عمار تم نے ایک سوال کیا تھا ہم سے ایم ایس این پر۔۔۔۔۔۔ جوابا ہم نے میل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچا اس کیوٹ کو یہیں میل کر دوں۔۔۔۔ باقی چاٹ پر ٹائم ملا تو سمجھا دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ
گویا حریم حسن میں داخل ہے آئینہ
جب آئینہ وجود ہے جب آئینہ شہود
پھر کیا کہیں کہ کس کے مماثل ہے آئینہ
آئینہ کن ہے اور فا یکون کائنات ہے
وسعت میں اس کی دائرہ شش جہات ہے
ہے ثبت ہر دوام پہ آئینے کا دوام
یہ رو بہ رو قطار میں چہروں کا ازدہام
ایک رو نہ سطح وقفے کے قابل نظر پڑی
دیکھا نہ رنگ آب رواں آئینہ تمام
اک آئینے میں ایک سے چہرے تھے سب رواں
چشم مژہ و ابرو و رخسار و لب رواں
اک سیل ہے یہ آئینہ اس کے سوا ہے کیا
اس رو میں حال و ماضی و فردا بھلا ہے کیا
اس کا جواب ڈھونڈتی پھرتی ہے موج وقت
پھر بھی ہے یہ سوال وہیں آئینہ ہے کیا
اس آئینے ہی سے رخ خورشید زرد ہے
اس آئینے سے آگے تو یہ وقت گرد ہے
اس آئینے کی تاب کوئی لائے کیا مجال
لب کیا ہلیں پلک کا جھپکنا یہاں محال
حیرت ہی کر سکے تو کچھ اس سے کرے کلام
حیرت ہی پر کھلے گی یہ خاموشی جمال
مانا کہ خامشی کی بہت تہہ دبیز ہے
حیرت تو خامشی سے ابھی آگے کی چیز ہے
آئینہ ہی جنوں ہے یہ آئینہ ہی پری
اے چشم آئینے سے گزر یوں نہ سرسری
عریاں ہے اس کے حسن سے ہیبت جمال کی
پیدا ہے اس سے خاک کے پتلے میں تھرتھری
اس آئینے کے آگے قضا و قدر ہے کیا
اس آئینے سے آگے کچھ ہے مگر ہے کیا
آئینہ خرد میں کچھ آتا تو ہے نظر
پر کیا ہے اور کیوں ہے یہ کھلتا نہیں مگر
ہر دم دکھا رہا ہے نیا رنگ آئینہ
اور چشم کہہ رہی ہے برابر دگر دگر
یہ چشم کم نہیں ہے یہ آئینہ کم نہیں
اس ربظ کے وجود کا کوئی عدم نہیں
آنئینہ وہ ہے جس میں کہ چہرہ دکھائی دے
ماضی کو دیکھنے چلیں فردا دکھائی دے
آئینہ وہ ہے جس میں تغیر کا ہو سراغ
قطرے کے دیکھنے چلیں دریا دکھائی دے
خیرہ ہو چشم دل وہ تماشا نظر پڑے
ہو آئینہ ہی آئینہ جس جا نظر پڑے
حسرت ہے جس کی باغ کو وہ گل ہے آئینہ
اک نور ہے کس جس کا تسلسل ہے آئینہ
وہ سیل رنگ ہے کہ ٹہرتی نہیں نگاہ
ہے جزو گر کہیں تہ کہیں کل ہے آئینہ
دیکھو تو اور ہی ہے تماشائے آئینہ
طوطی کے لب پہ ہے ہمہ دم ہائے آئینہ
آگے ہو کیا سخن کہ ابھی تک سوال ہے
میں کیا ہوں اور کیا مری تاب جمال ہے
ہستی کو سوچتا تھا کہ آیا خیال دام
پھر آئینہ جو دیکھا تو دیکھا کہ بال ہے
گو آئینے میں جلوہ ناپید و پید ہوں
کھلتا مگر نہیں ہے کہ میں کب سے قید ہوں
عمار میرا خیال ہے کہ میل سے یہ بہتر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ
گویا حریم حسن میں داخل ہے آئینہ
جب آئینہ وجود ہے جب آئینہ شہود
پھر کیا کہیں کہ کس کے مماثل ہے آئینہ
آئینہ کن ہے اور فا یکون کائنات ہے
وسعت میں اس کی دائرہ شش جہات ہے
ہے ثبت ہر دوام پہ آئینے کا دوام
یہ رو بہ رو قطار میں چہروں کا ازدہام
ایک رو نہ سطح وقفے کے قابل نظر پڑی
دیکھا نہ رنگ آب رواں آئینہ تمام
اک آئینے میں ایک سے چہرے تھے سب رواں
چشم مژہ و ابرو و رخسار و لب رواں
اک سیل ہے یہ آئینہ اس کے سوا ہے کیا
اس رو میں حال و ماضی و فردا بھلا ہے کیا
اس کا جواب ڈھونڈتی پھرتی ہے موج وقت
پھر بھی ہے یہ سوال وہیں آئینہ ہے کیا
اس آئینے ہی سے رخ خورشید زرد ہے
اس آئینے سے آگے تو یہ وقت گرد ہے
اس آئینے کی تاب کوئی لائے کیا مجال
لب کیا ہلیں پلک کا جھپکنا یہاں محال
حیرت ہی کر سکے تو کچھ اس سے کرے کلام
حیرت ہی پر کھلے گی یہ خاموشی جمال
مانا کہ خامشی کی بہت تہہ دبیز ہے
حیرت تو خامشی سے ابھی آگے کی چیز ہے
آئینہ ہی جنوں ہے یہ آئینہ ہی پری
اے چشم آئینے سے گزر یوں نہ سرسری
عریاں ہے اس کے حسن سے ہیبت جمال کی
پیدا ہے اس سے خاک کے پتلے میں تھرتھری
اس آئینے کے آگے قضا و قدر ہے کیا
اس آئینے سے آگے کچھ ہے مگر ہے کیا
آئینہ خرد میں کچھ آتا تو ہے نظر
پر کیا ہے اور کیوں ہے یہ کھلتا نہیں مگر
ہر دم دکھا رہا ہے نیا رنگ آئینہ
اور چشم کہہ رہی ہے برابر دگر دگر
یہ چشم کم نہیں ہے یہ آئینہ کم نہیں
اس ربظ کے وجود کا کوئی عدم نہیں
آنئینہ وہ ہے جس میں کہ چہرہ دکھائی دے
ماضی کو دیکھنے چلیں فردا دکھائی دے
آئینہ وہ ہے جس میں تغیر کا ہو سراغ
قطرے کے دیکھنے چلیں دریا دکھائی دے
خیرہ ہو چشم دل وہ تماشا نظر پڑے
ہو آئینہ ہی آئینہ جس جا نظر پڑے
حسرت ہے جس کی باغ کو وہ گل ہے آئینہ
اک نور ہے کس جس کا تسلسل ہے آئینہ
وہ سیل رنگ ہے کہ ٹہرتی نہیں نگاہ
ہے جزو گر کہیں تہ کہیں کل ہے آئینہ
دیکھو تو اور ہی ہے تماشائے آئینہ
طوطی کے لب پہ ہے ہمہ دم ہائے آئینہ
آگے ہو کیا سخن کہ ابھی تک سوال ہے
میں کیا ہوں اور کیا مری تاب جمال ہے
ہستی کو سوچتا تھا کہ آیا خیال دام
پھر آئینہ جو دیکھا تو دیکھا کہ بال ہے
گو آئینے میں جلوہ ناپید و پید ہوں
کھلتا مگر نہیں ہے کہ میں کب سے قید ہوں
عمار میرا خیال ہے کہ میل سے یہ بہتر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔