"پہلے یہاں کبھی نہیں آئے؟"
"تفریح کے لیے آئے تھے کے بھوک معلوم ہوئی۔!"
"ختم کرو۔!" وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔" ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔پہلے تم پارٹی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہو۔ کامیابی نہیں ہوتی توشکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔!"
"گرانی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
"کس قدر بڑھی ہے گرانی۔آخر کچھ معلوم بھی تو ہو؟" سہزاد نے مسکرا کر کہا۔
"شاید میرے ستارے اچھے ہی تھے کہ وہ خوفزدہ لڑکی میرے خواہ مخوہ میرے ہاتھ لگ گئی۔!"
"تو میرا خیال غلط نہیں تھا۔!"
"بقول تمہارے ہم سب ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔!" عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔
"مطالبہ؟" شہزاد کا لہجہ ناخوشگوار تھا۔
"ڈیڑھ لاکھ۔!"
"گھاس کھا گئے ہو؟"
"اونچی پوزیشن کا معاملہ ہے۔!"
"کیا تم سمجھتے ہو یہاں سے واپس بھی جا سکو گے؟"
"شادی کرا دو تو یہیں کا ہو رہوں گا۔!"
عمران کو شروع سے احساس ہوتا رہا تھا کہ اس کی پشت پر دو آدمی موجود ہیں۔
"شہزاد نے شاید اس کے سر پر سے انہی کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کر سکتے۔ عمران سینے کے بل پھسلتے ہوئے شہزاد سے جا لگا تھا۔جو میز کے دوسرے سرے پر تھا۔اس کے ریوالور کی نال شہزاد کی کنپٹی پر تھی۔
"اب کہو تو یونہی پڑا رہوں یا اٹھ جاؤں؟" عمران نے آہستہ سے پوچھا۔
شہزاد کے دونوں آدمی جہاں تھے وہیں رہ گئے۔
شہزاد بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ ریوالور کی نال اس کے کنپٹی سے ہٹائے بغیر عمران میز سے بھسل کر نیچے آیا اور شہزاد کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا۔
"ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی باہر گیا تو تمہاری موت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوگی۔!"