قیصرانی
لائبریرین
"میرا خیال ہے!" ایک نقاب پوش نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ "جلتے لوہے والی تدبیر کیسی رہے گی۔"
"وقت نہیں ہے!" گمنام غرایا! "صبح دیکھیں گے!"
وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے اور دروازہ باہر سے مقفل کر دیا گیا! عمران نے ایک طویل انگڑائی لی اور سر کا وہ حصہ ٹٹول کر جہاں چوٹ لگی تھی برے برے منہ بنانے لگا۔
اسے توقع نہیں تھی کہ اس کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کیا جائے گا وہ تو یہی سمجھے ہوئے تھا کہ اس نے مجرموں کو اپنے جال میں پھانس لیا۔
اس نے نے وجہ ان لوگوں کو ہدہد کا پتہ نہیں بتایا تھا اس کے ذہن میں ایک اسکیم تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا! اس نے اس آدمی کا تعاقب کرکے جس نے سمندرکے کنارے ہدہد کے فوٹو لئے تھے کم از کم مجرموں کے ایک ٹھکانے کا پتہ تو لگا ہی لیا تھا۔۔۔۔ اور وہیں اس نے اس آدمی کو بھی دیکھا تھا جس کا بائیاں کان آدھا غائب تھا۔
عمران تھوڑی دیر تک بے حس و حرکت آرام کرسی میں پڑا رہا۔۔۔ اس کا ذہن بڑی تیزی سے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ گزر گیا!۔۔۔ شاید پوری عمارت پر سناٹے کی حکمرانی تھی! کہیں سے بھی کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی۔
عمران اٹھ کر کھڑکیوں اور دروازوں کا جائزہ لینے لگا! لیکن چند ہی لمحوں میں اس پر واضح ہوگیا کہ وہ باہر نہیں نکل سکتا! یہ سارے دروازے ایسے تھے جو باہر سے مقفل کئے جاسکتے تھے اس کے ذہن میں ایک دوسرا اور انتہائی اہم سوال بھی تھا عمارت اس وقت خالی ہے یا کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں حالات غیر یقینی تھے۔۔۔ عمارت میں اس کا تہنا رہنا ناممکنات میں سے تھا۔۔۔ لیکن اگر اس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تھے تو عمارت پر قبرستان کی سی خاموشی کیوں طاری تھی؟۔۔۔ کیا وہ سو رہے ہیں؟ عمران نے سوچا کہ یہ بھی ناممکن ہے کہ انہوں نے اپنی دانست میں ایک خطرناک دشمن پکڑ لیا ہے! لہٰذا اس کی طرف سے غافل ہو کر سو رہنا قرین قیاس نہیں!
عمران اچھی طرح جانتا تھا کہ صبح اسے ناشتے کی میز پر خوش آمدید کہنے کے لئے مہمان نہیں بنایا گیا۔۔۔ یہاں ایسی آؤ بھگت ہوگی کہ شکریہ ادا کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔
وہ پھر اٹھ کر ٹہلنے لگا۔۔۔ پھر اچانک اس نے دروازہ پیٹ کر چیخنا شروع کردیا۔
باہر قدموں کی آہٹ ہوئی اور کسی عورت نے سریلی آواز میں ڈانٹ کر کہا۔ "کیوں شور کر رہے ہو!"
"میں باہر جانا چاہتا ہوں" عمران نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔
"بکواس مت کرو۔"
"شٹ اپ!" عمران بہت زور سے گرجا۔ "میں تجھ جیسی کتیا کی بچی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ کسی مرد کو بھیج دے۔۔۔!"
"تم کتے کے پلے خاموشی سے بیٹھے رہو! ورنہ گولی مار دی جائے گی۔"
اس بار عمران نے اسے بڑی گندی گندی گالیاں دیں جواب میں وہ بھی برس پڑی!
عمران نے اس سے اندازہ لگا لیا کہ وہ عورت عمارت میں تنہا ہے! ورنہ وہ اس کی مرمت کے لئے کسی مرد کو ضرور بلاتی۔
عورت تھوڑی دیر تک اسے برا بھلا کہتی رہی! پھر خاموش ہوگئی۔ عمران اس کے قدموں کی آواز سن رہا تھا! اس نے اندازہ لگا لیا کہ قریب ہی کسی کمرے میں گئی ہے۔
عمران سوچ رہا تھا کہ اگر ایسے حالات میں بھی وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا تو آئندہ نسلیں اسے سچ مچ احمق اعظم ہی کے نام سے یاد کریں گی۔!
وہ ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگا!۔۔۔ اچانک اس کی نظر رسی کے ایک لچھے پر پڑی تھی اس نے جھپٹ کر اسے اٹھا لیا۔۔۔ رسی کی موٹائی آدھ انچ سے زیادہ نہیں تھی۔اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ پانی بھی بھگو کر خشک کی گئی ہو! عمران چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ اور پھر اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔!
"وقت نہیں ہے!" گمنام غرایا! "صبح دیکھیں گے!"
وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے اور دروازہ باہر سے مقفل کر دیا گیا! عمران نے ایک طویل انگڑائی لی اور سر کا وہ حصہ ٹٹول کر جہاں چوٹ لگی تھی برے برے منہ بنانے لگا۔
اسے توقع نہیں تھی کہ اس کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کیا جائے گا وہ تو یہی سمجھے ہوئے تھا کہ اس نے مجرموں کو اپنے جال میں پھانس لیا۔
اس نے نے وجہ ان لوگوں کو ہدہد کا پتہ نہیں بتایا تھا اس کے ذہن میں ایک اسکیم تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا! اس نے اس آدمی کا تعاقب کرکے جس نے سمندرکے کنارے ہدہد کے فوٹو لئے تھے کم از کم مجرموں کے ایک ٹھکانے کا پتہ تو لگا ہی لیا تھا۔۔۔۔ اور وہیں اس نے اس آدمی کو بھی دیکھا تھا جس کا بائیاں کان آدھا غائب تھا۔
عمران تھوڑی دیر تک بے حس و حرکت آرام کرسی میں پڑا رہا۔۔۔ اس کا ذہن بڑی تیزی سے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ گزر گیا!۔۔۔ شاید پوری عمارت پر سناٹے کی حکمرانی تھی! کہیں سے بھی کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی۔
عمران اٹھ کر کھڑکیوں اور دروازوں کا جائزہ لینے لگا! لیکن چند ہی لمحوں میں اس پر واضح ہوگیا کہ وہ باہر نہیں نکل سکتا! یہ سارے دروازے ایسے تھے جو باہر سے مقفل کئے جاسکتے تھے اس کے ذہن میں ایک دوسرا اور انتہائی اہم سوال بھی تھا عمارت اس وقت خالی ہے یا کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں حالات غیر یقینی تھے۔۔۔ عمارت میں اس کا تہنا رہنا ناممکنات میں سے تھا۔۔۔ لیکن اگر اس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تھے تو عمارت پر قبرستان کی سی خاموشی کیوں طاری تھی؟۔۔۔ کیا وہ سو رہے ہیں؟ عمران نے سوچا کہ یہ بھی ناممکن ہے کہ انہوں نے اپنی دانست میں ایک خطرناک دشمن پکڑ لیا ہے! لہٰذا اس کی طرف سے غافل ہو کر سو رہنا قرین قیاس نہیں!
عمران اچھی طرح جانتا تھا کہ صبح اسے ناشتے کی میز پر خوش آمدید کہنے کے لئے مہمان نہیں بنایا گیا۔۔۔ یہاں ایسی آؤ بھگت ہوگی کہ شکریہ ادا کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔
وہ پھر اٹھ کر ٹہلنے لگا۔۔۔ پھر اچانک اس نے دروازہ پیٹ کر چیخنا شروع کردیا۔
باہر قدموں کی آہٹ ہوئی اور کسی عورت نے سریلی آواز میں ڈانٹ کر کہا۔ "کیوں شور کر رہے ہو!"
"میں باہر جانا چاہتا ہوں" عمران نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔
"بکواس مت کرو۔"
"شٹ اپ!" عمران بہت زور سے گرجا۔ "میں تجھ جیسی کتیا کی بچی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ کسی مرد کو بھیج دے۔۔۔!"
"تم کتے کے پلے خاموشی سے بیٹھے رہو! ورنہ گولی مار دی جائے گی۔"
اس بار عمران نے اسے بڑی گندی گندی گالیاں دیں جواب میں وہ بھی برس پڑی!
عمران نے اس سے اندازہ لگا لیا کہ وہ عورت عمارت میں تنہا ہے! ورنہ وہ اس کی مرمت کے لئے کسی مرد کو ضرور بلاتی۔
عورت تھوڑی دیر تک اسے برا بھلا کہتی رہی! پھر خاموش ہوگئی۔ عمران اس کے قدموں کی آواز سن رہا تھا! اس نے اندازہ لگا لیا کہ قریب ہی کسی کمرے میں گئی ہے۔
عمران سوچ رہا تھا کہ اگر ایسے حالات میں بھی وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا تو آئندہ نسلیں اسے سچ مچ احمق اعظم ہی کے نام سے یاد کریں گی۔!
وہ ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگا!۔۔۔ اچانک اس کی نظر رسی کے ایک لچھے پر پڑی تھی اس نے جھپٹ کر اسے اٹھا لیا۔۔۔ رسی کی موٹائی آدھ انچ سے زیادہ نہیں تھی۔اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ پانی بھی بھگو کر خشک کی گئی ہو! عمران چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ اور پھر اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔!