سارا
محفلین
یوسف نے اتنی لمبی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔۔رفیق پکا نمازی تھا۔۔دونوں رزے رکھتے تھے۔۔لیکن ایلی نے کبھی روزہ نہ رکھا تھا۔۔صبح آٹھ دس بجے کے قریب دونوں حاجی صاحب کی طرف چلے جاتے اور سارا دن ان کے ساتھ باتیں کرتے رہتے۔۔پھر تین چار بجے کے قریب وہاں سے گھر آجاتے۔۔
ایلی رفیق اور یوسف کی باتیں سن کر حیران ہوتا تھا۔۔یوں باتیں کرتے اور مسلئے مسائل پوچھتے جیسے کوئی بڑے مولانا ہوں۔۔
ان کی باتیں سن کر ایلی کو وہ دن یاد آجاتے جب وہ تینوں مل کر جلیل کی طرف جایا کرتے تھے۔۔اور جلیل مست آنکھیں بنا کر اس لڑکی کی طرف دیکھا کرتا تھا۔۔جو اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں جھاڑو دیتے ہوئے باہر گلی میں نکل آتی اور ساری گلی میں جھاڑو دینے لگتی۔۔اس وقت بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتا اور اس کے منہ سے ‘‘سی سی۔۔‘‘ کی آواز آتی۔۔جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔۔باہر صحن میں یوسف کلا بازیاں لگاتا اور بندروں کی طرح ناچتا۔۔
اب وہ دونوں معزز سے بنے بیٹھے تھے اور شرع کے مسائل پر سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے۔۔ان کے علاوہ جلیل تو بالکل ہی نمازوں اور وظائف میں کھو گیا تھا۔۔نہ جانے لوگ کیسے بدل جاتے ہیں۔۔ایلی سوچتا۔۔
ایلی محسوس کرتا تھا ذہنی طور پر وہ وہی ایلی ہے جو اس زمانے میں تھا۔۔اس کے خیالات بالکل وہی تھے۔۔ان کی بنیاد اور تانے بنے میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔۔اس کے خیالات کی لکیریں کچھ اور پھیل گئی تھیں لیکن ان کے پھیلاؤ کی سمت وہی تھی۔۔رخ وہی تھا۔۔
ایلی کا بھی جی چاہتا تھا کہ وہ حاجی صاحب کی دنیا کی ایک جھلک دیکھے۔۔اسے سمجھنے کی کوشش کرے لیکن جانے بغیر وہ آمین کہنے کے لیے تیار نہ تھا۔۔وہ حاجی صاحب کی عزت کرنے لگا تھا۔۔کیونکہ ان میں خلوص تھا اور وہ ناصح نہ تھے‘ بلند تر ہستی نہ تھے۔۔مرشد نہ تھے۔۔مسند پر نہیں بیٹھے تھے بلکہ ان سب کے قریب بہت قریب۔۔حتٰی کہ ایلی محسوس کرتا تھا کہ وہ اس کے قریب تھے حالانکہ وہ خود ان سے بہت دور تھا۔۔کوسوں دور۔۔ان میں انسانیت تھی۔۔برابری کا احساس تھا۔۔اور ان کے دل میں ہر شخص کے لیے ہمدردی تھی۔۔
ایلی رفیق اور یوسف کی باتیں سن کر حیران ہوتا تھا۔۔یوں باتیں کرتے اور مسلئے مسائل پوچھتے جیسے کوئی بڑے مولانا ہوں۔۔
ان کی باتیں سن کر ایلی کو وہ دن یاد آجاتے جب وہ تینوں مل کر جلیل کی طرف جایا کرتے تھے۔۔اور جلیل مست آنکھیں بنا کر اس لڑکی کی طرف دیکھا کرتا تھا۔۔جو اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں جھاڑو دیتے ہوئے باہر گلی میں نکل آتی اور ساری گلی میں جھاڑو دینے لگتی۔۔اس وقت بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتا اور اس کے منہ سے ‘‘سی سی۔۔‘‘ کی آواز آتی۔۔جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔۔باہر صحن میں یوسف کلا بازیاں لگاتا اور بندروں کی طرح ناچتا۔۔
اب وہ دونوں معزز سے بنے بیٹھے تھے اور شرع کے مسائل پر سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے۔۔ان کے علاوہ جلیل تو بالکل ہی نمازوں اور وظائف میں کھو گیا تھا۔۔نہ جانے لوگ کیسے بدل جاتے ہیں۔۔ایلی سوچتا۔۔
ایلی محسوس کرتا تھا ذہنی طور پر وہ وہی ایلی ہے جو اس زمانے میں تھا۔۔اس کے خیالات بالکل وہی تھے۔۔ان کی بنیاد اور تانے بنے میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔۔اس کے خیالات کی لکیریں کچھ اور پھیل گئی تھیں لیکن ان کے پھیلاؤ کی سمت وہی تھی۔۔رخ وہی تھا۔۔
ایلی کا بھی جی چاہتا تھا کہ وہ حاجی صاحب کی دنیا کی ایک جھلک دیکھے۔۔اسے سمجھنے کی کوشش کرے لیکن جانے بغیر وہ آمین کہنے کے لیے تیار نہ تھا۔۔وہ حاجی صاحب کی عزت کرنے لگا تھا۔۔کیونکہ ان میں خلوص تھا اور وہ ناصح نہ تھے‘ بلند تر ہستی نہ تھے۔۔مرشد نہ تھے۔۔مسند پر نہیں بیٹھے تھے بلکہ ان سب کے قریب بہت قریب۔۔حتٰی کہ ایلی محسوس کرتا تھا کہ وہ اس کے قریب تھے حالانکہ وہ خود ان سے بہت دور تھا۔۔کوسوں دور۔۔ان میں انسانیت تھی۔۔برابری کا احساس تھا۔۔اور ان کے دل میں ہر شخص کے لیے ہمدردی تھی۔۔