شاید یگانہ نے کہا تھا
سب ترے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا، ایسا خبطِمذہب کیا
ایک بے چارے سر سید احمد خان پر ہی کیا موقوف، اگر ہمارے پاس تاریخ کا مطالعہ کرنے کی فرصت ہو تو ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ آج تک کوئی صوفی، فلسفی یا شاعر ایسا نہیں گزرا جو اپنے زمانے میں تکذیب اور تحدید سے بچ کر گزر سکا ہو۔
جوش کا تو ذکر ہی کیا کہ سر سید، قائد اعظم اور اقبال کے بارے میں ہی، ان کی سیاسی و سماجی خدمات کے باوجود، ماضی کے فتوے جمع کر کے ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب بنائی جا سکتی ہے۔
ڈیگال سے جب کہا گیا کہ "سارتر حد سے آگے بڑھ گیا ہے، اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے؟" جواب ملا "فرانس کو کیسے قید کر لوں؟"۔ یہی حال سر سید کا ہے کہ وہ ایک ذات، ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد، ایک قوم، ایک اجتماع اور کئی نسلوں کا نام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تمام خدمات و کاوشوں کو پسِ پشت ڈال کر الزام تراشی کرنے والے خود کس مرتبے پر فائز ہیں؟ شاید یہ واحد "خوبی" ایسی ہو گی جو ان کی جہالت کے باوجود تاریخ میں ان کا نام زندہ رکھ سکے گی کہ انہوں نے ایک عہد ساز شخصیت پر کیچڑ اچھالی۔
ذرا تاریخ کی جانب ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ آئن سٹائن ایک یہودی تھا اور نیوٹن ایک ایسا عیسائی جس نے بسترِ مرگ پر اسی عیسائی فرقہ سے ارتداد کا اعلان کیا جس کے کلیسا میں وہ پیدا ہوا۔ جبکہ افلاطون اور ارسطو کا اپنا ہی مذہب تھا لیکن اس کے باوجود آج تمام دنیا کے پڑھے لکھے لوگ ان کے فلسفے اور تعلیمات کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کے عقائد و تعلیمات کو موجودہ سائنس و فلسفہ کی اساس مانتے ہیں اور ایک جانب ہم ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام، جس کی تھیوریاں دنیا بھر میں کی جامعات کے شعبہ جاتِ طبیعات (فزکس) میں نصاب کا حصہ ہیں، کو ملحد قرار دیتے ہیں اور سر سید احمد خان کی قائم کردہ "علی گڑھ یونیورسٹی" اور "تہذیب الاخلاق" کے حوالے سے جو ذہنی و فکری ارتقا پیدا ہوا اسے ایک کافر کی سازش قرار دیتے ہیں۔
اگر ہم اپنے نشانوں کو آپ ٹھکرائیں گے تو کیا گونگے پن کا نام بولنا اور اپنے چہرے پر سیاہی پھیرنے کا نام لکھنا رکھیں گے؟