عمران خان،اب آپ کو پلان ’بی‘ کا انتظار ہے؟

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران خان،اب آپ کو پلان ’بی‘ کا انتظار ہے؟

Posted On Tuesday, September 16, 2014 .....سید عارف مصطفیٰ......

یوں لگتا ہے کہ سوچنے کے کام بھی اب ٹھیکے پہ دیدیئے گئے ہیں ورنہ قوم یہ ضرور سوچتی کہ آخر جب سپریم کورٹ نے دھرنے سے متعلق اپنے حکم نامے میں طاہرالقادری کو ایک غیر متعلق فرد قرار دیکر انہیں اس مہم جوئی کیلئے اسلام آباد جانے سے منع کردیا تھا تو آخر وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے وزیراعظم کو پابند کیا تھا کہ وہ طاہرالقادری کو اسلام آباد جانےاور اودھم مچانے سے نہ روکیں۔

سوچنے کا کام تو یہ بھی تھا کہ گزشتہ برس جب سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کویہ آپشن دیا تھا کہ وہ یا تو ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف ختم اورکینیڈین شہریت ترک کرکے پاکستانی سیاست میں حصہ لیں یا اگر کینیڈین شہریت برقرار رکھیں تو یہاں کے معاملات میں دخل نہ دیں ،تو سپریم کورٹ کے اس دوٹوک فیصلےکے باوجود اور کینیڈا کی شہریت کو ترجیح دیئے جانے کے بھی یہ سیاسی گرو گھنٹال پھر اس برس بھی یہاں کیسے سیاسی دھمال ڈال رہے ہیں۔

سوچنے کا کام تو یہ بھی ہے ، یہ بھی ہے، یہ بھی ہے لیکن بہت سارے اور ایسے کاموں کو ابھی رہنے دیتے ہیں بس اسی بات پہ غوروفکر کرلیں کہ اپنے اہداف میں ابتک کی واضح ناکامی کے بعد بھی عمران خان اور طاہرالقادری نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے مطالبے پہ بدستور کیوں اڑے ہوئے ہیں ؟

تو چلئے یہاں میں ذرا اپنے دماغ کو زحمت دے لیتا ہوں ۔۔۔ لیکن۔۔۔ جو جواب نکل کر آرہا ہے وہ بڑا خوفناک ہے ! اور وہ یہ ہے کہ دھرنا اسکرپٹ کا پلان’ اے‘ ناکام ہوجانے کے بعد اب پلان بی سامنے آنے والا ہے اور لگتا یہ ہے کہ اب شاید میمو گیٹ اسکینڈل ٹائپ کی کوئی نئی کتھا سامنے لائی جائے۔ اور اسکی روشنی میں غداری کا ایسا الزام چسپاں کردیا جائے کہ شریفوں سے نجات کو قومی سطح پہ کار ثواب ٹھہرادیا جائے۔

یہاں ایک مخمصہ میرا بھی ہے، اور وہ یہ کہ ۔۔۔۔ کیا کروں ، کیا نا کروں۔ میری سوچ بھی یہی ہے کہ ملک میں تبدیلی آنی چاہئے اور اسے باریاں لینے والے روایتی سیاستدانوں کی گرفت سے لازمی نکالنا چاہئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کام کرنے کے دعویداروں میں بھی مخدوم شاہ محمود ، جہانگیر ترین، خورشید قصوری اور شیخ رشید جیسے لوگ ہیں، خود جن کےخلاف یہ انقلاب آنا چاہئے۔ جوبے حمیتی کی پالیسیاں پرویز مشرف کے دور میں بنائی گئیں اس کے زیادہ تر ذمہ دار یا تو پی ٹی آئی میں براجمان ہیں یا پھر ن لیگ اور پی پی پی میں اور انکے ہوتے ، پی ٹی آئی کسی حقیقی انقلاب کی بنیاد نہیں رکھ سکتی ۔ ان سب کی مونچھوں پہ لال مسجد کے شہداء کا خون بھی لگا ہوا ہےاور گلے میں پنڈی والوں کا طوق زریں بھی ہے۔

یہاں یہ بھی سمجھ لیجئے کہ بات یہ نہیں کہ میں عمران خان کا مخالف ہوگیا ہوں ، بلکہ عالم وحشت میں ہوں کیونکہ انہیں بڑی تیزی سے شیخ رشید کےاس انتقام کا نشانہ بنتے دیکھ رہا ہوں جو ماضی میں انکے ان ریمارکس کا نتیجہ ہے کہ جو انہوں نے چند برس قبل شیخ کے بارے میں ایک ٹاک شو میں دیئے تھے کہ

" میں تو اسے اپنا چپراسی بھی نا لگاؤں"۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب شیخ بہت اونچی ہواؤں میں تھے اور ہردوسرے ٹاک شو میں عمران کیلئے مغلظات کی نئی نئی اقسام ایجاد کرتے نظر آتے تھے۔ اب آپ ذرا غور فرمایئے ۔۔۔ یہ انتہائے زوال نہیں تو اور کیا ہے کہ ملک کی تیسری بلکہ عملاً دوسری بڑی پارلیمانی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود عمران خان کو ایک قطعی غیر پارلیمانی جماعت کے قائد طاہرالقادری کاچھوٹا بنا کر رکھدیا گیا ہے۔ اور ڈی چوک میں اپنے حامیوں کی کثیر تعداد کے غائب ہوجانے کے بعد انہیں کئی دن سے عوامی تحریک کے وابستگان کے ہجوم سے خطاب کرکےاپنی لیڈری کی لاج رکھنی پڑرہی ہے ۔۔۔! کافی دنوں کے بعد البتہ ہفتے کی شام اپنوں کا اچھا خاصا مجمع پھر سے دکھائی دیا جو ان کے اس اعلان کی تشہیر پہ اکٹھا ہوا تھا کہ دھرنے کا ایک ماہ مکمل ہونے پہ وہ اس میں حکومت سے کوئی بہت اہم اور سخت بات کریں گے۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ ہوا کچھ بھی نہیں ! دوسرے دن اتوار کو بھی اس امید پہ کچھ نا کچھ لوگ آ ہی گئے کہ شاید جواہم اور سخت بات گزشتہ روز کہنے سے رہ گئی ہے، آج کہہ دی جائے۔۔۔ لیکن وہاں تو ماضی کی سوبار پیٹی گئی لکیر پھر نئے ڈھنگ سے پیٹ دی گئی۔

عمران خان یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اچھا لیڈر بس ایک حد تک ہی ضدی ہوتا ہے، لیکن وہ زمینی حقائق کو کبھی نظرانداز نہیں کرتا،بلکہ انہی کو مد نظر رکھ کر اپنی چالیں چلتا ہے۔ قائداعظم جیسے اصول پسند رہنما نے بھی1940 کی قرارداد پاکستان کے بعد بھی متحدہ ہندوستان یا وفاق کو برقرار رکھنے کے لئے سب راستے بند نہیں کردیئے تھے ورنہ وہ 1946 میں کیبنٹ مشن پلان کو ہرگز منظور نہ کرتےاور نہ ہی اس سے قبل 1945میں منعقد ہونے والی دو تاریخی شملہ کانفرنسوں میں سہ فریقی مذاکراتی عمل کا حصہ بنتے۔ خان یہ بات اچھی طرح اپنے ذہن میں رکھ لیں کہ وہ فوری اور آناً فاناً زور دار دھکا مارکر انقلاب لاسکنے کے آپشن اب پوری طرح کھوچکے ہیں ۔ بہت بڑے مجمع کی مدد کے بغیر تو یہ پہلے بھی ممکن نہ تھا اور اب تو انکے دسترخوان پہ سے بہت سے لوگ شکم سیر ہوکر اٹھ چکے ، یادش بخیر بارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں صرف 18 گھڑ سواروں کی مدد سے حملہ کرکے ایبک کے جرنیل بختیارالدین خلجی نے بنگال کے حکمران لکشمن سین پر جو قبضہ کرلیا تھا اس میں تو سب سے بڑا پہلو ہی اچانک اورخفیہ کارروائی کا تھا ، اور آپکے کیس میں تو میڈیا کی مہربانی سے اب ایسا کرنا قطعی ممکن ہی نہیں ہے اورپھر اس وقت تو وہاں نہ پارلیمنٹ تھی اور نا ہی کوئی دستور۔

خان صاحب یہ حقیقت بھی اچھی طرح پیش نظر رکھیں کہ ایک ملین لوگوں اور ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کو لیکر لاہور پہنچنے کا انکا اپنا دعویٰ بری طرح ، جی ہاں 98 فیصد کی شرمناک حد تک ناکام رہا تھا اور محض ڈیڑھ تا دو فیصد افراد ہی نے انکی صدائے مارچ پہ کان دھرا تھا۔ اور اگر انکے پیچھےخصوصی خاکی ایمپائر کی مدد کی توقع نہیں تھی تو پھر انہیں ایک دانشمند رہنما کے طور پہ اس افسوسناک حقیقت کے سامنے آتے ہی فوری بعد اپنے مطالبات اور ترجیحات کی فہرست پہ نظر ثانی کرلینی چاہئے تھی ، وہ بجائے استعفیٰ کی رٹ لگانے کے، انتخابی اصلاحات اور مڈٹرم الیکشن مانگ لیتے اور ان صائب مطالبات پہ حکومت کو بھی کان دھرتے ہی بنتی، لیکن وہ پھر بھی اپنی استعفائی ضد پہ قائم رہے اور انکی اس بے معنی بالک ہٹ کو دیکھتے ہوئے جاوید ہاشمی کا انکشاف بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔

عمران خان ذرا اس آفاقی سچائی پہ بھی غور کریں کہ بہت کم لوگ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ جنہیں کسی ناکامی سے دوچار ہونے کے باوجود شرمندگی سے بچنے کیلئے کوئی معقول وجہ ہاتھ لگ پاتی ہے اور انہیں بھی انکی قسمت نے بھی اس ہزیمت سے مکمل برباد ہونے سےباز رکھنے کیلئے پنجاب گیر سیلاب کی صورت ایک ایسا ناگہانی موقع عطا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے وہ ناکامی کے باوجود ہیرو بن کر واپس ہوسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے یہ موقع بھی اب تقریباً کھودیا ہے۔ اور اب انکی یہ دھرنائی ہٹ دھرمی لوگوں کے ذہن میں انکی عوام سے محبت کے حوالے سے بڑی تیزی سے شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے اور اگر یہ صورتحال یونہی جاری رہی تو اسے بڑے عوامی غیض و غضب کے مہیب الاؤ میں تبدیل ہونے سے روکا نہیں جاسکےگا۔
السلام علیکم سید زبیر انکل!
پلان بی تو کیا جن لوگوں کے لیے اس سازش کے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں وہ تو کونٹنجینسی پلاننگ کے طور پر مزید کئی پلان تیار کیا کرتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

قیصرانی : جو یہاں شیخ رشید کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں یہ وہ والا سبق ہے جس کے سکھانے کے بارے میں کل ذکر کر رہی تھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھا تو یوں فرمائیے نا کہ بھاڑے پہ لی ہے ۔ اب لیز بھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک قلیل مدتی اور دوسری طویل مدتی ۔ قلیل مدتی تو جلد واجب الادا ہو جاتی ہے جب کے طویل مدتی تو مدتوں چلتی رہتی ہے گویا یہ بھتے کی ایک مہذب شاخ ہوئی۔:p

ہمارے ہاں لیز 99 سال کی ہوتی ہے، اور لیز لینے والا 99 سال تک بلا شرکتِ غیرے مذکورہ "جائداد" کا مالک و مختار ہوتا ہے۔ :) :)
 

قیصرانی

لائبریرین
السلام علیکم سید زبیر انکل!
پلان بی تو کیا جن لوگوں کے لیے اس سازش کے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں وہ تو کونٹنجینسی پلاننگ کے طور پر مزید کئی پلان تیار کیا کرتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

قیصرانی : جو یہاں شیخ رشید کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں یہ وہ والا سبق ہے جس کے سکھانے کے بارے میں کل ذکر کر رہی تھی۔
معلوماتی۔ یعنی آپ نے مجھے چپراسی نہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ :idontknow:
 

ابن رضا

لائبریرین
بحروں کی بحث اپنی جگہ۔۔۔
گو نواز گو اپنی جگہ۔۔۔
ویسے گو نواز گو کس بحر میں ہے؟؟؟:idontknow:
aaaa_zps1ad0076c.jpg
 
اچھا۔۔۔! ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔ ہماری معلومات کا منبع بھی "سینہ گزٹ" ہی ہے۔ :) :)
:)
پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا، لیکن گذشتہ دور حکومت میں پاکستان ریلوے اور پاکستان پوسٹ کی زمینوں کی لیز کے کچھ کاغذات میرے ہتھے چڑھ گئے تھے تو معلومات میں اضافہ ہوا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
Top