عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ
اسٹاف رپورٹر 15 منٹ پہلے

فوٹو اسکرین گریپ

فوٹو اسکرین گریپ

راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اب ہم نے پارلیمانی نظام کا حصہ نہ رہنے اور اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت جلد استعفوں کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے آج راولپنڈی میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے جلسہ فیض آباد پر ہونا تھا انتظامیہ کی ہدایت پر پی ٹی آئی نے جلسہ گاہ کا مقام تبدیل کرکے رحمن آباد کیا گیا۔

عمران خان کی جلسہ گاہ آمد پر سینیٹر فیصل جاوید آبدیدہ ہوئے اور انہوں نے جذباتی انداز سے عمران خان کو خراج تحسین پیش کیا، جبکہ اس موقع پر اسٹیج سے ’ہم لے کر رہیں گے آزادی کے نعرے لگائے گئے‘۔ پنڈال میں موجود شرکا نے نعروں کا بھرپور جواب دیا۔

مجھ پر حملہ کرنے والے آج بھی عہدوں پر بیٹھے ہیں، عمران خان
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ لاہور سے نکلا تو لوگوں نے ڈرانے کی کوشش کی مگر میں نے صاف انکار کردیا کیونکہ موت کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں، زخمی ہونے کے بعد جب کنٹینر پر گرا تو گولیاں اوپر سے گزریں مگر اندازہ ہوگیا تھا کہ اللہ نے مجھے زندگی دی جس پر میں نے رب کا شکر ادا کیا، مجھے مکمل صحت یاب ہونے میں تین ماہ لگیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ مجھ پر حملہ کروانے والے تینوں افراد آج بھی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، عزت، موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، اسی وجہ سے آج میں یہاں ہوں اور آپ بھی اتنی بڑی تعداد میں نکلے، ماضی میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں کسی وزیراعظم یا رہنما کیلیے لوگ باہر نہیں نکلے‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’مجھے موت کی فکر نہیں تھی البتہ پیر کا مسئلہ تھا کیونکہ چہل قدمی میں بہت زیادہ پریشانی ہے، انہوں نے 7 ماہ میں میری کردار کشی کر کے رسوا کرنے کی کوشش کی مگر قوم نے اتنی بڑی تعداد میں نکلا جس کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے‘۔

عمران خان نے کہا کہ عظیم قوم بننے کے لیے موت کا خوف ختم کرنا ہوگا کیونکہ یہ خوف انسان کو چھوٹا اور غلام بنادیتا ہے اور پھر انسان اُسی راہ پر چل پڑتا ہے جس کے بعد عظیم بننا ناممکن ہوجاتا ہے.

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’خوشحال ممالک میں عدالتیں انصاف کرتی ہیں، غریب ملکوں میں صرف چھوٹا چور جیل جاتا ہے، مدینہ کی ریاست میں عدل وانصاف اور قانون کی حکمرانی تھی، پاکستان میں ہمیشہ طاقت کے بل بوتے پر فیصلے ہوتے رہے، ہمارے ملک میں کبھی بھی قانون کی حکمرانی نہیں آئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’2خاندانوں نے 30 سال ملک پر حکومت کی لیکن اداروں کو مضبوط نہیں کیا، دونوں خاندانوں نے اپنی کرپشن کیلئے اداروں کو کمزور کیا، انہیں پتہ تھا ادارے مضبوط ہوئے تو یہ کرپشن نہیں کرپائیں گے، کیا مجھ پر کرپشن کا الزام تھا جو ہماری حکومت گرائی گئی، ہماری حکومت کو سازش کے تحت ہٹایا گیا، 2018میں انہوں نے ملک کا دیوالیہ نکالا، ہم نے ملک سنبھالا تو بیرون ملک جا کر دوست ممالک سے پیسے لئے،

دوست ممالک سے پیسے مانگنے میں شرم محسوس ہوتی تھی، ملک سنبھالا تو کورونا آگیا جس نے دنیا میں تباہی مچائی‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’ہمارے دورِ حکومت میں ایکسپورٹ بڑھی، کسان خوش حال ہوئے، ٹیکس کی ریکارڈ وصولیاں ہوئیں، ملک بہتری کی جانب گامزن تھا تو پھر بیرونی سازش سے ہمیں اقتدار سے کیوں ہٹایا گیا؟۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میری ایک غلطی تھی کہ حکومت میں رہنے کے باوجود کرپٹ لوگوں کو سزا نہیں دلوا سکا کیونکہ نیب میرے ماتحت نہیں بلکہ کسی اور کے حکم پر چلتا تھا، مجھے ہمیشہ کہا جاتا تھا کہ آپ معیشت پر دھیان دیں اور کرپشن کو چھوڑیں جبکہ نیب کے افسران بھی کیسز تیار ہونے کے باوجود کہتے تھے کہ ہمیں حکم نہیں مل رہا جو کارروائی کی جائے، بڑے اور طاقتور لوگوں کو کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں اس لیے وہ سازش کر کے انہیں حکومت میں لے آئے۔

عمران خان نے کہا کہ ’سائفر والی بات کو ڈرامہ کہنے والے بیرونی سازش میں ملوث ہیں، اسد مجید نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیا کہا اور اُس سائفر میں کیا لکھا تھا، یہ جھوٹ نہیں اور نہ عمران خان کی توہین ہے بلکہ یہ ملک کی تضحیک ہے، 7 مہینے میں انہوں نے ملک کادیوالیہ نکال دیا‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر انہوں نے سازش نہیں بھی کی تھی تو ان کا راستہ نہیں روکا گیا، جن کے پاس طاقت تھی وہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے، مجھے یہ بھی کہا گیا کہ نیب کا قانون بدل دیں‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’سازش کے بعد ہمارے اوپر ظلم کیا گیا، کارکنان کے گھروں میں چھاپے مارے گئے، ہماری خاتون رہنما کو رات تین بجے گھر سے لے گئے، صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ارشد شریف کے ساتھ جو ہوا یہ ظلم پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’یہ ظلم خوف پھیلانے کیلیے کیا گیا تاکہ عمران خان کا بیانیہ عوام تک نہ پہنچ سکے، پھر انہوں نے سوشل میڈیا کے بچوں کو بھی اٹھایا اور برہنہ کر کے تشدد کیا اور ہدایت کی کہ اگر کبھی دوبارہ عمران خان کیلیے لکھا تو تمھیں لاپتہ کردیں گے‘۔

جس گولی سے معظم کی ہلاکت ہوئی، وہ شوٹر کو مارنے کے لیے تھی،عمران خان
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وزیرآباد میں شہید ہونے والے نوجوان معظم کو شوٹر نے گولی نہیں ماری کی بلکہ اس کو مارنے والی گولی کسی اور سمت سے آئی، جس گولی سے معظم کی ہلاکت ہوئی، وہ شوٹر کی مارنے کے لیے تھی۔

’انصاف کی بالادستی قائم کرنی اور اداروں کو آئینی حدود میں رہنا ہوگا‘
’جب تک انصاف کی بالادستی نہیں ہوگی اور ادارے تمام اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تب تک ملک کی ترقی ناممکن ہے، یہ تنقید نہیں بلکہ تعمیری بات ہے جس سے پاکستان ترقی کی جانب سفر کرسکتا ہے‘۔

’ملک میں انصاف ہوگا تو قبضہ گروپ ختم ہوجائیں گے‘
عمران خان نے کہا کہ ملک میں انصاف کیلیے غلامی کی زنجیریں توڑنی ہوگیں، جب انصاف قائم ہوگا تو ملک میں سارے مافیاز اور قبضہ گروپ خود ختم ہوجائیں گے۔

’75 فیصد پاکستانی نئے الیکشن چاہتے ہیں‘
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ گیلپ سروے کے مطابق 75 فیصد پاکستانی نئے انتخابات چاہتے ہیں، سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آئے گا، ہم یہاں اداروں اور حکومت پر دباؤ ڈالنے آئے تھے، چوروں کے ٹولے کو بھی معلوم ہے کہ الیکشن کے علاوہ ملک کو دلدل سے نکالنے کا کوئی حل نہیں مگر لندن میں بیٹھا ہوا شخص انتخابات سے خوفزدہ ہے کیونکہ اُسے اور زرداری کو شکست کا خوف ہے اور انہیں پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اُن کے اربوں روپے بیرون ملک میں پڑے ہوئے ہیں۔

’الیکشن اگر 9 ماہ بعد ہوئے تب بھی ہم ہی جیتیں گے‘
میں آج اداروں اور کرپٹ ٹولے کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا واحد حل الیکشن ہے کیونکہ اگر ہم بینک کرپٹ کی طرف گئے تو قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ماضی میں ہم سویت یونین کا حل دیکھ چکے ہیں۔

’انتشار کیوجہ سے اسلام آباد نہیں جانا چاہتا‘
’میں نے ہمیشہ آئین و قانون کے تحت ہی سیاست کی، اگر اسلام آباد کی طرف گئے تو لاکھوں لوگوں کو پولیس یا کوئی بھی نہیں روک سکتا اور میری کوشش ہے کہ توڑ پھوڑ نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں گیم سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا، اس سے پہلے 25 مارچ کو بھی اسلام آباد جانے کا فیصلہ ملتوی کیا کہ خون خرابے کا خدشہ ہے‘۔

’ہم نے کرپٹ پارلیمانی نظام کا حصہ نہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ہم نے اس کرپٹ نظام کا حصہ نہ رہنے اور اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت میں جلد وزرائے اعلیٰ اور اراکین سے ملاقات کر کے استعفے دینے کا اعلان کروں گا‘۔

رانا ثنا اللہ کہاں ہو سامنے آؤ، شیخ رشید
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ آج یہاں عوام کا ایک سمندر دیکھ رہا ہوں جو آپ کو اٹھاکر لے جائے گا، میں نے آٹھ ماہ تک اپنی زبان بند رکھی، فوج بھی میری ہے اور عدلیہ بھی میری ہے مجھے پاک فوج پر فخر ہے، رانا ثنا اللہ کہاں ہو سامنے آؤ۔

انہوں ںے کہا کہ ملک کی معیشت تباہ ہوگئی ہے، اسحاق ڈار غلط بیانی کررہے ہیں ملکی معیشت ڈوب رہی ہے، سامراج کے غلاموں کے آنے سے ملک تباہ ہوگیا، جب معیشت تباہ ہوجاتی ہے تو ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، آج والدین کے پاس بچوں کے اسکولوں کی فیسیں دینے کے لیے پیسے نہیں، مہنگائی کی وجہ سے لوگ آج بل ادا نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ چوروں کے گینگ سے ہماری لڑائی ہے، ایک ایک ایم این اے کی قیمت لگاکر عمران خان کی حکومت گرائی گئی، فوج کا سیاست سے دور رہنا خوش آئند ہے۔

جلسے سے پی ٹی آئی رہنماؤں فواد چوہدری، یاسمین راشد، زرتاج گل اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی شرکا سے خطاب کیا اور شرکت پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔
علی وقار محمد وارث عبدالقدیر 786 عبدالقیوم چوہدری سیما علی نوید احمَد محمد عبدالرؤوف سید عاطف علی سید عمران الف نظامی
 
’ہم نے کرپٹ پارلیمانی نظام کا حصہ نہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ہم نے اس کرپٹ نظام کا حصہ نہ رہنے اور اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت میں جلد وزرائے اعلیٰ اور اراکین سے ملاقات کر کے استعفے دینے کا اعلان کروں گا‘۔
اگر عمران خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کردیں گے تو گورنر راج لگ سکتا ہے اِس صورت میں بھی عمران خان صاحب کو ہی نقصان ہوگا۔
 

علی وقار

محفلین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ حقیقی آزادی مارچ انتخابات کی تاریخ لینے، مسلط شدہ حکومت سے نجات اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ یہ مارچ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گیا۔ حسب توقع، ایک بڑا فیصلہ، یعنی کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا، کر لیا گیا ہے تاکہ مارچ کے اصل مقاصد سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ کوئی جماعت پاکستان میں لانگ مارچ کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پاتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ خوش آئند ہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر عمران خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کردیں گے تو گورنر راج لگ سکتا ہے اِس صورت میں بھی عمران خان صاحب کو ہی نقصان ہوگا۔
۱۸ ویں ترمیم کے بعد گورنر راج لگانے کیلئے اسمبلیوں سے منظوری لازمی ہے۔ جب اسمبلیاں ہی تحلیل ہو چکی ہوگی تو گورنر راج لگانے کیلئے اسمبلی کی منظوری کہاں سے آئے گی؟
 

جاسم محمد

محفلین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ حقیقی آزادی مارچ انتخابات کی تاریخ لینے، مسلط شدہ حکومت سے نجات اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ یہ مارچ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گیا۔ حسب توقع، ایک بڑا فیصلہ، یعنی کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا، کر لیا گیا ہے تاکہ مارچ کے اصل مقاصد سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ کوئی جماعت پاکستان میں لانگ مارچ کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پاتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ خوش آئند ہی ہے۔
یہ خوش آئین بات نہیں ہے۔ ایوب دور میں عوامی احتجاج سے اسکی حکومت ختم ہوئی تھی۔ بھٹو دور میں اسکے خلاف عوامی احتجاج اتنا بڑھا کہ جنرل ضیا کو مارشل لا لگانا پڑا۔ اسی طرح نواز کی پہلی اور بینظیر کی دوسری حکومت عوامی مارچز کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان نے ختم کی۔
اب چونکہ صدر پاکستان سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار لے لیا گیا ہے اور فوج کا مارشل لا لگانا آئین سے غداری کا جرم بنا دیا گیا ہے۔ یوں اب اگر ۲۲ کروڑ پاکستانی بھی احتجاج کیلئے سڑکوں پر آجائیں تو بھی حکومت آئینی طور پر ٹس سے مس نہیں ہو سکتی۔ یہ آئینی سویلین ڈکٹیٹرشپ پاکستانی جمہوریت کیلئے کوئی اچھی بات تو نہیں ہے کہ عوام کی اکثریت ایک طرف کھڑی ہو اور مسلط حکومت دوسری طرف۔ پھر بھی مسلط شدہ حکومت کا پلڑا بھاری رہے جب تک وہ خود نئے الیکشن نہ کروائے۔
 
آخری تدوین:
یہ خوش آئین بات نہیں ہے۔ ایوب دور میں عوامی احتجاج سے اسکی حکومت ختم ہوئی تھی۔ بھٹو دور میں اسکے خلاف عوامی احتجاج اتنا بڑھا کہ جنرل ضیا کو مارشل لا لگانا پڑا۔ اسی طرح نواز کی پہلی اور بینظیر کی دوسری حکومت عوامی مارچز کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان نے ختم کی۔
اب چونکہ صدر پاکستان سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار لے لیا گیا ہے اور فوج کا مارشل لا لگانا آئین سے غداری کا جرم بنا دیا گیا ہے۔ یوں اب اگر ۲۲ کروڑ پاکستانی بھی احتجاج کیلئے سڑکوں پر آجائیں تو بھی حکومت آئینی طور پر ٹس سے مس نہیں ہو سکتی۔ یہ آئینی سویلین ڈکٹیٹرشپ پاکستانی جمہوریت کیلئے کوئی اچھی بات تو نہیں ہے کہ عوام کی اکثریت ایک طرف کھڑی ہو اور مسلط حکومت دوسری طرف۔ پھر بھی مسلط شدہ حکومت کا پلڑا بھاری رہے جب تک وہ خود نئے الیکشن نہ کروائے۔
بس انتظار کریں عوام کے منتخب نمائندہ آنے کے لئے
یہ حکومت تو اسمبلیاں تحلیل کرنے سے وجود میں آئی ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
بس انتظار کریں عوام کے منتخب نمائندہ آنے کے لئے
یہ حکومت تو اسمبلیاں تحلیل کرنے سے وجود میں آئی ہے ۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ تو عدالت عظمی میں ریورس ہو گیا۔ اب دیکھتے ہیں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ عدالتوں میں ریورس ہوتا ہے یا نہیں
 

جاسم محمد

محفلین
بائیس کروڑ اور بائیس ہزار میں فرق ہوتا ہے۔ :)
او کہہ ہویا پائین۔۔۔۔۔ دو چار صفرے ای گھٹ نے نا۔۔۔ تسی من گھنو۔
تعداد سے فرق نہیں پڑتا۔ آئین پاکستان میں کہیں نہیں لکھا کہ اتنے بندے سڑکوں پر آگئے تو حکومت دباؤ میں آکر گر جائے گی۔ یا جس بارہ میں عوام احتجاج کر رہے ہیں اسے پارلیمان میں موضوع بحث بنائے گی۔ سوئٹزرلینڈ و دیگر جمہوری ممالک میں عوامی احتجاج پر پارلیمان و حکومت حرکت میں آتی ہے۔ ادھر پاکستان میں یہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ ہاں اگر جی ایچ کیو یا آبپارہ سے کسی معاملہ پر احتجاج ہو تو پارلیمان و حکومت فورا حرکت میں آجاتی ہے 😉
 

الف نظامی

لائبریرین
جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا

اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے نقطہ نگاہ سے سوال بس ایک ہی رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا عمران خان کے پاس مولانا کو بے اثر کرنے کا کوئی گر ہے ؟
تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عمران خان کا سب سے طاقتور ہتھیار نیب ہے۔ اور یہی ہتھیار مولانا کے خلاف مکمل بے کار ہے۔

عمران خان آٹھ سال تک مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہتے رہے مگر انہیں وزیر اعظم بنے ڈھائی سال ہوگئے اور ہم نے اب تک عمران خان کی جانب سے مولانا پر ڈیزل کا کوئی کیس قائم ہوتے نہیں دیکھا۔
وہ سب کو نیب سے رگڑا لگوا چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف کوئی ڈیزل کیس شروع نہ کرسکے ؟


صاف عیاں ہے کہ مولانا کے خلاف ان کے تمام الزامات بے بنیاد تھے۔ آج وزیر اعظم ہونے کے باوجود وہ ان پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت کرنا تو درکنار مقدمہ تک قائم کرنے میں ناکام ہیں۔

اس اخلاقی برتری کے ہوتے مولانا فضل الرحمن کو عمران خان سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ عمران خان کو مولانا سے لاحق ہے۔
 
Top