عمران خان کی جعلی اسمبلی میں واپسی

تاریخ: 6 اپریل ، 2015
عمران خان کی جعلی اسمبلی میں واپسی
تحریر: سید انور محمود

پندرہ ستمبر 2014ءکو کنٹینر پر کھڑئے ہوکردھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان فرمارہے تھے، ’’ایاز صادق سن لو! تم ہمارے استعفے منظور نہ کر کے آئین اور اپنے حلف دونوں کی خلاف ورزی کررہے ہو۔ ہم استعفے دے چکے ہیں اور اس جعلی قومی اسمبلی کو ریجیکٹ کرچکے ہیں۔ تم کسی صورت اب ہمارے انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتے۔ ہمارا اس جعلی مینڈیٹ والی قومی اسمبلی سے اب کوئی تعلق نہیں رہا۔ جعلی الیکشن کمیشن اور دو نمبر پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں‘‘۔

پانچ اپریل 2015ء کوتحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان فرمارہے تھے کہ”کل سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے، جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہو گیا، اب دھاندلی کے خلاف کمیشن میں، سڑکوں پر اور اسمبلی میں بھی آواز بلند کریں گے’’۔ عمران خان جو ان اسمبلیوں کوجعلی مینڈیٹ والی اسمبلی کہکر ریجیکٹ کرچکےتھے حسب دستور ایک اوریو ٹرن لیکر اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی خان صاحب نے اپنے ایمان کی تجدید فرماتے ہوئے کہا کہ ” میرا ایمان ہے کہ 2015ء انتخابات کا سال ہو گا”۔

فیس بک کے پیج پر میرئے ایک دوست ہیں جن کا اصل نام جو بھی ہو مگر وہ فیس بک پر اپنے آپ کو مجنوں دیوانہ کہتے ہیں، سیاسی سوجھ بوجھ کافی ہے اس لیے کبھی کبھی اُنکی سیاسی تحریریں دراصل اُنکی سیاسی پیشنگویاں بن جاتی ہیں، میں اکثر اُنکی تحریوں کو اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہوں، ویسے تو نظر آرہا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ جلد ہی یوٹرن لینگے اور واپس جعلی اور بدعنوانوں کی اسمبلی میں پہنچ جاینگے لیکن مجنوں تو اس پر پہلے ہی ایک کہانی لکھ چکے تھے۔ 6 اپریل کو عمران خان سات ماہ بعد اسمبلی میں جاینگے، کیسے؟ آیئے مجنوں دیوانے کی کہانی پڑھیں:
"شیدے کی زنانی کسی مرونڈا بیچنے والےکے ساتھ بھاگ گئی۔ برادری اور پنڈکے چوہدری کی کوششوں سے ایک مہینے بعد واپس آگئی۔ واپس آنے کے بعد کئی دن تک شرم کے مارے گھر سے نہ نکلی۔ دوپہر کے وقت محلے کی عورتیں گلی میں چارپائیاں ڈال کر دو دو، چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھی شام تک سلائی کڑھائی یا دوسرے چھوٹے موٹے کام کاج کرتی رہتی تھیں اور ساتھ ساتھ پنڈ کے حالات حاضرہ پر تبصرے تجئزئیے اور سسرال والوں کی بدخوئیوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ شیدے کی زنانی کئی دن تک "باعزت" طریقے سے گھر سے نکلنے کی ترکیبیں سوچتی رہی لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے گلی کے پارلیمنٹ ہاؤس میں انٹری دے سکے۔ ایک دن دوپہر کے وقت جب گلی کی محفلیں بام عروج پر تھیں وہ گھر سے نکلی ۔ سب عورتوں کی نظر اس کی جانب اٹھیں، اس نے بھی تمام عورتوں پر بڑے غور سے نظر ڈالی اور پھر بلند آواز میں بولی ‘سناؤ بے غیرت پنڈ والیو، ہور کی حال ہے تم سب کا؟’ بے غیرت پنڈ والیاں ہکابکا اس کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں"۔

اگست 2014ء سے دسمبر 2014ء تک عمران خان کا سارا احتجاج یا اسلام آباد میں دھرنا انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سےتھا لیکن یہ بات تو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے 11مئی 2013ء کو ہی کہہ دی تھی مگر ان انتخابات میں ایک اور دھاندلی بھی ہوئی جو شاید عمران خان کے نزدیک دھاندلی نہ ہو اور عمران خان نے کبھی غلطی سے یا اخلاقی طور پر اس کا ذکر نہیں کیا۔2013ء کے انتخابات سے قبل طالبان کی دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، طالبان دہشتگردوں نے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو یہ دھمکی دی تھی کہ وہ الیکشن کی مہم نہ چلایں ورنہ اُن پر حملہ ہوگا اور ایسا ہوا بھی، اُن جماعتوں میں تین بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور اے این پی شامل تھیں، طالبان نے اپنی دھمکیوں پر عمل بھی کیاتو ان سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم بند کردی۔ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام کے دونوں گروپ ف اور س کو انتخابی مہم چلانے کی کھلی چھٹی تھی کیونکہ عمران خان ، نواز شریف، منور حسن، فضل الرحمان اور سمیع الحق یہ سب اور اُنکی جماعتیں طالبان دہشت گردوں کے حامی تھے اور ہیں۔ دھاندلی شدہ 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف کی کامیابی یقینا جعلی ہےتو پھر عمران خان کی قومی اسمبلی میں حاصل ہونے والی سیٹیں بھی دھاندلی کی پیداوار ہیں، اُنکی کےپی کے کی حکومت بھی جعلی ہے کیونکہ یہ سب دہشتگردوں کی مدد سے حاصل ہوا ہے۔عمران خان کو یہ تو معلوم ہوگا جب دو مقابل پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کی ایک جیسی آزادی نہ ہو تو اسے بھی دھاندلی کہتے ہیں۔

اصول کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں ، سارا میڈیا عمران خان کے اُن بیانات کو ہائی لائٹ کررہا ہے جبکہ اے این پی کے ذاہد خان عمران خان سے سوال کررہے کہ 126 دن کنٹینر پر کھڑئے ہوکر اس اسمبلی کو بوگس اور اس میں بیٹھنے والے ممبران کو بدعنوان کہنے والے عمران خان کا بدعنوانوں کی اس بوگس اسمبلی میں کیا کام؟ بقول ذاہد خان عمران خان اور اُنکے ساتھی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے۔ استعفی دینے کے بعد اسپیکر صرف آپ کے دستخط کی تصدیق کرتا ہے وہ یہ نہیں پوچھتا کہ آپ استعفی دینا چاھتے ہیں یا نہیں۔ چلیے قومی اور پنجاب اسمبلی میں تو آپکے استعفی منظور نہیں ہوئے مگر سندھ اسمبلی کے اسپیکر نے تو واضع طور پر تحریک انصاف کے ممبران کے استعفی قبول کرلیے تھے اور اسمبلی میں اسکا اعلان بھی کیا تھا، لازمی طور پر اُسکا نوٹیفیکیشن بھی نکلا ہوگا تو پھر پی ٹی آئی کے سابق ممبران سندھ اسمبلی کو کسطرح سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت ملے گی۔ انصاف کی دہائی دینے والے عمران خان کیا یہ بتانا پسند کرینگے کہ کل جب اُن کے ممبران سندھ اسمبلی میں شرکت کرینگے تو کیا اُنکی شرکت جائز ہوگی۔

عمران خان سوائے خیبر پختونخوا کے ملک کی باقی تمام اسمبلیوں کو جعلی کہتے رہے ہیں، اُنکے نزدیک صرف خیبر پختونخوا کی اسمبلی ہی حلال تھی کیونکہ وہاں اُنکی اپنی پارٹی کی حکومت تھی۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے معاملے میں اُنکی پارٹی میں شدید اختلاف تھے، تحریک انصاف کے پانچ ارکان نے کھل کر پارٹی لیڈرشپ کے فیصلے سے اختلاف کیا اورقومی اسمبلی کے تمام اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے، پانچ میں سےتین ارکان کو پارٹی سے نکال دیا گیا لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ ‘عوام نے ہمیں اسمبلیوں میں جاکر عوامی مسائل حل کرنے کےلیے منتخب کیا ہے، دھرنوں کی سیاست کےلیے نہیں’۔ اب جب عمران خان اور اُنکے ساتھی استعفے دینے کے باوجوداُسی جعلی قومی اسمبلی میں جسکووہ ریجیکٹ کرچکےہیں اُس میں جاینگے تو وہاں موجود ممبران سےوہ کیا کہنگے، کیا وہ شیدئے کی زنانی کی طرح سب کو مخاطب کرکے کہنگے کہ "سناؤ جعلی مینڈیٹ والی قومی اسمبلی کے ممبران، ہور کی حال ہے تم سب کا؟، دیکھو یہ ہوتی ہے تبدیلی اور اس کو کہتے ہیں انقلاب، ہم بھی واپس آگے ہیں جعلی اسمبلی میں"۔
 

آوازِ دوست

محفلین
انورمحمود صاحب کیا خوب لکھا ہے آپ نے۔ میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو، ہمارے سیاستدانوں کا وطیرہ ہے۔ بہرحال خان صاحب نے پاکستانی سیاست کے مردہ جمود کو توڑا ہے اور جب تک اِن سے بہتر قیادت سامنے نہیں آتی اِن کا دم بھی غنیمت ہے حکمرانوں کو اِن کی تنقید کا خوف تو رہتا ہے۔ باقی ہم ایسے کم نصیبوں کو آئیڈیل کہاں ملتے ہیں۔
 
پیسہ اورشادی بڑوں بڑوں کو پگھلادیتی ہے۔:D
یہ سب باتیں شادی سےپہلے تھی اب کی بات کچھ اورہے۔
بھابی کوبھی توخرچی دینی ہوتی ہے، کچھ توخیال کرو! :)
 
اسمبلی میں نا محرم اور اجنبی لوگ آیے ہویے ہیں :p
ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی
اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں، یہ سیاست دان ہی ایک دوسرے کو نہیں بخشتے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عمران کا مؤقف کل بھی درست تھا اور آج بھی درست ہے ۔
عمران کا موقف تو درست ہی تھا ۔۔۔۔ لیکن درست موقف اب چونکہ غلط اسمبلی میں چلا گیا ہے اس لیے ”ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شد“ کی مصداق یہ درست موقف بھی غلط ہو گیا ہے
:rollingonthefloor:
 

آبی ٹوکول

محفلین
عمران کا موقف تو درست ہی تھا ۔۔۔۔ لیکن درست موقف اب چونکہ غلط اسمبلی میں چلا گیا ہے اس لیے ”ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شد“ کی مصداق یہ درست موقف بھی غلط ہو گیا ہے
:rollingonthefloor:
استاد محترم اسمبلی کل بھی غلط تھی آج بھی غلط ہے ;)
 

فاتح

لائبریرین
کسی دوست نے پوچھا ہے کہ اب ایاز صادق صاحب کو اسمبلی میں عمران خان حسبِ سابق "اوئے ایاز صادق" کہہ کر بلائیں گے یا "جنابِ سپیکر"؟؟؟
 
آخری تدوین:

آبی ٹوکول

محفلین
کسی دوست نے پوچھا ہے کہ اب ایاز صادق صاحب کو اسمبلی میں عمران خان حسبِ سابق "اوئے ایاز صادق" کہہ کر بلائیں گے یا "جنابِ سپیکر"؟؟؟
" جناب سپیکر " اور اسمبلی کے باہر عمومی پاکستانی سیاسی زبان میں " اوئے ایازیااااااااااااااااا "جیسے کہ شریف برادران جب جلسے جلوسوں میں تقاریر کرتے ہیں تو زرداری کو علی بابا اور چالیس چور اور پتا نہیں کون کونسے چوکوں چوراہوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے ہیں اور پھر اسے جوش خطابت کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے اور پھر جیسے جیسے ہی زرداری صاحب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کے لیے ستر قسم کے پکوان بنا کر اسکی ذاتی " ڈرائیوری " کی خدمات بھی انجام دیتے ہیں آخر کو عمران بھی اسی قوم اور اسی معاشرے کا فرد ہے کوئی حاجی ثناء اللہ تو نہیں
 
شیدے کی زنانی کسی مرونڈا بیچنے والےکے ساتھ بھاگ گئی۔ برادری اور پنڈکے چوہدری کی کوششوں سے ایک مہینے بعد واپس آگئی۔ واپس آنے کے بعد کئی دن تک شرم کے مارے گھر سے نہ نکلی۔ دوپہر کے وقت محلے کی عورتیں گلی میں چارپائیاں ڈال کر دو دو، چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھی شام تک سلائی کڑھائی یا دوسرے چھوٹے موٹے کام کاج کرتی رہتی تھیں اور ساتھ ساتھ پنڈ کے حالات حاضرہ پر تبصرے تجئزئیے اور سسرال والوں کی بدخوئیوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ شیدے کی زنانی کئی دن تک "باعزت" طریقے سے گھر سے نکلنے کی ترکیبیں سوچتی رہی لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے گلی کے پارلیمنٹ ہاؤس میں انٹری دے سکے۔ ایک دن دوپہر کے وقت جب گلی کی محفلیں بام عروج پر تھیں وہ گھر سے نکلی ۔ سب عورتوں کی نظر اس کی جانب اٹھیں، اس نے بھی تمام عورتوں پر بڑے غور سے نظر ڈالی اور پھر بلند آواز میں بولی ‘سناؤ بے غیرت پنڈ والیو، ہور کی حال ہے تم سب کا؟’ بے غیرت پنڈ والیاں ہکابکا اس کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں"۔

سوری مجھے اس مثال سے تکلیف ہوئی
 

شاکرالقادری

لائبریرین
استاد محترم اسمبلی کل بھی غلط تھی آج بھی غلط ہے ;)
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اسمبلی کل بھی غلط تھی اور آج بھی غلط ہے یہ بتا کر آپ نے ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں فرمایا۔۔۔۔۔۔ نئی بات تو یہ ہے کہ کل جو موقف درست تھا آج وہ غلط ہوگیا ;)
 

آبی ٹوکول

محفلین
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اسمبلی کل بھی غلط تھی اور آج بھی غلط ہے یہ بتا کر آپ نے ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں فرمایا۔۔۔۔۔۔ نئی بات تو یہ ہے کہ کل جو موقف درست تھا آج وہ غلط ہوگیا ;)
موقف کل بھی درست تھا اور آج بھی درست ہے اپنی اپنی جگہ
 

فاتح

لائبریرین
" جناب سپیکر " اور اسمبلی کے باہر عمومی پاکستانی سیاسی زبان میں " اوئے ایازیااااااااااااااااا "جیسے کہ شریف برادران جب جلسے جلوسوں میں تقاریر کرتے ہیں تو زرداری کو علی بابا اور چالیس چور اور پتا نہیں کون کونسے چوکوں چوراہوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے ہیں اور پھر اسے جوش خطابت کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے اور پھر جیسے جیسے ہی زرداری صاحب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کے لیے ستر قسم کے پکوان بنا کر اسکی ذاتی " ڈرائیوری " کی خدمات بھی انجام دیتے ہیں آخر کو عمران بھی اسی قوم اور اسی معاشرے کا فرد ہے کوئی حاجی ثناء اللہ تو نہیں
یعنی آپ کے بقول زرداری، نواز اور عمران میں کوئی فرق نہیں۔
یہ تو بات ہی ختم کر دی آپ نے کہ اب بحث کس بات پر کی جائے۔ ہمارا اور آپ کا موقف ایک ہی ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
یعنی آپ کے بقول زرداری، نواز اور عمران میں کوئی فرق نہیں۔
یہ تو بات ہی ختم کر دی آپ نے کہ اب بحث کس بات پر کی جائے۔ ہمارا اور آپ کا موقف ایک ہی ہے۔
نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی عجیب قوم ہیں جو لوگ عمران سے بدرجہا بدتر ہیں اور جنکے کالے کارنامے اظہر من الشمس اور جو اس سسٹم پر ناگ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اس نظام کو جنھوں نے اپنے " کرپشنی ملی بگھت " کے پنجوں سے " کیپچر " کررکھا ہے جو کسی کو بھی اس سسٹم کوچیلنج کرتا دیکھ کر باہم شیرو شکر ہوجاتے ہیں جبکہ عامۃالناس کو دکھانے کے لیے بصورت نورا کشتی ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں نظر آنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں طرفہ تماشا یہ ہے کہ انکو محض روایتی سیاستدان کہہ کر ان سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے ۔
جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان جو انکے پاسکو بھی نہیں اسکو محض اس چیز کی سزا دی جاتی ہے کہ اس نے اس نظام کو تبدیل کرنے کا نعرہ ہی اولا کیوں لگایا اور ثانیا جب لگا ہی دیا تواب وہ کوئی جزوی اختلاف یا اتفاق بھی ان لوگوں سے کیوں کرتا ہے ؟؟؟؟لہذا جب کرتا ہی ہے تو اب ہر دوصورتوں میں اسے مطعون کیا جانا ہر اہم فرض سے اہم ہے کیونکہ یہ اس کا گناہ عظیم ہے کہ تبدیلی کی بات کرکے پھر جزوی اختلاف یا اتفاق کرتا ہے لہذا وہ کسی رو رعایت کا مستحق نہیں
 

فاتح

لائبریرین
نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی عجیب قوم ہیں جو لوگ عمران سے بدرجہا بدتر ہیں اور جنکے کالے کارنامے اظہر من الشمس اور جو اس سسٹم پر ناگ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اس نظام کو جنھوں نے اپنے " کرپشنی ملی بگھت " کے پنجوں سے " کیپچر " کررکھا ہے جو کسی کو بھی اس سسٹم کوچیلنج کرتا دیکھ کر باہم شیرو شکر ہوجاتے ہیں جبکہ عامۃالناس کو دکھانے کے لیے بصورت نورا کشتی ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں نظر آنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں طرفہ تماشا یہ ہے کہ انکو محض روایتی سیاستدان کہہ کر ان سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے ۔
جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان جو انکے پاسکو بھی نہیں اسکو محض اس چیز کی سزا دی جاتی ہے کہ اس نے اس نظام کو تبدیل کرنے کا نعرہ ہی اولا کیوں لگایا اور ثانیا جب لگا ہی دیا تواب وہ کوئی جزوی اختلاف یا اتفاق بھی ان لوگوں سے کیوں کرتا ہے ؟؟؟؟لہذا جب کرتا ہی ہے تو اب ہر دوصورتوں میں اسے مطعون کیا جانا ہر اہم فرض سے اہم ہے کیونکہ یہ اس کا گناہ عظیم ہے کہ تبدیلی کی بات کرکے پھر جزوی اختلاف یا اتفاق کرتا ہے لہذا وہ کسی رو رعایت کا مستحق نہیں
بھائی، مسئلہ یہی ہے کہ عمران کھوکھلے نعرے تو بہت لگاتا ہے لیکن اگلے لمحے یو ٹرن لے کر اپنے کہے سے یوں پھرتا ہے جیسے کبھی کہا ہی نہ ہو۔ کئی ماہ تک لوگوں کو سڑکوں پر ذلیل کرنے کے بعد اب اسی جعلی اسمبلی میں چلا گیا جس کے متعلق وہ وہ کچھ کہا کہ الحفیظ و الامان
 

فاتح

لائبریرین
اس سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی صرف عمران خان کا نام نہیں ہے۔۔۔بیچارے عمران کو کچھ ممبران کے اصرار پر یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔

پی ٹی آئی صرف اور صرف عمران خان کا ہی نام ہے جو کسی دوسرے کی نہیں مانتا اور صرف اپنے آپ کو ہی عقلِ کُل سمجھتا ہے۔۔۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کا خود ساختہ بڈھا لیڈر اور ایسی بازاری زبان اور یو ٹرن پر یو ٹرن ۔۔۔ یہ صرف عمران خان ہی ہو سکتا ہے
 
نظام تبدیل کرنے کا نعرہ صرف عمران نہیں لگاتا ، سارے ہی تبدیلی اور بہتر تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ عمران کی پارٹی میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان وہی لوگ ہیں جو دوسری پارٹیوں میں بڑے عہدوں کا مزا چکھ چکے ہیں۔
تبدیلی اصل میں عوام میں آئی ہے اور اس کی وجہ میڈیا ہے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی خصوصاً جیلیں اور دوسری سخت سزاؤں کا مزا چکھنے اور آپسی بے تحاشہ لڑائیوں کے نتیجے میں فوجی حکومت بھگتنے کے بعد اپنے انتہا پسندانہ سیاسی رویے تبدیل کر چکے ہیں مگر عمران ابھی بھی اسی طرح کی سیاست کررہا ہے جیسی ن لیگ اور پی پی 90 کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف کیا کرتے تھے۔
اگر عمران واقعی کسی مثبت تبدیلی کے سلسلے میں مخلص ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے صوبے میں مثبت تبدیلی لا کر دکھائے اور اپنے سیاسی دعووں میں اپنا اخلاص ثابت کرے۔
 
Top