علیگڑھی کے متعلق (سر سید کے عقائد)

معذرت کے ساتھ فاروق صاحب ، آپ نے مسلمانوں کے روشن دور کو بھی تاریک دور میں شامل کر لیا ۔ ڈارک ایج جس کا تذکرہ مغرب میں ان کی تاریکی کے حوالے سے کیا جاتا ہے مسلمانوں کا روشن دور تھا اور علم اور تہذیب میں مسلمان اس وقت اقوام عالم میں سرفہرست تھے اور اس وجہ سے معتبر اور معزز بھی۔
درست فرمایا آپ نے، رو جذبات میں کچھ زیادہ لکھ گیا۔ درستگی پر دو بار شکریہ۔ :)
 

ابوشامل

محفلین
فاروق صاحب! آپ سے کافی باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کہ آپ نے "تاریک عہد" کے بارے میں وہی رویہ اختیار کر رہے ہیں جو آج کل کے "مولوی" کرتے ہیں کہ مغرب نے دنیا کو سوائے بے حیائی، عریانی، فحاشی اور بے غیرتی کے کچھ نہیں دیا، حالانکہ اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بالکل اسی طرح آپ مسلمانوں کے ایک ہزار سال کو یکسر رد نہیں کر سکتے اور اس سلسلے میں آپ کا رویہ (ایکا بار پھر انتہائی معذرت کے ساتھ) بالکل اسی "مولوی" جیسا لگ رہا ہے۔ دیکھیں جسے یورپ "Dark Age" کہتا ہے وہ یورپ اور مغرب کے لیے تاریک دور تو ہو سکتا ہے لیکن وہ اسلام کا "Golden Age" یعنی "عہدِ زریں" ہے اور اس کی دلیل مسلم سائنسدانوں، جغرافیہ دانوں، ریاضی دانوں، کیمیا گروں، سیاحوں اور تاریخ دانوں کی وہ طویل فہرست ہے جنہوں نے قرون وسطٰی (Middle Ages) میں دنیا کی بڑی خدمت کی۔
مذکورہ بالا پوسٹ میں آپ کا تسلیم کرنا آپ کے بڑے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ والسلام
 

فاتح

لائبریرین
شاید یگانہ نے کہا تھا
سب ترے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا، ایسا خبطِ‌مذہب کیا

ایک بے چارے سر سید احمد خان پر ہی کیا موقوف، اگر ہمارے پاس تاریخ کا مطالعہ کرنے کی فرصت ہو تو ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ آج تک کوئی صوفی، فلسفی یا شاعر ایسا نہیں گزرا جو اپنے زمانے میں تکذیب اور تحدید سے بچ کر گزر سکا ہو۔
جوش کا تو ذکر ہی کیا کہ سر سید، قائد اعظم اور اقبال کے بارے میں ہی، ان کی سیاسی و سماجی خدمات کے باوجود، ماضی کے فتوے جمع کر کے ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب بنائی جا سکتی ہے۔

ڈیگال سے جب کہا گیا کہ "سارتر حد سے آگے بڑھ گیا ہے، اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے؟" جواب ملا "فرانس کو کیسے قید کر لوں؟"۔ یہی حال سر سید کا ہے کہ وہ ایک ذات، ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد، ایک قوم، ایک اجتماع اور کئی نسلوں کا نام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تمام خدمات و کاوشوں کو پسِ پشت ڈال کر الزام تراشی کرنے والے خود کس مرتبے پر فائز ہیں؟ شاید یہ واحد "خوبی" ایسی ہو گی جو ان کی جہالت کے باوجود تاریخ میں ان کا نام زندہ رکھ سکے گی کہ انہوں نے ایک عہد ساز شخصیت پر کیچڑ اچھالی۔

ذرا تاریخ کی جانب ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ آئن سٹائن ایک یہودی تھا اور نیوٹن ایک ایسا عیسائی جس نے بسترِ مرگ پر اسی عیسائی فرقہ سے ارتداد کا اعلان کیا جس کے کلیسا میں وہ پیدا ہوا۔ جبکہ افلاطون اور ارسطو کا اپنا ہی مذہب تھا لیکن اس کے باوجود آج تمام دنیا کے پڑھے لکھے لوگ ان کے فلسفے اور تعلیمات کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کے عقائد و تعلیمات کو موجودہ سائنس و فلسفہ کی اساس مانتے ہیں اور ایک جانب ہم ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام، جس کی تھیوریاں دنیا بھر میں کی جامعات کے شعبہ جاتِ طبیعات (فزکس) میں نصاب کا حصہ ہیں، کو ملحد قرار دیتے ہیں اور سر سید احمد خان کی قائم کردہ "علی گڑھ یونیورسٹی" اور "تہذیب الاخلاق" کے حوالے سے جو ذہنی و فکری ارتقا پیدا ہوا اسے ایک کافر کی سازش قرار دیتے ہیں۔

اگر ہم اپنے نشانوں کو آپ ٹھکرائیں گے تو کیا گونگے پن کا نام بولنا اور اپنے چہرے پر سیاہی پھیرنے کا نام لکھنا رکھیں گے؟
 
فاروق صاحب! آپ سے کافی باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کہ آپ نے "تاریک عہد" کے بارے میں وہی رویہ اختیار کر رہے ہیں جو آج کل کے "مولوی" کرتے ہیں کہ مغرب نے دنیا کو سوائے بے حیائی، عریانی، فحاشی اور بے غیرتی کے کچھ نہیں دیا، حالانکہ اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بالکل اسی طرح آپ مسلمانوں کے ایک ہزار سال کو یکسر رد نہیں کر سکتے اور اس سلسلے میں آپ کا رویہ (ایکا بار پھر انتہائی معذرت کے ساتھ) بالکل اسی "مولوی" جیسا لگ رہا ہے۔ دیکھیں جسے یورپ "Dark Age" کہتا ہے وہ یورپ اور مغرب کے لیے تاریک دور تو ہو سکتا ہے لیکن وہ اسلام کا "Golden Age" یعنی "عہدِ زریں" ہے اور اس کی دلیل مسلم سائنسدانوں، جغرافیہ دانوں، ریاضی دانوں، کیمیا گروں، سیاحوں اور تاریخ دانوں کی وہ طویل فہرست ہے جنہوں نے قرون وسطٰی (Middle Ages) میں دنیا کی بڑی خدمت کی۔
مذکورہ بالا پوسٹ میں آپ کا تسلیم کرنا آپ کے بڑے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ والسلام

سرسید احمد خان کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے جدید تعلیم کی بنیاد مسلمانوں میں رکھی۔ اور 1000 سالہ دور تاریکی سے مسلمانوں کو نکالا۔ مولوی 1000 سال بادشاہوں کو صلاح دیتے رہے اور ایک بھی یونیورسٹی اس دور کا نشان نہیں ہے۔ 1000 سال کا تاریک دور مولویت جو یورپ کے دور تاریکی سے بھی بدتر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو غلامی کے دور میں رہنا پڑا۔ اب قوم اس دور تاریکی سے علم کی بدولت باہر آچکی ہے،

چونکہ دو برادران نے مذکورہ بالا پوسٹ کے بارے مین تنقیدی کلمات عطا فرمائےلہذا تھوڑی سی وضاحت فرض ہوگئی۔ واضح رہے کہ یہ مخالفانہ نوٹ نہین بلکہ وضاحتی تفصیل ہے۔
لوگ عموما 'دور تاریکی' سے واقف ہیں کہ یہ یورپ کا پسماندہ ترین دور تھا۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اسی طرح کا ایک دورمسلمانانِ برصغیر پاک ہند پر بھی گذرا ہے۔
یہ دور ہے برصغیر میں وسطی ایشیاء کے مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کا دور جو بابر سے شروع ہوا اور بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اس دور کو کھینچ کر محمد بن قاسم تک لے جاتے ہیں اور کچھ صرف 1000 سال تک۔ مت۔ف۔ق۔ہ تاریخ یہ ہے کے یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔ عسکری نکتہء نگاہ سے یہ تو درست ہے، لیکن اس دور میں فرد واحد حکمراں رہا اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا رہا۔ کسی مجلس شوری کے آثار تاریخ میں نہیں ملتے، بغور دیکھئے تو حالات کا تانا بانا کچھ اس طرح رہا کہ، برصغیر میں، اس دور میں کوئی علمی ترقی نہ ہوئی، کوئی ایجاد قابل ذکر نہیں ہے، کوئی قابل ذکر درسگاہ، کوئی یونیورسٹی، کوئی شفا خانوں‌کا نظام، سڑکوں کا نظام، فلاحی نظام، گویا علمی ترقی جو مسلمانوں کا مشرق وسطیٰ میں‌طرہء امتیاز رہا، معدوم ہے۔ اس کم علمی و تاریکی کی بڑی وجہ کیا ہے، میں بے بہرہ ہوں۔ اور اس کا الزام کس کے سر ہے؟ بتانا بہت مشکل ہے۔
البتہ سر سید احمد خان نے جس ادارے کی ابتداء کی اور جس نظام کی بنیاد ڈالی، اس سے اوریجنل تعلیم یعنی سیاست، معاشیت، ثقافت، شہریات، علم ھندسہ (انجینئیرنگ) و ریاضی کی تعلیم عام ہوئی اور برصغیر میں تھوڑے وقت میں ہی مسلمانوں نے جس نشاط ثانیہ کی طرف پیش رفت شروع کی، اس کی رفتار دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں گذشتہ 60 سال میں خصوصا اور قیام علیگڑھ کے وقت سے خصوصاَ نہیں ملتی۔
اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور روایتی مدرسہ کو جدید مدرسہ پر ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو میں فطری طور پر اس عصرِانحطاط کا ذمہ دار ٹہراتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس دور کو 'دور مولویت' کہہ کر اس کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرتا ہوں۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایئتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔
اس 'تاریک دور مولویت' کو میں 'یوروپی دور تاریکی' سی بدتر کیوں قرار دیتا ہوں، اکی وجہ علم کے نام پر تاریکی کو فروغ‌ دینا ہے۔اور اس لئے بھی کہ اس دور میں تعلیم عظیم یعنی قران سے سنگدلانہ اختراعات کا سلسلہء غیر متناہی شروع ہوا۔ کلام الہی سے جنوں‌کی تسخیر، جنوں کی مدد سے عورتوں کو اڑوا کر منگوانا، علم الہی کو پھونک کر علاج کرنا، بے بسوں پر ظلم، اور اسی طرح کی دوسرے توہمات کو علم قران قرار دینا، علم کی نام سے تاریکی کے فروغ کی ادنیٰ مثالیں ہیں اور کچھ لوگوں کے عقیدہ میں اب تک اس قدر راسخ ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔

یہ ہیں میرے خیالات، آپ اپنے خیالات کا برملا اظہار فرمائیے، بس ذہن میں‌رکھئے کے اگر تعریف و تنقید علم و آگہی میں اضافہ کے لئے ہے تو خوب ! اور اگر صرف انا کو تسکین ، بت پرستی یا کردار کشی ہے تو وقت کا ضیاع !

والسلام۔
 

زیک

مسافر
فاروق میں آپ کی بات (تاریخی حوالے) سے کچھ حد تک متفق ہوں مگر یہ بھی خیال رہے کہ سترھویں صدی تک برِ صغیر کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی یا دوسری بڑی رہی۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کا موضوع سے تعلق نہیں۔ کیوں نہ تاریخ والے فورم میں اس پر بات کی جائے؟
 
شاید یگانہ نے کہا تھا
سب ترے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا، ایسا خبطِ‌مذہب کیا

ایک بے چارے سر سید احمد خان پر ہی کیا موقوف، اگر ہمارے پاس تاریخ کا مطالعہ کرنے کی فرصت ہو تو ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ آج تک کوئی صوفی، فلسفی یا شاعر ایسا نہیں گزرا جو اپنے زمانے میں تکذیب اور تحدید سے بچ کر گزر سکا ہو۔
جوش کا تو ذکر ہی کیا کہ سر سید، قائد اعظم اور اقبال کے بارے میں ہی، ان کی سیاسی و سماجی خدمات کے باوجود، ماضی کے فتوے جمع کر کے ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب بنائی جا سکتی ہے۔

ڈیگال سے جب کہا گیا کہ "سارتر حد سے آگے بڑھ گیا ہے، اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے؟" جواب ملا "فرانس کو کیسے قید کر لوں؟"۔ یہی حال سر سید کا ہے کہ وہ ایک ذات، ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد، ایک قوم، ایک اجتماع اور کئی نسلوں کا نام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تمام خدمات و کاوشوں کو پسِ پشت ڈال کر الزام تراشی کرنے والے خود کس مرتبے پر فائز ہیں؟ شاید یہ واحد "خوبی" ایسی ہو گی جو ان کی جہالت کے باوجود تاریخ میں ان کا نام زندہ رکھ سکے گی کہ انہوں نے ایک عہد ساز شخصیت پر کیچڑ اچھالی۔

ذرا تاریخ کی جانب ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ آئن سٹائن ایک یہودی تھا اور نیوٹن ایک ایسا عیسائی جس نے بسترِ مرگ پر اسی عیسائی فرقہ سے ارتداد کا اعلان کیا جس کے کلیسا میں وہ پیدا ہوا۔ جبکہ افلاطون اور ارسطو کا اپنا ہی مذہب تھا لیکن اس کے باوجود آج تمام دنیا کے پڑھے لکھے لوگ ان کے فلسفے اور تعلیمات کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کے عقائد و تعلیمات کو موجودہ سائنس و فلسفہ کی اساس مانتے ہیں اور ایک جانب ہم ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام، جس کی تھیوریاں دنیا بھر میں کی جامعات کے شعبہ جاتِ طبیعات (فزکس) میں نصاب کا حصہ ہیں، کو ملحد قرار دیتے ہیں اور سر سید احمد خان کی قائم کردہ "علی گڑھ یونیورسٹی" اور "تہذیب الاخلاق" کے حوالے سے جو ذہنی و فکری ارتقا پیدا ہوا اسے ایک کافر کی سازش قرار دیتے ہیں۔

اگر ہم اپنے نشانوں کو آپ ٹھکرائیں گے تو کیا گونگے پن کا نام بولنا اور اپنے چہرے پر سیاہی پھیرنے کا نام لکھنا رکھیں گے؟

سب سے پہلے تو عمدہ شعر پر داد قبول کریں فاتح کہ اس کے بعد سارا اختلافی نوٹ ہے :)

صوفی ، فلسفی اور شعرا عموما ان نکات پر اختلافی رائے دے جاتے ہیں جن پر اکثریت متفق بیٹھی ہوتی ہے جس پر کچھ لوگ انہیں مختلف آرا سے نواز دیتے ہیں مگر نہ ہر بار ان کے ناقدین ٹھیک ہوتے ہیں اور نہ ہر بار ملامت سہنے والے۔

سر سید ، قائداعظم ، اقبال پر ایک اقلیت ایسے الزام لگاتی ہے مگر بھاری اکثریت انہیں صحیح گرادانتی ہے اور جو اختلاف ہیں وہ عام لوگوں میں بھی ہیں البتہ جوش کا معاملہ قطعی مختلف ہے وہ تو اعلانیہ دہریہ تھا اسے ان ہستیوں سے کیسے ملایا جاسکتا ہے۔ شاعرانہ عظمت کی بات کریں تو وہ اور شے ہے مگر اس کا عقیدہ اسلام نہیں تھا اور یہ جوش خود اعلانیہ کہا کرتا تھا موصوف خاصے نڈر تھے اور تمام عمر کبھی گھبرائے نہیں اس بات سے۔ اب جب ایک شخص ایک خاص‌عقیدہ کا حامل ہی نہیں تو اسے اس عقیدہ کے مسلمہ نام سے کیسے پکارا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے یقینا فزکس کے شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دیا اور پاکستان میں بھی اعلی عہدے پر فائز رہے مگر پھر وہ یہاں سے تشریف لے گئے اور کبھی پاکستان کا رخ نہ کیا بلکہ خاصے سخت الفاظ استعمال کرتے رہے پاکستان کے لیے اور ان کی سرگرمیاں پاکستان کے مفاد میں نہیں گنی جاتیں ۔ ایسے میں انہیں ہیرو کا درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے ، ان کی قابلیت اپنی جگہ مگر پاکستان کے لیے انہوں نے خدمات انجام نہیں دی بلکہ اس کے مخالف خدمات انجام ضرور دی ہیں۔ اٹامک انرجی کے شعبے میں کئی برس وہ کام کرتے رہے مگر پرفارمنس کچھ بھی نہ تھی جب کہ ڈاکٹر قدیر نے چند سال میں وہ کر دکھایا جو ایک معجزہ تھا اور ملک کی صحیح معنوں میں خدمت کی اس لیے وہ تمام قوم کے ہیرو ہیں تمامتر ریشہ دوانیوں اور کردار کشی کے۔
 

Dilkash

محفلین
جوش افریدی علی خیل ادم خیل شاخ سے تھے۔جو کہ کٹر حنفی سنی ھوتے ھیں۔مگر جوش تو سنی سے شعیہ اور پھر دھریہ ۔۔۔۔

اجوش کے عزیز و اقارب درہ بازار ادم خیل کے شرق میں اور پشاور کے جنوب میں اباد ھیں۔

ان کے اجداد غالبا 200 سال پہلے یہاں سے دشمنی کی وجہ سے وطن چھوڑ کر یو پی اباد ھوئے تھے۔
 

سید ابرار

محفلین
۔

جائز تنقید کا مطلب کسی کو برا کہنا نہیں ہوتا اور تنقید اور تعریف دونوں میں توازن ہونا چاہیے ، یہ نہیں کہ جو پسند ہے اسے فرشتہ ہی بنا دیا اور جو ناپسند ہے وہ شیطان سے کم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ انسانوں کے لیے کوئی جگہ ہم لوگ کم ہی چھوڑتے ہیں جو خطائیں بھی کرتے ہیں اور اچھائیاں بھی
۔

محب صاحب کی یہ بات واقعتا سنھری لفظوں میں لکھنے کے قا بل ہے !!!
 
محب صاحب کے سنہری الفاظ ذہن میں رکھئے۔
فوکس عموماَ کارہائے نمایاں پر رہے تو مناسب ہے، کسی شخصیت کی کردار کشی یا بت پرستی سے مشکل ہی ہے کہ کچھ حاصل ہو۔
 

سید ابرار

محفلین
چونکہ دو برادران نے مذکورہ بالا پوسٹ کے بارے مین تنقیدی کلمات عطا فرمائےلہذا تھوڑی سی وضاحت فرض ہوگئی۔ واضح رہے کہ یہ مخالفانہ نوٹ نہین بلکہ وضاحتی تفصیل ہے۔
لوگ عموما 'دور تاریکی' سے واقف ہیں کہ یہ یورپ کا پسماندہ ترین دور تھا۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اسی طرح کا ایک دورمسلمانانِ برصغیر پاک ہند پر بھی گذرا ہے۔
یہ دور ہے برصغیر میں وسطی ایشیاء کے مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کا دور جو بابر سے شروع ہوا اور بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اس دور کو کھینچ کر محمد بن قاسم تک لے جاتے ہیں اور کچھ صرف 1000 سال تک۔ مت۔ف۔ق۔ہ تاریخ یہ ہے کے یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔ عسکری نکتہء نگاہ سے یہ تو درست ہے، لیکن اس دور میں فرد واحد حکمراں رہا اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا رہا۔ کسی مجلس شوری کے آثار تاریخ میں نہیں ملتے، بغور دیکھئے تو حالات کا تانا بانا کچھ اس طرح رہا کہ، برصغیر میں، اس دور میں کوئی علمی ترقی نہ ہوئی، کوئی ایجاد قابل ذکر نہیں ہے، کوئی قابل ذکر درسگاہ، کوئی یونیورسٹی، کوئی شفا خانوں‌کا نظام، سڑکوں کا نظام، فلاحی نظام، گویا علمی ترقی جو مسلمانوں کا مشرق وسطیٰ میں‌طرہء امتیاز رہا، معدوم ہے۔ اس کم علمی و تاریکی کی بڑی وجہ کیا ہے، میں بے بہرہ ہوں۔ اور اس کا الزام کس کے سر ہے؟ بتانا بہت مشکل ہے۔
البتہ سر سید احمد خان نے جس ادارے کی ابتداء کی اور جس نظام کی بنیاد ڈالی، اس سے اوریجنل تعلیم یعنی سیاست، معاشیت، ثقافت، شہریات، علم ھندسہ (انجینئیرنگ) و ریاضی کی تعلیم عام ہوئی اور برصغیر میں تھوڑے وقت میں ہی مسلمانوں نے جس نشاط ثانیہ کی طرف پیش رفت شروع کی، اس کی رفتار دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں گذشتہ 60 سال میں خصوصا اور قیام علیگڑھ کے وقت سے خصوصاَ نہیں ملتی۔
اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور روایتی مدرسہ کو جدید مدرسہ پر ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو میں فطری طور پر اس عصرِانحطاط کا ذمہ دار ٹہراتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس دور کو 'دور مولویت' کہہ کر اس کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرتا ہوں۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایئتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔

والسلام۔

یہ ”عذر گناہ بد تر از گناہ “ کے قبیل سے ہے ، پھلے تو یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں کہ جب ہندوستان تاریکی کے سیاہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا تو یہ انگریز اپنا جگمگاتا جزیرہ چھوڑ کر ،مع لاؤ لشکر کے ، اس ”اندھیرے “ میں ،کیا ڈھونڈنے کے لئے آئے تھے ؟
اور پھر جن بے شمار ”کمیوں “ کا آپ نے ” انکشاف “ کیا ہے ، ان بے شمار ”کمیوں “ کے ساتھ ھندوستان کو ”سونے کی چڑیا “ کا لقب کیسے مل گیا ؟
ابھی بر صغیر کے مسلمان اپنی ”تاریخ “ بھولے نھیں ہیں ، ”خامیوں “ کا ذکر ضرور کریں ، مگر براہ کرم ”متحدہ ھندوستان ” کو ”افریقہ “ بنانے کی کوشش نہ کریں ،
 

سید ابرار

محفلین
اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور روایتی مدرسہ کو جدید مدرسہ پر ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو میں فطری طور پر اس عصرِانحطاط کا ذمہ دار ٹہراتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس دور کو 'دور مولویت' کہہ کر اس کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرتا ہوں۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایئتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔

والسلام۔
محترم ! سر سید کے عقائد کی مخالفت اور چیز ہے ، اور جدید تعلیم کی مخالفت اور چیز ، جدید تعلیم کی مخالفت کا جو ”الزام “ آپ علماء پر لگارہے ہیں ، یہ سراسر غلط ہے ، واضح رہے کہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے بانیوں میں‌ ”علماء کرام “ بھی شامل تھے ،
 
حسب عادت آپ کے ذاتی حملے ایک طرف رکھ رہا ہوں۔

پہلے تو آسانی کے لئے تاریخ‌ برصغیر کے نمایاں کارنامے:

حرم سراء کے لئے محلوں کی تعمیر۔
مال کی حفاظت کے لئے قلعوں کی تعمیر۔
حکومت کی حفاظت کے لئے چھاونیوں کی تعمیر۔
فرد واحد کی حکومت کے نظریاتی دفاع کے لئے ایک مذہبی ان۔فراسٹرکچر کا قیام جو کہ حکومت کے لئے زیادہ منافع بخش اور عوام کے لئیے سخت تکلیف دہ سزاؤں پر مشتمل۔
ایکسٹرا جیوڈیشیل طریقہ سے مقدمات کی ہینڈلنگ۔
جنگوں سے بھرپور تاریخ۔

کے تاریخی حوالہ جات تو ہم سب کو زبانی یاد ہیں۔ کیا وجہ ہے کی ہماری تاریخ درج ذیل سے عاری ہے؟

جن خامیوں کی طرف اشارہ ہے، مسلمان قرون وسطی میں درج ذیل کار ہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ ان میں سے، بابر سے ظفر تک علم کا ارتقاء اور قابل ذکر انسٹی ٹیوشنز کے قیام میں سرکاری اور حکومتی کوششوں کے بارے میں حوالہ جات سے بتائیے:

ہندوستان کی چند بڑی یونیورسٹیوں‌کے نام؟
بڑے شفا خانوں کا نظام، ان کا وجود؟
ان دواؤں کی ایجاد و تعداد جو صحت و زندگی کی ضامن ہیں؟
عوامی دولت کے معاشرے میں‌نفوذ کے بڑے ادارے؟
نظام زکوۃ‌ اور غرباء کی فلاح کے ادارے؟
قرآن و سنت کی ترویج کے ادارے اور مدرسے؟
سائینسی، دفاعی اور دیگر ایجادات؟
صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے کئے گئے انتظامات؟
نقل حمل کا نظام۔ (شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ کو ہٹا کر)؟
عوام الناس کو درج بالاء مدوں‌ میں مشغول اور استعمال کرنے کے نظام؟
ملک گیر مالیاتی نظام؟
عوام کی فلاح و بہبود کی تعمیرات کے نظام کے فروغ کے ادارے؟
ملک گیر مکمل عدالتی نظام کی مثال؟
دفاعی آلات حرب اور کمیونیکشن کی ایجادات؟

یہ سب کچھ میرے لیے بھی اتنا تکلیف دہ ہے جتنا شاید آپ کےلئے کہ خود اپنی زریں تاریخ ہم پر عیاں ہے اور اس تاریکی کے نتیجے میں‌ 200 سالہ غلامی کی سزا بھی یاد ہے۔ اس کا سدباب کیسے ہوا، یہ بھی یاد ہے اور علم حاصل کرنے کی راہ میں کون سا فلسفہ رکاوٹ بنا یہ بھی یاد ہے۔

ذہن میں‌رکھئے کی یہ مجوعی تنقید آزردہ دلی اور برائی کے نکتہ نظر سے نہیں بلکہ خود آگہی کے لئے ہے۔

والسلام
 
محترم ! سر سید کے عقائد کی مخالفت اور چیز ہے ، اور جدید تعلیم کی مخالفت اور چیز ، جدید تعلیم کی مخالفت کا جو ”الزام “ آپ علماء پر لگارہے ہیں ، یہ سراسر غلط ہے ، واضح رہے کہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے بانیوں میں‌ ”علماء کرام “ بھی شامل تھے ،

جو علماء شامل تھے، وہ کردار کش نہ تھے - جو مخالف تھے کردار کش رہے۔ جو مکتبہء‌ فکر اس وقت جدید تعلیم کا مخالف تھا آج بھی ہے ۔۔ تو نکتہ کیا بنا؟
 

فاتح

لائبریرین
سب سے پہلے تو عمدہ شعر پر داد قبول کریں فاتح کہ اس کے بعد سارا اختلافی نوٹ ہے :)

صوفی ، فلسفی اور شعرا عموما ان نکات پر اختلافی رائے دے جاتے ہیں جن پر اکثریت متفق بیٹھی ہوتی ہے جس پر کچھ لوگ انہیں مختلف آرا سے نواز دیتے ہیں مگر نہ ہر بار ان کے ناقدین ٹھیک ہوتے ہیں اور نہ ہر بار ملامت سہنے والے۔

سر سید ، قائداعظم ، اقبال پر ایک اقلیت ایسے الزام لگاتی ہے مگر بھاری اکثریت انہیں صحیح گرادانتی ہے اور جو اختلاف ہیں وہ عام لوگوں میں بھی ہیں البتہ جوش کا معاملہ قطعی مختلف ہے وہ تو اعلانیہ دہریہ تھا اسے ان ہستیوں سے کیسے ملایا جاسکتا ہے۔ شاعرانہ عظمت کی بات کریں تو وہ اور شے ہے مگر اس کا عقیدہ اسلام نہیں تھا اور یہ جوش خود اعلانیہ کہا کرتا تھا موصوف خاصے نڈر تھے اور تمام عمر کبھی گھبرائے نہیں اس بات سے۔ اب جب ایک شخص ایک خاص‌عقیدہ کا حامل ہی نہیں تو اسے اس عقیدہ کے مسلمہ نام سے کیسے پکارا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے یقینا فزکس کے شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دیا اور پاکستان میں بھی اعلی عہدے پر فائز رہے مگر پھر وہ یہاں سے تشریف لے گئے اور کبھی پاکستان کا رخ نہ کیا بلکہ خاصے سخت الفاظ استعمال کرتے رہے پاکستان کے لیے اور ان کی سرگرمیاں پاکستان کے مفاد میں نہیں گنی جاتیں ۔ ایسے میں انہیں ہیرو کا درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے ، ان کی قابلیت اپنی جگہ مگر پاکستان کے لیے انہوں نے خدمات انجام نہیں دی بلکہ اس کے مخالف خدمات انجام ضرور دی ہیں۔ اٹامک انرجی کے شعبے میں کئی برس وہ کام کرتے رہے مگر پرفارمنس کچھ بھی نہ تھی جب کہ ڈاکٹر قدیر نے چند سال میں وہ کر دکھایا جو ایک معجزہ تھا اور ملک کی صحیح معنوں میں خدمت کی اس لیے وہ تمام قوم کے ہیرو ہیں تمامتر ریشہ دوانیوں اور کردار کشی کے۔

محب صاحب! سب سے پہلے تو شعر پسند کرنے پر شکریہ کہ یہی وہ واحد چیز تھی جسے آپ نے پسند فرمایا۔;) باقی کا جواب اگر آپ "سوال گندم، جواب چنے" کے دھاگے میں ارسال فرماتے تو شاید موزوں سمجھا جاتا:grin:

حضور! مجھے نہ تو آپ کی علمیت سے انکار ہے اور نہ ڈاکٹر قدیر کی عظمت سے، اور نہ ہی میں نے کسی سائنسدان یا عالم کے بارے میں ایسا کچھ لکھا کہ آپ کو موازنہ کی ضرورت پیش آتی۔
قبلہ! مجھے دکھ ہوا تھا صرف سر سید کی علمیّت اور ان کی گراں بہا خدمات کی تکذیب دیکھ کر اور اسی دکھ کا اظہار میرے الفاظ میں تھا، آپ نے اس اصل مضمون پر کچھ کہنے کی بجائے ثانوی مثالوں پر توانائیاں صرف کرنے کو خدمت جانا اور اس عملِ تحدید میں مزید دو نام (ڈاکٹر عبد السلام اور جوش)شامل کر کے حصہ داری اختیار کر لی۔
جنابِ من! مختلف نظریے اور فلسفے معاشروں میں گردش کرتے رہتے ہیں اور طاقت و تاثیر کے دائروں میں پھیلتے اور سکڑتے رہتے ہیں۔ اور نظریہ زمینی ہو یا آسمانی انسانی ذہن کی بوالعجبی اسے حصوں اور شاخوں میں بانٹتی رہتی ہے اور توجیہات و تشریحات اسے نظریہ در نظریہ کرتی رہتی ہیں۔
غالب کو درباری ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے جو ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ جانتے ہیں کہ غالب نہ صرف ایک شاعر بلکہ ایک تہذیب کا استعارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان مر بھی جائے غالب نہیں مر سکتا، یونان مر سکتا ہے لیکن ارسطو نہیں۔
محب صاحب! جوش کون/کیا ہے اور کیا اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا یا کسی کو بیعت ہونے کے لیے اکسایا تھا؟
اگر نہیں تو حضور بھاڑ میں جائے اس کی دہریت، جوش صاحب نے ہماری سیاسی و سماجی ضروریات کی خاطر جو پر جوش جنگ لڑی ہے، ان کا پرشکوہ اور کھرا لہجہ اس کی ضرورت تھا۔
دوسرا سوال یہ کہ اگر (محض اور محض بقول آپ کے) یہ مان بھی لیا جائے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی لہٰذا انہیں عظیم قرار نہیں دیا جا سکتا تو کیا ہم اس کا یہ مطلب لیں کہ آئن سٹائن، نیوٹن، افلاطون اور ارسطو وغیرہ بھی ہیرو نہیں کہلائے جا سکتے کہ پاکستان کی خدمت نہیں کی انہوں نے۔

بہرحال میری سابقہ پوسٹ کا مقصد محض سر سید پر کیچڑ اچھالنے پر دکھ کا اظہار تھا جسے نہ جانے کدھر لے گئے آپ!:)
 
فاتح ، میں نے تو تنقید کا آغاز بھی آپ کی پوسٹ کے آغاز کی پسندیدگی سے کیا مگر آپ نے شکریہ کے ساتھ جو مشکور کیا اگلے جملے میں وہ اسلوب آخر تک جاری رکھا ہے ۔ ;)

ستائش باہمی کا وقت تو بہت اچھا گذرا لگتا ہے اب اختلافی مسائل پر وقت کڑا گزرے گا :)۔ جناب میں نے تو تنقید اشخاص پر اور مخصوص تناظر میں کی مگر آپ نے زیادہ تر کرم مرے حال پر ہی رکھا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ تھی میری پہلی پوسٹ جو موضوع پر تھی اور جس میں سر سید کی علمی خدمات کا کھل کر اعتراف تھا البتہ میں نے کچھ پہلوؤں پر تنقید کو غلط نہیں کہا کہ وہ تنقید ان کے دوست بھی ان پر کرتے رہے ہیں اور مانتے ہیں۔
میں نے ڈاکٹر عبدالسلام اور جوش دونوں کی علمی خدمات کا عتراف کیا اور دونوں پر جو تنقید کی وہ ایک خاص حوالے سے تھی بحیثیت مجموعی نہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام بہت بڑے اعزاز کے حامل ہیں اور یقینا ان چند اعلی پائے کے دماغوں میں سے جو کم کم ہی میسر آتے ہیں قوموں کو مگر میرا سوال بحیثیت پاکستانی تھا کہ انہوں نے پاکستان کی کیا خدمت کی اور کیوں پاکستان میں انہیں ہیرو کا درجہ نہیں جبکہ وہ واحد سائنسدان ہیں جو پاکستان سے نوبل انعام یافتہ ہیں جس پر سب کو فخر ہونا تھا مگر کیا وجہ ہے کہ نہیں ہے ، اس کا تعلق براہ راست مذہب سے جڑا ہے کیونکہ اسی بنیاد پر انہوں نے پاکستان آنے سے بیزاری کا اعلان کر دیا تھا اور اسی وجہ سے قوم کو بھی ان سے دلچسپی نہ رہی ۔ ان کے برعکس ڈاکٹر قدیر نے اپنے عروج کے دور میں پاکستان آنا اور یہاں دن رات کام کرنا قبول کیا اور ایک اعزاز پاکستان کو بھی بخشا اور قوم نے بھی انہیں ہیرو کا درجہ دیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کیوں ہیرو نہیں اور ڈاکٹر قدیر کیوں ہیرو ہیں اس سب کو بتانے کے لیے مجھے موازنے کی ضرورت پیش آئی اور میری علمیت پر جو اظہار آپ کرتے رہے ہیں وہ اس پوسٹ سے پہلے تو میں آپ کا حسن ظن سمجھتا رہا مگر آپ نے میری علمیت کا خوب نقشہ کھینچا ہے ان الفاظ میں :)

محب صاحب! سب سے پہلے تو شعر پسند کرنے پر شکریہ کہ یہی وہ واحد چیز تھی جسے آپ نے پسند فرمایا۔ باقی کا جواب اگر آپ "سوال گندم، جواب چنے" کے دھاگے میں ارسال فرماتے تو شاید موزوں سمجھا جاتا

جوش کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرنے کے بعد ہی میں نے یہ کہا کہ آپ نے جوش پر کفر کا فتوی لگانے کی بات کی تو اس کے جواب میں میں نے جوش کی دہریت کا ذکر کیا کہ اگر یہ کہا گیا تو غلط نہیں ہے کردار اور عقائد کے حوالے سے کہا گیا ہے یہ البتہ اس سے جوش کی لسانی اور ادبی خدمات پر حرف نہیں آتا وہ اس اختلاف کے ساتھ بھی اپنی جگہ قائم ہیں اور رہیں گی۔
ڈاکٹر عبدالسلام ایک بہت بڑے سائنسدان تھے اور خصوصا پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک نعمت غیر مترقبہ اور ان سے بجا طور پر بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور وہ نوجوانوں کے لیے سائنسی تعلیم میں ایک رول ماڈل بن سکتے تھے مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا، انہوں نے پاکستان پر کچھ اور معاملات کو ترجحیح دی اور بطور ایک پاکستانی میں اس بات پر رنجیدہ ہوں کہ جہاں وہ خدمات سرانجام دیتے رہے وہاں ان جیسے کئی قدآور اور قابل لوگ موجود تھے مگر ہمارے ملک میں ایسا شخص صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ہیرو کا تصور قوموں سے مشروط ہوتا ہے ، ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کے لیے ضروری نہیں ایک ہیرو کا ہی درجہ رکھتا ہوں البتہ اس کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کا اعتراف ضرور کیا جاتا ہے۔ ہیروز عموما کارہائے نمایاں کی بنیاد پر قوموں میں امتیاز حاصل کرتے ہیں اور عالم میں عموما اہم اور مفید شخصیات کے طور پر جانے جاتے ہیں ، کچھ کو یہ اعزاز حاصل ہو جاتا ہے کہ ان کی خدمات اتنی زیادہ اور اثر انگیزی میں اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ کئی قومیں انہیں ہیرو کا درجہ مشترک اوصاف کی بنیاد پر دے لیتی ہیں۔ ہیرو کا کریڈٹ میرا خیال ہے اسی قوم کا حق ہوتا ہے جس نے وہ گوہر نایاب پیدا کیا ہوتا ہے اور پروان چڑھایا ہوتا ہے ۔ آئن سٹائن ، نیوٹن ، افلاطون اور ارسطو وغیرہ ہیرو ہیں اپنی اقوام کے اور اثاثہ ہیں تمام اقوام عالم کے مگر انہیں پروان چڑھانے کا اعزاز ان کی اپنی قوموں کا ہی ہے اور اسی وجہ سے وہ اقوام معزز بھی ہیں ، نہ ہمارے کہنے سے وہ ہمارے ہیرو بن سکتے ہیں اور نہ ہم مفت میں یہ اعزاز حاصل کر سکتے ہیں۔

سر سید کا دفاع ضرور کریں آپ ان کی علمی اور سماجی خدمات کی بنیاد پر مگر اگر ان پر کوئی جائز تنقید بنتی ہے تو اسے بھی قبول کریں کہ کوئی انسان بھی خطا سے پاک نہیں ہوتا۔ اچھا انسان وہ ہوتا ہے جس کی خوبیاں خامیوں کو ڈھانپ لیتی ہیں اور برے شخص کی خامیاں اس کی خوبیاں کو اوجھل کر دیتی ہیں ، یقینا سر سید کی خوبیاں اتنی ہیں کہ وہ ان کی غلطیوں پر بہت بھاری ہیں اور ان کی غلطیوں کو مان لینے سے ان کی خوبیاں ہرگز کم نہ ہوں گی ، میں اس طرف ہی بات لے جانا چاہتا تھا اگر غلطی ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
دوسرا سوال یہ کہ اگر (محض اور محض بقول آپ کے) یہ مان بھی لیا جائے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی لہٰذا انہیں عظیم قرار نہیں دیا جا سکتا تو کیا ہم اس کا یہ مطلب لیں کہ آئن سٹائن، نیوٹن، افلاطون اور ارسطو وغیرہ بھی ہیرو نہیں کہلائے جا سکتے کہ پاکستان کی خدمت نہیں کی انہوں نے۔

بہرحال میری سابقہ پوسٹ کا مقصد محض سر سید پر کیچڑ اچھالنے پر دکھ کا اظہار تھا جسے نہ جانے کدھر لے گئے آپ!:)
میرا خیال کہ محب نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اس لیئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ اگر چاہتے تو وہ بھی ملک کی ترقی اور سالمیت کے لیئے کوئی کردار ادا کر سکتے تھے ۔ مگر انہوں نےایسا نہیں کیا ۔ اور ایک پرکشش آفر پر ملک کو نہ صرف خیر آباد کہا بلکہ پاکستان کو مختلف طریقوں سے اپنی تنقید کا ہدف بناتے رہے ۔
لہذا جن دانشوروں اور سائنسدانوں‌کا آپ نے جس طرح حوالہ دیا ہے ۔ وہ اس بات کا مظہر ہے کہ آپ بھی محب کی بات کو نہیں سمجھے ۔ لہذا ان غیر ملکیوں اور ایک پاکستانی سائنسدان کو آپس میں ملانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔

رہی بات سر سید احمد کو تنقید کا نشانہ بنانا تو یہ تو سر سید احمد خان کا ایمان جانے اور اللہ جانے ۔ یہاں کچھ مسلکوں کے علماء نے فتوی کی فیکٹری کھول رکھی ہے ۔ اور آئے دن کسی نہ کسی کو اپنے فتوؤں سے نوازتے رہتے ہیں ۔ ان کا ذکرِ خیر تو کرنا بلکل بے معنی ہے ۔ مگر سر سید احمد خاں نے جو علمی شعور شکست خورد اور مایوس مسلمان میں ابھارا تھا ۔ اس کی بدولت مسلمانوں نے اپنی شناخت کو دوبارہ پہچانا اور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے کئی قابل طلباء نے پاکستان کے قیام میں مسلم لیگ میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ باقی سب رضوان کہہ چکے ہیں ۔ مذید کی گنجائش نہیں ۔
 
جناب میں نے تو تنقید اشخاص پر اور مخصوص تناظر میں کی مگر آپ نے زیادہ تر کرم مرے حال پر ہی رکھا ہے۔

صاحبو! اس شکایت کا ازالہ ہر پوسٹ میں‌کرنے کی کوشش کیجئے۔ تنقید و تائید اصل موضوع تک محدود رہے تو انتہائی پائیدار اور بلند پایہ رہتی ہے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی سے، چاہے جتنا دل للچائے یا کتنی ہلکی لگے گریز فرمائیے۔ ہم سب ایک دوسرے کے ممنون ہونگے اس اصول کو اپنا کر :)
والسلام
 

طالوت

محفلین
تھوڑی سی حیا کا مظاہرہ کریں اور کم از کم سرسید جیسی شخصیت کو تو بے دین مرزا سے نا جوڑیں۔۔۔۔۔۔ اگر بات اعتراض در اعتراض کی ہے تو احمد رضا خان کے شیدایوں کی سایٹ پر اس قدر خرافات ہیں جن کو پڑھ کر غصہ کم اور ہنسی زیادہ آتی ہے۔۔۔۔۔ کہیں تو میں بھی کوئی ایک نیا موضوع شروع کر کے اس "کارِ خیر" میں حصہ لے لوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
تھوڑی سی حیا کا مظاہرہ کریں اور کم از کم سرسید جیسی شخصیت کو تو بے دین مرزا سے نا جوڑیں
یہ بھی ملاحظہ ہو:
رسول اکرم ا کا ارشاد گرامی ہے: ”الکفر ملة واحدة“ تمام کفر ایک ہی ملت ہے۔
اس حدیث مبارکہ کے تناظر میں جب ہم باطل فرقوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور میں‘ ان میں باہمی مماثلت اور باطل افکار پر اتفاق نظر آتاہے‘ چنانچہ مرزائیوں کے فرقہٴ ضالہ کی تاریخ احمدیت میں مرقوم ہے کہ سر سید نے مرزا غلام احمد قادیانی جہنم مکانی کی بڑی معاونت کی ہے اور ان کی کتابوں کو بہت سراہا ہے۔ قادیان کے جھوٹے نبی نے کہا ہے کہ سرسید تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے:
۱:․․․ ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
۲:․․․دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے۔
۳:․․․تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد ا کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے۔
تاریخی واقعات اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان عیار ومکار‘ انگریزوں کے خود کاشتہ پودے تھے‘ ان دونوں سے انہوں نے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ان دونوں کو سفید فام دشمنانِ اسلام نے یہ خدمت سونپی تھی کہ دین اسلام میں اپنے باطل نظریات اور خرافات کے ذریعہ شگاف ڈال کر اہلِ اسلام کو ذہنی اور مذہبی جنگ میں جھونک دیں‘ تاکہ وہ بے فکر ہوکر ہندوستان پر حکومت کے مزے لوٹتے رہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سرسید نے بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کی ہیں‘ مگر سب سے ان کا مقصد اپنے غلط نظریے کی ترویج واشاعت ہے۔سرسید نے ایک کتاب ”خلق الانسان“ یعنی انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ہے‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ حالانکہ قرآن وسنت کی نصوص سے صراحةً ثابت ہے کہ انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ سرسید ان صریح نصوص کا منکر ہے۔
سرسید نے ایک کتاب ”اسباب بغاوت ہند“ کے نام سے لکھی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح جد وجہد کرتے ہوئے علم جہاد بلند کیا تھا‘ سرسید کو اس سے بہت دکھ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف مسلمان کیوں اٹھ کھڑے ہوئے‘ اس نے اس جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور بغاوت کے اسباب بیان کرکے ”اسباب بغاوت ہند“ نامی کتاب لکھی‘ جس میں مسلمانوں کو انگریز حکومت کے تابع فرمان رہنے کا مشورہ دیا۔ نیز مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ تمہاری کامیابی اس میں ہے کہ انگریزی زبان اور علوم سیکھو اور انگریزی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگ جاؤ تاکہ فرق باقی نہ رہے اور دو ریاں ختم ہوں۔

بحوالہ:روشن خیالی اور جدیدیت کی تاریخ
 

طالوت

محفلین
حضور مرزا کے نبوت یا مسیح موعود کے دعوے سے قبل اس کی بیشتر کتابوں کا تمام حلقوں میں سراہا گیا تھا ، خصوصا سیرت نبوی پر کتاب کو پسند کیا گیا تھا ۔۔(ممکن ہو سکا تو حوالہ اور کتاب کا نام پیش کر دوں گا) ۔۔۔
باقی رہا عیسٰی بن باپ کے یا باپ سے ، عیسٰی کی واپسی اور معراج جسمانی تھی یا روحانی تو اس پر میں بحث کرنا پسند نہیں کروں گا ، ماسوائے یہ کہنے کہ بیان کردہ "باطل" فرقوں کے دلائل کو جھٹلانا آسان نہیں ۔۔۔ وسلام
 
Top