عمران خان، امید کی کرن؟

ظفری

لائبریرین
سیاسی اعتبار سے ہم آج ردعمل کے دور سے گذر رہے ہیں ۔ ردعمل کا معاملہ یہ ہے کہ فرد اس کا شکار ہو یا قوم ، اس کیفیت میں کوئی بھی حالات کا صحیح تجزیہ نہیں کرسکتا ۔ اب خواہ یہ ردعمل حکومت کے خلاف ہو یا کسی اور کے خلاف ، پہلے سے موجود سیاسی عصبیتوں میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اس صورتحال کا مناسب ترین انجام غیر جانبدار شفاف الیکشن ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ایک عوامی حکومت کا قیام ظہور پذیر ہونا ہے ۔ بلا شبہ یہ تبدیلی قوم کے لیئے ایک نیک شگون ہوگی ۔ لیکن کیا عمران خان بھی اسی پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں ۔ جس میں ‌زمام کار بینظیر کے ہاتھ میں یا نواز شریف کے ہاتھ میں ہو ۔ ؟
بہت سوں نے اپنی امیدیں عمران خان سے باندھ لیں ، تقریباً ہر نظر عمران خان پر لگی ہوئی ہے ۔ دل تو یہ چاہتا ہے کہ یہ نظریں کبھی نہ ہٹیں ۔ مگر کیا کجیئے کہ معاملہ سیاست کا ہے ۔ اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ، بلکہ یہ وہ وادی ہے جہاں وقت کی سنگلاخ حقیقتیں قدم قدم پر آپ کے پاؤں سے الجھتیں ہیں ۔ گذشتہ آٹھ سات برس واقعی بہت کڑے تھے ، خصوصاً نوواردان سیاست کے لیئے ۔ اگر یہ بات درست تسلیم کر لی جائے کہ 16 اکتوبر کو ہونے والی تبدیلی کا عوام نے برا نہیں منایا تھا تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بینظیر اور نوازشریف مقبولیت کے اعتبار سے اپنی سیاسی زندگی کے بدترین دور سے گذرے ہیں ۔ نواز شریف تو اب بھی اس گرداب کا شکار ہیں جبکہ بینظیر نے کنارے تک پہنچنے میں کافی ہاتھ پاؤں مارے ہیں ، جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ۔ گویا ایک سیاسی خلاء تھا ۔ یہ خلاء سیاست کی دنیا میں موجود ان کرداروں کے لیئے ایک موقع تھا جن کی صلاحیتیں سیاسی عصبیتوں کی نذر ہوگئیں ۔ مذہبی سیاستدانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بہت ممکن کوشش کی کہ وہ اس خلاء کو پُر کرسکیں ۔اور اس سفر میں انہوں نے اچھی خاصی پیش قدمی بھی کی ۔ اور اسی دوران عمران خان یہیں تھے اور بہت حد تک متحرک بھی ۔ اگر پچھلے سات سالوں‌ کے سیاسی پس منظر کا جائزہ لیں تو ہمیں آج بھی مقبولیت کے لحاظ سے پہلی صف میں نواز شریف اور بینظیر کھڑے نظر آتے ہیں ۔ اور اس سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ اس دوران سیاست کے دیگر کردار ان کی جگہ نہیں لے سکے ۔ سیاسیات پر غور وفکر کرنے والے ہر شخص‌کو یہ سوچنا چاہیئے کہ اس کے اسباب کیا رہے ۔ ؟
عوام کو سیاسی نظام سے ناراضگی کا ایک موقع ملا اور انہوں نے اس کا بھرپور مظاہرہ بھی کیا ۔ لیکن یہ عدم ِ اعتماد کسی سیاسی منتج پر نہیں ہوا ۔ اگر کوئی اس بات کو سمجھنا چاہے تو اسلام آباد سے لاہور تک چیف جسٹس اور مجلسِ عمل کے کاروانوں کا موازنہ کر لے دیکھ لے ۔ اسی راستے پر جتنے لوگ چیف جسٹس کے کارواں کے ساتھ نکلے ۔ مجلسِ عمل کے کارواں میں نہیں تھے ۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ اس مہم میں اہل ِسیاست میں سب سے نمایاں رہے ۔ لیکن حکومت مخالف تحریکوں میں نمایاں ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں‌ ہوتا کہ کوئی نئی سیاسی صف بندی ہو رہی ہے ۔ جب میں عمران خان کو دیکھتا ہوں تو ان کے موازنے کا قریب ترین خاکہ نواب نصراللہ خان کے بہت قریب پاتا ہوں ۔ اپوزیشن کی ہر تحریک میں وہ سب سے نمایاں آدمی تھے ۔ اور شاید سب سے محترم بھی ۔ سوال یہ ہے کہ ان کے عہدِ سیاست میں کتنے لوگ ان کی سیاسی جماعت کے نام سے بھی واقف تھے ۔

دراصل آج قوم کو ایک سیاستدان کی نہیں ، ایک سماجی و سیاسی مصلح کی ضرورت ہے ۔ حیثیت کے مخلتف کرداروں میں مفاداتی تصادم کا نتیجہ کسی بھی فریق کے حق میں نکلے ۔ اس سے یہ تو ممکن ہے کہ ہمارا دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا مگر اس سے کوئی جوہری تبدیلی نہیں آنے والی ۔ یہ تبدیلی اسی وقت متوقع طور پر آئے گی جب کوئی ملک و قوم کو درپیش حقیقی بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے گا ۔ ا سکے بغیر کوئی بھی پارلیمانی جہموریت ہمارے لیئے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی ۔ آج ہم مغرب میں جہموریت کی جو برکات دیکھتے ہیں وہ بعض بنیادی سماجی و سیاسی تبدیلیوں کے بعد ہی رونما ہوئیں ہیں ۔ عمران خان سمیت جو بھی لیڈر اگر حقیقی طور پر ملک و قوم کے لیئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مغرب کی چند جمہوری پیش بندیوں‌ کو غور سے سمجھنا چاہیئے ۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں ۔

1- قومی سطح پر اکثریت ایک مناسب معیارِ زندگی رکھتی ہو ۔
2 - سیاسی جماعتوں میں قومی ترجیحاتوں کے حوالے سے ایک عمومی اتفاقِ رائے ہو ۔
3 - شرح خواندگی کا تناسب بہت زیادہ ہو ۔
4 - مذہبی ، سیاسی ، نسلی اور لسانی تصادات ایک قابلِ فہم دائرے میں محدود ہوں ۔
5 - عوام کا قومی قیادت کے ساتھ اعتماد اور احترام کا رشتہ ہو اور پوری قوم ایک تابناک مستقبل کے لیئے یک زبان ہو ۔

مگر آج ہم اس میں سے کسی بھی ایک شرط پر پورے نہیں اُترتے ۔ ممتاز احمد کی ایک مرتب کتاب " سیاست ، ریاست اور اسلام " میں خالد اسحق مرحوم کے تجزیئے کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا جواب مل سکتا ہے کہ ہم کو کیوں اب تک نواز شریف اور بینظیر کا متبادل نہیں مل سکا ۔ قوم کو ایک مصلح کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ کام عمران خان کر سکتے ہیں تو ان سے بہتر کوئی لیڈر نہیں ہے ۔ اگر نہیں تو پھر چاہے وہ اپنے دن رات ایک کر دیں ۔ وہ نواب نصراللہ خاں کی تاریخ ہی دھرائیں گے ۔ آج کل بہت سوں کو ان کی طرف متوجہ پاتا ہوں تو دل یہ چاہتا ہے کہ خلق خدا کا یہ التفات باقی رہے مگر اس سیاست کا کیا علاج کہ یہ دل کی بات پر کان نہیں رینگتی ۔
 

ساجد

محفلین
ظفری بھائی ،
میں آپ کے خیالات سے متفق ہوں۔ تمام سیاستدان آزمائے جا چکے ہیں اس لئیے آزمائے ہوئے لوگوں پر توقع رکھنا بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔
اگرچہ میں نے آج تک کبھی ووٹ نہیں ڈالا لیکن اس بار الیکشن پر بہ فضلِ خدا پاکستان میں موجود ہوں گا اور میرا ووٹ جائے گا عمران خان کو۔ میں نہیں کہتا کہ وہ فرشتہ ہے ۔ لیکن اس نے آج تک جتنی سیاست کی ہے بہت متوازن کی ہے اور ابھی تک سودے بازیوں کی بیماری سے پاک ہے۔ اسی کو آزمائیں گے ووٹ دے کر ۔ شاید یہ آدمی ہی ملک کو اچھی سیاست سے روشناس کروا سکے۔
 
عمران خان مشرف کا بہت بڑاحامی تھا۔
ایک الطاف تو گرفتار نہ کرواسکا اور کیا کرے گا۔ اس سے کچھ امید نہیں۔
 

ساجد

محفلین
مشرف کا حامی تو کبھی میں بھی ہوا کرتا تھا۔
الطاف کو گرفتار کروانا اور ملک کو اچھی سیاست دینا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
 
الطاف حسین کو گرفتار کروانا تو دور، بڑے بڑے لوگ اس کو گرفتار کرنے کی بات کرنے کی بھی ہمت نہیں کرسکے لیکن عمران خان نے جرات و بہادری سے دہشت گرد اور اس کی تنظیم کو چیلنج کیا۔۔۔ گرفتار ہونا یا نہ ہونا تو قوانین اور شہادتوں پر منحصر ہے۔۔۔ عمران خان کا کیا قصور؟
اور میرے بھائی! یہ تو آپ نے خود لکھا ہے کہ عمران خان، مشرف کا حامی "تھا"۔ آپ کا یہ جملہ ہی ظاہر کررہا ہے کہ وہ اب مشرف کا حمایتی نہیں۔۔۔ اب اگر میں اس بارے میں کچھ کہوں کی بی بی صاحبہ نے مشرف کی کتی حمایت کی ہے تو پھر آپ تعصب کا طعنہ دیں گے۔۔۔!
آپ کی جانب سے بے جا پیپلز پارٹی اور بی بی کی حمایت آپ کی غیر جانبداری کو مشکوک بنارہی ہے۔
 
الطاف حسین کو گرفتار کروانا تو دور، بڑے بڑے لوگ اس کو گرفتار کرنے کی بات کرنے کی بھی ہمت نہیں کرسکے لیکن عمران خان نے جرات و بہادری سے دہشت گرد اور اس کی تنظیم کو چیلنج کیا۔۔۔ گرفتار ہونا یا نہ ہونا تو قوانین اور شہادتوں پر منحصر ہے۔۔۔ عمران خان کا کیا قصور؟
اور میرے بھائی! یہ تو آپ نے خود لکھا ہے کہ عمران خان، مشرف کا حامی "تھا"۔ آپ کا یہ جملہ ہی ظاہر کررہا ہے کہ وہ اب مشرف کا حمایتی نہیں۔۔۔ اب اگر میں اس بارے میں کچھ کہوں کی بی بی صاحبہ نے مشرف کی کتی حمایت کی ہے تو پھر آپ تعصب کا طعنہ دیں گے۔۔۔!
آپ کی جانب سے بے جا پیپلز پارٹی اور بی بی کی حمایت آپ کی غیر جانبداری کو مشکوک بنارہی ہے۔

چیلنج کرنے کو تو میں‌بھی مانتا ہوں ۔ اس سلسلے میں‌ایک پچھلا تھریڈ بھی دیکھ لیں۔
مگر چیلنج کرکے کچھ کرنہ سکا۔ قصور کسی کا بھی ہو۔
اور ضرور عمران مشرف کا حامی تھا مگر اب نہیں‌ہے۔ اس سے کب انکار ہے۔
دیکھیے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے۔ اگر فوج غلط کام کرتی ہے اور لوگ فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو نقصان کس کا ہے۔ فوج اور پاکستان کا۔ حل کیا ہے؟ یہی نا کہ فوج سے مذاکرات کیے جاویں تاکہ فوج اپنے کام تک محدود رہے۔ یہی کام تو بے نظیر کررہی تھی۔
پہلے اپ ہی کہتے ہیں‌کہ فوج سے ٹکراو نہ ہو پھر اس اس ٹکراو سے بچنے کے لیے مفاہمت ہو تو الزام رکھ دیتے ہیں۔
مجھے اپنی غیر جانبداری کے لیے کسی سے سرٹیفیکٹ لینے کی ضرورت نہیں۔
 

فرید احمد

محفلین
عمران خان کے حرم میں سراخ ہے ، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ، عمران نے سیاست میں قدم رکھا ہی تھا کہ سراخ کر دیا گیا تھا
میری مراد اس کی سابقہ بیوی ہے ، جس سے اب بھی اس کے اچھے تعلقات ہیں ، جو یقینا پاکستانی نہیں اور نہ ہی پاکستان کی ہمدرد
 

ساجد

محفلین
فرید بھائی ،
مٹی ڈالیں اس بات پر کہ اس کی بیوی پاکستان سے کتنی ہمدردی رکھتی تھی۔ ملک ہمدردیوں سے نہیں اپنے قوانین اور نظام کی مضبوطی سے چلتے ہیں۔ آخر سونیا بھی تو اٹلی سے آ کر بھارت کو چلا بلکہ دوڑا رہی ہے نا۔ کیا ہے کہ جوانی میں ہر کوئی تیس مار خاں ہوتا ہے اور جب شہرت کا بھی ساتھ ہو تو " نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملیں" والی بات ہو جاتی ہے۔ راجیو نے سونیا پر تیر چلایا تو عمران نے جمائما پر۔ اور کچھ چھپے رستم بھی ہوتے ہیں کہ تیر چھوڑ توپ بھی چلاتے رہیں تو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے۔
میں ، نیٹ پر ، کچھ بھی لکھ لوں لیکن کبھی یہ نہیں لکھوں گا کہ میں نے کس کو کہاں لائن ماری۔ اب اس " میں " کی جگہ آپ کسی کا بھی نام لکھ لیں تو نتیجہ پھر بھی یہی نکلے گا ، بے شک اپنا نام بھی لکھ کر دیکھ لیجئیے ، مجال ہے کہ نتیجہ مختلف آئے۔:)
 

فرید احمد

محفلین
مقصود یہ نہیں بھائی !
اس وقت عالمی حالات پاکستان بلکہ پوری مسلم کمیونٹی کے خلاف ہے ، اس صورت حال میں اس سابق بیوی سے ( اگر عمران کے ہاتھ کچھ اقتدار آگیا تو ) کیا کچھ ملک دشمن نہیں کروا سکتے ؟ وہ ایوب خان کی سیکرٹری کی داستان قدرت اللہ شہاب نے لکھی ہے ۔ ۔ ۔ خیر اس جاسوسی کی یہ دنیا اور اس کی باتیں ہی اور ہیں ۔
 

امید

محفلین
فرید صاحب کیا پاکستان میں صرف حکمران کا خاوند یا بیوی ہی حکمران سے خفیہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں؟۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دوسرے لیڈران کی تو ہم ملک سے کی گي دھوکہ بازیوں کو معاف کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور عمران خان کی بات آتے ہی بات ذاتیات پہ آ جاتی ہے۔ اور کچھ ہو نا ہو عمران خان صاف گو اور مستقل مزاج ہے۔
 

زینب

محفلین
عمران خان مشرف کا بہت بڑاحامی تھا۔
ایک الطاف تو گرفتار نہ کرواسکا اور کیا کرے گا۔ اس سے کچھ امید نہیں۔

الطاف کو گرفتار نا کروا سکا اس کی بھی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے اتحادہ حکمران ٹولے نے لندن پولیس کو پاکستان میں متلقہ لوگوں سے پوچھ گچھ کی اجازت نہیں دی۔۔۔۔۔۔۔عمران تو حامی تھا نا مشرف کا اپ کی لیڈر تو اب ہیں۔۔۔۔۔
 

زینب

محفلین
عمران نے خود گرفتاری دی ورنہ تو پوری پنجاب پولیس نا ڈھونڈ سکی اتنے دنوں میں
 

زینب

محفلین
جی سر جی عمران خان خود ہی آیا تھا نا پنجاب یونیورسٹی اور اس کا حامی گروپ بھی تھا نا وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔جن میں پہلے ہی کشیدگی چل رہی تھی
 
شوق سے کرو۔۔۔ مجھے پکڑیں گے تو جیل جاکر اتنی تقریریں کروں گا کہ اگلے دن گھر پر چھوڑ جائیں گے۔۔۔۔۔۔ (بھلے سے زندہ یا مردہ ;) )
 
جی سر جی عمران خان خود ہی آیا تھا نا پنجاب یونیورسٹی اور اس کا حامی گروپ بھی تھا نا وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔جن میں پہلے ہی کشیدگی چل رہی تھی

الطاف کو گرفتار نہ کرواسکا اور خود گرفتار ہوگیا۔
میں‌تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ عمران سے امید نہ رکھیں۔
 
Top