قیصرانی
لائبریرین
"ہائیں تم کیا کہہ رہے ہو!"
"دوسرا لطیفہ سنو!" عمران سر ہلا کر بولا "جس دن سلیم کی ضمانت ہوئی تھی اسی رات کو کسی نے اس پر دو فائر کئے تھے۔۔۔ ایک گولی اس کے داہنے بازو پر لگی تھی!"
"کیا تم نے بھنگ پی رکھی ہے!" فیاض نے حیرت سے کہا!
"فائر جاوید مرزا کے پائیں باغ میں ہوئے تھے! لیکن سلیم نے پولیس کو اس کی اطلاع نہیں دی!"
"یہ تم مجھے آج بتا رہے ہو!"
"میں! میرا قصور نہیں!۔۔۔ یہ قصور سراسر اسی گدھے کا ہے۔۔۔ وہ مرنا ہی چاہتا ہے تو میں کیا کروں!"
"اس کا خون تمہاری گردن پر ہوگا تم نے ہی اسے جیل سے نکلوایا ہے!"
"اس کے مقدر میں یہی تھا۔۔۔ میں کیا کر سکتا ہوں!"
"عمران خدا کے لئے مجھے بور نہ کرو۔۔۔!"
"تمہارے مقدر میں یہی ہے! میں کیا کر سکتا ہوں اور تیسرا لطیفہ سنو! وہ ریوالور مجھے لیبارٹری کی عمارت کی راہداری میں ملا تھا۔۔۔ اور وہ نشانات۔۔ جو اس کے دستے پر پائے گئے ہیں! سو فیصدی شوکت کی انگلیوں کے نشانات ہیں!۔۔۔"
"او۔۔۔ عمران کے بچے۔۔۔۔!"
"اب چوتھا لطیفہ سنو۔۔۔۔! سلیم اب بھی جاوید مرزا کی کوٹھی میں مقیم ہے!"
"خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔۔!" فیاض نے جھلا کر عمران کی گردن پکڑ لی!
"ہائیں۔۔۔ ہائیں!" عمران پیچھے ہٹتا ہوا بولا "یہ سڑک ہے پیارے اگر اتفاق سے کوئی ڈیوٹی کانسٹیبل ادھر آ نکلا تو شامت ہی آجائے گی!"
"میں ابھی سلیم۔۔۔ کی خبر لوں گا!۔۔۔"
"ضرور۔۔۔ لو۔۔۔۔ اچھا تو میں چلا۔۔۔۔!"
"کہاں!"
"جمیل کی کوٹھی کی پشت پر ایک درخت ہے جس کی شاخیں چھت پر جھکی ہوئی ہیں!"
"بکواس نہ کرو۔۔۔۔ میرے ساتھ پولیس اسٹیشن چلو! وہاں سے ہم اسی وقت جاوید مرزا کے ہاں جائیں گے!"
"میں کبھی اپنا پروگرام تبدیل نہیں کرتا۔ تم جانا چاہو تو شوق سے جا سکتے ہو! مگر کھیل بگڑنے کی تمام تر ذمہ داری تم پر ہی ہوگی!"
"کیسا کھیل۔۔۔ آخر تم مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتاتے!"
"گڑیوں کے کھیل میں عمر گنوائی۔۔۔ جانا اک دن سوچ نہ آئی!" عمران نے کہا اور ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔۔۔!
فیاض کچھ نہ بولا اس کا بس چلتا تو عمران کی بوٹیاں اڑا دیتا!
"اب! میں تمہاری کسی حماقت میں حصہ نہ لوں گا!" اس نے تھوڑی دیر بعد کہا " جو دل چاہے کرو! میں جا رہا ہوں! اب تم اپنے ہر فعل کے خود ذمہ دار ہوگے!"
"بہت بہت شکریہ! تم جا سکتے ہو۔۔۔ ٹاٹا۔۔۔ اور اگر اب بھی نہیں جاؤ گے تو۔۔۔ باٹا۔۔۔ ہپ!"
"دوسرا لطیفہ سنو!" عمران سر ہلا کر بولا "جس دن سلیم کی ضمانت ہوئی تھی اسی رات کو کسی نے اس پر دو فائر کئے تھے۔۔۔ ایک گولی اس کے داہنے بازو پر لگی تھی!"
"کیا تم نے بھنگ پی رکھی ہے!" فیاض نے حیرت سے کہا!
"فائر جاوید مرزا کے پائیں باغ میں ہوئے تھے! لیکن سلیم نے پولیس کو اس کی اطلاع نہیں دی!"
"یہ تم مجھے آج بتا رہے ہو!"
"میں! میرا قصور نہیں!۔۔۔ یہ قصور سراسر اسی گدھے کا ہے۔۔۔ وہ مرنا ہی چاہتا ہے تو میں کیا کروں!"
"اس کا خون تمہاری گردن پر ہوگا تم نے ہی اسے جیل سے نکلوایا ہے!"
"اس کے مقدر میں یہی تھا۔۔۔ میں کیا کر سکتا ہوں!"
"عمران خدا کے لئے مجھے بور نہ کرو۔۔۔!"
"تمہارے مقدر میں یہی ہے! میں کیا کر سکتا ہوں اور تیسرا لطیفہ سنو! وہ ریوالور مجھے لیبارٹری کی عمارت کی راہداری میں ملا تھا۔۔۔ اور وہ نشانات۔۔ جو اس کے دستے پر پائے گئے ہیں! سو فیصدی شوکت کی انگلیوں کے نشانات ہیں!۔۔۔"
"او۔۔۔ عمران کے بچے۔۔۔۔!"
"اب چوتھا لطیفہ سنو۔۔۔۔! سلیم اب بھی جاوید مرزا کی کوٹھی میں مقیم ہے!"
"خدا تمہیں غارت کرے۔۔۔۔!" فیاض نے جھلا کر عمران کی گردن پکڑ لی!
"ہائیں۔۔۔ ہائیں!" عمران پیچھے ہٹتا ہوا بولا "یہ سڑک ہے پیارے اگر اتفاق سے کوئی ڈیوٹی کانسٹیبل ادھر آ نکلا تو شامت ہی آجائے گی!"
"میں ابھی سلیم۔۔۔ کی خبر لوں گا!۔۔۔"
"ضرور۔۔۔ لو۔۔۔۔ اچھا تو میں چلا۔۔۔۔!"
"کہاں!"
"جمیل کی کوٹھی کی پشت پر ایک درخت ہے جس کی شاخیں چھت پر جھکی ہوئی ہیں!"
"بکواس نہ کرو۔۔۔۔ میرے ساتھ پولیس اسٹیشن چلو! وہاں سے ہم اسی وقت جاوید مرزا کے ہاں جائیں گے!"
"میں کبھی اپنا پروگرام تبدیل نہیں کرتا۔ تم جانا چاہو تو شوق سے جا سکتے ہو! مگر کھیل بگڑنے کی تمام تر ذمہ داری تم پر ہی ہوگی!"
"کیسا کھیل۔۔۔ آخر تم مجھے صاف صاف کیوں نہیں بتاتے!"
"گڑیوں کے کھیل میں عمر گنوائی۔۔۔ جانا اک دن سوچ نہ آئی!" عمران نے کہا اور ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔۔۔!
فیاض کچھ نہ بولا اس کا بس چلتا تو عمران کی بوٹیاں اڑا دیتا!
"اب! میں تمہاری کسی حماقت میں حصہ نہ لوں گا!" اس نے تھوڑی دیر بعد کہا " جو دل چاہے کرو! میں جا رہا ہوں! اب تم اپنے ہر فعل کے خود ذمہ دار ہوگے!"
"بہت بہت شکریہ! تم جا سکتے ہو۔۔۔ ٹاٹا۔۔۔ اور اگر اب بھی نہیں جاؤ گے تو۔۔۔ باٹا۔۔۔ ہپ!"