عمران اور شوکت خانم ہسپتال

اس کا جواب میری امی سے یا اپنی والدہ سے پوچھیں ذرا، میں بھی عام ہوں آپ بھی عام ہیں۔
بالکل یہی بات میرے موقف کی تائید کرتی ہے کہ کسی انسان کی جان کا قیمتی یا بے وقعت ہونا، دوسرے لوگوں سے اس انسان کے تعلق اور اانکے حوالے سے ہوتا ہے۔یعنی یہ ایک relativeاضافی چیز ہے۔ چنانچہ اگر ایک شخص لاکھوں کروڑوں لوگوں کیلئے اہمیت اختیار کرجاتا ہے تو انکے لئے تو وہ قیمتی ہی ہوا خواہ کسی ماں کو اپنے بیٹے کے مقابلے میں ان لاکھوں لوگوں کی قطعاّ کوئی پرواہ نہ ہو۔۔۔
 

عسکری

معطل
بالکل یہی بات میرے موقف کی تائید کرتی ہے کہ کسی انسان کی جان کا قیمتی یا بے وقعت ہونا، دوسرے لوگوں سے اس انسان کے تعلق اور اانکے حوالے سے ہوتا ہے۔یعنی یہ ایک relativeاضافی چیز ہے۔ چنانچہ اگر ایک شخص لاکھوں کروڑوں لوگوں کیلئے اہمیت اختیار کرجاتا ہے تو انکے لئے تو وہ قیمتی ہی ہوا خواہ کسی ماں کو اپنے بیٹے کے مقابلے میں ان لاکھوں لوگوں کی قطعاّ کوئی پرواہ نہ ہو۔۔۔
پر پھر بھی جان کی ایک قیمت ہے جو وہی رہتی ہے چاہیے کچھ بھی ہو جائے ۔ یہ بھی مان لیں :roll:
 
پر پھر بھی جان کی ایک قیمت ہے جو وہی رہتی ہے چاہیے کچھ بھی ہو جائے ۔ یہ بھی مان لیں :roll:
آپ جس پوائنٹ آف ویو سے بات کررہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔اس پر ایک بزرگ کی حکایت یاد آگئی لیکن آپ کیلئے ہوسکتا ہے بوریت کی باعث ہو چنانچہ نہیں لکھتا:D
 

عسکری

معطل
آپ جس پوائنٹ آف ویو سے بات کررہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ اس پر ایک بزرگ کی حکایت یاد آگئی لیکن آپ کیلئے ہوسکتا ہے بوریت کی باعث ہو چنانچہ نہیں لکھتا:D
کلاسیک بندہ ہوں مین استاد جی حکایت پیش کی جائے ابھی اور اسی وقت - اٹس این آن آرڈر سولجر :soldier:
 

شاہ بخاری

محفلین
ایک مضحکہ خیز اعترض ۔ گو کہ یہی یک سطری جواب ہی کافی ہے مگر رقیبوں کی تشنگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکایت کو چلیں بڑھا دیتے ہیں۔ جس ملک میں "لُٹ" مچی ہو وہاں ایسے بے ضرر معاملات پر انگلی اٹھانا بجائے خود افسوسناک ہے ۔ یعنی دودھ کی نگرانی پر بلی کو مامور کرنے کے بعد بڑے میاں بڑے فخر سے "حفاظت کے انتظام و انصرام" پر درس دینے نکلے ۔ شاہی خزانے کی فکر کرو میاں ، قزاق غلام گردشوں تک پہنچ چکے ۔ جلد ہی نقب لگنے والی ہے ۔ تاریخ کے چوراہے پہ سوئی پڑی قوم کو کوئی تو جگائے ۔ گر کوئی نہیں تو اے الله تو ہی .....
پہلی بات تو یہ کہ شوکت خانم میں صرف کینسر کا علاج نہیں ہوتا بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی سہولت دستیاب ہے۔ دلیل سے بات کرنے کے دعویدار نیچے دیا گیا ربط ملاحضہ کریں ۔
https://www.shaukatkhanum.org.pk/patientcare/medical-staff.html
لہٰذا یہ اعترض تو بھک سے اُڑ گیا کہ عمران خان کے یہاں علاج کروانے سے کسی کینسر کے مریض کی حق تلفی ہوئی ۔
اطلاعاً عرض ہے کہ عمران خان انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے فراغت کے بعد دوسرے مریضوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہا۔
ثانیاً یہ کہ بہت زیادہ رش کے باعث انتظار کی کوفت صرف مفت علاج کروانے والے کینسر کے مریضوں کو اٹھانی پڑتی ہے ۔ عمران خان الله کے فضل و کرم سے نہ تو کینسر کے علاج واسطے وہاں گیا اور نہ ہی مفت سہولت سے مستفید ہونے۔ امید ہے سارے اعترضات دم توڑ چکے !
کیا اب کچھ گفتگو اُن کے بارے میں بھی ہو جائے جو سستی روٹی کی آڑ میں غریب کی عزت ہی سستی کر گئے ؟ یا کچھ اُن کے بارے میں جو رہن (رینٹل) پاور پلانٹوں کی طرح یہ ملک بھی آئ ایم ایف کو رہن کر گئے ؟ یا پھر ان کے بارے میں جو دین کی دوکان محض سیاست میں اپنی شان کیلئے سجائے بیٹھے ہیں ؟ لب کشائی حضور والا، تکلم۔

یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے
 
کلاسیک بندہ ہوں مین استاد جی حکایت پیش کی جائے ابھی اور اسی وقت - اٹس این آن آرڈر سولجر :soldier:
چلیں پھر آسان باش ہوجاتے ہیں۔۔۔آپ ہوشیار ہوجائیں:D
فرید الدین عطّار ایک صوفی بزرگ گذرے ہیں جنکی کتاب منطق الطیر اور تذکرۃ اولیاء کافی مشہور ہے۔ انکا تعلق نیشاپور (سنٹرل ایشیا)سے تھا۔ جب منگولوں نے عالمٰ اسلام پر یلغار کی اور بخارا و سمرقند کو تہہ تیغ کرتے ہوئے باقی اسلامی شہروں کی طرف بڑھے تو راستے میں نیشاپور بھی آیا۔چنانچہ اس شہر کو بھی انہوں نے تاخت و تاراج کردیا۔ روایت ہے کہ ایک منگول جنگجو شیخ فرید الدین کی خانقاہ میں بھی داخل ہوا اور آپ کو گرفتار کرکے گھوڑے کے ساتھ باندھ کر شہر کا چکر لگانے لگا اس امید پر کہ شائد اس بوڑھے کو کسی عقیدت مند کے آگے بیچ کر کچھ مناسب سی رقم مل جائے گی۔ چنانچہ جب وہ آپ کو گھسیٹتا ہوا چند لوگوں کے پاس سے گذرا تو ان میں سے ایک شخص نے منگول کو کافی بڑی رقم کی آفر کی کہ یہ رقم لے لو اور شیخ کو چھوڑ دو۔ ابھی وہ انکو چھوڑنے ہی والا تھا کہ شیخ نے اپنی کسی کیفیت میں کہا کہ ہرگز نہیں۔ میں اس حقیر رقم سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں۔ چنانچہ وہ منگول مزید رقم کے لالچ میں انکو وہاں سے گھسیٹتا ہوا دوسرے گلی کوچوں میں پھرانے لگا۔ ایک اور جگہ سے گذرے تو ایک بوڑھی عورت شیخ کو اس حال میں دیکھ کر بے قرار ہوگئی اور اسکے پاس چند سکے تھے وہ منگول کو دکھا کر کہنے لگی کہ یہ لے لو اور شیخ کو چھوڑ دو، منگول اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھنے لگا تو شیخ نے پھر کسی کیفیت میں اس سے کہا کہ دیکھتے کیا ہو۔ اس سے زیادہ میری قیمت تمہیں کہیں نہیں ملے گی ، اسے غنیمت جانو اور یہ رقم لے لو میری یہی ویلیو ہے بھائی۔۔۔شیخ کی اس بات سے اسے اس قدر طیش آیاکہ میرے ساتھ یہ بابا کیا کھیل کھیل رہا ہے چنانچہ اس نے اسی وقت تلوار کا ای ک ہی وار کرکے شیخ کی گردن تن سے جدا کردی۔۔۔۔کہانی ختم ہوئی۔ :)
 

ساجد

محفلین
عمران خان کو ابتدائی طبی امداد کے لئے فضل کارڈیک ہسپتال لے جایا گیا تھا ۔ جو دل کے امراض کا ایک نجی ہسپتال ہے یہاں ضروری مرہم پٹی کی گئی خون کو روکنے کے لئے
شوکت خانم لیبارٹری کی تشخیصی سہولیات کا لاہور اور پاکستان میں کم ہی کوئی مقابل ہے ۔اور اس کا بڑا یونٹ ہسپتال میں ہی کام کرتا ہے ۔ ان بہترین تشخیصی سہولیات اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر شوکت خانم میں رکھا گیا۔
کینسر کے مریضوں کو تو اپنے مسیحا کے وہاں علاج پر خوشی ہوئی ۔ ہسپتال جا کر دیکھتے تو معلوم ہوتا۔
جنہیں اس پر اعتراض ہے وہ ملک میں مزید ہسپتال بنوائیں۔
تشخیصی سہولیات اور لیبارٹری کے حوالے سے سر آغا خاں لیبارٹریز پاکستان میں پہلے نمبر پر ہیں نا کہ شوکت خانم ۔
میں اس خوشی کو سمجھ سکتا ہوں جو کینسر کے مریضوں کو اپنی حق تلفی پہ ہوئی ہو گی۔ :)
یہ موضوع نہیں ہے کہ ہسپتال کس نے بنوایا اور نہ ہی ہسپتال کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو ذاتی جائداد کی طرح استعمال کیا جائے۔
اب ہر بڑی لیبارٹری آن لائن رزلٹ فراہم کرتی ہے لہذا یہ بات کسی منطق کے تحت جائز نہیں کہ لیبارٹری کا یونٹ وہاں موجود ہونے کی وجہ سے علاج بھی وہیں کروایا جائے۔ یہ ایک غلط روایت ڈالی گئی ہے جس کا دفاع نہیں کیاجانا چاہئے۔ کیا ہر پاکستانی جو ایکسیڈنٹ میں زخمی ہو جائے اسے شوکت خانم میں اس بنا پر داخلہ مل سکتا ہے کہ وہاں لیبارٹری ان ڈور موجود ہے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو خود ہی اپنی منظق پر غور فرما لیں ۔
 

ساجد

محفلین
تعجب ہے کہ جب ہم لوگ بے حسی پر آتے ہیں تو دنیا کے مانے ہوئے بے اصول، کرپٹ، نااہل اور نکمے لوگوں کو کئی کئی سال کیلئے اپنی پشت پر سوار کرلیتے ہیں حال مست فقیر بن کر زمانے گذار دیتے ہیں لیکن جب ہمیں اصول پسندی یاد آتی ہے تو یکلخت چھاچھ کو بھی پھونک پھونک پر پینے لگتے ہیں، اور پرفیکشنسٹ بن کرفقط دوسروں کی آنکھ میں تنکے تلاش کرنے لگ پڑتے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں ہم بھی۔ :)
درست فرما رہے ہیں آپ۔ لیکن ایک گروہ کی کرپشن کو دوسرے فرد کے لئے جواز بنانا تو بہت غلط بات ہے۔ میں پرفیکشنزم کا قائل نہیں ہوں لیکن اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے اصول و قواعد کی پابندی کے حوالے سے معروضات پیش کر رہا ہوں۔
معذرت چاہوں گا کہ یہاں کسی کو پشت پر سوار کرنے کی بھی بات نہیں ہو رہی۔
 

عسکری

معطل
چلیں پھر آسان باش ہوجاتے ہیں۔۔۔ آپ ہوشیار ہوجائیں:D
فرید الدین عطّار ایک صوفی بزرگ گذرے ہیں جنکی کتاب منطق الطیر اور تذکرۃ اولیاء کافی مشہور ہے۔ انکا تعلق نیشاپور (سنٹرل ایشیا)سے تھا۔ جب منگولوں نے عالمٰ اسلام پر یلغار کی اور بخارا و سمرقند کو تہہ تیغ کرتے ہوئے باقی اسلامی شہروں کی طرف بڑھے تو راستے میں نیشاپور بھی آیا۔چنانچہ اس شہر کو بھی انہوں نے تاخت و تاراج کردیا۔ روایت ہے کہ ایک منگول جنگجو شیخ فرید الدین کی خانقاہ میں بھی داخل ہوا اور آپ کو گرفتار کرکے گھوڑے کے ساتھ باندھ کر شہر کا چکر لگانے لگا اس امید پر کہ شائد اس بوڑھے کو کسی عقیدت مند کے آگے بیچ کر کچھ مناسب سی رقم مل جائے گی۔ چنانچہ جب وہ آپ کو گھسیٹتا ہوا چند لوگوں کے پاس سے گذرا تو ان میں سے ایک شخص نے منگول کو کافی بڑی رقم کی آفر کی کہ یہ رقم لے لو اور شیخ کو چھوڑ دو۔ ابھی وہ انکو چھوڑنے ہی والا تھا کہ شیخ نے اپنی کسی کیفیت میں کہا کہ ہرگز نہیں۔ میں اس حقیر رقم سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں۔ چنانچہ وہ منگول مزید رقم کے لالچ میں انکو وہاں سے گھسیٹتا ہوا دوسرے گلی کوچوں میں پھرانے لگا۔ ایک اور جگہ سے گذرے تو ایک بوڑھی عورت شیخ کو اس حال میں دیکھ کر بے قرار ہوگئی اور اسکے پاس چند سکے تھے وہ منگول کو دکھا کر کہنے لگی کہ یہ لے لو اور شیخ کو چھوڑ دو، منگول اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھنے لگا تو شیخ نے پھر کسی کیفیت میں اس سے کہا کہ دیکھتے کیا ہو۔ اس سے زیادہ میری قیمت تمہیں کہیں نہیں ملے گی ، اسے غنیمت جانو اور یہ رقم لے لو میری یہی ویلیو ہے بھائی۔۔۔ شیخ کی اس بات سے اسے اس قدر طیش آیاکہ میرے ساتھ یہ بابا کیا کھیل کھیل رہا ہے چنانچہ اس نے اسی وقت تلوار کا ای ک ہی وار کرکے شیخ کی گردن تن سے جدا کردی۔۔۔ ۔کہانی ختم ہوئی۔ :)
سچی کہانی ہے یہ کہ لغو ہے ؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عمران کو ذرا فرصت کے کر کسی ٹاک شو کی ڈیسک پر آنے دیجیے ۔یہ سوال ضرور اس سے براہ راست کیا جائے گا ۔اور کافی شافی وضاحت ہو جاسکے گی۔۔۔ یہ تذکرے ۔تبصرے ۔خدشات ۔ بھڑاس وغیرہ خواہ کسی بھی رنگ میں ہوں قبل از وقت ہیں۔
اور دل و دماغ کے خود ساختہ و پرداختہ احساسات کی کچی تسکین سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے ۔ پبلک فورم میں ہر قسم کی تشنگی دور کرنے کے سامان مل جائیں گے۔;)
 

ساجد

محفلین
https://www.shaukatkhanum.org.pk/patientcare/medical-staff.html
لہٰذا یہ اعترض تو بھک سے اُڑ گیا کہ عمران خان کے یہاں علاج کروانے سے کسی کینسر کے مریض کی حق تلفی ہوئی ۔
ا
یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے
شاہ صاحب ، کسی بھی کینسر ہسپتال کے کام کرنے کے طریقہ کار کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ذیلی شعبے بنانے کا کیا مقصد ہوتا ہے۔ ویب سائٹ کا ہی نقشہ دیکھ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یورولوجی ، پیڈیا ، ای این ٹی ،کارڈیک اور نیورو کے سرجنز اور ڈاکٹرز ، ریڈیولوجی ، اون کالوجی ،پلمونولجی اور نیوکلر میڈیسن سے کم کیوں ہیں۔
صرف سائٹ سے نہیں ، خود ہسپتال جا کر پتہ کریں کہ یہ ذیلی شعبے کس لئے ہیں۔
کینسر کا علاج اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت پیچیدہ ہوتا ہے اور کینسر کا مرض انسانی جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے ،ا س لئے کسی بھی کینسر ہسپتال میں یہ ذیلی شعبے موجود ہوتے ہیں لیکن ان کا مقصد کینسر کے علاج میں معاونت ہوتا ہے۔ ان شعبوں کے موجود ہونے کا ذکر میں اسی دھاگے میں پہلے ہی کر چکا ہوں اور ان کے مقاصد بھی بتا چکا ہوں۔
 

طالوت

محفلین
جناب والا آپ یہ بحث کہاں لے کر بیٹھ گئے ہیں ۔ ہم صا بر اور قناعت پسند لوگ ہیں ۔ "پرفیکشن" ہمیں "سُوٹ" نہیں کرتی۔ عمران خان نے بالکل ٹھیک کیا بلکہ عمران خان جو کہتا جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے۔ ہم نے بڑی مشکل سے نیا بُت تراشا ہے اب کچھ عرصہ تو پوجنے دیں۔

اورچے گویرا کی تصویر بہت سے احباب اس کی اچھی صورت کی وجہ سے بھی لگاتے ہیں ۔
 

طالوت

محفلین
طالوت بھائی کم از کم آپ سے اس جواب کی توقع نہ تھی خیر یہ دنیا ہے پیارے ۔۔۔ ۔۔
یقین جانئیے ساجدنے جو نقطہ اٹھایا ہے اس کے جواب میں اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر کے جس قسم کی دلیلیں دی گئی ہیں کچھ افراد سے مجھے ان کی بھی ہرگز امید نہیں تھی۔ ہم یہ بات آخر کیوں تسلیم نہیں کر لیتے کہ عمران خان سے بھی غلطیاں ممکن ہیں اور اس معاشرے میں بلاشبہ تبدیلی کے لئے اسے اپنے کردار و عمل کے حوالے سے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے۔

عزیزو ، اب ہمیں زندہ باد مردہ باد کے خلاء سے نکل آنا چاہیے اور لیڈران کو روحانی پیشوا یہ نجات دہندہ بنانے کی بجائے ان سے باز پرس کرنی چاہیے کہ وہ جس فرض کو نبھانے کا عہد کرتے ہیں اس میں وہ کامیاب کیوں نہیں ہوتے ، ان کے کردار میں کیا کمزوریاں ہیں ، کہاں انھوں نے تدبر و تفکر نہیں کیا ، کہاں وہ کمزور پڑ گئے ، کہاں وہ بلا ضرورت سختی برتنے لگے۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ سب کے ساتھ کیا کیا اور کیسے کیسے معاملے ہیں مگر میں ان گزری اکتیس نام نہاد بہاروں سے سخت نالاں اور بیزار ہوں اور بقیہ بہاروں کو بہاریں ہی دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اگر کسی کو رہبری کا شوق ہے تو وہ خود کو اس کا اہل بھی ثابت کرے ۔ بحیثیت انسان اور مسلمان جن روایتوں کے ہم امین ہیں ، اس میں کسی گھاٹے کسی کمی پر میں راضی نہیں ۔
 
Top