عمران کے نوجوان امیدوار

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
سب سے بہتر انتخاب ن ہے
باقی اپ اپنے حلقے کے امیدوار کی اسسمنٹ کرسکتے ہیں
بس پی ٹی ائی سے پرہیز کریں
یار آپ کی وہ پہلی لائن پڑھ کر میں صبح سے آپ اور آپ کی ن لیک کا ڈائی ہارڈ فین ہوگیا ہوں۔۔"میرا تاثر تو یہی ہے کہ نوجوانوں کو ٹکٹ دینا ایک طرح سے لوٹ مار کی اجازت دینے کے مترادف ہے اگر وہ جیت جائیں"
ویسے ن لیک کے سارے رشتہ دار اسی طرح کے بیانات دیتے آئے ہیں
 

زرقا مفتی

محفلین
خلیل جبران کی ایک نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے


میرے دوستو اور ہم سفرو
افسوس اس قوم پر جو یقین سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ایسا کپڑا پہنے جسے اس نے خود بنا نہ ہو
جو ایسی روٹی کھائے جسے اس نے اگایا نہ ہو
ایسی شراب پیےجو اس کے اپنے انگوروں سے کشید نہ کی گئی ہو

افسوس اس قوم پر جو دادا گیر کو ہیرو سمجھے
اور جو چمکیلے فاتح کو سخی گردانے
افسوس اس قوم پر جو خواب میں کسی جذبے سے نفرت کرے
لیکن جاگتے میں اسی کی پرستش کرے

افسوس اس قوم پر جو اپنی آواز بلند کرے
صرف اس وقت جب وہ جنازے کے ہم قدم ہو
ڈینگ صرف اپنے کھنڈروں میں مارے
اور اس وقت تک بغاوت نہ کرے
جب تک اس کی گردن مقتل کے تختے پر نہ ہو

افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو

افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے
اور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے

افسوس اس قوم پر جس کے مدبر برسوں کے بوجھ تک دب گئے ہوں
اور جس کے سورما ابھی تک پنگھوڑے میں ہوں

افسوس اس قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو
اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو قوم کہتا ہو

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ خلیل جبران کی اسی نظم سے متاثر ہو کر مشہور نراجیت پسند امریکی شاعر لارنس فرلنگیٹی نے 2007ء میں ایک نظم لکھی، جو بلاتبصرہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے:

افسوس اس قوم پر جس کے عوام بھیڑیں ہوں
اور جنھیں اپنے ہی چرواہے گم راہ کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جس کے رہنما جھوٹے ہوں
اور دانا خاموش

جہاں منافق ہوا کے دوش پر راج کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جو آواز بلند نہیں کرتی
مگر صرف اپنے فاتحوں کی تعریف میں
اور جو داداگیروں کو ہیرو سمجھتی ہے
اور دنیا پر حکومت کرنا چاہتی ہے
طاقت اور تشدد کے بل پر

افسوس اس قوم پر
جو صرف اپنی زبان سمجھتی ہے
اور صرف اپنی ثقافت جانتی ہے
افسوس اس قوم پر جو اپنی دولت میں سانس لیتی ہے
اور ان لوگوں کی نیند سوتی ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہوں
افسوس، صد افسوس ان لوگوں کی قوم پر
جو اپنے حقوق کو غصب ہونے دیتی ہے

میرے ملک
میری سرزمینِ آزادی
تیرے آنسو!

(شکریہ: وائس آف امریکہ)
 
خلیل جبران کی ایک نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے


میرے دوستو اور ہم سفرو
افسوس اس قوم پر جو یقین سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ایسا کپڑا پہنے جسے اس نے خود بنا نہ ہو
جو ایسی روٹی کھائے جسے اس نے اگایا نہ ہو
ایسی شراب پیےجو اس کے اپنے انگوروں سے کشید نہ کی گئی ہو

افسوس اس قوم پر جو دادا گیر کو ہیرو سمجھے
اور جو چمکیلے فاتح کو سخی گردانے
افسوس اس قوم پر جو خواب میں کسی جذبے سے نفرت کرے
لیکن جاگتے میں اسی کی پرستش کرے

افسوس اس قوم پر جو اپنی آواز بلند کرے
صرف اس وقت جب وہ جنازے کے ہم قدم ہو
ڈینگ صرف اپنے کھنڈروں میں مارے
اور اس وقت تک بغاوت نہ کرے
جب تک اس کی گردن مقتل کے تختے پر نہ ہو

افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو

افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے
اور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے

افسوس اس قوم پر جس کے مدبر برسوں کے بوجھ تک دب گئے ہوں
اور جس کے سورما ابھی تک پنگھوڑے میں ہوں

افسوس اس قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو
اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو قوم کہتا ہو

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ خلیل جبران کی اسی نظم سے متاثر ہو کر مشہور نراجیت پسند امریکی شاعر لارنس فرلنگیٹی نے 2007ء میں ایک نظم لکھی، جو بلاتبصرہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے:

افسوس اس قوم پر جس کے عوام بھیڑیں ہوں
اور جنھیں اپنے ہی چرواہے گم راہ کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جس کے رہنما جھوٹے ہوں
اور دانا خاموش

جہاں منافق ہوا کے دوش پر راج کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جو آواز بلند نہیں کرتی
مگر صرف اپنے فاتحوں کی تعریف میں
اور جو داداگیروں کو ہیرو سمجھتی ہے
اور دنیا پر حکومت کرنا چاہتی ہے
طاقت اور تشدد کے بل پر

افسوس اس قوم پر
جو صرف اپنی زبان سمجھتی ہے
اور صرف اپنی ثقافت جانتی ہے
افسوس اس قوم پر جو اپنی دولت میں سانس لیتی ہے
اور ان لوگوں کی نیند سوتی ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہوں
افسوس، صد افسوس ان لوگوں کی قوم پر
جو اپنے حقوق کو غصب ہونے دیتی ہے

میرے ملک
میری سرزمینِ آزادی
تیرے آنسو!

(شکریہ: وائس آف امریکہ)
بہت اعلیٰ زرقا آپی:applause:
دونوں نظموں کا ہر شعر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پر لکھا گیا ہے:rolleyes:
 
بہت خوب

افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
افسوس اس قوم پر جس کا ہیرو کھلاڑی ہو
 
بہت خوب

افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
افسوس اس قوم پر جس کا ہیرو کھلاڑی ہو
افسوس اس قوم پر جس کی ایک پارٹی کا لیڈر نواز ہو( ان ساری خصوصیات کا مرکب ہو)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top