اور ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی تھی۔
"اگر شیشی تم نے فراہم کی تھی تو۔۔۔"وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔
"شیشی سر بند تھی۔۔۔میں نہیں جانتی کہ اس میں کیا ہے۔ اس پر لیبل اسی دوا کا موجود تھا
جسکی اسے ضروت تھی۔۔۔اس کی بہن کو یاد نہیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں یہیں نیرے سامنے کھائی تھیں۔ میری نرس شہادت دے گیکہ وہ اس کے لیے گلاس میں پانی لائی تھی
"تم نے اسے شیشی کب دی تھی۔۔؟"
مرنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔۔!"
"ٹکیوں کا مشاہدہ کرنےسے یہ معلوم ہوا ہے کہ ان میں پوٹاشیئم سائنایڈ کی آمیزش تھی اور بناوٹ کے اعتبار سے وہ اصل ٹکیوں سے مماثل تھیں۔!"
"کیا ساری ٹکیاں۔۔۔؟" ڈاکٹر زہرہ جبیں نے پوچھا۔
"جتنی بھی اس وقت شیشی میں تھیں۔"
"دو دن تک وہ انہیں ٹکیوں کو استعمال کرتی رہی تھی۔!"
"تم نے بہت دیر سے مجھے مطلع لیا۔!" فیاج مضطربانہ انداز میں بولا
"میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں ۔ابھی ایک گھنٹہپہلے انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور دواؤن کی الماریوں کو سیل لرنا شروع کر دیا۔"
"خیر میں دیکھتا ہوں۔ کیا وہ سب ڈسپنسری ہی میں ہیں۔؟"
زہرہ جبیں نے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔ "اب کیا ہو گا۔؟"
"فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ مرنے سے دو دن قبل بھی اس شیشی کی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔۔!"
فیاض مطب سے اتھ کر ڈسپنسری میں آیا جہان ضابطے کی کاروائی جاری تھی۔حلقے کے تھانے کے انچارج کی نگرانی میں ساری ادویات سیل کر دی گئی تھیں۔ فیاض کو دیکھ کر وہ پذیرائی کے لیے آگے بڑھا۔
"کیا وارنٹ بھی ہے۔"فیا ض نے پوچھا۔
"نہیں جناب عالی۔۔۔!" ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
"ٹھیک ہے۔"
"ویسے گرفتاری کا بھی امکان ہے۔۔؟"
"ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔وارنٹ تمہارے پاس ہی آئے گا۔۔؟"
"جی ہاں۔۔۔!"
"اس کا خیال رکھنا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔۔!"
"آپ بے فکر رہیں جناب۔آپ کو اطلاع دئیے بغیر کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔۔!"
"شکریہ۔۔!"
میں تو خادم ہوں جناب!"
فیاض پھر مطب میں واپس آ گیا۔