علی پور کا ایلی(1146-1175 )

سارا

محفلین
یوسف نے اتنی لمبی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔۔رفیق پکا نمازی تھا۔۔دونوں رزے رکھتے تھے۔۔لیکن ایلی نے کبھی روزہ نہ رکھا تھا۔۔صبح آٹھ دس بجے کے قریب دونوں حاجی صاحب کی طرف چلے جاتے اور سارا دن ان کے ساتھ باتیں کرتے رہتے۔۔پھر تین چار بجے کے قریب وہاں سے گھر آجاتے۔۔
ایلی رفیق اور یوسف کی باتیں سن کر حیران ہوتا تھا۔۔یوں باتیں کرتے اور مسلئے مسائل پوچھتے جیسے کوئی بڑے مولانا ہوں۔۔
ان کی باتیں سن کر ایلی کو وہ دن یاد آجاتے جب وہ تینوں مل کر جلیل کی طرف جایا کرتے تھے۔۔اور جلیل مست آنکھیں بنا کر اس لڑکی کی طرف دیکھا کرتا تھا۔۔جو اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں جھاڑو دیتے ہوئے باہر گلی میں نکل آتی اور ساری گلی میں جھاڑو دینے لگتی۔۔اس وقت بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتا اور اس کے منہ سے ‘‘سی سی۔۔‘‘ کی آواز آتی۔۔جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔۔باہر صحن میں یوسف کلا بازیاں لگاتا اور بندروں کی طرح ناچتا۔۔
اب وہ دونوں معزز سے بنے بیٹھے تھے اور شرع کے مسائل پر سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے۔۔ان کے علاوہ جلیل تو بالکل ہی نمازوں اور وظائف میں کھو گیا تھا۔۔نہ جانے لوگ کیسے بدل جاتے ہیں۔۔ایلی سوچتا۔۔
ایلی محسوس کرتا تھا ذہنی طور پر وہ وہی ایلی ہے جو اس زمانے میں تھا۔۔اس کے خیالات بالکل وہی تھے۔۔ان کی بنیاد اور تانے بنے میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔۔اس کے خیالات کی لکیریں کچھ اور پھیل گئی تھیں لیکن ان کے پھیلاؤ کی سمت وہی تھی۔۔رخ وہی تھا۔۔
ایلی کا بھی جی چاہتا تھا کہ وہ حاجی صاحب کی دنیا کی ایک جھلک دیکھے۔۔اسے سمجھنے کی کوشش کرے لیکن جانے بغیر وہ آمین کہنے کے لیے تیار نہ تھا۔۔وہ حاجی صاحب کی عزت کرنے لگا تھا۔۔کیونکہ ان میں خلوص تھا اور وہ ناصح نہ تھے‘ بلند تر ہستی نہ تھے۔۔مرشد نہ تھے۔۔مسند پر نہیں بیٹھے تھے بلکہ ان سب کے قریب بہت قریب۔۔حتٰی کہ ایلی محسوس کرتا تھا کہ وہ اس کے قریب تھے حالانکہ وہ خود ان سے بہت دور تھا۔۔کوسوں دور۔۔ان میں انسانیت تھی۔۔برابری کا احساس تھا۔۔اور ان کے دل میں ہر شخص کے لیے ہمدردی تھی۔۔
 

سارا

محفلین
بڑا انسان

ایک روز ایلی جب ان کے پاس اکیلا بیٹھا تھا۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولے۔۔‘‘الیاس صاحب اب کی بار آپ نے ہم سے کچھ پوچھا نہیں۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘ایلی نے ان کی طرف دیکھا۔۔
‘‘دلی میں تو آپ نے ہم سے بڑی باتیں پوچھی تھیں۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔
‘‘وہ مرہم کی بات یاد ہے آپ کو ؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔۔
‘‘جی ہاں۔۔‘‘ وہ بولا۔۔‘‘وہ زمانے گئے مرہم کی بات پوچھنے والے۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘ یہ زمانہ بھی گزر جائے گا۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘انشا اللہ بہتر زمانہ آئے گا۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔۔
‘‘وہ پریشانی تو نہیں رہی نا۔۔‘‘
‘‘جی نہیں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘پیشمانی بھی نہیں۔۔‘‘
وہ مسکرائے۔۔‘‘پشیمانی بھی لگاؤ کی دلیل ہوتی ہے۔۔‘‘
ایلی نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔۔نفسیات کا وہ باریک نقطہ ایک سادہ آدمی سے سن کر اسے حیرت ہوئی۔۔
‘‘تو آپ آزاد ہو گئے۔۔‘‘حاجی صاحب بولے۔۔
‘‘جی آوارہ ہوں۔۔‘‘
‘‘آوارگی۔۔‘‘وہ بولے ‘‘کبھی منزل کی طرف بھی لے جاتی ہے۔۔‘‘
‘‘جی ہاں۔۔‘‘وہ بولے۔۔‘‘لیکن کوئی منزل ہو بھی۔۔
‘‘کبھی منزل خود راہی کے سامنے آ جاتی ہے۔۔‘‘انہوں نے کہا۔۔‘‘یہاں سبھی راہی ہیں۔۔
کسی کو منزل کا شعور ہے کسی کو نہیں ویسے راہی سبھی ہیں۔۔‘‘
‘‘منزل کو کرنا کیا ہے۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘سبحان اللہ۔۔اچھا خیال ہے۔۔وہ بولے
ایلی نے پھر حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔۔عجیب مرد ہے اس کی بات رد بھی کرو تو بھی سبحان اللہ کہتا ہے۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘انشا اللہ وہ دن بھی آئے گا۔۔‘‘حاجی صاحب بولے۔۔
‘‘کون سا دن ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘آئے گا ضرور آئے گا۔۔‘‘وہ بولے‘‘ ہم تو شاید نہ ہوں گے۔۔‘‘وہ مسکرائے۔۔
اسی شام چار بجے کے قریب جب حاجی صاحب لیٹے ہوئے تھے اور رفیق یوسف اور ایلی آپس میں باتیں کر رہے تھے تو نہ جانے کس بات پر انہوں نے حاجی‌ صاحب کی رائے پوچھنے کے لیے انہیں پکارا۔۔
حاجی‌ صاحب چپ چاپ پڑے رہے۔۔انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔۔
‘‘سو گئے ہیں۔۔‘‘رفیق نے کہا۔۔
‘‘ارے یہ ان کے دانت تو دیکھو۔۔ایلی نے کہا۔۔
وہ سب حاجی صاحب ہر جھک گئے۔۔حاجی صاحب کے دانت یوں نکلے ہوئے تھے جیسے مقفل ہو گئے ہوں۔۔
‘‘ارے۔۔‘‘ایلی چلایا ‘‘ یہ تو بے ہوش پڑے ہیں۔۔‘‘
رفیق نے انہیں جھنجھوڑا لیکن وہ جوں کے توں پڑے رہے۔۔
وہ سب گھبرا گئے۔۔
رفیق نے ان کے منہ پر پانی کی چھینٹے دئیے۔۔
حاجی صاحب کے جسم میں ہلکی سی جنبش ہوئی لیکن وہ پھر بے ہوش ہو گئے۔۔رفیق ڈاکٹر کی طرف بھاگا۔۔
ڈاکٹر نے آ کر ٹونٹیاں لگائی اور پھر ایک بوتل سنگھائی۔۔
حاجی صاحب نے آنکھیں کھول دیں۔۔
جب وہ ان کے منہ میں دوا انڈیلنے لگے تو حاجی صاحب نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔۔کہ انہیں کچھ نہ دیا جائے۔۔غالباً وہ روزہ توڑنے کے حق میں نہ تھے۔۔ڈاکٹر نے کہا۔۔‘‘مریض کو بے حد نقاہٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔‘‘ڈاکٹر کے آنے پر کئی ایک محلے دار بیٹھک میں آگئے اور مریض کی صحت کے متعلق پوچھنے لگے۔۔وہ مرید جس کے حاجی صاحب مہمان تھے کارخانے میں کام پر گیا ہوا تھا۔۔اس کے گھر سے ایک بوڑھی عورت آکر حاجی صاحب کو دیکھتی رہی پھر رفیق سے کہنے لگی۔۔‘‘بے ہوش نہ ہو تو بے چارہ کیا کرے۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
‘‘کیوں اماں۔۔‘‘یوسف نے پوچھا۔۔‘‘بات کیا ہے۔۔‘‘
‘‘اے تین دن سے یہاں پڑا ہے یہ اور نہ سحری نہ افطاری۔۔‘‘
‘‘کیا مطلب۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔‘‘
‘‘گھر والا تو کام پر رہتا ہے اسے کیا خبر کہ مہمان کی کیا حالت ہے۔۔‘‘بڑھیا نے کہا۔۔‘‘اور گھر والی کہتی ہے۔۔میں تو نہ بھیجوں گی کھانا۔۔میں کیا نوکر ہوں کہ اس کے دوستوں کی خدمت کرتی پھروں۔۔‘‘
‘‘کیوں۔۔‘‘رفیق نے پوچھا۔۔
‘‘بس ضد اور کیا۔۔‘‘بڑی بد مزاج ہے۔۔‘‘
ایلی یہ سن کر حیران رہ گیا چار روز سے وہ روز وہاں سارا سارا دن گزارتے تھے لیکن حاجی صاحب نے ان سے نہیں کہا تھا کہ وہ روزے اور انطاری کے بغیر روزے رکھ رہے ہیں۔۔اور پھر یہ بھی تھا کہ وہ اپنے کام سے وہاں نہیں آئے تھے بلکہ مرید کی سفارش کرنے آئے تھے جس کی بیوی انہیں بھوکا مار رہی تھی۔۔
اس روز وہ تینوں افطار کے وقت وہیں رہے۔۔رفیق اور یوسف افطار کے لیے کچھ پھل لے آئے اور انہوں نے حاجی صاحب کی منتیں کیں کہ وہ آصفی محلے میں جا کر ٹھہریں مگر انہوں نے انکار کر دیا بولے ‘‘ یہ ٹھیک نہیں جن کے ہاں میں مہمان ہوں وہ برا مانیں گے ان کا دل دکھے گا۔۔‘‘ ایلی اس بڑھے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔۔یقیناً وہ بڑا انسان تھا۔۔

پوئٹ
جب ایلی گروپتن واپس پہنچا اور رنگی سے ملا تو اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس بیٹھا ہے۔۔
‘‘یہ مانی ہے۔۔‘‘رنگی بولا۔۔‘‘ویسے میرا بھتیجا ہے لیکن ہر بات میں مجھ سے چار قدم آگے ہے۔۔‘‘ وہ مسکرایا۔۔
مانی ایک خوبصورت نوجوان تھا۔۔اس کا رنگ رنگی کی نسبت گورا تھا خدوخال ستواں تھے جسم موزوں تھا۔۔بال گھنگھریالے تھے اور طبیعت میں لاابالی پن اور ساتھ ہی محبوبانہ بے نیازی تھی وہ نہایت اطمینان سے بیٹھا پکا راگ گنگنا رہا تھا۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘آپ سے مل کر مسرت ہوئی۔۔‘‘ اور پھر اس کی موجودگی سے بے نیاز ہو کر گیت گنگنانے اور شریمتی کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔۔
‘‘آپ کالج میں ہیں۔۔‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘جی نہیں۔۔‘‘وہ بولا‘‘ اب تو نوکری کرتے کرتے بوڑھا ہو گیا۔۔‘‘
‘‘کیا ملازمت کرتے ہیں؟‘‘
‘‘جی ہاں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
‘‘نوکری کیا ہے۔۔‘‘
‘‘پوئٹ ہوں۔۔‘‘اس نے بے پرواہی سے کہا۔۔
‘‘پوئٹ۔۔‘‘ ایلی نے حیرت سے دہرایا۔۔‘‘نظمیں لکھتے ہیں کیا؟‘‘
‘‘نظمیں لکھتا ہوں ڈرامے سٹیج کرتا ہوں۔۔شو کا اہتمام کرتا ہوں سبھی کچھ۔۔‘‘اس نے بے پرواہی سے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔۔
‘‘لاجواب نوکری ہوئی نا۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘بے کار۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘بیگم آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہے۔۔لڑکیاں مسکاتی ہیں صاحب گھورتا ہے۔۔کسی روز جان سے مار دے گا۔۔‘‘
‘‘تم تو روتے ہی رہتے ہو۔۔‘‘ رنگی مسکرایا۔۔
‘‘رونق سے کون منکر ہے۔۔‘‘مانی بولا۔۔‘‘رونق کا تو میں بھی قائل ہوں۔۔‘‘
‘‘تو پھر۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘جان کا روگ نہ بنیں تو۔۔‘‘مانی نے کہا۔۔
‘‘نہ بناؤ۔۔رنگی بولا۔۔
کون بناتا ہے‘ زبردستی بنتی ہیں۔۔‘‘مانی نے بے نیازی سے کہا۔۔
اتنے میں شریمتی آ گئی۔۔رنگی دروازے کے سامنے بیٹھ گیا۔۔‘‘لو بھئی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔‘‘اب تو خاموش ہو جاؤ۔۔شریمتی پہلے ایکٹ کا پہلا سین شروع ہو گیا۔۔‘‘
‘‘یار۔۔‘‘ مانی بولا۔۔‘‘ یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔‘‘
‘‘تمہیں کیا پتا یہ ظالم تو جے جے ہے۔۔‘‘رنگی نے جواب دیا۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘جے جے تو نہیں خالی ونتی ہے۔۔‘‘مائی نے کہا۔۔‘‘ البتہ جو دوسری والی پتلی ادھر رہتی ہے۔۔وہ ہے کچھ کچھ۔۔‘‘
‘‘وہ وہ تو شہزادی ہے شہزادی۔۔‘‘رنگی نے کہا۔۔
شہزادی تو نہیں خیر۔۔‘‘مانی بولا۔۔‘‘خاصی ہے۔۔‘‘
‘‘شہزادے کو جو بھی میسر ہو وہ شہزادی ہوتی ہے۔۔‘‘رنگی مسکرایا۔۔
شہزادہ تو جھک مارتا رہتا ہے۔۔‘‘مانی ہنسا اور پھر دھوپ میں بیٹھ کر گیت گنگنانے لگا۔۔
ایلی اس کی باتیں حیرانی سے سن رہا تھا۔۔عجیب لوگ تھے۔۔ذہنی چمک تھی۔۔رنگینی تھی اور جوانی بھی۔۔
ایلی ہمشیہ ان شخیصوں کو پسند کرتا تھا جن میں ذہنی چمک ہو جو رسمی خول سے‌ آزاد ہوں۔۔لیکن حال میں وہ سوچنے لگا تھا کہ صرف ذہنی چمک ہی کافی نہیں۔۔وہ حاجی صاحب تھے ان کی شخصیت میں اس قدر ہی جاذبیت کیوں تھی۔۔پھر وہ غلام تھا۔۔ڈیرہ والا غلام۔۔آخر وہ کون سی بات تھی جو ان میں جاذبیت پیدا کر رہی تھی۔۔ان میں ذہنی چمک قطعی طور پر مفقود تھی۔۔رنگین باتیں یا رنگ کی پچکاریاں نہیں تھیں۔۔پھر وہ شخصیتیں دوسرے کو کیوں لے لیتیں تھیں۔۔وہ جاذبیت اس ذہنی چمک کی جاذبیت سے کہیں زیادہ پر اثر تھی بے شک ذہنی چمک میں اٹھان تھی۔۔پھیلاؤ نہیں تھا۔۔وسعت نہیں تھی۔۔
کبھی کبھی وہ محسوس کرتا کہ رضی میں بھی پھیلاؤ ہے‘ وسعت ہے۔۔اگر مانی اور رنگی کی باتوں میں رنگینی تھی تو رضی اور غلام کی خاموشی رنگیں تھی۔۔رنگی میں گرفت تھی رضی میں پیار بھری گود تھی۔۔مانی چاند کی طرح ہر رنگ میں چمکتا تھا۔۔کبھی ہلال بن جاتا کبھی چاند لیکن رضی مسلسل سورج تھا جس میں سے ہر وقت شعائیں نکلتی تھیں اور گرماتی تھیں۔۔
مانی اور رنگی کی گفتگو صرف لڑکیوں تک ہی محدود نہیں رہتی تھی کبھی وہ راک و دیا پر بحث چھیڑ لیتے اور مختلف راگوں کے تاثرات پر گرمجوشی سے باتیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیاست میں ان کی دلچسپی محض اخباروں کی حد تک تھی۔۔ایلی خود سیاست میں کورا تھا اسے سیاسی مسائل میں قطعی طور پر لگاؤ نہ تھا۔۔
 

سارا

محفلین
نگہت

گروپتن میں ایلی کا مرکز رنگی کی بیٹھک تھی۔۔مدرسے سے فارغ ہو کر وہ سیدھا گھر جاتا اور چند ایک منٹ رسمی طور پر وہاں ٹھہر کر عالی کو اٹھا کر رنگی کی بیٹھک میں پہنچ جاتا۔۔
عالی کے ذہن میں ایک خوف طاری رہتا تھا۔۔
پہلے ایک روز ناگاہ ابو گھر چھوڑ گیا تھا اور وہ اپنی امی کے ساتھ اکیلا رہ گیا تھا۔۔وہ حیران تھا کہ ابو کہاں گیا اس کے بعد اس کی امی نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔۔اور ابو نہ جانے کہاں سے آ گیا تھا۔۔اور اسے اٹھا کر نہ جانے کہاں لے آیا تھا۔۔اسے امی اور ابو کا یہ بکیھڑا سمجھ میں نہ آیا تھا۔۔
جب بھی ایلی گھر سے باہر نکلتا تھا تو عالی گھبرا جاتا۔۔اسے یہ ڈر لاحق ہو جاتا کہ شاید وہ لوٹ کر نہ آئے اب تو گھر میں امی بھی نہ تھی۔۔ابو چلا جائے گا تو کیا ہو گا۔۔گھر میں ہاجرہ تو تھی لیکن عالی کو ہاجرہ سے کوئی دلچسپی نہ تھی ہاجرہ کا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا۔۔
عالی کا یہ خوف ایلی کے لیے بہت بڑی مشکل تھی وہ باہر نہ جا سکتا تھا۔۔سکول جانے میں اسے بے حد دقت ہوتی تھی۔۔عالی رونے لگتا۔۔اور ایلی کے دل پر ایک ٹھیس سی لگتی۔۔لیکن وہ مجبور تھا۔۔دو ایک مرتبہ ایلی نے اسے سکول لے جانے کی کوشش کی تھی۔۔ایک بار وہ ساتھ چلا بھی گیا لیکن وہ وہاں اداس پریشان حال رہا۔۔اس بھیڑ میں ابو کا ہونا نہ ہونے کے برابر تھا۔۔
سکول سے آنے کے بعد بہرحال ایلی اسے ہر وقت ساتھ رکھتا تھا۔۔اور رنگی کی بیٹھک میں تو ہمیشہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے۔۔اس پر رنگی ہنستا۔۔‘‘یہ باپ اور بیٹا بھی عجیب ہیں۔۔جہاں ایک ہو گا‘ دوسرا بھی قریب ہی ہو گا کہیں۔۔ایلی اور عالی کیا جوڑی ہے۔۔‘‘
وہ دونوں بیٹھ کر ستار سنتے۔۔رضی گانا سنتے اور مانی اور رنگی کی محبتوں اور یارانوں کے قصے سنتے حتٰی کہ رات کے دس گیارہ بج جاتے۔۔پھر وہ گھر لوٹتے تو ہاجرہ چپ چاپ بیٹھی ہوتی۔۔ایلی کو ہاجرہ پر ترس آتا تھا۔۔وہ بیچاری بڑھاپے میں پھر سے قید میں پڑ گئی تھی۔۔
ایک روز ہاجرہ نے ڈرتے ڈرتے بات چھیڑی بولی۔۔‘‘ایلی زندگی کس طرح بسر ہو گی۔۔‘‘
‘‘کیا بات ہے اماں ؟‘‘
‘‘دیکھو نا۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘ آخر میں ساری عمر تو تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔‘‘
‘‘تو پھر ؟ ‘‘
‘‘تم شادی کر لو بیٹا‘ ورنہ یہ لڑکا کس طرح پلے گا۔۔‘‘
‘‘تو کر دو۔۔‘‘ایلی نے بے پرواہی سے کہا۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
ہاجرہ کا خیال تھا کہ ایلی شادی کے نام پر بدک جائے گا۔۔شاید وہ ساری عمر دوسری شادی کے لیے تیار نہ ہوگا۔۔ایلی کے منہ سے یہ بات سن کر وہ حیران رہ گئی۔۔
تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں نا۔۔‘‘اس نے پوچھا۔۔
‘‘ہو جائے تو بھی اعتراض نہیں۔۔نہ ہو تو بھی نہیں۔۔‘‘
‘‘تو کہاں کرو گے ؟‘‘
‘‘کہیں بھی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘تو کہیں سے خود ہی تلاش کر لونا۔۔‘‘
‘‘نہ اماں۔۔‘‘ وہ بولا۔۔‘‘ یہ جھنجٹ مجھ سے نہ ہو گا۔۔‘‘
‘‘تو تمہاری پسند کیسی ہو گی ؟‘‘
‘‘ کوئی بھی ہو منظور کر لو گے ؟‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘ صرف ایک بات ہے۔۔‘‘
‘‘وہ کیا ؟‘‘
‘‘جس روز اس نے عالی سے بدسلوکی کی میں اسے گھر سے نکال دوں گا۔۔‘‘
‘‘ہاجرہ ہنس پڑی۔۔‘‘ اے تم اپنے دوست سے کیوں نہیں کہتے۔۔‘‘
‘‘کس سے۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘اس رنگی سے۔۔‘‘
‘‘میں تو نہ کہوں گا۔۔‘‘
‘‘تو پھر میں کہوں۔۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔۔
‘‘کہہ دیکھو۔۔‘‘
‘‘یہ تو اچھے لوگ دکھتے ہیں۔۔‘‘
‘‘ہاں اچھے ہیں۔۔‘‘
‘‘شاید کوئی اچھا رشتی ڈھونڈ دیں۔۔‘‘
‘‘شاید۔۔‘‘وہ بولا۔۔اور پھر عالی کو اٹھا کر رنگی کی طرف چلا گیا۔۔
 

سارا

محفلین
ایلی کا رنگی کی بیوی سے ملنے کا اتفاق یہ ہوا کہ اسی روز جب چائے کا وقت ہوا تو غیر از معمول بیٹھک میں چائے پینے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بجائے رنگی اسے گھر کے اندر زنانے میں لے گیا۔۔اور بیوی نگہت سے اس کا تعارف کرا دیا۔۔نگہت کو دیکھ کر ایلی گھبرا گیا۔۔
نگہت خوبصورت تھی اس میں ایک عجیب سا وقار تھا۔۔نگاہ بے نیازی سے لبریز تھی۔۔ہونٹوں میں رنگی کی جھلک تھی۔۔ٹھوڑی میں دبی ہوئی انبساط تھی۔۔جوانی تھی۔۔بے تکلفی تھی۔۔
ایلی اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر حیران نہیں ہوا تھا۔۔بلکہ نگہت میں رنگی اور رضی کی امیزش دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔۔اس میں وہی برداشت تھی جو رضی اور غلام میں تھی وہی مٹھاس تھی اور اس کے باوجود نسائیت کی تمام تر رنگینی اور شوخی بھی تھی۔۔یہ متضاد خصوصیات ایک جگہ کیسے اکھٹی ہو سکتی ہیں وہ حیران تھا۔۔
نگہت کو دیکھ کر ایلی کو رنگی کی شریمتیوں پر غصہ آنے لگا۔۔رنگی کیوں جھک مار رہا تھا۔۔کیوں پھول پھول اڑ رہا تھا۔۔جب کہ اس کے اپنے گھر میں بہار آئی ہوئی تھی۔۔بلکہ ایک روز اس نے رنگی سے یہ بات اشارتاً یہ بات کہہ بھی دی۔۔رنگی کا چہرہ خوشی سے تمتا اٹھا۔۔وہ بولا۔۔‘‘دیکھا نا نگہت واقعی میری زندگی کی بہار ہے۔۔اس کے بغیر دنیا سونی ہے جبھی تو مجھے اس سے اس قدر عشق ہے والہانہ عشق۔۔‘‘
ایلی کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دیکھ کر رنگی چلایا۔۔‘‘تمہیں یقین نہیں آیا کیا۔۔نگہت میری روح کی روشنی ہے جسم کی بات چھوڑو۔۔‘‘
‘‘اور یہ جو فن فیریاں ہیں تمہاری۔۔‘‘ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘اجی ان کی کیا حثیت ہے۔۔‘‘ رنگی نے کہا۔۔‘‘ اگر نگہت کو زکام ہو جائے اور اگر تمام فن فئیریوں کا بھرتا بنا کر کھلانے سے اس کا زکام دور ہو سکتا ہو تو میں ذرا تامل نہ کروں۔۔‘‘
رنگی بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا‘ لیکن ایلی کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح متضاد باتیں کیے جا رہا تھا عین اس وقت مانی نے شور مچا دیا۔۔‘‘بھئی ادھر کی بھی خبر لو۔۔جب سے بیچاری دھوپ میں کھڑی ہے۔۔تمہارے لیے۔۔‘‘
‘‘تتلی ہے کیا ؟‘‘ رنگی اچھل کر بولا۔۔
‘‘ہاں ہاں۔۔‘‘مانی چلا کر بولا۔۔
رنگی نے دو چھلانگیں ماریں اور بیٹھک سے باہر نکل گیا۔۔
 

سارا

محفلین
‘‘کیا نگہت برا نہیں مانتی۔۔‘‘ ایلی نے مانی سے پوچھا۔۔‘‘
‘‘بہت۔۔‘‘ مانی بولا۔۔‘‘کڑھتی ہے۔۔لیکن بھئی گلاب کے ساتھ کانٹے تو ہوں گے۔۔‘‘
‘‘وہ بھی تو نگہت ہے۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘وہ بے پروائی سے بولا۔۔‘‘نگہت کی کیا بات ہے۔۔وہ ہم سب کی محبوبہ ہے۔۔جگت محبوبہ ہے۔۔ہم سب اسے پیار کرتے ہیں۔۔تم بھی کرو گے۔۔اسے بغیر پیار کرنے کے کوئی رہ نہیں سکتا۔۔وہ میری محبوبہ ہے سہیلی ہے۔۔۔راز دان ہے۔۔اور وہ میری ماں ہے ماں۔۔آؤ ہم چل کے اس سے عشق لڑائیں۔۔‘‘مانی اندر جا کر نگہت کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔‘‘مامی۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘ہم تو تباہ ہو گئے۔۔‘‘
‘‘کیوں۔۔‘‘وہ بولی۔۔
‘‘بس برباد ہو گئے۔۔‘‘
وہ مسکرائی۔۔‘‘
‘‘کوئی خاطر میں نہیں لاتی۔۔‘‘
‘‘تت تت۔۔‘‘ اس نے مذاق سے منہ بنایا۔۔
اچھی مامی کسی ایسی لڑکی کا پتہ دو کہ مزا آ جائے۔۔بے حد خوبصورت ہو۔۔رنگیلی ہو۔۔ طرحدار ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘تمہاری طرح۔۔‘‘ پھر وہ دفتعاً چلایا۔۔
‘‘یہ ہمارا ایلی ہے اس کی بات بنا دو کہیں۔۔‘‘
‘‘کیسی بات ؟ ‘‘
‘‘اسے اچھی سی بیوی دلا دو۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘
‘‘بس یہ کام کر دو۔۔ساتھی تلاش کر دینا۔۔بیوی نہیں۔۔‘‘مانی نے کہا۔۔
‘‘بیوی کیوں نہیں ؟‘‘
‘‘بیوی بڑی بدی شے ہوتی ہے۔۔‘‘وہ بولا۔۔
‘‘پھر لوگ کیوں کرتے ہیں ؟‘‘
‘‘الو کے پٹھے ہیں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
‘‘اور تم۔۔‘‘
 
Top