محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
علم الصرف ایک مبتدی کی نظر سے
محمد خلیل الر حمٰن
﴿بسم اللہ الر حمٰن الر حیم﴾
الحمد للہ الذی ﴿خلق الانسان و علمہ البیان ﴾ و اختیار لوحیہ لساناً عربیاً و انزل فیہ القرآن وافضل الصلاۃ وا تم السلام علی سیدنا محمد سید الانام و صاحب الجوامع الکلم و حسن البیان ، ا ما بعد
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج عہد جدید تک ہم ذہن ِ انسانی کے ارتقائ اور اس کی نشو و نمائ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلا اور بنیادی عنصر جسکی ذہن انسانی کوضرورت تھی وہ ہے رابطہ اور رابطے کی زبان۔ جسکے بغیر شاید یہ عمل ممکن نہ ہوتا۔ جانوروں کے برعکس جنھیں اپنی ذہنی استعداد کے مطابق رابطے کے لئے صرف چند اشاروں اور کچھ آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے، انسانی ذہن کو اپنا مافی الضمیر مکمل طور پر بیان کرنے کے لئے یقیناً ایک مکمل زبان کی ضرورت ہوئی۔ اسطرح گویاانسانی رابطے کے اہم تر ین طریقے یعنی زبان کا فطری ارتقائ عمل پذیر ہوا۔ جب ہم فطری اندازکی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمارا واضح اشارہ امر ربی کی جانب ہے۔ اللہ رب العزت نے تخلیق انسانی کے بعد اسے بیان کی قدرت عطائ فرمائی
﴿خلق الانسان۔ علمہ البیان﴾
جسکی تفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کچھ یوں کرتے ہیں۔
ایجاد ﴿ وجود عطائ فرمانا ﴾ اللہ کی بڑی نعمت بلکہ نعمتوں کی جڑ ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔ایجادِ ذات اور ایجادِ صفت۔ تو اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ذات کو پیدا کیا اور اس میں علمِ بیان کی صفت بھی رکھی۔ یعنی قدرت دی کہ اپنے مافی الضمیر کو نہایت صفائی و حسن و خوبی سے ادا کر سکے۔ اور دوسروں کی بات سمجھ سکے۔اس صفت کے ذریعے سے وہ ْقرآن سیکھتا اور اور سکھاتا ہے۔ اور خیر و شر، ہدایت و ضلالت، ایمان و کفر اور دنیا و آخرت کی باتوں کو واضح طور پر سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔
﴿ از تفسیرِ عثمانی ﴾
تخلیقِ آدم ہوئی پھر بی بی حوا تخلیق کی گئیں پھر ان دونوں کے ملاپ سے کنبہ اور خاندان بنے اور اس سے قبیلے اور ذاتیں وجود میں آئیںِ۔ ْقرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
﴿یٰا یھا الناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثیٰ و جعلنٰکم شعوباً وَّ قبائلَ لِتعارفو﴾۔
ترجمہ ۔اے آدمیو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اورقبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو۔
آپس کی پہچان اور اپنا مافی الضمیر ادا کرنے اور دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے انھیں زبان عطا ہوئی اور پھر جب ان کی تعداد بڑھی تو اسرائیلی روایات اور عہد نامہ عتیق کے مطابق وہ زمین میں پراگندہ ہو گئے اور ان کی زبان میں اختلاف ہوا۔
٭۔اور تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی۔
عہد نامہ، عتیق۔ تکوین۔۱:۱۱
٭۔آو، ہم اتریں اور وہاں ان کی زبان میں اختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں ۔
٭۔اور خداوند نے انھیں اس جگہ سے تمام زمین پر پراگندہ کیا اور وہ شہر کے بنانے سے رک گئے۔
٭۔ اس لئے اس کا نام بابل ہوا کیونکہ وہاں خداوند نے ساری زمین کی زبان میں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خدا نے انھیں تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔
عہد نامہ عتیق۔ تکوین۔۹۔۷:۱۱
جب بنی نوع آدم اس زمین پر ذاتوں اور قبیلوں میں بٹے اور پھیلے اور ایک دوسرے سے جغرافیائی طور پر دور ہوئے تو انھیں اپنے اپنے ماحول کے مطابق مختلف زبانیں بارگاہِ خداوندی سے عطائ ہوئیں ۔
اس طرح گویا دنیا کی مختلف زبانوںزبانوں کی تخلیق کا عمل شروع ہوا ۔ ہمیں دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ کہیں کچھ لوگ جمع ہوے ہوں اور انھوں نے کسی زبان کی ایجاد کی کوشش بھی کی ہو ۔﴿ ۷۸۸۱ ÷ئ میں ایک پولش ڈاکٹر ذامن ہاف نے ، اسپیرانٹو کے نام سے ایک زبان ایجاد تو ضرور کی ، لیکن وہ زبان اپنی موت آپ مر گئی اور آج سو، سوا سو سال بعد کوئی اس کا نام تک نہیں جانتا﴾۔۔ ہاں البتہ انسان نے شعوری طور پر ان رائج زبانوں کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی جس کے نتیجے میں لسانی قواعد و ضوابط ضابطہ، تحریر میں آئے۔ اس طرح گویا گرامر ایجاد ہوئی ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس طرح گرامر دریافت ہوئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح سائنسی قوانین ﴿ قوانینِ فطرت ﴾ انسان نے ایجاد نہیں کئے بلکہ دریافت کیے۔ کشش ثقل اور اس کے قوانین انسانی ایجاد نہیں بلکہ انسانی دریافت ہیں ۔بعینہِ لسانیات کے ماہرین نے سر جوڑ کر مروجہ زبان کے طور طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں گرامر اور لسانیات کے قواعد دریافت کیے۔
قرآن کریم میں اللہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
﴿فِطرتَ اللہِ التی فَطَر َالناس عَلَیھَا ۔ لا تبدیل لِخلقِِِ اللہ﴾
﴿سورہ روم﴾
ترجمہ:۔ وہی تراش اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو ۔ بدلنا نہیں اللہ کے بنائے ہوئے کو۔
کیا و جہ ہے کہ ایک دوسری سے ہزاروں کلو میٹر دور پیدا ہونے والی اور پھلنے پھولنے والی تہذیبوں میں ایک دوسری تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہونے اور دوسری تہذیب کے کسی طرح کے اثرات قبول نہ کر سکنے کے باوجود ہر تہذیب و تمدن میں اچھائی و برائی کے تصورات ایک جیسے ہیں ۔ اچھائی و اچھی قدریں ہر تہذیب و ہر زمانے میں اچھے تصورات و اقدار ہی ہیں۔اور برائی اور ا س سے جنم لینے والی بری اقدار و برے تصورات ہر تہذیب و ہر دور میں برے ہیں ۔ بدی ہر دور اور ہر تہذیب میں بدی ہے ، اور نیکی ہر دور اور ہر تہذیب میں نیکی ہے۔ اچھے خیالات ، نیکی، سچائی ، احسان ، ہمدردی، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے محبت و شفقت، کمزور کی طرف داری، غلط قدروں اور غلط تصورات کے خلاف آواز اٹھانا، اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں ، قتل و غارت گری ، چوری ، ڈاکہ زنی وغیرہ پر سزا ہر دور اور ہر معاشرے میں اچھی اقدار کے طور پر موجود رہے ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح دوسری طرف برے خیالات ، بدی، جھوٹ، مکر و فریب، دغابازی، شقاوت ، سنگدلی، ظلم و جور، بد تمیزی، فحاشی و عریانی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی، قتل و خون وغیرہ سب معاشرے کی برائیاں اور ناسور خیال کیے جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ اشا رہ نہیں کرتی کہ مندرجہ بالا خیالات تصورات و اقدار کسی ایک تہذیب و تمدن سے دوسری تہذیب و تمدن میں کسی طور بھی منتقل ہوئے ہوں۔ یہ اقدار ہر تہذیب کی اپنی پیداوار سمجھی جا سکتی ہیں۔ خواہ وہ قدیم یونانی و مصری تہذیبیں ہوں، انکا و سمیری و حطیطی تہذیبیں ہوں ، چین و جاپان و ہندوستان کی تہذیبیں ہوں یا زمانہ جدید کی مشرقی و مغربی تہذیبیں ہوں۔ اچھی اقدار اچھی ہیں اور بری اقدار بری ہی سمجھی جاتی ہیں۔ گویا
ع کوئی معشوق ہے اس پردہ، زنگاری میں
اور یہ کوئی معشوق، بجا طور پرخدائے لم یزل اللہ باری، تعالیٰ کی ذات کے علاوہ اور کون سی ہستی ہوسکتی ہے۔
حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی تفسیرِ عثمانی میں مندرجہ بالا آیت کے بارے میں رقمطراز ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کر سکے ا ور بدائ فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اس کے دل میں بطور تخمِ ھدایت کے ڈال دی ہے۔ اور اگر گرد و پیش کے احوال و ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقیناً دینِ حق کو اختیار کرے اور کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔ ’’ عہدِ الست‘‘ کے قصے میں اسی کی طرف اشارہ ہے‘‘۔
یعنی عہدِ الست ہی وہ واحد موقع ہے جب ان تمام تہذیبوں کے اجزائے ترکیبی یعنی حضرتِ انسان کی تمام نوع ، تمام ارواح نے ایک مقام پر یکجا ہوکر ایک زبان اور ایک آواز کے ساتھ اللہ رب العزت کے سوال ﴿الست بربکم ﴾ کے جواب میں ﴿ بلیٰ ﴾ کہا تھا۔ اسی اللہ رب العزت نے قوموں کو تہذیب تمدن، اقدار و تصورات عطائ فرمائے، اور تہذیبوں کی نشوئ نمائ اور پروان و پرداخت کا مالک بنا۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے انسانی تہذیبوں کو مختلف زبانیں عطا ئ کیں اور ان زبانوں کی پروان و پرداخت کا مالک بنا۔ زبانوں کے ایک دوسری سے مکمل طور پر الگ ہونے کے باوجود ہمیں ان گنت الفاظ و ترکیبات و خیالات کی یکسانی پر حیرت ہوتی ہے۔
۱۔ ماں، ماتا، مام، ا،م ، مادر، مدر، ممی، جیسے ملتے جلتے الفاظ ماں کیلئے، دنیائ کی مختلف زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
۲۔ عزت و تکریم کے لئے جمع کا صیغہ دنیائ کی کئی زبانوں میں مستعمل ہے، یعنی انگریزی میں وی ﴿ we﴾ اردو میں ہم ، عربی میں نحن وغیرہ کا استعمال نہ صرف اللہ رب العزت کی زبانی ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے، بلکہ دنیوی دیگر بادشاہوں اور متبرک ہستیوں کی زبانی بھی ادا ہوتا ہے۔
۳۔ ذیل میں ایک جدول کے ذریعے اردو، انگریزی، عربی وعبرانی کے چند الفاظ درج ہیں جو ایک جیسے ہی ہیں۔
اردو
انگریزی
عربی
﴿ مندرجہ بالا جدول شیخ احمد دیدات کے خطبات سے لیا گیا ہے۔﴾
اب اگر مذکورہ بالا مبحث اور دلائل کی روشنی میں منصوبہ، خداوندی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
معاہدہ، ازلی سے بہت پہلے جب اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو لوحِ محفوظ میں ودیعت فرمایا، اسی دن گویا بارگاہِ ایزدی میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس قرآن کو اپنے محبوب بندے حضرتِ محمد مصطفےٰ ﷺ پر نازل فرمانے کے لئے زبانِ عربی ہی مناسب ترین زبان ہے۔ لہٰذہ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی، عربی زبان رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ سے کم و بیش ساڑھے تین سو سال پہلے سے بولی جارہی تھی۔
درآنحالیکہ جب نبی امی ﷺ کو اہلِ عرب میں مبعوث فرمانے اور قرآنِ کریم کو ان پر عربی زبان میں نازل فرمانے کا وقت آیا تو اس وقت عربی زبان نہ صرف دنیائ کی سب سے بہترین زبان کی شکل میں موجود تھی ، بلکہ اس وقت وہ اپنے عروجِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ چنانچہ اہلِ عرب اپنی زبان پر بجا طور پر فخر کرتے تھے اور اپنے آپ کو فصیح اور دیگر عالم کو عجم یعنی گونگا سمجھتے تھے۔
مندرجہ بالا صورتحال کا ادراک و اظہار نہ صرف عربوں نے بلکہ زمانہ، قدیم و جدید کے غیر عربوں اور غیر مسلموں نے بھی برملا کیا، چنانچہ مشہور مستشرق دوبوئر اپنی کتاب تاریخِ فلسفہ، اسلام میں رقمطرا زہے۔
’’عربی زبان جس کے لفظوں اور ترکیبوں کی کثرت اور انصراف کی صلاحیت پر عربوں کو خاص طور پر ناز تھا، دنیا میں ایک اہم حیثیت حاصل کرنے کے لئے بہت موزوں تھی۔ اسے دوسری زبانون خصوصاً ثقیل لاطینی اور پر مبالغہ فارسی کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں مختصر اور مجرد اوزان موجود ہیں۔ یہ بات علمی اصطلاحوں کیلئے بہت مفید ثابت ہوئی۔ عربی زبان میں باریک سے باریک فرق ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ‘‘
آگے چل کر فاضل مصنف لکھتا ہے۔
’’ عربی جیسی فصیح ، پر معنی اور مشکل زبان نے شامیوں اور ایرانیوں کی تعلیمی زبان بن کر بہت سے نئے مسائل پیدہ کر دئیے۔ اول تو قرآن کے مطالعے، تجوید اور تفسیر کے لیے زبان پر عبور ضروری تھا، کفار کو یقین تھا کہ وہ کلام اللہ میں ز بان کی غلطیاں دکھا سکتے ہیں ، اسلئے جاہلیت کے اشعار اور بدویوں کے روز مرہ سے مثالیں جمع کی گئیں تاکہ قرآنی عبارت کی صحت ثابت کی جائے اور اسی سلسلے میں زبان دانی کے عام اصولوں سے بھی بحث کی گئی۔‘‘
﴿از تاریخِ فلسفہ ئ اسلام از ٹ۔ ج۔ دوبو ئر۔
مترجم ڈاکٹر عابد حسین﴾
عربی زبان کی وہ انصراف کی صلاحیت اور مجرد اور مختصر اوزان کی خصوصیت کیا ہے۔ اس صلاحیت و خصوصیت کو ہم ایک جادوئی لفظ ’’ ثلاثی مجرد‘‘ سے ظاہر کریں تو بے جا نہ ہوگا۔
ثلاثی مجرد سے مراد وہ سہ حرفی مادہ ہے جو عربی زبان کے نوے فیصد افعال ِ منصرفہ اور اسمائے مشتقہ کی بنیاد ہے۔
اب پیرایہ، خیال اور نفس ِ مضمون کے اندر رہتے ہوے مندرجہ بالا مبحث کا مزید جائزہ لینے کے لیے علم الصرف کی اہم اصطلاحات کی آسان تعریف کر دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے ’’ الصرف ام العلوم‘‘ یعنی علم الصرف تمام علوم کی ماں ہے۔ در اصل صیغوں کی پہچان کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں جس سے لفظوں کو گرداننے کا طریقہ اور ایک صیغہ سے دوسرا صیغہ بنانے کا قاعدہ معلوم ہوتا ہے۔
فعل دو قسم کا ہوتا ہے، ماضی اور مضارع۔ ماضی جس میں کام کا ہوچکنا معلوم ہوتا ہے اور کام اگر اب تک ہوا نہیں ، بلکہ ہورہا ہے یا ہوگا تو اس صورت میں مضارع کا فعل استعمال ہوتا ہے۔
فعل میں عموماً تین حروفِ اصلیہ ہوتے ہیں، مگر بعض فعلوں میں چار بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسم میں اصلی حروف عام طور پر تین، چار یا پانچ ہوتے ہیں۔
ثلاثی: ۔ اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں تین اصلی حروف ہوتے ہیں۔ جیسے ضرب، نصر وغیرہ۔
رباعی:۔ اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں جس میں چار اصلی حروف ہوتے ہیں جیسے بعثر، دحرج وغیرہ۔
خماسی:۔ اس اسم کو کہتے ہیں جس میں پانچ اصلی حروف ہوتے ہیں۔
اب ان ثلاثی، رباعی اور خماسی الفاظ میں سے ہر ایک کی دو ، د و قسمیں ہیں، ثلاثی مجرد اور ثلاثی مزید فیہ، رباعی مجرداور رباعی مزید فیہ، خماسی مجرد اور خماسی مزید فیہ۔
اگر فعل کے صیغہ ماضی واحد مذکر غائب میں صرف تین یا چار حروفِ اصلی موجود ہوں اور کوئی حروفِ زائدہ نہ ہو تو اسے مجرد کہتے ہیں۔ جیسے ضرب، نصر ثلاثی مجرد ہیں بعثر، دحرج وغیرہ رباعی مجرد ہیں۔لیکن اگر فعل کے صیغہ ماضی واحد مذکر غائب میں حروف اصلیہ کے ساتھ کوئی حرفِ زائد بھی ہو، تو اسے مزید فیہ کہا جاتا ہے۔جیسے اِجتنب ، اِستنصر، ثلاثی مزید فیہ اور تسربل ، تذندق رباعی مزید فیہ کی مثالیں ہیں۔
لفظ کے حروفِ اصلیہ کو مادّہ کہتے ہیں۔ گویا کم از کم صرف تین حروف پر مشتمل ایک مختصر ترین لفظ جو حروفِ اصلیہ پر مشتمل ہوتا ہے، لفظ کا مادّہ کہلاتا ہے۔ اور پھر اسی مادے سے مصدر اور اس کے تمام مشتقات کے علاوہ افعال کی تمام حالتیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ پھر ایک بڑا کمال یہ ہے کہ فعل کے ہر صیغے میں فاعل کی ضمیر موجود ہوتی ہے، جو ضمائر مرفوعہ متصلہ کہلاتی ہیں ۔
اب ان مختصر ترین حروفِ اصلیہ اور ان کے ساتھ متصل چند حروفِ زائدہ اور ضمائرِ مرفوعہ متصلہ کے ادغام سے عربی زبان کے وہ تمام جامع ترین الفاظ وجود میں آتے ہیں جو کسی اسم و فعل کی تمام ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کررہے ہوتے ہیں ۔ اور اردو زبان کی طرح فعل کے ساتھ ’ کرنا‘ کا لاحقہ لگانے کی حاجت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ صرف ایک مختصر ترین لفظ ضرب کا مکمل ترجمہ اس ایک مرد نے مارا یا اس ایک مرد نے بیان کیا، ہوتا ہے۔ اب جب اسی ایک مختصر ترین لفظ سے حاضر، غائب اور متکلم کے چودہ صیغے ﴿ واحد مذکر غائب، تثنیہ مذکر غائب، جمع مذکر غائب، واحد مونث غائب، تثنیہ مونث غائب، جمع مونث غائب، واحد مذکر حاضر، تثنیہ مذکر حاضر، جمع مذکر حاضر، واحد مونث حاضر، تثنیہ مونث حاضر، جمع مونث حاضر، واحد مذکر و مونث متکلم ، تثنیہ و جمع مذکر و مونث متکلم﴾ وجود میں آ تے ہیں، اور وہ بھی اس طرح سے کہ اس مختصر ترین لفظ کے لئے ہر صیغے سے اثبات ماضی معروف، اثبات ماضی مجہول، نفی ماضی معروف، نفی ماضی مجہول، اثبات مضارع معروف، اثبات مضارع مجہول، نفی مضارع معروف، نفی مضارع مجہول، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل معروف، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل مجہول، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل معروف، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل مجہول، لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل معروف، لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل مجہول، لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل معروف، لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل مجہول، امر معروف، امر مجہول، امر معروف بہ نونِ ثقیلہ، امر مجہول بہ نونِ ثقیلہ، امر معروف بہ نونِ خفیفہ، امر مجہول بہ نونِ خفیفہ، نہی معروف، نہی مجہول، نہی معروف بہ نونِ ثقیلہ، نہی مجہول بہ نونِ ثقیلہ، نہی معروف بہ نونِ خفیفہ، نہی مجہول بہ نونِ خفیفہ کے علاوہ مختلف اقسام کے اسم جن میں اسم فاعل اسم مفعول، اسم تفضیل، اسمِ ظرف، اسمِ آلہ، اسم مبالغہ اور صفتِ مشبہ جیسے تمام الفاظ وجود میں آتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً پانچ سو الفاظ بنتے ہیں۔ گویا ایک مادے سے کم و بیش پانچ سو الفاظ وجود میں آ سکتے ہیں۔
مولٰنا مشتاق چرتھاولی نے اپنی کتاب صفوۃ المصادر میں تقریباً ایک ہزر کے لگ بھگ مصادر تحریر کیے ہیں۔ عربی میں الفاظ خاص طور پر مختصر الفاظ کے اتنے بڑے ذخیرے کی موجودگی میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جانی چاہیے کہ اس وسیع زبان میں ایک ایک لفظ کے کئی معانی اور ایک معنی کے کئی الفاظ کثرت سے موجود ہیں، یعنی اس زبان میں باریک سے باریک فرق کو ظاہر کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
جناب طالب ہاشمی نے اپنی کتاب ’’ اصلاحِ تلفظ اور املا ‘‘ میں اردو کے ان الفاظ کا ذکر کیا ہے جو عربی سے اردو میں آئے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عربی کے سہ ہرفی، چار حرفی، پانچ ہرفی، چھ حرفی اور سات حرفی مصادر کے۶۵ اوزان سے تقریباً ساڑھے چھ سو الفاظ رقم کئے ہیں، لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ سب الفاظ اپنی موجودہ حالت ہی میں اردو میں وارد ہوے ہیں اور اس خاص مصدر کے باقی عربی الفاظ اردو کے ا لئے جنبی ہی ہیں۔ یہ بات اردو کی کوتاہ دامنی کی طرف اشارہ کے یا نہ کرے عربی کی وسیع دامنی کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہے۔
امید ہے کہ میں قاری کے دل میں وہ آتشِ شوق بھڑکانے میں کامیاب ہوپایا ہوں، جو میرے اس مضمون کا مقصد و مدعا تھا۔ عربی زبان اس لیے تو محترم ہے ہی کہ یہ قرآن و سنت کی زبان ہے، بلکہ یہ اس لیے بھی قابلِ ستائش اور سیکھنے کے لائق ہے کہ یہ دنیا کی بہترین زبان ہے۔ حدیث نبوی ö ہے ’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘ تم میں سے بہتر وہ ہیں جنھوں نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لیے عربی ضروری تو ہے ہی، پھر اگراسے اسکے محاسن و خوبیوں کو پرکھتے ہوئے ، شوق سے سیکھا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔
تمت بالخیر
محمد خلیل الر حمٰن
﴿بسم اللہ الر حمٰن الر حیم﴾
الحمد للہ الذی ﴿خلق الانسان و علمہ البیان ﴾ و اختیار لوحیہ لساناً عربیاً و انزل فیہ القرآن وافضل الصلاۃ وا تم السلام علی سیدنا محمد سید الانام و صاحب الجوامع الکلم و حسن البیان ، ا ما بعد
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج عہد جدید تک ہم ذہن ِ انسانی کے ارتقائ اور اس کی نشو و نمائ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلا اور بنیادی عنصر جسکی ذہن انسانی کوضرورت تھی وہ ہے رابطہ اور رابطے کی زبان۔ جسکے بغیر شاید یہ عمل ممکن نہ ہوتا۔ جانوروں کے برعکس جنھیں اپنی ذہنی استعداد کے مطابق رابطے کے لئے صرف چند اشاروں اور کچھ آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے، انسانی ذہن کو اپنا مافی الضمیر مکمل طور پر بیان کرنے کے لئے یقیناً ایک مکمل زبان کی ضرورت ہوئی۔ اسطرح گویاانسانی رابطے کے اہم تر ین طریقے یعنی زبان کا فطری ارتقائ عمل پذیر ہوا۔ جب ہم فطری اندازکی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمارا واضح اشارہ امر ربی کی جانب ہے۔ اللہ رب العزت نے تخلیق انسانی کے بعد اسے بیان کی قدرت عطائ فرمائی
﴿خلق الانسان۔ علمہ البیان﴾
جسکی تفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کچھ یوں کرتے ہیں۔
ایجاد ﴿ وجود عطائ فرمانا ﴾ اللہ کی بڑی نعمت بلکہ نعمتوں کی جڑ ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔ایجادِ ذات اور ایجادِ صفت۔ تو اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ذات کو پیدا کیا اور اس میں علمِ بیان کی صفت بھی رکھی۔ یعنی قدرت دی کہ اپنے مافی الضمیر کو نہایت صفائی و حسن و خوبی سے ادا کر سکے۔ اور دوسروں کی بات سمجھ سکے۔اس صفت کے ذریعے سے وہ ْقرآن سیکھتا اور اور سکھاتا ہے۔ اور خیر و شر، ہدایت و ضلالت، ایمان و کفر اور دنیا و آخرت کی باتوں کو واضح طور پر سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔
﴿ از تفسیرِ عثمانی ﴾
تخلیقِ آدم ہوئی پھر بی بی حوا تخلیق کی گئیں پھر ان دونوں کے ملاپ سے کنبہ اور خاندان بنے اور اس سے قبیلے اور ذاتیں وجود میں آئیںِ۔ ْقرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
﴿یٰا یھا الناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثیٰ و جعلنٰکم شعوباً وَّ قبائلَ لِتعارفو﴾۔
ترجمہ ۔اے آدمیو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اورقبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو۔
آپس کی پہچان اور اپنا مافی الضمیر ادا کرنے اور دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے انھیں زبان عطا ہوئی اور پھر جب ان کی تعداد بڑھی تو اسرائیلی روایات اور عہد نامہ عتیق کے مطابق وہ زمین میں پراگندہ ہو گئے اور ان کی زبان میں اختلاف ہوا۔
٭۔اور تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی۔
عہد نامہ، عتیق۔ تکوین۔۱:۱۱
٭۔آو، ہم اتریں اور وہاں ان کی زبان میں اختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں ۔
٭۔اور خداوند نے انھیں اس جگہ سے تمام زمین پر پراگندہ کیا اور وہ شہر کے بنانے سے رک گئے۔
٭۔ اس لئے اس کا نام بابل ہوا کیونکہ وہاں خداوند نے ساری زمین کی زبان میں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خدا نے انھیں تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔
عہد نامہ عتیق۔ تکوین۔۹۔۷:۱۱
جب بنی نوع آدم اس زمین پر ذاتوں اور قبیلوں میں بٹے اور پھیلے اور ایک دوسرے سے جغرافیائی طور پر دور ہوئے تو انھیں اپنے اپنے ماحول کے مطابق مختلف زبانیں بارگاہِ خداوندی سے عطائ ہوئیں ۔
اس طرح گویا دنیا کی مختلف زبانوںزبانوں کی تخلیق کا عمل شروع ہوا ۔ ہمیں دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ کہیں کچھ لوگ جمع ہوے ہوں اور انھوں نے کسی زبان کی ایجاد کی کوشش بھی کی ہو ۔﴿ ۷۸۸۱ ÷ئ میں ایک پولش ڈاکٹر ذامن ہاف نے ، اسپیرانٹو کے نام سے ایک زبان ایجاد تو ضرور کی ، لیکن وہ زبان اپنی موت آپ مر گئی اور آج سو، سوا سو سال بعد کوئی اس کا نام تک نہیں جانتا﴾۔۔ ہاں البتہ انسان نے شعوری طور پر ان رائج زبانوں کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی جس کے نتیجے میں لسانی قواعد و ضوابط ضابطہ، تحریر میں آئے۔ اس طرح گویا گرامر ایجاد ہوئی ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس طرح گرامر دریافت ہوئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح سائنسی قوانین ﴿ قوانینِ فطرت ﴾ انسان نے ایجاد نہیں کئے بلکہ دریافت کیے۔ کشش ثقل اور اس کے قوانین انسانی ایجاد نہیں بلکہ انسانی دریافت ہیں ۔بعینہِ لسانیات کے ماہرین نے سر جوڑ کر مروجہ زبان کے طور طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں گرامر اور لسانیات کے قواعد دریافت کیے۔
قرآن کریم میں اللہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
﴿فِطرتَ اللہِ التی فَطَر َالناس عَلَیھَا ۔ لا تبدیل لِخلقِِِ اللہ﴾
﴿سورہ روم﴾
ترجمہ:۔ وہی تراش اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو ۔ بدلنا نہیں اللہ کے بنائے ہوئے کو۔
کیا و جہ ہے کہ ایک دوسری سے ہزاروں کلو میٹر دور پیدا ہونے والی اور پھلنے پھولنے والی تہذیبوں میں ایک دوسری تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہونے اور دوسری تہذیب کے کسی طرح کے اثرات قبول نہ کر سکنے کے باوجود ہر تہذیب و تمدن میں اچھائی و برائی کے تصورات ایک جیسے ہیں ۔ اچھائی و اچھی قدریں ہر تہذیب و ہر زمانے میں اچھے تصورات و اقدار ہی ہیں۔اور برائی اور ا س سے جنم لینے والی بری اقدار و برے تصورات ہر تہذیب و ہر دور میں برے ہیں ۔ بدی ہر دور اور ہر تہذیب میں بدی ہے ، اور نیکی ہر دور اور ہر تہذیب میں نیکی ہے۔ اچھے خیالات ، نیکی، سچائی ، احسان ، ہمدردی، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے محبت و شفقت، کمزور کی طرف داری، غلط قدروں اور غلط تصورات کے خلاف آواز اٹھانا، اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں ، قتل و غارت گری ، چوری ، ڈاکہ زنی وغیرہ پر سزا ہر دور اور ہر معاشرے میں اچھی اقدار کے طور پر موجود رہے ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح دوسری طرف برے خیالات ، بدی، جھوٹ، مکر و فریب، دغابازی، شقاوت ، سنگدلی، ظلم و جور، بد تمیزی، فحاشی و عریانی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی، قتل و خون وغیرہ سب معاشرے کی برائیاں اور ناسور خیال کیے جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ اشا رہ نہیں کرتی کہ مندرجہ بالا خیالات تصورات و اقدار کسی ایک تہذیب و تمدن سے دوسری تہذیب و تمدن میں کسی طور بھی منتقل ہوئے ہوں۔ یہ اقدار ہر تہذیب کی اپنی پیداوار سمجھی جا سکتی ہیں۔ خواہ وہ قدیم یونانی و مصری تہذیبیں ہوں، انکا و سمیری و حطیطی تہذیبیں ہوں ، چین و جاپان و ہندوستان کی تہذیبیں ہوں یا زمانہ جدید کی مشرقی و مغربی تہذیبیں ہوں۔ اچھی اقدار اچھی ہیں اور بری اقدار بری ہی سمجھی جاتی ہیں۔ گویا
ع کوئی معشوق ہے اس پردہ، زنگاری میں
اور یہ کوئی معشوق، بجا طور پرخدائے لم یزل اللہ باری، تعالیٰ کی ذات کے علاوہ اور کون سی ہستی ہوسکتی ہے۔
حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی تفسیرِ عثمانی میں مندرجہ بالا آیت کے بارے میں رقمطراز ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کر سکے ا ور بدائ فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اس کے دل میں بطور تخمِ ھدایت کے ڈال دی ہے۔ اور اگر گرد و پیش کے احوال و ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقیناً دینِ حق کو اختیار کرے اور کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔ ’’ عہدِ الست‘‘ کے قصے میں اسی کی طرف اشارہ ہے‘‘۔
یعنی عہدِ الست ہی وہ واحد موقع ہے جب ان تمام تہذیبوں کے اجزائے ترکیبی یعنی حضرتِ انسان کی تمام نوع ، تمام ارواح نے ایک مقام پر یکجا ہوکر ایک زبان اور ایک آواز کے ساتھ اللہ رب العزت کے سوال ﴿الست بربکم ﴾ کے جواب میں ﴿ بلیٰ ﴾ کہا تھا۔ اسی اللہ رب العزت نے قوموں کو تہذیب تمدن، اقدار و تصورات عطائ فرمائے، اور تہذیبوں کی نشوئ نمائ اور پروان و پرداخت کا مالک بنا۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے انسانی تہذیبوں کو مختلف زبانیں عطا ئ کیں اور ان زبانوں کی پروان و پرداخت کا مالک بنا۔ زبانوں کے ایک دوسری سے مکمل طور پر الگ ہونے کے باوجود ہمیں ان گنت الفاظ و ترکیبات و خیالات کی یکسانی پر حیرت ہوتی ہے۔
۱۔ ماں، ماتا، مام، ا،م ، مادر، مدر، ممی، جیسے ملتے جلتے الفاظ ماں کیلئے، دنیائ کی مختلف زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
۲۔ عزت و تکریم کے لئے جمع کا صیغہ دنیائ کی کئی زبانوں میں مستعمل ہے، یعنی انگریزی میں وی ﴿ we﴾ اردو میں ہم ، عربی میں نحن وغیرہ کا استعمال نہ صرف اللہ رب العزت کی زبانی ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے، بلکہ دنیوی دیگر بادشاہوں اور متبرک ہستیوں کی زبانی بھی ادا ہوتا ہے۔
۳۔ ذیل میں ایک جدول کے ذریعے اردو، انگریزی، عربی وعبرانی کے چند الفاظ درج ہیں جو ایک جیسے ہی ہیں۔
اردو
انگریزی
عربی
﴿ مندرجہ بالا جدول شیخ احمد دیدات کے خطبات سے لیا گیا ہے۔﴾
اب اگر مذکورہ بالا مبحث اور دلائل کی روشنی میں منصوبہ، خداوندی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
معاہدہ، ازلی سے بہت پہلے جب اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو لوحِ محفوظ میں ودیعت فرمایا، اسی دن گویا بارگاہِ ایزدی میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس قرآن کو اپنے محبوب بندے حضرتِ محمد مصطفےٰ ﷺ پر نازل فرمانے کے لئے زبانِ عربی ہی مناسب ترین زبان ہے۔ لہٰذہ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی، عربی زبان رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ سے کم و بیش ساڑھے تین سو سال پہلے سے بولی جارہی تھی۔
درآنحالیکہ جب نبی امی ﷺ کو اہلِ عرب میں مبعوث فرمانے اور قرآنِ کریم کو ان پر عربی زبان میں نازل فرمانے کا وقت آیا تو اس وقت عربی زبان نہ صرف دنیائ کی سب سے بہترین زبان کی شکل میں موجود تھی ، بلکہ اس وقت وہ اپنے عروجِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ چنانچہ اہلِ عرب اپنی زبان پر بجا طور پر فخر کرتے تھے اور اپنے آپ کو فصیح اور دیگر عالم کو عجم یعنی گونگا سمجھتے تھے۔
مندرجہ بالا صورتحال کا ادراک و اظہار نہ صرف عربوں نے بلکہ زمانہ، قدیم و جدید کے غیر عربوں اور غیر مسلموں نے بھی برملا کیا، چنانچہ مشہور مستشرق دوبوئر اپنی کتاب تاریخِ فلسفہ، اسلام میں رقمطرا زہے۔
’’عربی زبان جس کے لفظوں اور ترکیبوں کی کثرت اور انصراف کی صلاحیت پر عربوں کو خاص طور پر ناز تھا، دنیا میں ایک اہم حیثیت حاصل کرنے کے لئے بہت موزوں تھی۔ اسے دوسری زبانون خصوصاً ثقیل لاطینی اور پر مبالغہ فارسی کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں مختصر اور مجرد اوزان موجود ہیں۔ یہ بات علمی اصطلاحوں کیلئے بہت مفید ثابت ہوئی۔ عربی زبان میں باریک سے باریک فرق ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ‘‘
آگے چل کر فاضل مصنف لکھتا ہے۔
’’ عربی جیسی فصیح ، پر معنی اور مشکل زبان نے شامیوں اور ایرانیوں کی تعلیمی زبان بن کر بہت سے نئے مسائل پیدہ کر دئیے۔ اول تو قرآن کے مطالعے، تجوید اور تفسیر کے لیے زبان پر عبور ضروری تھا، کفار کو یقین تھا کہ وہ کلام اللہ میں ز بان کی غلطیاں دکھا سکتے ہیں ، اسلئے جاہلیت کے اشعار اور بدویوں کے روز مرہ سے مثالیں جمع کی گئیں تاکہ قرآنی عبارت کی صحت ثابت کی جائے اور اسی سلسلے میں زبان دانی کے عام اصولوں سے بھی بحث کی گئی۔‘‘
﴿از تاریخِ فلسفہ ئ اسلام از ٹ۔ ج۔ دوبو ئر۔
مترجم ڈاکٹر عابد حسین﴾
عربی زبان کی وہ انصراف کی صلاحیت اور مجرد اور مختصر اوزان کی خصوصیت کیا ہے۔ اس صلاحیت و خصوصیت کو ہم ایک جادوئی لفظ ’’ ثلاثی مجرد‘‘ سے ظاہر کریں تو بے جا نہ ہوگا۔
ثلاثی مجرد سے مراد وہ سہ حرفی مادہ ہے جو عربی زبان کے نوے فیصد افعال ِ منصرفہ اور اسمائے مشتقہ کی بنیاد ہے۔
اب پیرایہ، خیال اور نفس ِ مضمون کے اندر رہتے ہوے مندرجہ بالا مبحث کا مزید جائزہ لینے کے لیے علم الصرف کی اہم اصطلاحات کی آسان تعریف کر دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے ’’ الصرف ام العلوم‘‘ یعنی علم الصرف تمام علوم کی ماں ہے۔ در اصل صیغوں کی پہچان کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں جس سے لفظوں کو گرداننے کا طریقہ اور ایک صیغہ سے دوسرا صیغہ بنانے کا قاعدہ معلوم ہوتا ہے۔
فعل دو قسم کا ہوتا ہے، ماضی اور مضارع۔ ماضی جس میں کام کا ہوچکنا معلوم ہوتا ہے اور کام اگر اب تک ہوا نہیں ، بلکہ ہورہا ہے یا ہوگا تو اس صورت میں مضارع کا فعل استعمال ہوتا ہے۔
فعل میں عموماً تین حروفِ اصلیہ ہوتے ہیں، مگر بعض فعلوں میں چار بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسم میں اصلی حروف عام طور پر تین، چار یا پانچ ہوتے ہیں۔
ثلاثی: ۔ اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں تین اصلی حروف ہوتے ہیں۔ جیسے ضرب، نصر وغیرہ۔
رباعی:۔ اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں جس میں چار اصلی حروف ہوتے ہیں جیسے بعثر، دحرج وغیرہ۔
خماسی:۔ اس اسم کو کہتے ہیں جس میں پانچ اصلی حروف ہوتے ہیں۔
اب ان ثلاثی، رباعی اور خماسی الفاظ میں سے ہر ایک کی دو ، د و قسمیں ہیں، ثلاثی مجرد اور ثلاثی مزید فیہ، رباعی مجرداور رباعی مزید فیہ، خماسی مجرد اور خماسی مزید فیہ۔
اگر فعل کے صیغہ ماضی واحد مذکر غائب میں صرف تین یا چار حروفِ اصلی موجود ہوں اور کوئی حروفِ زائدہ نہ ہو تو اسے مجرد کہتے ہیں۔ جیسے ضرب، نصر ثلاثی مجرد ہیں بعثر، دحرج وغیرہ رباعی مجرد ہیں۔لیکن اگر فعل کے صیغہ ماضی واحد مذکر غائب میں حروف اصلیہ کے ساتھ کوئی حرفِ زائد بھی ہو، تو اسے مزید فیہ کہا جاتا ہے۔جیسے اِجتنب ، اِستنصر، ثلاثی مزید فیہ اور تسربل ، تذندق رباعی مزید فیہ کی مثالیں ہیں۔
لفظ کے حروفِ اصلیہ کو مادّہ کہتے ہیں۔ گویا کم از کم صرف تین حروف پر مشتمل ایک مختصر ترین لفظ جو حروفِ اصلیہ پر مشتمل ہوتا ہے، لفظ کا مادّہ کہلاتا ہے۔ اور پھر اسی مادے سے مصدر اور اس کے تمام مشتقات کے علاوہ افعال کی تمام حالتیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ پھر ایک بڑا کمال یہ ہے کہ فعل کے ہر صیغے میں فاعل کی ضمیر موجود ہوتی ہے، جو ضمائر مرفوعہ متصلہ کہلاتی ہیں ۔
اب ان مختصر ترین حروفِ اصلیہ اور ان کے ساتھ متصل چند حروفِ زائدہ اور ضمائرِ مرفوعہ متصلہ کے ادغام سے عربی زبان کے وہ تمام جامع ترین الفاظ وجود میں آتے ہیں جو کسی اسم و فعل کی تمام ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کررہے ہوتے ہیں ۔ اور اردو زبان کی طرح فعل کے ساتھ ’ کرنا‘ کا لاحقہ لگانے کی حاجت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ صرف ایک مختصر ترین لفظ ضرب کا مکمل ترجمہ اس ایک مرد نے مارا یا اس ایک مرد نے بیان کیا، ہوتا ہے۔ اب جب اسی ایک مختصر ترین لفظ سے حاضر، غائب اور متکلم کے چودہ صیغے ﴿ واحد مذکر غائب، تثنیہ مذکر غائب، جمع مذکر غائب، واحد مونث غائب، تثنیہ مونث غائب، جمع مونث غائب، واحد مذکر حاضر، تثنیہ مذکر حاضر، جمع مذکر حاضر، واحد مونث حاضر، تثنیہ مونث حاضر، جمع مونث حاضر، واحد مذکر و مونث متکلم ، تثنیہ و جمع مذکر و مونث متکلم﴾ وجود میں آ تے ہیں، اور وہ بھی اس طرح سے کہ اس مختصر ترین لفظ کے لئے ہر صیغے سے اثبات ماضی معروف، اثبات ماضی مجہول، نفی ماضی معروف، نفی ماضی مجہول، اثبات مضارع معروف، اثبات مضارع مجہول، نفی مضارع معروف، نفی مضارع مجہول، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل معروف، نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل مجہول، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل معروف، نفی جحد بہ لم فعل مستقبل مجہول، لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل معروف، لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل مجہول، لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل معروف، لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل مجہول، امر معروف، امر مجہول، امر معروف بہ نونِ ثقیلہ، امر مجہول بہ نونِ ثقیلہ، امر معروف بہ نونِ خفیفہ، امر مجہول بہ نونِ خفیفہ، نہی معروف، نہی مجہول، نہی معروف بہ نونِ ثقیلہ، نہی مجہول بہ نونِ ثقیلہ، نہی معروف بہ نونِ خفیفہ، نہی مجہول بہ نونِ خفیفہ کے علاوہ مختلف اقسام کے اسم جن میں اسم فاعل اسم مفعول، اسم تفضیل، اسمِ ظرف، اسمِ آلہ، اسم مبالغہ اور صفتِ مشبہ جیسے تمام الفاظ وجود میں آتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً پانچ سو الفاظ بنتے ہیں۔ گویا ایک مادے سے کم و بیش پانچ سو الفاظ وجود میں آ سکتے ہیں۔
مولٰنا مشتاق چرتھاولی نے اپنی کتاب صفوۃ المصادر میں تقریباً ایک ہزر کے لگ بھگ مصادر تحریر کیے ہیں۔ عربی میں الفاظ خاص طور پر مختصر الفاظ کے اتنے بڑے ذخیرے کی موجودگی میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جانی چاہیے کہ اس وسیع زبان میں ایک ایک لفظ کے کئی معانی اور ایک معنی کے کئی الفاظ کثرت سے موجود ہیں، یعنی اس زبان میں باریک سے باریک فرق کو ظاہر کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
جناب طالب ہاشمی نے اپنی کتاب ’’ اصلاحِ تلفظ اور املا ‘‘ میں اردو کے ان الفاظ کا ذکر کیا ہے جو عربی سے اردو میں آئے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عربی کے سہ ہرفی، چار حرفی، پانچ ہرفی، چھ حرفی اور سات حرفی مصادر کے۶۵ اوزان سے تقریباً ساڑھے چھ سو الفاظ رقم کئے ہیں، لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ سب الفاظ اپنی موجودہ حالت ہی میں اردو میں وارد ہوے ہیں اور اس خاص مصدر کے باقی عربی الفاظ اردو کے ا لئے جنبی ہی ہیں۔ یہ بات اردو کی کوتاہ دامنی کی طرف اشارہ کے یا نہ کرے عربی کی وسیع دامنی کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہے۔
امید ہے کہ میں قاری کے دل میں وہ آتشِ شوق بھڑکانے میں کامیاب ہوپایا ہوں، جو میرے اس مضمون کا مقصد و مدعا تھا۔ عربی زبان اس لیے تو محترم ہے ہی کہ یہ قرآن و سنت کی زبان ہے، بلکہ یہ اس لیے بھی قابلِ ستائش اور سیکھنے کے لائق ہے کہ یہ دنیا کی بہترین زبان ہے۔ حدیث نبوی ö ہے ’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘ تم میں سے بہتر وہ ہیں جنھوں نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لیے عربی ضروری تو ہے ہی، پھر اگراسے اسکے محاسن و خوبیوں کو پرکھتے ہوئے ، شوق سے سیکھا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔
تمت بالخیر