قیصرانی
لائبریرین
(۱۱)
شام ہی سے آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا!۔۔۔ اس لئے سورج کے غروب ہوتے ہی تاریکی پھیل گئی۔۔۔ اور گیارہ بجے تک یہ عالم ہو گیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔ بادل جم کر رہ گئے تھے! حبس کی وجہ سے لوگوں کا دم نکل رہا تھا! لیکن بارش۔۔۔ بارش کے امکانات نہیں تھے۔
نواب ہاشم کا بھتیجا ساجد مضطربانہ انداز میں ٹہل رہا تھا۔ ابھی ابھی کچھ پولیس والے یہاں سے اٹھ
کر گئے تھے۔ ان میں ایک آدمی محکمہ سراغرسانی کا بھی تھا۔ ساجد کو حیرت تھی کہ آخر ابھی تک اس شخص کو حراست میں کیوں نہیں لیا گیا جو نواب ہاشم ہونے کا دعوٰی کرتا ہے!۔۔۔ اگر وہ سچ مچ نواب ہاشم ہی ہے تو پولیس کو اسے حراست میں لے کر اس لاش کے متعلق استفسار کرنا چاہیے تھا، جو دس سال قبل حویلی میں پائی گئی تھی!۔۔۔
وہ ٹہلتا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا! لیکن اب خود اس کی شخصیت بھی پولیس کے شبے سے بالاتر نہیں تھی۔ نواب ہاشم نے کیپٹن فیاض کے آفس میں بیٹھ کر کھلم کھلا اسے مجرم گردانا تھا۔ کہا تھا ممکن ہے ساجد ہی نے میرے دوست سجاد کو میرے دھوکے میں قتل کر دیا ہو۔
ساجد نے ختم ہوتے ہوئے سگریٹ سے دوسرا سلگایا اور ٹہلتا رہا! دو، دو بجلی کے پنکھے چل رہے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا پھر کیا ہوگا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اگر جرم اس کے خلاف ثابت ہو گیا تو کیا ہوگا اس نے اس شخص کو کوٹھی میں جگہ دے کر سخت غلطی کی ہے۔۔۔ اور اب نہ جانے کیوں محکمہ سراغرسانی والے اس بات پر مصر ہیں کہ اسے کوٹھی میں ٹھہرنے دیا جائے؟ کیا وہ خود کہیں چلا جائے۔۔۔ مگر اس سے کیا ہوگا۔۔۔ اس طرح اس کی گردن اور زیادہ پھنس جائے گی!"
ساجد تھک کر بیٹھ گیا!۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے بعض اوقات تو اس کا دل چاہتا تھا کہ سچ مچ ایک قتل کا الزام اپنے سر پر لے لے! اس پراسرار آدمی کا گلا گھونٹ دے، جو اس کی جان و مال کا خواہاں ہے۔۔۔ سگرٹ پھینک کر وہ جوتوں سمیت صوفے پر دراز ہو گیا۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں!۔۔۔ یونہی۔۔۔! نیند ایسے میں کہاں؟ آنکھیں بند کرکے وہ اپنے تھکے ہوئے ذہن کو تھوڑا سا سکون دینا چاہتا تھا!۔ اچانک اس نے ایک عجیب قسم کا شور سنا!۔۔۔ اور بوکھلا کر برآمدے میں نکل آیا۔۔۔ لیکن اتنی دیر میں پھر پہلے ہی کی طرح سناٹا چھا چکا تھا!۔۔۔ البتہ اس کے دو تین کتے ضرور بہت ہی ڈھیلی ڈھالی آوازوں میں بھونک رہے تھے! ساجد سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ کس قسم کا شور تھا!۔
ساجد کا دل بہت شدت سے دھڑک رہا تھا! وہ چند لمحے برآمدے میں بے حس و حرکت کھڑا اندھیرے میں آنکھیں پھاڑتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ اس کا واہمہ نہ رہا ہو! پریشان دماغ اکثر غنودگی کے عالم میں اس طرح کے دھوکے دیتا ہے! پھر وہ واپسی کے لئے مڑ رہی رہا تھا کہ سارا پائیں باغ اسی قسم کے شور سے گونج اٹھا۔ بالکل ایسا معلوم ہوا جیسے بیک وقت ہزاروں آدمی چیخ کر خاموش ہو گئے ہوں! کتوں نے پھر بھونکنا شروع کردیا! اور اب ساجد کئی بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں بھی سن رہا تھا۔
دو نوکر بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئے وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔
"حضور!۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟" ایک نے ہانپتے ہوئے پوچھا!۔۔۔
"میں کیا بتاؤں؟۔۔۔ اندر سے ٹارچیں لاؤ۔ تینوں رائفلیں نکال لاؤ۔۔۔ جلدی کرو!۔۔۔ سارے نوکروں کو اکٹھا کرو۔۔۔ جاؤ!"
اتنے میں ساجد کو نواب ہاشم دکھائی دیا جو سب خوابی کے لبادے میں ملبوس اور ہاتھ میں رائفل لئے برآمدے میں داخل ہو رہا تھا!
"ساجد!" اس نے کہا "کیا تم اب میرے خلاف کوئی نئی حرکت کرنیوالے ہو؟"
"یہی میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں! دوست!" ساجد بھنویں تان کر آنکھیں سکوڑتا ہوا بولا۔ "تم اگر میرے چچا بھی ہو تو اس قسم کی حرکتیں کرکے مجھے سے کوٹھی خالی نہیں کراسکتے!۔۔۔