آپ کا ہی فقرہ کاپی کروں گاچیف جسٹس پر جھوٹے الزامات کے حوالے سے ایک کیس تو عدالت میں غلط بیانی کا بھی بنتا ہے۔ جب عمران نے پہلی بار انتخابات میں عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہا اور عدلیہ نے توہین عدالت کا کیس شروع کیا تو عمران نے کہا کہ میں نے تو صرف ریٹرنگ آفیسرز کو کہا تھا اعلی عدلیہ کو نہیں۔ لیکن اب عمران تواتر سے افتخار چودھری کو دھاندلی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ یعنی عدالت میں پہلے جھوٹ بولا تھا۔
عدالت میں تو سنجیدہ بات کرنی پڑتی ہے ، جوش خطابت کی معافی نہیں ملتیآپ کا ہی فقرہ کاپی کروں گا
جوشِ خطابت
اس حساب سے تو جوشِ خطابت والے حکمران جھوٹے ثابت ہوئے اور آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تازہ ترین شکارعدالت میں تو سنجیدہ بات کرنی پڑتی ہے ، جوش خطابت کی معافی نہیں ملتی
معذرت ، میں آپ کی بات سمجھا نہیںاس حساب سے تو جوشِ خطابت والے حکمران جھوٹے ثابت ہوئے اور آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تازہ ترین شکار
اس بنیاد پر تو شریف برادران کو بھی عدالت لایا جا سکتا ہے کہ انتخابی جلسوں میں کئے گئے دعووں کو جوشِ خطابت کہا جا رہا ہے، جبکہ سیدھے الفاظ میں وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ یہی بنیاد شاید پاکستان کے تمام تر سیاست دانوں کو جھوٹا اور نا اہل قرار دے سکتی ہےمعذرت ، میں آپ کی بات سمجھا نہیں
انتخابی وعدے کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا عدالت میں، یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنا عوامی بھلائی کا منصوبہ بتا رہا ہے۔ اور منصوبے کو جھوٹ نہیں کہ سکتے ہاں اس پر بدنیتی کا اطلاق کا سکتا ہے کہ اس نے صرف عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بتایا حقیقتاً اس کی ایسی نیت نہیں تھی۔اس بنیاد پر تو شریف برادران کو بھی عدالت لایا جا سکتا ہے کہ انتخابی جلسوں میں کئے گئے دعووں کو جوشِ خطابت کہا جا رہا ہے، جبکہ سیدھے الفاظ میں وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ یہی بنیاد شاید پاکستان کے تمام تر سیاست دانوں کو جھوٹا اور نا اہل قرار دے سکتی ہے
حد ہوتی ہے خوش گمانی کیانتخابی وعدے کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا عدالت میں، یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنا عوامی بھلائی کا منصوبہ بتا رہا ہے۔ اور منصوبے کو جھوٹ نہیں کہ سکتے ہاں اس پر بدنیتی کا اطلاق کا سکتا ہے کہ اس نے صرف عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بتایا حقیقتاً اس کی ایسی نیت نہیں تھی۔
دودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں البتہ اس دفعہ حکمرانوں کا انداز مجھے نواز کے پہلے دور حکومت جیسا لگ رہا ہے۔ جب معیشت کو سنبھالا گیا تھا اس دفعہ بھی معیشت کافی حد تک سنبھلی لگتی ہے لیکن ابھی تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں ملے۔ اللہ کرے ثمرات بھی عوام کو ملیں تب ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اور نواز کی حکومت مستحکم ہونگیحد ہوتی ہے خوش گمانی کی
دیکھتے ہیں کہ باقی کے چار سال میں کون سی دودھ کی نہریں بہتی ہیں
یعنی سارا زور نواز کی حکومت مستحکم کرنے پر ہےدودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں البتہ اس دفعہ حکمرانوں کا انداز مجھے نواز کے پہلے دور حکومت جیسا لگ رہا ہے۔ جب معیشت کو سنبھالا گیا تھا اس دفعہ بھی معیشت کافی حد تک سنبھلی لگتی ہے لیکن ابھی تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں ملے۔ اللہ کرے ثمرات بھی عوام کو ملیں تب ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اور نواز کی حکومت مستحکم ہونگی
کوئی دوسرا کرے تو پھر ایسا ہوتا۔۔۔ اب تو بات حضرت گنجوی شاہی محلے والے کی ہے۔اس بنیاد پر تو شریف برادران کو بھی عدالت لایا جا سکتا ہے کہ انتخابی جلسوں میں کئے گئے دعووں کو جوشِ خطابت کہا جا رہا ہے، جبکہ سیدھے الفاظ میں وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ یہی بنیاد شاید پاکستان کے تمام تر سیاست دانوں کو جھوٹا اور نا اہل قرار دے سکتی ہے
کسی دور میں آپ جیسے جیالے پی پی کے پاس ہوتے تھے۔ لیکن اب نون لیگ کے پاس ہیں۔انتخابی وعدے کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا عدالت میں، یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنا عوامی بھلائی کا منصوبہ بتا رہا ہے۔ اور منصوبے کو جھوٹ نہیں کہ سکتے ہاں اس پر بدنیتی کا اطلاق کا سکتا ہے کہ اس نے صرف عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بتایا حقیقتاً اس کی ایسی نیت نہیں تھی۔
برا تو مجھے بھی لگتا ہے ظاہر ہے یہ طریقے اداروں اور جمہوریت کو مستحکم کرنے والے تو نہیں۔ میں نے خواجہ سعد رفیق کے ایک کوارڈینیٹر سے کہا تھا کہ ن لیگ کو ادارے کی طرح کیوں نہیں چلایا جاتا ؟ تو اس کے جواب کا خلاصہ تھا کہ یہ ہمارا سیاسی کلچر نہیں البتہ اس رویے کا شکوہ اسے بھی تھایعنی سارا زور نواز کی حکومت مستحکم کرنے پر ہے
ویسے مجھے زہر لگتا ہے جب نواز شریف کے بھائی، بیٹی، بھتیجے، داماد وغیرہ بغیر کسی سرکاری عہدے کے سرکاری اجلاسوں کی سربراہی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
یہ کیا فضول بات کی ہے آپ نے۔کوئی دوسرا کرے تو پھر ایسا ہوتا۔۔۔ اب تو بات حضرت گنجوی شاہی محلے والے کی ہے۔
کسی دور میں آپ جیسے جیالے پی پی کے پاس ہوتے تھے۔ لیکن اب نون لیگ کے پاس ہیں۔
قرضوں کی معیشت میں واقعی عوام کو ثمرات نہیں ملتے۔ ٹرکل ڈاون ایک بہلاوا ہے ۔دودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں البتہ اس دفعہ حکمرانوں کا انداز مجھے نواز کے پہلے دور حکومت جیسا لگ رہا ہے۔ جب معیشت کو سنبھالا گیا تھا اس دفعہ بھی معیشت کافی حد تک سنبھلی لگتی ہے لیکن ابھی تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں ملے۔ اللہ کرے ثمرات بھی عوام کو ملیں تب ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اور نواز کی حکومت مستحکم ہونگی
نہریں نہ سہی کوئی ندی نالہ ہی بہا دیں تو بڑی بات ہے۔دودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
انشآاللہ بہتری آئے گینہریں نہ سہی کوئی ندی نالہ ہی بہا دیں تو بڑی بات ہے۔
پتہ نہیں کب بہتری آئے گی جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اپنے پیارے وطن کو حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تنزلی ہی طرف جاتے دیکھا ہے۔انشآاللہ بہتری آئے گی