قیصرانی
لائبریرین
"ان کے بارے میں بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جعلی ہوں۔۔۔ یا ان میں بھی ایک آدھ پیکٹ اصلی نوٹوں کا چلا گیا ہو! اب تو اصلی اور نقلی مل جل کر رہ گئے ہیں۔ میری ہمت نہیں پڑتی کہ ان میں سے کسی نوٹ کو ہاتھ لگاؤں۔"
"مگر اس لڑکی نے تمہارے نوٹ کس طرح اڑائے ہوں گے!"
"اوہ۔۔۔!" عمران کی آواز پھر دردناک ہو گئی۔ "میں بڑا بدنصیب آدمی ہوں۔ بلکہ اب مجھے یقین آگیا ہے کہ میں احمق بھی ہوں۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو! ہاں تو کل سردی زیادہ تھی نا۔۔۔ میں نے السٹر پہن رکھا تھا اور پندرہ بیس پیکٹ اس کی جیبوں میں ٹھونس رکھے تھے!"
"تم احمق سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہوتے ہو۔" روشی جھلا کر بولی۔
"نہیں سنو تو! میں نے اپنی دانست میں بڑی عقل مندی کی تھی! ایک بار کا ذکر ہے میرے چچا سفر کر رہے تھے۔ ان کے پاس پندرہ ہزار روپے تھے جو انہوں نے سوٹ کیس میں رکھ چھوڑے تھے! سوٹ کیس راستے میں کہیں غائب ہو گیا! جب سے میرا یہ معمول ہے کہ ہمیشہ سفر میں ساری رقم اپنے پاس ہی رکھتا ہوں۔ پہلے کبھی ایسا دھوکا نہیں کھایا۔ یہ پہلی چوٹ ہے!"
"لیکن آخر اس لڑکی نے تم پر کس طرح ہاتھ صاف کیا تھا؟"
"یہ مت پوچھو! میں بالکل الو ہوں!"
"میں جانتی ہوں کہ تم الو ہو! مگر میں ضرور پوچھوں گی!"
"ارے اس نے مجھے الو بنایا تھا! کہنے لگی تمہاری شکل میرے دوست سے بہت ملتی ہے جو پچھلے سال ایک حادثے کا شکار ہو کر مر گیا! اور میں اسے بہت چاہتی تھی! بس پندرہ منٹ میں بے تکلف ہو گئی!۔۔۔ میں کچھ مضمحل سا تھا! کہنے لگی کیا تم بیمار ہو! میں نے کہا نہیں۔ سر میں درد ہو رہا ہے! بولی لاؤ چمپی کردوں۔۔۔چمپی سمجھتی ہو!"
"نہیں میں نہیں جانتی۔" روشی نے کہا۔
عمران اس کے سر پر چمپی کرنے لگا۔
"ہٹو! میرے بال بگاڑ رہے ہو!" روشی اس کا ہاتھ جھٹک کر بولی۔
"ہاں تو وہ چمپی کرتی رہی اور میں ویٹنگ روم کی آرام کرسی پر سو گیا! پھر شائد آدھے گھنٹے کے بعد آنکھ کھلی۔۔۔ وہ برابر چمپی کئے جا رہی تھی۔۔۔ سچ کہتا ہوں وہ اس وقت مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسی طرح ساری زندگی چمپی کئے جائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ پھر اے بی سی ہوٹل ملنے کا وعدہ کرکے مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی!"
عمران کی آواز تھرا گئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اب رو دے گا۔
"ہائیں بدھو تم اس کے لئے رو رہے ہو جس نے تمہیں لوٹ لیا۔" روشی ہنس پڑی۔
"ہائیں! میں رو رہا ہوں" عمران اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ مارتا ہوا بولا۔ "نہیں میں غصے میں ہوں! جہاں بھی ملی اس کا گلا گھونٹ لوں گا۔"
"بس کرو میرے شیر بس کرو۔" روشی اس کا شانہ تھپکتی ہوئی بولی۔
"اب تم میرا مذاق اڑا رہی ہو۔" عمران بگڑ گیا۔
"نہیں مجھے تم سے ہمدردی ہے! لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر جوئے میں بھی تم جعلی نوٹ ہارے ہو تو اب وہاں گذر نہیں ہوگا! کچھ تعجب نہیں کہ مجھے اس کے لئے بھی بھگتنا پڑے۔"
"نہیں تم پروا نہ کرو۔ تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا! میں لاکھوں روپے خرچ کردوں گا۔"
روشی کچھ نہ بولی۔۔۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔
"میرا خیال ہے کہ یہاں ایک ٹیلیفون بوتھ ہے۔" عمران نے کہا اور ڈرائیور سے بولا۔
"مگر اس لڑکی نے تمہارے نوٹ کس طرح اڑائے ہوں گے!"
"اوہ۔۔۔!" عمران کی آواز پھر دردناک ہو گئی۔ "میں بڑا بدنصیب آدمی ہوں۔ بلکہ اب مجھے یقین آگیا ہے کہ میں احمق بھی ہوں۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو! ہاں تو کل سردی زیادہ تھی نا۔۔۔ میں نے السٹر پہن رکھا تھا اور پندرہ بیس پیکٹ اس کی جیبوں میں ٹھونس رکھے تھے!"
"تم احمق سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہوتے ہو۔" روشی جھلا کر بولی۔
"نہیں سنو تو! میں نے اپنی دانست میں بڑی عقل مندی کی تھی! ایک بار کا ذکر ہے میرے چچا سفر کر رہے تھے۔ ان کے پاس پندرہ ہزار روپے تھے جو انہوں نے سوٹ کیس میں رکھ چھوڑے تھے! سوٹ کیس راستے میں کہیں غائب ہو گیا! جب سے میرا یہ معمول ہے کہ ہمیشہ سفر میں ساری رقم اپنے پاس ہی رکھتا ہوں۔ پہلے کبھی ایسا دھوکا نہیں کھایا۔ یہ پہلی چوٹ ہے!"
"لیکن آخر اس لڑکی نے تم پر کس طرح ہاتھ صاف کیا تھا؟"
"یہ مت پوچھو! میں بالکل الو ہوں!"
"میں جانتی ہوں کہ تم الو ہو! مگر میں ضرور پوچھوں گی!"
"ارے اس نے مجھے الو بنایا تھا! کہنے لگی تمہاری شکل میرے دوست سے بہت ملتی ہے جو پچھلے سال ایک حادثے کا شکار ہو کر مر گیا! اور میں اسے بہت چاہتی تھی! بس پندرہ منٹ میں بے تکلف ہو گئی!۔۔۔ میں کچھ مضمحل سا تھا! کہنے لگی کیا تم بیمار ہو! میں نے کہا نہیں۔ سر میں درد ہو رہا ہے! بولی لاؤ چمپی کردوں۔۔۔چمپی سمجھتی ہو!"
"نہیں میں نہیں جانتی۔" روشی نے کہا۔
عمران اس کے سر پر چمپی کرنے لگا۔
"ہٹو! میرے بال بگاڑ رہے ہو!" روشی اس کا ہاتھ جھٹک کر بولی۔
"ہاں تو وہ چمپی کرتی رہی اور میں ویٹنگ روم کی آرام کرسی پر سو گیا! پھر شائد آدھے گھنٹے کے بعد آنکھ کھلی۔۔۔ وہ برابر چمپی کئے جا رہی تھی۔۔۔ سچ کہتا ہوں وہ اس وقت مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسی طرح ساری زندگی چمپی کئے جائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ پھر اے بی سی ہوٹل ملنے کا وعدہ کرکے مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی!"
عمران کی آواز تھرا گئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اب رو دے گا۔
"ہائیں بدھو تم اس کے لئے رو رہے ہو جس نے تمہیں لوٹ لیا۔" روشی ہنس پڑی۔
"ہائیں! میں رو رہا ہوں" عمران اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ مارتا ہوا بولا۔ "نہیں میں غصے میں ہوں! جہاں بھی ملی اس کا گلا گھونٹ لوں گا۔"
"بس کرو میرے شیر بس کرو۔" روشی اس کا شانہ تھپکتی ہوئی بولی۔
"اب تم میرا مذاق اڑا رہی ہو۔" عمران بگڑ گیا۔
"نہیں مجھے تم سے ہمدردی ہے! لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر جوئے میں بھی تم جعلی نوٹ ہارے ہو تو اب وہاں گذر نہیں ہوگا! کچھ تعجب نہیں کہ مجھے اس کے لئے بھی بھگتنا پڑے۔"
"نہیں تم پروا نہ کرو۔ تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا! میں لاکھوں روپے خرچ کردوں گا۔"
روشی کچھ نہ بولی۔۔۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔
"میرا خیال ہے کہ یہاں ایک ٹیلیفون بوتھ ہے۔" عمران نے کہا اور ڈرائیور سے بولا۔