علمی و ادبی لطائف

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
مرزا محمد تقی خان کے مکان پر ایک مشاعرہ تھا، جس میں شہر کے سب نامی رئیس اور شاعر جمع تھے، میرؔ اور جراتؔ بھی تھے
جرات ؔ نے جو غزل پڑھی اس پر بہت واہ واہ ہوئی اور بہت تعریفیں ہوئیں، وہ ازراہ تبختر یا شوخی سے میرؔ صاحب کے پاس آ بیٹھے اور اپنے کلام کی داد چاہی
میرؔ صاحب نے ایک دو مرتبہ تو ٹالا مگر جب انہوں نے اصرار کیاتو تیوری چڑھا کر فرمایا " تم شعر کہنا کیا جانو! اپنے تئیں چوما چاٹی کر لیا کرو"
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
شیخ سعدیؒ کو سماع کی مجلسوں میں شریک ہونے کا بہت شوق تھا
ان کے استاد علامہ ابنِ جوزیؒ اس چیز کو برا سمجھتے تھےاور شیخ سعدیؒ کو سختی سے منع کرتے تھے ، مگر وہ باز نہ آتے تھے
آخر ایک بد آواز قوال سے پالا پڑ گیا،ا ور ساری رات اسی مکروہ صحبت میں بسر ہوئی ،
جب مجلس ختم ہوئی توتو شیخ سعدیؒ نے سر سے عمامہ اتارا اور جیب سے ایک دینار نکالا، پھر یہ دونوں چیزیں قوال کی نذر کر دیں
ساتھیوں نے تعجب کیا تو شیخ سعدیؒ فرمایا:۔ "یہ قوال صاحب کرامت بزرگ ہے، استاد کی نصیحت نے وہ اثر نہیں کیا، جو اس کے "لحنِ داودی" نے کیا ہے، اور اب میں سماع سےتوبہ کرتا ہوں"
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
سعادت علی خان ہر امر میں سلیقے اور صفائی کا پابند تھا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ اہلِ دفتر خوشخط لکھیں ، اور فی غلطی ایک روپیہ جرمانہ
اتفاقاً اعلےٰ درجے کے اہل ِ انشا میں ایک مولوی صاحب تھے۔ انہوں نے فردِ حساب میں "اجناس" کو "اجنا" لکھ دیا
سعادت علی خان تو ہر شے پر خود نظر رکھتے تھے۔ ان کی بھی نگاہ پڑ گئی
مولویوں کو جواب دینے میں کمال ہوتا ہے، انہوں نے کچھ قاموس ، کچھ صراح سے، "اجنا" کے معنی بتائے، کچھ قوعدِ نحو سے ترخیم میں لے گئے۔
نواب نے سید انشا کو کو اشارہ کر دیا، تو انہوں نے رباعی پڑھی
اجناس کی فرد پر یہ "اجنا" کیسا
یاں ابر لغات کا گرجنا کیسا؟
گو ہوں، "اجنا" کے معنی جو اگے
لیکن یہ نئی اُپج کا اُپجنا کیسا؟
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میر تقی میرؔ جب دلی کو چھوڑ کر لکھنؤ چلے تو ساری گاڑی کرایہ بھی پاس نہ تھا
ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے، تھوڑی دور آگے چل چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ رہے
کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی ۔ میرؔ صاحب چیں بجبیں ہو کر بولے :۔ صاحب قبلہ! آپ نے کرایہ دیا ہے، بے شک گاڑی میں بیٹھئے، مگر باتوں سے کیا تعلق؟
اس نے کہا:۔ حضرت ، کیا مضائقہ ہے؟ راہ کا شغل ہے، باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے
میرؔ صاحب بگڑ کر بولے:۔ خیر، آپ کا شغل ہے ، میری زبان خراب ہوتی ہے
 

Dilkash

محفلین
نتیجے کے لئے بیٹا سکول جانے لگا تو باپ نے کہا۔
سنو عدیل۔اگر اس دفعہ فیل ہوئے تو مجھے ابو کہہ کر نہیں پکارنا۔
سکول سے واپسی پر جب بیٹا گھر میں داخل ہوئے
تو باپ نے پوچھا
بولو کیا ھوا
بیٹے نے کہا
سوری بٹ صاحب !
بات بتانے والی نہیں۔
-----------------------------------
ایک شخص رات گئے تک دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکتا رہا۔
گھر دیر سے پہنچنے پر دوسرے دن جب دوستوں نے پوچھا،
بھائی رات کو کچھ ہوا تو نہیں
کہنے لگا
ایسی کوئی خاص تو نہیں بس کئئ دنوں سے سامنے والا دانت نکالنے کا سوچ رھا تھا
 
شیخ سعدیؒ کو سماع کی مجلسوں میں شریک ہونے کا بہت شوق تھا
ان کے استاد علامہ ابنِ جوزیؒ اس چیز کو برا سمجھتے تھےاور شیخ سعدیؒ کو سختی سے منع کرتے تھے ، مگر وہ باز نہ آتے تھے
آخر ایک بد آواز قوال سے پالا پڑ گیا،ا ور ساری رات اسی مکروہ صحبت میں بسر ہوئی ،
جب مجلس ختم ہوئی توتو شیخ سعدیؒ نے سر سے عمامہ اتارا اور جیب سے ایک دینار نکالا، پھر یہ دونوں چیزیں قوال کی نذر کر دیں
ساتھیوں نے تعجب کیا تو شیخ سعدیؒ فرمایا:۔ "یہ قوال صاحب کرامت بزرگ ہے، استاد کی نصیحت نے وہ اثر نہیں کیا، جو اس کے "لحنِ داودی" نے کیا ہے، اور اب میں سماع سےتوبہ کرتا ہوں"
لاحول ولا قوہ۔ یہ حقیقی نہیں ہے ۔ علامہ ابن الجوزی محدث کے تلامذہ میں کوئی شیخ سعدی نہیں۔
 
انتظامیہ سے درخواست ہے کہ مندرجہ بالا قسم کی مراسلات کو جو کہ اعتراض اور دھاگہ کی نسبت سے طبیعت میں قبض کی کیفیت پیدا کرتی ہوں ان کو حذف کیا جائے۔ شکریہ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
لاحول ولا قوہ۔ یہ حقیقی نہیں ہے ۔ علامہ ابن الجوزی محدث کے تلامذہ میں کوئی شیخ سعدی نہیں۔
نور سسٹر !
آپ کا کہا سر آنکھوں پر
مگر ٖمولاناحالیؔ کی "حیاتِ سعدیؒ" اور گلستانِ سعدیؒ کے دیباچے میں قاضی سجاد حسین صاحب کے الفاظ کے مطابق تو علامہ ابن جوزی صاحب شیخ سعدیؒ کے استاد تھے مدرسہ نظامیہ بغداد میں
اللہ بہتر جانتا ہے،
 
نور سسٹر !
آپ کا کہا سر آنکھوں پر
مگر ٖمولاناحالیؔ کی "حیاتِ سعدیؒ" اور گلستانِ سعدیؒ کے دیباچے میں قاضی سجاد حسین صاحب کے الفاظ کے مطابق تو علامہ ابن جوزی صاحب شیخ سعدیؒ کے استاد تھے مدرسہ نظامیہ بغداد میں
اللہ بہتر جانتا ہے،

برادران محترم بے حد شکریہ ، اگر قاضی سجاد حسین اور شبلی نعمانی کا اصل سورس ذکر فرما دیں تو عنایت ہو گی۔باقی گزارش اس کے بعد ممکن ہو گی۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
پاکستان میں گلستانَ سعدیٌ کا کوئی بھی نسخہ چاہے وہ مترجم ہو یا غیر مترجم ۔ دیباچہ اور حواشی تو قاضی سجاد حسین صاحب کے ہی ملیں گے
پس آپ کہیں سے بھی ملاحظہ فرما لیں، میں نے تو جب چھوٹا ہوتاتھا تب پڑھی تھی کریما سعدیٌ اور گلستان وغیرہ
آپ کی صرف نحو کو دیکھتے ہوئے میرا نہیں خیال کہ آپ نے اب تک گلستانَ سعدی نہیں پڑھی ہوگی
اور میری ناقص معلومات کے مطابق ایک اور ابن الجوزی صاحب بھی ہیں
اس لیے میں آپ کی بات نہیں جھٹلا رہا، لیکن سعدیٌ کے استاد اور تھے اور جو ابن الجوزی آپ سمجھ رہی ہیں وہ اور تھے
جیسے غالبؔ تخلص کے بھی 10 شاعر ہو گزرے ہیں، اور جیسے مولانا آزاد بھی 2 ہیں، ایک مولانا محمد حسین آزاد اور ایک ابو الکلام آزاد
اسی طرح یہ علامہ ابن الجوزی بھی :)
اس لیے مغالطہ ہونا عین فطری امر ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم،

جس تھریڈ میں یہ سب کچھ پوسٹ ہو رہا تھا وہ چونکہ ایک اطلاع نامہ تھا، لہذا میں نے ان لطائف کیلیے ایک علیحدہ تھریڈ بنا دیا ہے، لہذا بصد شوق اس میں علمی و ادبی لطائف پوسٹ کیجیے۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
السلام علیکم،

جس تھریڈ میں یہ سب کچھ پوسٹ ہو رہا تھا وہ چونکہ ایک اطلاع نامہ تھا، لہذا میں نے ان لطائف کیلیے ایک علیحدہ تھریڈ بنا دیا ہے، لہذا بصد شوق اس میں علمی و ادبی لطائف پوسٹ کیجیے۔
وعلیکم السلام
:laugh::laugh::laugh::laugh::laugh:
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
یہ بڑی دل چسپ بحث ہے لیکن تھریڈ کا رخ بدل جائے گا۔ اگر صاحب موضوع کو اعتراض نہ ہو تو گزارشات كا سلسلہ بڑھايا جائے ؟
کوئی الگ دھاگہ شروع کر لیا جائے، لیکن میرے ہاتھ پہلے ہی کھڑے ہیں، میرے پلے بحث کرنے جوگا کچھ ہے نہیں، لیکن امید ہے کافی کچھ معلوماتی اور مفید باتیں پڑھنے کو مل جائیں گی۔ لیکن اس سے پہلے مجھے آپ کا تعارف درکار ہے۔ یہ نہ ہو کہ پنگا لے کر جان بچانے کی راہ ڈھونڈتا پھروں:laugh::rollingonthefloor:
 

الف عین

لائبریرین
بنگال میں بنگالیوں کی ہندی اردو کا جہاں تلفظ غلط ہوتا ہے وہیں جمع واحد اور تذکیر و تانیث کے اصول بھی بالکل الگ ہیں۔ مظفر حنفی کا جب کلکتہ یونیورسٹی میں تقرر ہوا تو کچھ عرصے بعد وائس چانسلر بھاسکر راؤ چودھری نے ان سے پوچھا : پروفیسر حنفی۔ آپ تو بنگلہ بول لیتے ہونگے۔ حنفی نے ہنس کر جواب دیا ۔ جی سر ! چائے کھابو اور جول کھابو کی حد تک۔
بنگلہ تو بہت آ سانی سے سیکھی جا سکتی ہے۔ چودھری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ تو ٹھیک ہے چودھری صاحب۔ حنفی صاحب نے کہا: لیکن میرے پاس وقت ہی کہاں ہے میں تو چوبیس گھنٹے اپنی اردو بچانے میں لگا رہتا ہوں۔
۔۔۔۔سلمان غازی کی ای میل سے کاپی پیسٹ
 
یہ بات جو میں اب سنانےلگا ہوں اگرچہ اس کا تعلق علمی اور ادبی شخصیات سے نہیں ، لیکن چونکہ اقبال کے ایک شعر اس واقعے میں " ملّوث " کیا گیا ہے، اسلئے اسے ایک علمی اور ادبی لطیفہ سمجھتے ہوئے پوسٹ کر رہا ہوں۔۔۔
ہوا یوں کہ میرے ایک کولیگ، جنکا تعلق چکوال سے تھا ، ایک دن میرے پاس آئےاور کہنے لگے کہ آپکے پاس اتنی کتابیں ہیں، آجکل کام کا بھی زور نہیں ہے، ایک دو کتابیں ہی پڑھنے کیلئے دے دیں۔۔۔میں نے کلیاتِ اقبال تھما دی۔ بہت خوش ہوئے ۔ دو تین دن کے بعد جب ملاقات ہوئی تو کہنے لگے:
"وا ہ محمود صاحب، کیا کہنے اقبال کے۔۔۔بڑی زبردست شاعری کی ہے ڈاکٹر صاحب نے۔ بہت لطف آرہا ہے"۔
میں نے یونہی بر سبیلِ تذکرہ پوچھ لیا کہ آپ کو کونسا شعر سب سے زیادہ پسند آیا، تو فرمانے گے:
"وہ جو اقبال نے بالِ جبریل کے آغاز میں ہی سوال کیا ہے۔۔۔۔"
میں نے تعجب سے سوچنے لگا کہ بالِ جبریل کے شروع میں آخر کونسا سوال ہے، کچھ سمجھ نہ آیا تو ان سے پوچھ بیٹھا کہ کونسا سوال؟ تو فرمانے لگے:
پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہےےےےےےےےےےےہیرے کا جگر؟؟؟؟؟
مردِناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
انکی اس استفہامیہ "ہے" جو خاصی طویل اور تعجب خیز لہجے میں ادا کی گئی تھی، اس کے بعد انہوں نے مکرر ارشاد کیا کہ ،" ہیں جی محمود صاحب، بھلا پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہےےےےےےےےےے ہیرے کا جگر؟؟؟؟؟ِآپ ہی بتائیے ذرا۔۔کیسا زبردست سوال پوچھا ہے ڈاکٹر صاحب نے"۔۔۔۔:)
 

فلک شیر

محفلین
یہ اقتباس نقوش 1955ء کے شخصیات نمبر سے لیا گیا ہے..........مضمون ہے ’’لکھنو کا ایک دور‘‘........اور لکھاری ہیں شوکت تھانوی.....
خواجہ مجذوب الحسن غوری بڑے سینیر ڈپٹی کلکٹر رہ چکے ہیں.....مگر وضع قطع سے معلو م ہوتا ہے کہ ابھی کسی مسجد سے اذان دے کر آ رہے ہیں.....سر پر چوگوشیہ ٹوپی،سرخ سفید رنگ، چہرے پر بھوری داڑھی، لمبا کرتہ،اٹنگا پاجامہ،بغل میں لٹکا ہوا کلام مجید........مگر آپ مل جائیں تو سڑک ہی پر کھڑے کھڑے اپنی غزل سنانا شروع کر دیں گے اور غزل بھی وہ جس کے کم سے کم بہتر شعر ہوں گے........لہراتا ہوا ترنم اور ترنم کے ساتھ لہراتے ہوئے ہاتھ بلکہ کبھی کبھی سارا جسم لہرا جائے گا اور غزل سناتے رہیں گے
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی​

ایک مرتبہ میں اور مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی ان کے ساتھ ان ہی کے موٹر پر جا رہے تھے،جسے وہ خود چلا رہے تھے۔راستے میں غزل سنانا شروع کر دیاور اسٹئیرنگ وہیل چھوڑ کر ہاتھ لہرانے لگے.......نتیجہ یہ کہ موٹر ایک کھڈ میں قلابازی کھا گئی....شکر ہے کسی کو چوٹ نہیں آئی.....سب کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو گئے......مجذوب صاحب نے پوچھا کہ ’’چوٹ تو نہیں آئی‘‘........مولانا عنایت اللہ نے فرمایا ’’اللہ نے بڑا فضل کیا‘‘........مجذوب صاحب نے کہا، تو اُس کا دوسرا مصرع یہ تھا کہ..............اور غزل شروع کرنے ہی والے تھے کہ مولانا نے ڈانٹ کر چپ کروا دیا کہ پہلے کار کی خبر لو...............
 
Top