عمران سیریز نمبر 3

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
(۱۱)​

شام ہی سے آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا!۔۔۔ اس لئے سورج کے غروب ہوتے ہی تاریکی پھیل گئی۔۔۔ اور گیارہ بجے تک یہ عالم ہو گیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔ بادل جم کر رہ گئے تھے! حبس کی وجہ سے لوگوں کا دم نکل رہا تھا! لیکن بارش۔۔۔ بارش کے امکانات نہیں تھے۔

نواب ہاشم کا بھتیجا ساجد مضطربانہ انداز میں ٹہل رہا تھا۔ ابھی ابھی کچھ پولیس والے یہاں سے اٹھ
کر گئے تھے۔ ان میں ایک آدمی محکمہ سراغرسانی کا بھی تھا۔ ساجد کو حیرت تھی کہ آخر ابھی تک اس شخص کو حراست میں کیوں نہیں لیا گیا جو نواب ہاشم ہونے کا دعوٰی کرتا ہے!۔۔۔ اگر وہ سچ مچ نواب ہاشم ہی ہے تو پولیس کو اسے حراست میں لے کر اس لاش کے متعلق استفسار کرنا چاہیے تھا، جو دس سال قبل حویلی میں پائی گئی تھی!۔۔۔

وہ ٹہلتا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا! لیکن اب خود اس کی شخصیت بھی پولیس کے شبے سے بالاتر نہیں تھی۔ نواب ہاشم نے کیپٹن فیاض کے آفس میں بیٹھ کر کھلم کھلا اسے مجرم گردانا تھا۔ کہا تھا ممکن ہے ساجد ہی نے میرے دوست سجاد کو میرے دھوکے میں قتل کر دیا ہو۔

ساجد نے ختم ہوتے ہوئے سگریٹ سے دوسرا سلگایا اور ٹہلتا رہا! دو، دو بجلی کے پنکھے چل رہے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا پھر کیا ہوگا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اگر جرم اس کے خلاف ثابت ہو گیا تو کیا ہوگا اس نے اس شخص کو کوٹھی میں جگہ دے کر سخت غلطی کی ہے۔۔۔ اور اب نہ جانے کیوں محکمہ سراغرسانی والے اس بات پر مصر ہیں کہ اسے کوٹھی میں ٹھہرنے دیا جائے؟ کیا وہ خود کہیں چلا جائے۔۔۔ مگر اس سے کیا ہوگا۔۔۔ اس طرح اس کی گردن اور زیادہ پھنس جائے گی!"

ساجد تھک کر بیٹھ گیا!۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے بعض اوقات تو اس کا دل چاہتا تھا کہ سچ مچ ایک قتل کا الزام اپنے سر پر لے لے! اس پراسرار آدمی کا گلا گھونٹ دے، جو اس کی جان و مال کا خواہاں ہے۔۔۔ سگرٹ پھینک کر وہ جوتوں سمیت صوفے پر دراز ہو گیا۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں!۔۔۔ یونہی۔۔۔! نیند ایسے میں کہاں؟ آنکھیں بند کرکے وہ اپنے تھکے ہوئے ذہن کو تھوڑا سا سکون دینا چاہتا تھا!۔ اچانک اس نے ایک عجیب قسم کا شور سنا!۔۔۔ اور بوکھلا کر برآمدے میں نکل آیا۔۔۔ لیکن اتنی دیر میں پھر پہلے ہی کی طرح سناٹا چھا چکا تھا!۔۔۔ البتہ اس کے دو تین کتے ضرور بہت ہی ڈھیلی ڈھالی آوازوں میں بھونک رہے تھے! ساجد سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ کس قسم کا شور تھا!۔

ساجد کا دل بہت شدت سے دھڑک رہا تھا! وہ چند لمحے برآمدے میں بے حس و حرکت کھڑا اندھیرے میں آنکھیں پھاڑتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ اس کا واہمہ نہ رہا ہو! پریشان دماغ اکثر غنودگی کے عالم میں اس طرح کے دھوکے دیتا ہے! پھر وہ واپسی کے لئے مڑ رہی رہا تھا کہ سارا پائیں باغ اسی قسم کے شور سے گونج اٹھا۔ بالکل ایسا معلوم ہوا جیسے بیک وقت ہزاروں آدمی چیخ کر خاموش ہو گئے ہوں! کتوں نے پھر بھونکنا شروع کردیا! اور اب ساجد کئی بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں بھی سن رہا تھا۔

دو نوکر بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئے وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔

"حضور!۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟" ایک نے ہانپتے ہوئے پوچھا!۔۔۔

"میں کیا بتاؤں؟۔۔۔ اندر سے ٹارچیں لاؤ۔ تینوں رائفلیں نکال لاؤ۔۔۔ جلدی کرو!۔۔۔ سارے نوکروں کو اکٹھا کرو۔۔۔ جاؤ!"

اتنے میں ساجد کو نواب ہاشم دکھائی دیا جو سب خوابی کے لبادے میں ملبوس اور ہاتھ میں رائفل لئے برآمدے میں داخل ہو رہا تھا!

"ساجد!" اس نے کہا "کیا تم اب میرے خلاف کوئی نئی حرکت کرنیوالے ہو؟"

"یہی میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں! دوست!" ساجد بھنویں تان کر آنکھیں سکوڑتا ہوا بولا۔ "تم اگر میرے چچا بھی ہو تو اس قسم کی حرکتیں کرکے مجھے سے کوٹھی خالی نہیں کراسکتے!۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں بزدل نہیں ہوں جب تک میرے اسٹاک میں میگزین باقی رہے گا کوئی مجھے ہاتھ نہ لگا سکے گا۔۔۔ سمجھے!"

"میں سب سمجھتا ہوں!" نواب ہاشم نے کہا "اگر تم ہزاروں آدمی بھی بلالو تب بھی میں حویلی سے نہ نکلوں گا! محکمہ سراغرسانی والے ہر وقت حویلی کی نگرانی کرتے ہیں۔ اگر میرا بال بھی بیکا ہوا تو تم جہنم میں پہنچ جاؤ گے۔"

"چوری اور سینہ زوری!" ساجد تلخ انداز میں مسکرایا۔

اتنے میں سارے نوکر اکٹھے ہوگئے! یہ تعداد میں آٹھ تھے۔ ان میں تین ایسے تھے! جو ساجد کو شکار پر لے جانے کے لئے رکھے گئے تھے اور خود بھی اچھے نشانہ باز تھے۔

"میں تمہیں حکم دیتا ہوں!" ساجد نے انہیں مخاطب کرکے کہا!"جہاں بھی کوئی اجنبی آدمی نظر آئے بیدریغ گولی مار دینا! پھر میں سمجھ لوں گا!"

شکاری ٹارچیں اور رائفلیں لے کر پائیں باغ میں اتر گئے۔

"دو ایک کتے بھی ساتھ لے لو! میں اس وقت تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ میرا یہاں موجود رہنا ضروری ہے۔"اور پھر وہ نواب ہاشم کو گھورنے لگا!۔۔۔

"تم اس طرح مجھے مطمئن نہیں کرسکے!" نواب ہاشم بولا۔

"اوہ۔ تم جہنم میں جاؤ۔" ساجد دانت پیستے ہوئے بولا۔ "مجھے تم کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اگر پولیس والے تمہیں یہاں نہ رکھنا چاہتے تو میرے نوکروں کے ہاتھ تمہاری گردن میں ہوتے اور تم پھاٹک کے باہر نظر آتے!"

"اوہ! ساجد! کیا تمہارا خون سفید ہو گیا ہے؟" نواب ہاشم کا لہجہ دردناک تھا!

اچانک وہ شور پھر سنائی دیا۔ لیکن ایک لمحے سے زیادہ جاری نہ رہا!۔۔۔ کتے پھر بھونکنے لگے! اور پھر وہی بھاگتے قدموں کی آوازیں!

ساجد کے سارے نوکر بے تحاشہ بھاگتے ہوئے اوپر چڑھ آئے دو ایک تو سیڑھیوں پر ہی ڈھیر ہو گئے۔

"حضور! کوئی۔۔۔ نہیں۔۔۔ کوئی بھی نہیں! صرف آوازیں۔۔۔ میرے خدا۔۔۔ آوازیں آسمان سے آتی ہیں! چاروں طرف سے!"

"یہ کیا بکواس ہے؟" ساجد جھلا کر چیخا! "چلو میں چلتا ہوں! ڈرپوک کہیں کے۔۔۔ لیکن اگر پیچھے سے میری کھوپڑی پر گولی پڑے تو میری موت کا ذمہ دار یہ شخص ہوگا!" ساجد نے نواب ہاشم کی طرف ہاتھ جھٹک کر کہا۔ "یہ شخص ہوگا میری موت کا ذمہ دار۔ تم لوگ اسے یاد رکھنا۔ اب آؤ میرے ساتھ!۔۔۔ میں دیکھوں گا۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۱۲)​

عمران اپنے آفس میں کاہلوں کی طرح بیٹھا دونوں ٹانگیں ہلا رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں اور دانتوں کے نیچے چونگم تھا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کئے ہوئے ہدہد کو آواز دی۔

"جج۔۔۔ جناب والا!" ہدہد نے اس کے قریب پہنچ کر کہا!

"بیٹھ جاؤ!" عمران بولا۔

ہدہد میز سے کافی فاصلے پر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

"پچھلی رات کی رپورٹ سناؤ؟"

"رر۔۔۔ رات بھر ہنگامہ آرائی رہی۔۔ قدرے۔۔۔ قق۔۔۔ قلیل وقفے سے وہ لوگ آسمان بالائے سر اٹھاتے رہے۔۔۔ اور سگان رو سیاہ کی بف بف سے۔۔۔ مم میرا دد۔۔۔ دماغ۔۔۔ پراگندگی اور انتشار کی آماجگاہ بنا رہا۔!"

"ہدہد۔۔۔ مائی ڈیئر! آدمیوں کی زبان بولا کرو۔"

"میں ہمیشہ۔۔۔ شش۔۔۔ شرفا کی زبان بولتا ہوں!"

"مجھے شرفا کی نہیں آدمیوں کی زبان چاہیے۔"

"یہ بات! میرے۔۔۔ فف۔۔۔ فہم و ادراک سے۔۔۔ بب۔۔۔ بالاتر ہے!"

"اچھا تم دفع ہو جاؤ اور شمشاد کو بھیج دو۔"

لفظ "دفع" پر ہدہد کا چہرہ بگڑ گیا۔ مگر وہ کچھ نہ بولا۔ چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد شمشاد داخل ہوا۔۔۔

"بیٹھ جاؤ!" عمران نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔

شمشاد بیٹھ گیا! یہ بھی صورت سے احمق ہی معلوم ہوتا تھا!۔۔۔

"چلو! مجھے کل رات کی رپورٹ چاہئے!"

"کل رات!" شمشاد ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "انہوں نے بہت شور مچایا! اس طرح چیختے تھے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی! اور حضور تقریبا چھ بجے نواب ساجد کی رنڈی آئی تھی!۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ نائکہ نہیں تھی!۔۔۔ اس کا قد پانچ فٹ سے زیادہ نہیں ہے۔۔۔ دھانی ساڑھی میں تھی! پیروں میں یونانی طرز کے سینڈل تھے۔۔۔ آنکھیں کافی بڑی۔۔۔ چہرہ بیضوی! کھڑا کھڑا ناک نقشہ!۔۔۔"

"اور اوندھی اوندھی تمہاری کھوپڑی!" عمران جھلا کر بولا۔ "یہ بتاؤ رات کوئی پھاٹک کے باہر بھی آیا یا نہیں!" "جی نہیں! رنڈی کی واپسی کے بعد کوئی بھی باہر نہیں نکلا!"

"پھر وہی رنڈی! گٹ آؤٹ!" عمران میز پر گھونسہ مار کر گرجا!

شمشاد چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا!

عمران نے فون کا ریسیور اٹھایا۔

"ہیلو سوپر فیاض! میں عمران ہوں!"

"اوہ۔۔۔ عمران۔۔۔ آؤ میرے یار۔۔۔ ایک نیا لطیفہ! ان کم بختوں نے سچ مچ ہی ناک میں دم کر دیا ہے! سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"میں ابھی آیا!" عمران اٹھتا ہوا بولا۔!

فیاض اپنے کمرے میں تنہا تھا۔ لیکن انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ ابھی ابھی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے!۔۔۔

"کیوں؟ کیا تمہارے آدمیوں نے کوئی خاص اطلاع نہیں دی؟" فیاض نے پوچھا۔

"دے رہا تھا کم بخت، لیکن میں نے بیچ ہی میں روک دیا!"

"یعنی؟"

"نواب ساجد کی رنڈی آئی تھی! قد پانچ فٹ لمبا۔ ناک نقشہ دھانی ساڑھی وغیرہ!"

"تم ان کم بختوں کی بھی مٹی پلید کر رہے ہو!"

"خیر ٹالو۔۔۔!" عمران سنجیدگی سے بولا۔ "تمہارا لطیفہ کیا ہے؟"

"ابھی وہ دونوں آئے تھے! انہوں نے ایک نئی کہانی سنائی! اور دونوں ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے تھے!۔۔۔ کسی قسم کی پراسرار آوازیں قریب قریب رات بھر حویلی کے کمپاؤنڈ میں سنی گئیں! ان کا کہنا ہے کہ وہ آوازیں آسمان سے آتی معلوم ہو رہی تھیں! ہزاروں آدمیوں کے بیک وقت چیخنے کی آوازیں!"

"ہاں! میرے آدمیوں نے اس کی اطلاع دی ہے!" عمران سرہلا کر بولا۔

"اب وہ دونوں ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہیں!۔۔۔ آخر وہ آوازیں کیسی ہوسکتی ہیں؟"

"پتہ نہیں یار! اس قسم کی آوازیں تو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں! وہ خوفناک عمارت والا کیس تو تمہیں یاد ہوگا؟"

"اچھی طرح یاد ہے!" فیاض سر ہلا کر بولا "مگر وہ تو ایک آدمی ہی کا کارنامہ ثابت ہوا تھا!"

"اور تم اسے کسی آدمی کی حرکت نہیں سمھتے؟" عمران نے پوچھا!

"آوازیں آسمان سے آتی ہیں برخوردار!"

"تو پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو الزام کس بات کا دیتے ہیں؟"

"ان کا خیال ہے کہ ان میں سے کوئی ایک اس کا ذمہ دار ہے!"

"اور تم ہو کہ اسے انسانی کارنامہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہو!"

"تم میرا مطلب نہیں سمجھے! آخر ان میں سے کس کی حرکت ہوسکتی ہے!"

"اب تم نے دوسری سمت چھلانگ لگائی! یار فیاض یہ محکمہ تہمارے لئے قطعی مناسب نہیں تھا!"

"بکواس مت کرو! آج کل تم بہت مغرور ہو گئے ہو!" فیاض نے تلخی سے کہا! "دیکھوں گا اس کیس میں!"

"ضرور دیکھنا!" عمران نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۱۳)​

نواب ساجد بوکھلا کر پھر برآمدے میں نکل آیا اس نے موجودہ الجھنوں سے نجات پانے کے لئے دو تین پیگ وہسکی کے پی لئے تھے اور اب اس کا دماغ چوتھے آسمان پر تھا۔ اس نے پائیں باغ میں پھیلے ہوئے اندھیرے میں نظریں گاڑ دیں!

"یہ تو یقینا واہمہ ہی تھا!" وہ آہستہ سے بڑبڑایا!

لیکن دوسرے ہی لمحے اسے ایک تیز قسم کی سرگوشی سنائی دی۔۔۔ دلاور علی۔۔ دلاور علی۔۔۔

بالکل ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے باہر پھیلی ہوئی تاریکی بول پڑی ہو! ایسی تیز قسم کی سرگوشی تھی کہ اسے دو ایک فرلانگ کی دوری سے بھی سنا جاسکتا تھا!

ساجد کا نشہ ہرن ہو گیا! سرگوشیاں آہستہ آہستہ پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوتی جا رہی تھیں!

"دلاور علی۔۔۔ دلاور علی!"

اور پھر وہ سرگوشیاں ہلکی سی بھرائی ہوئی آواز میں تبدیل ہو گئیں!

"دلاور علی۔۔۔ دلاور علی۔۔۔!" آواز کسی ایسے آدمی کی محسوس ہو رہی تھی جو روتا رہا ہو! آواز بتدریج بڑھتے بڑھتے انتہا کو پہنچ گئی، یعنی دلاور علی کو پکارنے والا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔ رونے کی آواز برابر جاری رہی اور پھر اچانک ساجد نے فائروں کی آوازیں سنیں! پے در پے فائر۔۔۔!

رونے کی آواز بند ہوگئی۔

"ایک ایک کو چن چن کر ماروں گا!" نواب ہاشم باغ کے کسی تاریک گوشے میں چیخ رہا تھا۔ "مجھے کوئی خوفزدہ نہیں کرسکتا۔۔۔!"

دو فائر پھر ہوئے۔۔۔!

"دلاور علی!" پھر وہی پراسرار سرگوشی سنائی دی!

"دلاور علی کے بچے سامنے آؤ!" یہ نواب ہاشم کی چنگھاڑ تھی!

تین چار فائر پھر ہوئے۔!

اتنے میں کوئی باہر سے پھاٹک ہلانے لگا۔۔۔ فائر بھی بند ہوگئے اور وہ پراسرار سرگوشی بھی پھر سنائی نہیں دی!۔۔۔ پھاٹک بڑی شدت سے ہلایا جا رہا تھا!

"پھاٹک کھولو!۔۔۔ پولیس!" باہر سے آواز آئی!"یہاں کیا ہو رہا ہے؟"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۱۴)​

کیپٹن فیاض کے آفس میں نواب ہاشم ہاشم اور نواب ساجد بیٹھے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ عمران ٹہل رہا تھا اور کیپٹن فیاض کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے کچھ سوچ رہا تھا! ساجد اور نواب ہاشم کے انداز سے ایسا ظاہر ہو رہا تھا جیسے کچھ دیر قبل دونوں میں جھڑپ ہوچکی ہو!

"سوال تو یہ ہے نواب ہاشم صاحب!" عمران ٹہلتے ٹہلتے رک کر بولا!

"آخر آپ نے میونسپل حدود کے اندر فائر کیوں کئے؟"

"میں اپنے ہوش میں نہیں تھا!"

"کیا میں بیہوشی کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟"

"میرے خدا۔۔۔ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں عمران صاحب! اگر آپ میری جگہ پر ہوتے تو کیا کرتے؟"

"ڈر کے مارے کہیں دبک رہتا!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔

"خیر میں اتنا بزدل نہیں ہوں!"

"لیکن آپ ہوا سے لڑ رہے تھے نواب صاحب!"

"ایک منٹ" دفعتا نواب ساجد ہاتھ اٹھا کر بولا! "کیا اپ نے اس بے ایمان کو نواب ہاشم تسلیم کرلیا ہے؟"

"چچ چچ۔۔۔ ساجد صاحب! اپنے چچا کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال نہ کیجئے!" عمران نے کہا!

"سازش! خدا کی قسم سازش!" نواب ساجد مضطربانہ انداز میں بڑبڑا کر رہ گیا!

"لیکن آج میں نے سازش کا خاتمہ کردینے کا تہیہ کر لیا ہے!" عمران مسکرا کر بولا! نواب ہاشم اور ساجد دونوں عمران کو گھورنے لگے۔

"ذرا ایک بار پھر اپنے فرار کا وقوعہ دہرائیے!" عمران نے ہاشم سے کہا۔

"کہاں تک دہراؤں۔" نواب ہاشم بیزاری سے بولا "خیر۔۔۔ کہاں سے شروع کروں؟"

"جہاں سے آپ کا دوست سجاد اس واقعہ میں شریک ہوتا ہے۔"

"ہاں سجاد!" نواب ہاشم نے دردناک آواز میں کہا اور ایک ٹھنڈی سانس لیکر رہ گیا۔

"میں آپ کے بیان کا منتظر ہوں۔" عمران نے اسے خاموش دیکھ کر ٹوکا۔۔۔!

نواب ہاشم کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئیں! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی بھولی بسری بات یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو!

"ہاں ٹھیک ہے!" وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ "سجاد اسی شام کو آیا تھا!" پھر اس نے عمران کو مخاطب کرکے بلند آواز میں بولنا شروع کیا!"جس رات مجھے فرار ہونا تھا! اسی رات کو سجاد وارد ہوا۔ اسے واقعات کا علم نہیں تھا۔ میں نے اس پر اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا اور پھر رات کو اسے سوتا چھوڑ کر چپ چاپ گھر سے نکل گیا!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"لیکن اگر مقتول سجاد ہی تھا تو اس کے جسم پر آپ کا سلیپنگ سوٹ کس طرح ملا تھا۔" عمران نے پوچھا۔

"اوہو! عمران صاحب! سیدھی سی بات ہے! قاتل نے اپنی غلطی معلوم کرلینے کے بعد اسے نواب ہاشم بنا دیا!"

"لیکن آپ کے رقیب کو کیا پڑی تھی کہ غلطی معلوم ہو جانے پر وہ سجاد کو نواب ہاشم بنانے کی کوشش کرتا!"

"کچھ نہیں۔" نواب ہاشم جلدی سے بولا۔ "اس کے متعلق سوچنا ہی فضول ہے۔ آپ یہ دیکھئے کہ اسے میری لاش ثابت ہونے پر کسی قسم کا فائدہ تو نہیں پہنچتا!"

"اوہ! تو تم مجھے قاتل ثابت کرنا چاہتے ہو!" ساجد نے میز پر گھونسہ مار کر کہا!

"ٹھہریئے جناب! آپ دخل اندازی نہیں کریں گے!" عمران ساجد کو گھور کر بولا۔ ساجد ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتا ہوا خاموش ہوگیا۔

"ہاں نواب صاحب!" عمران نے نواب ہاشم سے کہا۔ "یہ سجاد کس قسم کا آدمی تھا کہاں رہتا تھا؟"

"ایک سیلانی او رشاعر قسم کا آدمی تھا! مستقل کوئی ٹھکانہ نہ رکھتا تھا۔۔۔ آج یہاں کل وہاں۔۔۔ آدمی پڑھا لکھا اور بذلہ سنج تھا۔ اس لئے روسا کے درمیان اس کی خاصی آؤ بھگت ہوتی تھی۔"

"اس کے پسماندگان کے متعلق بھی کچھ بتا سکیں گے؟"

"مشکل ہے کیونکہ اس نے کبھی اپنے کسی عزیز کا تذکرہ نہیں کیا۔"

"مگر جناب! کیا محض ساجد کی شناخت کی بنا پر وہ آپ کی لاش قرار دی گئی ہوگی؟"

"نوکروں نے بھی اسے شناخت کیا تھا۔" ساجد بول پڑا۔ "وہ نوکر جنہوں نے سالہا سال سے چچا مرحوم کے ساتھ رہ کر انہیں دیکھا تھا۔"

"کہاں ہیں وہ نوکر؟" نواب ہاشم گرجنے لگا!"کیا ان میں سے ایک کو بھی تم نے برقرار رکھا ہے؟"

پھر اس نے عمران سے کہا۔ "جب میرے بھتیجے نے ہی اسے میری لاش قرار دیا تو نوکروں کو کیا پڑی تھی کہ وہ اس کے خلاف کہہ کر خود کو پولیس کا تختہ مشق بناتے اور پھر اگر تم سچے تھے تو تم نے ان نوکروں کو کیوں الگ کردیا!ان میں سے کم از کم ایک یا دو کو تو اس وقت تک رہنا ہی چاہیے تھا! ایک ہی گھر میں نوکروں کی عمریں گذر جاتی ہیں؟"

"بات تو پکی ہے!"عمران سر ہلا کر بولا۔

"تو تم نہ صرف یہ کہ میری جائیداد ہتھیانا چاہتے ہو۔ بلکہ مجھے پھانسی بھی دلواؤ گے!" ساجد نے زہر خند کے ساتھ کہا۔

"کیا یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں ساجد صاحب؟" عمران نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا!۔

"آپ کی تو کوئی بات ہی میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ساجد بولا۔ "کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ مجھے بچا رہے ہیں۔ کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں اور پھانسی کے تختے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے!"

قبل اس کے کہ عمران جواب دیتا! نواب ہاشم بول پڑا!۔ "سنو ساجد! یہاں رشوت نہیں چل سکتی! یہاں سب بڑے لوگ ہیں! یہاں انصاف ہوتا ہے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
"آپ غلط کہہ رہے ہیں نواب صاحب!" عمران نے سنجیدگی سے کہا!" یہاں اناف نہیں ہوتا! انصاف عدالت میں ہوتا ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم کسی ایک کی گردن پھانسی کے لئے پیش کردیں اور اس کا فیصلہ میں ابھی کئے دیتا ہوں کہ کس کی گردن پھانسی کے لئے زیادہ مناسب رہے گی۔"

فیاض خاموش بیٹھا تھا۔ اس نے اس دوران ایک بار بھی بولنے کی کوشش نہیں کی تھی! ویسے اسے یقین تھا کہ فیصلہ کن لمحات جلد ہی آنے والے ہیں۔

عمران نے آگے بڑھ کر میز پر رکھی ہوئی گھنٹی بجائی اور دوسرے ہی لمحے اردلی چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔۔۔!

"اسے یہاں لاؤ! سمجھے" عمران نے اردلی سے کہا۔

"جی حضور!" اردلی نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔

نہ جانے کیوں کمرے کی فضا پر قبرستان کی سی خاموشی مسلط ہوگئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہاں کوئی جنازہ رکھا ہوا ہو۔

نواب ہاشم اور ساجد دونوں کے چہرے اترے ہوئے تھے! عمران سینے پر دونوں ہاتھ باندھے اس طرح کھڑا فرش کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے قالین پر بنی ہوئی تصویریں اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد کرنے والی ہیں!

دفعتا برآمدے میں قدموں کی آہٹ ہوئی اور دوسرے ہی لمحہ میں دروازہ کھول کر دردانہ اندر داخل ہوئی۔ اردلی اس کے پیچھے چق اٹھائے کھڑا تھا۔

ساجد کا منہ حیرت سے کھلا اور پھر بند ہوگیا! لیکن نواب ہاشم کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے لڑکی پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور پھر عمران کی طرف دیکھنے لگا۔

دردانہ دروازے ہی میں ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔ اسکی نظر نواب ہاشم کے چہرے پر تھی اور آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس پر بالکل سکتے کی سی کیفیت طاری تھی!

"ابا جان!" اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اگر عمران آگے بڑھ کر اسے سنبھال نہ لیتا تو اس کا گرجانا یقینی تھا! اس پر غشی طاری ہو گئی تھی!

عمران نے اسے ایک کرسی پر ڈال دیا!

"میں اس کا مطلب نہیں سمجھا۔" نواب ہاشم عمران کو خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔

"اس نے مجھے ابا جان نہیں کہا تھا؟" عمران نے لاپروائی سے کہا!

"بہت خوب! میں سمجھ گیا، اب مجھے کسی نئے جال میں پھانسنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ ساجد میں تم سے سمجھ لوں گا!" نواب ہاشم ساجد کو گھونسہ دکھا کر بولا۔

"خاموش رہو۔" فیاض بگڑ گیا!"تم میرے آفس میں کسی کو دھمکی نہیں دے سکتے۔"

"ہاں! اور آپ کی آنکھوں کے سامنے مجھے جال میں پھانسا جا رہا ہے! مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔۔۔ خیر مجھے پروا نہیں دیکھتا ہوں، مجھے کون پھانستا ہے! دنیا جانتی ہے کہ میں نے شادی نہیں کی تھی اور نہ دس سال میں کوئی لڑکی اس عمر کو پہنچ سکتی ہے!۔۔۔ ایک نہیں ہزار ایسی لڑکیاں لاؤ، جو مجھے ابا جان کہہ کر مخاطب کریں۔۔۔ ہونہہ!"

"مگر کپتان صاحب!" ساجد نے فیاض کو مخاطب کیا۔"ذرا دیکھئے دونوں میں کتنی مشابہت ہے؟"
سچ مچ فیاض کبھی بیہوش لڑکی کی طرف دیکھتا اور کبھی نواب ہاشم کو، دردانہ کو اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
"او۔۔۔ساجد تجھ سے خدا سمجھے!" نواب ہاشم دانت پیس کر بولا۔

"تو کیا اس لڑکی کو ساجد نے پیدا کیا ہے؟" ساجد نے مسکرا کر کہا۔

"نواب ہاشم!" عمران بھاری بھرکم آواز میں بولا۔ "میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم نواب ہاشم ہو اور تمہاری زندگی میں ساجد تمہاری جائیداد کے مالک نہیں ہوسکتے!"

"لڑکے تم مجھے پاگل بنا دو گے۔" نواب ہاشم بے ساختہ ہنس پڑا۔

"آپ شاید نشے میں ہیں؟" ساجد بھنا کر بولا۔

"نہیں ساجد صاحب! میں نشے میں نہیں ہوں! بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں! نواب ہاشم کے پھانسی پا جانے کے بعد ہی آپ ان کے حقیقی وارث ہوسکیں گے!"

"کپتان صاحب!" نواب ہاشم بگڑ کر کھڑا ہوتا ہوا بولا۔ "یہ آپکا دفتر ہے یا بھنگڑ خانہ۔۔۔!"

"اگر یہ بات میں نے کہی ہوتی تو تم مجھے گولی مار دیتے!" عمران نے مسکرا کر فیاض سے کہا!

"آخر تم کرنا کیا چاہتے ہو؟" فیاض ہتھے سے اکھڑ گیا۔

"نواب صاحب! تشریف رکھیئے! ابھی تک میں مذاق کر رہا تھا یہ حقیقت ہے کہ آپ بہت ستم رسیدہ ہیں! لیکن اس کا کیا جائے نواب صاحب کہ حکیم معین الدین آپ کے حملے کے باوجود بھی ابھی تک زندہ ہے! اخبارات میں اس کی موت کی خبر میں نے ہی شائع کرائی تھی!"

"کیا بکواس ہے!" نواب ہاشم حلق پھاڑ کر چیخا! "میں جا رہا ہوں!"

"نہیں سرکار!" عرمان جیب سے ریوالور نکال کر اس کا رخ نواب ہاشم کی طرف کرتا ہوا بولا۔ "آپ جائیں گے نہیں بلکہ لیجائے جائیں گے تشریف رکھیئے! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلی رات دلاور علی کا نام سن کر آپ پاگلوں کی طرح فائر کیوں کر رہے تھے؟"

"ہٹ جاؤ سامنے سے!" نواب ہاشم نے پاگلوں کی طرح کہا اور دروازے کی طرف جھپٹا! لیکن دوسرے ہی لمحے عمران کی لات چل گئی۔۔۔ نواب ہاشم منہ کے بل فرش پر گر پڑا اور عمران نے بڑی بیدردی سے اس کی پشت پر اپنا داہنا پیر رکھ دیا!۔

دردانہ جو ہوش میں آچکی تھی، چیختی ہوئی عمران کی طرف دوڑی!

"یہ آپ کیا کر رہے ہیں! میرا دل گواہی دیتا تھا کہ ابا جان زندہ ہیں!"

"یہ تمہارے ابا جان نہیں ہیں!" عمران نے کہا جو نواب ہاشم کو پیر کے نیچے دبائے رکھنے کے لئے پوری قوت صرف کر رہا تھا!

"ابا جان ہیں، انہوں نے صرف اپنی داڑھی صاف کردی ہے۔ خدا کے لئے ہٹ جایئے!"

"نہیں بھولی لڑکی! میں ابھی بتاتا ہوں۔"

نواب ہاشم نے پلٹ کر عمران کی ٹانگ پکڑ لی!۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لمحے عمران کا گھنٹا اس کی گردن سے جا لگا۔۔۔ نواب ہاشم کے حلق سے آوازیں نکلنے لگیں۔

"فیاض! ہتھکڑیاں!" عمران بولا۔

فیاض میز سے اٹھا تو لیکن اس کے انداز میں ہچکچاہٹ تھی! اس نے اردلی کو ْآواز دی! اتنے میں نواب ہاشم عمران کی گرفت سے نکل گیا! عمران دوسری طرف لڑھک گیا۔ لیکن اس نے نواب ہاشم کی ٹانگ کسی طور بھی نہ چھوڑی!۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اتنے میں نواب ہاشم کو اردلیوں نے قابو کرکے ہتھکڑیاں لگادیں!

"بھگتنا پڑے گا تم لوگوں کو!" نواب ہاشم کھڑا ہو کر ہانپتا ہوا بولا۔

"بیٹھ جاؤ!" عمران نے اسے ایک رسی میں دکھا دے دیا! پھر وہ لڑکی کی طرف متوجہ ہوا! جو قریب ہی کھڑی بری طرح کانپ رہی تھی۔!

"تمہارے باپ کا کیا نام تھا؟" عمران نے لڑکی سے پوچھا!۔

"دلاور علی!" لڑکی پھنسی ہوئی آواز میں بولی۔

"مگر یہ نواب ہاشم ہے!"

دردانہ کچھ نہ بولی! عمران نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا!

وہ اسی طرح کانپتی ہوئی بیٹھ گئی!

"نواب ہاشم!" عمران بولا "میں تم پر فریب دہی، قتل اور ایک شخص پر قاتلانہ حملے کے الزامات عائد کرتا ہوں۔"

"کرتے جاؤ! عدالت میں نپٹ لوں گا!" نواب ہاشم ڈھٹائی سے بولا۔

"تم اس لڑکی کے باپ دلاور علی کے قاتل ہو! جو تمہارا ہم شکل تھا۔۔۔ آج سے دس سال قبل تم نے اسے قتل کیا تھا! لوگوں نے اس کی لاش کو تمہاری لاش سمجھنے میں غلطی کی تھی اور یہ غلطی مشابہت کی بنا پر ہوئی تھی! تم چار سال کے لئے غائب ہو گئے چار سال بعد واپس آئے اور دلاور علی کے مکان میں مقیم ہو گئے، لڑکی مشابہت کی بنا پر دھوکہ کھا گئی۔"

"الف لیلٰی کی داستان!" نواب ہاشم نے ایک ہذیانی سا قہقہہ لگایا۔۔!

"اچھا تو اب پوری داستان سنو!۔۔۔ دلاور علی تمہارے باپ کی ناجائز اولاد تھا اور تمہارا ہم شکل! اس کی ماں بچپن میں مر گئی تھی! تمہارے والد صاحب اسے بہت چاہتے تھے! لیکن تمہاری ماں کے برے برتاؤ سے بچانے کے لئے انہوں نے اسے شہر ہی سے ہٹا دیا!۔۔۔ وہ دلاور پور کے ایک بورڈنگ میں پرورش پاتا رہا!۔۔۔ وہیں پلا پڑھا اور تعلیم حاصل کی! وہ فطرتا بہت ہی نیک اور علم و فن کا دلدادہ تھا! برے ہو کر جب اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تو اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس شہر کا کبھی رخ ہی نہیں کریگا! تمہارے باپ برابر اس کی مدد کرتے رہے۔ انہوں نے اسے کچھ خاندانی نوادرات بھی دئیے تھے! اور وہ سنگار دان ان میں سے ایک تھا! جس کی نقل تم نے تیار کرا کے موڈی کے گلے لگائی اور اس سے پچیس ہزار روپے اینٹھ لئے۔۔۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟۔ نواب ہاشم تم اسے غلط نہیں کہہ سکتے! میں نے تمہارے خلاف درجنوں شہادتیں مہیا کر رکھی ہیں!۔"

"بکے جاؤ!۔۔۔ " نواب ہاشم برا سا منہ بنا کر بولا۔ "اس بکواس پر کون یقین کرے گا؟"

"ہاں تو فیاض صاحب!" عمران نے فیاض کو مخاطب کیا۔ "اب میں داستان کے اس حصے کی طرف آ رہا ہوں! جہاں نواب ہاشم اور دلاور علی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ یہ ٹکراؤ ایک عورت کی وجہ سے ہوا جو نواب ہاشم کی محبوبہ تھی اور یہ حقیقت ہے کہ پہلے اس کی ملاقات نواب ہاشم ہی سے ہوئی! پھر شاید وہ عورت کسی طرح دلاور پور پہنچ گئی! وہاں اس کی ملاقات دلاور علی سے ہوئی۔ جس کی صورت ہو بہو نواب ہاشم کی سی تھی! پہلے وہ اسے نواب ہاشم ہی سمجھی لہٰذا بہت بے تکلفی سے پیش آئی اور پھر کافی عرصے بعد اس کی غلط فہمی رفع ہوئی اور وہ بھی اس طرح کہ ایک موقع پر نواب ہاشم اور دلاور علی اکٹھا ہو گئے! دونوں ہم عمر تھے۔ نواب ہاشم کو دلاور علی کے متعلق علم تھا لیکن دونوں پہلی بار ملے تھے اور یہ ملاقات ہی بنائے فساد ثابت ہوئی وہ عورت دلاور علی کو بیحد پسند کرنے لگی تھی! اس کے عادات و اطوار شریفوں کے سے تھے اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے وہ نواب ہاشم سے بہت اونچا تھا! عورت نے ایک فیصلہ کیا اور اسے عملی جامہ پہنایا! یعنی دلاور علی سے شادی کر لی!
 

قیصرانی

لائبریرین
نواب ہاشم کے سینے پرسانپ لوٹ گیا!۔۔۔ لیکن اس وقت وہ خاموش رہا۔ البتہ انتقام کی آگ اس کے سینے میں سلگتی رہی۔ ایک سال زندہ رہ کر عورت بھی چل بسی، لیکن وہ اپنی ایک نشانی چھوڑ گئی تھی!" عمران دردانہ کی طرف اشارہ کرکے خاموش ہوگیا! نواب ہاشم اس طرح مسکرا رہا تھا جیسے کوئی نادان بچہ اس کے سامنے بکواس کر رہا ہو!۔

"اب سے دس سال پہلے جب دردانہ دس برس کی ہو چکی تھی، نواب ہاشم نے ایک پلاٹ مرتب کیا! وہ ہرحال میں دلاور علی سے انتقام لینا چاہتا تھا اس نے سب سے پہلے اپنی ایک آشنا کو ایک تانگے والے کے ساتھ بھگا دیا! پھر دلاور علی کو قتل کرکے اپنی جگہ ڈالا اور خود روپوش ہوگیا۔ جنگ کا زمانہ تھا اسے فوج میں ملازمت مل گئی اور وہ سمندر پار بھیج دیا گیا! چار سال بعد اسکی واپسی ہوئی اور چونکہ وہ دلاور علی کا ہمشکل تھا اس لئے دلاور علی کا رول ادا کرنے میں اسے کوئی دشواری نہ آئی۔ لیکن کب تک ایک دن اسے عشرت کی زندگی کو خیر آباد کہہ کر اپنی حویلی میں واپس آنا ہی تھا! لیکن حویلی میں واپسی آسان نہ تھی۔ ساجد جائیداد پر قابض تھا اس کا قبضہ ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا۔ کافی رقم کی ضرورت پیش آتی۔ اس لئے نواب ہاشم نے اصلی سنگار دان کی نقل تیار کروائی اور دردانہ کو دلاور پور بھیج دیا! جب وہ وہاں سے واپس آئی تو نواب ہاشم اپنی حیثیت تبدیل کر چکا تھا اس نے لڑکی کو اس کے باپ کی موت کی اطلاع دی اور خود کو دلاور علی کا دوست ظاہر کیا! لڑکی دھوکے میں آگئی! پھر لڑکی ہی کے ذریعے موڈی کو پھانسا۔ اس نے پچیس ہزار میں نقلی سنگاردان خرید لیا۔۔۔ لڑکی رقم گھر لائی اور نواب ہاشم نے اسے اڑا لیا! اصلی سنگار دان اور وہ رقم آج بھی اس کے قبضے میں ہے!"

"ایک منٹ" فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "تمہیں ان سب باتوں کا علم کیسے ہوا؟"

"حکیم معین الدین سے جو دلاور پور کا باشندہ تھا اور اس لڑکی کا باپ اسکے گہرے دوستوں میں سے ہے! وہ دلاور علی اور اس کی زندگی کے حالات سے واقف ہے۔ میں جب دردانہ کی نشاندہی پر اس تک پہنچا تو وہ زخم کھائے ہوئے بیہوش پڑا تھا۔ اس پر کسی نے چاقو سے حملہ کیا تھا اور اپنی دانست میں مردہ تصور کرکے چھوڑ گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زخم مہلک نہیں تھا! اس کی جان بچ گئی! لیکن میں نے احتیاطا اس کے قتل کی خبر دلاور پور کے اخبارات میں شائع کرادی تھی۔ اس سے یہ ساری حقیقت معلوم ہوئی۔۔۔!"

"میں کسی حکیم معین الدین کو نہیں جانتا۔"نواب ہاشم نے کہا! "یہ سب بکواس اور ساجد کی سازش ہے! روپے میں بڑی قوت ہوتی ہے! دنیا کے سارے آدمیوں کو پاگل نہیں بنایا جاسکتا۔ اتنی مشابہت تو ایک ماں کے پیٹ میں پیر پھیلانے والے بھائیوں میں بھی نہیں ہوتی کہ ایک بیٹی دوسرے کو اپنا باپ سمجھ لے۔۔۔ ساجد یہ اوچھے ہتھیار عدالت میں کام نہیں آئیں گے!"

"دلاور پور کے بورڈنگ سے جہاں دلاور علی نے پرورش پائی اس کی تصویریں دستیاب ہو سکتی ہیں!" عمران نے کہا۔۔۔

"وہ میری تصویریں ہوں گی!" نواب ہاشم نے کہا۔ " جو بآسانی ساجد کے ہاتھ لگی ہوں گی اور اب انہیں اس سازش میں استعمال کر رہا ہے۔!.

"ٹھہرو! عمران!" فیاض نے کہا۔ "اگر دلاور علی کو قتل ہی کرنا مقصود تھا تو اتنا پیچیدہ راستہ کیوں اختیار کیا۔ اس سے فائدہ کیا ہوا اور اسے نہ اختیار کر کے کیا نقصان اٹھانا پڑتا؟"

"ذرا دیکھئے!" نواب ہاشم نے تمسخر آمیز لہجے میں کہا اور ہنسنے لگا!

"وہ قتل کیا جاتا!" عمران بولا۔ "اس کی تصاویر شائع ہوتیں اور شہر کے ایک بڑے آدمی سے اس کی مشابہت کی بنا پر پولیس یقینا چونکتی اور پھر جو کچھ بھی ہوتا ظاہر ہے۔"

"پھر وہی مشابہت!" نواب ہاشم برا سا منہ بنا کر بولا۔ " آخر اس مشابہت پر کون یقین کرے گا؟۔۔۔ سازش ہے تو بہت گہری لیکن کامیاب نہیں ہوسکتی اور میں یہ جتا دینا چاہتا ہوں کہ اس فرضی دلاور علی کی جو بھی تصویر پیش کی جائے گی وہ میری ہوگی اور سو فیصدی میری ہوگی۔ ابھی اس لڑکی نے داڑھی کا حوالہ دیا تھا۔ لہٰذا میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایک زمانے میں میں نے یونہی داڑھی بھی رکھ لی تھی اور داڑھی میں اپنے کئی فوٹو بھی بنوائے تھے۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
"تو تم مجھے شکست دینے پر تل گئے ہو! نواب ہاشم!" عمران مسکرا کر بولا۔ "میں تمہیں بتاؤں۔۔۔ اس دن دلاور علی کے مکان میں تم نے چھپ کر کاغذات کا ایک ڈھیر جلایا تھا! لیکن جس چیز کے لئے تم نے اس ڈھیر میں آگ لگائی تھی! وہ اس میں موجود نہیں تھی! تمہیں بھی یقین نہیں تھا کہ وہ چیز جل ہی گئی ہوگی! اس لئے تم اس کی تلاش میں اپنے چار آدمیوں کے ساتھ پیلے مکان میں گھسنے کی کوشش کرتے رہے ہو! لیکن وہ چیز تمہارے ہاتھ نہ لگ سکی! وہ میرے قبضے میں ہے!"

"کیا؟" نواب ہاشم مضطربانہ انداز میں بولا۔ پھر فورا ہی سنبھل کر ہنسنے لگا! ہنسنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ عمران کا مضحکہ اڑا رہا تھا۔

"تمہاری اطلاع کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ دلاور علی ایک بہت ہی مشاق قسم کا بلاک میکر تھا!" عمران نے کہا اور دفعتا نواب ہاشم کا چہرہ تاریک ہو گیا وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا!

"کیپٹن فیاض! عمران مسکرا کر بولا "یہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے!۔۔۔ دلاور علی نے وائسرائے کے ایک فرمان کا بلاک بنایا تھا جو جنگ کا پراپیگنڈہ کرنیوالے ایک سرکاری ماہنامے میں شائع کیا تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی اس ماہنامہ کیلئے کام کرنیوالوں کے فوٹو بھی شائع ہوئے تھے۔ تمہیں اسی ماہنامے میں دلاور بلاک میکر کی تصویر بھی مل جائیگی! نواب ہاشم کو اس کی تلاش تھی! لیکن وہ میرے ہاتھ لگ گئی۔"

نواب ہاشم نے ہاتھ پیر ڈال دیئے! وہ خوفزدہ نظروں سے عمران کی طرف دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اب جو کچھ کہنا چاہتا ہو اس کے لئے اسے الفاظ نہ مل رہے ہوں!

"اور نواب ہاشم!" عمران شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا!"پچھلی رات تم نے دلاور علی کے نام پر اندھا دھند فائر کیوں کئے تھے؟"

"وہ آخر تھی کیا بلا؟" ساجد نے پوچھا۔

"وہ بلا عمران تھی" عمران نے سنجیدگی سے کہا!"میں نے تمہارے پائیں باغ میں درختوں پر مائیکرو فون کے چھوٹے چھوٹے ہارن فٹ کر رکھے تھے اور باغ کے باہر سے بھوتوں کا پروگرام نشر کر رہا تھا۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۱۵)​

اس واقعہ کے تقریباً ایک ماہ بعد نواب ساجد اور دردانہ حویلی کے پائیں باغ کی ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔

"میں پھر آپ سے کہتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے شادی کرکے غلطی کی ہے" دردانہ بولی۔

"نہیں ڈیئر! میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایک عقل مندی کا کام کیا ہے!" ساجد نے مسکرا کر کہا!

"آپ ایک دن سوچیں گے! سوچنا ہی پڑے گا۔۔۔ کاش میری بیوی بھی نجیب الطرفین ہوتی!"

"میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم ایک شریف اور ایماندار آدمی کی بیٹی ہو! میرے نجیب الطرفین چچا کا حال تو تم نے دیکھ ہی لیا! وہ مجھے بھی ناکردہ گناہ کی سزا میں پھانسی دلوانا چاہتا تھا۔ محض اپنی گردن بچانے کے لئے! تمہارے والد اس سے یقیناً بہتر تھے!"

"وہ تو ٹھیک ہے! لیکن نہ جانے کیوں میرا دل نواب صاحب کے لئے کڑھ رہا ہے۔"

"اوہو!" نواب ساجد نے قہقہہ لگایا۔ "تم بھی اپنے باپ ہی کی طرح سے بہت زیادہ نیک معلوم ہوتی ہو۔۔۔ مگر چچا صاحب پھانسی سے کسی طرح نہیں بچ سکتے! عمران نے انہیں چاروں طرف سے پھانس لیا ہے۔۔۔ بھئی غضب کا آدمی ہے یہ عمران بھی! ایسا الو بناتا ہے باتوں ہی باتوں میں کہ بس دیکھتے ہی رہ جائیے! آخیر وقت تک پتہ نہیں چلتا کہ نزلہ کس پر گے گا!۔۔۔ آہا۔۔۔ بیچارے موڈی کو تو ہم بھول ہی گئے۔۔۔ میں ایک بات سوچ رہا ہوں ڈیئر! اب تمہارے مشورے کی ضرورت ہے!"

"کہیئے! کیا بات ہے؟"

"موڈی کے روپے تو ہم واپس کر چکے ہیں! پھر کیوں نہ اصلی سنگار دان بھی اسے پریذنٹ کردیں! دیکھو اس کی شرافت! اگر وہ ذرا بھی سخت ہو جاتا تو تم جیل پہنچ جاتیں۔"

"آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی! میں بھی یہی سوچ رہی تھی!"

"اچھا! تو کل ہم اسے مدعو کریں گے!"

"عمران صاحب کو بھی بلائیے گا!"

"نہیں۔۔۔ وہ تو اب مجھے پہچاننے سے ہی انکار کرتا ہے۔ کل کلب میں بڑی شرمندگی ہوئی۔ میں بہت لہک کر اس سے ملا۔ لیکن اس نے نہایت خشک لہجے میں کہا۔ معاف کیجئے گا! میں نے آپ کو پہچانا نہیں!"

دردانہ ہنسنے لگی

ختم شد​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top