علامہ دہشتناک : صفحہ 82-83 : اڑتیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


nv1aug.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

زھرا علوی

محفلین
"پہلے یہاں کبھی نہیں آئے؟"
"تفریح کے لیے آئے تھے کے بھوک معلوم ہوئی۔!"
"ختم کرو۔!" وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔" ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔پہلے تم پارٹی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہو۔ کامیابی نہیں ہوتی توشکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔!"
"گرانی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"کس قدر بڑھی ہے گرانی۔آخر کچھ معلوم بھی تو ہو؟" سہزاد نے مسکرا کر کہا۔
"شاید میرے ستارے اچھے ہی تھے کہ وہ خوفزدہ لڑکی میرے خواہ مخوہ میرے ہاتھ لگ گئی۔!"
"تو میرا خیال غلط نہیں تھا۔!"
"بقول تمہارے ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔!" عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔
"مطالبہ؟" شہزاد کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔
"ڈیڑھ لاکھ۔!"
"گھاس کھا گئے ہو؟"
"اونچی پوزیشن کا معاملہ ہے۔!"
"کیا تم سمجھتے ہو یہاں سے واپس بھی جا سکو گے؟"
"شادی کرا دو تو یہیں کا ہو رہوں گا۔!"
عمران کو شروع سے احساس ہوتا رہا تھا کہ اس کی پشت پر دو آدمی موجود ہیں۔
"شہزاد نے شاید اس کے سر پر سے انہی کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکتے۔ عمران سینے کے بل پھسلتے ہوئے شہزاد سے جا لگا تھا۔جو میز کے دوسرے سرے پر تھا۔اس کے ریوالور کی نال شہزاد کی کنپٹی پر تھی۔
"اب کہو تو یونہی پڑا رہوں یا اٹھ جاؤں؟" عمران نے آہستہ سے پوچھا۔
شہزاد کے دونوں آدمی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔
شہزاد بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ ریوالور کی نال اس کے کنپٹی سے ہٹائے بغیر عمران میز سے بھسل کر نیچے آیا اور شہزاد کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا۔
"ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی باہر گیا تو تمہاری موت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوگی۔!"
 

زھرا علوی

محفلین
عمران نے کہا۔ "انٹر کوم کے ذریعے ہیڈ ویٹر کو ہداہت دو کہ میرے ساتھی کو بھی یہیں لے آئے۔!"
شہزاد نے کسی سحر زدہ آدمی کے سے انداز میں عمران کے مشورے پر عمل کیا تھا۔
"تم دونوں دروازے کے پاس سے ہٹ کر ادھر کھڑے ہو جاؤ۔!" عمران نے دونوں آدمیوں سے کہا۔
"وہی کرو جو کہہ رہا ہے۔!" شہزاد نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "میرا بہت پرانا یار ہے۔۔۔کبھی کبھی سٹک جاتا ہے۔!" وہ دونوں بائیں جانب والے گوشے میں سرک گئے۔
"یہ ہوئی نا بات پیار کی۔!" عمران بولا اور ریوالور کنپٹی سے ہٹا کر گدی پر رکھ دیا اور اس طرف کھڑا پوگیا کہ باہرسے کسی آنے والے کی نظر ریوالور پر نہ پڑ سکے۔
جلدی ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی اور عمران بلند آواز میں بولا تھا۔ "آجاؤ۔!"
دروازہ کھلا اور صفدر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حیرت سےچاروں طرف دیکھا۔
"ان دونوں کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال لو۔!" عمران نے شہزاد کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
صفدر نے ان کے ہاتھ دیوار پر رکھوائے تھے اور ہولسٹروں سے ریوالور نکال لئے تھے۔
"تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو؟" شہزاد نے اپنی آواز میں کرختگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
"معاملے کی بات۔ لیکن کسی کھلے میدان میں۔ جہاں میرے اور تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔!"
"میں تیار ہوں۔!"
"تو اٹھو۔۔۔اور جس طرف میں لے جانا چاہتا ہوں اسی طرف چلو۔!"
شہزاد چپ چاپ اٹھا تھا۔ عمران کا ریوالور کوٹ کی جیب میں چلا گیا اوراس کی نال شہزاد کے پہلو میں چبھنے لگی۔
"تمہارے ریوالور شہزاد صاحب کے ساتھ واپس آجائیں گے۔!" عمران نے اس کے آدمیوں سے کہا تھا۔
پھر وہ شہزاد سے لگ کرچلتا ہوا باہر آیا۔ صفدر اس کے پیچھے تھا اور پوری ہوشیاری سے عمران کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پہلی پروف ریڈنگ

"پہلے یہاں کبھی نہیں آئے؟"
"تفریح کے لیے آئے تھے کہ بھوک معلوم ہوئی۔!"
"ختم کرو۔!" وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔" ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔پہلے تم پارٹی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہو۔ کامیابی نہیں ہوتی توشکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔!"
"گرانی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"کس قدر بڑھی ہے گرانی۔آخر کچھ معلوم بھی تو ہو۔!" شہزاد نے مسکرا کر کہا۔
"شاید میرے ستارے اچھے ہی تھے کہ وہ خوفزدہ لڑکی خواہ مخواہ ہاتھ لگ گئی۔!"
"تو میرا خیال غلط نہیں تھا۔!"
"بقول تمہارے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔!" عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔
"مطالبہ؟" شہزاد کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔
"ڈیڑھ لاکھ۔!"
"گھاس کھا گئے ہو؟"
"اونچی پوزیشن کا معاملہ ہے۔!"
"کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اب یہاں سے واپس بھی جا سکو گے؟"
"شادی کرا دو تو یہیں کا ہو رہوں گا۔!"
عمران کو شروع ہی سے احساس ہوتا رہا تھا کہ اس کی پشت پر دو آدمی موجود ہیں۔!
شہزاد نے شاید اس کے سر پر سے انہی کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکتے۔ عمران سینے کے بل میز پر پھسلتا ہوا شہزاد سے جا لگا۔جو میز کے دوسرے سرے پر تھا۔اس کے ریوالور کی نال شہزاد کی کنپٹی پر تھی۔!
"اب کہو تو یونہی پڑا رہوں یا اٹھ جاؤں؟" عمران نے آہستہ سے پوچھا۔
شہزاد کے دونوں آدمی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔
شہزاد بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ ریوالور کی نال اس کے کنپٹی سے ہٹائے بغیر عمران میز سے بھسل کر نیچے آیا تھا اور شہزاد کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا۔
"ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی باہر گیا تو تمہاری موت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوگی۔!"
عمران نے کہا۔ "انٹر کوم کے ذریعے ہیڈ ویٹر کو ہداہت دو کہ میرے ساتھی کو بھی یہیں لے آئے۔۔۔۔!"
شہزاد نے کسی سحر زدہ آدمی کے سے انداز میں عمران کے مشورے پر عمل کیا تھا۔
"تم دونوں دروازے کے پاس سے ہٹ کر ادھر کھڑے ہو جاؤ۔!" عمران نے دونوں آدمیوں سے کہا۔
"وہی کرو جو کہہ رہا ہے۔!" شہزاد نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "میرا بہت پرانا یار ہے۔۔۔کبھی کبھی سٹک جاتا ہے۔!" وہ دونوں بائیں جانب والے گوشے میں سرک گئے۔
"یہ ہوئی نا بات پیار کی۔!" عمران بولا اور ریوالور کنپٹی سے ہٹا کر گدی پر رکھ دیا اور اس طرح کھڑا ہوگیا کہ باہرسے کسی آنے والے کی نظر ریوالور پر نہ پڑ سکے۔
جلدی ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی اور عمران بلند آواز میں بولا تھا۔ "آجاؤ۔!"
دروازہ کھلا اور صفدر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حیرت سےچاروں طرف دیکھا تھا۔
"ان دونوں کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال لو۔!" عمران نے شہزاد کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
صفدر نے ان کے ہاتھ دیوار پر رکھوائے تھے اور ہولسٹروں سے ریوالور نکال لئے تھے۔
"تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو؟" شہزاد نے اپنی آواز میں کرختگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
"معاملے کی بات۔ لیکن کسی کھلے میدان میں۔ جہاں میرے اور تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔!"
"میں تیار ہوں۔!"
"تو اٹھو۔۔۔اور جس طرف میں لے جانا چاہتا ہوں اسی طرح چلو۔!"
شہزاد چپ چاپ اٹھا تھا۔ عمران کا ریوالور کوٹ کی جیب میں چلا گیا اوراس کی نال شہزاد کے پہلو میں چبھنے لگی۔
"تمہارے ریوالور شہزاد صاحب کے ساتھ واپس آجائیں گے۔!" عمران نے اس کے آدمیوں سے کہا تھا۔
پھر وہ شہزاد سے لگ کرچلتا ہوا باہر آیا۔ صفدر اس کے پیچھے تھا اور پوری ہوشیاری سے عمران کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔

(صفحہ 82، 83 کی پہلی پروف ریڈینگ مکمل ہوئی)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




اڑتیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

اڑتیسواں : 82 -83 | ٹیم 2 | زھراء علوی | شمشاد | ---- | ---- | 60%







 

جیہ

لائبریرین
"پہلے یہاں کبھی نہیں آئے؟"
"تفریح کے لیے آئے تھے کہ بھوک معلوم ہوئی۔"
"ختم کرو۔" وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔" ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ پہلے تم پارٹی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہو، کامیابی نہیں ہوتی توشکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔"
"گرانی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"کس قدر بڑھی ہے گرانی؟ آخر کچھ معلوم بھی تو ہو۔" شہزاد نے مسکرا کر کہا۔
"شاید میرے ستارے اچھے ہی تھے کہ وہ خوف زدہ لڑکی خواہ مخواہ ہاتھ لگ گئی۔"
"تو میرا خیال غلط نہیں تھا۔"
"بقول تمہارے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔" عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔
"مطالبہ؟" شہزاد کا لہجہ نا خوشگوار تھا۔
"ڈیڑھ لاکھ۔"
"گھاس کھا گئے ہو؟"
"اونچی پوزیشن کا معاملہ ہے۔"
"کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اب یہاں سے واپس بھی جا سکو گے؟"
"شادی کرا دو تو یہیں کا ہو رہوں گا۔"
عمران کو شروع ہی سے احساس ہوتا رہا تھا کہ اس کی پشت پر دو آدمی موجود ہیں۔ شہزاد نے شاید اس کے سر پر سے انہی کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکتے، عمران سینے کے بل میز پر پھسلتا ہوا شہزاد سے جا لگا جو میز کے دوسرے سرے پر تھا۔اس کے ریوالور کی نال شہزاد کی کنپٹی پر تھی۔
"اب کہو تو یونہی پڑا رہوں یا اٹھ جاؤں؟" عمران نے آہستہ سے پوچھا۔
شہزاد کے دونوں آدمی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔
شہزاد بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ ریوالور کی نال اس کے کنپٹی سے ہٹائے بغیر عمران میز سے پھسل کر نیچے آیا تھا اور شہزاد کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا۔
"ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی باہر گیا تو تمہاری موت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوگی۔"
عمران نے کہا۔ "انٹر کوم کے ذریعے ہیڈ ویٹر کو ہداہت دو کہ میرے ساتھی کو بھی یہیں لے آئے۔۔۔۔"
شہزاد نے کسی سحر زدہ آدمی کے سے انداز میں عمران کے مشورے پر عمل کیا تھا۔
"تم دونوں دروازے کے پاس سے ہٹ کر ادھر کھڑے ہو جاؤ۔" عمران نے دونوں آدمیوں سے کہا۔
"وہی کرو جو کہہ رہا ہے۔" شہزاد نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "میرا بہت پرانا یار ہے۔۔۔کبھی کبھی سٹک جاتا ہے۔" وہ دونوں بائیں جانب والے گوشے میں سرک گئے۔
"یہ ہوئی نا بات پیار کی۔" عمران بولا اور ریوالور کنپٹی سے ہٹا کر گدی پر رکھ دیا اور اس طرح کھڑا ہوگیا کہ باہر سے کسی آنے والے کی نظر ریوالور پر نہ پڑ سکے۔
جلدی ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی اور عمران بلند آواز میں بولا تھا۔ "آ جاؤ۔"
دروازہ کھلا اور صفدر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حیرت سےچاروں طرف دیکھا تھا۔
"ان دونوں کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال لو۔" عمران نے شہزاد کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
صفدر نے ان کے ہاتھ دیوار پر رکھوائے تھے اور ہولسٹروں سے ریوالور نکال لئے تھے۔
"تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو؟" شہزاد نے اپنی آواز میں کرختگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
"معاملے کی بات۔ لیکن کسی کھلے میدان میں، جہاں میرے اور تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔"
"میں تیار ہوں۔"
"تو اٹھو۔۔۔اور جس طرف میں لے جانا چاہتا ہوں اسی طرح چلو۔"
شہزاد چپ چاپ اٹھا تھا۔ عمران کا ریوالور کوٹ کی جیب میں چلا گیا اوراس کی نال شہزاد کے پہلو میں چبھنے لگی۔
"تمہارے ریوالور شہزاد صاحب کے ساتھ واپس آجائیں گے۔" عمران نے اس کے آدمیوں سے کہا تھا۔
پھر وہ شہزاد سے لگ کرچلتا ہوا باہر آیا۔ صفدر اس کے پیچھے تھا اور پوری ہوشیاری سے عمران کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔
 

جیہ

لائبریرین
"پہلے یہاں کبھی نہیں آئے؟"
"تفریح کے لیے آئے تھے کہ بھوک معلوم ہوئی۔"
"ختم کرو۔" وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔" ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ پہلے تم پارٹی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہو، کامیابی نہیں ہوتی توشکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔"
"گرانی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"کس قدر بڑھی ہے گرانی؟ آخر کچھ معلوم بھی تو ہو۔" شہزاد نے مسکرا کر کہا۔
"شاید میرے ستارے اچھے ہی تھے کہ وہ خوف زدہ لڑکی خواہ مخواہ ہاتھ لگ گئی۔"
"تو میرا خیال غلط نہیں تھا۔"
"بقول تمہارے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔" عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔
"مطالبہ؟" شہزاد کا لہجہ نا خوشگوار تھا۔
"ڈیڑھ لاکھ۔"
"گھاس کھا گئے ہو؟"
"اونچی پوزیشن کا معاملہ ہے۔"
"کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اب یہاں سے واپس بھی جا سکو گے؟"
"شادی کرا دو تو یہیں کا ہو رہوں گا۔"
عمران کو شروع ہی سے احساس ہوتا رہا تھا کہ اس کی پشت پر دو آدمی موجود ہیں۔ شہزاد نے شاید اس کے سر پر سے انہی کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکتے، عمران سینے کے بل میز پر پھسلتا ہوا شہزاد سے جا لگا جو میز کے دوسرے سرے پر تھا۔اس کے ریوالور کی نال شہزاد کی کنپٹی پر تھی۔
"اب کہو تو یونہی پڑا رہوں یا اٹھ جاؤں؟" عمران نے آہستہ سے پوچھا۔
شہزاد کے دونوں آدمی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔
شہزاد بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ ریوالور کی نال اس کے کنپٹی سے ہٹائے بغیر عمران میز سے پھسل کر نیچے آیا تھا اور شہزاد کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا۔
"ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی باہر گیا تو تمہاری موت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوگی۔"
عمران نے کہا۔ "انٹر کوم کے ذریعے ہیڈ ویٹر کو ہداہت دو کہ میرے ساتھی کو بھی یہیں لے آئے۔۔۔۔"
شہزاد نے کسی سحر زدہ آدمی کے سے انداز میں عمران کے مشورے پر عمل کیا تھا۔
"تم دونوں دروازے کے پاس سے ہٹ کر ادھر کھڑے ہو جاؤ۔" عمران نے دونوں آدمیوں سے کہا۔
"وہی کرو جو کہہ رہا ہے۔" شہزاد نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "میرا بہت پرانا یار ہے۔۔۔کبھی کبھی سٹک جاتا ہے۔" وہ دونوں بائیں جانب والے گوشے میں سرک گئے۔
"یہ ہوئی نا بات پیار کی۔" عمران بولا اور ریوالور کنپٹی سے ہٹا کر گدی پر رکھ دیا اور اس طرح کھڑا ہوگیا کہ باہر سے کسی آنے والے کی نظر ریوالور پر نہ پڑ سکے۔
جلدی ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی اور عمران بلند آواز میں بولا تھا۔ "آ جاؤ۔"
دروازہ کھلا اور صفدر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حیرت سےچاروں طرف دیکھا تھا۔
"ان دونوں کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال لو۔" عمران نے شہزاد کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
صفدر نے ان کے ہاتھ دیوار پر رکھوائے تھے اور ہولسٹروں سے ریوالور نکال لئے تھے۔
"تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو؟" شہزاد نے اپنی آواز میں کرختگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
"معاملے کی بات۔ لیکن کسی کھلے میدان میں، جہاں میرے اور تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔"
"میں تیار ہوں۔"
"تو اٹھو۔۔۔اور جس طرف میں لے جانا چاہتا ہوں اسی طرح چلو۔"
شہزاد چپ چاپ اٹھا تھا۔ عمران کا ریوالور کوٹ کی جیب میں چلا گیا اوراس کی نال شہزاد کے پہلو میں چبھنے لگی۔
"تمہارے ریوالور شہزاد صاحب کے ساتھ واپس آجائیں گے۔" عمران نے اس کے آدمیوں سے کہا تھا۔
پھر وہ شہزاد سے لگ کرچلتا ہوا باہر آیا۔ صفدر اس کے پیچھے تھا اور پوری ہوشیاری سے عمران کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
بار سوم و آخر:

پہلے یہاں کبھی نہیں آئے ؟"
"تفریح کے لیے آئے تھے کہ بھوک معلوم ہوئی۔ "
"ختم کرو۔ " وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔ " ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ پہلے تم پارٹی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہو، کامیابی نہیں ہوتی توشکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔ "
"گرانی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔ " عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"کس قدر بڑھی ہے گرانی؟ آخر کچھ معلوم بھی تو ہو۔ " شہزاد نے مسکرا کر کہا۔
"شاید میرے ستارے اچھے ہی تھے کہ وہ خوف زدہ لڑکی خواہ مخواہ ہاتھ لگ گئی۔ "
"تو میرا خیال غلط نہیں تھا۔ "
"بقول تمہارے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ " عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔
"مطالبہ؟" شہزاد کا لہجہ نا خوشگوار تھا۔
"ڈیڑھ لاکھ۔ "
"گھاس کھا گئے ہو؟"
"اونچی پوزیشن کا معاملہ ہے۔ "
"کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اب یہاں سے واپس بھی جا سکو گے ؟"
"شادی کرا دو تو یہیں کا ہو رہوں گا۔ "
عمران کو شروع ہی سے احساس ہوتا رہا تھا کہ اس کی پشت پر دو آدمی موجود ہیں۔ شہزاد نے شاید اس کے سر پر سے انہی کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکتے ، عمران سینے کے بل میز پر پھسلتا ہوا شہزاد سے جا لگا جو میز کے دوسرے سرے پر تھا۔ اس کے ریوالور کی نال شہزاد کی کنپٹی پر تھی۔
"اب کہو تو یونہی پڑا رہوں یا اٹھ جاؤں ؟" عمران نے آہستہ سے پوچھا۔
شہزاد کے دونوں آدمی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔
شہزاد بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ ریوالور کی نال اس کے کنپٹی سے ہٹائے بغیر عمران میز سے پھسل کر نیچے آیا تھا اور شہزاد کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا۔
"ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی باہر گیا تو تمہاری موت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہو گی۔ "
عمران نے کہا۔ "انٹر کوم کے ذریعے ہیڈ ویٹر کو ہداہت دو کہ میرے ساتھی کو بھی یہیں لے آئے۔ ۔ ۔ ۔ "
شہزاد نے کسی سحر زدہ آدمی کے سے انداز میں عمران کے مشورے پر عمل کیا تھا۔
"تم دونوں دروازے کے پاس سے ہٹ کر ادھر کھڑے ہو جاؤ۔ " عمران نے دونوں آدمیوں سے کہا۔
"وہی کرو جو کہہ رہا ہے۔ " شہزاد نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "میرا بہت پرانا یار ہے۔ ۔ ۔ کبھی کبھی سٹک جاتا ہے۔ " وہ دونوں بائیں جانب والے گوشے میں سرک گئے۔
"یہ ہوئی نا بات پیار کی۔ " عمران بولا اور ریوالور کنپٹی سے ہٹا کر گدی پر رکھ دیا اور اس طرح کھڑا ہو گیا کہ باہر سے کسی آنے والے کی نظر ریوالور پر نہ پڑ سکے۔
جلدی ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی اور عمران بلند آواز میں بولا تھا۔ "آ جاؤ۔ "
دروازہ کھلا اور صفدر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا تھا۔
"ان دونوں کے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال لو۔ " عمران نے شہزاد کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
صفدر نے ان کے ہاتھ دیوار پر رکھوائے تھے اور ہولسٹروں سے ریوالور نکال لئے تھے۔
"تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو؟" شہزاد نے اپنی آواز میں کرختگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
"معاملے کی بات۔ لیکن کسی کھلے میدان میں ، جہاں میرے اور تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔ "
"میں تیار ہوں۔ "
"تو اٹھو۔ ۔ ۔ اور جس طرف میں لے جانا چاہتا ہوں اسی طرح چلو۔ "
شہزاد چپ چاپ اٹھا تھا۔ عمران کا ریوالور کوٹ کی جیب میں چلا گیا اوراس کی نال شہزاد کے پہلو میں چبھنے لگی۔
"تمہارے ریوالور شہزاد صاحب کے ساتھ واپس آ جائیں گے۔ " عمران نے اس کے آدمیوں سے کہا تھا۔
پھر وہ شہزاد سے لگ کر چلتا ہوا باہر آیا۔ صفدر اس کے پیچھے تھا اور پوری ہوشیاری سے عمران کے باڈی گارڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top