عبدالحسیب
محفلین
اقبال کا پیامِ آزادی - قائدِ ملّت بہادر یار جنگ
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
تجّلی کی فراوانی سے فریاد
گوارا ہے اسے نظارۃ غیر
نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد
سچّا شاعر وقت کے دربار کا نقیب ہوتا ہے اور وہی باتیں اس کی زبان سے شعر کا جامہ پہن کر نکلنے لگتی ہیں جو وقت کی ضرورت اور زمانہ کا تقاضہ ہوتی ہیں۔اگر اقبال انیسویں صدی میں پیدا ہونے کی بجائے پندرھویں صدی یا سولہویں صدی میں پیدا ہوتے تو شاید ان کی شاعری میں ہم کچھ اور پاتے ہماری خوش نصیبی سے وہ
اس زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں جب کہ نہ صرف ہندوستاں بلکہ سارا عالم اسلام نہ سرف عالمِ اسلام بلکہ سارا جہانِ مشرق معاشی ،سیاسی اور ذہنی حیثیت سے مغرب کی غلامی کی لعنت میں گرفتار تھا ۔اقبال کا دل اور وہ حساس دل جس کو قدرت کا بہترین عطیہ کہنا چاہیئے اپنے ماحول کی اُن کیفیات سے تڑپ اُٹھتا ہے اور وہ اپنی اِس غلامی کا نوحہ پڑھنے لگتے ہیں۔کہا ہے ؏
شرق و غرب آزاد ما نخچیر غیر
خِشت ماسَر مایہ تعمیر غیر
زندگانی برمراد دیگراں
جاوداں مرگ است نے خواب گراں
جب وہ سیاسیاتِ حاضرہ کی تماشہ گاہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اُن کو ہر طرف اصحاب تسلط و استبداد کی مکر سامانیوں اور اور فریب کاریوں سے سابقہ پڑتا ہے اُن کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ غلاموں میں کس طرح نشۃ غلامی کہ تیز تر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور غلامیوں کے قلب و دماغ کو کس طرح دیوار محبس میں آسودہ رہنے کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔وہ مرغ زیرک کی طرح دانہ مستی میں تڑپ جاتے ہیں اور اُس سیاسیاتِ حاضرہ کو توڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور اُس کی نسبت یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں
می کند بند غلامانِ سخت تر
حریت می خواند اور ابے بصر
در فضا یشن بال و پر نتواں کشود
با کلیدش ہیچ در نتواں کشود
گفت با مرغ قفس اے دردمند
آشیاں در خانہ صیاد بند
ہر کہ سازد آشیاں دردشت مرغ
اونباشدہین از شاہین و چرغ
از فسونسِ مرغ زیرک دانہ مست
تارہا اندر گلوئے خود شکست
الحذر از گرمئ گفتار اُو
الحذر از حرف پہلو دار اُو
اقبال کو اقوام مستبد و غالب کی اُن فسوں کاریوں سے زیادہ اقوام مغلوب و محکوم کی کوتاہیوں پر غصّہ آتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ غالب اپنی حاکمیت میں اتنا قصور وار نہیں جتنا مغلوب اپنی
محکومیت کے لیئے ذمہ دار ہے ،کہتے ہیں
جاں بھی گروغیربدن بھی گروغیر
افسوس کہ باقی نی مکاں ہے نہ مکیں ہے
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھکو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
اُنھوں نے بارہا اس بات کو ظاہر کیا کہ خواجگی کی مشکلوں کو آسان کرنے میں تمام تر محرم غلام کی خوئے غلامی ہے
دورِحاضر ہے حقیقت میں وہی عہدِ قدیم
اہلِ سجادہ ہیں یا اہلِ سیاست ہیں امام
اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور
سینکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے غلام
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
اُنھوں نے اِن صِفات کو ایک ایک کر کے گِنایا ہے جو قوموں میں گھن کی طرح لگتی ہیں۔آگ کی طرح بھڑکنے لگتی ہیں اور اُن کو عضوِمعطل بنا دیتی ہیں۔اِن صِفات کا زکر جس درد بھرے انداز میں اُنھوں نے کیا ہے وہ اُن کے قلب کی دردمندانہ کیفیات کا آئینہ دار ہے، کہتے ہیں
وائے قومے کشتئہ تدبیر غیر
کارِاو تخریب خود تعمیر غیر
می شود در علم و فن صاحب نظر
از وجود خود نہ گرد و با خبر
نقش حق را از نگیں خود سترد
در ضمیرش آرزو یازا زومرد
از حیا بیگانہ پیرانِ کہن
نوجواناں چو زناں مشغول تن
درد دل شاں آرزو ہابے ثبات
مردہ زا سید از بطون امہات
ہر زماں اندر تلاش سازو برگ
کار او فکر معاش ہ ترس مرگ
منعماں اونحیل و عیش دوست
غافل از مغز اندواندربند پوست
دین او عہدوفا بستیں بہ غیر
یعنی از خشتِ حرم تعمیر دیر
اقبال کو قوم سے زیادہ امیرانِ قوم پر غصّہ ہے جو اُس گلہ کے چروہے ہیں اور اُس قافلہ کے سالار اور جن کی تن پرستی اور جاہ مستی نے کم نگاہی اور کلیسا دوستی نے نور جان سے محرومی اور لا الہ سے بدنصیبی نع قوم کو غلامی کے بُرے دن دکھائے۔اُن کی نسبت کہتے ہیں
داغم از سوائی ایں کار رواں
درامیر او ندیدم نور جاں
تن پرست و جاہ مست و کم نگہ
اندر ونش بے نصیب از لاالہٰ
در حرم زادو کلیسا را مرید
پردۃ ناموس ما زا بردرید
آپ کو جتنا غصّہ امیروں پر ہے اُتنا ہی قوم کے شعراء حکما اور علماء پر جہ ہمیشہ قوموں کی زندگی میں رہبر و رہنما رہے ہیں جن کی گرمئ گفتار اور پختگئ کردار سے قوم کے لیئے نشانِ راہ پیدا ہوتے ہیں جن کے فہم صحیح اور فکر مرتب نے مشکلات کے دشت و جبل کاٹ کر منزل کے قریب ترین راستے پیدا کیئے ۔اقبال کو غم ہوتا ہے کہ غلام قوموں میں شعراء بھی پیدا ہوتے ہیں اور علماء حکماء بھی لیکن ان کی فکرشیروں کو رم آہو سکھاتی ہے۔قوموں کو غلامی پر رضامند کرتی ہے اور جب اُن کا ضمیر اُنھیں ملامت کرتا ہے تو اُن کا دماغ اُن کو تاویل کا مسئلہ سکھا دیتا ہے۔
شاعر بھی ہیں پیدا علماء بھی حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے اُن اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
اقتباس: غیر سیاسی تقریر 'قائدِ ملّت بہادر یار جنگ -بمقام زمرد محل ٹاکیز،حیدرآباد 15 ڈسمبر 1940